قیامت ہے کہ انساں، نوع انساںکا شکاری ہے

مولانا افتخار احمد قاسمیؔ بستوی ؔ

                اللہ کی اِس بنائی ہوئی دنیا میں توحید ورسالت اور آخرت کے بنیادی پیغام کو اپنے سینے سے لگانے والوں کی تعداد وکیفیات میں جب بھی کمی ہوئی تو اللہ نے اپنے برگزیدہ بندوں کے ذریعے اس کمی کو دور کیا ۔ توحید کا پیغام عام کیا ، پرچمِ رسالت کو لہرایا اور اپنے بندوں کو آخرت کا نغمہ سناکر اُن کی اخروی زندگی کو تابناک بنانے کا انتظام فرمایا ۔

                سب سے آخر میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اِس دنیا میں نبیٔ آخر الزماں اور سرتاج دوجہاں کا تاج پہن کر تشریف لائے اورکفر وشرک کی گھٹا ٹوپ تاریک وادی میں توحید و رسالت اور آخرت کا بنیادی پیغام ایک دائمی نغمہ کے طور پر پوری کائنات کے لیے وظیفۂ حیات کے طور پر متعارف کرایا۔ جس پر عمل پیرا رہنے والوں کی تعداد آپ کی نظروں کے سامنے ہی ایک لاکھ چوبیس ہزار کے قریب پہنچ گئی اور نظام ِغیبی کی تائید ایسی رہی کہ اللہ نے صحابہ کے بعد تابعین ،تبعِ تابعین ، اولیائے کرام ، فقہائے عظام ، محدثین ومفسرین اور علمائے سلف وخلف کی ٹیم کی ٹیم صالح ومصلح کی حیثیت سے ایسی تیار فرمائی اور تیار فرماتے رہے، جو اپنا وظیفۂ حیات یہی بنائے ہوئے تھے کہ سچے دین کی آبیاری کے لیے تن من دھن کی بازی لگادینا ہے اور اپنے مولیٰ کی مرضی کی تحصیل کے لیے جان و مال سب کچھ نچھاور کردینا ہے ۔

                لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی توحید کا پیغام نبوت کی آخری کڑی کے طور پر اس ماحول میں سنانے کا مکلف بنایاتھا، جب اپنے گھر کے لوگ بھی اس ماحول کی زد میں کفر وشرک کی تائید میںحق و توحید کا مقابلہ کرنے کے لیے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آمنے سامنے تھے ۔

                باطل کی یلغار کو خم کرنے اورکفر کے کلمے کو سرنگوں کرنے کے لیے توحید کا نغمہ سنانے اور برسرعام دعوت ایمانی کا اعلان کرنے کا حکم جیسے ہی آخری نبی کو آسمان سے جبرئیل امین کے واسطے سے سنایا گیا کہ اے نبی ! {فَاصْدَعْ بِمَا تُؤمَر وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ ۔ وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ }آپ نے اپنے تمام اعزا واقربا کو ایک دعوتِ طعام پر جمع فرماکر انہیںاللہ کا حکم اور توحید کا پیغام دو ٹوک اسلوب میں پیش کرنے کی ٹھان لی ۔ پہلی بار تو دعوتِ طعام کے اجتماع میں آپ کچھ پیش کرتے ،لیکن مجمع بکھر گیا۔ دوسری بار آپ نے از سرنو دعوتِ طعام کا اہتمام فرمایا ، کھانا قلیل مقدار میں تھا، پھر بھی لوگوں کے لیے خوب کافی رہا ۔ شرک و کفر کے دلدادہ لوگوں نے یہی کہا کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) نے جادو کردیا ہے ۔ اس طرح کفرکی یلغار اورشرک کا حملہ توحید محمدی کے پہلے ہی قدم سے جاری رہا اور اللہ کا یہ اعلان ایک ثابت شدہ حقیقت بن کر سامنے آیا کہ {وکذلک جعلنا لکل نبی عدو ا شیاطین الجن والانس یوحی بعضہم الی بعض زخرف القول غرورا ولوشاء ربک مافعلوہ }۔

                ’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اسی طرح ہم نے انسان وجنات میں سے شریر لوگوں کو ہرنبی کے لیے دشمن بنادیا ہے، جو ایک دوسرے کو ملمع کی ہوئی باتیں فریب دِہی کے مقصد سے سکھلاتے رہتے ہیں ۔ اگر تیرا پروردگار چاہتا تو یہ لوگ ایسی حرکت نہ کرپاتے ‘‘۔ تو انہیں اوران کی افترا پردازیوں کوخیال میںنہ لاییے۔

                یہ آیتِ کریمہ اِس بات کو پوری وضاحت سے بتلارہی ہے کہ حق وباطل کی کشمکش کی تاریخ قدیم ہے ، اللہ تعالیٰ نے امتحان وابتلا کے مقصد سے یہ نظام بنایا ہے کہ ہر حق کے لیے ایک باطل اور ہرفرعون کے لیے ایک موسیٰ کی تعیین ہے ۔علامہ اقبال مرحوم نے سچ کہا ہے   ؎

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز

چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی

                نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب پہلی بار بآوازِ بلند {فاصدع بما تؤمر}پر عمل کرتے ہوئے کفارِ قریش کو دعوتِ توحید کازمزمۂ جاں آفریں سنایا تو آپ کا چچا ابولہب بول اٹھا:’’ تبا لک یا محمد ! الہٰذا جمعتنا‘‘ !  ہلاکت وبربادی ہو تیری اے محمد ! تم نے ہمیں اتنی سی بات کے لیے جمع کیا تھا۔اتنی خراب بات اور اتنے مذموم مقصد کے لیے ہم جیسے سور ماؤں کو بلانا تیرا نہایت ہی غلط اقدام تھا ۔

                باطل کی آواز کو دبانے اورحق کا بول بالا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے فوراً ہی اُس کے بول کے بالمقابل اپنا بول سنایا ۔ پوری سورۂ ابی لہب لے کر جبرئیل امین آسمانِ دنیاسے زمین کے فرش پر اترے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی یہ وحی سنائی: {تبت یدا ابی لہب وتب}ابی لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ پورا ہلاک وبرباد ہو جائے۔ اس کو اس کا مال اور اس کی کمائی کچھ بھی کام نہ آئے گی ، وہ تو مرنے کے بعد بھی آتشِ سوزاں میں داخل ہوگا جو کبھی بجھے گی ہی نہیں ۔اور اس کی بیوی ام جمیل جو طرح طرح سے آپ کو ایذائیں پہنچاتی ہے وہ بھی جہنم کا ایندھن بنے گی ۔ اس کی گردن میں ذلت ورسوائی کی بٹی ہوئی رسی نہایت مضبوط ومستحکم انداز میں ہوگی۔

                نبیٔ آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے جس حق کو پیش کیا ، اس کا مقابلہ مکہ میں کفرکا پورا معاشرہ کرتا رہا ۔ اسی حال میں پورے تیرہ سال بیت گئے ، حق کفرکے مقابل میں جدوجہد ، تگ و دو اور دوادوش میںلگارہا اور کام یابی کی راہ میں ہر نوع کی مشقتیں جھیلتا رہا ۔ اور باطل اپنی اکڑفوں، غرور وسطوت ، شوکت و جلال اور ظاہری شان و شوکت کے ساتھ توحید وحق کے ساتھ نبرد آزما رہا ۔ حق کے سینے پر باطل کے وزنی گرم گرم پتھر رکھے گئے ، حق کو چٹائی میں لپیٹ کر باطل دھواں دیتا رہا ، حق کو پھانسی کے پھندے پر چڑھا یا گیا ، حق کے منھ پر تھوکا گیا، اُسے لہو لہان کیاگیا ، تھپڑ مارے گئے، راستے میں کانٹے بچھائے گئے ، لیکن باطل اپنے بدبو دار چہرے کے ساتھ ناکام ونامراد ہوکر لوٹا۔ ظاہری طور پر حق دبا، اپنا وطن چھوڑا ، ہجرت کی ، باطل نے پیچھا کیا، جنگ لڑی ، شکست وریخت حق و باطل کے دونوں خیموں میں دیکھنے کو ملی ،لیکن آخرش غلبہ حق کو ہوا۔ توحید کے نغمے ہر طرف گائے جانے لگے اورباطل کے پرخچے ہر چہار جانب اڑائے جانے لگے ۔

                محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حق کے علم بردار ، صدق وصفا کے پیکر ، نبوت ورسالت کے تاج دار حق کا علم لے کر مدینہ منورہ ہجرت کر گئے ۔ جنگ بدر ، جنگ احد اور غزوۂ خندق وغیرہ کے معرکے پیش آئے اور آخرش رمضان ۸؍ہجری میں حق و باطل کی ایسی کشمکش ہوئی کہ مکہ مکرمہ حق و باطل کے فیصلے کی آماج گاہ بن گیا ۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ ؓ کے ساتھ ۲۰؍ رمضان ۸؍ہجری مطابق ۱۰؍ جنوری ۶۳۰ء کو مکہ مکرمہ میں حق کا پرچم لیے اس شان سے داخل ہوئے کہ آپ کا سرِمبارک تواضع کی پرکشش تصویر بنا ہوا تھا ۔ اور آپ ایسے فخر ومباہات کے مقام پر انکساری وعاجزی کا پیکرِ جمیل بنے ہوئے مکہ کی گلیوں میںگزرتے ہوئے بیت اللہ تک پہنچ رہے تھے ، یہ حق کا غلبہ باطل کے سامنے ایسا تھا کہ پوری دنیا اِسی انتظار میں بیٹھی تھی کہ دیکھتے ہیں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی قوم آخرش کدھر کا رخ کرتی ہے ؟ جب مکہ فتح ہوگیا اورباطل کے شیش محل چکنا چور ہوکر ریزہ ریزہ ہونے لگے تو مختلف اقوام وقبائل کے اشخاص وافراد؛ جوق درجوق دینِ محمدی میں داخل ہونے لگے ۔ حق کے پیغمبر اور توحید کے علم بردار محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان سنایا :{جاء الحق وزہق الباطل ، ان الباطل کان زہوقا۔جاء الحق وما یبدئ الباطل وما یعید } حق آگیا ، باطل گیا گزرا ہوا، واقعی باطل جانے والی چیز ہے ہی ۔ حق آگیا اورباطل نہ کرنے کا رہا نہ دھرنے کا۔

                یہی حق ایک لاکھ چوبیس ہزار کے قریب صحابہ کی تعداد پوری دنیا میں لے کر آگے بڑھا ۔ قرائے کرام نے الفاظ قرآنی ، اسالیب کتاب ربانی اور’’ انزل القرآن علی سبعۃ احرف ‘‘ کی حفاظت کی ۔ محدثین کرام نے معانی قرآن اور تشریحاتِ کتابِ الٰہی کی اسانید ومتون کی مدد سے حفاظت کی ، فقہائے امت نے احکامِ ربانی اور آیاتِ قرآنی اور حدیث کے تقاضوں کی رو، سے فقہ کی لاجواب خدمات انجام دے کر فہم قرآن کی حفاظت کی ، علمائے امت نے اپنے اسلاف کی علمی وعملی زندگی سے کسبِ فیض کر کے قولی وعملی تبلیغ کے ذریعہ دینِ متین کو اگلی نسلوں تک پہنچاکر حق کی آبیاری فرمائی اور رہتی دنیا تک حق کی حفاظت کا یہ عمل علمائے امت کے ناتواں ؛مگر مضبوط کاندھوں پر ڈال کر ، اللہ تعالیٰ آگے بڑھاتے رہیںگے اور حق کی صیانت وحفاظت اور{ انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحٰفظون} کی صداقت کا مشاہداتی ظہور ہوتا رہے گا ۔

                اِسی کے ساتھ ساتھ روزِ اول سے باطل بھی حق کے آمنے سامنے ہوتا رہا ۔ ابولہب نے باطل کا پرچم لہرایا تو حق نے ’’ تبت یدا ابی لہب ‘‘ کہہ کر حق کا علم بلند کیا ، باطل نے محمد کا لایا ہواحق محمد کے گھر میں بند کرکے کچلنا چاہا تو باطل کے سر وں پر دھول ڈال کر اور آنکھوں پر دھول جھونک کر حق کی سبک رفتاری نے سب کو چونکا کر رکھ دیا ۔ حق کو مٹانے کے لیے باطل زہر بن کر آیا، شکل حق کی بناکر پیش کیا گیا لیکن   ؎

فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے

وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے

(نامعلوم )

                محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مستعار ہی میں جھوٹے نبیوں کا سلسلہ شروع ہوا، لیکن باطل سے دبنے والے جب آپ کے شیدائی اور عشاق رسول نہیں تورسول کیوں دبتے ؟ اُن کا قلع قمع ہوا اور معلوم ہوکر رہا کہ    ؎

باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم

سوبار کرچکا ہے تو امتحاں ہمارا

                باطل جھوٹے نبیوں کے لبادے میں سامنے آیا۔ ’’ اسود عنسی ،مسیلمہ کذاب،سجاح بنت حارث، طلیحہ اسدی، مختار بن عبید ثقفی ‘‘ اور’’ حارث‘‘نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ، یہ سارے جھوٹے نبی اپنے کیفر کردار تک پہنچے اور باطل نے منھ کی کھائی ۔

                حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں باطل مرتدین کی شکل میں بڑے ہی کرو فر اور بڑے ہی زرق و برق لباس میں نمودار ہوا ، لیکن صدیق کی صداقت اورحق کی حق پرستی نے باطل کو پنپنے کا موقع نہ دیا ۔ حضرت عمر فاروق ، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم کے دورِ خلافت میں بھی حق کی باطل کے ساتھ کشمکش جاری رہی ، حضرت عمرؓ  مسجد میں مصلٰے پر ہی جان جاں آفریں کے سپرد کرنے کی پوزیشن میں تھے ۔ حضرت عثمانِ غنی ؓکو اُن کے رہائش گاہ میں ہی شہادت کا جام نوش کرنے کا موقع آگیا اورحضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نماز فجر کے لیے مسجد کے راستے میں حق کا عملی پیغام دیتے ہوئے باطل کی چالوں میں آکر شہادت سے سرفراز ہوئے ۔ ظاہری طور پر باطل کا م یابی کے راستے میںنظرآیا،لیکن   ؎

شہادت ہے مطلوب ومقصود ِمومن

نہ مال غنیمت ، نہ کشور کشائی

                اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا : ’’ عجبا لامر المومن ، إن أمرہ کلہ لہ خیر ، إن اصابتہ سراء شکر فکان خیرا لہ ، وإن اصابتہ ضراء صبر فکان خیرالہ ‘‘

                مومن کی حالت پر تعجب ہوتا ہے کہ اُس کا ہر حال بہتر ، نفع بخش اورنتیجہ خیز ہے ؛چناں چہ ہر مسلمان دونوں حالتوں میں سے کسی ایک حالت میں زندگی گزار رہا ہوگا۔ یاتو خوش عیشی اور راحت و تنعم کے حالات ہوںگے یا پھر تنگ دستی ، فقر و فاقہ اورپریشانی کے حالات ہوںگے ۔ اگر خوش عیشی کے حالات ہیں ،جس میں وہ اپنے آقا و مولیٰ کی شکر گزاری کے ساتھ زندگی گزارتا ہے تو اُس کے لیے بے حد نفع بخش اورسراپا خیر و عافیت کا پیغام ہے۔ اور اگر تنگ دستی میں صبرکا دامن تھام کر زندگی کے ایام گزاررہا ہے تو بھی نتیجہ بہتری اورنیک نامی کے ساتھ اُسی کے حق میں ہے ۔ اس لیے اس دنیا میں اللہ رب العزت نے آخری دین اسلام کو ایک حق و انصاف پر مبنی کامل و مکمل دین بنایا ہے،اسلام ایساسکہ رائج الوقت ہے جس کا دونوں رخ کام یابی کی ضمانت ہے ،اگر حق پر باطل غالب آتا ہے اور بہ ظاہر ناکامی کا منظر دکھائی دیتا ہے تو بھی اُسے کام یابی سمجھنا چاہیے، باطل نے اپنے زعم کے مطابق حضرت عمر ؓ کی شکل میں حق کو پسپا کردیا، لیکن حق نے اپنے ماننے والے کو شہادت کی دولتِ بے بہا سے ہم کنار کیا ۔ حضرت عثمان بن عفان ؓ اور حضرت علی بن ابی طالب ؓ کو حق کے لباس میں باطل نے تہ تیغ تو کردیا لیکن حق نے انہیں یہ مژدہ سنایا :

یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے         

جنہیں تونے بخشاہے ذوق خدائی

وونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا ودریا

سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی

دوعالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو

عجب چیز ہے لذتِ آشنائی

شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن

نہ مال غنیمت ، نہ کشور کشائی

خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے

قبا چاہیے اُس کو خونِ عرب سے

کشاد درد سمجھتے ہیں اس کو

ہلاکت نہیں موت اُن کی نظر میں

                اِسی طرح آگے چل کر صحابہ کے بعد تابعین ، تبع تابعین اورفقہائے امت ومحدثین اور اولیائے کرام کا زمانہ آیا ۔ حق کو باطل نے شکست وریخت کا منھ دکھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ،لیکن آخرش نتیجہ اہلِ حق کے ہاتھ میں آکر رہا اور خود باطل کو ہار ماننی پڑی ۔

                حق وانصاف کے اندر خداوند ذوالجلال اوربرہم زن عالم نے جو شوکت وقوت رکھی ہے، اس کا تعلق نہ دولت سے ہے نہ سازو سامان کی ریل پیل سے ۔ حق اگر عبد الرحمن الداخل کے ساتھ ہے، تو اسے ۲۱؍ سال کی عمرمیں اندلس کا فاتح بنادیتا ہے ۔ حق محمد الفاتح کے ساتھ ہے، تو صرف ۲۲؍ سال کی عمر میں پورے قسطنطنیہ کو اپنے زیر نگیں کرلیتا ہے ۔ یہی حق ۱۸؍ سال کی عمرمیں اسامہ بن زید کو لشکر کا سپہ سالار بنواتا ہے اور محمد بن قاسم کو صرف ۱۷؍ سال کی عمر میں فاتحِ سند ھ کازبر دست خطاب عطاکرتا ہے ۔

                حضرت طلحہ بن عبید اللہ اسلام میں داخل ہوکرصرف ۱۶؍ سال کی عمرمیں مکرم ومعظم شخصیت بن جاتے ہیں اور ۱۳؍ سال کے معاذ بن الجموح اور ۱۴؍ سال کے معوذ بن عفرا امت کے فرعون ابو جہل کو یا کہیے باطل کے نام نہاد مضبوط قلعے کو مسمار کرکے رکھ دیتے ہیں ۔ حق جواں مردوں کو بھی بلندی وشرافت عطا کرتا ہے ، بوڑھے اورکہنہ سالوں کو بھی ۔باطل میں کروفر ہوتا ہے اور حق میں تواضع ؛اِسی متواضع حق نے زید بن ثابت کوصرف ۱۷؍ دن میں اور ۱۳؍ سال کی عمر میں یہودیوں کی زبان پر مکمل دسترس حاصل کرنے کا موقع دیا اور عتاب بن اسید ؓ کو ۱۸؍ سال کی عمر میں مکہ مکرمہ فتح ہونے کے بعد اُس کا والی بنایا ۔

                حق کا فیصلہ ہے کہ خداوند قدوس کے بنائے ہوئے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے میں دنیا کی بقا کا راز مضمر ہے اور اس کے خلاف باطل ہمیشہ اپنے شہوانی اصولوں کی بالادستی سے خدائی اصولوں کو توڑنا چاہتا ہے ۔ ابھی حال ہی میں ہندستان کی سپریم کوٹ نے ۶؍ ستمبر کو آئینِ ہند کی دفعہ ۳۷۷؍ کو ختم کرنے کا فیصلہ سنایا ہے، جس سے ہندستانی معاشرے میں ہم جنس پرستی کے عمل کو قانونی جواز فراہم ہوگیا ہے ،اس طرح باطل ایک بار پھربہ ظاہر اپنے مقصد میںکام یاب اوراپنی ترقی پرنازاں دکھائی دے رہا ہے ، لیکن باطل کی یہ خوشی دائمی نہیں ہوسکتی ، باطل کا یہ اعلان اُس خدائی اعلان کے خلاف ہے ،جس میں ہم جنس پرستی سے خدائی اصولوں سے جنگ مول لینی پڑتی ہے ۔ 

                اللہ تعالیٰ نے ہر جان دار میں نرو مادہ کا نظام پیداکیا ہے؛ بالخصوص اشرف المخلوقات انسان میں جو مردو زن کا خدائی نظام ہے اس کا مقصود کائنات کو ایک محدود وقت تک اپنی پوری آب و تاب سے باقی رکھنا ہے ، نرومادہ اور مردو زن ایک دوسرے سے خدائی نظام کے تحت ملتے ہیں ،تو نسل کی افزائش کا سامان فراہم ہوتاہے ۔ اگر اس خدائی نظام سے بغاوت کرکے نر و مادہ اور مردو زن نے ہم جنس پرستی کا نیا راستہ اختیار کیا تو قانونِ الٰہی سے راست بغاوت کا علم بلند کیا ، ایسا علم خداوند قدوس کبھی بھی بلند رہنے نہیں دیںگے ۔

                حضرت لوط علیہ السلام کے زمانے میں ایک قوم جس میں تبلیغ کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام کو منتخب فرمایا تھا، وہ اسی ہم جنس پرستی کے گندے عمل میں ملوث تھی ۔ پیغمبرِ خدانے بڑی ہی درد و کرب کے ساتھ مہربان آقا و مولیٰ کا پیغام ان تک پہنچایا ،ان کو حدّ امکان تک سمجھایا بجھایا ، نیک عادات واطوار پر آمادہ کیا، بدچلنی ، ہم جنس پرستی اور بد اطواری سے پوری طرح ڈرایا دھمکایا ؛لیکن قوم کے افراد ہم جنس پرستی کے اس گندے عمل کے ایسے عادی ہوچکے تھے کہ یہ عملی شراب ان کی گھٹی میں پڑچکی تھی ،وہ کسی کروٹ اِس ’’ عملی شراب ‘‘ کے ’’نشے ‘‘ کے بغیر چین نہ پاتے تھے ،جب برائی کی حد ہوگئی اور پانی سرکے اوپر سے بہنے لگا ، یہ بدکاری ، بدچلنی وبد فعلی اپنی تمام تر ممکنہ حدوں کو پار کر گئی تو اللہ نے اپنے عذاب کے فرشتے قومِ لوط کو ان کی بد چلنی و بداطواری کا مزہ دنیا ہی میں چکھانے کے لیے بھیج دیے۔ یہ فرشتے انسانی بچوں کی خوب صورت شکل میں حضرت لوط علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ عذاب کی خبردی ، آج کی رات گزرے تو صبح تڑکے ہی عذاب آجائے گا ،حضرت لوط علیہ السلام فعلِ بد کی شناعت سے تنگ آچکے تھے کہ رات گزرنے کو بھی تاخیر سمجھا تو اللہ نے ’’الیس الصبح بقریب‘‘ فرماکر تعیینِ عذاب کی خبردی ۔

                پوری آبادی کو فرشتوں نے اپنے پروں پر اٹھالیا ،آسمان تک لے گئے ، پھر وہیں سے پٹخ دیا ،ہلاکت کا یہ سماں آسمانوں نے پہلی بار دیکھا، ہم جنس پرستوں کو اللہ نے ایسا ذلیل کیا کہ آج وہ مقام ؛جہاں قوم لوط آباد تھی ’’بحر میت‘‘ کی شکل میں موجود ہے، جو زمین کا سب سے نچلا حصہ ہے اور اس سمندر میں مچھلی تک زندہ نہیں رہتی ، جورڈن کے قریب وہ ایک کھائی ۴۲۰؍ میٹر نیچے واقع ہے ، یہ دنیا بھر میں سب سے بڑی اور نمکین ترین جھیل ہے ، جس کے پچھم میں پچھمی کنارہ اور اسرائیل اورپورب میں اردن واقع ہے ۔

                یہ ہم جنس پرست قوم لوط کے لوگ باطل پرستی اورہم جنسی کے عمل میںمگن تھے ، اللہ نے حق کو حضرت لوط علیہ السلام کی شکل میں غلبہ عطا فرمایا ۔ ہندستان میںبھی اگر ہم جنس پرستی کا عمل قانونی جواز کے ساتھ رواج پاگیا تو عجب نہیں کہ اِس چیرہ دستی کی بناپر قدرت کی سخت تعزیریں یہاں کا بھی مقدر بن جائیں۔خدا حفاظت فرمائے اور حق و باطل کی کشمکش میں حق کا بول بالا ہوتارہے اورباطل پرستوں کی آنکھ کھل جائے کہ حذرائے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں ۔