۲۳؍ قسط: مولانا حذیفہ مولانا غلام محمد صاحب وستانوی ؔ
سائنس کی عالم اسلام سے مغرب کی طرف منتقلی کے منفی اثرات:
قرونِ وسطی میں جب سائنس دنیائے اسلام سے مغرب منتقل ہوئی، تو عیسائی عقائد پروٹسٹنٹ اخلاقیات اس دور کے صنعتی و تجارتی مفادات، فوجی رقابتوں اور توسیعی عزائم کے زیرِ اثر سائنس کے تصور میں زبردست تبدیلی پیدا ہوئی۔ سائنس اور مذہب کے درمیان افسوس ناک اور خونی تنازعے کے باعث رفتہ رفتہ عوام الناس اقتدار کے تصور ہی سے بد ظن ہوگئے۔ سائنس کی مخالفت میں اس دور کی جہالت اور چرچ کا منظم ادارہ بہت پیش پیش تھا، زندگی کے بارے میں بھی عام تبدیل ہوا اور زمان و مکان سے متعلق نئے نئے نظریات مقبول ہوئے اس دور میں یہ تصور عام تھا کہ انسان تسخیرکائنات کا اہل ہے۔ اس خیال کو فرانسس بیکن (Francis Bacon) نے بالتفصیل پیش کیا ہے۔ اس دور میں سائنس کو جبرواستحصال کے ایک وسیلے کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ نئے سماجی اداروں کی جستجو، نئی جمالیات اور ادراک کے نئے ذرائع کے طور پر بھی سائنس نے اپنا مقام پیدا کیا، ابتدا میں یہ تصورات بڑے مقبول ہوئے ۔سولہویں اور سترہویں صدی کے پوروپ میں سائنس دانوں نے حقیقت ِنو کی تحقیق وتفتیش، غور وفکراور خود آگہی کے نئے ذرائع جیسے حقوق کا مطالبہ کیا ،یہ خوا ب دورِرومانیت میںشرمندئہ تعبیر ہوا ۔ انیسویں صدی کے اختتام تک سائنس کا ایک زبردست تنظیمی ادارہ معرضِ وجود میں آچکاتھا اور عینی مقاصد کی جگہ استحصال کے افادی نکات نے لے لی تھی ،اس طرح مغربی سائنس نے نئے نظریے کا قالب اختیار کیا۔
سائنس نے نظریہ کی شکل اختیار رکرلی:
مغربی تمدن میں جبر و استحصال کی روایت کی اپنی ایک تاریخ رہی ہے اور اس کی جڑیں مغربی تمدن کی مذہبی روایات میں پیوست ہیں،دورِ جدید میں اسی تصور نے ایک اہم نظریے کی شکل اختیار کرلی ہے۔ مغربی تمدن کی اسی ذہنیت کا آئینہ دار اس کا سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ سائنس نے ایک نظریے کی صورت اس وقت اختیار کی جب سائنس کو دریافت حقیقت کا ایک طریقہ اور عقلیت پرستی کا ایک وسیلہ متصور کیا جانے لگا۔یہ خیال بھی عام ہوا کہ سائنسی تحقیق کے تمام ذرائع عقلی ہیں اور کسی مقصد کے حصول کا کارگر ترین ذریعہ سائنس ہی ہے؛ غرضیکہ مغربی سائنس اپنے معاشرے کے ایک محدود طبقے کے مفادات کی عکاسی کرتی ہے۔
انسان اور غیر انسان میں افضلیت کا معیار ختم ہوگیا:
اسی نظریے کے زیر اثر مطالعۂ شئ خواہ وہ انسان ہو یا غیر انسان، اسے ایک ایسا مواد فرض کیا جاتا ہے، جس کا استحصال، چیر پھاڑ اور سائنسی تحقیق و ترقی کے لیے ان کا استعمال بے جا بھی درست ہے۔ مغربی سائنس کے علم بردار مثلاً دیکارت (Descartes) اور بوائل ( Boyle) وغیرہ کا یہ خیال کہ حیوانات خود حرکی ہوتے جدید تجربہ گاہوں میں مذکورہ تجربات کے لیے بڑا معین ثابت ہوا۔ جدید سائنس کے ان غیر انسانی افعال کو عیسائی تعلیمات کی بھی پشت پناہی حاصل ہے، کیوںکہ قرونِ وسطیٰ میں Beast-Machine کا تصور پروان چڑھا تھا۔یہی تصور مغربی سائنس میں بھی در آیا ہے کیوںکہ وجودیاتی لحاظ سے کائنات اور روح کے مابین نسبت کے بارے میں یہودی و عیسائی تصور اور ادراک انا و مادی کائنات کے مابین دیکارت کے پیش کردہ تصور میں مماثلت پائی جاتی ہے۔
مغربی سائنس نے نظریۂ تقلیل کو جنم دیا:
عقلیت پسندی کی منطق کے زیر اثر مغربی سائنس محض مسائل حل کرنے کا ایک ادارہ بن کر رہ گئی ہے۔ جدید علوم کا تعین اور ان کے مطالعات سے متعلق بے شمار مسائل آج جدید انسان کو درپیش ہیں ،مگر یہ بھی ایک طرح کی انتہا پسندی ہے۔ مثال کے طور پر حیاتیاتی تقلیل کے نظریہ کے زیر اثر Frommeکے بہ قول موت سے محبت کا رجحان عام ہوا ہے۔ نظریۂ تقلیل کی تباہ کن منطق کو منور احمدانیس نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔
تکنیک اور طرزِ فکر کے لحاظ سے نظریۂ تقلیل زندگی کی بعض صفات کے انکار پر منتج ہوتا ہے، ا س کا ایک منطقی اثر یہ ہوتا ہے کہ اقدار کی بنیاد پر قائم باہمی تعلقات کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے؛ یہی صورت جدید سائنس میں پائی جاتی ہے۔ نظریۂ تقلیل کے زیر اثر نام نہاد معروضیت اور غیر جانب داری کا دعویٰ کیا جاتا ہے اور یہ التباس پیدا کیا جاتا ہے کہ جو نکتہ سطحِ اصغر پر صحیح ہے وہی سطح اکبر پر بھی صحیح ہوگا، اس فکر کے باعث کلی اور حیاتیاتی صفات کو معروضیت کے نام پر قربان کردیا جاتا ہے۔ نظریۂ تقلیل پر عمل درآمد کے نتیجے میں ایک منہاجی التباس پیدا ہوتا ہے اور انسانی علوم و ٹیکنالوجی کی قدر و قیمت کم ہو جاتی ہے اور زندگی کی ایک ایسی تصویر ابھرتی ہے ،جس میں زندگی کی صفات ناپید ہوتی ہیں۔ تقلیلی سائنس پر عمل درآمد کے باعث ماضی قریب میں جو ہولناک تباہی رونما ہوئی ہے اس کے اثرات ہم اپنی زندگی پر محسوس کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ انسانی توالد و تناسل پر قابو باقی نہ رہا ہے۔ Genetic Engineering درحقیقت برتھ کنٹرول کا ایک دوسرا نام ہے اور Molecules کی سطح پر بھی اب حیاتِ انسانی کو مسخ کرنا ممکن ہوگیا ہے۔ مادیت Motherhood اب ایک قابل فروخت شئ بن گئی ہے، اسی طرح اب نطفے کا کاروبار کیا جاسکتا ہے او رحم مادر کو کرائے پربھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ DNA ٹیکنالوجی کی ترقی کے نام پر نظریۂ تقلیل کے علم برداروں نے اس تجربے کے معاشرتی عواقب کو بالکل نظر انداز کردیا ہے، وہ اس بے مقصد سائنسی سرگرمی کے پیدا کردہ ہولناک نتائج سے بے خبر نظر آتے ہیں۔
کیا نظریۂ تقلیل کو اپنے منطقی انجام تک پیش رفت کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ یہ تصور احمقانہ ہے کہ نظریۂ تقلیل فی نفسہٖ درست ہے کیوںکہ اس پر عمل درآمد کی صورت میں انسانیت کی فلاح و بہبود ممکن ہے۔ نظریۂ تقلیل کے طریقۂ کار میں ایسا کوئی فطری نظم نہیں ،جس سے اسے راہِ راست پر قائم رکھا جاسکے۔
نظریۂ تقلیل کے زیر اثر معروضیت تجسیم کا رنگ اختیار کرلیتی ہے۔ تجسیم کے ان نتائج کو نظریۂ کردار کے علم برداروں مثلاً B.F. Skinner J.B. Watson نے بالتفصیل بیان کیا ہے۔ جدید مغرب اور سوویت مارکسزم کا سرکاری نظریہ یہی نظریۂ کردار ہے، جس سے اس امر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انسانی معاملات میں سائنس کا عمل دخل کتنی زیادہ حد تک بڑھ چکا ہے۔
سائنس کے نام پر جبر و استحصال کا جواز :
کسی مظہر کی تجسیم کے باعث ترقی کا التباس پیدا ہوتا ہے۔ اور اسی التباس کی بنیاد پر ناانصافی اور مطلق انسانیت کو روا رکھا جاتا ہے۔ یہ امر مسلم ہے کہ مغربی سائنس مطلق انسانیت کی مخالف نہیں ،بل کہ اس کے برعکس مغربی سائنس میں مطلق انسانیت کی حمایت کا رجحان پایا جاتا ہے۔ سائنس کے نام پر جبر و استحصال کا جواز پیش کیا جاتا ہے۔ مغربی تمدن کی بے اعتدالیوں کے باعث آج کا مغربی معاشرہ کو لونیت (استعماریت) نسل پرستی، طبقہ وارانہ کشمکش و نفرت اور جنسی بے راہ روی جیسے مسائل کا شکار ہے۔ اور اب نظریۂ تجسیم کے حوالے سے ان مسائل کو فطرت انسانی کا جزو بتایا جا رہا ہے۔ دولت و اقتدار کی عدم مساوات، قتل و غارت گری، شدید مقابلہ اور غیر تمدن سے نفرت جیسے عیوب کو بھی فطرت انسانی کا لازمی حصہ کہا جاتا ہے اور یہ خیال پیش کیا جاتا ہے کہ حیاتیاتی ارتقا کے دوران یہ مظاہر ناگزیرہیں۔ یہ نکتہ اہم ہے کہ تمام مطلق انسان حکمراں طبقے خواہ وہ امریکی عسکریت یا برطانوی معیشت سے متعلق ریگن و تھیچر کے نظریات ہوں یا فرانس و برطانیہ اور اسرائیل کا فاشزم ہو ؛سب ہی فطرت انسانی کے فطری پن اور جمود سے متعلق سائنسی نظریات اورماہرین، سماجی حیاتیات اور نظریۂ IQ کے علم برداروں مثلاً ROBERT, RICHARD DAWKINS EDWARD WILSON, DESMOND MORRIS ARDREY HANS EYSENCH اور ARTHUR JENSEN وغیرہ کی حمایت کرتے ہیں۔
ان واقعات کو محض اتفاق پرمحمول نہیں کیا جاسکتا ہے؛ بل کہ یہ مغربی سائنس کی فطرت اور مزاج کا منطقی نتیجہ ہیں۔ بیشتر سائنس داں بالخصوص دنیائے اسلام کے سائنس داں سائنس کے بارے میں نصابی کتب کے انداز میں گفتگو کرتے ہوئے سائنس کے محیر العقول کارناموں کو بیان کرتے ہیں۔
جہاں تک مغربی سائنس کے طریقۂ کار کا تعلق ہے تو کم و بیش ہر کتاب میں اس موضوع کے ذیل میں درج ذیل نکات کا ذکر ہوتا ہے کہ سائنسی طریقۂ تحقیق مشاہدے، مفروضے، تجربے اور نتیجے پر مشتمل ہوتا ہے۔ سائنس کے ارتقائی عمل میں انہیں نکات کی کار فرمائی ایک مستقیمی ترتیب کے ذریعہ پیش کی جاتی ہے۔ شکل نمبر۳۔ لیکن نصابی کتب میں درج یہ نکات حقیقی سائنس میں نہیں پائے جاتے۔ سائنس میں دراصل ایک مخصوص مفروضے کی تلقین و ترغیب دی جاتی ہے۔ مشاہدات بھی چنیدہ ہوتے ہیں اور تجربات کا مقصود بھی محض نتائج کی حمایت کرنا ہوتا ہے اور انکسار کے فقدان کو ایک صفت متصور کیا جاتا ہے، تعصب روا رکھا جاتا ہے، نتائج کو پہلے ہی سے فرض کر لیا جاتا ہے اور وجدانی فیصلے کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے؛ لہٰذا سائنسی تحقیق کے نتیجے میں ہمیشہ صلاح اور حقیقی نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ سائنسی تحقیق و تجسس اور سماجی ضرورت کے عوامل کلیدی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ بسااوقات کسی مصنوعی سماجی ضرورت کے پیش نظر تحقیق کی جاتی ہے اور اس طرح اس ضرورت کو پورا کر لیا جاتا ہے۔ لیکن ایسی تحقیق سے مزید مسائل پیدا ہوتے ہیں، جذبۂ تجسس میں اضافہ ہوتا ہے او ریہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ شکل نمبر۳۔ سائنس کے بعض ساجی نقادوں نے اس نکتے کی جانب بجا طور پر توجہ دلائی ہے کہ صحت مند سائنس کی بقا و ترقی کے لیے دونوں عوامل کی موجودگی ضروری ہے۔ محض تجسس کی بنا پر سائنسی تحقیق کی کوئی سماجی اہمیت نہیں ہوتی۔ اور محض ضرورت کے پیش نظر کی جانے والی تحقیق سائنس کی قدر و قیمت کو گرانے کا باعث بنتی ہے۔
تحقیق
حقیقت
استعمال
شکل نمبر۳
(آسودگی)
تجسس
حقیقت
استعمال
ضرورت
(آسودگی)
شکل نمبر۴
مغربی سائنس معاشی مفادات کے زیر اثر:
مغربی سائنس کے اس انداز کار کردگی میں سائنس کے مارکسی فلسفیوں نے جو اضافے کیے اُن سے مغربی سائنس کی شکل اور مسخ ہوئی ہے۔ پہلا تصور تو یہ ہے کہ سائنس تجسس کو عقائد اور اوہام کا پابند ہونا چاہیے۔انیسویں صدی تک عقائد اور اوہام کا مخرج کلیسا تھا۔ اب یہ مقام غیر مذہبی اداروں اور استحصالی نظریات نے حاصل کر لیا ہے۔ بالفاظ دیگر معاشی مفادات نے سائنس کو اپنا پابند بنا لیا ہے؛ اسی طرح ناجائز استعمالات کے باعث بھی سائنس کی تصویر بہت مسخ ہوئی ہے۔ اس ضمن میں سب سے بھیانک مثال جنگ کی ہے۔ جنگی امور سے متعلق سائنس سے دنیا بھر کے تقریباً نصف سائنس داں وابستہ ہیں اور اسی طرح دنیا کی تمام بڑی قوتیں اپنے قدرتی وسائل کا بیشتر حصہ جنگی سائنس کے فروغ پر خرچ کرتی ہیں۔ سائنس کی حقیقی کارکردگی کا اندازہ درج ذیل شکل سے ہوتی ہے۔
(شکل نمبر۵)
تجسس
عقائد و اوہام
بڑی طاقتوں کے ذریعے ناجائز استعمال
تحقیقی
حقیقت
استعمال
مفادات
سائنس کو خیر اور حق کے حصول کے وسیلے کامقام دے دیا جاتا ہے:
مذکورہ بالا تجزیہ مارکسی سائنس سے متعلق ہے۔ مارکسزم بہرکیف یہودیت اور عیسائیت کے ذخیرۂ روایات سے ماخوذ ہے اور اس کے مطابق سائنس خیر و حق کا ایک زبردست وسیلہ ہے۔ اسی مارکسی فلسفے میں سائنسی انقلاب سوشلزم جیسی اصطلاحات کا ذکر ملتا ہے۔ متاخر مارکسیوں اور جدید سائنس بازو کے قائدین کے برعکس مارکس انیسویں صدی کی سائنسیت او ر اقلیت پرستی کے حامی تھے۔ ASHIS NANDY کے الفاظ میں صنعتی معاشرے کی تشکیل میں سائنس نے کتنا زبردست کردار ادا کیا ہے۔ رجائیت پسندی کے باعث وہ سائنس کو تاریخ سے ایک علاحدہ شئ متصور کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مارکسزم میں اسٹالن کا منظر عام پر آنا محض اتفاق نہیں۔ وہ مارکس کے نظریات ہی کی توسیع کرتے تھے؛ حالاںکہ مارکس کے پورے فلسفے کی روشنی میں اسٹالن کو مارکس کی ناجائز اولاد قرار دیا جاسکتا ہے۔