مسلمانو!!! ’’یہ زمانۂ صبر ہے‘‘کمر بستہ ہوجائو!!

انوار نبوی ا                                                                                                             چھٹی قسط:

محمد ہلال الدین بن علیم الدین ابراہیمیؔ

                عن عبد الرحمن بن عوف رضی اللّٰہ عنہ قال : ’’ اُبْتُلِینَا مع رسولِ اللّٰہِ صَلی اللّٰہُ علیہ وسلمَ فَصَبَرْنَا ثُمَّ اُبْتُلِیْنَا بِالسَّرَّائِ بَعْدَہُ فَلَمْ نَصْبِرْ ‘‘ ۔ (ترمذی )

                حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بدحالی سے آزمائے گئے تو ہم نے صبر کیا ،( یعنی ہم امتحان میں کامیاب ہوئے ) پھر آپ کے بعد ہم خوش حالی سے آزمائے گئے تو ہم ثابت قدم نہ رہ سکے۔

                صبر سے متعلق یہ چھٹی قسط درمیان میں سلسلہ وار خصوصی شمارے کی اشاعت کی وجہ کر ۸؍ماہ بعد قارئین کی نذر کی جارہی ہے ،اس کی پانچویں قسط آپ جنوری۲۰۱۸؁ء کے شمارے میں پڑھ سکتے ہیں۔

مواقعِ صبر

                اصلاً صبر کے مواقع تین ہیں :  (۱) طاعتِ خداوندی پر صبر  (۲)  معصیت ِخداوندی پر صبر  (۳)  قضا وقدر پر صبر ۔

                ہاں جب ان مواقع کو ہم کھولنے جائیںگے ،تو اس میں مزید اضافہ ہوگا ؛یہاں پر ان متعدد مواقع میں سے چند ان امور کو نذرِ قارئین کرنا چاہیں گے، جن کا تعلق بنی نوعِ انسانی کے ساتھ زیادہ ہے اور انسانی زندگی میں انہیںایک اہم مقام بھی حاصل ہے ۔

۱…مصائبِ دنیا پر صبر :

                دنیا خلقۃً ہی مصائب ومتاعب ، مصیبتوں اور مشقتوں سے پُر ہے ۔ کوئی بھی انسان ایسا نہیں کہ وہ دنیا میں ہمیشہ خوشی کے ماحول اور سکون کی فضا میں سانس لے رہاہو ، چین و سکون کی زندگی گزاررہا ہو ، اس کی زندگی میں دکھ درد نام کی کوئی چیزنہ ہو، ایسا ممکن ہی نہیں ہے ؛ بل کہ نظام دنیا تو یہ ہے کہ جب تک وہ اس دنیا میں جیے گا، تب تک اسے کسی نہ کسی شکل میں مصائب وآلام ، مشقتوں وکلفتوں ،اور رنج وغم کا سامنا کرنا ہوگا ۔

                 اسی کو اللہ تعالیٰ نے کہا ہے :

                  { لَقَدْ خَلَقْنَا اْلِانْسَانَ فِیْ کَبَدٍ} (البلد:۴)

                ’’ ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے ۔ ‘‘

                یعنی میںنے انسان کو اس طرح پیدا کیا ہے کہ وہ کسی نہ کسی مشقت میں لگا رہتا ہے ، کسی نہ کسی چیلنج کا سامنا کرتاہے ، کسی نہ کسی آزمائش میں مبتلا رہتا ہے ، کسی نہ کسی مصیبت میں مبتلا رہتاہے ۔

                دوسری جگہ ارشاد فرمایا :

                 {وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ   بِشَیْْئٍ   مِّنَ   الْخَوْفِ  وَالْجُوْعِ  وَنَقْصٍ  مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ط وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ }( البقرۃ: ۱۵۵)

                ’’ اور دیکھو ہم تمہیں آزمائیںگے ضرور، (کبھی )خوف سے اورکبھی بھوک سے اور (کبھی ) مال وجان اورپھلوں میں کمی کرکے ، اور جولوگ (ایسے حالات میں) صبر سے کام لیں ان کو خوش خبری سنادو ۔ ‘‘

                تو ایک موقع صبرکا مصائبِ دنیا کے وقت ہے ۔ ہر ایک کو اس کا سامنا ہے ، کسی کو فرار نہیں ؛بس اس پر ثابت قدم رہنا، ایمان و یقین میں کہیں لڑکھڑا ہٹ نہیں آنا؛ یہی صبر ہے ۔ جزع و فزع سے گریز کرنا؛ یہی صبر ہے ۔اپنی قسمت کو کوسنا یا تقدیر ِخداوندی سے نالاں ہونا ؛یہ منافی صبر ہے ۔ سخت سے سخت مواقع پررتی برابر بھی ایمانیات میں تذبذب کا شکار نہ ہونا یہ’’ مصائب دنیا‘‘پر صبر ہے ۔

۲…شہواتِ نفسانی کے موقع پر صبر :

                فرمان خداوندی ہے:

                 { ٰٓیاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْھِکُمْ اَمْوَالُکُمْ وَلَآ اَوْلَادُکُمْ  عَنْ  ذِکْرِاللّٰہِ}۔(المنافقون:۹)

                ’’اے ایمان والو! تمہاری دولت اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کرنے پائے ‘‘۔

                مال و اولاد کی محبت یہ شہوات نفسانی کا مرکز ہے۔یہ اس قدر ہوتی ہے کہ دل میں گھر کر جاتی ہے اور خواہشاتِ نفسانی بن جاتی ہے اورپھر انسان اس کے آگے بے بس ہوجاتا ہے ۔

                حالاں کہ مال کی فراوانی اور اولاد کی جوانی کے وقت، حیاتِ جاویدانی کی یاد اور اس کی تیاری کرنا اور ان کی محبت اور رنگینیوں میں اپنے مالکِ حقیقی کو بھول نہ جانا بہت بڑا صبر ہے ۔بل کہ خوشی کے موقع پر صبر کرنا یہ غمی کے موقع پر صبر کرنے سے بڑا جرأت کا کام ہے؛ اسی کو حدیث ِپاک میں اس طرح بیان کیا گیا ہے :

                 ’’ اُبْتُلِینَا مع رسولِ اللّٰہِ صَلی اللّٰہُ علیہ وسلمَ فَصَبَرْنَا ثُمَّ اُبْتُلِیْنَا بِالسَّرَّائِ بَعْدَہُ فَلَمْ نَصْبِرْ ‘‘۔ (ترمذی )

                حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بدحالی سے آزمائے گئے تو ہم نے صبر کیا ، یعنی ہم امتحان میں کامیاب ہوئے ، پھر آپ کے بعد ہم خوش حالی سے آزمائے گئے تو ہم ثابت قدم نہ رہ سکے۔

                بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں قید خانوں اور سلاخوں کی مشقتوں میں ،وہاں کی لرزا دینے والی سزاؤں میں؛ جب آزمایا جاتا ہے تو وہ بڑے ثابت قدم رہتے ہیں ، ان کے پائے ثبات کو جنبش تک نہیں آتی ؛ لیکن جب انہیںخوش عیشی کا ماحول فراہم کرکے ،دنیا کی رنگینیوں کی سیر کراکر ، مال و دولت کی فراوانی کا فریب دے کر، اہل و عیال کے د ل فریب ماحول میں مبتلا کرکے؛ آزمایا جاتا ہے تو وہ شخص جو پہاڑوں کو لرزا دینے والے ظلم کے سامنے چٹان اور آہنی دیوار ثابت ہوا تھا، وہ بھونسے کے مانند ڈھیر ہوجاتا ہے ۔

                در اصل صبر کے سلسلے میں انسانوں کی طبیعتیں مختلف ہیں، کسی کو دنیوی عیش و آرام غافل نہیں کرتی ، کسی کو مصائب وآلام گھائل نہیں کرتے ۔ اسی کو کسی نے بڑے حکیمانہ اور عارفانہ کلام میں کہا ہے:

                 ’’  مصیبتوں پر صبر تو مومن اور کافر دونوں کرتے ہیں ، لیکن عافیت پرصبر یہ صرف صدیقین کا کام ہے ۔‘‘

  (تسلیۃ اہل المصائب)

                عافیت میں عارفیت یہی ہے صدیقیت۔ جو چین و سکون میں بھی اللہ کو یاد کرتا ہے اوریہ مال و دولت، عزت وشوکت اسے ذکر اللہ سے غافل نہیںکرتے وہی ہوتاہے صدیق اور وہی پاتا ہے مقامِ صدیقیت ۔

خواہشات نفسانی پر قوت صبر کے حصول کے لیے چار چیزیں ضروری ہیں :

                (۱)  دنیا اور مال کے درپے نہ ہوجائے اور نہ ہی اس کے فریب سے دھوکا کھائے ۔

                (۲)  نہ ہی اس کے حصول میں منہمک ہوجائے اوراس کی تکمیل میںمبالغہ آرائی سے کام لے کہ ہر خواہش کو کسی بھی حد تک جاکر پوری کرنے کی فکر سوار ہوجائے ؛ جیسا کہ بعض مال داروں کا حال ہوتا ہے کہ ان کی زندگی میںبس پیسہ اور پیسہ ہی ہوتاہے ۔ ان کے دل کی دھڑکن پر کان دھراجائے تو پیسہ ہی پیسہ کی صدائیں سنائی دیںگی۔ نہ ان کے پاس نماز کے لیے وقت ہوتا ہے ، نہ ان کے معمولات میں ذکر اللہ کا کوئی خانہ؛ بس ان کی زندگیاں میٹنگ اور سیٹنگ ، سفر اور ممر میں ہی گزر جاتی ہیں ؛ اللہ کی یاد کا انہیں کبھی وقت ہی نہیں ملتا ۔

                بعض ملازمین مال کے اس قدر حریص ہوتے ہیںکہ ملازمت کے وقت کے علاوہ اُووَر ٹائم، ایک جگہ کے بعد دوسری جگہ نوکری میں اپنے آپ کو اس قدر کھپائے رکھتے ہیںکہ نہ انہیں عبادات کی فکر ہوتی ہے اور نہ دوسرے کسی واجباتِ شرعیہ کا پاس ولحاظ؛ بل کہ وہ تو حرام وحلال کی تمیز کیے بغیر صرف پیسے کمانے کی دھن میں لگے ہوتے ہیں ۔ کمائی ہی ان کے نزدیک سب کچھ ہوتی ہے ؛وہی ان کا دین ہے ، وہی ان کا مذہب ۔ بس وہ اپنے دھندے کے بندے ہیں ۔

                جیسا کہ ایک انگریز مفکر کا قول ہے :  ’’ کہ برطانیہ کے لوگ ہفتہ میں ۶؍روز مرکزی بینک (Central Bank) کی عبادت کرتے ہیں اورساتویں دن انہیں کچھ پل کے لیے کنیسہ یاد آتا ہے۔ ‘‘

                (۳)  اپنے مال کو حقو ق اللہ کی ادائیگی میں لگائے؛ جیسے: زکوۃ کی ادائیگی ، ذوی الارحام قریبی رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی ،دیگر صدقات واجبہ اور نافلہ کا بھی اہتمام کرے ۔ اس سے حبِ مال دل سے نکلے گا ، اورحب اللہ ورسول دل میں بیٹھے گا اوردنیا لٹاکر آخرت کمانے کا چسکا لگے گا ۔

                (۴) اپنے مال کو حرام کاموں ، فضولیات ، نام و نمود ، ریا اور دکھلاوے میں ضائع نہ کرے۔

۳…دوسروں کی دنیا پر رال ٹپکانے سے باز رہے : 

                مواقعِ صبر میں سے تیسرا موقع یہ ہے کہ دوسروں اور غیروں کے پاس جو دنیا اور اس کی ٹھاٹ باٹ ہے ، اسے دیکھ کر دھوکہ میں نہ آئے اوران جیسی عیش وعشرت پانے کے درپے نہ ہو؛ ان کے پاس جو مال ودولت، اولاد وافراد ،حشم و خدم ہیں؛ انہیں دیکھ کر فریفتہ اور دھوکے میں نہ آئے ۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : 

                {وَلَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلٰی مَامَتَّعْنَابِہٖ أزْوَاجًا مِّنْہُمْ، زَہْرَۃَ الْحَیٰوۃِالدُّنْیَا لِنَفْتِنَہُمْ فِیْہ،وَرِزْقُ رَبِّکَ خَیْرٌ وَّأبْقٰی۔}  (طہٰ:۱۳۱)

                ’’اور دنیوی زندگی کی اس بہار کی طرف آنکھیں اٹھاکر بھی نہ دیکھ ، جو ہم نے ان کافروں میں سے مختلف لوگوں کو مزے اڑانے کے لیے دے رکھی ہے ؛ تاکہ ہم ان کو اس کے ذریعے آزمائیں ، اور تمہارے رب کا رزق سب سے بہتر اور سب سے زیادہ دیر پا ہے‘‘ ۔

                اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ دنیااور اس کے مزے آزمائش کے لیے دیئے ہیں ، تو یہ حقیقی خوشی نہیں ہے یہ ایک دھوکہ ہے ؛ حقیقی مزہ تو آخرت میں اللہ کے یہاں جنت کی شکل میںمومنوں کے لیے تیارہے ۔

                اسی طرح قوم قارون میںسے بھی بعض لوگوں نے جو دنیا کے حریص تھے ، قارون کے خزانے پر رال ٹپکائی تھی اور کہا تھا : {یٰلَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَا اُوْتِیَ قَارُوْنَ اِنَّہُ لَذُوْحَظٍّ عَظِیمٍ } (القصص: ۷۹)

                ’’اے کاش ! ہمارے پاس بھی وہ چیزیں ہوتیں جو قارون کو عطا کی گئی ہیں ، یقینا وہ بڑے نصیبوں والا ہے‘‘ ۔

                لیکن جب قارون کا خزانہ ہی اس کا عذاب خانہ بن گیا تو پھر ان کی عقل ٹھکانے آئی ۔

                اسی طرح اللہ تعالیٰ کا دوسری جگہ صاف طور پریہ بات بتلادیاکہ بعض لوگوںکو جواللہ نے مال ودولت،حشم وخدم عطا کیے ہیں،وہ ان کی کام یابی کی دلیل نہیں؛بل کہ اللہ کی طرف سے ڈھیل اور آزمائش ہے۔        ارشادِخدواوندی ہے :

                {اَیَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا  نُمِدُّھُمْ بِہٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِیْنo نُسَارِعُ لَھُمْ فِی الْخَیْرٰتِ ط بَلْ لَّا  یَشْعُرُوْنَ } (المومنون: ۵۵-۵۶)

                ’’کیا لوگ اس خیال میں ہیں کہ ہم ان کو جو دولت اوراولاد دیے جارہے ہیں، تو ان کو بھلائیاں پہنچانے میں جلدی دکھارہے ہیں ؟ نہیں بل کہ ان کو حقیقت کاشعور نہیں ۔

                بقیہ مواقع ثلاثہ:

                ۱…دعوت الی اللہ پر صبر

                ۲…دشمنوں سے مڈبھیڑپر صبر۔

                ۳…حصول علم کی راہوں میں صبر۔

                ان شاء اللہ آئندہ شمارے میں ملاحظہ فرمائیں…………