دعوت الی اللہ اور اس کے اخلاقی تقاضے

انوار قرآنی :

مولانا محمد مرشد قاسمی ؔ بیگوسرائے

اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم

بسم اللہ الرحمن الرحیم

                { وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ، وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ ، اِدْفَعْ بِالَّتِيْ ہِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ }(حم سجدہ : ۳۳-۳۴)

                ترجمہ :  اس شخص سے بہتر کس کی بات ہوسکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور عملِ صالح کا اہتمام کرے اور کہے کہ میں (عام ) مسلمانوں میں سے ہوں ۔نیکی اور بدی برابر نہیں ہوسکتی ، آپ برائی کوعمدہ طریقہ سے دفع کریں ، یکایک وہ شخص جس سے عداوت ہے جگری دوست ہوجائے گا ۔

تذکیر وفوائد

  دعوت الی اللہ کی عظمت :

                اللہ تعالیٰ کے سارے وعدے برحق ، کلام الٰہی برحق ، اللہ تعالیٰ کا ہر فرمان وارشاد برحق ۔ذرا غور کیجیے کہ کلام ِالٰہی کی مذکورہ آیت میں کتنا پیارا اور نرالا اسلوب ہے، جس کو سن کر ہر ایما ن والے کے دل میں دعوتِ دین اور دعوت الی اللہ کا جذبہ پیدا ہوجائے گا۔

                دنیا میں انسان ؛نہ جانے کتنے بول بے مقصد استعمال کرتا ہے ۔ کتنی باتیں فضول اور بکواس ہوتی ہیں ، کتنے لوگ ہیں، جو اپنی بول اور گفتگو کی صلاحیت کو بے جا اوربے کار استعمال کرتے ہیں، جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کو کھینچنے والی ہوتی ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کبھی برے بول اور گفتگو کو پسند نہیں فرمایا ؛بل کہ ہمیشہ اچھے اورخیر کے کلام کی ترغیب دی ۔

                آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :   ’’ رحم اللہ امرا قال خیرا فغنم او سکت فسلم ‘‘

                اللہ تعالیٰ اس بندے پر رحم فرمائے جو بھلی بات کہہ کر فائدہ اٹھائے یا خاموش رہ کر آفتوں سے محفوظ رہے ۔

ہم ہمیشہ سچے اور اچھے بول کے عادی بنیں ،اچھے بول کی مختلف شکلیں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمارہے ہیں : تمام اچھے بولوں میں سے سب سے اچھا بول وہ ہے جو دعوت الی اللہ کے لیے استعمال ہو،دعوت کی نیت سے ہو ۔

دعوت الی اللہ کی شکلیں :

                تفسیر کی مشہور کتاب ’’جلالین شریف‘‘ کے حاشیہ میں دعوت الی اللہ کی مختلف صورتیں ذکر کی گئی ہیں ۔ لکھا ہے کہ: دعوت الی اللہ میں مؤذن کی اذان بھی شامل ہے ، جو اپنی اذان کے ذریعے لوگوں کو نماز کی طرف بلارہا ہے ، وہ مجاہدین بھی جو قوت و طاقت سے کفرو شرک کا زور توڑ کر اللہ کی طرف بلاتے اور اعلائے کلمۃ اللہ کی کوشش کرتے ہیں؛وہ صوفیائے کرام بھی ہیںجو خانقاہوں میں بیٹھ کر تزکیۂ قلوب کی محنت کررہے ہیں؛ تاکہ ان قلوب میں اللہ تعالیٰ کی محبت کوسمویا جائے ۔ وہ و اعظین بھی ہیں جو اپنے وعظ ونصیحت کے ذریعے لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلاتے اوراعمال کا ذوق وشوق پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ؛وہ مدرسین بھی ہیںجومدارس میں بیٹھ کر نئی نسل اور نوجوانوں کے ایمان و عقیدے کی حفاظت کی فکر کررہے ہیں ۔ آج ہماری بڑی جہالت یہی ہے کہ ان حضرات کو دین کا کام کرنے والا سمجھا ہی نہیںجاتااورمعاشرتی زندگی میںہرطرح کے طعن وتشنیع کانشانہ اِنہی لوگوںپرلگایاجاتاہے ۔

                ایک مدرسہ میں جماعت کا کام شروع ہوا ۔ اور طلبہ جماعت میں جانے لگے تو ایک صاحب نے کہا الحمدللہ! اب فلاں مدرسے میں بھی دین کا کام ہونے لگا۔افسو س ہے ایسی بے عقلی،بے دینی اور جہالت پر؛کہ دین کے کام کو صرف تبلیغی جماعت تک محدود کرکے رکھ دیا ۔ ایک صاحب ایک مرتبہ کہنے لگے علمائے کرام دین کا کام نہیں کررہے ہیں ، وہ تو تنخواہ اور پیسے لیتے ہیں ۔ یہ اتنی گھٹیا بات ہے بل کہ حضرات ِخلفائے راشدین اورصحابۂ کرام پر بھی الزام ہے کہ انہو ں نے دین کا کام نہیں کیا؛ چوں کہ ان کو ماہانہ اورسالانہ وظیفہ بیت المال سے ملتا تھا ؛ ہم اپنی ذہنی تنگی اور تعصب کو ختم کریں ۔حضرت مولانا الیاس صاحب ؒ کی یہ تحریک اور دعوت وتبلیغ تو چودہویں صدی میں شروع ہوئی ،لیکن صحابہ کرام ، اولیائے عظام اورعلمائے کرام نے اسلام کے وجود سے لے کر آج تک امت کے ایمان وعقید ے کی حفاظت کی فکرکی ۔ اورامت کو ہر موڑ پر مٹنے اور باطل راہ سے بچانے کی پوری پوری فکر کی، آج بھی کررہے ہیںاورقیامت تک کرتے رہیںگے۔

دعوت کے ساتھ عمل صالح کابھی اہتمام ہو :

                داعی کو چاہیے کہ دعوت کے ساتھ خود بھی اعمالِ صالحہ کا اہتمام کرے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وعمل صالحا}اس کے بغیر دعوت پراثر نہیں ہوسکتی ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جیسی عظیم ہستی کو حکم ملا:  {فاذا فرغت فانصب }جب آپ دعوت سے فارغ ہوجائیں تو عبادت اور دعا میں اپنے آپ کو تھکائیں ۔ دعوت کے ساتھ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر عبادت کرتے کہ پاؤں مبارک میں ورم آجاتا۔ اس قدر روتے اور آنسو گراتے کہ داڑھی مبارک اور گود تر ہوجاتی ۔ ایک اللہ والے کی مجلس میں وعظ ونصیحت سننے لوگ دور دور سے آتے اوراچھا اثر لے کر جاتے ، ان سے کسی نے پوچھا کہ یہ تاثیر آپ کو کہاں سے ملی ؟ فرمایا: راتوں کی عبادت اور آہوں سے یہ تاثیر ہم نے پائی ہے ۔

دعوت کے ساتھ تواضع ہو:

                دعوت یقینا ایک اونچا عمل ہے ، لیکن اس کی بنیاد پر اپنے اندر کبراور بڑائی آنے نہ دے ۔  اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :{ وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ} اتنا اونچا عمل کرنے کے باوجود یہ حضرت کہتے ہیں ۔’’ میں عام مسلمانوں میںسے ہوں‘‘ ۔یعنی دعوت کی بنیاد پر خود کو بڑا ظاہر نہیں کرہاہوں اور کرنا بھی نہیں چاہیے ۔آج ایک عمومی غلطی اور جرم میں لوگ مبتلا ہیں کہ تین دن لگایا تو اپنے کو حافظ ،چلہ لگالیا تو اپنے کو عالم اوراگر چارمہینے لگالیا تو اپنے کو مفتی سمجھ بیٹھتے ہیں ۔ الا ماشاء اللہ عمومی رجحان یہی ہے ، مگر جس کی اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے ۔ کام میں لگنے کے بعد بسا اوقات علمائے کرام کی عظمت دلوں سے نکل جاتی ہے ۔ وہ علمائے کرام؛جنہوں نے دین وایمان کی حفاظت کے لیے قرآن و حدیث امت تک پہنچانے کے لیے زندگیا ں لگادیں اپنے کو ان سے برتر سمجھنے لگ جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے آیتِ کریمہ میں اس کی اصلاح فرمائی کہ کبھی ہمارے دلوں میں ایسی بڑائی پیدا نہ ہو ۔

دعوت نبوی نہج پر ہو :

                آج ہم کہتے ہیں کہ یہ دعوت نبیوں والا کام ہے ، لیکن آج ہم نہجِ نبوی سے بہت دور ہوتے جارہے ہیں ۔  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نرمی لینت اور حکمت کا تھا ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

                  { وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَاانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِک }(آل عمران)

                اگر آپ سخت مزاج اور سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہوجاتے ۔

                لیکن آپ کے مزاج کی نرمی اور حسن کلامی کی بنیاد پر دین پھیل رہا ہے ۔ آج ہمارے مزاج میں لینت کی جگہ شدت اور حکمت کی جگہ حکومت آگئی ،جس کی وجہ سے لوگ دعوت کے نام سے بھی دوربھاگنے لگے ہیں۔

                کتنی مرتبہ ہم نے شدت اور حکومت کے ذریعہ اللہ کے نیک بندوں کو مساجد سے نکالا ، زیادتیاں کیں، ان کومارااورگالیاںدیں۔ ایک زمانے میں جوکام اہلِ بدعت حضرات کرتے تھے آج ہم کررہے ہیں ،ہم کسی خاص طبقے سے متعلق بات نہیں کررہے ہیں۔ جماعت کے طبقوں میں جو بھی طبقہ ہو، آج ہر طبقہ دوسرے طبقہ کو مسجد سے نکالنے اوراماموں کو ہٹانے کی فکر کررہا ہے ۔ مساجد کسی خاص طبقے کی نہیں ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

                {وَاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰہِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا} (الجن:۱۸)

                 یقینا تمام مساجد اللہ تعالیٰ کی ہیں ، سو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو ۔

                ایک صاحب نے ایک امام کو پوچھا کہ بھائی یہ کس طبقے کی مسجدہے اورکون سی جماعت آسکتی ہے؟ امام صاحب نے بڑا اچھا جواب دیا کہ بھائی تم اِس طبقے اور اُس طبقے کی بات کررہے ہو۔ بھلا بتاؤکہ اللہ تعالیٰ نے اگر پوچھ لیا کہ ہر طبقہ کی مسجد تھی ۔ ہماری مسجد کون سی تھی ؟ جس میں ہر کلمہ گو اور کلمہ کی دعوت دینے والوں کو آنے کی اجازت تھی اگر یہ پوچھ لیا گیا تو بتاؤ ہم کیا جواب دیں گے ۔

اپنوں کے ساتھ حسن سلوک :

                سارے کلمہ گو اپنے ہیں ۔ سبھی کلمے اور ایمانی رشتہ کی بنیاد پر بھائی بھائی ہیں ۔ ہم ہر ایک کے ساتھ اچھا سلوک کریں ، کسی سے کسی طبقہ، امارت یا شوریٰ کا سوال نہ ہوگا ، بل کہ صرف تین سوالات ہوںگے ۔ من ربک ، ما دینک ، من رسولک ،اس کے علاوہ کوئی اورچوتھا سوال نہ ہوگا۔

                ہم سب اس کی تیاری کریں ۔ اپنا طبقہ اور جمعیت بڑھا نے کی صرف فکرنہ کریں ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دشمنوں کے ساتھ جو سلوک کیا ، آج ہم اپنے بھائیوں سے بھی نہیں کررہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے آخری آیت میں اس حسنِ سلوک کی دعوت دی ۔ اچھائی یا بر ائی برابر نہیں ہوسکتی ، ہم برائی کا بدلہ اچھائی سے دیں ۔ بہت جلد ہمارے دشمن جگری دوست ہوجائیںگے۔

اختلافات ختم کرنے کا واحد نسخہ:

                آج ہمارے اختلافات کو ختم کرنے کا واحد نسخہ یہی ہے کہ ہر ایک طبقہ دوسرے کا اکرام واحترام کرے ۔ امت میں نظریاتی اورمسلکی اختلافات ہوتے ہیں اور ہوتے رہیںگے ، لیکن اختلاف کو مخالفت اور عداوت بنا لینا برا ہے ؛جب اختلاف میں نفسانی خواہشات شامل ہوجاتی ہے تو وہ مخالفت اور عداوت بن جاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اندر اتحاد اور جمعیت پیدا فرمائے اور امت کو ہر فتنے سے اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے ۔ آمین یا رب العالمین !