اُس مردحق شناس میں تھی خوبیاں ہزار

حضرت کاپودرویؒ کے محاسن قرآن وسنت کی روشنی میں

ازقلم :محمد صادق خان اشاعتی ؔتونڈاپوری استاذ جامعہ اکل کوا

                ہمارے حضرت رئیس الجامعہ خادم القرآن والمساجدمولانا غلام محمد صاحب وستانوی کے استاذ خاص اور مربی ومحسن،سرپرست جامعہ اکل کوا ورئیس مدرسہ فلاح دارین ترکیسر، گجرات ،مفکر ملت حضرت مولاناعبد اللہ صاحب کا پودروی نور اللہ مرقدہ کی پاکیزہ زندگی اور علم وعمل، ہمہ جہتی و اثر انگیزی،نیز آپ کی خدمات اور کارناموں پر بہت سے علمائے کرام اور اہل قلم حضرات نے مضامین تحریر کئے ہیں ۔ان قیمتی مضامین کے سامنے یہ غیر مرتب سطور کوئی اہمیت نہیں رکھتی، لیکن{ جئنا ببضاعۃ مزجاۃ} کی مصداق حضرت مرحوم سے متعلق اپنی معلوما ت وتأثرات کو الفاظ کا جامہ پہنا رہا ہوں۔اور بارگاہ ایزدی میں دعاکرتا ہوں کہ۔

میری قسمت سے الٰہی پائیں یہ رنگ قبول

پھول کچھ میں نے چنے ہیں ان کے دامن کے لیے

                چوںکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندہ لوگوں کے ساتھ ساتھ ُمردوں کے بھی حقوق بیان فرمائے ہیں ۔ ایک روایت میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔

   تم مُر دوں کا نیکیوں کے ساتھ ذکر کرو ۔(ترمذی ؍ج۲ص۳۱۲ رقم الحدیث ۱۰۲۱۔ابوداؤد ؍ج ۴ ص ۲۹۸رقم الحدیث ۴۹۰۰)

                اسی کے پیش نظر چند کتابوں کی ورق گردانی اور جامعہ اشاعت العلو م میں حضرت رئیس مرحوم کی مختلف مجالس میں تشریف آوری کے موقع پر ملاقات و مختصرسی مصاحبت کے بعد ؛آپ کی شخصیت کے جو محاسن اور خوبیاں نمایا ں ہو کر سامنے آئیں، ان کا مختصر تذکرہ قرآن وسنت کی روشنی میں تجزیہ کرتے ہوئے قارئین کی نذر ہیں۔ تاکہ یہ اندازہ ہو جائے کہ حضرت نوراللہ مرقدہ نے اپنی حیات فانی کو قرآن وسنت پر عمل پیرا اور متبع بن کر مکمل کی ۔ آپ کے محاسن واوصاف ملاحظہ فرمائیں۔

(۱)وقت کی قدر اور پابندی:

                قرآن حکیم کی روشنی میں دیکھا جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میںایک نعمت ’’وقت ‘‘بھی ہے ۔اس کی قدر وقیمت اتنی زیادہ ہے کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر وقت کی قسم اٹھایا ہے۔  جیسے چند کلماتِ قسم:والفجر ، واللیل ، والنھار، والعصر  وغیرہ۔اللہ تعالیٰ کا ان اوقات کی قسم  اٹھانا وقت کی قدر وقیمت کی بیِّن دلیل ہے ،یہی وجہ تھی کہ ہمارے اکابرین نے وقت کی بڑی قدر فرمائی ،اپنے اکابر کی طرح حضرت مولانا ؒبھی وقت کے انتھائی قدرداں اور پاپند تھے۔جس جگہ پر پہنچنے کا جو وقت مقر ر ہوتا ،اس کی پہلے سے تیاری کرتے اور مقررہ وقت پر پہنچتے ،فلاح ِدارین کے زمانۂ اہتمام میں بھی ہمیشہ آپ مدرسہ وقت سے پہلے پہنچ جاتے اور چوراہے پر بہت سی مرتبہ کھڑے ہوجاتے اور اگر کسی کو آپ نے وقتِ مقرر ملاقات کے لئے دیاہو تو اپنے ساتھ بھی یہی پسند فرماتے کہ سامنے والا شخص وقت مقر ر پر آجائے۔

                نمازکے اندر بھی آپ کا یہی حال تھا ۔کبھی دیکھنے والوں نے نہیں دیکھا کہ رکعت چھوٹ گئی ہو۔

                ’’گلدستۂ محبت ‘‘نامی کتا ب میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ مولانا غلام محمد صاحب وستانوی مدظلہ العالی نے فرمایا کہ مہتمم صاحب اور مفتی احمدبیمات صاحب نیز مولانا شیر علی صاحب کو ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ ان کی رکعت گئی ہو۔وللہ الفضل علی ذالک ۔

ایسے ہی مردان ِحرُ کے لیے کسی نے کہا ہے۔

میسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو

نہیں ہے بندئہ حر کے لیے جہاں میں فراغ

(۲)کام کرنے والوں کی قدر دانی:

                در حقیقت قدردانی ایسا وصف ہے، جو اللہ تعالیٰ کی صفتوں میں سے ایک صفت ہے۔اللہ تعالیٰ اتنے قدردان ہیںکہ بندہ اگر چھوٹا سا بھی عمل کرے تو پروردگار اس کے عمل کو قبول فرمالیتے ہیں۔ جیساکہ ارشاد ربانی ہے {فمن یعمل مثقال ذرہ خیرا یرہ }کہ جس بندے نے ذرہ برابر بھی نیک عمل کیا ہوگا اللہ تعالیٰ قیامت میں اس کا بھی اجر عطا فرمائیںگے۔

                ’’گلدستۂ محبت‘‘ نامی کتا ب میں حضرت رئیس مرحوم کایہ وصفِ قدردانی اس طرح مذکور ہے۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک خوبی یہ بھی عطا فرمائی تھی کہ آپ دین کے کسی بھی شعبہ میں کوئی لگا ہو اور خدمت کررہا ہو تو اس کی خوب قدرو منزلت اور حوصلہ افزائی فرماتے۔اور اس سے ملاقات پر اس کے مناسب حال ضرورت محسوس فرمانے پر مشورہ دیتے تھے۔

   (۳)افراد سازی :

                یہ حقیقت ہے کہ اگر افراد سازی اور افراد کی اصلاح ہو جائے تو معاشرے کے تمام منفی پہلو تبدیلی کے عمل کو قبول کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہو جاتے ہیں۔ اور معاشرے کی اصلاح کا عمل کسی رکاوٹ کے بغیر جاری ہوسکتاہے۔ہر معاشرہ اگر چہ مختلف عناصر سے مرکب ہوا کرتا ہے، لیکن اُن عناصر میں افراد کی اہمیت وحیثیت امتیازی ہوتی ہے۔ یہ وہ اکائی ہے جو معاشرہ کی سمت متعین کرتی ہے اور اسی پر معاشرہ کے اصلاحی اور مثالی ہونے کا انحصار ہوتا ہے۔ انسانی معاشرہ میں افراد کی اسی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے اپنی توجہ کا مرکز فرد ہی کو بنایا۔

                الحمد للہ! نبیٔ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خصوصیت حضرت رئیس مرحوم میں امتیازی درجہ میں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سے افراد سازی کا کام بطریق احسن لیا۔ آپ صرف مدرس یا مہتمم ہی نہیں تھے، بل کہ صاحب نظر اور مزاج شناس مربی بھی تھے ۔سنگ ریزوں میں گوہر کو پہچان لینے کاملکہ رکھتے تھے اور خاک آلود ہیروں کو پرکھنے ، تراشنے اور چمکا نے کا ہنر اور سلیقہ بھی جانتے تھے۔اور آپ یہ سمجھتے تھے کہ

ایک پتھر کی بھی قسمت سنور سکتی ہے

شرط یہ ہے کہ اسے سلیقے سے تراشا جائے

                الحمد للہ! حضرت رئیس مرحومؒ کے زمانۂ اہتمام کے تیار کردہ رجال وافراد آج علمی ودینی خدمات میں لگے ہوئے ہیںاور آپ کے تربیت یافتہ فضلا پوری دنیا میں پھیل کر مختلف میدانوںمیں دین کی قابل قدر خدمت انجام دے رہے ہیں۔

                ان مختصر سطور میں’’ مشت ِنمونہ از خروارے ‘‘کے طور پر آپ کے پروردہ چندنامور فضلااورعلما کے نام رقم کیے جاتے ہیں۔(۱)قاری صدیق صاحب (۲)مولانا اقبال صاحب دیولوی (۳)مولانا خلیل راوت (۴) مولانایوسف صاحب ٹنکاروی (۵)مولانا ابوبکر صاحب موسالی (۶)مولانا عبد اللہ صاحب کاوی (۷)مولانا عبد الرشید صاحب خانپوری(۸)مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی استاذ تفسیروحدیث جامعہ اکل کوا(۹) مولانا فاروق صاحب فلاحی مدنی استاذ تفسیر وحدیث جامعہ اکل کوا(۱۰)مولانا اقبال صاحب ٹنکاروی مہتمم دار العلوم ماٹلی والا(۱۱) خادم القرآن حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی رئیس جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا۔اور دیگر بہت سارے قابل تلامذہ وتربیت یافتہ اہل علم وفضل ہیں، جو ملک وبیرون ملک میں درجہ علیا کی کتا بیں پڑھاتے ہیںاور دیگر دینی خدمات انجام دیتے ہیں۔سطور بالا میں مذکور آپ کے تلامذہ میں سے اخیر الذکر حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی آپ کے مخصوص پروردہ وتربیت یافتہ اور خادم خاص رہے ہیں۔ ’’تذکرۃ الرئیس‘‘ کے مصنف لکھتے ہیں کہ مولانا غلام محمد صاحب وستانوی کا تعلق حضرت مہتمم صاحب مولانا عبد اللہ کاپودرویؒ کے ساتھ باپ بیٹے کی طرح تھا۔وہ حضرت کی بہت خدمت کیا کرتے تھے اور ان کا بلاتکلف حضرت کے گھر جانا آنا اور گھر کی خدمت کرنا تھا۔اور فراغت کے بعد بھی مولانا غلام محمد صاحب کا تعلق حضرت والا سے بڑا گہرا رہا اور آپ ہی کی دعاؤں اور توجہات سے مولانا غلام محمد صاحب ترقی کے مدارج پر گامزن ہیں۔ جو کل خادم استاذ تھے،وہ آج خادم القرآن سے معروف ومقبول ہیں۔یقینا آپ حضرت رئیس مرحوم کی تربیت اور توجہات کا ثمرہ ہیں۔ 

(۴)مہمان نوازی :

                دین اسلام میں ضیافت اور مہمان نوازی کا ایک خاص مقام ہے اور یہ عمل بڑی فضیلت واہمیت کا حامل ہے۔ ضیافت حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام  جیسے پیغمبر کی خاص سنت ہے، جن کے بارے میں قرآن وحدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کھانے کے وقت مہمان کے آنے کے متمنی رہتے تھے۔چناںچہ اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ ان کی مہمان نوازی کو ترغیبی انداز میں بیان کیا ہے۔ارشادباری تعالیٰ ہے:{ ھل اتاک حدیث ضیف ابراھیم المکرمین}(الذاریات: ۲۴)

                حدیث شریف میں بھی ضیافت کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک ارشاد ہے۔’’من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیکرم ضیفہ‘‘ کہ جو اللہ اور یوم آخر ت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے۔

یہی وجہ تھی کہ حضرت رئیس مرحوم کی طبیعت میں مہمان نوازی کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی تھی اور مہمانوں کی ضیافت آپ کی طبیعت ثانیہ بن چکی تھی ۔

                ’’گلدستۂ محبت‘‘ کے مصنف لکھتے ہیں :آپ اپنے وطن میں ہوں یا کینیڈا میں ۔ یا پھر برطانیہ میں اپنے صاحبزادوں کے یہاں آپ کا قیام ہو۔آپ’’ فلیکرم ضیفہ‘‘ کا مظہر اتم ہوتے تھے۔درجنوں آدمی ملنے کے لیے آتے جاتے تھے، ان سب کی مشروبات اور ناشتے سے خاطر مدارات ہوتی تھی۔ اگر کھانے کا وقت ہو تو پرتکلف کھانوں کا بھی اہتمام ہوتا تھا ۔مہمانو ں کی آمداور حاضری پر آپ بہت زیادہ مسرورنظر آتے تھے۔دسترخوان  پر ہر ایک کا خیال رکھتے اور مہمان زیادہ ہوتوہر ایک کا نام لے کر خدام کو خاطر تواضع کرنے کی تاکید فرماتے۔

(۵)صبر وتحمل:

                 قرآن ِحکیم ہر معاملہ میں برداشت اور صبر وتحمل کاسبق دیتا ہے۔ وہ اپنا یہ پیـــغام مختلف مقامات پر دہراتا ہے اس طرح وہ ایسی شخصیت کی تعمیر کرتا ہے، جو اسلام کی شان اورپہچان ہو۔ اور عملی طور پر ہر اعتبار سے پوری انسانیت کے لیے پیغام سا  لمیت وسلامتی ہو ۔آئیے دو چند ایسی آیات ربانی کا مطالعہ کریں جو ہمیں تحمل وبرداشت کا درس دیتی ہے چناںچہ برائی کا بدلہ اچھائی کے ساتھ دینے کی تاکید کر تے ہوئے قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: {ولا تستوی الحسنۃ ولاالسیئۃ ادفع بالتی ھی احسن فإذا الذی بینک وبینہ عداوۃ کأنہ ولی حمیم }(حم السجدۃ:۳۴)

                اسی طرح ان نیک لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے آخرت میں عمدہ ٹھکانوں کے مستحق قرار پائیںگے ۔

                قرآن کہتا ہے: {والذین صبرواابتغاء وجہ ربھم واقاموا الصلاۃ وانفقوا مما رزقنٰھم سرا وعلانیۃ ویدرء ون با لحسنۃ السیئۃ أولٰئک لھم عقبی الدار}(الرعد:۲۲)

                الحمدللہ !صبر وتحمل کایہ بے مثال وصف حضرت رئیس مرحوم میں لوگوںنے اچھی طرح پایا اور محسوس کیا۔

                ’’تذکرۃ الرئیس ‘‘کے مؤلف لکھتے ہیں کہ حضرت اپنے ناقدین اور بسا اوقات فحش خطوط لکھنے والوں کو نہ جواباً برا لکھتے نہ عنداللقاء بد سلوکی کرتے۔ بل کہ صبر وتحمل کا مظا ہر ہ کرتے ہوئے حسن سلوک سے ملتے اور محسوس بھی نہیں ہونے دیتے ۔گویا کہ بزبان حال یوں فرماتے۔

سنگر یزوں کی چبھن کا مجھے احساس کہاں

میں تو منزل کے مناروں پہ نظر رکھتا ہوں

(۶)زہد واستغنا :

                حدیث پاک کی روشنی میں دیکھا جائے تو زہد واستغنابھی محبت الٰہی کا سبب ہے ۔ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔’’عن سھل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ قال جاء رجل إلی النبی صلی اللہ علیہ وسلم  فقال یارسول اللہ! دلنی علی عمل اذاعملتہ احبنی اللہ واحبنی الناس فقال ازھد فی الدنیا یحبک اللہ وازھد فیما ایدی الناس یحبک الناس‘‘۔( اخرجہ ابن ماجہ۔۴۱۰۲)

                علامہ سندھی حدیث کی روشنی میں فرماتے ہیں کہ عموما لوگوں کو دنیا محبوب ہوتی ہے۔تو جو شخص لوگوں سے ان کی محبوب چیز کے حصول کے لیے سعی وکوشش کرے اور ان کی مزاحمت کرے تو لوگ اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور جو آدمی لوگوں سے اور ان کی محبوب اشیاسے جتنی بے رخی برتے، صفتِ استغنا اپنائے اور بے رغبتی کا اظہار کرے تو لوگوں کے دلوں میں اس شخص کی اتنی ہی محبت بڑھ جاتی ہے۔ (شرح سنن ابن ماجہ)

                حضرت مولانا عبد اللہ صاحب کاپودروی ؒ کی بابت’’ گلدستۂ محبت‘‘کے مؤلف فرماتے ہیں:آپ ایسی شخصیت کے مالک تھے ،جنھوںنے اکابرین واسلاف کے ستودہ اوصاف میں بالخصوص استغنا کواپنے اندر ایسے سمویا تھا جیسے جہاں دن پایا جائے گا وہاںسورج کا نکلنا لازمی قرار دیا جائے گا۔اور جہاں سایہ ہو گا وہاں سایہ والا بھی لازما ًہوگا۔

                مولانا مرحوم کی ذات گرامی گویا حدیثِ مذکور کا عملی پیکر اور علمی مجسمہ تھی ۔دنیا سے ایسی بے پرواہی کہ اللہ کی پناہ !کبھی دنیا وی کوئی چیز آپ کو مرعوب اور غفلت کا شکار نہیں کرسکی ۔دوسروں کے پاس کیا ہے؟ کون سی چیز  ہے اور کتنی قیمتی ہے ؟اس کی طرف نظر اٹھاکر بھی دیکھنا گوارہ نہ فرماتے ۔ اسی بناپر لوگوں نے آپ سے محبت اور چاہت کا سلوک کیا۔یقینا یہ شعرآپ کے اوپرصادق آتا ہے۔

میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے

خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیداکر

(۷)اکابرین سے مشورہ:

                مشورہ کی اسلام میں اس قدر تاکید ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ؛جن کا ہر عمل سرتا پا وحی تھا یہ حکم دیا گیا:{وشاور ھم فی الامر} (آل عمران ۱۵۹)

                اور مسلمانوں کے معاملات کی تحسین کرتے ہوئے فرمایا گیا ۔{وأمرھم شورٰی بینہم }

(الشوری ۳۸)

                نیز ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 ’’من أراد امرافشاور فیہ إمرأمسلماوفقہ اللہ لأرشد أمورہ ‘‘ (مجمع الزوائد ؍ج۸ص ۱۸۱؍رقم الحدیث ۱۳۱۵۸)

                حضرت رئیس مرحوم کے متعلق گلدستۂ محبت میں مؤلف لکھتے ہیں:

                 آپ کی ایک اہم عادت یہ رہی کہ اپنے ہر اہم معاملہ میں اپنے بڑوں سے مشورہ کرنا اور پھر وہ جوبھی لائحہ عمل طے کریں اس کے مطابق کام کرنا۔اس کی کئی مثالیں ہیں ان میں دوچندیہ ہیں۔حضرت نوّر اللہ مرقدہ لکھتے ہیں کہ:’’مارچ ۱۹۶۶ء میں جب انھیں‘‘دارالعلوم فلاح دارین کے اہتمام کی ذمہ داری سپرد کی گئی تو کم عمر ی اور ناتجربہ کاری کے سبب ضروری تھا کہ میں بزرگوں سے مشورہ کرتا ۔اسی مقصد سے’’ حضرت مولانا محمدسعید راندیری‘‘ کی خدمت میںراندیر حاضر ہوا تو آپ جامعہ حسینیہ کے کتب خانہ میں تشریف فرماتھے ‘‘ ۔محبت سے بٹھایا ،پھربندہ نے عرض کیا کہ بندہ اس کا اہل نہیں ہے ۔مگر کمیٹی والوں کا اصرار ہے کہ آپ کو ہی یہ کام کرنا ہے ۔فرمانے لگے گھبرانے کی کوئی بات نہیں ۔کام کام کو سکھلاتا ہے ۔جیسے جیسے کام کرتے جاؤ گے، تجربات ہو تے جائیںگے۔ اگرکبھی مشکل پیش آئے تومشورہ کرتے رہو۔حضرت نے اور بھی نصیحتیں فرمائی مگر طوالت کے خوف سے اسی پر اکتفاکرتا ہوں۔

                 اور ایک جگہ لکھتے ہیں کہ : ’’ دارالعلوم فلاح دارین کے انتظامی امور کی ذمہ داری بہت کم عمر ی یعنی ۳۳؍ سال کی عمر میں سنبھالنے کی نوبت آئی ۔اس لیے بار بار اساتذہ اور اپنے اکابرین کی خدمت میں حاضری دے کر مشورہ کرتا اور ان ہی کی رہ نمائی میں ٹوٹی پھوٹی خدمت انجام دیتا رہا ۔اللہ تعالیٰ قبول فرماکر نجات کاذریعہ بنائے آمین!‘‘

                اسی طرح ایک مرتبہ حضرت مولانا منظور نعمانی کو ایک مرتبہ ’’فلاح دارین‘‘کے تعلیمی کوائف معلو م کرانے اور ’’دارالعلوم کی ترقی کے لیے آپ سے مشورہ کرنے کے لیے دعوت دی گئی تو حضرت تین روز کے لیے تشریف لائے اور اردو سے لے کر دورۂ حدیث تک ہر جماعت کے طلبا کو جانچا اور مفید مشورے عنایت فرمائے ۔

(۸)اکابر اور اہل اللہ سے تعلق ومحبت:

                قرآن مجید کی آیت ہے : .

0

                 ’’اے ایمان والو!  ڈرو اور سچوں کی صحبت اختیار کرو۔

                علامہ آلوسی ؒ آیت شریفہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:خالطوہم لتکونوا مثلھم وکل کریم بالمقارن یقتدی۔’’کہ ان کے ساتھ اتنی مخالطت کرو اتنا چلوکہ تم ان کی طرح بن جاؤ ساتھی اپنے ساتھی کی اتباع کرتا ہے۔

                سیدنا ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ المرء علی دین خلیلہ فلینظر احدکم من یخالط‘‘ بندہ اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے پس تم میں سے ہر ایک دیکھے کہ وہ کس سے ملتاہے؟‘‘

                آیت شریف اور حدیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اکابر اور مشائخ سے تعلق ومحبت اور ان کی اتباع ؛نیز ان کے سامنے سرتسلیم خم کرنے میں آدمی کی حفاظت بھی ہے اور عافیت بھی۔ خصوصاًدور حاضرا ور اس پر فتن زمانہ میں اس کی ضرورت واہمیت اور بھی زیادہ ہو گئی ہے ۔حضرت مولانا کے اوصاف میں سے ایک نمایاں وصف یہ بھی تھا کہ آپ اکابر اور اہل اللہ کو دل سے چاہتے، ان کی بڑی قدر اور بہت اکرام  فرماتے تھے ۔حضرت فقیہ الامت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی نور اللہ مرقدہ جب جنوبی افریقہ میں تھے، تو حضرت والا برابر ان کی عصر کے بعدکی مجلس میں شرکت فرماتے اور اپنے آپ کومحتاج بناکر پیش کرتے ۔حضرت فقیہ الامت ؒبھی آپ کی طرف خوب توجہ فرماتے ۔یوپی کے اسفار بھی اپنے دور اہتمام میں بزرگوں کی توجہا ت اور دعائیں لینے کے لیے ہرسال فرماتے۔

                آپ کو اسلاف سے بالخصوص اکابر دیوبند سے والہانہ محبت اور لگاؤ تھا ،عمومی وعظ ہو یا خصوصی مجلس، ہر موقع پر ان بزرگوں کا بڑی محبت سے وقیع تذکرہ فرماتے تھے۔ آپ نے شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ سے لے کر مولانا علی میاں ندوی صاحبؒ اور قاری صدیق احمد باندوی صاحبؒ تک کئی اکابر سے استفادہ کیا اور ان کی توجہات سے فیض یاب ہوئے ۔اکابر کی رحلت کے بعد بھی مشائخ کی ملاقات او رافادہ واستفادہ کا سلسلہ برابر جاری رہا ۔کئی بزرگوں نے اپنے اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اجازتِ بیعت سے بھی نوازا تھا۔

                وللّٰہ الحمد علی ذالک۔

(۹) صفائی و ستھرائی:

                قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا :

                {یاأیہاالمدثر، قم فأنذر، وربک فکبر، وثیابک فطھر، والرجز فاھجر}

                اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! اپنے لباس کو صاف ستھر ا رکھواور اپنے دامن کو شرک کی ناپاکی سے دور رکھو۔آپ کے دامن پرگندگی اور آلودگی کا کوئی چھینٹا موجو د نہ ہو۔

                حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی طہارت کا خیال پیدا کرنے کے لیے مختلف طریقے سکھائے۔

                الحمد للہ ! حضرت رئیس مرحوم کا اس حکم ِقرآنی پر سوفی صد عمل تھا۔

                ’’گلدستۂ محبت ‘‘کے مصنف تحریر فرماتے ہیںکہ مولانا خود فطرۃًایسے نظیف الطبع واقع ہوئے تھے کہ لباس گوسادہ ؛مگر صاف ستھرا،کبھی آپ کا کپڑا میلایا کہیں داغ دھبہ نہیں دیکھا گیا۔حسین سیرت،حسین صورت، سفید برق لباس اور سفید رومال، بس ایسے نظر آتے جیسے کوئی فرشتہ چلاآرہا ہے۔آپ کویہ سب گو فطرۃً ملاہواتھا ، مگر آپ نظافت وطہارت کے ماحول میں طلبااور اساتذہ کو بھی دیکھنا چاہتے تھے ۔اس لیے طلبا کے بالوں کی کٹنگ پر کڑی نظر رہتی ۔میلا کپڑا پہنے کوئی مدرسہ نہیں آسکتا تھا ، فوراً کپڑا بدلنے کے لیے واپس کردیتے۔طلبا پر آپ کی تربیت کاہی اثر تھاکہ ہفتہ میں دومرتبہ کپڑا بدلنا تو بالکل عام تھا، بچے غسل کرتے، کپڑے دھوتے ،بدلتے اور حتی الامکان صاف ستھرا رہنے کی کوشش کرتے۔ اساتذہ بھی آپ کی تربیت کے نتیجہ میں اپنی کلاس کے طلبا کے ناخن ، بال اور کپڑوں کا برابر جائزہ لیتے رہتے۔

(۱۰)حوصلہ افزائی

                 آپ ہمیشہ اپنے چھوٹوں کی حوصلہ افزائی فرماتے اور ان کے ادنیٰ کام کو بھی ان کی نگاہ میں بڑا بناکر پیش فرماتے ،تاکہ ان کی ہمت اور حوصلہ مزید بڑھے۔یہاںپرراقم الحروف اپنا ہی ایک واقعہ سپرد قرطاس کرتاہے۔

                ۶؍تا۸؍ نومبر ۲۰۱۵ء جامعہ اکل کوا میں’’ رابطۂ ادبِ اسلامی‘‘ کا عظیم الشان سیمینار تین روزتک؛ مختلف نشستوں میں منعقد ہوا۔ جس میں ملک وبیرون ملک کے اہلِ علم وادب حضرات نے بڑے قیمتی اورعلمی مقالات پیش کیے۔ رابطہ کی ایک نشست میں حضرت رئیسِ مرحوم نے صدارت فرمائی اور نظامت کے فرائض جامعہ اکل کوا کے قدیم ترین استاذ تفسیر وحدیث حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی ؔنے بہ حسن وخوبی انجام دیے۔ حسن اتفاق کہ اسی نشست میں راقم ناچیز نے بھی اپنا مقالہ پیش کیا۔ تحدیث بالنعمۃ کے طور پر لکھ رہا ہوں کہ حضرت نے احقر کے مقالہ کی سماعت کے دوران سبحان اللہ ! الحمد للہ! کے کلمات سے حوصلہ افزائی فرمائی اوراختتا م مقالہ پر مصافحہ کی سعادت سے بھی نوازا۔یقینا وہ لمحات میری زندگی میں مبارک و مسعوداور خوشیوں بھرے تھے۔اللہم لک الحمد و لک الشکر!

یقینا محفلوں میں اندھیرا ہوگا تمہارے بعد

بہت چراغ جلانے ہوں گے روشنی کے لیے

فقط والسلام