تعزیتی پیغامات و خطوط بر وفات حسرت آیات ،مفکر ملت، فخر گجرات، رئیس الجامعہ

 حضرت مولانا عبداللہ صاحب کاپودروی رحمۃ اللہ علیہ

از طرف :مجتبیٰ حسن قاسمی

                آہ! ماہر تعلیم، رئیس محترم، بے مثال عالم و مفکر،محبوب شخصیت اور اس ناچیز کے صوبۂ گجرات میں سب سے زیادہ خیر خواہ و مربی: حضرت مولانا عبد اللہ کاپودری صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون.

حضرت والا متعدد خصوصیات کے حامل تھے۔ ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ نوجوان فضلا کی بے پناہ حوصلہ افزائی فرماتے ، ان کو لکھنے کی ترغیب دیتے، کوئی کچھ لکھ کر لے جاتا تو بے انتہا تعریف کرتے، کبھی کبھی ہم جیسوں کو بھی گمان ہونے لگتا کہ واقعی ہم نے تیر مارلیا ہے۔ ان کی ملاقات کے بعد خود اعتمادی سے دامن لبریز ہوجاتا اور کام کرنے(لکھنے پڑھنے) کی رفتار میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا تھا۔میں سمجھتا ہوں کہ حضرت والا کے انتقال سے سب سے زیادہ نقصان نئے پڑھنے لکھنے والوں کا ہوا ہے۔اللہ مغفرت فرمائے کہ ان کے احسانات سے جہاں؛ اہل گجرات زیر بار ہیں، وہیں ہم جیسے پردیسی پر بھی ان کے احسانات کم نہیں ہیں۔

رب کا شکر ادا کر بھائی

جس نے ہماری گائے بنائی

دودھ دہی اور مٹھا مسکہ  

 دے نہ خدا تو کس کے بس کا

                ان کی زبان مبارک سے جب مولوی اسماعیل میرٹھی کی یہ نظم سنی اور اس میں موجود خوبیوں کی جانب حضرت نے جس انداز سے اشارہ فرمایا، میں سمجھتا ہوں کہ اسے تحریر میں لانا کم از کم ہم جیسوں کے لیے ممکن نہیں ہے۔ ان شاء اللہ تفصیلی تحریر بعد میں۔۔۔۔

•             حضرت والا کو جوار رحمت میں جگہ ملے، ان کے درجات بلند ہوں اور جس طرح وہ اس دنیا میں عزت و عظمت کے اعلیٰ مقام پر فائز رہے، اللہ تعالیٰ آخرت میں بھی اسی طرح بلندیٔ درجات عطا فرمائے، آمین۔

مجتبیٰ حسن قاسمی

حضرت مولانا عبد اللہ صاحب کاپودروی کی وفات

ملت اسلامیہ کے لیے بڑا خسارہ

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا، وناظم المعہد العالی اسلامی حیدر آباد

                یہ بات پورے طبقۂ علما کے لیے نہایت رنج والم کا باعث اور ملت اسلامیہ کے لیے بڑا خسارہ ہے کہ کل چار بجے دن ملک کے مؤقر عالم دین ، بلند پایہ ادیب ،صاحب بصیرت اوراسلامی مفکر حضرت مولانا عبد اللہ صاحب کاپودروی ؒ (رئیس جامعہ فلاح دارین ترکیسر) کی وفات ہوگئی۔وہ بڑے وسیع النظر عالم تھے ، ان کی فکر میں بھی اعتدال تھا اور زبان وقلم میں بھی ۔ عربی زبان کے بڑے ادبا میں ان کا شمارتھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر مردم گری اور افراد سازی کا بڑا ملکہ رکھا تھا اور وہ اس میدان میں اپنے اکثر معاصرین پر تفوق رکھتے تھے ۔ وہ قدیم صالح اور جدید نافع کو ساتھ لے کر چلنے کے قائل تھے ۔ ان کی ہر تحریر میں دعوتی فکر ہوا کرتی تھی ، علما کی تربیت اور مدارس کی علمی ومعنوی ترقی ان کی فکر خاص ہدف تھا، وہ علم کے عاشق اورکتابوں کے رسیا تھے ۔ نوجوان علما کی حوصلہ افزائی ان کا خصوصی وصف تھا ۔ راقم الحروف کے ساتھ بھی ان کا تعلق بڑا شفقت اور خورد نوازی کا تھا ۔ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کی خدمات کو وہ بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور حسب موقع اس کے سیمیناروں میں شریک ہوا کرتے تھے ، وہ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد بھی تشریف لائے ۔ وہ یہاں کے نظام تعلیم وتربیت کو بے حد سراہتے تھے اور گجرات کے فضلا کو ترغیب دے کر یہاں بھیجتے تھے ۔ جامعہ فلاح دارین ترکیسر گجرات ان کے خوابوں کا تاج محل ہے ،جو ہمارے دینی مدارس میں ایک منفرد حیثیت کی دینی درس گاہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی بال بال مغفرت فرمائے اور ملت اسلامیہ کو ان کا بدل عطا کرے ۔

****

رئیس گجرات مفتی عبد اللہ کاپودروی کی رحلت عالم اسلام کا ناقابل تلافی خسارہ

مولانا محمد سفیان قاسمی (مہتمم : دارالعلوم وقف دیوبند)

                دارالعلوم وقف دیوبند کی مجلس مشاورت کے مؤقر رکن ، جامعہ فلاح دارین ترکیسر گجرات کے رئیس حضرت مولانا مفتی عبد اللہ صاحب کاپودروی ؒ کی رحلت عالم اسلام کے لیے ایک عظیم ناقابل تلافی خسارہ ہے ۔ آپ کی رحلت سے ملت اسلامیہ ایک عظیم راہنما سے محروم ہوگئی ہے ۔ ان خیالات کا اظہار دارالعلوم وقف دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا محمد سفیان قاسمی صاحب نے اطیب المساجد دارالعلوم وقف دیوبند میں منعقدہ تعزیتی نشست سے کیا ۔انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں آپ کا وجود منجانب اللہ ایک نعمت غیر مترقبہ تھی ، انہوں نے کہا کہ آپ کی علمی رفعت ووقعت اہل علم کے مابین مسلمہ تھی۔ آپ کے علمی و عرفانی فیضان سے مستفدین کی تعداد لا متناہی ہے۔ آپ کا عظیم علمی کارناموں کی فہرست طویل ہے اور یہ آپ کے لیے عظیم ذخیرۂ آخرت ہے ۔ دارالعلوم وقف دیوبند ، خانوادۂ قاسمی اور علوم نانوتویؒ سے انہیں خاص انس ولگاؤ تھا۔دارالعلوم وقف دیوبند کے خواہاں اورآرزومند تھے اور ساتھ ہی ادارہ کی ترقیات کے لیے فکر مند بھی رہتے تھے ۔ خصوصاً دارالعلوم وقف دیوبند کی حالیہ ترقیات سے بے حد مسرور تھے اور اپنی مجالس میں بارہا اس کا ذکر بھی فرماتے تھے ۔ دارالعلوم وقف دیوبند کی مجلس مشاورت کی تمام میٹنگوں میں خصوصی اہتمام کے ساتھ شریک ہوتے اور تعلیمی معیار کی بلندی کے باب میں مفید آرا وتجاویز سے نوازتے ، حق تعالیٰ آپ کی خدمات کو قبول فرمائے اور آخرت میں آپ کے درجات بلند فرمائے ۔

                واضح رہے کہ حضرت مولانا کی وفات کی خبر ملتے ہی بعد نماز مغرب جامعہ کی اطیب المساجد میں ایصال ثواب کا اہتمام کیا گیا ۔ حضرت مولانا محمد سفیان قاسمی صاحب مہتمم دارالعلوم وقف دیوبند کی دعا پر نشست کا اختتام ہوا ۔ اس موقع پراساتذۂ جامعہ وکار کنان ادارہ موجود رہے ۔

گجرات کے معروف عالم دین مولانا عبد اللہ صاحب کاپودروی کے انتقال پر

جمعیۃ علمائے ہند کا اظہار رنج و غم

                جمعیۃ علمائے ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے مشہور ومعروف عالم دین مولانا عبد اللہ صاحب کاپودروی کے سانحہ ارتحال پر گہر ے رنج و غم کا اظہار کیا ہے ۔ مولانا مرحوم معتبر اور بالغ نظر انسان تھے ۔ وہ ایک طویل عرصے تک جامعہ فلاح دارین ترکیسر گجرات کے سربراہ رہے اور ان کی قیادت ونگرانی میں یہ ادارہ دینی وتعلیمی میدان میں ایک نمایاں مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ۔ مولانا مرحوم ۱۹۵۵ء میں دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوئے ۔ وہ حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے شاگرد تھے ۔ انہوں نے علمی میدان میں بیش بہا خدمات انجام دیں ۔ انہوں نے اہم دینی موضوعات پر ایک درجن سے زائد کتابیں تصنیف فرمائیں ۔ ان کے شاگردوں اورعقیدت مندوں کی بھی ایک بڑی تعداد تھی، جن کی دعوت پر وہ دنیا کے مختلف ممالک میں دعوتی ودینی اسفار بھی فرمایاکرتے تھے ۔

حضرت مولانا عبد اللہ صاحب کاپودروی کے انتقال پر

ابنائے ندوہ مومبائی کا تعزیتی پیغام

                نمونہ ٔسلف حضرت مولانا عبد اللہ صاحب کاپودروی کے انتقال کی خبر نے بہت متاثر کیا۔ گجرات کی دھرتی کا ایک عظیم سپوت ، ایک تابناک ستارہ آج ہمارے بیچ سے رخصت ہوگیا ۔ لیکن اپنی ایمانی خوش بو اور اپنی تابناک روشنی چھوڑ گیا ۔ حضرت کی وفات ایک بے نظیر عہد کا خاتمہ ہے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون !

                اس موقع پر ابنائے ندوہ ممبئی کے صدر مولانا لقمان ندوی نے اپنے پریس بیان میں کہا کہ حضرت مولانا ایک ولی صفت انسان تھے۔ علمی مقام بڑا بلند تھا ، اخلاق کے اعلیٰ معیار پر تھے ، کردار اولیاء اللہ کا پرتو تھا، علمائے کرام سے بڑی محبت کرتے تھے ، علم کی خدمت کرنے ، اللہ کے بندوں کو اللہ سے جوڑنے کے لیے اپنی زندگی کا قیمتی سرمایہ صرف کیا ۔ حضرت مولانا علی میاںؒسے مرحوم کا خاص تعلق تھا۔ وہ تمام علما میں یکساں مقبول تھے ۔ کیوں کہ مرحوم الحب للہ والبغض للہ کی صفت سے متصف رہے ، نہایت سادہ لوح ، خوش مزاج ، بلند اخلاق کے حامل ، چھوٹوں پر نہایت شفیق ، آج کے اس مشکل دور میں ایسے شخصیات کا اٹھ جانا ملت کے لیے بڑی آزمائش ہے ۔

                ہم ابنائے ندوہ مومبائی اس موقع پرحضرت کے تمام پسماندگان اور متعلقین کو تعزیت مسنونہ پیش کرتے ہیں اور رب ذوالجلال کی بارگاہ میں دعا گوہیں کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنی رحمت کے سائے میں جگہ دے ، پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے اور ملت کو حضرت کا نعم البدل عطا فرمائے۔آمین!

حضرت مولانا عبد اللہ صاحب کاپودروی ؒ صاحب دل دردمند رکھتے تھے

قاری جابر حسین بن موسی ٰ کرماڈی   

استاذ تجوید و قرأت : دارالعلوم ماٹلی والا ، بھروچ

                حضرت مولانا عبد اللہ صاحب کاپودرویؒ کی خدمت میں حاضری کا مجھے متعدد مرتبہ موقع ملا ، حضرت والا بڑے آدمی تھے ۔ صاحب دل ، امت کی فکر ، طلبہ کی تعلیمی ترقی کے لیے کوشاں اور اساتذہ کو ہرممکن راحت پہنچانے کے لیے بے تاب رہتے تھے ۔ ان کی خدمت کرکے دل کو سکون ملتا تھا ، جب بھی ان کے گھر پر حاضری ہوتی اور مجھ سے مخاطب ہوتے ، تو بڑی اپنائیت کا اظہار فرماتے ـــ۔دارالعلوم ماٹلی والا بھروچ میں حضرت والا کثرت کے ساتھ تشریف لاتے ، یہاں بھی ان کے میزبانی کا مجھے شرف حاصل ہوا۔ اگر کبھی ایسا ہوتا کہ حضرت والا تشریف لائے ہوں اور ناچیز حاضر خدمت نہیں ہوسکا تو احباب سے دریافت فرمایا کہ قاری جابر صاحب کہاں ہیں؟  ابھی رمضان المبارک سے قبل بیرون کے سفرپرجانے سے پہلے ان کی خدمت میں حاضری ہوئی ، حضرت والا جامن پسند فرماتے تھے ، اس لیے جاتے ہوئے کچھ جامن ساتھ لے لیا۔طبیعت ایسی تھی کہ ملاقات ہوسکے ، ان کے صاحب زادے مولانا اسماعیل صاحب نے صورت حال کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ قاری صاحب ملاقات نہیں ہوسکے گی ۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں ، پھرفرمایا کہ تھوڑی دیر رکیے ، شاید زیارت ہوجائے۔ میں نے انتظار کیا ، زیارت کے لیے مولانا اسماعیل صاحب کے ہمراہ کمرے میں گیاتو حضرت مولانا ؒ آرام فرمارہے تھے ۔ آہٹ پاکر آنکھ کھل گئی، مصافحہ ہوا اورطبیعت کی خرابی اورغنودگی کے باوجود پوچھا : قاری صاحب کیسے ہیں ؟

                حضرت والا کی بس اب یادیں ہیںاور ان کے بتائے ہوئے نقوش ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر چلنے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔

                برادر عزیز مولانا غفر ان ساجد قاسمی (بصیرت میڈیا گروپ کے چیف ) نے خوش خبری سنائی کہ حضرت مولانا کے لیے ایک تعزیتی نشست ممبئی میں منعقد کی جارہی ہے ، جس میں حضرت کی حیات وخدمات پر مشتمل ایک مختصر سا رسالہ بھی شائع کیا جائے گا تو بڑی مسرت ہوئی ۔ میں مولانا غفران ساجد صاحب کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ حضرت پرشائع ہونے والے رسالے کو قبول فرمائے اور حضرت والا کے درجات کو بلند فرمائے ۔ آمین !

 نمونۂ سلف،پیکر خلوص و وفا، حضرت عبداللہ کاپودروی رحمۃ اللہ

سرزمین گجرات کے ایک تابناک اور بے نظیر عہد کا خاتمہ

علمائے ہند کی صف میں غیر معمولی خلا!

                حضرت کے ساتھ گذرے ہوئے لمحات سرمایۂ حیات ہیں۔ ان کے ساتھ گذرے لمحات نے ثابت کیا تھا کہ وہ ” بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ور پیدا ” کے حقیقی مصداق ہیں۔ آپ کی خبروفات نے دل و دماغ کو متاثر کیا ہے۔ دعا ہے کہ باری تعالیٰ مرحوم کی روح کو اپنے الطافات و انعامات سے نہال فرمائے، پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازے۔ یکے بعد دیگرے مخلصین اٹھتے جارہے ہیں، اللہ بھنور میں پھنسی کشتی کے لیے لائق ناخدا مہیا فرمائے۔

اللہم اجرني في مصیبتي واخلف لي خیرا منہا

 شریکِ غم 

سمیع اللہ خان

حضرت رئیس الجامعہ ؒکے پسندیدہ اشعار

لیتک تحلو والحیوۃ مریرۃ

ولیتک ترضی والانام غضاب

ولیت الذی بینی وبینک عامر

بینی وبین العالمین خراب

اذا صح منک الود فالکل ہین

وکل الذي فوق التراب تراب

کلمات تعزیت بر وفات مفکر ملتؒ

                برادرانِ اسلام!

                 السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

وما کان قیس ہلکہ ہلک واحد

ولکنہ بنیان قوم تہدما

کس سے اس درد مصیبت کا بیاں ہوتا ہے

آنکھیں روتی ہیں، قلم روتا ہے، دل روتا ہے

        افسوس صد افسوس کہ امروز۱۰؍ جولائی ۲۰۱۸ء ہندستان کے سر سبز و شاداب خطۂ گجرات سے نمونۂ سلف، پیکر خلوص و وفا، مفکر ملت، حضرت مولانا عبداللہ کاپودروی صاحب نے داعیٔ اجل کو لبیک کہا اور دار بقا کی جانب ہم سب کو روتا، بلکتا اور سسکتا چھوڑ کر روانہ ہوگئے۔

                انا للہ وانا الیہ راجعون ! اللہم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ ، واکرم نزلہ ، ووسع مدخلہ ، واغسلہ بالماء والثلج والبرد ، ونقہ من الخطایا کما نقیت الثوب الابیض من الدنس ، وابدلہ دارا خیرا من دارہ ، وادخلہ الجنۃ ، واعذہ من عذاب القبر وعذاب النار ۔

        موت بر حق ہے، اس سے کسی کو مفر نہیں۔ جس نے بھی اس دنیائے ہست و بود میں قدم رکھا، اسے ایک نہ ایک دن گوشۂ قبر کی تنہائی کا سامناضرور ہے۔

ان للہ ما أخذ ولہ ما أعطی

 وکل شئ عند لاجل مسمی

                اس المناک موقع پر ہم خدام دارالعلوم مدنی دارالتربیت؛ کرمالی، امت مسلمہ کی خدمت میںتعزیتِ مسنونہ پیش کرتے ہوئے خداوند رؤوف و مہربان کی بارگاہ قدس و رحمت میں التجا کرتے ہیں کہ وہ مرحوم کو اپنی عفو و بخشش سے جوار اقدس اور بارگاہ عزت و جلال میں جگہ دے۔ اور ان کے اہل خانہ کو اس غمناک واقعہ پر صبر جمیل کی توفیق اور امت کو ان کا نعم  البدل عطا فرمائے۔آمین.

 والسلام

 اجود بن مفتی احمد بیمات خادم: دارالعلوم مدنی دارالتربیت، کرمالی بھروچ،گجرات

آہ! مولانا عبداللہ کاپودروی صاحب رخصت ہو گئے

                 سر زمین ہند؛علم و عمل اور اعلیٰ اخلاق کی جامع شخصیات سے خالی ہوتی جا رہی ہے۔

                مولانا کا شمار کبار علما میں ہوتا تھا۔ وہ جلیل القدر عالم، روشن دماغ مفکر ،خداترس انسان ،اور شخصیت ساز شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی تواضع ،علم دوستی، معاملہ فہمی، خورد نوازی، بے جا تصنعات سے گریز و اجتناب نے مجھے کیا؛ اچھے اچھوں کو اپنا گرویدہ بنایا۔ یہی وجہ تھی کہ ایک ملاقات کے بعد حضرت مولانا سے بارہا فون پر کثرت سے بات کرنے کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہو گیا اور مولانا کی بے تکلفانہ عنایتیں ملتی رہیں۔ مولانا ایسے بلند پایہ اخلاق کے مالک تھے اور اس طرح پیش آتے تھے کہ ان کی خدمت میں حاضر ہونے والا سوچ میں پڑجاتا کہ اس سطح کا آدمی اور ایسی سادگی۔

                مجھ سے حضرت مولانا کا تعارف کرانے والے نے کہا تھا کہ یوں سمجھیے کہ مولانا گجرات کے حضرت علی میاںؒ ہیں۔ میرا مولانا سے پہلی بار تعارف 2014 میں ہوا ،جب وہ میرے یہاں کانفرنس میں تشریف لائے تھے۔ دوبارہ 2016 میں اکل کوا سیمینار کے بعد استفادے کی غرض سے (تفصیلات سے قطع نظر) مولانا کے دولت کدہ پر مولانا کی معیت میں حاضر ہوا۔ ایک ڈیڑھ دن میں مولانا کے جس بلند اخلاق کا مجھ جیسے بے مایہ و کمتر انسان نے مشاہدہ کیا ،اس کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ اس طرح کے اخلاق اس سطح کے لوگوں کے یہاں کم از کم میں نے نہیں دیکھا۔ مولانا مجھے لے کر دارالعلوم ترکیسر گئے اور میری تقریر سے پہلے تعارف کرایا تو میں نے وہیں اپنی گفتگو میں کہا کہ امام حسن البنا کے بارے میں پڑھا تھا کہ کسی نے ان سے پوچھا کہ کتابیں کیوں نہیں لکھتے ؟تو فرمایا اس لیے کہ میں تصنیف رجال میں مصروف ہوں میں نے آج واقعی مشاہدہ کیا اس سفر میں کہ اشخاص کی تعمیر کیسے کی جاتی ہے۔ بلاشبہ مولانا بلند پایہ عالم تھے ،بہت وسیع اور متنوع مطالعہ تھا۔ بڑی مرتب موضوعی اور پر مغز گفتگو فرماتے تھے۔ مگر شاید زیادہ کچھ علمی سرمایہ نہیں چھوڑا اس کی وجہ یہی ہے کہ انھوں نے افراد کار تیار کیا اور تصنیف رجال میں عمر مستعار صرف کی۔ مولانا کو کتابوں کا بڑا شوق تھا۔ خود خریدتے اور اداروں میں تقسیم کرتے۔ گھر سے متصل مسجد اور مسجد میں مولانا کا کتب خانہ؛ خاص عہد قدیم کی یاد دلاتا تھا۔ دسیوں ہزار کتابوں پر مشتمل کتب خانہ گجرات کے خاص ماحول میں مولانا کے کتب خانہ کے تنوع کو دیکھ کر مولانا کی منصف مزاجی، علم دوستی، خالص علمی ذوق، علمی شان اور گیرائی کا اندازہ کرنا مشکل نہ تھا۔ مولانا کا انتقال بالخصوص گجرات کے لیے اور علی العموم پورے ہندستان کے لیے بڑا سانحہ ہے۔ ہمیں ان کے لائق فرزندوں اور شاگردوں سے امید ہے کہ وہ ان کے فکر و نظر کے ترجمان و مظہر نظر آئیں گے اور ان کے مشن کو آگے بڑھائیں گے۔

                میں مولانا کے پسماندگان،متوسلین اور اہل تعلق کے غم میں برابر کا شریک ہوں ۔یہ غم ان کا ہی نہیں میرا بھی ہے۔ مجھے اس بات کا شدید قلق رہے گا کہ مولانا کی آواز وغیرہ بند ہونے سے پہلے ایک آخری بار ان سے بات کیوں نہ کر سکا۔ ابھی ہفتہ دس دن پہلے ہی ان کے صاحبزادے مولانا اسمعیل صاحب سے صحیح اور نازک ترین صورت حال فون پرمعلوم  ہوئی تھی۔ دھڑکا تو لگا ہی تھا کہ آج یہ خبر صاعقہ اثر بھی آ ہی گئی۔ اللہ غریق رحمت فرمائے اور اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے۔ میری یہ بڑی بد نصیبی ہے کہ بعض ایسی مفید و موثر اور اہل صفا و اصحاب وفا سے تعلق بہت دیر میں ہوا کہ تعلق قائم ہونے کے بعد جلد ہی یا تو وہ کسی عارضہ میں مبتلا ہو گئے یا دنیا سے چل بسے۔ انھیں میں ایک میری محبوب شخصیت حضرت مولانا کاپودروی ؒکی تھی اللہ مغفرت اور درجات بلند فرمائے۔

ڈاکٹر طارق ایوبی ندوی (صدر: کاروانِ امن و انصاف)

 محمد حسین ماہمکر فلاحی استاذ جامعہ حسینیہ عربیہ شریوردھن کوکن قاضیٔ شریعت مرکزی دارالقضا کوکن:

                واٹس ایپ کھولتے ہی خبر دیکھا تو انگلیاں چل پڑیں مفصل تاثرات دماغ پر قابو پانے کے بعد ان شاء اللہ ضرور پیش کروں گا۔سردست تو اپنا غم غلط کرنے کے لئے ان الجھی ہوئی سطروں کا سہارا ہے۔ مفکر ملت، سرزمین ہند کی مایہ ناز شخصیت اور فخر گجرات حضرت مولانا عبداللہ کاپودروی صاحب کا انتقال ہوا۔

                جامعہ حسینیہ عربیہ شریوردھن کوکن میں حضرت مرحوم رئیس الجامعہ مولانا عبداللہ کاپودروی صاحبؒ کے شاگردوںاورمادر علمی دارالعلوم فلاح دارین ترکیسر گجرات کے فیض یافتہ فلاحی فضلا اساتذہ کی اچھی تعداد ہے۔ہم تمام احبابِ جامعہ حسینیہ عربیہ شریوردھن اس الم ناک موقع پر امت مسلمہ کی خدمت میں تعزیتِ مسنونہ پیش کرتے ہوئے اللہ کی بارگاہ قدس و رحمت میں التجا کرتے ہیں کہ وہ مرحوم کو اپنی عفو و بخشش سے جوار اقدس عطا فرمائے اور ان کے اہل خانہ کو اس غمناک واقعہ پر صبر جمیل کی توفیق مرحمت فرمائے۔ امت کو اور خصوصاً دارالعلوم فلاح دارین ترکیسر گجرات کو ان کا نعم  البدل عطا فرمائے۔

                آج 10 جولائی 2018  رات ساڑھے دس بجے کاپودرہ گجرات میں تدفین ہے۔

                شافعی مسلک کے مطابق میت کے غسل کی تکمیل کے بعد غائبانہ نمازِجنازہ پڑھنے کی اجازت ہے۔لہٰذا آج رات عشا کی نماز کے بعد جامعہ حسینیہ شریوردھن میں دس بجے غائبانہ نمازِجنازہ ادا ہوگی۔اور حضرت مولانا ؒکی خدمات پر اساتذہ کے خطابات ہوںگے۔

ایوب اسحاق :دارالعلوم زکریا ، جنوبی افریقہ

نزلنا ہہنا ثم ارتحلنا

کذا الدنیا نزول وارتحال

                حضرت مشفقنا ومربّیناکو یہ شعر اکثر گنگناتے سنتے رہتے تھے۔

                آج ہمارے محسن جلیل اس دار فانی سے کوچ کر کے اپنے مولائے حقیقی سے جاملے ہیںاور ہزاروں کو سوگوار چھوڑ گئے ہیں۔انا للہ وانا الیہ راجعون ……

                اللہ تعالیٰ حضرت کی بال بال مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازے اور امت کو نعم البدل عطا فرمائے.

جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل کو

اپنے ایک عظیم سپوت کے چل بسنے پر بے انتہا صدمہ

                آج جامعہ ڈابھیل اس وقت رنج وغم کے انتہائی گھپ اندھیرے میں ڈوب گیا، جب یہ المناک خبر صاعقہ بن کر گری کہ جامعہ کے ایک نامور فاضل، عظیم سپوت، گلشن جامعہ کے ایک گل سر سبد،سابق استاذ جامعہ وسابق رکنِ شوریٰ جامعہ، ہم خوشہ چینِ جامعہ کو غمگین  چھوڑ کر اپنے مولائے حقیقی سے جاملے۔انا للہ وانا الیہ راجعون!

                اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت جامعہ کی تاریخ کا جھومر اور اس کا گل سر سبد تھے۔ آپ ایک سدا بہار درخت کی طرح تھے ،جس کی تخم ریزی، آبیاری اور بار آوری میں جامعہ کے اکابر اساتذہ انتظامیہ اور اس کے قابل صد رشک ماحول کا بنیادی کردار رہا ہے۔

                حضرت نے جامعہ سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جامعہ ہی سے اپنی تدریسی زندگی کی ابتدا کی ۔نیز آپ ایک طویل مدت تک رکنِ شوریٰ کی حیثیت سے بھی وابستہ رہے۔

                آپ ہی کی توجہ و سرپرستی میں  جامعہ کی تاریخ مرتب کی گئی۔

                آپ جامعہ کا وہ شجرۂ طیبہ ہے جن کے واسطے سے کئی گلشنوں کی آبیاری ہوئی۔

                آپ کے واسطے سے جامعہ کا فیض قرب وجوار سے شروع ہو کر چہار دانگ عالم میں پھیلا۔

                ہم ابنائے جامعہ اس موقع پر ایک دوسرے کی نیز حضرت کے واسطے سے آباد شدہ تمام گلستاں کی بلبلوں اور تمام مسلمانوں کو تعزیت پیش کرتے ہیں ۔نیز دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے اور تمام پسماندگان کو صبر جمیل اور اجر جزیل عطا فرمائے۔

ابنائے جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل

مَیں بُلبلِ نالاں ہوں اِک اُجڑے گُلستاںکا

ابن الحسن عباسی

                آج 10 جولائی 2018 کو ہندستان، گجرات، سورت کے مشہور بزرگ، داعی اور مفکر عالم دین مولانا عبداللہ صاحب کاپودروی مسافران آخرت میں شامل ہوگئے۔ ان کی عمر تقریباً 85 سال تھی۔ مولانا گجرات کے مرکزی ادارہ دارالعلوم فلاح دارین ترکیسر کے شیخ الجامعہ اور ہندستان کے کئی علمی، دعوتی اور فلاحی اداروں اور تنظیموں کے سربراہ و معاون تھے۔ انہوں نے 1950 میں دارالعلوم دیوبند میں سال ڈیڑھ سال پڑھا اور غالبا 1955 میں ہندستان کے مشہور علمی ادارہ جامعہ اسلامیہ ڈابھیل سے سند فراغت حاصل کی اور وہاں استاد مقرر ہوئے۔ اس کے بعد دوبارہ دارالعلوم دیوبند آئے اور 1959 اور 1960دوسال دارالعلوم دیوبند میں مقیم رہے اور دورہ حدیث کی کتابیں پڑھیں۔انہوں نے کئی سال تک جامعہ اسلامیہ ڈابھیل اور دارالعلوم فلاح دارین میں تدریسی خدمات انجام دیں، ان کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ وہ کچھ عرصہ کینیڈا میں بھی مقیم رہے اور کئی ملکوں کے سفر کئے……. چند سال قبل ان کے مختلف مضامین کا مجموعہ ”افکار پریشاں” کے نام سے چھپا تھا اور اس ناکارہ نے اس پر تبصرہ لکھا تھا،جو میرے لکھے گئے تبصروں کی کتاب ”کتب نما” میں شامل ہے۔ ”افکار پریشاں” کے بعض اہم مضامین میں نے ماہنامہ ’’وفاق المدارس‘‘ میں بھی شائع کروائے…….انہوں نے گجرات، ہندستان کے علمی اداروں اور مراکز کے تعارف پر عربی زبان میں بھی ایک تفصیلی مقالہ لکھا ہے اور آٹھویں صدی ہجری کے مشہور محدث، علامہ بدر الدین عینی کی علمی خدمات کے تعارف پر ایک عربی مقالے کا ترجمہ….. ”علامہ بدرالدین عینی اور علم حدیث میں ان کا نقش دوام”…….. کے نام سے کیا ہے، جسے احقر نے کراچی کے ایک کتب خانے کو اشاعت کے لیے دیا ہے.

                مولانا عبداللہ کاپودروی ایک صاحب درد عالم دین تھے۔ آج بطور خاص ہندستان کے مسلمان امت کے ایک غم خوار سے محروم ہوگئے، انہوں نے بجا طور پر اپنی کتاب کے سرورق پر اقبال کا یہ مشہور زمانہ شعر لکھا تھا    ؎

مَیں بُلبلِ نالاں ہوں اِک اُجڑے گُلستاں کا

تاثیر کا سائل ہوں، محتاج کو، داتا دے!

                آج ان کے نالے ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئے….. حق تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور انہیں سکون والی ابدی زندگی نصیب فرمائے۔

 پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی!!

ایم صادق کوکنی

                استاذ الاساتذہ حضرت مولانا عبداللہ کاپودرویؒ کی وفات کی المناک خبر سن کر بے حد صدمہ ہوا۔حضرت کی منقبت میں بہت کچھ لکھا اور کہا جائے گا،مگر بندے کے نزدیک حضرت والا انسان سازی کے فن کے رمز شناس تھے۔معلم بھی تھے،مؤدب بھی،مدرب بھی اور مرشد بھی۔

                آج گجرات کے دبستان علم و حکمت نے ایسا فرزند کھویا ہے کہ جس کے نعم البدل کی تمنا اس دور قحط الرجال میں مشکل ہے۔صدقہ جاریہ کے طور پر انھوں براہ راست اور بالوسطہ شاگردوں کی اتنی بڑی جماعت اپنے پیچھے چھوڑی ہے کہ گجرات ابھی عرصہ دراز تک اس سے مستفید ہوتا رہے گا ۔ایسی ہی شخصیات کو عہد ساز کہا گیا ہے،اللہ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے درد و غم کا کوئی قطرہ ہم جیسے غفلت شعاروں کے سینوں میں بھی منتقل فرمائے جس سے ہمارے شب وروز بھی سرگرم اور عمل پیہم کا مصداق بن جائیں!!

                صدمہ تو سب کو پہنچا ہے، کون کس کی تعزیت کرے اور کون کس کے لیے تسلی کا سامان کرے؟فیصلہ کرنا دشوار ہے۔آئیے! اسی سے صبر جمیل کی توفیق مانگتے ہیں جس نے اس نعمت کا اتنا ہی وقت ہمارے لیے مقرر فرمایا تھا ۔

 اللھم اغفر لہ وارحمہ!!

پیغام تعزیت

تنظیم علمائے اہل سنت والجماعت پونچھ جموں کشمیر

                مولانامحمد عبد للہ صاحب کاپودری ؒکا سانحہ ارتحال ملت کا ایک ایسا درد ناک سانحہ ہے، جس سے پوری ملت سکتے میں ہے۔ ایک ایسا خلا ؛جسے پر کرنے کے لیے صدیاں درکار ہو ں گی۔ ایک ایسا عالم ربانی، جو علم و عمل، اخلاص و تقویٰ کا سمندر ،علم کا دریا ،عمل کا آسمان ، اخلاص کا تاج محل ، علما کا سردار ،صلحا کا نور نظر تھا۔ جس کے فراق نے عالم اسلام کو مغموم کردیا ۔آج جہاں عالم اسلام اپنے اس عظیم علمی قائد کی جدائی سے رنجیدگی کے حال میں ہے  وہیں تنظیم علمائے اہل سنت والجماعت ،پونچھ جموں کشمیر بھی پوری ملت کیساتھ اس کے غم میں اپنے آپ کو شامل سمجھتی ہے۔ اللہ پاک ہمارے اس مثالی قائد کے درجات کو بلند فرمائے، عالم اسلام کو نعم البدل عطا فرمائے اور اہل خانہ اور تمام متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

(مولانا) سعید احمد حبیب ۔صدر تنظیم علمائے اہل سنت والجماعت پونچھ جموں کشمیر

 مفکر گجرات حضرت مولانا عبد اللہ صاحب کاپودروی رحمۃ اللہ علیہ

                جنہوں نے سیکڑوں بزرگوں کی صحبتوں سے فائدہ اٹھایا۔ جو قاری صدیق صاحب باندویؒ کے مجاز بیعت تھے، جو تمام اکابر ہند کے منظور نظر تھے، جن کو حضرت مدنیؒ سے عشق اور حضرت مولانا علی میاں صاحبؒ سے بے حد عقیدت و محبت تھی۔

                ایسے شخص کا وصال پوری امت کے لیے نقصان کا باعث ہے اور ان کی تلافی محال کے برابر ہے۔

موت العاِلم موت العالَم

                مفکر اسلام حضرت مولانا عبداللہ پٹیل صاحب کاپودروی ؒہمارے دور کے ان بزرگ علما ئے حق میں سے تھے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے دینی علوم و کتب اسلامیہ پر مہارت کے ساتھ ساتھ وقت کی ضروریات اور ملی مسائل و معلومات کے حوالہ سے بھی گہری بصیرت سے نوازا تھا۔ امت مسلمہ کی بہبودی اور فلاح کے لیے مسلسل مصروف عمل تھے۔ اللہ نے آپ کو حساس اور دینی و ایمانی غیرت اور اسلامی حمیت سے بھرپور دل عطا فرمایاتھا۔ ماضی قریب کے بہت سے اکابر اور بزرگوں سے استفادہ کا اللہ تعالی نے آپکو موقع عنایت فرمایا، ان کی توجہات اور خصوصی عنایت سے بہرہ ور فرمایا، مختلف النوع دینی لٹریچر کے وسیع مطالعہ کی دولت سے نوازا، تعلیم وتربیت کے میدان میں طویل خدمات کی انجام دہی اور نظم وانتظام اور دنیاکے ممالک کے علمی و تبلیغی اسفار کے نتیجے میں وسیع تجربات سے مالامال فرمایا، آپ کا وجود بابرکت تمام مسلمانوں کے لیے اور بـالخصوص اہل علم و اہل مدارس کے حق میں غنیمت اور بڑا قابل قدر تھا۔ مجھے ان سے چند بار ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی اور ان کی شفقتوں اور دعاؤں سے فیضیاب ہوتا رہا۔ ایک بار مجھ سے فرمایا کہ آپ میرے ہم وطن بھی ہیں۔ کیوں کہ آپؒ بچپن برما میں گزارے تھے۔

آہ!  ایک تاثر آج دل میں آرہا ہے :

آئے بھی تھے چلے بھی گئے پاکے بے خبر

ہم اپنی بیخودی میں نہ جانے کہاں رہے

                اللہ تعالیٰ پوری امت مسلمہ کی طرف سے آپؒ کوخوب جزائے خیر عطا فرمائے اور اپنی رحمت خاصہ نازل فرمائے۔

                حضرت والا کے متعلقین اور اہل خاندان؛ بالخصوص عزیز جناب حافظ ابراھیم بن عبداللہ پٹیل کاپودروی صاحب کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین

محمد یوسف دنکاکرائیڈان جامع مسجد لندن

عرفان ڈیسائی ترکیسری ٹورنٹو،کینیڈا

                آج مورخہ 10جولائی  2018 بوقت صبح تقریباً 6:45 منٹ پر یہ خبر صاعقہ بن کر گری کہ محبوب العلما والصلحا، مفکر ملت،فخر گجرات، بقیۃ السلف،استاذالاساتذہ، مرجع عوام و خواص، رئیس جامعہ فلاح دارین حضرت مولانا عبداللہ صاحب ؒطویل علالت کے بعد ہم سب کو یتیم کر کے اس دارفانی سے دارجاودانی کی طرف رحلت فرما گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون !

                حضرتؒکی شخصیت غیرمعمولی صفات کی حامل تھی۔آپ ایک کامیاب مدرس و مہتمم،بہترین مربی، صاحب علم و بصیرت و فہم وفراست،ماہر نفسیات،علم دوست،افراد ساز،مدارس و طلباکے خیرخواہ،امت کے لیے فکر مند،تقویٰ و طہارت، تواضع وانکساری،صبر و تحمل،عفو و درگزر سے مزین، طلباپر شفیق؛ مگر بہ ظاہر بارعب،طلبا کی حوصلہ افزائی، ان کی دینی و دنیوی ضرورتوں کا پورا خیال کرنا،اُن کے لیے فکر مند،بزرگوں سے قلبی تعلق و وابستگی،خوش اخلاق،خوش پوشاک،تصنع سے پاک،حق گو،اہل و عیال پر شفیق،امت کے لیے دردمند،سیاسی حالات سے باخبر، تنہائی کتب بینی سے مزین،بہترین خطیب و مصنف اور غیر تنقیدی ذہن جیسے اوصاف حمیدہ کی وجہ سے بزرگوں کے منظور نظر اور عوام و خواص میں یکساں مقبول تھے۔

                آپ کی ذات گرامی آیت کریمہ{ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین}کی مصداق اور صدیق اکبر ؓکے تاریخی جملہ’’ اینقص الدین وانا حي‘‘ کی عملی تصویر تھی۔

                اس دور قحط الرجال میں ان صفات کے حامل شخصیت کا چلے جانا علمی دنیا میں بہت بڑا خلا ہے۔

 وما کان قیس ہلکہ ہلک واحد

ولکنہ بنیان قوم تہدما

                آج حضرت ؒہمارے درمیان نہیں رہے مگر ان کی محبت و اخلاص کے نقوش ہمارے سینوں میں محفوظ ہیں۔ دل ان کی جدائی سے اداس اور آنکھیں اشک بار ہیں، حضرتؒکی اس جدائی نے فضا کو رنج و الم کے بادلوں نے گھیر لیا ہے مگر اللہ کی مرضی کے سامنے انسان عاجز ہے

  ان للّٰہ ما اخذ ولہ ما اعطي

وکل شيء عندہ لاجل مسمي

        اسلامک فاونڈیشن آف ٹورنٹومیں حفظ کے طلبا و اساتذہ نے قرآن خوانی کے بعد حضرتؒ کی مغفرت اور رفع درجات کے لیے دعائیں کیں۔

                اخیر میں دست بدعا ہوں کہ حق تعالیٰ شانہ آپ کے خون وپسینے سے سینچے ہوئے گلشن ’’فلاح دارین‘‘ کو تا قیام قیامت سر سبز وشاداب و سدا بہار رکھے اور حضرتؒ کے لیے فلاح دارین و دیگر خدمات جلیلہ کو صدقہ جاریہ بنائے۔آپ کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنائے۔جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ قیامت کے دن انبیا،صدیقین وشہداء کے ساتھ حشر فرمائے۔آپ کے اہل خانہ و پسماندگان کو صبر جمیل اور اجر جزیل عطاء فرمائے۔اور امت کو نعم البدل عطافرمائے،آپ کی صلبی وروحانی اولادوں میں آپ کے اوصاف منتقل فرمائے۔آمین!

ایں دعا از من واز جملہ جہاں آمین باد

   از:محمد عمران ڈیسائی ترکیسری پیرسٹن،یو کے

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ !

                گزشتہ کل یہ جانکاہ خبر کانوں پر بجلی بن کر گری کہ مفکر ملت، فخر گجرات،نمونہ سلف،ہمارے محسن و مربی، رئیس الجامعہ حضرت مولانا عبداللہ صاحب طویل علالت کے بعد اپنے مولائے حقیقی سے جا ملے۔

انا للہ وانا الیہ راجعون !

                حضرت رحمۃ اللہ علیہ اس عہد کی ان یگانہ ہستیوں میں سے تھے ،جن کا وجود امت مسلمہ کے لیے رحمتوںاور برکتوں کا باعث ہوتا ہے، جن کو اللہ تعالی مخلوق کی نفع رسانی کے لئے منتخب فرما لیتے ہیں۔

                ان کی مثال اس گھنے سایہ دار شجر کی تہے جس کے سایہ میں امت کے تمام افراد خصوصا اہل علم و دین کو آغوش مادر کا سکون و سرور میسر ہوتا تھا۔

آپ کی زندگی ’’خیر الناس من طال عمرہ و حسن عملہ‘‘کی مصداق تھی اور آپ کی موت ’’موت العالم موت العالَم‘‘ کی مصداق تھی۔

                میں اس رنج و ملال کے موقع پر آپ کو اور آپ کے توسط سے اہل خانہ کو تعزیت مسنونہ پیش کرتے ہوئے دعاگو ہوں کہ اللہ تعالی آپ حضرات کو صبر جمیل اور اجر جزیل عطا فرمائے اور حضرتؒ کو اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے۔آپ کی روح پر فتوح پر رحمتوں کی بارش نازل فرمائے اورمقامات قرب میں پیہم ترقی عطافرمائے۔ آمین

ویراں ہے میکدہ ، خم و ساغر اداس ہیں

تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے

نئی دہلی(یواین اے نیوز10جولائی2018)

                جمعیۃعلمائے ہندکے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے مشہور و معروف عالم دین مولاناعبداللہ کاپودرویؒ کے سانحہ ارتحال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ مولانا مرحوم معتبر اور بالغ نظر انسان تھے۔وہ ایک طویل عرصے تک جامعہ فلاح دارین ترکیسر گجرات کے سربراہ رہے اور ان کی قیادت و نگرانی میں یہ ادارہ دینی و تعلیمی میدان میں ایک نمایاں مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو ا۔مولانا مرحوم ۱۹۵۵ء میں دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوئے، وہ حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے شاگرد تھے،انھوں نے علمی میدان میں بیش بہا خدمات انجام دیں۔

                انھوں نے اہم دینی موضوعات پر ایک درجن سے زائد کتابیں تصنیف فرمائیں۔ان کے شاگردوں اور عقیدت مندوں کی بھی ایک بڑی تعداد تھی، جن کی دعوت پر وہ دنیا کے مختلف ممالک میں دعوتی و دینی اسفار بھی فرماتے۔مولانا محمود مدنی نے بتایا کہ مولانا مرحوم کا جمعیۃ علمائے ہند اور ذاتی طور سے مجھ سے کافی تعلق تھا۔

                وہ ایک زمانے تک جمعیۃ علمائے گجرات کی مجلس عاملہ کے ممبر رہے اور جماعت اور اس کی سرگرمیوں سے خصوصی تعلق رکھتے تھے۔ گجرات کے سفر کے دوران جب بھی ان سے ملاقات ہو تی تو وہ علالت کے باوجود بھی بہت ہی اخلاص اور محبت سے ملتے اورمفید مشوروں سے نوازتے۔

                مولانا مدنی نے کہا کہ مولانا مرحوم کی رحلت سے ملی و دینی حلقے میں ایک بڑا خلا پیدا ہواہے۔مولانا مدنی نے مرحوم کے لواحقین سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے ارباب مدارس و جمعیۃ علمائے ہند کے ا حباب سے مرحوم کے لیے ایصال ثواب و دعائے مغفرت کے اہتمام کی اپیل کی ہے۔                 دریں اثنا جمعیۃ علمائے ہند کے سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی جو’’ انجار‘‘ میں ہیں، انھوں نے بتایا کہ ان کی وفات کی اطلاع ملتے ہی جمعیۃ چلڈرن ولیج انجار میں قرآن خوانی و ایصال ثواب کا اہتمام کیا گیا