تذکرہ حضرت مولانا عبداللہ کاپودروی
تذکرہ نگار:مرغوب الرحمن سہارنپوری 9897109226
marghoob84@gmail.com
/25شوال کو شام 7بجکر 33 منٹ پر درسی ساتھی، برادر عزیز مولانا محمد مرتضی گودھروی نے بذریعہ واٹس ایپ جامعہ فلاح دارین کا لیٹر پیڈ ارسال فرمایا، جس پر مفکر ملت، مخدوم العلما بقیۃ السلف حضرت مولانا عبداللہ کاپودروی نوراللہ مرقدہ و برد اللہ مضجعہ کے حادثۂ وفات کی اطلاع تھی۔
یہ تحریر پڑھ کر دل بیٹھ سا گیا، اور چند سالوں پہلے کی یادیں تازہ ہوگئیں، حضرت والا سے ہمارا پہلا تعارف آپ کی تحریروں کے ذریعہ ہوا تھا، یہ تحریریں مانک مئو سے شائع ہونے والے رسالہ "حرا کا پیغام” کے توسط سے حاصل ہوتی تھیں، بعد میں یہ تحریریں نظر ثانی اور مزید مفید اضافوں کے ساتھ "رشد و ہدایت کے منار” کے نام سے منصہ شہود پر آکر مقبول عام ہوئیں۔
اتفاق ہے کہ راقم سطور کو اس عبقری شخصیت کی زیارت کا شرف حاصل نہ ہوسکا، البتہ آپ کی تحریروں سے استفادہ کا موقع ملا ہے،فالحمد للہ علی ذلک ۔
آپ کے کارنامے اور خدمات اتنی جلیل القدر ہیں، جن کی گونج ملک و بیرونِ ملک ہر جگہ سنائی دیتی ہیں، حضرت کاپودروی علیہ الرحمہ کو حق جل مجدہ نے عجیب و غریب خوبیاں اور بہت سی اہم صفات ودیعت فرمائی تھیں۔علم و عمل، اخلاق و معاشرت، استقلال و توکل، اتباع حق و احقاق حق، عاجزی وانکساری، صبر و تحمل، وسعت مطالعہ، فہم و فراست، عقل و دانش، حسن تدبر و تفکر، نظم و نسق، حفاظت اوقات اور ضبط اوقات، مہمان نوازی و خورد نوازی، بالغ نظری اور کشادہ قلبی کا وافر حصہ مرحمت فرمایا تھا۔مشہور مقولہ ہے لکل فن رجال لیکن اگر آپ کے بارے میں یہ کہا جائے رجل لکل فن تو بے جا نہ ہوگا، جتنی خوبیاں آپ میں تھیں، اتنی خوبیاں کسی ایک شخص میں کم دیکھنے اور سننے میں آتی ہیں، خصوصا آج کے دور میں۔
مدت کے بعد ہوتے ہیں پیدا کہیں وہ لوگ
مٹتے نہیں ہیں دہر سے جن کے نشاں کبھی
ہم اپنے قارئین کی خدمت میں حضرت والا کی وہ صفات پیش کرتے ہیں، جو ہم نے سنی ہیں یا پڑھی ہیں، یا یہ کہیئے کہ کچھ بکھرے ہوئے خیالات ہیں جن کو یکجا کردیا گیا، ان صفات کو سپرد قرطاس کرنے کامقصد یہ ہے کہ ان خوبیوں کو ہم بھی اپنی زندگیوں میں اتاریں، تاکہ دونوں جہاں میں کامیابی و کامرانی حاصل ہوسکے۔اللہ تعالی شانہ اس حقیر کو بھی عمل کی توفیق مرحمت فرمائے۔
آپ کا ایک خاص وصف یہ تھا کہ وقت کے بڑے پابند اور قدردان تھے، خود بھی وقت کی پوری پابندی فرماتے، ہر ہر منٹ کو قیمتی بناتے، وقت کو ضائع کرنے سے بالکلیہ اجتناب فرماتے، آپ کا ہر ہر کام نظم و ضبط کے ساتھ وقت پر ہوتا تھا، غیر فطری طور پر یہ صفت آپ کے خدام و شاگردان میں بھی پیدا ہوئی، ساتھ ہی دوسروں کو بھی پابندیٔ اوقات اور حفاظت اوقات کی تلقین فرماتے، اور وقت کو قیمتی بنانے کی نصیحت فرماتے۔
سنت ابراہیمی پر قابل دید جذبۂ عمل
مہمان نوازی جیسی عمدہ صفت آپ میں خوب نمایاں تھی، آپ مہمان کے احترام و اکرام میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے، چاہے اس مہمان سے آپ کو رتی برابر دنیاوی فائدہ نہ بھی ہو ،لیکن پوری فیاضی و سخاوت کا مظاہرہ فرماتے، نہ وقت دیکھتے، نہ خرچ دیکھتے، اور نہ اپنی تکلیف و کلفت کا احساس فرماتے، یہ اس دور کی بات ہے جب لوگوں کا مزاج خودغرضی کا بن گیا ہو، اگر چہ شاعر نے یہ گلہ کیا ہے کہ
اڑ گیا دنیا سے پیسا، گم سخاوت ہوگئی
لیکن حال یہ ہے کہ باوجود پیسہ ہونے کے سخاوت گم ہے، یا شاعر کی روح سے معذرت کے ساتھ ہم یوں عرض کرتے ہیں کہ رہ گیا دنیا میں پیسا، گم سخاوت ہوگئی، اس وقت صرف اللہ کی رضا جوئی کے لئے خرچ کرنا بڑے ایثار اور دریا دلی کی بات ہے، گویا زبان حال سے یہ آیت تلاوت فرماتے رہتے، انما نطعمکم لوجہ اللہ، لا نرید منکم جزا ء ولا شکورا [سورہ دھر:۹]اس مہمان نوازی کے پیچھے ایک اہم کردار آپ کی اہلیہ محترمہ رحمۃ اللہ علیہا کا ہے، ہر وقت مہمان عظام کی خدمت کے لئے سربستہ اور چاق و چوبند رہتیں۔ اللہ تعالی مرحومہ کو اپنی شان کے مطابق بہترین بدلہ عطا فرمائے۔
فیاضی و سخاوت کا دوسرا پہلو یہ بھی تھا کہ کوئی نئی بات، کتاب، رسالہ یا مضمون آپ کو معلوم ہوتا تو اس کو اپنی بساط اور وسعت کے مطابق قدر دانوں اور اہل علم کو پہنچانے کی پوری سعی کرتے، اس کی ایک مثال پیش خدمت ہے۔
اپنے شاگرد حضرت مولانا اقبال ٹنکاروی صاحب مدظلہ (شیخ الحدیث، دارالعوام ماٹلی والا، بھروچ)کو تحریر فرمایا کہ ابھی علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ کی "الفوائد المجموعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ” کا مطالعہ کررہا تھا،۔۔۔۔۔
رزین کے بارے میں کچھ نئی باتیں سامنے آئیں، وہ مشکوٰۃ شریف کے اساتذہ کے کام کی ہیں، ترکیسر، ہانسوٹ، کنتھاریہ، جمبوسر کے اساتذہ کو مطلع فرمائیں اور اگر ان کے پاس مزید معلومات ہوں تو بندہ کو مطلع فرماکر احسان فرمائیں،میرے جیسے طالب علم کے لئے آپ کا تعاون مفید ثابت ہوگا، ان شاء اللہ[تذکرۃالرئیس، ص 124]
اپنے ذاتی کتب خانہ کے دروازے بھی اہل ذوق کے لئے ہمیشہ کھلے رکھتے اور بالکل بھی بخل سے کام نہ لیتے، آج کے ماحول میں یہ چیز بھی عنقا ثابت ہوچکی ہے،خصوصا ہمارے دیار میں ان اللّٰہ…….. کریم یحب الکرم جود یحب الجود [ترمذی :2799]
سخاوت اس کی ہے تخمینہ سے فزوں ایسی
کہ جنس وزن سے خالی ہے، دامن مکیال دیکھ کر
شاہ کرم گستر کی بے حد بخششیں
کھل گیا حاتم کے احسان و سخاوت کا بھرم
دسترخوان کی کشادگی مل سکتی ہے لیکن اپنی کتابوں سے دوسروں کو استفادہ کا موقع فراہم کرنا، اللہ معاف کرے بڑے بڑے اس موقع پر کنّی کاٹ جاتے ہیں۔
جمع کتب اور مطالعہ کتب کا عجیب شوق
کتابوں کو جمع کرنے اور مطالعہ کے بڑے شوقین تھے، اگر یہ کہا جائے کہ مطالعہ کے بڑے رسیا تھے تو مبالغہ نہ ہوگا،
سرور علم ہے کیف شراب سے بہتر
کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر
(پیر زادہ عاشق کیرانوی)
کونسی کتاب کس مصنف کی ہے ؟ کس کی تحقیق ہے ؟ کونسے ادارہ سے شائع ہورہی ہے ؟ ان چیزوں کی بڑی جستجو اور تلاش رہتی، کتابوں کے حصول کے سلسلہ میں وقت، محنت، مال اور کسی بھی طرح کی قربانی سے دریغ نہ کرتے،آپ ہر فن کے مطالعہ کے شیدائی تھے، آپ کوعربی اور اردو زبان و ادب سے بھی بے پایاں شغف تھا۔ خود بھی مطالعہ فرماتے طلبہ اور دیگر متعلقین میں بھی مطالعہ کا شوق پیدا کرنے کی پوری کوشش کرتے، اس سلسلہ میں اسلاف کے شوقِ مطالعہ کے واقعات اور ان کی محنت و مجاہدات کی باتیں سناکر ان کے ذوق کو جلا بخشتے۔
آپ کو اللہ تعالی نے اساتذۂ کرام بھی ایسے ہی عطا فرمائے تھے جنہوں نے آپ کے اندر مطالعہ کی روح پھونک دی، خود فرماتے ہیں کہ اسی (مولانا عبد الحئی ڈابھیلی کے)کمرہ میں مولانا شبلی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی "الفاروق” رکھی تھی، میں نے اس کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا، اور اس کتاب کے پڑھنے میں اتنا لطف آیا کہ چند روز تک اسی میں منہمک رہا، اور غالبا مجھے کتب بینی کا شوق اسی کتاب کے مطالعہ سے پیدا ہوا”۔[صدائے دل، ج 1 ص 41]
مولانا ڈابھیلی علیہ الرحمہ کو جب آپ کے مطالعہ کے بارے میں معلوم ہوا تو مطالعہ کرتے رہنے کی تاکید فرمائی، اور جب "الفاروق” کا مطالعہ پورا ہو چکا تو "سیرت عمر بن عبد العزیز” پڑھنے کی تاکید فرمائی۔آپ نے اپنے اور فلاح دارین کے کتب خانہ میں ہر فن کی معیاری کتب جمع فرمائیں، اور اس کے لئے دور دراز کے مشقت بھرے اسفار سے بھی گریز نہ فرمایا، خود تحریر فرماتے ہیں کہ :
1968ء میں دارالعلوم فلاح دارین کے کتب خانہ کے لئے فراہمیٔ کتب کے سلسلہ میں بندے نے عراق، اردن اور سعودیہ کا سفر کیا، اور مدینہ منورہ کے "المکتبۃ العلمیۃ ” سے کافی کتابیں خریدیں”۔[رشد و ہدایت کے منار، ص 84]
حضرت مولانا قاری محمد صدیق صاحب فلاحی فرماتے کہ "حضرت رئیس محترم، فلاح دارین کے کتب خانے میں ہر فن کی کتابیں جمع فرماتے اور متعلقہ فنون کے اساتذہ کو ان کتابوں سے باخبر بھی کرتے”۔
[گلدستۂ محبت، ص 408]
اس سے آپ کے اعلی علمی ذوق اور وقیع علمی شوق کا پتہ چلتا ہے،بعض حضرات کی رائے تو یہ ہے کہ گجرات میں کسی کا ذاتی کتب خانہ کماً و کیفاً اتنا معیاری نہیں ہوگا، جتنا کہ آپ کا، کیونکہ اس میں کئی نادر علمی و ادبی شہ پارے موجود ہیں۔
آپ نے اپنا یہ ذاتی کتب خانہ جامعہ قاسمیہ، کھروڈ کو وقف کردیا ہے۔
جہاں جاتے وہاں کی لائبریریوں کا ضرور دیدار فرماتے، یہ آپ کا محبوب مشغلہ تھا، اس سلسلہ میں آپ نے ایک رسالہ "ماضی و حال کے اہم کتب خانے” بھی تحریر فرمایا، [مشمولہ، افکار پریشاں جلد اول]،جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے، بعض مرتبہ وہاں کتابیں دیکھ کر، کڑھن ہوتی کہ ہم خود اپنے اسلاف کی کتب سے بے بہرہ اور محروم ہیں، تو زبان حال سے علامہ اقبال (۱۳۵۷ھ ۔۱۹۳۸ء)کا یہ شعر پڑھتے:
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
بہت سی مرتبہ وہ شعبوں کے ماہرین سے ایسی کتابوں کے نام کا ذکر کرتے، جنہیں انہوں نے کبھی سنا تک نہ ہو،اس سے آپ کی بلند علمی، عالی فکر اور ادبی مذاق کا پتہ چلتا ہے۔
افراد سازی اور رجال سازی
افراد کو بنانے اور ان میں نکھار پیدا فرمانے کا بڑا خیال فرماتے تھے ،جس میں جو صلاحیت اور ذوق دیکھتے اس میں نکھار پیدا فرماتے، تربیت فرماتے اور مہمیز لگاتے رہتے، اور ان کے اندر خود اعتمادی کی روح پھونکتے، چاہے وہ آپ سے آگے ہی کیوں نہ بڑھ جائے، حضرت والا کو اس بات کی فکر نہیں ہوتی تھی، وہ بھی آج کے دور میں، یہ بڑے دل گردہ کی بات ہے، اور یہ اعلی درجہ کی عاجزی و فروتنی، اور ذرہ نوازی ہے۔ خصوصاً اپنے طلبہ پر بڑی محنت فرماتے اور اس کوشش میں لگے رہتے کہ یہ رجال کاربن جائیں۔اسی طرح نظام تعلیم اور طریقہ تدریس پر بھی خوب توجہ فرماتے، اور دوسرے حضرات کو بھی قیمتی مشوروں سے نوازتے رہتے، اسی سلسلہ میں آپ نے 28/ذیقعدہ 1429ھ مطابق27/نومبر 2008ء بروز جمعرات ایک مجلس بھی قائم فرمائی، جس کا عنوان تھا، "تعلیمی، تربیتی اور فکری بیداری، فنی اساتذہ کرام ہی پیدا کرسکتے ہیں”۔ جس میں متعدد مدارس کے ارباب علم اور فضلا کو دعوت شرکت دی گئی تھی، اس میں آپ نے ایک نہایت قیمتی خطاب فرمایا، اپنے اس فکر انگیز خطاب میں آپ نے نہایت قیمتی مواد فراہم کرایا۔ [ملاحظہ ہو، صدائے دل ج 4، ص29-96
اس خطاب کو پڑھنے کے بعد اس حقیر کا یہ تاثر پیدا ہوا تھا کہ حضرت مولانا شش جہتی فنکار ہیں،آپ سے مشورہ حاصل کرنے والوں میں صرف مدارس کے طلبہ اور اساتذۂ کرام ہی نہیں ہوتے تھے، بلکہ اسکول اور کالج کے اسٹوڈنٹس اور ٹیچرس بھی آپ کے مفید مشوروں کے ذریعہ اپنے تعلیمی نظام میں اصلاح کرتے تھے۔حق تعالی شانہ نے مزاج شناس، صاحب نظر بنایا تھا اور آپ سنگریزوں میں گوہر کو پہچاننے کا ہنر جانتے تھے۔ ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشا واللہ واسع علیم۔[سورہ مائدہ:۵۴]
اصاغر پروری اور ذرہ نوازی کا حسین امتزاج
اپنے سے کم درجہ کے صاحب فضیلت کی فضیلت کا برملا اعتراف کرنے میں کبھی جھجھک محسوس نہ فرماتے،اگر کوئی چھوٹا کوئی اچھا کام کرتا تو اس کی بھی حوصلہ افزائی فرماتے اور تشجیعی کلمات و انعامات سے نوازتے، ساتھ ہی مفید مشوروں کے ذریعہ بھی رہنمائی فرماتے، اور اس کو یہ احساس نہ ہونے دیتے کہ کام چھوٹا ہے۔
ایک مرتبہ مولانا عبد الرحیم صاحب لمباڈا(استاد حدیث، دارالعلوم بری)کو مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو جوتے پہن کر باہر ملاقات کے لئے کھڑے ہوگئے، بیٹے نے کہا چلیں، فرمایا ! مولانا عبد الرحیم صاحب سے ملاقات کرکے چلتے ہیں، کسی نے یہ کہدیا کہ یہ آپ سے کتنے چھوٹے ہیں، تو اس پر آپ نے فرمایا کہ بھائی یہ استاد حدیث ہیں، اس لئے ہمیں ان کی قدر کرنی چاہیے۔
جو اعلی ظرف ہوتے ہیں، ہمیشہ جھک کے ملتے ہیں
صراحی سر نگوں ہو کر بھرا کرتی ہے پیمانہ
(حیدر علی آتش)
تعصب وتحزب سے پرہیز
حضرت والا میں تعصب و تحزب اور بیجا حمایت نامی کوئی چیز نہیں تھی، چاہے وہ کسی بھی علاقہ، ادارہ، اور کسی بھی مسلک و مشرب سے تعلق رکھتا ہو، اگر وہ شخص لائق تعریف ہوتا تو برملا اس کی تعریف و توصیف فرماتے اور حوصلہ افزائی فرماتے۔ گویا حدیث شریف لیس فی قلبک غش لاحد[ترمذی :۲۶۷۸]کی منھ بولتی تصویر تھے۔
اہل اللہ سے تعلق
آپ میں ایک عمدہ جوہر یہ بھی تھا کہ آپ اکابرین امت اور اللہ والوں سے دلی تعلق رکھتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین و تعلیم فرماتے، ایک مرتبہ فرمایا کہ”دین سے جڑنے کے لئے اسلاف و اکابر سے جڑنا ضروری ہے، اسلاف سے کٹ گئے تو دین سے کٹ جائیں گے” ۔ان سے استفادہ کی بھرپور کوشش کرتے تھے اور دوسروں کو بھی یہ موقع فراہم کراتے، تاکہ استفادہ آسان اور عام ہو، اور موقع بموقع بزرگوں کو فلاح دارین اور کاپودرہ مدعو فرماتے۔طلبہ عزیز کو بھی اسلاف کی سیرت کے واقعات و حالات سناتے اور ان کو اپنی زندگیوں میں اتارنے کی بھی نصیحت فرماتے۔اپنے کینیڈا کے ایک بیان میں فرمایا کہ "ہمیں اسلاف کے ان کارناموں پر نظر کرنے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے کس طرح مشکل حالات میں کام کیا، ہماری یہ حالت ہوگئی ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کے نام اور ان کے کارناموں سے بھی واقف نہیں ہیں، ایک طالب علم سے پوچھا کہ حضرت مولانا محمود الحسن شیخ الہندؒ (1339ھ 1920 ء)کون تھے ؟ تو کہا کہ حضرت مدنی کے والد صاحب تھے، ہمیں اتنا افسوس ہوا کہ یہ اوپر کے درجے کا طالب علم ہے اور اسے شیخ الہند کے بارے میں معلوم نہیں ہے کہ وہ کون تھے ؟……اس شخص کے بارے میںہمارا حلقہ ناواقف ہے، تو یہ بڑی کمزروی کی بات، میں ہمارے ان فضلا سے خاص طور سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ وہ اکابر کے حالات سے پوری طرح واقف رہیں”۔ [تذکرۃ الرئیس، ص 147]
نعم البدل ہے داغ کا حالی، کلام داغ
ذکر حبیب کم نہیں وصل حبیب سے
(مولانا الطاف حسین حالی)
دارالعلوم فلاح دارین ترکیسر اور آپ کی خدمات
آپ نے اپنی علمی،تعلیمی،تربیتی اور انتظامی لیاقت کے سبب دارالعلوم فلاح دارین ترکیسر کو بام عروج تک پہنچادیا اور اس کو ترقی دلانے میں پوری تگ و دو فرمائی، باصلاحیت اور تجربہ کار اساتذہ کو جامعہ میں چن چن کر جمع فرمایا اور اس کے لئے مشقت بھرے متعدد سفر فرمائے، حق تعالی شانہ نے آپ کی محنتوں کو ثمر آور فرمایا اور جامعہ کو شہرتوں کی بلندیوں پر پہنچا دیا اور اس ادارہ سے ایسے رجال پیدا ہوئے جو چہار دانگ عالم میں قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں بلند فرمارہے ہیں۔فجزاہم اللہ تعالی
چمن میں بہار اب جو آئی ہوئی ہے
یہ سب پود ان کی لگائی ہوئی ہے
بڑی مدت میں ساقی دیکھتا ہے ایسا دیوانہ
بدل دیتا ہے جو بگڑا ہوا دستور میخانہ
احساس ذمہ داری
آپ جس عہدہ پر رہتے اس ذمہ داری کو کما حقہ ادا کرتے، ورنہ اس سے دستبردار ہوجاتے، اس عہدہ کو اپنے سے چمٹائے نہ رکھتے، خود حضرت کی زبانی ملاحظہ فرمائیں:
’’ میرا مزاج عہدہ کو پکڑے رکھنا نہیں ہے، 26/سال کے بعد دارالاقامہ کی اوپر کی منزلوں میں جاتے وقت جب میں نے محسوس کیا میری سانس پھولتی ہے تو میں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ اب یہ میرا کام نہیں۔
آپ کی علمی، دینی، ملی، فکری، دعوتی، تعلیمی،تعمیری، تربیتی، انتظامی، وسیع تجربات و محنت کی بنا بہت سی تنظیموں اور اداروں نے آپ کو اپنا مشیر و ممبر اور سرپرست بنا رکھا تھا، ان اداروں کا تذکرہ آگے آئیگا۔ انشا اللہ
نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پر سوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے
(علامہ اقبال)
حضرت والا کی علمی رفعت وقعت اہل علم کے مابین مسلم تھی، جس کے لئے چند شہادتیں پیش کی جاتی ہیں:
[1]حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام علیہ الرحمہ( 1423ھ 2002 ء )نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ گجرات میں دو شخصیات نے علم کو سمجھا ہے، حسن اتفاق سے دونوں کا نام عبداللہ ہے، ان سے مراد مفکر ملت عبداللہ کاپودروی اور مفتی عبد اللہ رویدروی مظاہری ہیں[روزنامہ کشمیر عظمی، سرینگر]
[2] حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالنپوری دامت برکاتہم العالیہ آپ کے متعلق لکھتے ہیں کہ آپ مدبر، مفکر، عالی ظرف اور سیر چشم سراپا جہد و عمل اور دوسروں کی ترقی کے خواہشمند رہتے ہیں۔ [تذکرۃالرئیس، ص 133]
حضرت مولانا مفتی عبد القیوم راجکوٹی دامت فیوضہم تحریر فرماتے ہیں کہ مخدوم گرامی حضرت مولانا عبداللہ صاحب کاپودروی مدظلہم (اب، رحمۃ اللہ علیہ) کا شمار جامعہ(اسلامیہ تعلیم الدین، ڈابھیل) کے ان خوش قسمت فرزندوں میں ہے جن پر جامعہ کو ناز و فخر حاصل ہے۔[اجلاس صد سالہ، ص 49]
علمی شغف
آپ علم و ادب کے دل دادہ، اور ان سے گہرا شغف رکھتے تھے، جس کا اندازہ مختلف مواقع پر لکھی گئی آپ کی تحریروں اور مضامین سے لگایا جاسکتا ہے، آپ کی مختلف کتابیں اور نثری مجموعے، علم و ادب اور فکر و نظر کے میدان میںآپ کے کمال اور بے پناہ عبقریت کے گواہ ہیں۔ آپ عربی، اردو اور گجراتی ،تینوں زبانوں میں لکھتے تھے، آپ کی عربی کتابوں میں "اضواء علی تاریخ الحرکۃ العلمیۃ و المدارس الاسلامیۃ العربیۃ فی غجرات الہند( ریاستِ گجرات کے دینی و عربی مدارس اور یہاں کی علمی تحریک کا جائزہ) اہم ہے۔
آپ کی علمی لیاقت و صلاحیت کا ایک اور شاہکار دیوان الامام الشافعی جیسی معرکۃ الآرا کتاب، جو ہندوستان کے متعدد مدارس میں شامل نصاب ہے، کا اردو ترجمہ اور اس کی تشریح ہے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ اس سے قبل نہیں ہواتھا، جس کی وجہ سے اردو داں طبقہ امام شافعی علیہ الرحمہ کے اشعار کو سمجھنے سے قاصر تھا، مولانا نے اس کمی کو دور کرکے اردو داں طبقہ پر احسان عظیم فرمایا ہے، اس کتاب کے شروع میں مولانا علیہ الرحمہ نے حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے حالات زندگی کو بھی شامل فرمایا ہے۔
مولانا نے کئی کتابیں بھی تصنیف فرمائیں، جو مندرجہ ذیل ہیں:
اضواء علی تاریخ الحرکۃ العلمیۃ و المدارس الاسلامیۃ العربیۃ فی غجرات الہند[عربی]۔
علامہ بدر الدین عینی اور علم حدیث میں ان کا نقش دوام
(عربی مقالہ بدر الدین العینی و اثرہ فی علم الحدیث (شیخ صالح یوسف معتوق[ اردو ترجمہ]۔
دیوان امام شافعی علیہ الرحمہ[ترجمہ و تشریح]۔
نصیحۃ المسلمین (رسالۃ المسترشدین (شیخ ابو عبداللہ حارث بن اسد محاسبی[کا اردوترجمہ و تشریح]۔
مکارم الشیم (عنوان الحکم (ابو الفتح علی بن محمد بن حسین السبتی[ کا اردو ترجمہ و تشریح]۔
آداب المعلم والمتعلم فی حلقات تحفیظ القرآن [عربی سے اردو]۔
حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی اور ان کے نامور خلفا [گجراتی]۔
علامہ قطب الدین نہروالی اور ان کی علمی خدمات۔
علامہ یوسف بنوری اور خدمات حدیث۔
رشد و ہدایت کے منار۔
چالیس احادیث [عربی، گجراتی، انگریزی]۔
گلشن کاپودرہ [گجراتی]۔
صدائے دل [4 جلدیں]۔
صدائے دل [جلدنمبر۵زیر ترتیب]۔
افکار پریشاں [2 جلدیں]۔
قصیدہ موت کی یاد میں [33 عربی اشعار کی شرح مع حل لغات]۔
مقدمات کاپودروی۔
رہتا قلم سے نام قیامت تلک ہے ذوق
اولاد سے تو ہے یہی دو پشت چار پشت
تقریر و خطابت کا مسحور کن فن
حضرت علیہ الرحمہ کو تقریر و خطابت کا بھی عمدہ فن آتا تھا، جب بولتے تو گویا موتی رولتے، آپ کے بیانات اصلاحی ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے علمی اور معلوماتی بھی ہوتے تھے، بیان میں طعن و تشنیع اور تعریض سے پرہیز و اجتناب فرماتے، محبت اور پیار سے سمجھاتے، آپ کے خطبات کے تعلق سے حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں کہ”دنیا کے مختلف ممالک میں اپنے مواعظ اور علمی و اصلاحی مجالس سے طلبہ و علمائے کرام اور علمی و دینی حلقوں کو اپنے درد بھرے دل اور میٹھی زبان سے فیضیاب کررہے ہیں”۔ [صدائے دل]
حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالنپوری دامت برکاتہم تحریر فرماتے ہیں کہ آپ کے بیان میں بظاہر نہ جوش وخروش ہوتا ہے، نہ پر تکلف لسانی، نہ لہجہ و ترنم، نہ خطیبانہ ادائیں مگر اس کے باوجود خطابات اس قدر موثر کن اور مسحور کن ہوتے ہیں کہ ان سے عوام و خواص یکساں طور پر مستفید ہوتے ہیں۔ [صدائے دل]
صاف ستھرے لیکن منکسر المزاج
ہمیشہ صاف ستھرے رہتے تھے طبیعت میں نفاست و نظافت کوٹ کوٹ کر بھری تھی، آپ کو دیکھ کر حدیث شریف، ان اللہ۔۔۔۔۔نظیف یحب النظافۃ،[ترمذی:۲۷۹۹] ذہن میں نہ صرف گونجنے لگتی تھی بلکہ اس کی عملی تفسیر بھی سمجھ میں آتی تھی، لیکن ساتھ ہی بڑے سادہ مزاج اور منکسر المزاج تھے، آپ کے یہاں ہٹو بچو والی نزاکتیں نہیں تھیں ،بناوٹ اور تصنع سے ہمیشہ دور رہتے تھے، نام نمود سے پرہیز فرماتے، اور اس طرح حدیث شریف البذاذۃ من الایمان [ ابوداود:۴۱۶۱] کی عملی تشریح بھی دیکھنے کو ملتی تھی، اور زبان سے وما انا من المتکلفین[سورہ ص :۸۶]کا زمزمہ زبان حال سے جاری ہوتا۔
تصوف و سلوک
آپ کا اصلاحی تعلق شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ(1377ھ 1957 ء)سے رہا،چنانچہ آپ حضرت مدنی سے جناب موسی خان صاحب، واپی کے دولت کدہ پر بیعت ہوئے(غالبا ًیہ 1952ء کی بات ہے)اور آپ کے وصال کے بعد آپ کے فرزندِ ارجمند حضرت مولانا سید اسعد مدنی رحمۃ اللہ علیہ (1427ھ 2006 ء)کی طرف رجوع فرمایا۔ مختلف اوقات میں مختلف بزرگوں کی خدمات عالیہ میں حاضر ہو کر فیض یاب ہوتے رہے، خصوصاًحضرت مولانا شاہ عبد القادر صاحب رائیپوری(1382ھ 1962ء) حضرت مولانا شاہ وصی اللہ خان صاحب الہ آبادی(1387ھ 1967ء)،شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریاصاحب کاندھلوی(1402ھ 1982ء)، حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب(1403ھ 1983ء)، حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب جلال آبادی(1413ھ 1992ء)، حضرت مولانا عبد الحلیم صاحب جونپوری(1420ھ 1999ء)، حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی صاحب(1420ھ1999ء)، حضرت مفتی محمود الحسن صاحب گنگوہی(1417ھ 1996ء)، حضرت قاری صدیق صاحب باندوی(1418ھ 1997ء)، حضرت مولانا ابرار الحق صاحب حقی، ہردوئی(1426ھ 2005ء)، حضرت مولانا حاجی فاروق صاحب سکھروی، نور اللہ مراقدہم کی خدمات بابرکات میں بار بار جاکر اپنے قلب کو مزید مصفی و مجلی فرماتے رہے۔
آپ کو نو اکابرین امت نے اجازت و خلافت کی خلعت سے نوازا تھا، لیکن کبھی اس کو نام و نمود اور شہرت کا ذریعہ نہیں بنایا اور نہ کبھی اس کا ذکر فرماتے تھے۔ ان بزرگان دین کے اسم گرامی آگے آتے ہیں۔
اس قحط الرجال کے دور میں کسی فرد واحد میں اتنی خوبیوں کا ہونا کسی عجوبہ سے کم نہیں، معلوم نہیں کسی اللہ والے کی دعا کا نتیجہ ہے، یا پھر حق تعالی شانہ کو آپ کی کونسی ادا پسند آئی جس کے نتیجہ میں آپ کو جامع الکمالات اور جامع الصفات بنا دیا تھا، خود حضرت تحریر فرماتے ہیں کہ والد ماجد کے تعلقات برما میں علما کے ساتھ اور ہندوستان میں بھی علما کے ساتھ بڑے اچھے تھے تو آپ کے والد صاحب علما سے آپ کے لئے دعائیں کرواتے تھے؛ یہاں تک کہ ایک خط(مورخہ6/شوال 1356ھ) میں حضرت اقدس تھانوی رحمتہ اللہ علیہ(1863ھ 1943ء) سے بھی دعا کی درخواست والد ماجد صاحب نے کی تھی، تو حضرت تھانوی رحمتہ اللہ علیہ نے جواب میں ارشاد فرمایا "دعا کرتا ہوں”۔
سوانحی نقوش:
نام نامی: مولانا عبداللہ بن اسماعیل(1978) بن حسین قاسم پٹیل (1909)
پیدائش: 11/رمضان المبارک 1352ھ بمطابق 28 /دسمبر 1933 کو ہوئی۔
جائے ولادت: آپ کی ولادت برما کے ہیہو (HEHO) نامی شہر میں ہوئی۔
برما سے ہندوستان آمد :حضرت کی عمر دو سال کی تھی کہ آپ کے والد ماجد 1935 میں برما سے ہندوستان تشریف لائے، اور کاپودرا میں قیام فرمایا، ویسے آپ کے والد محترم کا جدی علاقہ جیتالی نامی گاوں تھا اور عرصہ سے آپ کا خاندان یہاں کا پٹیل(مکھیہ) تھا۔
تحصیل علم:آپ کی تعلیم 1937 میں کاپودرا کے مدرسہ تعلیم الاسلام، المعروف مدرسہ اسلامیہ، میں شروع ہوئی، حافظ ابراہیم بن اسمعیل ملا صاحب سب سے پہلے استاد ٹھہرے، قاعدے سے قرآن کریم اور اردو قاعدے سے تعلیم الاسلام، بہشتی ثمر (دونوں حصے) آ ںمحترم سے پڑھنے کا شرف حاصل کیا۔ ساتھ ہی گاوں کے اسکول میں پانچ کلاس تک کی عصری تعلیم مکمل کی۔
شوال 1363ھ ستمبر 1944 میں گجرات کی مایہ ناز درسگاہ جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل میں داخلہ لیا اور فارسی کی ابتدائی تعلیم مولانا احمد بن داود کفلیتوی رحمۃ اللہ علیہ( 1408ھ 1988ء) اور مولانا عبدالحی بن مفتی اسمعیل بسم اللہ صاحب ڈابھیلی رحمۃ اللہ علیہ( 1396ھ 1976ء) سے حاصل کی،اس کے بعد عربی تعلیم کی ابتدا مولانا عبدالحی بسم اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے ہوئی۔
درجہ عربی دوم کی کتب (نورالایضاح، قدوری، ہدایۃ النحو، علم الصیغہ، بحر الآداب(مصری)، تیسیرالمنطق وغیرہ)مولانا محمد بن ابراہیم ڈابھیلی المعروف صوفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ( 1382ھ 1962ء غالبا) سے پڑھیں۔
تجوید و قرات کی تعلیم:تجوید اور قرات کی تعلیم، آپ نے حضرت قاری بندہ الہی صاحب میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ، اور حضرت قاری محمد حسن صاحب امروہوی رحمۃ اللہ علیہ (1395ھ 1975ء)سے حاصل کی۔
شوال 1367ھ اگست 1948 میں، عربی دوم سے آگے کی مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے، دارالعلوم دیوبند کا سفر کیا اور شرح جامی کے سال میں داخلہ ہوا، آپ نے شرح جامی مولانا سید فخر الحسن صاحب امروہوی رحمۃ اللہ علیہ( 1400ھ 1980ء) سے، کنز الدقائق مولانا نصیر احمد خان صاحب گلاوٹھوی رحمۃ اللہ علیہ (1431ھ 2010ء) سے نفحۃ العرب مولانا سید حسن صاحب دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ(1381ھ 1961ء غالبا) سے پڑھی، ساتھ ہی نصاب سے الگ اپنی لگن سے اصول الشاشی مولانا محمد نعیم صاحب دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ( 1428ھ 2007ء) سے پڑھی۔
1368ھ 1949 میں شرح وقایہ مولانا نصیر احمد خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ، مقامات حریری مولانا سید معراج الحق صاحب دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ( 1412ھ 1991ء) سے پڑھیں، درمیان سال میں طبیعت کی ناسازی کی بنا پر گھر تشریف لے گئے، اس کے بعد دوبارہ ڈابھیل میں داخلہ کا مشورہ ہوا، اور یہاں عربی پنجم میں آپ کا داخلہ ہوا، یہاں اس سال ہدایہ اولین، اور متنبی حضرت مولانا محمد پانڈور صاحب سملکی رحمۃ اللہ علیہ( 1417ھ 1996ء) سے مختصر المعانی اور حسامی حضرت مولانا عبد الروف صاحب پشاوری رحمۃ اللہ علیہ(1423ھ 2002ء) سے پڑھیں۔
مشکوٰۃ شریف اور شرح عقائد مولانا عبد الروف صاحب پشاوری رحمۃ اللہ علیہ، جلالین شریف مولانا عبد الجبار صاحب اعظمی رحمۃ اللہ علیہ( 1409ھ 1989ء)، اور ہدایہ آخرین حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب دیوبندی رحمۃاللہ علیہ کے پاس پڑھی۔
1372ھ 1953 میں دورہ حدیث شریف سے فراغت حاصل کی۔
بخاری شریف جلد اول حضرت مولانا عبد الجبار صاحب اعظمی سے، بخاری شریف جلد ثانی، مسلم شریف اور طحاوی شریف، حضرت مولانا عبد الروف صاحب پشاوری سے، اور ابوداود شریف حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب دیوبندی سے پڑھی۔ فرحمہم اللہ رحمۃواسعۃ
چونکہ مولانا کو عربی سوم اور چہارم کی کتب کی تکمیل نہ ہونے کا کلک تھا، تو اس کی مکافات کی شکل یہ نکالی کہ اس وقت مولانا اسماعیل صاحب رحمۃ اللہ علیہ( 1404ھ 1984ء غالبا) کے دو صاحب زادے(مولانا عبد الرحمن، حافظ حبیب الرحمن) دارالعلوم دیوبند میں زیر تعلیم تھے، ان کے ساتھ رہ کر اساتذہ دارالعلوم سے دو سال (1959 – 1960) مختلف کتب پڑھیں۔
بخاری شریف مولانا سید فخر الدین احمد صاحب مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ( 1392ھ 1972ء)سے، بیضاوی شریف مولانا سید فخر الحسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے، متنبی مولانا معراج الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے، ہدایہ اولین اور حسامی مولانا سید اختر حسین صاحب دیوبندی رحمۃاللہ علیہ( 1397ھ 1977ء)سے، رسم المفتی مولانا مفتی مہدی حسن صاحب شاہجہانپوری (1396ھ 1976ء) سے پڑھی۔
انہی سالوں میں دارالعلوم دیوبند میں جامعہ ازہر مصر کے مبعوث شیخ محمود عبد الوہاب محمود طنطاوی صاحب مصری علیہ الرحمہ(1398ھ غالبا 1978ء) سے عربی زبان اور بعض کتب نحو پڑھیں۔
قیام دارالعلوم دیوبند کے دوران آپ نے دیوبند، سہارنپور، رائے پور، گنگوہ، جلال آباد، مرادآباد اور لکھنو کے دیگر اساطین علم اور بزرگان دین سے خوب خوب استفادہ کیا،اس علمی اور اصلاحی استفادہ کا مزاج آپ کا آخری دم تک بنا رہا، اس معاملہ میں حضرت والا چوکتے نہ تھے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کو سولہ مشائخ حدیث سے اجازت حدیث حاصل تھی، جنکے اسمائے گرامی پیش خدمت ہیں۔
[1] حضرت مولانا عبد الجبار اعظمی۔
[2]حضرت مولانا عبد الروف پشاوری۔
[3] حضرت مولانا سید فخرالدین احمد مرادآبادی۔
[4] حضرت مولانا محمد ابرہیم بلیاوی( 1387ھ 1967ء)۔
[5] حضرت مولانا مفتی مہدی حسن شاہجہانپوری۔
[6] حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی۔
[7] حضرت مولانا قاری محمد طیب۔
[8] حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی۔
[9] حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی۔
[10] حضرت مولانا تقی الدین ندوی مظاہری۔
[11] حضرت مولانا محمد یونس جونپوری۔
[12] شیخ عبد الفتاح ابو غدہ شامی (1417ھ 1997ء)۔
[13] شیخ عبداللہ بن احمد الناخبی۔
[14] شیخ احمد قلاش۔
[15] شیخ مالک بن العربی بن احمد الشریف الشنوسی۔
[16] شیخہ فاطمہ بنت احمد الشریف الشنوسی۔
خدمات جلیلہ :
ستمبر 1953 میں مجلس خدام الدین سملک، میں مکاتیب کے ممتحن کی حیثیت سے دینی خدمات شروع فرمائیں۔
دسمبر 1953 میں حضرت مدنی علیہ الرحمہ کے ساتھ ایک ماہ کا سفر کرنے کی غرض سے استعفی دیدیا۔
1956 میں ڈابھیل سے مستعفی ہوکر اپنے وطن کاپودرا تشریف لے آئے، اور گجراتی رسالہ "تبلیغ” میں خدمات انجام دیں۔
1957 اور 1958 دو سال کاپودرا میں رہ کر زراعت کا پیشہ اختیار کیا۔
1959 میں دوبارہ مجلس خدام الدین میں بطور ناظم تعلیمات تقرر ہوا۔
درس و تدریس
1954 کے درمیانی سال میں جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل میں خدمات کا موقع ملا اور تدریس کے لئے تقرر ہوا، اور 1956 میں استعفی دے دیا۔
مارچ 1962 شوال1381ھ میں دوبارہ جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل میں مولانا محمد سعید بزرگ سملکی رحمتہ اللہ علیہ( 1411ھ 1990ء) کے خواہش پر تقرر ہوا، اور تین سال جامعہ میں قیام رہا، اس دوران آپ نے یہاں پر مختلف فنون کی کتابوں کا درس دیا۔
شوال 1385ھ مطابق جنوری 1966 میں آپ نے حضرت مولانا غلام محمد نورگت صاحب ترکیسری رحمۃ اللہ علیہ( 1413ھ 1993ء)کی دعوت پر دارالعلوم فلاح دارین ترکیسر میں تدریسی سفر شروع کیا اور10/ذوالقعدہ 1385ھ مطابق 2/مارچ 1966 میں عارضی طور پر اہتمام کی ذمہ داری سپرد کی گئی؛ پندرہ دن بعد یعنی25/ذو القعدہ 1385ھ مطابق 17/مارچ 1966کو عہدۂ اہتمام میں استقلال ہوگیا۔ صفر 1405ھ مطابق اکتوبر 1984 تک یہ اہتمام و تدریس کا دور چلتا رہا، اس طرح آپ نے فلاح دارین ترکیسر میں عمر عزیز کے ستائیس سال گزارے۔ربیع الاول 1405ھ مطابق نومبر 1984 کو آپ کو جامعہ کا سرپرست بنایا گیا، 10/شعبان 1413ھ مطابق 3/فروری 1993 کو بعض وجوہ کی بنا پر استعفی پیش کردیا، جس کو بادل ناخواستہ 2/جمادی الثانی 1414ھ مطابق 17/نومبر 1993 کو قبول کرنا پڑا، لیکن اس کے بعد بھی اعزازی طور پر سرپرستی فرماتے رہے، اور وہ بھی رسمی نہیں بلکہ سات سمندر پار رہ کر بھی جامعہ کی آبیاری فرماتے رہے۔
اصلاحی تعلق:
اپنے دورہ حدیث شریف کے سال میں استاد محترم حضرت مولانا عبد الروف صاحب پشاوری علیہ الرحمہ سے درخواست کی کہ شیخ الاسلام حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت کرادیں، تو حضرت مدنی علیہ الرحمہ گجرات کے سفر پر تھے، واپی میں موسی خان صاحب کے مکان پر آپ کو بیعت فرماکر اپنے سلسلہ میں داخل فرمایا، پھر 1953 میں کھروڈ میں مجلس خدام الدین کا جلسہ ہوا، جس میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی رحمتہ اللہ علیہ نے شرکت فرمائی، کھروڈ جلسہ کے بعد حضرت مدنی علیہ الرحمہ کو ایک ماہ کے سفر کے لئے جانا تھا، تو آپ نے مجلس خدام الدین سے استعفی دیدیا، اور صحبت شیخ کا موقع غنیمت جانتے ہوئے حضرت کے ساتھ ایک ماہ کے سفر پر نکل پڑے، ابھی آپ تزکیہ و احسان کی منزلیں طے فرمارہے تھے کہ حضرت مدنی علیہ الرحمہ کا انتقال ہوگیا۔ حضرت کے انتقال کے بعد آپ نے حضرت مدنی علیہ الرحمہ کے صاحبزادہ محترم حضرت مولانا سید اسعد مدنی صاحب رحمۃاللہ علیہ سے رجوع فرمایا اور مسلسل بزرگان دین کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوکر استفادہ کرتے رہے، اور اپنا تزکیہ کراتے رہے، خصوصا جن اکابرین کی خدمت جلیلہ میں بار بار حاضر ہوکر استفادہ کرتے ر ہے، ان کے اسم گرامی اوپر آچکے ہیں۔
حضرت کاپودروی علیہ الرحمہ کو نو مندرجہ ذیل مشائخین عظام نے اجازت و خلافت سے نوازا۔
[1]…شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس صاحب جونپوری علیہ الرحمہ (1438ھ 2017ء ((مجاز بیعت حضرت مولانا شاہ اسعد اللہ صاحب رامپوری( 1399ھ 1979ء)، حضرت مولانا محمد زکریا صاحب، نور اللہ مرقدہما)
[2]حضرت مولانا محمد ہاشم پٹیل جوگواڑی دامت برکاتہم، (مجاز بیعت حضرت مولانا محمد زکریا صاحب، نور اللہ مرقدہ)
[3] …حضرت ڈاکٹر اسماعیل میمن دامت برکاتہم،(مجاز بیعت حضرت مولانا محمد زکریا صاحب، نور اللہ مرقدہ)
[4] …حضرت مولانا حاجی فاروق سکھروی علیہ الرحمہ، (مجاز بیعت حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب، نور اللہ مرقدہ)
[5] حضرت آصف حسین فاروقی دامت برکاتہم، (مجاز بیعت حضرت خواجہ عبدالمالک صدیقی نقشبندی، نور اللہ مرقدہ)
[6] …حضرت مولانا مفتی احمد خانپوری دامت برکاتہم، (مجاز بیعت حضرت مولانا مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی، نور اللہ مرقدہ)
[7] …حضرت مولانا منیر احمد صاحب دامت برکاتہم، (مجاز بیعت حضرت مولانا عبد الحلیم صاحب جونپوری، نور اللہ مرقدہ)
[8] …مولانا نعیم اللہ صاحب فاروقی دامت برکاتہم، (مجاز بیعت حضرت مولانا غلام حبیب صاحب نقشبندی، نور اللہ مرقدہ(1410ھ 1989ء)
[9] …حضرت مولانا ولی آدم صاحب ستپونوی، دامت برکاتہم،(مجاز بیعت حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی صاحب، نور اللہ مرقدہ)
حضرت کاپودروی علیہ الرحمہ کے خلفائے عظام
(۱)حضرت مولانا اسماعیل پٹیل صاحب دامت برکاتہم، صاحبزادہ ٔ محترم حضرت کاپودروی۔
(2)حضرت مولانا سلیم صاحب دھورات دامت برکاتہم، بانی و شیخ الحدیث اسلامک دعوہ اکیڈمی، لیسٹر۔
(3)حضرت مولانا محمد حنیف صاحب لوہاروی دامت برکاتہم، شیخ الحدیث جامعہ قاسمیہ عربیہ،کھروڈ۔
(4)حضرت مولانا غلام محمد وستانوی صاحب دامت برکاتہم، بانی و مہتمم جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم، اکل کوا۔
(5)حضرت مولانا مفتی محمد یوسف ٹنکاروی صاحب دامت برکاتہم، شیخ الحدیث دارالعلوم فلاح دارین، ترکیسر۔
1994 میں مولانا ٹورنٹو، کینیڈا منتقل ہوگئے، یہاں انہوں نے جمعیۃ العلماء کینیڈا، کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ اور یہاں دارالعلوم ایجیکس میں لیکچرز اور ٹورنٹو کی مختلف مساجد میں خطابت کے ذریعہ لوگوں کے تزکیہ و اصلاح کے فرائض انجام دئیے۔
بیوی کا سانحہ انتقال
2006 میں آپ کی شریک حیات، جو ہر گام پر آپ کی معاون کار بنی رہی، داغ مفارقت دے گئی۔
اولاد
حضرت مولانا کو اللہ تعالی نے سات بیٹے اور پانچ بیٹیوں سے نوازہ تھا، بیٹوں کے اسمائے گرامی مندرجہ ذیل ہیں۔
(1) مولانا محمد مفتاحی صاحب، مقیم حال زامبیا۔
(2)جناب محمد یونس صاحب۔
(3) جناب محمد یوسف صاحب۔
(4) جناب سلیم صاحب۔
(5)جناب مولانا محمد اسماعیل صاحب۔
(6) جناب حافظ قاری محمد ابراہیم صاحب، مقیم حال لندن۔
(7) جناب قاری محمد قاسم صاحب، مقیم حال کنیڈا۔
انتقال پر ملال
25/شوال 1439ھ مطابق 10/ جولائی 2018 بروز منگل دوپہر تقریبا 4/بجے کاپودرہ میں آپ نے جان جان آفریں کے سپرد کی۔
نماز جنازہ اور تدفین
کاپودرہ میں رات کو ساڑھے دس بجے مفتی اعظم گجرات حضرت مولانا مفتی احمد خانپوری صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے ادا کرائی اور کاپودرہ ہی کے قبرستان میں ٹیلہ پر تدفین عمل میں آئی۔
اسفار
آپ کو مقامی طور پر اور بین الاقوامی طور پر مختلف کانفرنسوں اور سیمیناروں میں بڑے پیمانے پر شرکت کی دعوت دی جاتی تھی۔ آپ نے سعودی عرب، مصر، عراق، عمان، شام، اردن، مراکش، ترکی، اسپین، فرانس، برطانیہ، امریکہ، پرتگال، جنوبی افریقہ، زمبابوے، زامبیا، ملاوی، ماریشس، ری یونین، پاناما، بارباڈوس، پاکستان جیسے ملکوں کے اسفار فرمائے۔
عہدے و مناصب
تعلیم اور تعلیمی اداروں کے انتظام و انصرام میں وسیع تجربات کے پیش نظر آپ کو مختلف مدارس، اداروں اور تنظیموں نے اپنے اداروں کا سرپرست اور رکن مشاورت بنایا۔دار العلوم وقف دیوبند،جامعہ عربیہ اسلامیہ ہتھورا، باندہ، جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل، جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا، جامعہ حقانیہ کٹھور، جامعہ قاسمیہ کھروڈ،جامعہ سعادت دارین ستپون، سمیت گجرات کے بہت سے مدارس میں عاملہ اور مشاورتی رکن کی حیثیت سے اپنی خدمات دیں۔جمعیۃ علمائے ہند،مسلم پرسنل لا بورڈ،مجلس خدام الدین سملک، آل انڈیا فقہ اکیڈمی، الندوۃ العالمیۃ للادب الاسلامی،کاپودرا ویلفیئر ٹرسٹ نامی تنظیموں کے رکن بھی رہے۔