سانحہ عظیم

فکرونظر اور علم وتحقیق کے پیکر عالم ربانی مفکر ملت حضرت مولانا عبد اللہ کاپودروی بسوئے فردوس بریں

مقصود احمد ضیائیؔ

سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جاؤں گا

 میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاؤں گا

۱۳؍جولائی ۲۰۱۸ء؁ بروز جمعۃ المبارک جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا مہاراشٹر کے استاذ مولانا الطاف حسین صاحب کی معرفت واٹس اپ پرسنل پیج پر یہ پیغام پڑھنے کو ملا کہ وابستگان جامعہ ورئیس جامعہ رحمۃ اللہ علیہ کویہ خبر سن کر مسرت ہوگی اور جذبۂ حق خدمتِ علمی وتربیتی حضرت فخر گجرات ؒ کا موقعہ فراہم ہوگا کہ جامعہ کا معروف ومقبول شمارہ شاہراہ علم اس ماہ حضرت ؒپر خصوصی شمارہ نکالنے جارہا ہے، جس میں آپ مضامین دیکر حضرت کی معروف شخصیت اور بے نظیر خدمات کو امت کے سامنے لاکر ان کے لئے مشعل راہ فراہم کرسکتے ہیں۔ مولانا الطاف حسین صاحب اس پیغام کے ذریعہ یہ اطلاع کرنا چاہتے تھے کہ ہم بھی اپنا مضمون ارسال کریں یہی وجہ ہے کہ موصوف نے یہ بھی لکھ دیا تھا کہ آپ کے قلم سے تو ماشاء اللہ اب ہر روز نئے مضمون کا آنا کچھ بعید نہیں خدائے تعالیٰ موصوف کے حسنِ ظن کو حقیقت بنادے سرزمین گجرات مدتہائے دراز سے علمی وروحانی شخصیات کا مرکز رہی ہے اس مردم خیز پرضیاء خطہ نے اپنی کوکھ سے بے شمار نابغہ روزگار شخصیات کو جنم دیا اور انہیں پالا اور پھر اپنے شکم میں سمویا بھی جن پر دنیا تاقیامت رشک کرتی رہے گی آمدم برسرمطلب ۔

ملت اسلامیہ کے لیے جن علما ومشائخ کی بابرکت ہستیاں سہارابنی ہوئیں تھیں انہیں نفوس قدسیہ میں عالم ربانی مفکر ملت فخر گجرات حضرت اقدس مولانا عبد اللہ صاحب کاپودروی علیہ الرحمہ کی ذات گرامی قدر بھی تھی موؤرخہ:۱۰؍جولائی ۲۰۱۸ء؁ بروز منگل طویل علالت کے بعد خلوص ومحبت اور ایثار کا یہ کوہ گراں معرفت وعرفاں کی کائنات سجا کر چلا گیا ۔رحمتیں ہوں ہزاروں تربت پہ ۔اس قصر علم کے گرجانے کی وجہ سے عالم اسلام رنجیدہ واشکبار ہے بقول افتخار عارف   ؎

 وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی

اسی پہ ضرب پڑی جو شجر پرانا تھا

مولانا کے وصال کی خبر سنتے ہی ہمارے یہاں ریاست جموں وکشمیر کی عظیم الشان دانش گاہ مادر علمی جامعہ ضیاء العلوم میں بھی ہر طرف مایوسی چھا گئی۔ بانی جامعہ محسن قوم وملت حضرت اقدس مولانا غلام قادر صاحب مدظلہ اور صاحبزادہ محترم حضرت مولانا سعید احمد حبیبؔ مدظلہ نائب مہتمم جامعہ ہذا وصدر تنظیم علما اہل سنت والجماعت پونچھ کی طرف سے الگ الگ تعزیتی پیغامات جاری ہوئے؛ بعد ازاں جامعہ میں دعاؤ وایصال ثواب کا اہتمام کیا گیا۔ خدارحمت کند اس عظیم حادثے کی وجہ سے عجم سے لے کر عرب تک علمی حلقوں میں رنج وغم کی لہر دوڑ گئی ہے، حرف ولفظ برتنے کا ہنر جب سے سیکھا ہے پڑھنے بولنے اور لکھنے کا شغل جاری ہے، تیکھے اور تلخ موضوعات بھی مشکل نہ لگے، مگر کبھی ایسا لگنے لگتا ہے کہ کچھ آتا ہی نہیں ہے؛ ایسے ہی کچھ احوال اس وقت ہیں مولانا عبد اللہ کاپودروی معتبر اور بالغ نظر انسان تھے، آپ بلاشبہ اپنے اسلاف کی سچی تصویر تھے، علمی روایتوں اور تہذیبی شرافت کے امین تھے، آپ نے ملک کے مختلف نمائندہ تعلیمی اداروں فلاحی تنظیموں کے باہمی اختلافات کو دور کرنے میں نمایاں رول اداکیا؛ اپنے گوناں گوں کمالات اور خوبیوں کے باعث وہ اکابر علما اور علمی شخصیات کی نگاہ ِتوجہ والتفات کا مرکز بن گئے تھے ۔آپ کی شخصیت مسلمانان ہند کے لئے نعمت خداوندی تھی آپ کی موت پر پورا ملک سوگوار ہے بلکہ آپ کی موت عالم اسلام کے لئے اعصاب شکن صدمہ ہے راقم الحروف کو ۱۹۹۸ء؁ میں مولانائے مرحوم کو پہلی باردیکھنے اور سننے کا موقع ملا تھا؛ اس وقت یہ عاجز دارالعلوم مظہر سعادت گجرات میں زیر تعلیم تھا اور سالانہ پرریحانۃ الہند حضرت مولانا محمد یونس صاحب جونپوری قدس سرہ دارالعلوم دیوبند کے سابق مہتمم مولانا مرغوب الرحمن صاحب قدس سرہ کی آمد ہورہی تھی، کچھ وقت باقی تھا، اس موقع پر بانی جامعہ مظہر سعادت محدث گجرات حضرت مولانا مفتی عبد اللہ صاحب مظاہری مدظلہ نے نصائح عالیہ کے لیے مفکر اسلام مفتی عبد اللہ صاحب کاپودروی کو دعوت اسٹیج دی؛ حضرت نے بیحداہم بیان فرمایا، خیر باتیں ان کی یادرہیں گی مولانا کی گفتگو میں علمیت اور مسلمانوں کے تئیں فکر مندی کے جذبات پائے گئے؛ یہاں نقطے کی بات عرض کرتے چلیں کہ کل ہند مسلم پرسنل لا بورڈ کے سابق صدر فقیہ الاسلام حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام علیہ الرحمہ نے فرمایا تھا کہ گجرات میں دوشخصیات نے علم کو سمجھا ہے، حسن اتفاق دونوں کا نام عبد اللہ ہے دونوں سے مراد مفکر ملت عبد اللہ کاپودروی اور مفتی عبد اللہ رویدروی مظاہری تھے، جن میں سے ایک اس دنیا بے مایہ کو چھوڑ کر خدائے تعالیٰ کی جنت بامایہ کو کوچ کرگئے ، مفکر ملت حضرت مولانا عبد اللہ کا پودروی کی نظر عالمی حالات پر بہت زیادہ رہتی تھی اور مسلمانوں کے تعلق سے ہمیشہ فکر مند رہتے تھے ۔نئے فضلاکی حوصلہ افزائی فرماتے اور علمی ودینی خدمات کی طرف راغب کرنے کا فراخدلانہ مظاہرہ فرماتے، اس دور قحط الرجال میں آپ کی شخصیت مسلمانوں کی ایک اہم شخصیت تھی ؛بنابریں آپ کی موت ایک عظیم سانحہ سے کم نہیں۔ آپ اپنی ذات میںایک انجمن تھے رجال ساز صلاحیتوں کے مالک ،معلم ومربی تھے، آپ کی عمر۸۵ سال تھی ۱۹۵۵ء؁ میں ام المدارس دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوئے شیخ الاسلام علامہ حسین احمد مدنی علیہ الرحمہ کے شاگرتھے، آپ نے علمی میدان میں بیشمار خدمات انجام دیں لگ بھگ ایک درجن کتابیں آپ کے قلم سیال سے منصۂ شہود پر جلوہ گر ہوکر مقبول خاص وعام ہوئیں۔ آپ کی یہ گراں بہا تصنیفات اب ہمارے لیے نہ صرف سرمایہ افتخار ہوں گی بلکہ راہنمائی کا ذریعہ بھی بنیں گی۔ زندگی میں دنیا کے کئی ممالک کے دینی اور دعوتی اسفار کیے آپ ایک زمانے تک جمعیۃ علماء ہند کے گجرات میںممبر بھی رہے ،یہ کہنا بجا ہوگا کہ آج عالم اسلام کی ایک منفرد شخصیت علم وادب کے شیدائی اور جو ایک طویل عرصہ تک دارالعلوم فلاح دارین ترکیسر گجرات کے سربراہ بھی رہے اور جن کی نگرانی میں اس ادارے نے دینی اور تعلیمی میدان میں ایک نمایاں مقام بنانے میں کامیابی حاصل کی۔ آپ کا اختصاص یہ تھا کہ عربی ادب سے جب خطہ گجرات بالکل ناواقف تھا آپ کی عظیم فکروں کی بناپر یہ خطہ ادبا کا گہوارہ بنا،تجوید کا جب کوئی رواج نہ تھا اور جب قرأت بالکل نایاب تھی ،ملک وبیرون ملک کو تجوید وقرأت کا انمول تحفہ آپ کی جدوجہد کے صدقے میں ملا ۔بے شمار مدرسوں کو منتظمین ،قرا اور باصلاحیت علما مولانائے مرحوم ہی کی توجہات سے ملے؛ گجرات کے اداروں میں سب سے پہلے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ یونیورسٹی سے الحاق کرانے والی آپ ہی کی ہستی تھی۔ علما میں بے مثال مہ،تممین میں درنایاب، مفکرین میں انمول، تعلیم وتربیت کے میدان میں الوالعزم، عزم جواں، باہوش، زیرک اور نباض زمانہ ومردم شناس اور انفرادیت رکھنے والے جیسے اوصاف کی حامل شخصیت اہل قلم نے آپ کے وصال کے بعد آپ کو قراردیا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مدرسوں کو سب سے پہلے باغیچوں کی خوبصورتی دینے کا تصور بھی مولانا عبد اللہ کا پودروی علیہ الرحمہ نے ہی دیا۔ حضرت والا کا سانحہ ارتحال زیر قلم ہے اور آنکھیں اشکبار ہیں دل غمزدہ وبیقرار ہے یہ اشعار وردزباں ہیں کہ؎

بجھ گئے کتنے شبستان محبت کے چراغ

محفلیں کتنی ہوئی شہر خاموشاں کے لئے

منجمد ہوتی چلی جاتی ہیں آوازیں تمام

اک سناٹا ہے سارے شہر میں پھیلا ہوا

درد کی محفل سے اٹھے گا کرامت جس گھڑی

ساتھ اپنے منفرد طرزبیاں لے جائے گا

بجا طور پر فخر سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مولانا عبد اللہ کا پودروی ملت اسلامیہ کی ایک منفرد شخصیت تھے، جن کا خمیر ملت کے درد سے گوندا گیا تھا؛ آپ اس دور میں نمونۂ اسلاف اور اکابر دیوبند کی یادگار تھے، آپ کے وصال سے معروف علمی دینی دعوتی تعلیمی اور روحانی دانش گاہ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا مہاراشٹر بھی اپنے ایک عظیم المرتبت سرپرست سے محروم ہوگئی ہے۔

 آپ کے وصال کے تعلق سے ابنائے جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل گجرات کا ایک تعزیتی پیغام جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل کے ساتھ نسبت پر مبنی بذریعہ سوشل میڈیا یوں نظر نواز ہوا ،جس سے آپ کی حیات تابدار کے چندروشن پہلو اور اجاگر ہوتے ہیں ،ذیلی سطور میں ملاحظہ فرمائیں:

 مولانا عبد اللہ کاپودروی علیہ الرحمہ برصغیر کی معروف دانش گاہ جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل کے ایک عظیم سپوت تھے ،جامعہ ڈابھیل ایک نامور فاضل عظیم سپوت گل سرسبد اور سابق استاذ وسابق رکن شوریٰ سے محروم ہوگیا ہے؛ بلاشبہ مولانائے مرحوم جامعہ ڈابھیل کی تاریخ کا ایک شجرسایہ دار تھے، جس کی تخم ریزی آبیاری اور بار آوری جامعہ کے اکابر اساتذہ انتظامیہ اور اس کے قابل صدر شک ماحول نے کی تھی۔ آپ نے جامعہ سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جامعہ ہی سے اپنی تدریسی زندگی کی ابتدا کی نیز آپ ایک طویل مدت تک رکن شوریٰ کی حیثیت سے بھی جامعہ سے وابستہ رہے اور اہم بات یہ کہ آپ ہی کی توجہ وسرپرستی میں تاریخ جامعہ مرتب کی گئی آپ جامعہ کا وہ شجرۂ طیبہ تھے، جن کے واسطے سے کئی گلشنوں کی آبیاری ہوئی ،آپ ہی کے واسطے سے جامعہ کا فیض قرب وجوار سے شروع ہوکر اکناف ِعالم میں پھیلا،ہم ابنائے جامعہ اس موقع پر حضرت کے واسطے سے آباد شدہ تمام گلستاں کی بلبلوں کو اور عالم اسلام کو تعزیت پیش کرتے ہیں  ؎

آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیںجسے

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے

 آخری بات : حضرت مولانا عبد اللہ کاپودروی علیہ الرحمہ کی گرانقدر تعلیمات کی اشاعت اور سنت وشریعت سے ہم آہنگ زندگی ہم چھوٹوں کی طرف سے حضرت والا کو خراج عقیدت ہے ۔دعا ہے کہ رب کریم وقدیر خواص وعوام متوسلین معتقدین اور جملہ پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور اس صبر پر اجر جزیل عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

مقصود احمد ضیائیؔ خادم التدریس جامعہ ضیاء العلوم پونچھ (جموں وکشمیر)

Email:-ahmedmaqsood645@gmail.com Mobile:-9596664228