مولانا افتخار احمد قاسمیؔ بستوی ؔ
اللہ کا حکم ’’ کل نفس ذائقۃ الموت ‘‘ اٹل ہے اورہر ایک کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔
؎موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ ، کل ہماری باری ہے
لیکن سب کی موت یکساں نہیں ۔ کچھ لوگ اس دنیا سے جب رخصت ہوتے ہیں تو کوئی ایک محفل اداس نہیں ہوتی، بل کہ پورے بساط ِعالم پرہی اداسی چھاجاتی ہے ۔یہی حال ہوا جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا کے سرپرستِ اعلیٰ حضرت مولانا عبد اللہ صاحب کاپودروی رحمۃ اللہ علیہ کا؛ کہ آپ اس دنیا سے کیا گئے کہ پورا گلستانِ وجود سونا اورویران ہوگیا ۔
’’ وہ کیا گئے کہ رونق محفل ہی اٹھ گئی ‘‘
توآئیے جانے والے کی زندگی کے خد و خال اور حیات مستعار کے کچھ واضح اورکچھ دھندلے نقوش کا مطالعہ کرتے ہیں، تاکہ ہم بھی اپنی زندگی کے بکھرے خطوط کو صراط مستقیم پر استوار کرسکیں ۔
اللہ نے اپنی عبادت کے لیے انسان وجنات کی تخلیق فرمائی اورعبادت کی تعلیم کے لیے انبیائے کرام کاسلسلہ جاری فرمایا، سب سے آخر میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جلوہ گر ہوئے ، آپ نے عبادت کے تمام پہلوؤں کی تعلیم وتلقین اور عبادت حقیقی ومجازی کی تشریح کے لیے علمی وعملی سرمایۂ حیات قرآن و سنت کی شکل میں پوری انسانیت کی ابدی فلاح وبہبود کے لیے پیش کیا ۔
عبادتِ خداوندی کی علمی وعملی تفسیر کو صحابۂ کرام ؓ کی ایک لاکھ چوبیس ہزار کے قریب کی تعداد نے اپنے اندر جذب کرکے آگے تابعین کوپہنچایا۔انھوںنے اپنے شاگردوںکوپہنچایا،پھرفقہائے امت ،محدثینِ ملتؒ، مفسرینِ عظامؒ اوراولیائے کرامؒ اپنے اپنے وقت اور زمانوںمیںاسی مقصدِ زیست کی آبیاری میںلگے رہے۔ ماضی قریب میںسرزمینِ ہندپرخانوادۂ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے حضرت عبدالعزیزدہلویؒ،حضرت شاہ محمداسحق دہلویؒ،حضرت شاہ عبدالقادردہلویؒ،حضرت شاہ رفیع الدین دہلویؒ،حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒاوردیگرمحدثین وفقہا کی شکل میں علمی وعملی عبادتِ خداوندی کی تجسیمی صورت پیش کی۔
آگے چل کرسرزمینِ دیوبندسے اِسی مقصدحیات کی تشریح وتعبیرکے لیے امام محمدقاسم نانوتویؒ،امام رشیداحمد گنگوہیؒ،حضرت شیخ الہندمولانامحمودحسن دیوبندیؒ،حضرت مولانایعقوب صاحب نانوتویؒ،حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ،شیخ الاسلام مولاناحسین احمدمدنیؒ اورحکیم الاسلام قاری محمدطیب صاحب دیوبندی ؒ وغیرہم نے پرچمِ ہدایت وعبادت کوتاسیسِ دارالعلوم دیوبندکی شکل میںبلندکیا۔دیکھتے دیکھتے ہندستان کے چپے چپے میں کفروبدعت کی تاریکی کراہنے لگی اورتوحیدوسنت کی روشنی ظلمت واندھیریوںکے پرخچے اڑانے لگی۔
آج کے حالات میںاُسی مبارک گروہ کے ایک تابناک فرد،موجودہ زمانے کی زندہ وپائندہ ہستی حضرت مولاناعبداللہ کاپودرویؒ کی بھی تھی۔جنھوںنے ۱۹۴۷ء اور۱۹۵۹ء میںاُسی گروہِ دیوبندکارخ کیا،جنھوں نے پورے دین کی اساس’’توحیدوعبادت‘‘کی علمی وعملی تفسیر’’متن وشرح‘‘کی شکل میںامام محمدقاسم نانوتویؒ ،امام رشیداحمدگنگوہیؒ اورحکیم الامت حضرت تھانویؒ کی تحریری کاوشوںکے پیکرمیںپوری امت کے سامنے رکھ دی۔
حضرت مولاناعبداللہ کاپودرویؒ نے جب ’’دارالعلوم دیوبند‘‘ کارخ کیاہے ،تووہاںاُس روحانی قافلے کے مبارک اراکین میںعلامہ فخرالدینؒ،مولانافخرالحسنؒ،مولانامعراج الحق صاحبؒ، مولانااخترحسینؒ، مولانافضل الرحمنؒ اورمولانانصیراحمدخاں صاحب بلندشہریؒ جیسی نابغۂ روزگارشخصیات جلوہ افروزتھیں۔جن کے آفتاب ِعلم کی کرنیں روشن تھیں اور جہالت وبدعات کی تہ بہ تہ تاریکیاں ان کے خورشیدِ عالم تاب سے چھٹتی جارہی تھیں۔
حضرت رئیس محترم جناب مولانا عبداللہ کاپودروی صاحب رحمۃاللہ علیہ نے ان مبارک ہستیوں سے ادبِ عربی، اصول ِفقہ اور حدیث وتفسیر کی مختلف النوع کتابیں پڑھ کر اپنی علمی تشنگی بجھائی۔ اثنائے طالب علمی میں آپ کو اس بات کی ہمیشہ فکر دامن گیر رہی کہ دینِ اسلام کی عملی و علمی پاس داری، شریعت کے احکام کی فقہی معلومات کے ساتھ سکے کے دوسرے رخ تصوف وتزکیہ پر بھی منحصر ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اساسی ذمے داریوں میں تلاوت کلام الٰہی، تعلیم کتاب و حکمت کے ساتھ تزکیۂ نفوس بھی ہے، اس لیے باطنی امراض کی اصلاح کے لیے ایک شیخ کامل کی دہلیز پر جبیںسائی کی شدید ضرورت ہے۔ آخر اخلاقِ ذمیمہ، زبان کی برائیاں، غیبت، چغل خوری، دشنام طرازی، دروغ گفتاری، مدح سرائی، دل لگی و تمسخر کی مجالس، اسراف وتبذیر، بخل وضیقِ نفس، بغض وحسد،کینہ کپٹ، حرص وآز، حبِ جاہ، حبِ مال، عجب وکبراور شہوت وغضب کا علاج کسی شیخ کامل کی صحبت کے انوار وبرکات سے نہ کیا گیا تو امت کی نیاّ پار لگانا تو کجا، اپنی ہی نیّا پار لگانا مشکل ہو جائے گا۔
اس لیے حضرت مولانا عبداللہ کاپودروی ؒنے حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ سے بیعت ہونا دین وایمان اور اصلاح وہدایت کی خاطر ایک امر ناگزیر سمجھا۔تاکہ سب سے پہلے خود کو انسان اخلاقِ حمیدہ سے متصف بنائے، اخلاص و للہیت، توکل ورضا، خوف وخشیت،زہد و تقویٰ، صبر وشکر، صدق و استقامت، تواضع وخاک ساری اور محبت ورجا جیسی صفاتِ حمیدہ سے آراستہ ہوکر جب لوگوں کے سامنے جائے گا؛ تو اسلام کی قولی تبلیغ سے زیادہ عملی تبلیغ وجود میں آئے گی۔ اس لیے اخلاقِ حمیدہ پیدا کرنے اور اخلاقِ رذیلہ سے دور رہنے کے لیے پہلے اپنے اندر خود محبت وجذبہ پیدا کرنا پڑے گا کہ ؎
محبت تجھ کو آدابِ محبت خود سکھا دے گی
ذرا آہستہ آہستہ ِادھر رجحان پیداکر
حضرت رئیسِ محترم نے حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ کے پردہ فرمانے کے بعد ہندوبیرونِ ہند کے متعدد مشایخ طریقت سے اجازتِ بیعت حاصل کی۔ اس طرح حضرت موصوف در کفے جام شریعت اور در کفے سندان عشق کا پرچمِ بلند لے کر جب میدانِ عمل میں اترے ہیں تو امت کے جیالے پروانہ وار آپ کے علوم سے فائدہ اٹھانے کے لیے آپ کی چوکھٹ پر آموجود ہوئے۔کسی نے آپ سے ظاہری شریعت کا درس لیا تو کسی نے آپ سے باطن شریعت کا جام پیا کہ ؎
در کفے جام شریعت در کفے سندانِ عشق
ہر ہو سنا کے نداند جام و سنداں باختن
فراغت کے بعد سیدھے آپ ؒجامعہ تعلیم الدین ڈابھیل گجرات میں تدریس کی ذمے داری سنبھالنے کے لیے تشریف لائے، جہاں چھ سال تک متفرق طور پر طالبانِ علومِ نبوت کی علمی وعملی پیاس بجھانے میں مصروفِ کار رہے اور دین وملت اور ملک وقوم کو جس طرح کے افراد کی ضرورت تھی ویسے ہی افراد کو بنانے، سنوارنے اور پرچمِ دین بلند کرنے میں اس جذبے سے ہمہ وقت لگے رہے کہ ؎
ایک پتھر کی بھی تقدیر سنور سکتی ہے
شرط یہ ہے کہ قرینے سے تراشا جائے
آپ نے اپنے ڈابھیل اور ترکیسر کے۳۳؍سالہ دورِ تدریس میں ایسے افراد واشخاص تیار کیے ،جو بجا طور پر ایک طرف دینِ متین کی کھیتی کی آب یاری کے لیے مکمل مہارت رکھنے والے تھے تو دوسری طرف ملک و قوم کے سنوارنے میں ان کو ید طولیٰ حاصل تھا، ان کو بجا طور یہ کہنے کا حق حاصل تھا کہ ؎
سو بار سنوارا ہے ہم نے اس ملک کے گیسوئے برہم کو
یہ اہلِ جنوں بتلائیں گے کیا ہم نے دیا ہے عالم کو
اپنے زمانۂ تدریس میں آپ نے جہاں فقہ کی کتابیں طلبہ کو پڑھائیں، وہیں آپ نے حدیث شریف کا بھی درس دیا۔ آپ کے درس کی امتیازی بات یہ ہوتی تھی کہ سبق کا ہر پہلو واضح، شستہ، سہل الحصول اور سہل الوصول ہوتا تھا، کوئی پہلوتشنہ چھوڑنے کی عادت نہ تھی جس میں تفصیل و اسہاب سے گریز کرتے ہوئے اختصار و ایجاز کا دامن بھی تھامے رہنے کا سلیقہ خوب تھا۔غرض آپ کا پورا درس’’ سہل ممتنع‘‘ کا جامع تھا، جیسے آپ کی شخصیت ’’سہل ممتنع ‘‘کی آئینۂ دار تھی آپؒ اِس شعر کا مکمل مصداق تھے ؎
نگاہ برق نہیں، چہرہ آفتاب نہیں
وہ آدمی ہیں، مگر دیکھنے کی تاب نہیں
حدیث و فقہ کی تدریس کے ساتھ آپ کا عربی ذوق بھی بہت پاکیزہ، شستہ، شائستہ اور نکھراہوا تھا۔ عربی ادب کی کتابیں اِسی لیے آپ خاص طور پر تدریس کے لیے منتخب فرماتے تھے کہ طلبہ کے اندر عربی فہمی، عربی نطق، عربی ذوق اور عربی رفتار وگفتار، بل کہ عربی تہذیب و تمدن اور صاحبِ عربی کے اطوارواخلاق سے طلبہ کو مزین وآراستہ دیکھنا چاہتے تھے۔
کبھی کبھی دوسرے مدارس میں بھی آپ اساتذہ یا طلبہ سے گفتگو فر ماتے۔ اور جب بھی آپ کو نصائح غالیہ گوش گزار کرنے کا موقع ملا تو آپ کی گفتگو کا ایک اہم پہلو عربی ادب بھی ہوتا تھا۔ آپ طلبہ کو صا حبِ شریعت حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق وآداب اور سنن و عادات کو عربی زبان وادب کے وسیلے سے اپنانے کی خاص طور پر تلقین فرماتے، آپ کبھی دورانِ نصیحت پڑھتے ؎
لیس الجمال بأثواب تزیننا
إن الجمال جمال العلم و الأدب
لیس الیتیم الذي قد مات والدہ
بل الیتیم یتیم العلم و الأدب
جدید وقدیم ادب ِعربی پر بھی گفتگو فرماتے،جس میں آپ کا پورا زور اِس بات پر ہوتا کہ اصل عربی ادب یہ ہے کہ اس سے قرآن فہمی اور حدیث فہمی آجائے۔عربی زبان وادب پر بولنے اور لکھنے کی قدرت تو چنددنوں میں مشق وتمرین کے ذریعے حاصل ہو سکتی ہے۔
کیا آپ شیخ الاسلام مولا نا ظفر احمد تھانویؒ کو نہیں دیکھتے کہ’’ اعلاء السنن‘‘ کے نام سے بیس جلدوں میں حنفی مسائلِ احادیث کے مستحکم دلائل کے ساتھ عربی زبان و ادب کے پیکرِ جمیل میں ایسی معرکۃ الآرا کتاب تالیف فرمادی کہ عدمِ تقلید کے حامیانِ باطل کے شیش محل میں زلزلہ آگیا۔ علامہ ناصر الدین البانیؒ جیسے مؤقر عدم ِتقلید کے حامی حضرات کو بھی اِس کا خدشہ لاحق رہا کہ یہ کتاب ایسی زبر دست ہے کہ اگرآج ہی اِس پر حاشیہ آرائی نہ کی گئی تو شاید نہیں، یقینا بعد میں کوئی اِس کتاب پر ایک حرف بھی نہیں بول سکتا۔
حضرت رئیس اِس طرح کے واقعات اور نادر قصے اہلِ علم و تقویٰ کے بیان فرما کر طالبانِ علوم نبوت کے جذباتِ علمی و دینی میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا کرتے اور ایمانی روح میں انقلاب برپا کر دیتے۔ کبھی یہ شعر فارسی زبان میں لطف لے لے کر بار بار طلبہ کی مجلسوں میں دہراتے کہ ؎
بر خود نظر کشا، ز تہی دامنی مرنج
در سینۂ تو،ماہ تمامے نہادہ اند
کبھی طلبہ کو محنت و مشقت پر اور تحصیلِ علم کے میدان میں مجاہدات و ریاضات پر ابھارنے اور اندرون میں عشق کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے مفکرِ اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی حسنی ندویؒ کا ذکرکردہ یہ شعر پڑھ کر سناتے ؎
اے دل! تمام نفع ہے سودائے عشق میں
اک جاں کا زیاں ہے، سو ایسا زیاں نہیں
فراغت کے بعدطلبہ کی زندگی کا رخ کچھ مبہم، مضمحل، دھندلا اور موہوم سا رہتا ہے۔ اِس کو واضح، روشن، واشگاف، مائل بہ ترقی اور کامیاب بنانے کے لیے حضرت رئیسؒ اِس شعر کا بھی تکرار کے ساتھ، بار بار، متعددبزمِ طلبہ و انجمنِ اساتذہ میں سہارا لیتے کہ ؎
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی
تو میرا نہیں بنتا، نہ بن، اپنا تو بن
جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا، نندوربار کے بانی و مہتمم حضرت مولانا غلام محمد وستانوی دامت برکاتہم کے عاجزانہ اصرار پر جامعہ اکل کوا کے دوسرے سرپرست مولانا علی یوسف کاویؒ کے انتقال پُر ملال کے بعد حضرت رئیس مولانا عبداللہ کاپودرویؒ جامعہ اشاعت العلوم کے تیسرے سرپرست منتخب کیے گئے اور ایک نہایت ہی کامیاب سر پرست کے طور پر ہر سال اور تقریباً ہر اہم مجلس اور عظیم الشان پروگرام میں اپنے قدوم میمنت لزوم سے جامعہ کے طلبہ و اساتذہ کو سرفراز فرماتے رہے۔
مرض الوفات میںعیادت کرنے والے داستانِ ماضی یادکرکے گویایہ کہتے تھے کہ آج جو یہ بدن اپنی جگہ بے حس و حرکت نظر آرہا ہے وہ کبھی’’ دار العلوم فلاح دارین‘‘ ترکیسر کی پُر بہار چہار دیواری میں اچھلتا کودتا، محوِ خرام منزل نظر آتا،اپنے شاگردوں کی زندگیوں کو سنوارنے اور ان کو منزل آشنا بنانے میںنرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو دکھائی دیتا۔۲۷؍ سال پر محیط خدماتِ فلاح دارین میں ایسے ایسے نابغۂ روز گار افرادِ اسلام کو جنم دیا ہے، جو اکیلے ایک بزم اور تنہا ایک انجمن ہیں۔سب سے پہلے تو رئیسِ جامعہ اکل کوامولانا غلام محمد وستانوی مدظلہ کا نامِ نامی ہے جو حضرت رئیس ہی کے ساختہ وپرداختہ اور حضرت رئیس ہی سے علم نبوت کی تعلیم و تربیت کا دودھ نوشِ جان فرمائے ہوئے ہیں، جن کو عرب کیا ؟عجم کیا؟ سبھی یکساںجانتے ہیں۔ محترم مفتی احمد صاحب دیولہ، مولانا ابرار احمد دھولیوی ؒ مجازِبیعت حضرت حکیم الاسلامؒ، مولانا اقبال احمد فلاحیؔ،ندویؔ، مدنیؔ، مولانا یوسف ٹنکاروی شیخ الحدیث فلاح دارین، قاری محمد صدیق فلاحیؔ، قاری ایوب اسحاق ساؤتھ افریقہ،مولانا حسن صاحب مرچی مہتمم مدرسۃ النور للمکفوفین افریقہ،جامعہ اکل کوامیںاستاذِحدیث مولاناعبدالرحیم فلاحیؔاورمولانامحمدفاروق فلاحیؔ مدنیؔ اورنہ جانے ایسی کتنی ہستیاںہیں،جو ابتدامیں کلیاں تھیں۔لیکن حضرت رئیس کی التفات و عنایات سے پھول بن کرچٹکیں، مہکیں اور مہکتی چلی گئیں،حضرت رئیس نے ان کواپنے سینے کے لہوسے سینچااور آج یہ کہتے ہوئے خوشی وتمنا اور فرحت واداسی کی ملی جلی کیفیت ہے کہ ؎
کلیوں کو میں سینے کا لہو دے کے چلاہوں
صدیوں مجھے گلشن کی فضا یادکرے گی
واقعی فلاح دارین ترکیسر کی چہار دیواری میں جب یہ مہکتا پھول،کھلتا اور خوش بو پھیلاتا ہو ا گزرتا تو ایک طرف جسم ِانسانی کا پاکیزہ تقدس مآب پتلا نظرآتا اور دوسری طرف تعلیم وتربیت کا ایسابحرِ ذخار ،جس کی موجیں زبانِ حال سے یہ کہتی سنائی دیتیںکہ ؎
میں اچھلتی ہوں کبھی جذبۂ مہِ کامل سے
جوش میں سر کو پٹکتی ہوں کبھی ساحل سے
ہوں وہ رہرو کہ محبت ہے مجھے منزل سے
کیوںتڑپتی ہوں،یہ مجھ سے پوچھے کوئی مرے دل سے
زحمتِ تنگیٔ دریا سے گریزاں ہوں
وسعتِ بحر کی فرقت میں پریشاں ہوں
حضرت رئیس کے مرض الوفات میںآنے جانے والوںکاتانتابندھارہتاتھااورہرکوئی زبانِ حال سے یہ کہتاہوامعلوم ہوتاتھاکہ اب کیا یہ موج ہم سے جدا ہوجائے گی؟ اب کیا یہ دریا پایاب ہو جانے والا ہے؟ کیا ہم اس علم کے پہاڑ، اُس بحرذخار اوربحرناپیداکنار کی عنایات سے محروم ہو جائیںگے؟نہیں نہیں،ہر گزنہیں اس دریا نے تو اتنی نہریں علم کی،عمل کی،تحریر کی، تقریر کی اپنی تربیت کے فیضان سے بہادی ہیں، جو پورے آب وتاب سے،اپنے اپنے مرکز سے رواں دواں اور ہردم جواں ہیں۔
اپنی تصنیفات کا ایک ذخیرہ آپ نے اپنے شاگردوں کیا ؛امت کے نونہالوں کے لیے ایسا چھوڑا ہے جو ہر وقت زندہ اور پائندہ رہنے والا ہے (۱)اضواء علی تاریخ الحر کۃ العلمیۃ والمعاہد الإسلامیۃ في غجرات آپ کی عربی تصنیف ہے (۲)علامہ بدرالدین عینی ؒاور علم حدیث میںان کا نقشِ دوام (۳)ترجمہ دیوان امام شافعی ؒ (۴)صدائے دل آپ کے خطبات کا مجموعہ ۳؍جلدوں میں طبع ہو چکا ہے (۵)افکارِ پریشاں (۶)نصیحۃ المسلمین ترجمہ حواشی رسالۃ المسترشدین للشیخ عبد الفتاح ابو غدہؒوغیرہ کتابیں پردئہ عالم پر ثبات ودوام اورحضرت رئیس کے لیے کافی کچھ خدمات ہیں۔
جس ادارے کو آپ نے اپنے۷ ۲؍سالہ دور ِریاست وسرپرستی میں پروان چڑھا یا۔وہ وہی ادارہ ہے جس میں۱۱۵۹؍فضلا ئے علم و ادب، ۷۷۹؍قرائے حفص، ۳۲۹؍قرائے سبعہ، ۲۶۶؍قرائے ثلاثہ، ۱۲۸؍قرائے عشرہ کبیر اور۰ ۷۷؍حفاظ، ۶۳؍جاںباز اساتذئہ علم ودانش کی نگرانی میں، ۱۳۸۳ھ مطابق۱۹۶۴ء میں مفکر ِاسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی ؒکے تقویٰ وتقدس کی بنیاد کا سہارا لے کرآج بھی افتاں و خیزاں، غلطاں و پیچاں حالات میں، نہایت سبک رفتاری کے ساتھ جاو دانی کی منزل کی طرف یہ گنگناتے ہوئے محو خرام ہیں کہ ؎
یارب اس ساغرِ لبریزکی مے کیا ہوگی
جادہ ٔ ملکِ بقا ہے، خط پیمانۂ دل
ابر رحمت تھا کہ تھی عشق کی بجلی یارب
جل گئی مزرعِ ہستی تو اگا دانۂ دل
حسن کا گنجِ گراں مایہ تجھے مل جاتا
تونے فرہاد! کبھی کھودا نہ ویرانۂ دل
عرش کا ہے،کبھی کعبے کا ہے دھوکا ا ِس پر
کس کی منزل ہے الٰہی! مرا کاشانہ ٔدل
اسی ادارے میں حضرت مفتی شیر علی صاحب قاسمیؔ افغانوی، شیخ ابراہیم اندوری قاسمیؔ، مفتی یوسف صاحب ٹنکاروی، مولانا محمد اقبال فلاحی مدنی اور قاری محمد صدیق صاحب سانسرودی زندگی بھر کے لیے وقف حیاتِ جاودانی کے لیے ذخیرہ کرتے چلے گئے یا چلتے جا رہے ہیں۔یہ وہ حضرات ہیں جو حضرت رئیس مولانا عبداللہ کاپودرویؒکے سینچے ہوئے ادارے کے جوہر آبدار ہیں ،جن سے سونے چاندی کے قالب میں ’’انسان ‘‘ڈھلتے ہیں، ایسے’’ انسان‘‘ جن کے ہر عمل کی رسی اسلام کے ہاتھ میں ہے، جن کی انسانیت کا صحیح درس اسلام دیتا ہے۔
حضرت رئیس ؒ اپنے ستائیس سالہ دورِ ریاست و اہتمام اور زمانۂ تدریس و تلقین میں ایسے ہی انسان بنانے کے لیے کوشاں تھے، جن پر حکم الٰہی کی حکمرانی ہو، طاعت ربانی کی جلوہ سامانی ہو، سننِ سید المرسلین کی جلوہ فشانی ہو، تواضع اُس کا بستر ہو، خاکساری اُس کا وطیرہ ٔزندگی ہو اور اسلامی تہذیب؛ جو ہماری تہذیب ہے اس کو ہر آن اور ہر لمحے محبوب ہو۔ اِسی طرح جیسے ہندوستان کے سابق صدر جمہوریہ فخرالدین علی احمد مرحوم نے اپنے دور صدارت میں دیوبند کی شاداب سر زمین میں حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ کے گھر میں ’’ہماری تہذیب‘‘ کا لفظ بول کر زندگی وپایندگی کا ثبوت فراہم کیا تھا۔
واقعہ یہ پیش آیا تھا کہ ایک مرتبہ سابق صدر جمہوریۂ ہند جناب فخرالدین علی احمد صاحب مرحوم دارالعلوم دیوبند کی زیارت کو آنے لگے، تو انہوں نے اربابِ حل و عقد کو اطلاع دی کہ میں دارالعلوم دیوبند کی زیارت کا شرف حاصل کرنے دیوبند آنا چاہتا ہوں۔ لیکن میں کھانا مولانا سید اسعد مدنیؒ کے گھر کھاؤں گا۔ اِس اطلاع سے اربابِ حل و عقد کھانے کے انتظام کے حوالے سے مطمئن ہوگئے؛ لیکن صدر جمہوریۂ ہند کے مخصوص آداب اور اسپیشل پروٹوکول ہوتے ہیں، لہٰذا اس کے مطابق جانچ کے لیے پولیس افسران کی ایک ٹیم مولانا مدنیؒ کے گھر پہنچی اور انہوں نے کہا کہ صدر جمہوریۂ ہند آپ کے گھر کھانا نوش فرمائیں گے تو آپ یہ بتائیں کہ کھانا آپ کہاں کھلائیں گے؟ مولانا مدنیؒ نے فرمایا: دیکھو! میں زمین پر بیٹھ کر کھاتا ہوں، ان کو بھی یہیں زمین پر بیٹھ کر کھلاؤں گا، میرے پاس یہی انتظام ہے۔
پولیس افسران نے کہا: صدر جمہوریۂ ہند کے پروٹوکول کے خلاف ہے یہ طریقہ۔ وہ تو کرسی پر حسنِ انتظام کے ساتھ کھانا تناول کریںگے، مولانا مدنیؒ نے فرمایا: میرے یہاں یہی انتظام ہے، ان کو آپ اطلاع کردیں، وہ آنا چاہیں تو آئیں ورنہ اُن کی مرضی، انتظام تو یہی رہے گا۔
پولیس والے واپس دہلی پہنچے، صدر جمہوریۂ ہند فخرالدین علی احمد مرحوم کو اطلاع دی، انہوں نے کہا: وہ جیسے بھی کھلائیں، ہم کھالیں گے۔ پولیس افسران دوبارہ دیوبند مولانا مدنی مرحوم کے گھر آئے اور کہنے لگے، ٹھیک ہے، لیکن آپ کیا کھلائیںگے؟ جو بھی کھلائیں، ہم ان کو چکھیں گے۔ مولانا مدنیؒ نے کہا: شوق سے چکھیںلیکن کھانا چکھنے کے لیے زیادہ تعداد میں مت آجائیے گا، یہ سن کر افسران مسکرانے لگے اور واپس چلے گئے۔
واقعہ کے ناقل حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری مدظلہ العالی’’دارالعلوم دیوبند‘‘ کے موجودہ شیخ الحدیث اور صدر المدرسین ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ان دنوں میں بھی دارالعلوم کے اساتذہ میں شامل تھا، صدر جمہوریۂ ہند فخرالدین علی احمد مرحوم اپنے مؤقر وفد کے ہمراہ ’’دارالعلوم دیوبند‘‘ پہنچے۔دارالعلوم کی انتظامیہ نے صدر جمہوریہ کو استقبالیہ دیا، بزمِ استقبالیہ کے اختتام پر صدرجمہوریہ اپنے وفدکے ساتھ مولانامدنی ؒکے گھرکھانا تناول کرنے کے لیے آگے بڑھے۔ استاذ گرامی قدر مفتی سعیدصاحب مدظلہ فرماتے ہیں کہ ہم اساتذہ بھی ساتھ ساتھ چل رہے تھے، مولانا مدنی مرحوم کا گھر آیا،دروازے سے صدرجمہوریۂ ہند اپنے وفدکے ساتھ داخل ہوئے۔ سامنے دسترخوان زمین پر بچھا ہوا تھا، اس پر سادگی کے ساتھ کھانا چنا ہوا تھا، ایسی سادگی؛ جس پرہزاررونقیں قربان، بیٹھنے کا حکم تھا۔
صدرجمہوریۂ ہندفخرالدین علی احمدمرحوم بولے:تیواری جی!آئیے، بیٹھئے، آج’’ ہماری تہذیب‘‘ کے مطابق کھانا کھائیے ۔۔۔۔۔۔(مستفادتحفۃ الالمعی)
یہ’’ ہماری تہذیب‘‘ کالفظ بڑاقیمتی ہے جو صدرجمہوریۂ ہندکی زبان سے نکلا اور مولانا مدنی ؒکے گھرکی عملی تفسیر تھا ،جسے آج ہم نے بھلا دیا۔ کوئی میز کرسی پر کھانے کو فخر سمجھتا ہے توکوئی بے دسترخوان کے ہی کھانانوش کرنا شروع کردیتاہے۔
یہ’’ ہماری تہذیب‘‘ اسلامی عقائد و اعمال کا وہ مختصر مجموعہ ہے، جس کا مجسم پیکر حضرت رئیس مرحوم ہرفردکوبناناچاہتے تھے اوراسی کڑھن میںاِس دنیاسے یہ چاہتے ہوئے رخصت ہوگئے کہ مجھے اورمیرے اصحاب کویہ شعرنہ پڑھناپڑے کہ
اٹھا میں، مدرسہ و خانقاہ سے غم ناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ
بل کہ’’ ہماری تہذیب‘‘ میں رچے بسے لوگ مدرسے کی چہاردیواری سے جب باہر نکلیں، تو در و دیوار یک لخت بول پڑیں : ؎
اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موجِ تند و جولاں بھی
نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہہ و بالا
اور یہ بھی کہہ سکیں: ؎
گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے
کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا
اللہ تعالیٰ حضرت مولانا کے پیغام کو پوری امت میں عام فرمائے اورآپ کی قبرکونورسے بھردے۔ آمین! ؎
آسماںان کی لحدپرشبنم افشانی کرے
سبزۂ نورُستہ اس گھرکی نگہ بانی کرے