بقلم: مولانا محمد فاروق صاحب بڑودوی ؔمدنیؔ
استاذتفسیر وحدیث جامعہ اکل کوا
اللہ کی اس بسائی ہوئی دنیا میں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک نہ جانے کتنے لوگ آئے اور چلے گئے اور اپنی اپنی بساط کے مطابق اپنے نقوش سے اپنا نام روشن کر گئے؛ لیکن یہ حقیقت سب کے ساتھ یکسا ں رہی کہ آئے تھے سبھی جانے کے لیے۔کوئی ایسا نہ تھا جو آیا ہو اور نہ گیا ہو، ہاں! انبیائے کرام علیہم السلام اور ان کے وارثین کی ایک جماعت واقعی ایسی رہی کہ آئی تو آنے ہی کے لیے، اس دنیا سے تو بے شک یہ لوگ بھی رخصت ہوئے لیکن اپنے کارناموں کی انجام دہی، اپنے فرائض سے سبک دوشی اور منصب کے حقوق کی ادائیگی کے باعث وہ زبان وقلم پر ایسے چھائے کہ ان کانام ومقام زندوں سے زیادہ لیا جاتا ہے۔ یہ کیوں ہوا؟ اور ایسا کیا خاص معاملہ ہے؟
یہ اس لیے ہوا کہ ان حضرات قدسی صفات نے اپنے اندر وہ نور سمو لیا، جس کی کرنیں نہ بجھی ہیںنہ بجھ سکتی ہیں، ایک بار جلنے کے بعد یہ چراغ کبھی بجھنے والا نہیں، ہاں! بے شک {یریدون لیطفئوا نور اللہ بافواہہم ویابی اللہ إلا ان یتم نورہ ولو کرہ المشرکون}کی حقیقت پیش آکر رہی۔ اور چراغِ علم وہدایت کا جلنا تھا تووہ جلتا رہا، صحابۂ کرامؓ کی جماعت سے لے کر ماضی قریب کے اکابرین کو دیکھ لیجیے، انہوں نے جس شمع ہدایت کو اپنے ہاتھوں سے جلایا، جب جلادیا تو اب اسے کوئی بجھا نہ پایا اور بجھا بھی کیسے سکتا ہے؟
’’وہ شمع کیا بجھے جس کی حفاظت خدا کرے‘‘
ایسی شخصیات پردۂ عالم سے بے شک روپوش ہوگئیں، لیکن منظرِ ذہن پر ایسی چھائی ہیں کہ ان کا تذکرہ ہمہ وقت، ہرگام ذکرِ خیر کے ساتھ اوراق وبیانات کے ذریعے اور قصص وحکایات کے ذریعے ہوتا ہے۔یہ بھی ان کے درجات کی بلندی اور ان کے منصب کے تقدس کی ضمانت ہے۔
آج ہمیں علم وعمل کی اس جامع ، مردم ساز اور صلاحیت خیز نباضِ وقت ہستی کا ذکر کرناہے، جس نے اپنی عمر کی تقریباً چھ دہائیاں اِس وادیٔ غیر ذی زرع کی سیاحی اور ان پیچیدہ راستوں میں صحرا نوردی کی؛ کہ جن سے پاؤں کے آبلے پھوٹ جاتے ہیں، زخم خوردہ منزل پر پہنچنے سے پیش تر دم توڑ دیتے ہیں اور عشق و جنوں ناتمام و نامراد ہی لوٹ آتے ہیں، اللہ غریقِ رحمت فرمائے حضرت مولانا عبد اللہ صاحب کاپودروی ؒ کو؛ جن کی دور رس نگاہ اور ہر فن میں کامل دست گاہ نے طلبا کو کہاں سے کہاں تک پہنچا دیا۔
یہ حضرت مولانا غلام محمد وستانوی رئیس جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا کی ذات گرامی ہے۔ موصوف کی ذات میں بھی آپ حضرت رئیس ِگجرات مولانا عبداللہ صاحب کاپودروی مرحوم کے نالہائے نیم شبی کا اثر دیکھیں گے، جن کی شخصیت دیکھتے ہی دیکھتے چہار دانگِ عالم میں چھاگئی۔ اور تجوید وصحتِ قرآن کی لائن سے بالخصوص اور علوم دینیہ وعصریہ کے سنگم کی لائن سے بالعموم، وہ کارہائے نمایاں انجام دینے میں مصروف ہیں کہ یہ خدمت ایک کرامت سے کم نہیں۔ حضرت مولانا قاسم انگار، حضرت مولانا حسن، حضرت مولانا خلیل راوت، حضرت مولانا یوسف ٹنکاروی، مولانا قاری صدیق صاحب سانسرودی، مولانا اقبال ٹنکاروی اور مولانا اقبال فلاحی مدنی وہ شخصیات ہیں، جواپنی اپنی ذات سے ایک انجمن ہیں؛ جن کی شمع کے فیض سے ہدایت کے پروانے عالم کے چپے چپے میں اسلام کی روشنی پر پتنگوں کی طرح فدا ہیں۔ یہ فیض ہے حضرت مولانا عبد اللہ صاحب کاپودرویؒ کا؛ جنہوں نے اپنے اہتمام کی ذمے داری کو کسی ایک رخ سے محدود نہ رکھا؛بل کہ فلاح دارین ترکیسر کو دارالعلوم دیوبند کے علم واخلاص کی تابانی، مظاہر علوم سہارن پور کا تصوف وسادگی، مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کی تحقیق وتمحیص اور دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنؤکے رعبِ ادب و تہذیب کامہکتا گہوارہ بنادیا اور طلبا کو ہمیشہ یہی کہتے رہے:
نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُر سوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
طلبا کو تنگ ذہنیت سے نکال کر نگاہ کی بلندی، سخت وکرخت لہجہ میں بولنے کے عیب سے پاک کرکے سخن کی دل نوازی اور سست وبے مقصد پڑے رہنے کی طبیعت کو جان کی پرسوزی کی دولت عطا کی۔ ہمیشہ اپنے طلبا اور اپنے وابستگان کو یہی کہتے رہے ؎
ظلامِ بحر میں کھو کر سنبھل جا
ہزاروں پیچ کھا کھا کر بدل جا
نہیں ساحل تیری قسمت میں اے موج
ابھر کر جس طرف چاہے نکل جا
حضرت طلبہ کے سامنے بار بار یہ شعر گنگناتے ؎
جاگنا ہو جاگ لے افلاک کے سایہ تلے
تاحشر سوتا رہے گا خاک کے سایہ تلے
مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی الحسنی الندوی ؒکی کتاب ’’پاجا سراغ زندگی‘‘ کاتذکرہ تو آپ بے شمار بے انتہا کرتے اور کرتے ہی رہتے تھے، طلبا کو کہتے کہ اس کانام ہی دیکھو پورے شعر کا ایک جز ہے ؎
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
کبھی کبھی اس غزل کے اشعار بر جستہ پڑھتے اور طلبا کو حوصلہ دیتے چلے جاتے تھے ؎
من کی دنیا من کی دنیا سوز و مستی جذب و شوق
تن کی دنیا تن کی دنیا سود و سودا فکر و فن
من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں
تن کی دولت چھاؤں ہے آتا ہے دھن جاتا ہے دھن
من کی دنیا میں نہ پایا میں نے افرنگی کا راج
من کی دنیا میں نہ دیکھے میں نے شیخ وبرہمن
پانی پانی کرگئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن
حضرت مولانا عبد اللہ صاحب کاپودرویؒ کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ طلبا اپنے ماضی قریب کے اکابر کا پیکر بن جائیں ،جونہایت جامع شخصیات ہوا کرتے تھے۔ وہ ایک طرف اپنے وقت کے مفسر ومحدث اور مناظر ہوتے تھے تو دوسری طرف سیاستِ عالم کی بساط الٹ دینے کا حوصلہ رکھتے، ایک طرف جہاں اپنی ذاتی ضروریات کو خود اپنے ہاتھوں انجام دینے والے تھے تو دوسری طرف شاہانِ عالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گفتگو کرنے والے۔ ایک طرف اگر وہ مدرسہ کی چہار دیواری میں گھر کر تصوف کے دامنِ رشد وہدایت سے وابستہ ہوکر اپنے طلبا کو پیکر علم ورشد بناتے تو دوسری طرف افقِ سیاست سے چمکنے والے ماہ وانجم بناتے۔
حضرت مولانا موصوف اپنے طلبا کو بھی یہی نصیحت کرتے کہ ؎
بر خود نظر کُشا ز تہی دامنی مرنج
در سینۂ تو ماہ تمامے نہادہ اند
اپنے طلبا اور اپنی مجلس میں تمام ہی لوگوں سے فرماتے ؎
درکفِ جام شریعت در کفِ سندانِ عشق
ہر ہوس ناکے نہ داند جام وسندان باختن
ہمارے اکابر ہر دو مخالف وادی سے پوری حفاظت وصیانت اور پورے تقوی وطہارت کی ستودہ صفات کے حامل بن کر گزر گئے، تمہیں بھی انہیں کے مکمل پرتو، مکمل پیکر اور مکمل جانشیں بننا ہے۔
شیخ حسن البنا سے کسی نے پوچھا تھاکہ ألا تصنفت کتبا؟ تو فرمایا کہ ’’ اصنف الرجال ‘‘ حضرت کا حال کچھ ایسا ہی تھا ، کہ تصنیف رجال میں عمر گزاردی ۔
افراط وتفریط سے گریز:
شریعتِ اسلامیہ میں اعتدال اور میانہ روی ایسی صفت ہے ،جو اہلِ سنت والجماعت کا خط امتیاز ہے۔اسی صفت پر علمائے دیوبند کی پوری جماعت روزِ اول سے قائم ودائم ہے، یہی وہ صفت ہے جس کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے علمائے دیوبند کو پوری دنیامیں وہ مقام عطا کیا جو کسی جماعت کو بڑی مشکل سے ملتا ہے۔
حضرت مولانا عبد اللہ صاحب کاپودرویؒ اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلنے والے وہ ناظم ومہتمم اور وہ داعی الی اللہ مفکرتھے کہ آپ نے نہ تو اپنی دعوت وگفتگو میں کبھی حد ِاعتدال سے آگے بڑھنے کی بات کی اور نہ ہی دورِ اہتمام کی تقریبا ًتین دہائیوں پر محیط عرصے میں افراط وتفریط کا شکار ہوئے۔
آپ ہمیشہ اس بات کا اہتمام رکھتے کہ فلاحِ دارین کے جتنے فلاحی وتعلیمی شعبے ہیں ،سب کو ان کا واجبی حق ملنا چاہیے؛ ایسا نہ ہوکہ جو شعبہ زیادہ اہتمام وتوجہ کے لائق ہے اس پر کم توجہ دی جانے لگے اور جس پر کم توجہ کی ضرورت ہے اسے اتنا بڑھادینا کہ وطیرۂ زندگی بننے لگے کہ ہر سنجیدہ طبیعت گراں بار ہونے لگے۔
آپ فلاحِ دارین کے تمام شعبہ ہائے تعلیم وتدریس پریکساں نظر رکھتے، ان کی ترقی اور اشاعت واہتمام کے لیے پورا زور لگا دیتے، اپنی گفتگو سے کبھی ایسی غیر ذمے دارانہ تاثیر کی ترسیل نہ ہونے دیتے ؛جو زبان زدِ خاص وعام ہوجائے اور بعد میں اہل اہتمام واہل انتظام کو کف افسوس ملنا پڑے۔ اسی اہتمام کے پیش نظر فلاح دارین سے فارغ ہوئے طلبہ اور اس کے مختلف شعبوں سے کسبِ فیض کرنے والے علمائے امت، زندگی کے مختلف میدانوں میں اپنی اپنی بساط کے مطابق چراغ رشد وہدایت جلا جلاکر امت کو اندھیروں سے نکال رہے ہیں اور ہدایت وعلم کی روشنی پھیلاتے ہوئے اپنی آخرت سنوار تے ہوئے زندگی بسر کر رہے ہیں۔
شفقت و مہربانی:
حدیث شریف میں آتا ہے کہ’’ الرفق لا یکون في شیء إلا زانہ ولا ینزع من شيء إلا شانہ‘‘ شفقت ومہربانی جس چیز کا عنصر ہوتی ہے اس میں کمال وجمال اور بہتری پیدا کرتی ہے اور جس چیز سے مہربانی کا عنصر نکال کر بے جا سختی وتندی وسنگ دلی کو اس کا جز بنادیا جاتا ہے تو وہ چیز ناتمام اور بے نتیجہ ہوجاتی ہے۔
آپ کے دورِ اہتمام میں جن آنکھوں نے اس کا مشاہدہ کیا وہ ایسے بے شمار واقعات جانتے اور بیان کرتے ہیں، جن میں حضرت مرحوم نے محض شفقت ورحم سے معاملہ فہمی اور حل کی راہ تلاش فرمائی۔نہ ناراض ہوئے نہ ڈانٹا اور نہ ہی ایک طرفہ فیصلے کی کسی صاحب کو بوتک نہ آنے دی، سنجیدگی اور متانت کے ساتھ ہمدردانہ جذبہ واسلوب کے ساتھ بات آگے بڑھادی۔
اصول کی پابندی:
ہمارے اکابر واسلاف کا یہ امتیازی وصف رہاہے کہ ہمیشہ اصول وضوابط کی بھر پور پابندی کرتے، اصول وقواعد سے سرِ موانحراف کوبھی گوارہ نہ فرماتے۔کسی ادارہ یا تنظیم کی طرف سے عائد کردہ اصولوں میں وہی ثواب سمجھتے جو عہد کی پابندی میں اللہ کی طرف سے مقرر ہے؛ کیوںکہ اداروں کی طرف سے آنے والے اصول وضوابط (بشرطیکہ نصوصِ شرعیہ سے متعارض نہ ہوں) آدمی ان کو عمل میں لانے کاوعدہ کرتا ہے اور ایفائے عہد وہی وفا شعاری کہلاتی ہے جس کا شریعت نے پابند کیا ہے۔
حضرت مرحوم انتظامی گوناگو ں مصروفیتوں کے باوجود اپنے تعلیمی وتدریسی منضبط اوقات کے اس سے کہیں زیادہ پابند تھے، جتنا کہ ایک آدمی یا متوسط درجہ کا استاذ۔ یہی عملی انضباطِ فلاح دارین کے اساتذہ وطلبا میں اتنا مؤثر ہوتا کہ کسی کو پابند اسباق وانضباطِ تعلیم وتدریس کے لیے علاحدہ تلقین وتنبیہ یا میٹنگ واجتماع کی چنداں ضرورت پیش نہ آتی۔
اس کا ایک شرعی فائدہ یہ ہوتا کہ آدمی اپنے قول وفعل میں جب پورا اترتاہے تو اس کے نتائج دور رس، دیر پا اور دائمی ہوتے ہیں اور کسی کو {اتامرون الناس بالبر و تنسون انفسکم} اور {لم تقولون ما لا تفعلون }کہنے کاموقع نہیں ملتا (اگر چہ ان دونوں آیتوں کاتعلق دعویٰ سے ہے نہ کہ دعوت سے)۔
اس عملی پابندی اور قولی تطبیق سے ابنائے فلاحِ دارین نے کیا سیکھا؟ ہرجگہ ظاہر ہے، جو انضباط و انصرام اور عہد وپیمان کی پابندی فضلائے فلاح دارین میں آج بھی دیکھی جارہی ہے وہ انہی جیسے علمائے ربانیین کی مرہون منت ہے؛ جنہوں نے اپنی خواہشات و تمناؤںکو قربان کرکے ایک مجاہدانہ اور سرفروشانہ عمل کے ذریعہ ایک ایسی کھیپ تیار کردی جو جیتے جی دین وایمان پر مر مٹنے والی اور آخرت میں مرنے کے بعد اپنے رب کی رضا پانے والی،بل کہ کہنا چاہیے کہ ایک بھاری تعداد کو جنت ورضوان کی مستحق بنانے والی ہوگی۔
استغنا اور علمی رسوخ:
حضرت مولانا عبد اللہ صاحب کاپودروی ؒ وہ ایسی شخصیت تھے، جنہوں نے اکابرین واسلاف کے ستودہ اوصاف میں بالخصوص استغنا اور عملی رسوخ کو اپنے اندر ایسے سمویا تھا جیسے جہاں دن پایا جائے گا وہاں سورج کا نکلنا لازمی قرارد یا جائے گا، جہاں سایہ ہوگا وہاں سایہ والا بھی لازما ًہوگا۔
حدیث شریف میں آتاہے ’’ازہد في الدنیا یحبک اللہ و ازہد فیما عندالناس یحبک الناس‘‘ دنیا سے بے رغبت اور مستغنی ہوجاؤ اللہ تم سے محبت کرنے لگیںگے اور دنیا کی چیزوں سے بے اعتنائی اور استغنا برتو دنیا کے لوگوں میں تمہاری بھر پور چاہت پیدا ہوجائے گی۔
طلبہ کو بھی کامیابی کے چار گر بتائے تھے : (۱) اخلاق میں بلندی (۲) احساسِ ذمہ داری (۳)لباس میں سادگی (۴) علم میں پختگی ۔
مولانا موصوف کی ذاتِ گرامی گویا اس حدیثِ مبارکہ کا عملی پیکر اور علمی مجسمہ تھی، دنیا سے ایسی بے پرواہی کہ اللہ کی پناہ !کبھی دنیاوی کوئی چیز آپ کو غفلت کا شکار نہیں بنا سکتی تھی، حتی کہ نیند جو ایک جزء لاینفک کے طور پر صحت کے لیے تقریباً ضروری ہے؛ لیکن اللہ کے حکم کے سامنے وہ غیر اللہ اور دنیاہے، رات بھر جلسے جلوس یا کسی دینی مشغولیت کی وجہ سے جاگنے کے بعد فجر کی نماز میں تہجد کے وقت ہی سے موجود رہتے۔ ایسا لگتاتھا کہ رات بھر سوئے ہیںاور نیند سے بیدار ہوکر تازہ دم فجر کی نماز میں ہشاش بشاش حاضرہیں۔یہی وجہ ہے کہ اللہ نے آپ سے محبت کی ہے اور آسمان والوں میں ضرور اعلان کرایا ہوگا کہ آسمان والو! تم بھی محبت کرو اور پھر روئے زمین پر آپ کی محبت ومقبولیت کو پھیلادیا گیا تھا۔اسی طرح دوسروں کے پاس کیاہے؟ کون سی چیز ہے اور کتنی قیمتی ہے؟ نظر اٹھاکر بھی دیکھنا گوارہ نہ فرماتے۔
اکا برین سے عشق و محبت:
سچ ہے کہ ماضی قریب کے اکا برینِ امت نے جس طرح دین کو صحیح صحیح سمجھا اورعملی طور پر اس کی تبلیغ فرما کر دوسروں تک پہنچایا وہ انہیں کا حصہ تھا۔ ان اکا برین امت سے محبت کرنا اور عشق کی حد تک انہیں چاہنا، انہیں اٹھانا اور قدرومنزلت کی نظر سے دیکھنا ؛دین سے محبت اوردین کی قدرو منزلت کر نے کے درجے میں ہے۔
حضرت مو لانا عبداللہ صاحب کا پودروی مرحوم کو اپنے اکا برین سے کتنا عشق تھایہ ہروہ شخص سمجھ سکتا ہے جو آپ کی مجلس میں دو چا ر مرتبہ بیٹھ چکا ہو۔ کبھی حضرت حاجی امداد اللہ مہا جر مکی ؒ مو ضوعِ سخن ہیں، تو کبھی مو لانا محمد قاسم نانو تویؒ بانیٔ دارالعلوم دیو بند، کبھی حضرت رشید احمد گنگوہیؒ کی نغمہ سنجی سے مجلس کو گرم کیے ہوئے ہوتے، تو کبھی حکیم الامت مو لانا اشرف علی تھا نوی ؒ کی زمزمہ سنجی، حضرت مولاناشبیر احمد عثمانی ؒ، حضرت علامہ انور شاہ کشمیری،ؒ حضرت شیخ الہند مو لانا محمو د حسن دیو بندی ؒ، حضرت مو لانا یعقوب صاحب نانوتوی ؒ حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ، مولانا حسین احمد مدنیؒ اور کبھی حضرت شیخ الحدیثؒ کے تذکرے اور نہ جانے کتنے اکا برین امت کا اور کب کب اور کیسے کیسے ا پنے ملفوظات وبیانات میں حضرت مو صوف نام و تذکرہ لے آتے کہ آدمی بے سا ختہ پکا ر اٹھتا ؎
محبت تجھ کو آداب محبت خود سکھا دے گی
ذرا آہستہ آہستہ ادھررجحان پیدا کر
اور یہ بات بجا بھی ہے کہ جب کسی کو، دوسرے سے عشق کے درجے کا تعلق ہو تا ہے تو وہ اپنے اندر موجود یا غائب دونوں حالتوں میں اپنے معشوق کا اثر پاتا ہے۔اس کی یا د سے اس کا دل لبریز ہو تا ہے، اس کا محبوب غائب بھی ہو تو اس کا دل اس کی محبت سے آبا د اور بارونق ہوتا ہے۔ ابو الطیب متنبی نے ایسے ہی موا قع کے لیے شاید نہیں یقینا یہ کہا ہے ؎
العشق کالمعشوق یعذب قربہ
للمبتلی و ینال من حوبائہ
حضرت رئیس صاحب دامت بر کا تہم کا اکا برین واسلاف سے عشق ہی وہ جو ہر ہے، جو آپ کے انتظام وانصرام فلاح دارین کے دور میں،اس وقت کے طلبہ واسا تذہ میں با لخصوص منتقل ہوا اور فضلائے فلاح دارین نے جہاں اپنے ادارے سے کسب کردہ فیض سے آیند ہ نسل کو فیض یاب کیا ،وہیں وہ معنوی عشقِ اکا بر بھی اپنے دل کی گرم چنگا ری کے سا تھ آنے والی نئی پود کو با نٹتے رہے اور لو گو ں میں اپنے اکا بر واسلاف سے عشق ومحبت پیدا کرتے رہے۔
اس کی بنیاد ی وجہ یہ ہو ئی کہ اگر ہم اپنے سلسلے کو محفوظ رکھتے ہیں تو ہمارے دین وایما ن اور عمل و احکا م کا اعتبار مضبوط و مستحکم ہو تا ہے ۔اور اگر ہم اپنے سلسلے کو محفوظ نہیں رکھتے اور خودہی اپنے بڑے ہو نے کا دعویٰ پیش کرتے ہیںتوبڑائی کا کیسے اور کس کو اعتبار ہو سکتاہے؟ کیوں کہ دینی بڑائی خودسے پیدا نہیں ہوتی، بل کہ دین جیسے منقول ہو کر آیا ہے اس کی بڑائی بھی منقول ہو کر ہی آ ئے گی۔
اس عشق ومحبت کی چنگاری صرف ہند وستان میں ہی اپنا اثرنہیں دکھا تی تھی، بل کہ جب آپ بیرون ہند کے سفر پر ہو تے تب بھی کنا ڈا، انگلینڈ، امریکہ، افریقہ اور دیگر ممالک کے مسلمانوں سے کسی مجلس میں جب بھی محو گفتگو ہو تے تو یہ عشق و محبت کی چنگاری شعلۂ جوالہ کی شکل اختیا ر کر لیتی اور کوہ ِ آتش فشاں کی طرح اپنی حرارت سے سامعین کو گر ما ئے بغیر نہ رہتی۔ آپ اپنے طلبہ کو اور اپنے دور کے اساتذہ کو ما ضی قریب کے ان اکابرین کے واقعات ان کی جاں فشا نی، وفا کیشی، خلو ص وللہیت، تواضع، کسرنفسی اور استغنا کے واقعات سناتے رہتے۔ کیوں کہ
’’ذکر حبیب کم نہیں وصلِ حبیب سے‘‘
آپ جب علامہ انور شا ہ کشمیری ؒکا ذکر چھیڑ دیتے تو گھنٹوں اسی میں لگے رہتے۔آپ کا اسلوبِ تدریس تفہیم حدیث پر مسلسل گفتگو، احناف وشوافع اور حنابلہ ومالکیہ کے مسا لک و دلائل ،پھر احناف کے مسلک پر حدیث اور دوسرے ائمہ کے دلائل کا جواب ساری چیزیں بڑے لطف ومزہ سے بیان فرما تے۔ آپ علامہ انو ر شا ہؒ کی عربی دانی کا تذکرہ فرما تے تو بتا تے کہ حضرت کشمیریؒ کے عربی ادب کا کیا پو چھنا؟ حدیث میں اگر کہیں کسی لفظ کے استدلال کے لیے عربی شعر استشہاد میں آگیا تو حضرت علامہ صرف ایک شعر پر اکتفا ہر گز نہ فرما تے، بل کہ پورے پورے قصید ے مسلسل بے تکان لطف لے کر سنا تے چلے جا تے۔ سننے وا لا اکتا جا ئے تو وہ اس کی بات ہے لیکن حضرت علامہؒ خود کبھی نہ اکتا تے۔ حضرت حکیم الامت مو لانا اشر ف علی تھا نو یؒ کا ذکر چھڑ جاتا تو پھر تو بس انہیں کا ذکر چلتا رہتا۔ حضرت تھانویؒ کی طالب علمی، محنت ولگن، گنا ہوں سے اجتناب، اصول پسندی، بزرگوں سے ربط، علم میں گہرائی، عمل میں لگن ،تصنیف وتا لیف میں پابندی اور ’’خیر العمل مادیم علیہ وإن قل‘‘ پر عمل یہ ساری باتیں ایسی لذیذ اور پر زور طریقے سے بیان فرماتے کہ سننے والاکبھی اکتا ہٹ محسوس نہ کر تا۔ حضرت مرحوم کے اس عشقِ اکابر نے ہی آپ کو بھی دوام بخشا۔آپ ابھی ہم سے رخصت ہوگئے،مگرذاتی تجربات بتلارہے ہیں کہ آپ کی لگا ئی ہو ئی کھیتی کبھی ان شاء اللہ ویران نہ ہو گی۔یہ کشتِ علمی ہمہ وقت سیراب وشاداب رہے گی، اسی عشق ومحبت اور اکا برِ امت سے تعلق وربط کی وجہ سے طویل اورمختصر تعطیلات میں ہمیشہ یہ ہدایات دیتے رہتے کہ ان فارغ اوقات کو اہل اللہ کی صحبت میں گزارنا چا ہیے کہ صحبت اپنا بڑا اثر رکھتی ہے ؎
جمالِ ہم نشیں در من اثر کرد
وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم
عمر کے کسی بھی مر حلے میں اہل اللہ کی صحبت سے مستغنی نہیں رہنا چا ہیے۔ اہل اللہ کی خدمت میںحاضری دینا دین کا رنگ اپنے اندر پختہ طور پر چڑھا نے کے مترادف ہے؛یہی اللہ کا رنگ ہے اللہ کے رنگ سے اچھا رنگ کس کا ہو سکتا ہے؟ {صبغۃ اللہ ومن احسن من اللہ صبغۃ ونحن لہ عابدون}اسی مضمون کا اشارہ حضرت شیخ سعدی ؒ کی اس حکا یت کی طرف بھی ہے
گلے خوشبوئے در حمام روزے
رسید از دستِ محبوبے بدستم
بدو گفتم کہ مشکی یا عبیری
بگفتا من گلِ ناچیز بودم
جمالِ ہم نشیں در من اثر کرد
و گر نہ من ہماں خاکم کہ ہستم
’’فرما تے ہیں کہ ایک روز میں غسل کر نے کے لیے حمام میں داخل ہو ا، جہاں میرے دوست نے مجھے ایک خوش بودار مٹی دی جسے ملنے سے بدن میں خوش گوار اور روح پرور مہک اٹھنے لگی۔ میں اس پر بے حد متعجب وحیران ہو کر خود کلامی کے انداز میں اس سے پو چھ پڑا کہ تومشک ہے یا عنبر؟ تیری روح پرور، خوش گوار اور دل آویز خوش بو نے مجھے بے خود اور مست کر کے رکھ دیا ہے؛ اسی کے معاً بعد اُس کا جواب میرے کانوں کے پردے سے ٹکرا نے لگا کہ میں تو وہی ایک نا چیز اور بے حیثیت مٹی ہو ں، مگر مجھے ایک عرصۂ دراز تک گلاب کے پھول کی صحبت میسر آئی ہے، میرے ہم نشیں کی ہم نشینی اور صحبت نے اس کے حسن و جمال کا اثر میرے اندر بھی بھردیا ورنہ میں تو وہی مٹی ہوں جو عام طور پر ہو ا کر تی ہے۔ ‘‘
حضرت مرحوم اس طرح کے واقعات سنایا کرتے تھے، جس سے قیاسا ًیہ مقصود ہو تا کہ شیخِ کا مل کی صحبت وہم نشینی اسی طرح اخلاقی وروحانی برائیوں سے منزہ کر کے زندگی کو دل آویز، معطراور روح پرور بنا دیتی ہے اور ایسے ایسے اوصافِ حمیدہ سے متصف کردیتی ہے، جن کی تحصیل کے لیے محنت ومجاہدے کے راستے سے عرصہ ہائے درازبھی نا کا فی ہوتے ہیں۔
اکا بر اساتذہ سے استفادہ:
صحبتِ صالح کا اثر انسان کی زندگی میں با لکل ایسا ہی ہو تا ہے جیسا مٹی کو گل ولالہ نے خوش بو دار بنا دیا۔ حضرتؒ جہاں اپنے طلبہ اور مدر سین کو ہمہ وقت نیک صحبت اور صالحیت پر ابھا رتے ،وہیں طلبہ کی استعداد سازی کے لیے خونِ جگر دینے کے لیے بھی ہر دم تیا ر رہتے اور اس کی کو شش فرماتے۔
’’فلاحِ دارین‘‘کے زما نۂ اہتمام میں صلاحیت سازی اور تقسیمِ اسباق کے حوالے سے حضرت کی فکر مندی اس سے نما یا ں ہو تی ہے کہ حضرت مولانا ابرار احمدصاحب دھولیوی ؒ کو متقدمین کے علوم میں پختگی، عمق اور گہرائی وگیرائی حاصل تھی، متقدمین کے علوم کو گھو ل کر پلا دینا گو یا ان کے بائیں ہا تھ کا کھیل تھا، اس لیے حضرت کا پود روی ؒ نے بخاری شریف جلد ِاول کا درس انہیں سے متعلق کر رکھا تھا، تاکہ جہاں اکا بر اسا تذہ کے چیدہ چیدہ علوم سے استفادہ کا بھر پور مو قع مل سکے؛ وہیں طالبانِ علوم نبوت کی پختہ استعداد سازی کی راہ ہموارہو سکے۔ دوسری طرف حضرت مولانا شیر علی صاحب قاسمیؒ کی ذات ِگرامی تھی، جن کوعلومِ اسلامیہ میں دست گاہِ کامل حاصل ہونے کے ساتھ فقہی بصیرت اور تصلب فی المسلک کی بھی ایک امتیازی شان حاصل تھی۔ اصولی وفروعی مسائل فقہیہ میں پانی کی روانی کی سی زبان چلتی تھی اور شرح ِمسلک حنفی میں چٹان کی سی مضبوطی اور لو ہے کی سی پختگی حاصل تھی۔ حضرت ؒ کا ہی یہ ظرف تھا کہ انہوں نے اس جو ہرِآب دار کو پہچانا تھا اور طلبہ کی صلاحیت سازی اور مستقبل کی تا بناکی کے لیے ایسی شخصیت وصلاحیت کا ا نتخاب فرما یا تھا جو تصلب فی الدین اور پختگی مسلک کی نایاب خوبی طلبہ میں بہتے دھارے کی مانند منتقل کردے؛یہی سارے مقاصد کا ر فرماتھے ،جن کی بنیاد پر حضرتؒ نے بخاری جلد ثانی حضرت مو لانا شیر علی صاحبؒ سے متعلق فرمائی تھی۔ اسی طرح جلالین شریف کی تقسیم میں یہ بات ملحوظ تھی کہ نصفِ اول حضرت مولانا ابرار صاحبؒ سے متعلق تھی اور نصفِ ثانی علوم عقلیہ کی تطبیق میںید طولیٰ رکھنے والے اور مستشرقین و جدید مصنفین کے چیلنجر کے تارو پود بکھیرنے والے استاذ گرامی قدر حضرت مو لانا سید ذو الفقار احمد صاحبؒسے متعلق تھی۔حضرت مو صوف مرحوم کا یہ خاصہ تھا کہ اسا تذہ کی تقرری کے معاملے میں صلاحیت و صالحیت دو نوں پہلوؤں کو ملحوظِ خاطر رکھتے، اس کے لیے ملک کے چپے چپے میں اسفار کرتے، کہیں بھی کو ئی قیمتی ہیرا نظر آجا تا تو جوہری کی پرکھ رکھنے وا لا اسے فوراً اٹھا لیتا کہ ع
’’قد ر ِ جوہر شا ہ داند یا بداند جو ہری ‘‘
یہ کہنا بجا ہوگا کہ معرفتِ رجال میں آپ لا ثانی تھے ۔
اس سے طلبہ میں بلند حو صلگی، وسعتِ ظرفی اور ایثار وقر بانی کا جذبہ پیدا ہوتا۔ مر عوبیت واحساس کمتری کے عیب سے دوری ہو تی۔ اسی طریقۂ کا ر کی وجہ سے اپنے ادارے کے کبار اساتذہ سے استحکا مِ تعلیم وتنظیم میں مشورے لیتے، ان کی آرا کی قدردانی فرماتے، اُس طریقۂ کار کو نافذ العمل فرماتے جو مشورہ میں طے پاتا اور اس کو بر ملا ظاہر فرما تے کہ یہ تو فلاح دارین کے اسا تذہ کا کمال ہے کہ ہر وقت وہ دست گیری فرماتے رہتے ہیں۔اساتذہ کو تبلیغِ دین اور اصلاح سماج کے لیے مختلف دیہی علاقوں اور دور دراز قصبات میں سفر کراتے، عوام وخواص کو مر بو ط رکھنے کی مہم چلاتے، طلبہ واساتذہ کے پاکیزہ ربط کا بھر پور خیال رکھتے، تجسس اور ٹوہ کو حرام سمجھنے میں کو ئی تفریق روا نہ رکھتے کہ مدارس کی چہا ر دیواری میں تجسس و ٹوہ کو جواز کی سند فراہم ہو جائے؛ اس بات کی شدومد سے تا کید فرمایا کر تے کہ حرام چیز نیکی کا ذریعے بننے سے حلال نہیں ہو جا تی۔ کسی کی مدد کے لیے رقم کی فراہمی میں چوری کو ذریعہ بناناحلال نہیں ہو سکتا، ایسا کھلا ذہن رکھتے او ررکھنے کی تلقین بھی کر تے کہ علم دین ؛دنیا کے جس کو نے میں بھی ملے حاصل کرو۔ اس کے لیے فلا حِ دارین کی تخصیص ہر گز نہیں، شر ط یہ ہے کہ اکا برِدین سے عشق ،خدا کا خوف اور اپنی اصل حقیقت کا ادراک رہنا چاہیے ؎
تم شوق سے کا لج میں پڑھو پارک میں کھیلو
جائز ہے غباروں میں اڑو چرخ پہ جھولو
پر ایک سخن بندئہ عاجز کا رہے یاد
اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو
(اکبر الہ آبادی)
اسی لیے طلبہ کو دیگر مدارسِ اسلامیہ اور جامعاتِ دینیہ میں تحصیلِ علمِ دین اور مہارتِ تامہ پیدا کرنے کے لیے ابھارتے،اکساتے اور دامے درے، قد مے سخنے جیسا بھی بن پڑتا تعاون فرما کر عالمی شخصیات اور اداروں سے واقفِ کاربناتے۔ اپنی امتیازی شان کوظاہرکرنے کے بجائے تواضع اور کسرِ نفسی کو ترجیح دیتے، اپنے شاگردوں مثلاً مولانا ابرار صاحب دھولیوی ، مو لانا یوسف صاحب ٹنکا روی وغیرہ دیگر اکا بر اسا تذ ئہ فن کی مجالس سے طلبہ کو جوڑنا اور مستفیض ہونے کی تلقین کر نا اسی تو اضع اور
ع درسخن مخفی منم چوں بوئے گل در برگِ گل
کی زندہ مثالیں ہیں۔ اور ظاہر سی بات ہے کہ جس شخصیت کی ہمیشہ یہ تا کید وتلقین ہو کہ کسی بھی میدان میں مسلک دیوبند سے سر ِمو انحراف نہ ہو نے پائے وہ کس قدر محتاط اور باریک بیں ہو گی؟ جدید نافع کو لینے میں قد یم صالح سے دست بردار ہو نا ہمارے حضرت کا ہر گز مسلک نہ تھا، کسی کو متنبہ کرنے میں عزتِ نفس کا خیال رکھنااور اعزاز واکرام اور قدیم برتاؤمیں فرق نہ آنے دینا یہ آپ کی شناخت تھی۔طلبہ واساتذہ کے درمیان تعلیم وتعلم کا باہمی ربط رہتا ہے، جس میں کبھی تعلیمی پیش رفت میں نقص کی شکا یت انتظام کے پردئہ سماعت سے ٹکرائی ہے، ایسے موقع پر صاف ستھرے اور اعتدال پسندانہ رویے سے حالات پر قابو پالینا ہمارے حضرت مرحوم کا حد درجہ کمال تھا۔ ایک موقعہ کا چلتے چلتے مختصرسا ذکر کردوں کہ ایک ہی استاذ سے شرحِ تہذیب اور اصول الشاشی کی کتابیں جماعت سوم کے طلبہ کے حوالے سے متعلق تھیں، جس میں طلبہ کی کمزوری اصول الشاشی نامی کتاب میں دیکھی گئی، انتظامیہ کو اطلاع ہو نے پر حضرت نے کمالِ ادب سے استا ذ کو طلب کیا تو استاذ بھی حضرت کے پروردہ تھے، اپنی صفائی میں زیادہ کچھ نہ بو لتے ہو ئے عر ض کیا بندے نے دونوں کتابیں اپنی استطاعت بھر محنت ہی سے پڑھائی ہیں، کمزوری کہاں سے آئی اس کا صحیح جواب درجے کے طلبہ ہی سے معلوم کر لیں۔ اس طرح کے حالات میں حضرت فراخ دلی، سیر چشمی اورسادہ دلی کا ثبوت دیتے؛ چناںچہ ایسا ہی ہوا اور انتظامیہ سے اساتذہ کا یا طلبہ کا اساتذہ وانتظامیہ سے الجھنے کا معاملہ اسی بلند اخلاقی کے سبب ایک خوش گوار ماحول میں تبدیل ہو کر نمونہ بن گیا۔
آپ کی زندگی کامقصدوہ عمل جس سے دوسروں کو حوصلہ ملے،علم اور علما کا مقام بلند ہو اور دین کو سر خروئی وسرفرازی حاصل ہو ؎
میری زندگی کا مقصد ترے دین کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں، میں اسی لیے نمازی
مداومتِ عمل اور جہد ِمسلسل:
حدیث شریف میں آتا ہے ’’خیر العمل مادیم علیہ وإن قل‘‘ ہمارے استاذ گرامی اور مربی اور فلاحی برادری کے عظیم محسن حضرت مولانا عبد اللہ صاحب کاپودرویؒ کا سب سے بڑا اور عظیم الشان کا رنامہ؛ جسے ایک کرامت ہی کہناچاہیے وہ یہ ہے کہ جس کا م کا آغاز کیا اسے پا یۂ تکمیل تک پہنچایا۔جس میدان میں قدم رکھاپیچھے نہ ہٹے، جس رخ پر زندگی کی گا ڑی چلانا شروع کی اس میں تسلسل، دوام، پابندی ’’نرم دمِ گفتگو،گرم دمِ جستجو‘‘ کا مصداق اور مداومت پر عمل والی حدیث کے پیکرِ مجسم تھے۔
اپنے ۲۷؍ سالہ عرصے پر محیط دور ِاہتمام میں اسی گرمی،حرارت،حو صلہ مندی، بلند ہمتی، تو کل وایثار، جذبۂ ہمدردی، بلند اخلاقی، تقوی وپاکیزگی،تو اضع و للہیت، کسر ِنفسی اور اپنے اسلاف سے عشق کے درجے کا لگاؤ جیسی اعلیٰ قدروں اور بلند صفات کے ساتھ پوری پابندی سے زندگی کے ایام گزارتے رہے کہ اللہ نے اسی کرامت کو اجا گر کر نے کے لیے حضرت مولانا سید ذوالفقا ر احمد صاحب قاسمیؒ جیسا باشعور اور بیدار مغز وزیر وعالم ربانی عطافرما دیا۔آپ سے ایک دنیا فیض یاب ہو تی رہی اور کفر و شرک کی گھٹا ٹوپ تا ریکی میں افقِ عالم پرچمکنے والے آفتاب و ماہتاب اپنے علم و عمل کی ضیا پاشی سے بکھرے ہو ئے اندھیر ے کی چادر کو تا رتار بناکر دونو ں جہاں کی ناکامی سے نکال کر فلاح دارین عطا کر رہے ہیں اور آنے والی نئی نسل کو یہی پیغام دے رہے ہیں ؎
جوانوں کو میری آہِ سحر دے
پھر ان شاہین بچوں کو بال و پردے
خدایا! آرزو میری یہی ہے
مرا نورِ بصیرت عام کردے
جی چاہتا ہے کہ حضرت کی نذر یہ آیت کریمہ کروں :
{اِنَّ اِبْرَاہِیْمَ کَانَ اُمَّۃً قَانِتاً لِلّٰہِ حَنِیْفًا وَّلَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ، شَاکِرًا ِلَانْعُمِہِ اجْتَبَاہُ وَہَدَاہُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ، وَاٰتَیْنَاہُ فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّاِنَّہُ فِی الْآخِرَۃِ لَمِنَ الصَّالِحِیْنَ }
’’بے شک ابراہیم ایسے پیشوا تھے،جنہوں نے ہرطرف سے یکسو ہوکر اللہ کی فرمانبرداری اختیارکرلی تھی اوروہ ان لوگوںمیں سے نہیں تھے،جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتے ہیں۔وہ اللہ کی نعمتوں کے شکر گزارتھے،اس نے انہیں چن لیا تھااور ان کو سیدھے راستے تک پہنچا دیا تھا۔اور ہم نے ان کو دنیا میں بھی بھلائی دی تھی اور آخرت میں تو یقینا ان کا شمار صالحین میں ہے‘‘۔
آنسو پونچھنے اور زندگی میں غموں کو ہلکا کرنے کے لیے حضرت مرحوم کی قائم کردہ راہ واشگاف موجود ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ حضرت کے قائم کردہ خطوط پر گامزن رہ کر اپنی منزل کی تلاش میں محو جستجو رہیں ۔
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے پسندیدہ اشعار :
شعر
؎نشان منزل جاناں ملے نہ ملے
مزے کی چیز ہے یہ ذوق جستجو میرا
شعر
؎نوجوانو! صدائیں آرہی ہیں آبشاروں سے
چٹانیں چور ہوجائیں جو ہو عزمِ سفر پیدا
شعر
؎اے طائر لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
شعر
؎عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں