حضرت مولانا عبد الرحمن ملیؔ ندویؔ
ایڈیٹرمجلہ’’النور‘‘جامعہ اکل کوا
انسان کی زندگی ایک چراغ ہی تو ہے ، بوڑھا انسان اگر چراغِ سحر ہے تو جوان چراغ شام ۔ چراغ کو بجھنے کے لیے کسی آندھی کی ضرورت نہیں پڑتی ، پھونکوں سے ہی چراغ بجھ جایا کرتے ہیں ۔زندگی ایک ننھا سا دِیا ہے جو ہلکے جھونکے سے بھی خاموش ہوجاتا ہے ، لیکن چراغ جب روشن ہوتا ہے تو اپنے گرد وپیش کو منور کردیتا ہے اور پھر جتنا بڑا چراغ ہواتنی ہی بڑی روشنی بھی ہوتی ہے ۔
دنیاامتحان گاہ ہے:
یہ دنیا نہ آرام گاہ ہے نہ قیام گاہ اور نہ تماشا گاہ ، اگر ہے تو صرف امتحان گاہ ۔ اللہ نے موت وحیات کو امتحان وآزمائش کے لیے بنایا ہے ۔ {خلق الموت والحیوۃ لیبلوکم ایُّکم أحسن عملًا } ’’ہر انسان کی زندگی دراصل امتحان کی تیاری کے لیے مہلت ہے اورزندگی کی بے شمار سرگرمیاں اس امتحان کے مختلف پرچے ہیں۔ انسان کا طرزِ عمل بھَلا یا بُرا ان پرچوں کا جواب ہے ۔ امتحان لینے والا چوں کہ خدائے وحدہ لاشریک ہے اس لیے کامیابی اور ناکامی کا معیار بھی وہی تجویز کرے گا ۔
موت تو ایک پُل ہے:
موت تو ایک پل ہے جو حبیب کو حبیب سے ملاتاہے ’’ الموت جسر یوصل الحبیب الی الحبیب ‘‘قرآن کریم نے موت سے متعلق ایک عجیب اور دل لگتی بات کہی ہے کہ {کل نفس ذائقۃ الموت}ہر شخص کو موت کا مزا(ذائقہ ) چکھنا ہے ۔ مزا اور ذائقہ تو میٹھا بھی ہوتا ہے اور کڑوا بھی ۔ کچھ لوگ اس کے میٹھے ذائقہ کے انتظار میں رہتے ہیں اور کچھ لوگ اپنے بُرے اعمال کے سبب اس کے کڑوے ذائقہ سے ہراساں اور خوف زدہ رہتے ہیں ۔ وہ ہزار برس جینا چاہتے ہیں، مگر مسلمان کی شان یہ ہوتی ہے کہ وہ موت سے ڈر اور خوف محسوس نہیں کرتا ، بل کہ اپنے اچھے اور نیک اعمال کے سبب اس کا مشتاق رہتا ہے ۔ حضرت شاہ محمد یعقوب ؒ کو جب مرض وفات شروع ہوا تو لوگوں نے تسلی دی کہ حضرت فکر نہ فرمائیں ان شاء اللہ جلد رو بہ صحت ہوںگے ، حضرت نے سنا تو غصہ کیااورفرمایا : ’’ عمر بھر اسی وقت کی تمنا میں تھا اورتم اس کو ہٹانے آگئے ، دعا کرو کہ حسنِ خاتمہ ہوجائے ۔ ‘‘
تسلیاں مت دو کہ میری عمر زیادہ ہو
عمر بھر اِس وقت کی تمنا میں تھا
(خطبات حکیم الاسلام ، فلسفۂ موت)
ایسے ہی عاشقانِ پاک طینت کی موت کو عالَم کی موت سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔’’ موت العالِم موت العالَم ‘‘ کہ ایسے خدا آگاہ اور آہ سحر گاہی سے معمور اہل دل کی موت سے حیاتِ روحانی میں ایک خلا پیدا ہوتا ہے اور پھر اس خلا سے ہزاروں انسانوں کا روحانی نقصان ہوتا ہے ۔جس کو اہلِ ضمیر اور روشن دل افراد محسوس کرتے ہیں۔ کسی عالم باعمل اور کسی روحانی شخصیت کا اس دنیا سے اٹھ جانا ایک قسم کی قیامت صغریٰ ہی تو ہے ۔
حضرت مولاناعبداللہؒ کی رحلت ایک کتب خانہ کابندہوناہے:
حضرت مولانا عبداللہ صاحب کاپودرویؒ کی رحلت ایک تاریخ ساز مربی اور ایک کتب خانہ کا بند ہوجانا ہے ۔ حضرت مولانا کاپودرویؒ نہ صرف یہ کہ ایک بزرگ عالم دین تھے، بل کہ ایک عہد ساز تاریخی شخصیت کے مالک تھے، جو سادگی میں بھی بارعب شخصیت کا درجہ رکھتے تھے ۔ جہاں وہ کتابوں کے رسیا اورمطالعہ کے خُوگر تھے، وہیں اپنے سنجیدہ، ٹھوس اورفکری مطالعہ سے دانش مندانہ نتائج نکالنے کے عادی بھی تھے ۔ دینی علوم اور عربی زبان وادب کا صاف ستھرا ذوق رکھنے میں امتیازی مقام رکھتے تھے ۔ حدیث ، تفسیر ، ترجمۂ قرآن ، عربی زبان و ادب کی تدریس کا ماہرانہ ذوق رکھتے تھے ،جو موصوف کی تقاریر ، نجی گفتگو ، مجلسی باتوں اور ادبی محافل سے سمجھ میں آتا تھا۔ مولانا کاپودروی ؒ ایک باعمل، نیک طینت ، شریف وملنسار عالم دین تھے ،جنھوںنے تعلیم وتدریس کے مسندوں کو آراستہ کیا۔ کئی پتھروں کو ہیرا بنایا اور کئی ہیروں کو علمی وادبی دنیا میں چمکایا، جو آج مہر تاباں وخورشید بن کر چہار دانگ عالم میں اپنی ضیا پاشی کے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ حضرت کا خصوصی وصف تھا کہ انہوں نے دنیا والوں سے کچھ نہیں لیا، لیکن اپنی روحانی وعلمی متاعِ بیش بہا لٹاتے رہے جو صرف اہل دل کے یہاں ملا کرتی ہے ۔ حضرت ؒ جیسے عظیم انسان کے اٹھ جانے سے احساس زیاں ضرور ہے، مگر مولانا نے اپنے پیچھے فکرو نظر کا وسیع سرمایہ بہ طور یادگار چھوڑا ہے، جس سے ان کے پیغام کی گونج ہمیشہ بلند ہوتی رہے گی ۔
ان کی شخصیت مختلف پھولوںکی عطرمجموعہ تھی:
صوبہ گجرات کے علما اور داعیوں میں شاید حضرت مولانا کاپودروی ؒہی ایسے فردِ فرید تھے ،جن کو اللہ تعالیٰ نے عالمی شہرت ومقبولیت سے نوازا تھا اورجن کو امت کے ہر طبقہ کا اعتماد حاصل تھا ۔ اس لیے کہ ان کی شخصیت مختلف پھولوں کی عطر مجموعہ تھی ۔ ان کی شخصیت سب سے منفرد اور ممتاز تھی ۔ جامعیت بھی تھی اور اعتدال بھی ، جمال بھی اور کمال بھی۔ اس لیے کہ انہوں نے گلشن دین وعلم اور ادب و تاریخ کے بہت سے پھولوں کا عطر کشید کرلیا تھا ۔
حضرت کاپودرویؒ کی شہرت کاراز:
حضرت مولاناکاپودرویؒ کی عالمی مقبولیت اورہمہ گیرشہرت کارازصرف علم کی وسعت ،تصانیف کی کثرت اورزبان وبیان پرقدرت ہی میںپوشیدہ نہیںتھا۔بل کہ عبادت وریاضت میںیکسوئی اورخلوت نشینی کے علاوہ خدااورخلقِ خدا؛دونوںکے تقاضوںکوسمجھنااوراپنے اعلیٰ ترین کردارسے انسانوںسے بلااختلاف مسلک محبت کرنابھی تھا۔
حضرت ؒسے میری شناسائی:
جہاںتک تعلق ہے اِس ہیچ مداںاورعاجزکے تعلق کا۔تووہ تقریباً۳۰؍سالوںسے زائدعرصہ پرمحیط ہے ، بل کہ بندہ ندوۃ العلماء کی طالب علمانہ زندگی سے ہی آشناتھا،البتہ نزدیکی اورقربت نہیںتھی۔رابطہ ادبِ اسلامی کے سالانہ سمیناروںاورحضرت مولاناسیدابوالحسن علی ندویؒ سے غایت درجہ کے تعلق کی بناپرمختلف دینی،علمی وادبی مقامات پرملاقاتیںہوتی رہیںاورتعارف بھی۔جب یہ عاجزجامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کواسے تدریسی طورپرمنسلک ہواتویہاںکی ملاقاتیںمحبتوںمیں بدل گئیں۔اورپھرتعلقات بڑھتے گئے ۔۱۹۹۰ء میںمجلہ’’النور‘‘ کے اجراء وافتتاح کی ادبی مجلس میںحضرت مولاناکاپودرویؒ تشریف فرماتھے۔احقرکی طالب علمانہ عربی زبان سن کر بہت خوش ہوئے اوربندہ کی حیثیت سے زیادہ حوصلہ افزائی فرمائی۔بعض اوقات نوجوان قلم کاربڑوںکی حوصلہ افزائی اوردلجوئی سے دھوکاکھاکرتکبراورخودستائی کے شکاربھی ہوجاتے ہیں۔الحمدللہ!اللہ نے ہماری حفاظت فرمائی اورہم ہمیشہ اپنے کرم فرمابزرگوںاورمربیوںکے زیرتربیت رہے اورآج بھی اپنے مربی اساتذہ کی تربیت حاصل ہے۔
حضرت کاپودرویؒ سے محبتانہ تعلق:
ہماراحضرت مولاناکاپودرویؒ سے شاگردانہ اورمسترشدانہ تعلق نہ تھا۔البتہ محبتانہ اورمخلصانہ تعلق ضرورتھا۔جامعہ کے مختلف علمی،ادبی،دینی اورتعلیمی پروگراموںمیںحضرت کی قدم رنجائی ہوتی اورمواجہت ہوتی تو برجستہ ہم سے عربی زبان میںفرماتے کہ’’کیف الحال الشیخ الملي‘‘یہ بھی ایک طریقہ ہوتاہے حوصلہ افزائی اورتربیت کا،کہ جوآدمی جس میدان اورفیلڈکاہوتااس سے اُسی اعتبارسے ملاقات کرتے اورمشورہ دیتے۔ کتابوں اور محاضرات کی رہ نمائی کرتے۔ایک مبتدی مدرس کوکامل وباکمال مدرس کیسے بنایاجائے یہ گُرکوئی اُنھیںسے سیکھے۔اوریہ حقیقت ہے کہ جوبھی اپنے عالی اورتجربہ کاربزرگ اساتذہ ومشائخ سے منسلک ہوکران کی تربیت میں مطالعہ کرے گا،یقینا وہ اپنے زمانہ کاایک باکمال مدرس ،منتظم،مصنف اورمؤلف بنے گا۔ورنہ خودنمائی تو ہر نومشق فاضل کافیشن بن چکاہے ۔
حضرت مرحوم کاطرزِ تدریس:
حضرت مولاناعبداللہ کاپودرویؒ کازیادہ ترتعلق درس وتدریس اورتعلیم وتعلم سے تھا۔ترجمۂ قرآن، شرحِ وقایہ ،متنبی اورحدیث میںریاض الصالحین ،طحاوی شریف اوردیگرمنتہی کتابیںبھی زیرتدریس رہیں۔جن علمانے حضرتؒ کے زمانۂ تدریس میںحضرت سے خوشہ چینی کی اورشرفِ تلمذسے مشرف ہوئے وہ یقیناحضرت کے طرزِ تدریس سے آشناہوںگے۔لیکن ہم نے حضرت کے علمی بیانات اورتعلیمی مشوروںسے اندازہ ضرورلگایاکہ طلبا کی نفسیات اورعمرکالحاظ کرتے ہوئے اپنی تدریسی تقریرکرتے ہوںگے اوریہی طرزتدریس طلبہ کومطمئن کرتاہے۔ ورنہ طلبہ کوہی ہرچیزکامکلف کیاجائے تواستاذکی حاضری چہ معنی دارد؟ایک صاحبِ نظراورصاحب ِذوق استاذہمیشہ اپنے طلبہ کی نفسیاتی کیفیت کومدنظررکھتے ہوئے تدریس کرے گا۔
مفکرکسے کہتے ہیں؟:
حضرت مولاناکاپودرویؒ کے طرزِتحریراوراسلوبِ بیان سے اندازہ ہوتاہے کہ واقعتا حضرتؒ ایک مفکر، مدبر،حکیم،منتظم اورباکمال مربی واتالیق تھے۔حضرت مولاناؒ مدرسہ کو’’مصنع الرجال‘‘سے تعبیرکرتے تھے۔یعنی انسان سازی کاکارخانہ۔اورمولانانے اپنی فکرونظراورروشن ضمیری سے رجال سازی کاتاریخی کارنامہ انجام دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ حضرت مولاناعبداللہ صاحب کاپودرویؒ صحیح معنی میں’’مفکراسلام ‘‘کہلانے کے مستحق تھے کہ اللہ نے موصوفؒ سے وہ کام اتم درجہ میںلیا۔ہمارے علمی معاشرہ میں’’مفکراسلام‘‘کی تعبیراکثراستعمال ہوتی ہے۔نہ عمرکاپیمانہ دیکھاجاتاہے اورنہ علم وعمل کی پیمائش۔کسی بھی شخص کوبس صرف عمرکی درازی پر’’مفکر اسلام‘‘ جیسا باوقارلقب چسپاں نہیںکیاجاسکتا۔تفکروتدبر کامقام بہت اونچاہے ۔مفکرکے مقام تک پہنچنے والے خال خال ہی ہوتے ہیں۔محقق کسی زیربحث مسئلہ کی تحقیق کرتاہے،اصلیت معلوم کرنے کے لیے چھان بین کرتاہے ،پھرکسی نتیجہ پرپہنچتاہے ۔لیکن مفکروہ ہوتاہے ،جس کی ذہانت کے سوتے گہرے مطالعہ اورغوروفکرکے چشمہ سے پھوٹتے ہیں۔ایسا شخص فکرامروزبھی رکھتاہے اوراندیشۂ فردابھی۔جونظریہ پیش کرتاہے ،اس کے پاس اس کاسنجیدہ حل بھی ہوتاہے ۔اس نظریہ میںتاریخ کاپس منظربھی ہوتاہے اورعصرحاضرسے آگہی بھی۔عالمی حالات کے اتارچڑھاؤ پر اس کی تجزیانہ نظرہوتی ہے ،ا س کے افکارمیںہزاروںانسانوںکے لیے رہ نمائی ہوتی ہے ۔
حضرت کاپودرویؒ صحیح معنی میں’’مفکراسلام‘‘تھے:
مفکر اسلام کی تعبیر حضرت مولانا عبد اللہ کاپودروی ؒپر مکمل طور پر صادق آتی ہے اس لیے موصوف ؒ نے اپنے وقت کے بڑے بڑے باکمال عرب وعجم کے مشائخ ، محدثین ، مفسرین ، مؤرخین اور ادبا کو دیکھا ہے ۔ بعض اوقات ان کی مجالست اختیار کی ہے ، حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ؒسے تو حد درجہ متاثر تھے ، ان کے بیانات ، تقاریر ، کتابوں کی تقاریظ ومقدمات اس بات کے شاہد عدل ہیں کہ حضرت مولانا کاپودروی ؒ حضرت مولانا ندوی ؒ کی فکر سے کس قدر ہم آہنگ تھے کہ انہیں گجرات کا ’’علی میاں ؒ ‘‘ تک کہا جاتا رہا ۔
زبان وقلم کی پاکیزگی کے سب سے بڑے داعی:
حضرت مولانا کاپودروی ؒ اکثر اپنے بیانات اوراساتذہ کی تعلیمی مجالس میں فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو؛ اور خاص طور پر ایک عالم کو اپنی زبان اور قلم دونوں پاکیزہ رکھنا چاہیے ۔ اگر کسی پر تنقید بھی کرناپڑے اور اس سے فکری اختلاف بھی ہو تب بھی زبان کی پاکیزگی کو مد نظر رکھنا چاہیے کہ اس سے ایک عالم کا وقار بحال ہوتا ہے اور دل صاف رہتے ہیں ۔
اکثر ایسا دیکھا گیا ہے کہ تنقید تحقیر میں بدل جاتی ہے ۔ جس کا نتیجہ تنقیص کے علاوہ کچھ نہیں نکلتا اور پھر انسان دوسروں کی عزت سے کھیلنے لگتا ہے ۔ حضرت مولانا کاپودروی ؒ اس کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے کہ ہماری غیر ضروری تنقید کی وجہ سے کسی کی دل شکنی نہ ہونے پائے ۔ اور اسی بلند اخلاقی نے انہیں علما ومشائخ ، طلبا واساتذہ کے درمیان وہ مقام دیا، جس کا مشاہدہ ان کے جنازہ کے وقت ہرایک نے کیا ۔ اس لیے کہ بعض وہ شخصیات ہوتی ہیں جو بزرگوں ، مشائخ اور باصفا اہل دل کی نگاہوں سے شراب علم پیتی ہیں اور ایک عالم کو سنوارنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں ۔ کسی نے سچ کہا ہے ؎
تونے پی کتابوں سے میں نے پی نگاہوں سے
بڑا فرق ہے واعظ تیرے میرے پینے میں
یہ محبوبیت؛ بہت کم لوگوں کوملتی ہے:
یقینا حضرت مولاناعبد اللہ صاحب کاپودروی ؒنے اپنے بزرگوں، مشائخ اوراہل دل اللہ والوںکی نگاہوں سے پی کر عظیم مفکر اسلام، مفسر قرآن ، صاحب طرز ادیب ،عہد ساز مربی اور تاریخی مدبر ومنتظم بنے ۔ ہندستان کے تمام قابل ذکر علمی اداروں ، فکری مکاتب اور روحانی مسالک سے منسلک افراد کے نزدیک قابل احترام واستناد شخص شمار کیے گئے ۔ ایسا عزو شرف ، اتنی تکریم وتوقیر ، قدر ومنزلت ، بل کہ محبوبیت کم ہی کسی کے حصہ میں آتی ہے ۔
آج بھی ہم جیسے طلبا حضرت ؒ کی تاریخی زندگی کو دیکھیں اور اپنے آپ کو سنوارنے کی فکر کریں تو خدا تعالیٰ کی توفیق سے کوئی بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم جیسے ہیچ مداں افراد کو بھی علم وعمل اور اخلاص وللہیت کی نعمت سے سرفراز فرمائے اور اللہ کی قدرت سے یہ بعید بھی نہیں ہے ۔
أُحِبُّ الصَّالحین ولستُ منہم
لعل اللّٰہ یرزقنی صلاحاً