محسن عظیم کا سانحہ عظیم

انطباعاتِ قلبی بر رحلت مربی(حضرت مولانا عبد اللہ صاحب کاپودرویؒؒ)

(رئیس الجامعہ حضرت مولانا)غلام محمد(صاحب)وستانویؔ

الحمد للہ وحدہ والصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ ، أما بعد!

                        کسی شاعر نے کہا    ؎                  

’’ لِدُو للموت ، وابنوا للخراب ‘‘

بچے جنو موت کے لیے اور تعمیرات کرو تخریب کے لیے ۔

                حقیقت یہ ہے کہ جو دنیا میں آیا ہے وہ جانے کے لیے ہی آیا ہے ۔

                 اس دنیا میں اگر کوئی ذا تِ بابرکت ہمیشہ رہنے کے قابل تھی، تو وہ ذات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی کے ۶۳؍ سال پورا کرتے ہی اپنے رب کریم سے جاملے ۔       سرکار ِدوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی اطلاع صحابہ کرام کے قلوب پر مصیبت کا پہاڑ بن کر ٹوٹی ؛ ہر صحابی پریشانی اور غم کے عالم میں تھا ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی تلوار لے کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں، جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہے گا کہ حضور کا وصال ہوگیا تو اس تلوار سے اس کی گردن اڑا دوں گا ؛ حضور تو اپنے رب سے ملنے گئے ہیں؛یہ کیفیت حضرتِ عمر جیسے قوی الاعصاب انسان کی تھی ؛لیکن تھوڑی ہی دیرمیں وہ ذات گرامی جو مدینہ کے باہر گئے تھے’’ اول من اقدم بالاسلام ‘‘ سب سے پہلے دعوت اسلام پر لبیک کہنے والے جواں مردابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لاتے ہیں؛نہ کسی کو کچھ کہتے ہیں اور نہ کسی سے کچھ پوچھتے ہیں؛سیدھے حجرۂ عائشہ میں جاتے اور روتے ہوئے حضور کے جسد اطہرسے چادر ہٹا تے ہیں اوربوسہ دے کر فرماتے ہیں :

                 ’’یارسول اللہ !  طبت حیا، وطبت میتا ‘‘

                اے اللہ کے رسول آپ کا جینا مبارک ،آپ کا مرنا مبارک ۔

                 اورپھر سیدھے مسجد نبوی میں آتے ہیں اوریہ آیت کریمہ تلاوت فرماتے ہیں: {وَمَا مُحَمَّدٌ الَّارَسُوْلٌ، قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُل أفإنْ مَّاتَ أوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰی أعْقَابِکُمْ }

                اور ببانگ دہل عقل کشا یہ جملہ فرماتے ہیں: اے لوگو! جان لو! ان محمدا قد مات من کان منکم  یعبد محمدا فان محمدا قد مات و من کان منکم یعبد اللہ ، فان اللہ حی لا یموت ۔

                اے لوگو! جو اللہ کی پرستش کرتے تھے یاکرتے ہیں وہ جان لو! 

                ’’ان اللہ حی لا یموت‘‘ اللہ زندہ ہے اس کو موت آنے والی نہیں ہے ۔

                ’’ ومن کان یعبد محمدا فان محمدا قد مات‘‘

                 اگر تم محمد کی عبادت کرتے ہو تو جان لو کہ محمد کا انتقال ہوگیا ۔ صلی اللہ علیہ وسلم !

                یہ کلمات سنتے ہی صحابۂ کرام کے ہوش بحال ہوگئے، ان کے جذبات  بالکل ٹھنڈے ہو گئے ،انہیں سارا معاملہ سمجھ میں آگیا ؛ سب ایسا محسوس کرنے لگے مانو یہ آیت ابھی نازل ہوئی۔ حضرت عمر فاروق ؓ بھی ٹھنڈے پڑگئے اور سارے صحابۂ کرام ؓ  ٹھنڈے ہوگئے ۔یہ یقینی بات ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا آدمی اگر کوئی تھا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تھی اوریہ موقع آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کا موقع ہے ۔

کل من علیہا فان:

                  اس دنیا میںپیغمبر آئے، صحابہ آئے ، تابعین آئے تبع تابعین آئے ، اولیائے عظام آئے ، مشائخین آئے، علما آئے اور ان کی اپنی زندگی کی ایک (Limit) ہوتی ہے ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کی عمر ’’ما بین الستین الی السبعین ‘‘ کہ میری امت کی عمریں ساٹھ یا ستر کے بیچ ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ نے ہر ایک کو کہہ دیا{ کل من علیہا فان }کہ زمین میں جتنے بھی ہیں سب فنا ہونے والی ذات ہے ۔ اگر فنا نہ ہونے والی کسی کی ذات ہے تو وہ  اللّٰہ  وحدہ لا شریک لہ کی ذات گرامی ہے ۔

آہ !میرے مربی داغ مفارقت دے گئے:

                 یہ انطباعات اور تاثرات میرے مربی ،عالمِ ربانی حضرت مولانا عبد اللہ صاحب کاپودروی رحمۃ اللہ علیہ رحمۃً واسعۃً سے متعلق ہے ۔ کل ہم انہیں حفظہ اللہ کہتے تھے اور آج رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ واسعۃًکہناپڑرہاہے ۔

                جب سے میں نے ہوش سنبھالا، فلاحِ دارین کی زندگی سے لے کر اب تک میں نے ان کو اپنا بڑا اور اپنا بزرگ مانا ،اپنا مربی اور محسن مانا ۔ اور انہوں نے بھی ہمیشہ مجھے اپنی اولاد کی طرح رکھااور سمجھا ۔

حضرت مرحوم کی مردم سازی:

                میں حضرت والا کی کن کن باتوں اور کن کن صفات کو بیان کروں؟ میں حیران ہوں ! حقیقت یہ ہے کہ حضرت نے مجھ جیسے؛ کیسے ہی اور کتنے ہی کسان زادوں کو عالمِ دین بنا یا ۔عالم دین ہی نہیں بل کہ علم دین کے مقامِ تدریس پر فائز کیا ، مدارس کے منصب ِاہتمام پر فائز کیا اور مصنفین اورمؤلفین کی جماعت میں فلاح دارین نے بیش بہاادبا اورصاحب قلم فضلا دیے ،قرأ پیدا کیے اور نہ معلوم کن کن صفات کے افراد حضرت کی رات دن کی کوششوں ، کاوشوں محنتوں سے وجود میں آئے۔

احقر پر حضرت کے احسانات:

                میں ایک کسان زادہ ہوں ، وستان گاؤں چھوـٹا سا ہے ،جس میںپانچ مسلمان کے گھر ہیں ۔ میرے والد صاحب مجھ کو فلاح دارین میں داخل کرگئے اور کچھ دن بعد لا کر حضرت کے حوالے کیا کہ یہ بچہ آپ کے پاس رہے گا؛ حضرت نے اس دن سے لے کر موت کی اخیری گھڑی تک مجھ فقیر کو اپنا بیٹا تصور کیا ۔

                 میری فراغت کے بعد میں حیران وپریشان تھا،کوئی جگہ نہیں مل رہی تھی! کہیں جاؤ تو کہہ رہے ہیں کہ بھائی آپ کی شادی نہیں ہوئی ، کہیں گیا تو کوئی کہہ رہا ہے کہ آپ کی داڑھی نہیں ، کوئی کہہ رہا ہے کہ آپ حافظ نہیں ؛میں بہت پریشان ! اتنے میں بوٹاڈ چلا گیا ، مجھے کسی نے اطلاع دی ، بوٹاڈ میں میرا تقرر ہوگیا ہے ؛ لیکن حضرت پریشان تھے ، دس ہی دن ہوئے کہ مولوی آدم مرحو م کوساڑی (اللہ ان کی بھی مغفرت فرمائے)  حضرت کا ایک بطاقہ لے کر آئے ؛اس میں حضرت مرحوم نے لکھا تھا کہ فلاں جگہ پر جامعہ کنتھاریہ بھروچ کے مہتمم مولانا آدم صاحب سے ملاقات ہوئی، انہوں نے کہا کہ مجھے کوئی صالح نوجوان دیجیے، جو اہل اللہ سے کچھ تعلق رکھتا ہو ،میں نے تیرا نام دے دیا ہے اور تیرا تقرر دارالعلوم کنتھاریہ میں ہوگیا ہے۔

                 دیکھیے اس حقیر کی کتنی فکر حضرت کو ہے ۔میں دارالعلوم کنتھاریہ چلا گیا اور ۹؍ سال دارالعلوم کنتھاریہ میں بڑی عزت و احترام کے ساتھ حضرت کی رہبر ی میںکام کرتے ہوئے پورا کیا ؛اگر میں اس ایک احسان کو ہی شمار کروں توکافی ہے؛لیکن حضرت کے احسانات کا تو انبار ہے انبار … میں اس کو بیان نہیں کر سکتا۔

کیسے کیسے کو کیسا کیسا بنادیا!!

                میں اپنے حضرت کی کن کن باتوں کو بیان کروں ۔ مولانا خلیل صاحب کو میں کہتا ہوں کہ بھائی خلیل تمہیں تو اردو بھی نہیں آتی تھی ۔ حضرت نے ان کو اردو الف با سے اپنے پاس بیٹھا کر سکھا یا اور ایسی توجہ کی اس شخص پر کہ آج ماشاء اللہ بڑے بڑے مجمع میں گھنٹہ گھنٹہ تقریر کرلیتے ہیں ۔

میرے مظاہر جانے کا ایک دل چسپ واقعہ:

                 فلاحِ دارین سے فضیلت کے بعد حضرت نے مجھے مظاہر بھیجا ۔اس کا بھی ایک مختصر سا قصہ ہے ۔ حضرت نے میری فراغت سے پہلے میرے والد سے مشور ہ کیا کہ غلام کو فراغت کے بعد ہم علی گڑھ بھیجیںگے۔ وہاں یہ طبیب بنے گا اور حضرت نے کہا بھائی دیکھو تمہارے بارے میں تیرے والدین اور ہمارا فیصلہ ہوچکا ہے؛میں نے کہا: ٹھیک ہے حضرت آپ جو کہیں ’’ تحت امرکم ‘‘کچھ دنوں بعد میں حضرت کے لیے دوپہر کو چائے لے کے آیا ، تو حضرت نے کہا یہاں بیٹھ جاؤ ، میں بیٹھ گیا کہ کیا بات ہے ؟ ! کوئی شکایت ہے ، کیا بات ہے ؟ میں مختلف خیالات میں الجھ گیا ، اتنے میں چائے پی کر کہا کہ دیکھو میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ملفوظ تم کو سناتا ہوں : حضرت تھانوی ؒ فرماتے ہیں کہ جو ماں باپ یہ چاہیں کہ ان کی اولاد دین سے ہاتھ دھو بیٹھے اور وہ دنیا کمائے وہ اپنی اولاد کو حکیموں کے حوالہ کردے اور جو یہ چاہے اس کی اولاد دنیا سے ہاتھ دھو بیٹھے اوردین کے ساتھ لگی رہے، وہ اپنی اولاد کو علما کے حوالے کردے اور جو یہ چاہے کہ اس کی اولاد دین و دنیا دونوں سے ہاتھ دھو بیٹھے وہ اپنی اولاد کو شعرا کے حوالے کردے ۔ یہ ملفوظ پڑھنے کے بعد حضرت نے کتاب بند کردی اور فرمایا کہ آج تیرے بارے میں میری رائے بدل گئی ہے ، میں تجھ کو علی گڑھ جانے نہیں دوں گا،اب تمہیں جانا ہے سہارنپ پور ۔ دورہ تو تم نے پڑھ لیا ہے وہاں حضرت شیخ ہیں ،ناظم صاحب ہیں، حضرت مفتی صاحب ہیںاورحضرت مو لانا یونس صاحب ہیں؛ بس تمہیں ان کی خدمت کرنا ہے اور اسباق میں حاضری دیناہے ۔

میری زندگی بدل دی:

                 اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں میرے تعلق سے یہ بات ڈال دی کہ انہوں نے میری زندگی کا پورا رخ بدل دیا ۔ تو یہ بات ہمارے طلبہ کے لیے بھی ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کے مشورہ سے ہی کام کریں۔

حضرت کے پروردائوں سے متعلق حضرتِ باندویؒ کا تأثر:

                جا معہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا کی سن تاسیس کے موقع پر عالم ربانی حضرت باندوی رحمۃ اللہ علیہ بنیاد کے لیے گڑھے میں اتر ے اورپھر اوپر آنے کے بعد حضرت کے کان میں کچھ بات کہی ،ہمیں نہیں پتہ لیکن بعد میں حضرت نے جلسوں میں فرمایا کہ حضرت نے فرمایاتھا کہ فلاح دارین نے اگر ایک غلام محمد کو پیدا کردیا ہے تو تمہارا کام ہوگیا ۔اللہ اکبر !

حضرت باندویؒ کی بصیرت اور دور اندیشی:

                حضرت باندوی رحمۃ اللہ علیہ کے اس جملہ کو مد نظر رکھ کر ابھی بھی حضرت مجھے کہتے تھے کہ حضرت اپنی خدا دا د بصیرت سے جامعہ ،احاطۂ جامعہ اور جامعہ کے باہر بذریعہ جامعہ جو کام ہورہا ہے اور ہونے والا ہے اس کو دیکھ چکے تھے ۔ ’’ اتقوا فراسۃ المومن فانہ ینظر بنور اللہ ‘‘۔حضرت باندوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے زمانے کے بڑے مشائخین میں تھے ۔ حضرت سے بھی ان کا بہت تعلق تھا ، اور مجھ سے بھی حضرت باندویؒ کہتے کہ : دیکھو اپنے حضرت سے مشورہ کرتے رہو! ان کے مشور ے کے بغیر کوئی کام مت کرنا ۔ اللہ اکبر !

سفر بیرون پر حضرت باندویؒ کی ناراضگی:

                جب حضرت کاپودرویؒ کا باہر کا سفرہوا ، اس پر حضرت باندوی رحمۃ اللہ علیہ نے بہت ناراضگی ظاہر فرمائی کہ تم گجرات والے کیسے لوگ ہو! ایسا ہیراآدمی تم نے انہیں وہاں جانے دیا ؟ کیا یہاں کام نہیں تھا ؟ تو ہم نے کہا حضرت کام تو بہت تھا ، لیکن قضا و قدر کی بات ہے ، وہاں بھی کچھ کام کرنا مقدر ہو ۔

اکل کوا کے سالانہ جلسے میں حضرت باندویؒ کی سالہا سال شرکت:

                حضرت باندوی ؒ جامعہ اکل کوا کے سالانہ جلسے میں۲۰؍ سال تک مسلسل تشریف لاتے رہے ؛ جب حضرت باندویؒ ہوتے تو حضرت کاپودرویؒ بھی آجاتے تھے ۔

جامعہ کے تعلق سے حضرت کا تاریخی جملہ:

                 جامعہ اکل کوا کی خدمات کو دیکھ کر حضرت بار بار کہتے کہ: إن فی الحقیقۃ الجامعۃ ہذا ہو الجامعۃ‘‘  درحقیقت جامعہ تو اسی کا نام جاہے ۔جہاں قرآن ہے، حدیث ہے ، کلیات ہے ، ہندسہ ہے اورکیا کیا ہے ، سارے کالجز آگئے ہیں ۔ حقیقت میں اللہ نے تجھ سے کام لیا اور میں تجھ سے بہت خوش ہوں ۔ حضرت نے کہا کہ میں تیرے سے بہت خوش ہوں ۔

آپ کی سیرت وصورت:

                چہرے پر ہمیشہ بشاشت ، نورانیت اور خوب صورتی ۔ نمازوں کا سب سے زیادہ اہتمام ، تلاوت قرآن کا معمول اورکتابوں کے مطالعہ کا یہ عالم جیسے مانو کتاب کے کیڑے ؛جب بھی کوئی عالم ان کے پاس جاتا، تو کتابوں کی بات شروع ہوجاتی ۔ مولوی حذیفہ(میرے صاحبزادے) سے ملاقات ہوتی تو مذاکرہ ٔکتب کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا۔ مولوی حذیفہ دبئی گئے تومجھ سے کہاان سے کہوکہ یہ یہ کتاب لے آئے ۔

                 ایک مرتبہ حضرت مولوی حذیفہ کے ساتھ دبئی گئے، تو ان کے ساتھ اکثر وقت کتابوں کو دیکھنے اور خریدنے ہی میں لگے رہے ۔وہ ان کا شغف تھا ۔ متنبی کا شعر ہے   ؎

خیر جلیس فی الزمان کتاب

 زمانے کا بہترین دوست اگر کوئی ہے تو وہ کتاب ہے ۔

                 اور ایسا دوست رکھنے والا میں نے ان کے سوا کسی کو نہ دیکھا ۔

                 ہاں!میرے دوسرے ایک استاذ مولانا یونس صاحبؒ تھے ،وہ بھی کتابوں کے کیڑے تھے، چاروں طرف کتابیں ہی کتابیں تھیں ، جب موت آئی تو بھی کتاب ۔یہ شعر انہیں شخصیات کے لیے ہے ؎

’’مریںگے ہم کتابوں پر ورق ہوگا کفن اپنا‘‘

حضرتؒ کی علمی صلاحیت:

                 جامعہ فلاح دارین میں بخاری شریف کے پہلے سبق کے لیے دیوبند سے حضرت مولانا فخر الدین رحمۃ اللہ علیہ کوحضرتؒ دعوت دے کر لائے ۔ مولانانے کس امتحان کے ساتھ حضرت کوپرکھا کہ حضرت مولانانے کتاب الرائی میں یہ جملہ لکھا کہ اس ادارہ کا مہتمم آیۃ من آ یات اللہ ہے۔

مشائخین سے آپ کا والہانہ تعلق:          

                ہمارے حضرت کا تعلق مشائخین سے والہانہ تھا۔ حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے سلسلے کے مشائخ حضرت شیخ الحدیث صاحب رحمۃ اللہ علیہ ان کے سلسلہ کے خلفا اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے اجل خلفا ،حضرت مولانا اسد اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت شاہ وصی اللہؒ ، حضرت شاہ جونپوری رحمۃ اللہ علیہ اور نامعلوم کتنے مشائخ …

                جب حضرت شاہ وصی اللہ صاحبؒ کا انتقال ہوا ، میں شرح وقایہ میں تھا۔ حضرت کاپودرویؒ مسجد سے مدرسہ کی طرف آرہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ بھائی حضرت کو ہم نے دعوت دی تھی اور حضرت کو آنا تھا؛ لیکن وہ اللہ کو پیارے ہوگئے ۔ تو ہمارے حضرت بزرگوں سے وابستہ تھے اور بزرگوں سے وابستگی صرف نام کی نہیں تھی ۔ ان کی زندگی میںجو نماز کا اہتمام ہم نے دیکھا۔ اللہ اکبر ! اذان ہونے سے پندرہ منٹ پہلے ظہر میں اٹھ جانا اور تیاری کرنا اور اذان ہوتے ہی پہلی صف میں نماز پڑھنا اور ہمیں بھی تاکید کہ بھائی نماز … نماز جس میں نہیں اس میں کچھ نہیں ۔

شرفِ خدمت:

                 ان کی بیماری و صحت، ان کا دورِ اہتمام وانتظام ہر حالت میں یہ فقیر ان کا خادم رہا اور ان کے میرے اوپر بے پناہ احسانات ہیں ۔’’ انسان کو اپنے محسن کا احسان کبھی نہیں بھولنا چاہیے‘‘ ۔

احسان مند ی اخلاق مندی ہے:

                وہ بے وقوف واحسان فراموش ہے ،جواپنے محسن کے احسان کو فراموش کرجاتا ہے ؛وہ بڑامحروم القسمت ہے، جو اپنے استاذ کی توجہ ، عنایات اور محبت کو بھول جاتا ہے ۔ انسان کو کسی کا احسان اور خصوصاً طالب علم کو اہل علم اور اساتذہ کے احسانات کو نہیں بھولنا چاہیے ، اگر بھول گیا تو سمجھ لو کہ وہ ہلاک ہوگیا ۔

بیماری میں خدمت کا موقع:

                 ایک مرتبہ مجھ کو بلایا اور کہا غلام !  میں نے کہا جی۔ سنا ہے ایک بہت بڑے مشہورحکیم ہیں،مگر ذرا بریلوی فکر کے ہیں ان کو بلانا تھا؛ میں نے کہا کہ حضرت آپ فکر نہ کریں وہ کل آجائیںگے ۔ کہا اچھا ! میں نے فوراً ان کو فون لگایا اور کہا حکیم صاحب!( میرے ان سے تعلقات ہیں ، وہ عمرہ میں میرے ساتھ ایک کمرے میں تھے ) میں نے کہا حکیم صاحب میرے استاذ بیمار ہیں ، کل آپ تشریف لائیں۔ان حکیم صاحب کے پاس  مہینوں کا ٹائم دیا ہوتا ہے ؛ لیکن میرے دل میںسچی تڑپ تھی اوران کو مجھ سے محبت تھی؛چناں چہ انہوں نے آنے کا وعدہ کر لیا اور دوسرے دن حضرت کے پاس آگئے ۔

                حضرت حکیم صاحب سے بڑے منشرح ہوئے اور کہا کہ بہت اچھے حکیم ہیں۔ وہ حکیم کی حکمت کیا تھی؟ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ حضرت آپ کو یہ مرض ہے ؛بل کہ کہا: حضرت آپ کو بھوک نہیں لگتی ؟ فرمایا بالکل صحیح کہا ۔ حکیم صاحب نے کہا کہ دوا کھائیے آپ کو بھوک لگے گی ۔ اب تو حکیموں میں بھی حکمت مفقود ہے ،بعض حضرات تو ایسے ہوتے ہیں کہ وہ اس طرح پیش آتے ہیںکہ مریض کی حالت سدھرنے کے بجائے اور بگڑ جاتی ہے۔ حکیم کی حکمت یہ ہے کہ وہ مریض کو اس کے مرض سے مطلع نہ کرے ؛بل کہ وہ اس کاغیر محسوس طریقے سے علاج کرے ۔بہر حال حضرت نے دو مرتبہ ان کی دوائی کھائی ۔

مرض الوفات:

                حضرت کینیڈا میں زیر علاج تھے وہاں سے آئے پھر گئے؛ پھرآئے اور مستقل یہاں کے ہوگئے ؛یہ  مرض اُن کے لیے جان لیوا ثابت ہوگیا اور وہ اپنے رب کریم کو جاملے ۔

آخری ملاقات اور اہتمام ضیافت:

                وفات سے ایک دن پہلے مولانا اسماعیل صاحب (حضرت کے صاحبزادے)کا فون آیاکہ ابا کی  طبیعت نا زک ہے، تو میں اور مولانا حذیفہ فوراً حضرت کے یہاں پہنچے، دیکھا تو حضرت کی سانس چل رہی ہے ۔ میں نے کہا: کہ غلام محمد آیا ، تو آنکھیں کھولیں اور کہا کہ غلام کو چائے پانی کراؤ ۔

                ایک آدمی بسترِ مرگ پر ہے ،لیکن مہمان داری اور خردنوازی کا یہ حال ہے ،کہہ رہے ہیں کہ انہیں کھانا کھلاؤ، ان کو چائے پلاؤ۔ اللہ اکبر!

خادم ومخدوم کی عاشقانہ باتیں:

                تھوڑی دیر کے بعد وہ استنجا کے لیے گئے ۔ حضرت نے اپنے کمرے میں مجھے بلایا اور بلاکر کہا کہ غلام!  تونے میری بہت خدمت کی ہے ۔ میں نے کہا :انت ومالک لابیک حضرت سب کچھ تو آپ ہی کا ہے حقیقت تو یہ ہے کہ میں آپ کی اتنی خدمت نہیں کرپایا جتنا آپ کا مجھ پر احسان ہے ۔ میںایک بدو بچہ تھا میں ایک چھوٹے سے دیہات کا ایک کسان کا بیٹا تھا،لیکن آپ نے میرے ساتھ وہ تربیت و محبت کا معاملہ کیا کہ بس…… ،جو کچھ میں کر رہا ہوں وہ آپ کے کھاتے میں جائے گا ۔حضرت بھی روپڑے اور فرمایا: کہ نہیں تو نے بہت خدمت کی ہے ،تو نے خدمت کا حق ادا کردیا ہے۔ لیکن بد قسمتی کی بات ہے کہ وہ آج ہمارے درمیان نہیں رہے ۔لیکن وہ ’’ فی جنۃ عالیۃ ‘‘  ۔

حسن انجام اور حَسین انعام:

                فلاحِ دارین کے تعزیتی اجلاس میں ایک صاحب نے جامعہ کٹھور کے ایک استاذ کا خواب سنا یا کہ حضرت ایک بہت بڑی مسجد میں جو لوگوں سے کھچاکھچ بھری ہوئی ہے کرسی پربالکل نوجوانی کی حالت میں بیٹھے ہیں ، تو انہوں نے کہا کہ حضرت آپ تو بیمار تھے ، تو حضرت نے کہا بھائی اللہ نے اپنے فضل کا معاملہ کردیا ۔

شہادت کی موت:

                یہ اہل اللہ کے حالات ہیں ۔ کیوں کہ حضرت کا جس مرض میں انتقال ہوا ،اس میںاگر کسی کا انتقال ہوجاتا ہے تو فقہا نے اس کو شہادت کی موت قراردیا ہے ۔یہ شہادت رتبی ہے ۔ اس مرض میں انسان کو جو تکلیف ہوتی ہے وہ برداشت سے باہر ہوتی ہے؛ لیکن حضرت نے ایک سال اس پر الم مرض میں اس طرح گذارا کہ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ حضرت کویہ مرض لاحق ہے۔

ان کی زندگی ہمیں کیا سبق دیتی ہے:

                 جانے والے ہم سب کے لیے سبق چھوڑ کر گئے کہ مدارس میں پڑھنے والے طلبہ اور پڑھانے والے اساتذہ اپنے آپ کو کتابوں کے ساتھ لگائے رکھیں،فضولیات میں وقت اور پیسے کو ضائع نہ کریں ۔

                حضرت مولانا یونس صاحب ؒ اپنے احوال سناتے تھے کہ میرے پاس جب کبھی کچھ پیسے ہوئے ،میں نے انہیں کتابوں میں لگا دیا اور اخیری عمر میں تو اللہ نے فتوحات کے دروازے کھول دئیے تھے ۔حضرت دریافت کرتے کتنے پیسے ہیں؟کہاجاتا اتنے ہزار، فرماتے کہ چلو کتب خانے میں کتابیں خریدیںگے ۔ ادھر موت کی تیاری اور ادھر کتابوں کے خریدنے کا ذوق ! ان کی طبیعت ہی ایسی بنی تھی ۔ ہمارے حضرت(کاپودرویؒ) کا بھی ایک کتب خانہ تھا ، کتابوں کی لسٹ تھی ۔

فلاح دارین سے لگائو:

                 اپنی موت سے دو دن پہلے کہا کہ مجھے فلاح دارین لے چلو ،جہاں میں نے زندگی لگائی ہے ؛ چناں چہ آپ کو گاڑی میں بٹھاکر ان کے صاحبزادے فلاح دارین لے گئے ۔ سوتے سوتے ساری عمارتوں اساتذہ اورطلبہ کو دیکھا ۔

عہدبرائے ایصالِ ثواب:

                 قارئین !طلبہ! اور اساتذہ! اگر آپ سبھی کو اس فقیر سے محبت ہے تو آپ میرے حضرت کے لیے ایک ایک قرآن پڑھ کر ایصالِ ثواب کریں۔ اور ایک ایک قرآن میرے استاذ حضرت مولانا یونس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے لیے بھی ایصال ثواب کریں۔

 فنا فی الاستاذ:

                حضرت مولانا یونس صاحب ؒکے استاذ مولانا ضیا صاحبؒ تھے ۔ حضرت کی کوئی مجلس ایسی نہیں ہوتی تھی، جس میں مولانا ضیا صاحب کا تذکرہ نہ ہو ۔میں ایک مرتبہ حضرت کے پاس گیا تو کہا کہ غلام ! دیکھ تیرے پاس پیسے آتے ہیں مجھے خبر ہے ، کیا تو میرے استاذ کے لیے حج کرے گا ؟ یا کرائے گا؟

                یہ ہے فنا فی الاستاذ۔ میں آپ کو یہ بتا رہا ہوں کہ جب تک طالب علم اپنے استاذ پر فنا نہیں ہوتا ،وہ کچھ نہیںبنتا ۔ مولانا یونس صاحبؒ آج کیا بنے ؟امیر المومنین فی الحدیث ۔ اللہ اکبر!

حضرت شیخ ؒکا مقام:

                حضرت مدینہ جاتے تھے توسند حدیث کے لیے عرب علما کی بھیڑ لگ جاتی تھی ۔ وہ آپ کے ابتدائی استاذ تھے، ان سے آپ نے بخاری نہیں پڑھی تھی ،ابو داؤد نہیں پڑھی تھی، آپ نے ان سے ’’نحومیر‘‘اور’’ ہدایۃ النحو‘‘ پڑھی تھی ؛ لیکن وہ اپنے استاذ کا اتنا اکرام کرتے تھے ۔

میرے اساتذہ:

                 یہ میرے استاذ ہیں : حضرت مولانا عبد اللہ صاحب اور حضرت مولانا یونس صاحب ،جنہوں نے مجھے کچھ کام کا بنایا ، تو آپ حضرات کا فرض بنتا ہے کہ آپ حضرات ان کے لیے ایصال ِثواب کریں ۔

                بہر حال! حضرت کی زندگی کے تعلق سے بہت ساری باتیں ہیں ۔جسے میں اپنی مجلسوں میں طلبہ اور اساتذہ کو بتاتا رہتا ہوں اور بتاتا رہوں گا۔

آخری پیغام:

                 آپ حضرات اپنے آپ کو پڑھنے والا بنائیں،دین کا داعی اور شیدائی بنائیں ۔ مولانا عبد اللہ صاحبؒ یہ بھی ایک کسان کے بیٹے تھے ،ان کے والد اسماعیل صاحب تھے ۔ میں نے ان کو دیکھا ہے ، ہمارے سامنے ان کا انتقال ہوا ؛وہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت تھے۔ حضرت تھانوی ؒ سے ان کا خط و کتابت بھی تھا ،وہ خطوط بھی موجودہیں ۔

                 اکابر سے وابستہ رہنا ہمارے علما وطلبا کے لیے بہت ضروری ہے ۔فضول چیزیں کھانے پینے میں ،غیر ضروری چیزیں خریدنے میں پیسے مت اڑائو! کتابیں خریدو ، بزرگوں کے ملفوظات پڑھو، قرآن کریم کی تجوید و تفسیر پڑھو، قرآن کا ترجمہ کرو ،خالی وقت مسجد میں آکر قرآن پڑھو ۔ قرأ حضرات کی جماعت ہمارے پاس ہے ان سے فیض حاصل کرو ؛جس استاذ کے پاس آپ پڑھتے ہیں ان کی قدر و منزلت جانو ۔ مولانا ضیا صاحب جیسے شاگرد اللہ سب کو دیوے ۔ مولانا ضیا صاحب کے شاگرد مولانا یونس صاحب نے پچاس سال تک بخاری پڑھائی اور کتابوں پرہی مرے ۔

مقصود عمل ہے ثنا خوانی نہیں:

                اس شمارے اور ان تحریروں سے مقصود ثنا خوانی نہیں ؛مقصود تو یہ ہے کہ ہم ان کی زندگی کے مطابق اپنی زندگی بنائیں ۔ یہ اس تحریر کا خلاصہ ہے ۔

                اللہ تعالیٰ ہمارا یہ تعلیمی سال بحسن خوبی ترقی اور عافیتوں کے ساتھ پورا فرمائے ۔اور جتنے بھی فضلا ہیں  ہیں اللہ تعالیٰ ان کو تصنیف و تالیف، درس وتدریس،امامت وخطابت ،دعوت و موعظت کے لیے قبول فرمائے ۔

                اور ہمارے حضرت کے درجات کو بلند فرمائے ،آپ کے نقشِ قدم پر ہمیں چلائے ۔

تین منقطع نہ ہونے والے اعمال:

                ایسا نہیں کہ حضرت چلے گئے سب کچھ چلا گیا !وقد ورد بالخبر عن النبی الصادق الابر:  ’’اذا مات الانسان انقطع عملہ الا من ثلاث : صدقۃ جاریۃ او علم ینتفع بہ ، او ولد صالح یدعوا لہ ‘‘یہ فلاح دارین آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہے ، جامعہ اکل کوا صدقہ جاریہ ہے اورفلاحی برادری نے کئی کئی مدرسے قائم کیے افریقہ میں، لندن میںاور زامبیامیں ،تو یہ سب حضرت کے لیے صدقۂ جاریہ ہیں ۔ 

                اور اسی طریقہ سے کہا ’’ او علم ینتفع بہ‘‘  کتب خانوں کی چھان بین یہ حضرت کا مزاج تھا ؛تو علم منتفع کے باب میں بھی، انہوں نے اپنی زندگی ہی میں کتب خانہ بنادیا اور جامعہ کھروڈ کو وقف کردیا۔

                ’’ او ولد صالح یدعوا لہ ‘‘  حضرت کی کتنی ساری صالح اولادہیں ! نسبی اولاد بھی صالح اور صلاحیت والی اورروحانی وعلمی اولاد میں توکیسے کیسے علما وصلحا ہیں ہرایک ان کی اولاد ہیں ۔ ان کی حقیقی اولاد میں بھی ایسے باصلاحیت اولاد واحفاد ہیں کہ حضرت کی نسبت ان کی طرف منتقل ہوئی ہے ۔ حضرت کی وراثت علم بھی ان شاء اللہ یہ لوگ لے کر چلیںگے  ۔ میں سمجھتا ہوں کہ وقت پورا ہوگیا ہے ۔

دعا :

                اے اللہ! طلبہ جامعات کو ہمارے حضرت کے دلوں کی دھڑکن بنا ۔ہمارے حضرت کے علوم سے ہم سب کو مستفید فرما ۔ حضرت کے اخلاقِ حمید ہ سے ہمیں بھی کچھ حصہ عطا فرما۔ اے اللہ! تو ہماری اولادوں کو بھی علم نافع عطا فرما اور ہماری آنکھوں کی ٹھنڈ ک بنا۔اے اللہ! ہمارے اساتذہ کرام کی ایک بڑی جماعت تیرے پاس آچکی ہے ، ان میں کا ہر ایک تیرا ولی تھا ، اے اللہ! ان سب کی مغفرت فرما۔ ان کو درجات کی بلندی عطا فرما ۔ ان کی اولادوں کو بھی ان کا جانشین بنا ۔