جامعہ کے شب وروز

حضرت رئیس جامعہ دامت برکاتہم کے مسابقاتی اسفار:

                حضرت رئیس جامعہ دامت برکاتہم نویں ریاستی مسابقات کے پروگرام میں شرکت کے لیے ہندوستان بھر کے صوبوں میں قدم رنجہ ہوئے ، جس میں حضرت نے کامیاب ہونے والے طلبہ کی حوصلہ افزائی فرمائی اور گراں قدر انعامات وغیرہ سے نوازا۔جن صوبوں میں آپ تشریف لے گئے وہ یہ ہیں :

                جودھپور (مشرقی راجستھان )،قطب پور (مغربی راجستھان)،سورت (گجرات)، امبہٹہ پیر (مغربی یوپی)ہوجائی (مشرقی آسام)گوالپاڑہ (مغربی آسام)نیار ہاٹ ، کوچ بہار (مغربی بنگال )،معماری بردوان سپول (بہار) بھوپال (مدھیہ پردیش)

                ان کے علاوہ دیگر صوبوں میں حضرت کثرتِ اسفار و مشاغل کی وجہ سے حاضر نہیں ہوسکے ۔

صوبۂ منی پور کا ایک لائقِ تقلید عمل :

                ملک بھرمیں مسابقۃ القرآن الکریم کی مناسبت سے اساتذۂ جامعہ کے وفود مختلف صوبوں میں پہنچے ۔ احقر کی بھی خوش نصیبی ہوئی کہ اسے بھی اِس قافلۂ قرآنی میں شامل کیاگیا ، جس سے خیر و برکت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ دیکھنے اور سیکھنے کا موقع حاصل ہوا۔احقر جس وفد میں شامل تھا اس کے ذمّے منی پور کا بھی مسابقہ تھا ،اس نسبت سے ہم وہاں پہنچے اور الحمد للہ مسابقہ کامیاب رہا ۔

                مقصودِ تحریر قارئین کے علم میں یہ لانا ہے کہ ہم نے وہاں کچھ امتیازی چیزیں دیکھیں ،جو ہم تمام علما برادری کے لیے لائقِ تقلید ہے ۔

                ۱-  علمائے کرام کا اتحاد  ۲-  اصلاحِ امت ومعاشرہ کی فکر  ۳-  تمام دینی ،فکری کاموں اور جلسوں میں صد فی صد تمام کی شرکت  ۴-  بڑوں کا چھوٹوں کو لے کرچلنے کا ہنر اور چھوٹوں میں بڑوں کو ماننے کا جذبہ ۔

 ۵-  پورے صوبے میں مکمل طور سے مسلکِ دیوبند کی مکمل ترجمانی اور دیگر فرقوں سے صوبے کی مکمل حفاظت ۔

                یہ چیزیں احقر اور تمام ساتھیوں کو بہت پسندآئی اور رئیسِ جامعہ کے سامنے تذکرہ ہونے پر رئیسِ جامعہ نے بھی اسے خوب سراہا اور شاہراہ کے ذریعے ان اوصافِ محمودہ کو عام کرنے کی تلقین کی ۔

صرف جلسے ، نہیں بل کہ کام :

                سب سے امتیازی چیز جو ہم نے دیکھی وہ یہ کہ وہاں کے تمام علما اصلاح ِمعاشرہ نام کی کمیٹی سے جڑکر  اس کے تحت بہت بڑے بڑے کام کررہے ہیں ؛جہاں یہ شعبہ اتحادِ علما کا کام کررہا ہے ،وہیں ہرطرح کے فتنوں کو دبانے اور باطل فرقوں سے امت کو محفوظ رکھنے کی پوری ذمہ داری بھی ادا کررہا ہے۔

                اس شعبے نے اصلاح معاشرہ نام سے ایک عمارت بھی تعمیر کررکھی ہے ، جہاں یہ سارے امور طے پاتے ہیں اور امت کے نوجوانوں اورفرزندوں کے اصلاح کا بہت بڑا کام ہوتا ہے ۔

                ۵۶؍ سیٹ کی اس عمارت میں ہم نے اپنے آنکھوں سے کئی نوجوان اور ادھیڑ عمر کے افراد رہائش پذیر پایا ، جن کو وہاں ایک بہترین مسلمان اور معاشرہ کا ایک عمدہ فرد بنانے کے لیے رکھا گیا تھا ۔

                در اصل یہ شعبہ جو نوجوان اخلاقی اعتبار سے برائی کا شکار ہوجاتے ہیں ، علما کی ایک ٹیم ان کے پیچھے لگ کر ان کے اڈوں پر پہنچ کر،نشہ آور اشیاضبط کرنے کے بعد انہیں اس ادارے میں لاتے ہیں اور۴؍مہینے رکھ کر مکمل تربیت کرتے ہیں،ان کے ساتھ تعلیم نبوی اور اخلاق نبوی صلی اللہ علیہ سے پیش آتے ہیں ۔ جس سے ہمارے وہ نوجوان جو چوری جوئے، شباب و کباب کی طرف مائل ہوچکے تھے وہ شاب قوی امین بن کر لوٹتے ہیں ۔

                اس انجمن میں امام و موذن، دو استاذ، نگران ، آفس سکریٹری ، میڈیکل باکس وغیرہ کا مکمل انتظام ہے ۔ وقتاً فوقتاً علمائے کرام کی نصیحتیں ہوتی رہتی ہیں اور روزانہ تعلیم کا معقول انتظام ہے جس میں انہیں دینی ضروری مسائل ناظرۂ قرآن پاک ، دعائے مسنونہ وغیرہ کی تعلیم دی جاتی ہے ۔

                اب تک اس تربیت گاہ سے ۴۹۷۴؍نشہ کے عادی افراداور بد فعلی کے مرتکب ۲۲؍نوجوان کی تربیت کی جاچکی ہے۔ اسی طرح ۱۰۵؍ چوری کی گاڑیاں چوروں سے ضبط کرکے اخباری اشتہارات کے ذریعہ مالکان تک پہنچائی گئی ہے ۔اور انجمن کے تحت بہت سارے اصلاحی کام ہوتے ہیں ،جس کے صدر منی پور کے صدر مفتی اوردارالعلوم مرکز لیـلونگ کے ناظم مفتی سراج صاحب دامت برکاتہم ہیں ۔

                یہ ایک قابل تقلید عمل ہے ۔ آج ہم اصلاح معاشرہ کے جلسے تو خوب کرتے ہیں، لیکن جلسے کے بعد  بتائے گئے امور کو عملی جامہ پہنانے کی کوئی کوشش نہیں کرتے ۔جس کی وجہ سے ہمارے یہ جلسے خاطر خواہ مفیدثابت نہیں ہوپاتے ۔ لوگ عمل کا جذبہ لے کر اٹھتے ہیں، لیکن انہیں عملی جامہ پہنا نے کی صورت نظر نہیں آتی تو پہلی صورت وکیفیت ہی میں رہ جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے اپنے علاقوں میں اس نظام کو رائج کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین!

از قلم : محمد ہلال الدین ابراہیمیؔ