مولانا عبد الحسیب /استاذ جامعہ اکل کوا
قرآنِ کریم پر اعتراضات کا سلسلہ اس کے زمانۂ نزول سے شروع ہوگیا تھا۔ مشرکینِ مکہ نے جو اسلام دشمنی میں پیش پیش تھے ، اس پر طرح طرح کے الزامات عائد کیے ۔ کبھی اسے گھڑی ہوئی کہانیاں (اساطیر) قرار دیا تو کبھی شعر ، کہانت یا جادو کہا ۔ ہجرتِ مدینہ کے بعد یہود کی جانب سے بھی برملا اسلام دشمنی کا اظہار ہونے لگا اور وہ بھی قرآن پر مختلف اعتراضات کرنے لگے ۔ قرآن نے ان تمام اعتراضات کا مدلل جواب دیا اور ان سے اپنی برأت کا اعلان کیا ۔ بعدکے زمانوں میں بھی قرآنِ کریم پر اعتراضات والزامات کا یہ سلسلہ جاری رہا ،ہر دور میں اعدائے اسلام نے قرآن کو نشانہ بنایا اور اس کی تعلیمات پر تنقید وملامت کے تیر برسائے ۔ اس سلسلے میں خصوصیت سے مستشرقین کا نام لیا جاسکتا ہے ، جنہو ں نے قرآنیات کے میدان میں اہم علمی کام انجام دیے ہیں ، لیکن پسِ پردہ ان کی اسلام دشمنی کار فرمارہی ہے اور انہوں نے قرآن کی حقیقی تعلیمات کو مسخ کرنے اور اس کی جانب بے بنیاد باتیں منسوب کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ہے ۔ ہندوستان میں بھی اسلام کے مخالفین کی جانب سے قرآن پر اعتراضات کیے جاتے رہے ہیں ، اس سلسلے میں عیسائی مشنریاں پیش پیش رہی ہیں اور ہندو انتہا پسندوں نے بھی کافی سرگرمی دکھائی ہے ۔
اسلام اور قرآن پر بہت سے اعتراضات شدت پسند ہندوتنظیموں کی جانب سے بھی کیے جاتے رہے ہیں ، مثال کے طور پر اکھل بھارت ہندو مھا سبھا نے ’’ دیش میں دنگے کیوں ہوتے ہیں؟ ‘‘ کے عنوان سے ایک فولڈر شائع کیا تھا، جس میں قرآن کی چوبیس (۲۴) آیتوں یا ان کے اجزاء کو نقل کرکے یہ دکھا نے کی کوشش کی گئی تھی کہ قرآن مسلمانوں کو دوسرے دھرموں کے لوگوں سے جھگڑا کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ اور جب تک ان آیتوں کو قرآن سے نکالا نہیں جاتا دیش کے دنگوں کو روکا نہیں جاسکتا ۔
انہی الزامات کے تحت کلکتہ ہائی کورٹ میں ایک مقدمہ دائر کیا گیا تھا اور قرآن پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کی گئی تھی ، مگر فاضل ججوں نے دانش مندی کا ثبوت دیتے ہوئے اسے خارج کردیا ۔
اس پروپیگنڈہ کی حقیقت یہ ہے کہ ان آیات کوسیاق و سباق کے مضمون سے کاٹ کر،یا جن غیر مسلموں سے عہدِ نبوت کے مسلمانوں کا سابقہ تھا ، ان کو نظر انداز کرکے اور ان آیات کو ان کے نازل ہونے کے پس منظر کو بیان کیے بغیر پیش کیا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی بھی بات کو اگر اس کے پس منظر سے ہٹا دیا جائے یا اس سیاق و سباق کی عبارتوں سے کاٹ کر پیش کیا جائے ،تو اچھی سے اچھی بات کا غلط مفہوم نکالا جاسکتا ہے۔
بہ حیثیت مجموعی یہ آیات تین طرح کی ہیں : دس آیات جہاد سے متعلق ہیں، چھ غیر مسلموں سے تعلق ودوستی رکھنے نہ رکھنے اور ان کے دوستی کے لائق ہونے اور نہ ہونے سے متعلق ہیں، اور آٹھ آیتیں غیر مسلموں پر عذاب سے متعلق ہیں ۔
جن آیات کو زیادہ تر پروپیگنڈہ کا ذریعہ بنایا گیا ہے وہ جہاد سے متعلق آیتیں ہیں ۔ اس لیے پہلے ان ہی آیات پر گفتگو کی جاتی ہے :
جہاد سے متعلق آیات :
۱- {وَدُّوْا لَوْ تَکْفُرُوْنَ کَمَا کَفَرُوْا فَتَکُوْنُوْنَ سَوَآئً فَلاَ تَتَّخِذُوْا مِنْھُمْ اَوْلِیَآئَ حَتّٰی یُھَاجِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ط فَاِنْ تَوَلَّوْا فَخُذُوْھُمْ وَ اقْتُلُوْھُمْ حَیْثُ وَ جَدْتُّمُوْھُمْ ص وَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْہُمْ وَلِیًّا وَّلَا نَصِیْرًا} (النساء : ۸۹)
وہ چاہتے ہیں کہ جیسے یہ لوگ کفر کررہے ہیں تم بھی کفر کرو؛ تاکہ تم ایک جیسے ہوجاؤ۔ توتم ان میں سے کسی کو دوست نہ بناؤ، جب تک وہ اللہ کی راہ میں ہجرت نہ کرجائیں۔ اگر وہ اس کی خلاف ورزی کریں تو انہیں جہاں کہیں پاؤ، پکڑو اور قتل کرو اور ان میں سے کسی کو دوست اورمدد گار نہ بناؤ۔
اولاً تو یہ حکم عام نہیں ہے کہ تمام غیرمسلموں کوپکڑو اورمارو اس حکم کا تعلق ان غیرمسلموں سے ہے ،جواس زمانہ میں مسلمانوں کو ختم کرنے کے درپے تھے ،اوراگر اس آیت کوعموم پرمحمول کریں ،تواس آیت کا جواب بالکل اس کے اگلی آیت میں ہے:
{اِلَّا الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ اِلٰی قَوْمٍ م بَیْنَکُمْ وَبَیْنَھُمْ مِّیْثَاق’‘ اَوْجَآئُ وْکُمْ حَصِرَتْ صُدُوْرُھُمْ اَنْ یُّقَاتِلُوْکُمْ اَوْیُقَاتِلُوْا قَوْمَھُمْ ط وَلَوْشَآئَ اللّٰہُ لَسَلَّطَھُمْ عَلَیْکُمْ فَلَقٰتَلُوْکُمْ ج فَاِنِ اعْتَزَلُوْکُمْ فَلَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ وَاَلْقَوْا اِلَیْکُمُ السَّلَمَ لا فَمَا جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ عَلَیْھِمْ سَبِیْلاً }۔(النساء : ۹۰)
سوائے ایسے لوگوں کے جواُن سے جا ملیں ، جن کے اور تمہارے درمیان عہد (معاہدہ امن ) ہویا وہ تمہارے پاس اس طرح آئیں کہ نہ تم سے لڑنا چاہتے ہوں نہ اپنی قوم سے ،حالاں کہ اگر اللہ چاہتے تو ان کو تم پر مسلط کردیتے ۔ پھر وہ تم لوگوں سے جنگ کرتے تو اگر وہ تم سے کنارہ کش رہیںجنگ نہ کریں اور صلح پیش کریں تو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ان کے خلاف کوئی راستہ نہیں رکھا ہے ۔
اس آیت سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ جوغیر مسلم تم سے معاہد ہ کئے ہوئے ہیں، اور وہ تم سے لڑنا نہیں چاہتے، وہ اوپر والے حکم سے مستثنی ہیں،قرآن نے صاف طریقہ پر مسلمانوں کو حکم دیا کہ جو غیر مسلم مسلمانوں کے ساتھ صلح وامن کا راستہ اختیار کریں ، مسلمانوں کو ضرورہی ان کے اس رویہ کا جواب صلح اور امن سے دینا چاہیے اور کوئی زیادتی نہیں کرنی چاہیے ،جیسا کہ ہم اپنے ہندوستان میں غیرمسلم بھائیوںکے ساتھ رہتے ہیں کہ ان کا ہم لوگوں کے ساتھ ایک رشتہ ہے جس کا ہم سب پاس و لحاظ رکھتے ہیں،اب غور فرمائیں کہاس طرح پورا مضمون چھوڑ کرایک آیت لے کر لوگوں میں نفرت پھیلانا کتنا سنگین فتنہ ہے۔
۲-{ ٰٓیاَیُّھَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِ ط اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ ج وَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَۃ’‘ یَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاَنَّھُمْ قَوْم’‘ لَّا یَفْقَھُوْن} (الانفال:۶۵ )
اے نبی ! ایمان والوں کو قتال پر آمادہ کیجیے ۔ اگر تم میں سے بیس آدمی بھی ثابت قدم ہوںگے تو وہ دوسو پر غالب آجائیںگے اور اگر سو آدمی ایسے ہوں تو ایک ہزار منکرین پر بھاری رہیںگے ؛کیوں کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے ۔
یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر غزوہ ٔبدر کے بعد نازل ہوئی، بل کہ یہ پوری سورت ہی زیادہ تر غزوۂ بدر کے واقعات اور اس واقعہ سے متعلق شرعی احکام پر مشتمل ہے ۔
اب غور کیجیے ! کہ اس میں کن غیر مسلموں سے مقابلہ کے لیے مسلمانوں کو ترغیب دی گئی ہے ، ان غیر مسلموں کے خلاف جو نہ تھمنے والے تلاطم کی طرح آگے بڑھ بڑھ کر مسلمانوں پر حملہ کررہے تھے ۔ اوران کے جان و مال کے در پے تھے ،تو کیا حملہ آوروں کے لیے مقابلہ پر ابھارنا کوئی ناواجبی بات ہے ؟ اگر ہمارے ملک پر دشمن حملہ آور ہوں تو کیا ہمارا یہ فرض نہیں ہوگا کہ ہم اہل وطن کوا ن سے مقابلہ کی ترغیب دیں ؟ غور کیجیے کہ ظلم کرنا مذموم ہے یا ظلم کا جواب دینا ، یہ ایسی بات ہے ،جسے معمولی عقل و فہم کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے ۔
۳-{ فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْھُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْھُمْ وَخُذُوْھُمْ وَاحْصُرُوْھُمْ وَاقْعُدُوْا لَھُمْ کُلَّ مَرْصَدٍج فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَھُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘} (التوبۃ: ۵)
جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو تم ان مشرکوں کو جہاں کہیں پاؤ، قتل کرو ۔ انہیں پکڑو ، گھیرو اور ہر گھات کی جگہ ان کی تاک میں بیٹھو، پھر اگر یہ توبہ کرلیں ، نماز قائم کریں ، زکوٰۃ ادا کریں ، تو ان کا راستہ چھوڑ دو ، بے شک اللہ معاف کرنے والے مہربان ہیں ۔
یہ والی آیت بھی اس وقت کے تمام مشرکین میں سے ان مخصوص مشرکین کے لئے نازل ہوئی، جنہوں نے مسلمانوں کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ کیا تھا،اورپھرعہد شکنی کی ،جیسا کہ آیت نمبر ۱۳ میں اس کا ذکر صراحت کے ساتھ موجود ہے،
{ اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّکَثُوْٓا اَیْمَانَھُمْ وَھَمُّوْا بِاِخْرَاجِ الرَّسُوْلِ وَھُمْ بَدَئُوْکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ط اَتَخْشَوْنَھُمْ ج فَاللّٰہُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْہُ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ} (التوبۃ: ۱۳)
کیا تم ایسے لوگوں سے قتال نہیں کروگے، جنہوں نے اپنے عہد توڑ دئیے ۔رسول کو جلاوطن کرنے کی ٹھان لی اور انہوں نے تمہارے مقابلہ میں خود ہی پہل کی ہے ؟ کیا تم لوگ ان سے ڈرتے ہو؟ اللہ تعالیٰ زیادہ اس لائق ہیں کہ تم ان سے ڈرو اگر تم ایمان لانے والے ہو ۔
یہاں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ جنگ کی ابتدا ،خون ریزی میں پہل ،ان مشرکین کی طرف سے ہوئی، اور جنہوں نے جنگ بندی والے معاہدہ کی پاسداری کی ان کے بارے میں صریح حکم اس اس سے پہلی آیت میں مذکورہے۔
{ اِلَّا الَّذِیْنَ عٰھَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ ثُمَّ لَمْ یَنْقُصُوْکُمْ شَیْئًا وَّلَمْ یُظَاھِرُوْا عَلَیْکُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّوْٓا اِلَیْھِمْ عَھْدَھُمْ اِلٰی مُدَّتِھِمْ ط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ ہ}(سورۂ توبہ :۴)
البتہ (مسلمانو!) جن مشرکین نے معاہدہ کیا، پھر ان لوگوں نے تمہارے ساتھ عہد میں کوئی کوتاہی نہیں کی ، اور تمہارے خلاف کسی کی مدد بھی نہیں کی ، تو ان کے ساتھ کئے ہوئے معاہدے کی مدت کو پورا کرو ۔ بے شک اللہ احتیاط کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔
۴- {قَاتِلُوْھُمْ یُعَذِّبْھُمُ اللّٰہُ بِاَیْدِیْکُمْ وَیُخْزِھِمْ وَیَنْصُرْکُمْ عَلَیْھِمْ وَیَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْن}(التوبۃ: ۱۴)
ان سے قتال کرو اللہ تعالیٰ انہیں تمہارے ہاتھوں سے سزا دے گا ۔ رسوا کرے گا ، تمہاری ان کے مقابلہ میں مدد کرے گا اور مسلمانوں کے دلوں کو ٹھنڈا کرے گا ۔
اس آیت کا تعلق بھی ماقبل کے معاہدہ سے ہے، کہ جن لوگوں نے معاہدہ کی خلاف ورزی کی ہو اور خودہی حملہ کرنے میں پہل بھی کی ہو، کیا ان کے خلاف جوابی کارروائی کرنا نا انصافی کی بات ہے؟ اور کیا قرآن کو یہ کہنا چاہئے تھا کہ تم اپنا اور اپنے حلیفوں کا قتل عام دیکھتے رہو، مگر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہو، اپنی طرف سے کوئی جواب نہ دو !
ظالموں کے مقابلہ مظلوموں کے ساتھ اللہ کی مددکا ہونا اور ظلم کو روکنے کے لیے ظالموں کا پنجہ تھامنا ایک ایسی بات ہے، جو تمام مذاہب کی مشترکہ تعلیم ہے ۔ کیوں کہ اگر خدا بھی ظالموں ہی کا طرفدار ہوتو پھر کون سا ایوانِ انصاف ہوگا، جہاں ظالموں کو ان کے ظلم کی سزا ملے گی، اور مظلوموں کی تسکین خاطر کا سامان فراہم ہوگا؟
۵-{ ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَکُمْ مِّنَ الْکُفَّارِ وَلْیَجِدُوْا فِیْکُمْ غِلْظَۃً ط وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْن}(التوبۃ: ۱۲۳)
اے ایمان والو! تمہارے آس پاس جو کفار ہیں ، ان سے جنگ کرو ۔اور وہ تمہارے اندر سختی (مضبوطی ) پائیں اور جان لو کہ اللہ تقویٰ والوں کے ساتھ ہیں ۔
اس آیت میں مسلمانوں کو اُن کافروں سے جنگ کے لیے کہا گیا ہے ،جو اُن کے قرب و جوار میں تھے۔ یعنی اہل مکہ اور ان کے حلیف ؛ کیوں کہ یہی مدینہ کے قریب کافروں کی آبادیاں تھیں اور اہل مکہ کا مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک تھا وہ ظاہر ہے ۔ اگر مطلقاً کافروں کے مارنے کا حکم ہوتا ، تو قریب ودور کے لوگوں میںکوئی فرق نہیں کیا جاتا ۔ مدینہ ، یمن اور شام کے درمیان رہگزر کا درجہ رکھتا تھا اور مختلف غیر مسلم قافلے مدینہ کے قرب و جوار سے گذر تے رہتے تھے ۔ اگر یہ حکم مطلقاً ان سے متعلق ہوتا تو دور کے غیر مسلموں پر بھی حملہ کرنے کو کہا جاتا ؛ لیکن یہاں قرآن نے ایسا حکم نہیں دیا ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس آیت کا منشا ان مشرکین سے جنگ کرنا تھا ،جو بار بار مسلمانوں پر یلغار کرتے رہتے تھے ، نہ رشتہ کا پاس و لحاظ کرتے تھے ، نہ صلح اور معاہدہ کا لحاظ ۔
پھر اس آیت میں جو ’’ غِلظۃ ‘‘ کا لفظ آیا ہے ، اس کے معنی سختی کے بھی آتے ہیں اور طاقت ومضبوطی کے بھی۔یہاں اصل میں یہی طاقت ومضبوطی کا معنی مراد ہے : ’’ أی شدۃ وقوۃ وحمیۃ ‘‘ (حوالہ سابق : ۲۸۹) پس مقصد یہ ہے کہ جو مشرکین تم سے برسر جنگ ہیں و ہ تم کو طاقت ور محسوس کریں، مرعوب رہیں او ر تم کو روند جانے کی جرأت نہ کریں ،جیساکہ آج کے زمانہ میں ہر ملک اپنی فوجی قوت کا مظاہر ہ کرتا رہتا ہے کہ جس کے مقاصد میں سے اہم مقصد یہ ہوتا ہے کہ پڑ وسی ملک کوکمزورسمجھ کر حملہ نہ کردے ۔
۶-{ اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ ط یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ قف وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرٰئۃِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْقُرْاٰنِ ط وَمَنْ اَوْفٰی بِعَھْدِہٖ مِنَ اللّٰہِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہٖ ط وَذٰلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْم}۔(التوبۃ: ۱۱۱)
بے شک اللہ نے مومنوں سے ان کے جان ومال اس کے بدلہ خرید لیا ہے کہ ان کے لیے جنت ہے ۔ وہ اللہ کے راستہ میں جنگ کرتے ہیں ، تو قتل کرتے بھی ہیں اورقتل کیے بھی جاتے ہیں ۔ اسی پر سچا وعدہ ہے توریت اور انجیل اورقرآن میں اور اللہ سے بڑھ کر کون اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہے ؟ سوتم خوشی مناؤ اپنے معاملات پر؛ جو تم نے کی ہے اور یہی تو بڑی کامیابی ہے ۔ اس پر (ہماری طرف سے ) سچا وعدہ ہے ، توریت اور انجیل اور قرآن میں ۔
ظاہر بات ہے کہ جنگ کرنا قتال کرنا اس وقت کی اہم ضرورت تھی، توایسے موقع پر ان کی ہمت کوبلند کرنے کے لئے بشارت دی گی تاکہ مسلمان ،ظالموں کے خلاف جان ہتھیلی پر لے کر نکل آئیں، اور اس راہ میں اپنی جان ومال کی بھی فکر نہ کریں، ان کی ساری چیزیں اللہ نے جنت کے بدلے خرید لی ہے ۔
قرآن کے اس ارشاد میں کون سی بات خلاف انصاف ہے ؟ کیا ہم یہ نہیں کہتے کہ ہمیں اپنے دیش کی حفاظت میں سردھڑ کی بازی لگادینی چاہئے ۔ہندو مذہب کی تاریخ میں ’’گیتا ‘‘نے جس جنگ کی تفصیل بیان کی ہے ، یعنی کوروؤں اورپاؤنڈؤوں کی جنگ ، اس میں کرشن جی ، ارجن کو یہی صلاح دیتے ہیں کہ وہ اسے حق و باطل کی جنگ سمجھ کر کوروؤں کے خلاف صف آرا ہوں اور اس پر پانڈؤوں کے بادشاہ ارجن سے خدا کی مدد کا دعویٰ کرتے ہیں ۔
۷- {مَّلْعُوْنِیْنَ ، اَیْنَ مَا ثُقِفُوْٓا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَقْتِیْلاً}۔(الاحزاب : ۶۱)
پھٹکارے ہوئے ، جہاں کہیں پائے جائیںگے پکڑ لیے جائیں گے اور ضرور قتل کردیے جائیںگے ۔
یہ بھی ان آیتوں میںسے ایک ہے، جن کو وی ، ایچ ، پی(وشو ہندو پریشد،ہندؤوں کی متشدد تنظیم) نے قرآن مجید اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کا جلی عنوان بنایا ہے۔ اس آیت کا اصل منشا کیا ہے ؟ اس کو سمجھنے کے لیے اس سے پہلی اور بعد کی آیت کے ساتھ اس کا ترجمہ دیکھنا چاہیے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
{ لَئِنْ لَّمْ یَنْتَہِ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَض’‘ وَّ الْمُرْجِفُوْنَ فِی الْمَدِیْنَۃِ لَنُغْرِیَنَّکَ بِھِمْ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُوْنَکَ فِیْھَآ اِلَّا قَلِیلاً}۔(الاحزاب : ۶۰)
منافقین اور جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے اور جو لوگ مدینہ میں افواہ اڑاتے ہیں ، اگر اپنی حرکتوں سے باز نہیںآئے تو ہم ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تمہیں اٹھائیںگے ، پھروہ اس شہر میں آپ کے ساتھ کچھ ہی دنوں رہ سکیںگے ۔
{مَّلْعُوْنِیْنَ ، اَیْنَ مَا ثُقِفُوْٓا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَقْتِیْلاً}۔(الاحزاب: ۶۱)
ایسے لوگوں پر پھٹکار ہے ، یہ جہاں پائے جائیںگے پکڑے جائیںگے اور بری طرح مارے جائیں گے ۔
{سُنَّۃَ اللّٰہِ فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ ج وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلاً }۔(الاحزاب: ۶۲)
ان سے پہلے مجرمین کے لیے بھی اللہ کا یہی دستور رہا ہے اور تم اللہ کے دستور میں کوئی تبدیلی نہیں پاؤگے۔
یہ آیات بل کہ تقریباً یہ پوری سورت بھی بنیادی طور پر پانچ ہجری کے واقعات ، غزوہ احزاب اور غزوہ ٔ بنو قریظہ سے متعلق ہے ۔غزوۂ احزاب میں مسلمانوں کے پڑوسیوں نے ان کے ساتھ ناقابل عفو ودغا سے کام لیاتھا ، مسلمانوں کا یہودیوں سے یہ معاہدہ تھا کہ مدینہ پر جب بھی کوئی حملہ ہوگا تو ہم لوگ مل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے۔ بلا کسی اشتعال اور سبب کے نہ صرف خود حملہ کیا ؛ بل کہ اپنے دوسرے حلیف قبائل کو بھی ساتھ لے کر مدینہ پر چڑھ دوڑے ۔ افرادی وسائل اور اسلحہ کے اعتبار سے مظلوم مسلمانوں اور حملہ آوروں کے درمیان اتنا فرق تھا کہ مسلمان جنگی تدبیر کے طور پر خندقیں کھود نے پر مجبور ہوگئے ۔ اس موقع سے یہود مسلمانوں کی مدد تو کیا کرتے اور حسب معاہدہ مدینہ کی حفاظت میںکیا حصہ لیتے کہ و ہ غیر جانبدار بھی نہ رہ سکے اور ان مشرکین کے ساتھ ہولیے ، اس کے ساتھ ساتھ کچھ لوگ وہ بھی تھے ،جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے ۔ لیکن ان کی ساری ہمدردیاں مسلمانوں کے دشمنوں سے تھیں۔ ان حالات میں مسلمانوں کی سب سے بڑی طاقت ان کا ایمان ویقین اور حوصلہ وہمت ہی تھی ۔ یہ طرح طرح کی افواہیں اڑا کر مسلمانوں کو خوف میں مبتلا کرنا چاہتے تھے ، تاکہ ان کے حوصلے ٹوٹ جائیں اور یہ نفسیاتی طور پر کم زور ہوجائیں، یہی دونوں طبقے ہیں، جن کو ’’ منافقین ‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ یہ مسلمانوں کو ذلیل ورسوا کرنے کے درپے بھی ہوتے تھے اور شریف مسلمان خواتین کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں بھی اڑایا کرتے تھے ، ایسی افواہوں سے انسان نفسیاتی الجھن میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔
ان ہی گروہوں کے بارے میں قرآن مجید نے کہا کہ ان کا ایسے پڑوس اور بغلی دشمنوں کو اپنے ساتھ رکھنا مناسب نہیں، کیوں کہ دوست نما دشمن انسان کے لیے زیادہ خطرناک ہوتا ہے ، کوئی صاحب انصاف دیکھے کہ جو لوگ بہ ظاہر کسی قوم کے ساتھ رہ کر یا کسی ملک کے شہری بن کر اسی قوم و ملک کے خلاف سازشیں کرتے ہیں ، ان کے دشمنوں سے خفیہ تعلقات رکھتے ہیں اور برے وقتوں میں سارے عہد و پیماں کو فراموش کرکے دشمنوں کے دوش بدوش کھڑے ہوجاتے ہیں ، ایسے لوگوں کی سزا قتل اور پھانسی کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے ؟
پھر قرآن مجید نے ان پر پھٹکار بھیجتے ہوئے مسلمانوں کو یہ حکم نہیں دیا کہ وہ ان پر ہلہ بول دیں ؛ حالاں کہ اگر قرآن نے ایسا کہا ہوتا تو بے جا نہیں ہوتا؛ لیکن یہاں حکم دینے کے بجائے صرف پیشین گوئی کی گئی ہے ، اور بار بار بے وفائی کرنے والوں کو سنبھلنے کا موقع دیتے ہوئے انتباہ دیا گیا ہے ، کہ اگر وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے تو ان کا انجام دنیا میں بھی ہلاکت وبربادی ہے اورایسے لوگوں کے ساتھ اللہ کی سنت یہی رہی ہے ۔
اگر اس ملک میں رہنے والے اور اس سے ہر طرح کا فائدہ اٹھانے والے دشمن ملکوں کے ساتھ مل کر ملک کے خلاف سازشیں تیارکریں ، جاسوسی کریں اور دشمنوں کے ساتھ جا ملیں تو آخر ان کی کیا سزا ہوگی ؟ کیا انہیں گرفتار کرنا یا انہیں سزائے موت دینا خلاف انصاف امر ہوگا ؟ اور کیا دنیا کے مہذب قوانین میں ایسے شخص کے لیے بعینہٖ یہی سزا نہیں رکھی گئی ہے ؟
۸- { ٰٓیاَیُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْھِمْ ط وَمَاْوٰئھُمْ جَھَنَّمُ ط وَبِئْسَ الْمَصِیْر}۔(التحریم: ۹)
اے نبی ! کافروں اورمنافقوں سے جہاد کیجیے اور ان پر سختی کیجیے۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ انتہائی بد ترین ٹھکانہ ہے ۔
ان آیات کا پس منظر بھی وہی ہے، جس کا پہلے باربار ذکر آچکا ہے ، دراصل اسلام میں غیر مسلموں کے تین گروہ کئے گئے ہیں : ایک وہ غیر مسلم؛ جو مسلم ممالک میں ہوں۔ دوسرے وہ غیر مسلم ؛جو مسلمانوں کے ساتھ ’’بقائے باہم ‘‘ کے معاہدہ کے تحت رہتے ہوں ، جیسا کہ آج کے جمہوری ممالک ہیں۔ پہلے گروہ کو ’’ ذمی ‘‘ اور دوسرے کو ’’ معاہد‘‘ کہتے ہیں ۔ ان دونوں کے جان ومال کو کسی بھی طرح نقصان پہنچانا ناجائز اور سخت گناہ ہے ۔ تیسرے قسم کے وہ غیر مسلم ہیں ،جو مسلمانوں سے برسر جنگ ہوں، ان سے قتال کا حکم ہے اوریہ آیات انہیں کے سلسلہ میں ہے ۔
یہ ایک فطری بات ہے کہ جب آپ پر کوئی حملہ کرے تو آپ اپنی مدافعت کریں، تمام مذاہب اور قوانین میں انسان کو اپنی مدافعت اورحملہ آوروں کے خلاف اقدام کی اجازت دی گئی ہے ، جہاں تک ایسے ظالموں سے جنگ کی ترغیب دینے کی بات ہے تو یہ جیسا کہ عرض کیا گیا ؛ تمام ہی مذاہب میں موجود ہے ۔
مثلاً : گیتا میں ہنداؤوں کے بھگوان کرشن جی ارجن سے کہتے ہیں:
ہے ارجن ! یہ جنگ ایک سورگ کا دروازہ ہے ، تو تیرے لیے توخود بہ خود کھل گیا ہے، ایسا موقع خوش قسمت چھتریوں(برہمنوں میں جو جنگ کے ماہر ہوں) ہی کو ملا کرتا ہے ۔ لہٰذا اگر تو اپنے دھرم کی پیروی میں یہ جنگ نہ کرے گا تو اپنے دھرم اورشہرت کو برباد کرکے پاپ جمع کرے گا ، بل کہ سب لوگ تیری کبھی نہ ختم ہونے والی مذمت کے گیت گاتے رہیںگے اوریہ مذمت وبدنامی انسان کے لیے موت سے بد تر ہے ۔ (۲:۳۲-۳۴)
غور کرنے کی بات ہے کہ قرآن تو یہاں دفاعی جہادکی بات کر رہا ہے ،اور شری کشن اقدامی حملہ کی ترغیب دے رہیں ہیں۔
مال غنیمت سے متعلق دو آیتیں :
۹- {فَکُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلاً طَیِّبًاصلے ز وَّاتَّقُوا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْر’‘ رَّحِیْم}۔(الانفال : ۶۹)
جو مال غنیمت تم نے حاصل کیا ہے ، اسے پاکیزہ اور حلال سمجھ کر کھاؤ اوراللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک اللہ معاف کرنے والے اور رحم کرنے والے ہیں ۔
۱۰- {وَعَدَکُمُ اللّٰہُ مَغَانِمَ کَثِیْرَۃً تَاْخُذُوْنَھَا فَعَجَّلَ لَکُمْ ھٰذِہٖ وَکَفَّ اَیْدِیَ النَّاسِ عَنْکُمْج وَلِتَکُوْنَ اٰیَۃً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَیَھْدِیَکُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا}۔(الفتح: ۲۰)
اللہ نے تم سے بہت سارے مال غنیمت کا وعدہ کیا ہے ، جسے تم پاؤگے فوری طور پر تو فتح اس نے تمہیں عطا کردی ،اور لوگوں کے ہاتھ تمہارے خلاف اٹھنے سے روک دیئے ؛ تاکہ یہ مومنوں کے لیے ایک نشانی بن جائے اوراللہ سیدھے راستے کی طرف تمہیں ہدایت بخشے ۔
دونوں آیتوں میں مال غنیمت کاذکرہے،اس کاترجمہ وہی وی،ایچ،پی کے پمفلٹ میں’’لوٹ کے مال‘‘ سے کیاگیاہے۔اوریہ تصورپیش کیاگیاہے کہ غیرمسلموںکاجوبھی مال لوٹ لے،وہ ان کے لیے جائز اورحلال ہے۔
یہ بھی محض ایک پروپیگنڈہ ہے،یہ آیات ہرغیرمسلم سے متعلق نہیںہیں،بل کہ یہ ان لوگوںسے متعلق ہیں،جومسلمانوںسے برسرجنگ ہوں،کہ اگرمسلمان ان پرفتح پائیںاورجنگ میں جولوگ قیدکرلیے جائیں،توان کے مال کاکیاحکم ہوگا؟اس سلسلے میںاصول یہ بیان کیاگیاکہ وہ مالِ غنیمت ہوگا۔
عربی زبان میںمشقت کے بغیرکسی چیزکے حاصل ہونے کو’’غنم‘‘(’’غ‘‘پرپیش یازبر) کہتے ہیں۔
(القاموس المحیط:۱۴۷۶)
چوںکہ جنگ سے حاصل ہونے والے مال میںتجارت یازراعت کی مشقت نہیںاٹھائی جاتی،اس لیے اس کو’’مال غنیمت‘‘کہتے ہیں، غنیمت کاترجمہ’’لوٹ کے مال‘‘سے قطعاً درست نہیں،لوٹ توایک غیرقانونی طریقہ اور ایک غیر اخلاقی فعل ہے ۔ جب کہ اسلام میںیہ حکم ہے کہ اگر کوئی قوم مسلمانوںسے برسرجنگ ہو،اورمسلمانوںکوفتح حاصل ہوتوجہاں تک ممکن ہو،باغات اورکھیتیوںکوتاخت وتاراج نہ کیاجائے ۔مکانات منہدم نہ کیے جائیں،اپنے طورپرشکست خوردہ لوگوںکامال لے کراستعمال نہ کیاجائے ۔
اور خصوصا مال غنیمت کے سلسلہ میںاصول یہ ہے کہ مفتوحین کے مال حکومت کے پاس جمع کیے جائیں۔اس میںسے پانچواںحصہ حکومت کے خزانہ میںمحفوظ کردیاجائے اوراسے رعایاکی بھلائی کے لیے خرچ کیاجائے ،یہ رقم مسلمان رعایاپربھی خرچ ہوگی اورغیرمسلم رعایاپربھی۔
اس زمانہ میںفوجیوںکے لیے الگ ’’تنخواہ‘‘نہیںہوا کرتی تھی اوران میںجنگ میںحاصل ہونے والے مال کے بقیہ چارحصے تقسیم کردیے جاتے تھے۔
بہرحال تقسیم کے بعدجومال جس کے حصہ میں پڑے گا،وہ اس کامالک سمجھاجائے گا۔اِس تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ مال غنیمت ہرغیرمسلم کے مال کونہیںکہیںگے،بل کہ دشمن ملک کے حاصل شدہ مال کومالِ غنیمت کہاجائے گااورایسابھی نہ ہوگاکہ جس کے ہاتھ میںجوآئے وہ اس پرقابض ہوجائے ،بل کہ قانونی طریقے پرہی کوئی شخص اس مال کامالک ہوسکتاہے ۔
جزیہ:
۱۱-{ قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَلَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّھُمْ صٰغِرُوْن}۔(التوبۃ:۲۹)
جوکتاب والے اللہ اورآخرت پرایمان نہیںرکھتے ہیں،اللہ اوراس کے رسول کی حرام کی ہوئی چیزوںکو حرام نہیںٹھہراتے ہیںاوردین حق کواختیارنہیںکرتے ہیں،ان سے جنگ کرو۔یہاںتک کہ وہ رعیت بن کرجزیہ دینے لگیں۔
اس میںوی ،ایچ ،پی والوںنے{حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّھُمْ صٰغِرُوْن}کا ترجمہ کیاہے: ’’ان سے لڑویہاںتک کہ وہ ذلیل ہوکراپنے ہاتھوںسے جزیہ دینے لگیں‘‘۔حالاںکہ یہاں’’صاغرون‘‘سے مرادفاتحین کے اقتدارکوتسلیم کرناہے ۔ یعنی مفتوح فاتح کے مقابلے اپنے رعایاہونے کی حیثیت کااعتراف کرلے۔ جیساکہ آج بھی ہتھیارڈالنے والے ممالک اپنی شکست کااعتراف کرتے ہیں۔اس کامقصدتحقیروتذلیل نہیںہے، جیساکہ وی ،ایچ ،پی کے پروپیگنڈہ بازترجمہ سے ظاہرہوتاہے ۔
جزیہ سے مرادوہ خصوصی ٹیکس ہے،جواسلامی حکومت غیرمسلم رعایاسے ان کے جان ومال کی حفاظت کے طورپروصول کرتی ہے ۔صورت حال یہ ہے کہ مسلمانوںپرزکوٰۃ واجب ہے،جسے حکومت وصول کرتی ہے۔اگر غیرمسلموںپربھی زکوٰۃواجب قراردی جاتی تویہ انھیںایک اسلامی عمل پرمجبورکرنے کے مترادف اورمذہبی آزادی کے مغائرہوتا۔اس لیے ان پرایک جداگانہ ٹیکس ’’جزیہ‘‘ کے نام سے لگایاگیا۔جواُن کی جان ومال کے حفاظتی نظام کامعاوضہ ہے ،اور یہ بھی جان لیں کہ یہ جزیہ ان کے حالتِ کفرمیںہونے کاتاوان نہیں،
اگرایساہوتاتوعورتوں،بچوں،بوڑھوں،بیماروں، معذوروں،بے روزگاروںاورمذہبی طبقہ یعنی پادری،پنڈت وغیرہ سبھوںپرواجب قراردیاجاتا،لیکن ان حضرات کوجزیہ سے مستثنیٰ رکھاگیاہے ۔ (دیکھئے : ہدایہ ۴؍۳۱۸)
اس لیے اس کی حیثیت محض ایک ٹیکس کی ہے نہ کہ تاوان کی ۔
پھر اس جزیہ کی مقدار بھی کس قدر معمولی ہے؟ کم آمدنی والوں کے لیے سالانہ ۱۲؍ درہم ، متوسط آمدنی والوں کے لیے سالانہ ۲۴؍ اور زیادہ آمدنی والوں کے لیے ۴۸؍ درہم ۔ (بیہقی : ۹؍۳۲۹، حدیث نمبر : ۱۸۶۸۵/ باب الزیادۃ علی الدینار بالصلح )۱۲؍ درہم ۳؍ تولہ سے کچھ کم چاندی ہوتی ہے ، موجود ہ نرخ کے لحاظ سے ۱۲؍ درہم تقریبا۹۰۰؍ روپیہ سے کچھ کم بیش ہے۔ آپ حضرات غور کریںکہ اگر کوئی مملکت کسی شہری کی حفاظت کا انتظام کردے اور ان کے تحفظ کی ضمانت قبول کرے تو ہم شکر گزار ہوںگے ۔ یہ ہے اس جزیہ کی حقیقت ؛جس کو لے کر معاندین نے ایک طوفان کھڑا کیا ہوا ہے اور اس کو اسلام کے خلاف ظلم و زیادتی ، تشدد اور نارواداری کا عنوان دیا گیا ہے ۔
مشرکین ناپاک ہیں :
۱۲-{ ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَس’‘ فَلاَ یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِھِمْ ھٰذَا ج وَاِنْ خِفْتُمْ عَیْلَۃً فَسَوْفَ یُغْنِیْکُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖٓ اِنْ شَآئَ ط اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْم’‘ حَکِیْم’‘}۔(التوبۃ: ۲۸)
اے ایمان والو! مشرکین تو بے شک ناپاک ہیں ۔سو اِس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس نہ آنے پائیں اگر تم کو مفلس کا اندیشہ ہو سو اللہ تمہیں اگر چاہے گا ، اپنے فضل سے (ان سے ) نیاز کردے گا، اللہ خوب جاننے والا ہے ، بڑا حکمت والا ہے ۔
اس آیت کے سلسلے میں چند نکات ملحوظ رکھے جانے چاہئیں:
(۱) یہاں مشرک سے صرف بت پرست (مورتی پوجک) مراد نہیں ہیں، جیسا کہ وی ، ایچ ،پی والوں نے آیت کا ترجمہ کیا ہے ۔ بل کہ وہ تمام لوگ شامل ہیں، جو خدا کی ذات یا اس کی مخصوص صفات واختیارات میں دوسروں کو شریک ٹھہرائیں، خواہ وہ بت کا پرستار ہویا کسی پیغمبر کو خدا کا درجہ دیتا ہویااللہ کے کسی نیک بندے کوخدا کی قدرت واختیارمیںساجھے دارسمجھتاہو۔جولوگ اپنے آپ کومسلمان کہتے ہیں،لیکن انھوںنے خدانہ خواستہ غیراللہ کوخداکادرجہ دے رکھاہواوررسول اوراولیاکی ذات میںوہ اختیارات مانتے ہوں،جواللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہیں،تووہ بھی مشرک کامصداق ہیں۔
(۲)مشرکین کو’’ناپاک‘‘کہنے کایہ مطلب نہیںہے کہ ان کاجسم ناپاک ہوتاہے ۔ان کے کپڑے ناپاک ہیںیاان کاجھوٹاناپاک ہے ۔پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے غیرمسلموںکی مہمان نوازی کی ہے اورخوداُن کی دعوت قبول فرمائی ہے ،مسجدنبوی میںان کوٹھہرایاہے ،اپنے بسترپرانھیںبٹھایااورسلایاہے۔اگرانھیںجسمانی اعتبارسے ناپاک سمجھاجاتاتوکس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایساعمل فرماتے؟اس لیے یہاںعقیدہ اورفکرکی ناپاکی مرادہے ۔یہ ایسے ہی ہے ،جیسے آپ کسی شخص کے بارے میںیہ کہتے ہیںکہ وہ ناکام عزائم رکھتاہے ۔یاآپ کہتے ہیںکہ فلاں دہشت گردوںکے ناپاک منصوبے ناپاک کردیے گئے ۔یہاںناپاکی سے عمل اورسوچ کے غلط اورمبنی برخطاہونے کااظہارکیاجاتاہے۔گویااس آیت میںشرک کے نہایت غلط اورخلاف واقعہ عمل ہونے کی طرف اشارہ کیاگیاہے ۔
اب جس خدا نے اتنی ساری نعمتیں دی ہوں،اور وہ اپنے بندوں سے صرف یہ مطالبہ کریں کہصرف اسی کو خدا مانی جائے ،اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کی جائے ،تو اس میں کیا غلط ہے ،اور اگر کوئی اس کے ساتھ کسی اور کی پرشتش کرے تو خدا پورا حق ہے کہ وہ بندوں جتنے برے الفاظ سے پکارے وہ کم ہے ۔کیا ہمارا کوئی ماتحت جس کو ہم نے ساری سہولتیں دی ہوں،وہ ان چیزوں پر کسی اور کی تعریف کرے تو ہم اپنے ماتحتوں کو کیا کچھ برا بھلا نہیں کہتے ،تو کیا یہ کوئی زیادتی ہے؟
غیرمسلموںسے دوستی:
اس پمفلٹ اُن آیات کوبھی خاص طورپرذکرکیاگیاہے،جن میںکفارکی عداوت اوران سے دوستی نہیںرکھنے کاذکرہے ۔وہ آیات اس طرح ہیں:
۱۳ )-{وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاح’‘ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوۃِصلے ق اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ط اِنَّ الْکٰفِرِیْنَ کَانُوْا لَکُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًا}۔(النساء:۱۰۱)
اورجب تم ملک میںسفرکروتوتم پرحرج نہیںہے کہ تم نمازمیںقصرکرو،اگرتم کواندیشہ ہوکہ کافرتم کو ستائیں گے۔ بے شک کافرتمھارے کھلے دشمن ہیں۔
۱۴)-{ ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓی اَوْلِیَآئَ م ؔ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍط وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْن}۔(المائدۃ:۵۱)
اے ایمان والو!تم یہودیوںاورعیسائیوںکودوست نہ بناؤ۔یہ آپس میںایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میںسے جوکوئی ان کودوست بنائے گاوہ انھیںمیںسے ہوگا۔بے شک اللہ ظالموںکوہدایت نہیںدیتے۔
۱۵)-{ ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَکُمْ ھُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَالْکُفَّارَ اَوْلِیَآئَ ج وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْن}۔ (المائدۃ:۵۷)
اے ایمان والو!جن لوگوںکوتم سے پہلے کتاب(آسمانی) مل چکی ہے اورایسے ہیںکہ انھوںنے تمھارے دین کوہنسی کھیل بنارکھاہے،ان کواورکافروںکودوست نہ بناؤ۔اوراللہ سے ڈرتے رہواگرتم ایمان والے ہو۔
۱۶)-{ ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْٓا اٰبَآئَ کُمْ وَاِخْوَانَکُمْ اَوْلِیَآئَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْکُفْرَ عَلَی الْاِیْمَانِ ط وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْن}۔(التوبۃ:۲۳)
اے ایمان والو!اپنے باپوںاوربھائیوںکواپنادوست مت بناؤ۔اگروہ ایمان کے مقابلے کفرکوپسند کریںاورتم میں سے جوکوئی ان سے دوستی کرے گاتوایسے ہی لوگ ظالم ہوںگے۔
پہلی آیت(النساء:۱۰۱) میںبھی اہل مکہ کابیان ہے کہ یہ تمھارے کھلے ہوئے اورسخت دشمن ہیں۔کہیں مسلمان کسی مرحلہ پردھوکانہ کھاجائیںاوران کی دوست نمادشمنی کاشکارنہ ہوجائیں۔یہ آیت بھی انھیں مشرکینِ مکہ سے متعلق ہے ۔
چناںچہ اس آیت کے بعد’’نمازخوف‘‘کاطریقہ بیان کیاگیاہے۔(النساء:۱۰۲)کہ جب جنگ کی حالت ہواوردونوںطرف سے فوجیںصف آراہوں،اس وقت مسلمانوںکوکس طرح نمازاداکرنی چاہیے؟کیوں کہ اہل مکہ سے اس وقت پے درپے معرکے درپیش تھے۔یہ آیت تمام غیرمسلموںسے متعلق نہیںہے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاعمل اس کی واضح دلیل ہے ۔آپ نے مدینہ میںیہودیوںسے معاہدہ کیا،نجران کے عیسائیوں سے معاہدہ کیا۔بنوخزاعہ کافرتھے،لیکن مسلمانوںکے حلیف اوردوست تھے۔اس طرح کے معاہدے آپ نے بعض اورغیرمسلم قبائل سے بھی کیے ہیں۔اگرکفارسے مطلقاً دوستی کی اجازت نہ ہوتی اوروہ سب کے سب دشمن قراردیے جاتے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے اُن غیرمسلم قبائل کواپناحلیف بنایاہوتا؟
دوسری اورتیسری آیت کاپس منظریہ ہے کہ مسلمان بارباریہودیوںسے معاہدہ کرتے تھے اوریہودی اس وعدہ کی خلاف ورزی کرتے تھے۔یہاںتک کہ غزوۂ خندق میںتوانھوںنے اہل مکہ کے ساتھ مل کرمسلمانوں کی بیخ وبن اکھاڑدینے کی کوشش کی ۔
یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کومتہم کرتے تھے اورولدالزناٹھہراتے تھے، حضرت مریم علیہاالسلام پرتہمت لگاتے اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام پرلعنت بھیجتے تھے۔قرآن مجیدنے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نبی ہونے کوپوری قوت کے ساتھ بیان کیا۔ان پراوران کی والدہ پرجوتہمتیںلگائی جاتی تھیں،اس کی تردید کی۔ لیکن ہوایہ کہ وہ بجائے اس کے کہ مسلمانوںکوتقویت پہنچاتے اوراسلام کی دعوت کوقبول کرتے ،اپنے پیغمبرکوگالی دینے والے یہودیوںکے ساتھ مل بیٹھے،اس لیے مسلمانوںسے کہاگیاکہ وہ انھیںاپنارازدارنہ بنائیں، کیوںکہ ایسے شدید اختلاف کے باوجودمسلمانوںکے خلاف سازشیںکرنے میںیہودونصاریٰ اورکفارمکہ ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔عقیدہ ومذہب کے تضادکی وجہ سے مسلمان انھیںاپنارازداربناکرکہیںنقصان نہ اٹھائیں۔
پانچویںآیت میںمسلمانوںسے خطاب ہے اوران سے کہاگیاہے کہ یہ مقابلہ خونی رشتہ کی محبت کے مذاہب اورعقیدہ کا تعلق زیادہ اہم ہے ،کیوں کہ جہاں حق اور ناحق کا مقابلہ ہو اوردوایسی باتوں کا ٹکراؤ ہو جن میں ایک طرف حق اور سچائی ہو اور دوسری طرف رشتۂ قرابت ، تو سچائی کو رشتوں پر ترجیح دینی چاہیے ، یہ تو اعلیٰ اخلاقی تعلیم ہے اور ہر قوم کے لیے ہے کہ جس چیز کو وہ حق او انصاف سمجھتی ہو اسے دوسرے تمام تعلقات پر غالب رکھے ،اس آیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو غیر مسلم اقربا ہوں ان سے مسلمانوں کو نفرت کرنی چاہیے، ان کے ساتھ حسن سلوک نہیں کرنا چاہئے بل کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر حال میں رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا حکم دیا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیرمسلم کی عیادت کی ہے ، مکہ میں قحط پڑا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار مکہ کے لیے امداد بھیجوائی ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک مشرک عزیز کے لیے ریشمی عباء بھیجی ، بعض صحابہؓ کی والدہ ان کے مسلمان ہونے پر ناراض تھیں اور انہوں نے احتجاجاً کھانا چھوڑ دیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نصیحت کی کہ اسلام پر قائم رہنا بھی ہے ؛ لیکن اس کا بھی لحاظ رکھنا ہے کہ والدین کے ساتھ بد سلوکی نہ ہو،
اصل یہ ہے کہ موالات سے ہرطرح کی دوستی اور تعلق مراد نہیں ہے ؛ بل کہ ایسی دوستی مرادہے جو انسان کے فکر و عمل پر اثر انداز ہونے لگے اورکسی گروہ کی راز دارانہ باتیں جن کا دوسروں تک پہنچنا اس گروہ کے لیے ضرر کا باعث بن سکتا ہو ، پہنچنے نہ دے ، ایسے گہرے تعلق کو اصل میں ’’ موالات ‘‘ سے تعبیر کیاگیا ہے ۔
…اول یہ کہ یہ آیات بھی ان کفار کے پس منظر میں ہیں جن سے اس وقت مسلمانوں کا سابقہ تھا ، دوسرے اس میں ہر طرح کی دوستی کی ممانعت نہیں ہے ، بل کہ ایسی دوستی کی ممانعت ہے جس میں مسلمان اپنی تہذیبی تمدنی قدروں سے محروم ہوجائیں، وہ دوسری قوموں کے ساتھ تہذیبی اورفکری اعتبار سے جذب ہونے لگیں ، یا جن لوگوں سے ان کا اختلاف ہے ان تک اپنے ایسے راز واسرار کو پہنچانے لگیں جو پوری قوم کے لیے نقصان دہ اور مضرت رساں ہوں ۔
غیر مسلم اور ہدایت :
۱۷- {وَاللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِیْنَ }۔(التوبۃ : ۳۷)
اللہ کافروں لوگوں کو صحیح راستہ نہیں دکھاتا ۔
یہ آیت کا صرف آخری ٹکڑا ہے ، پوری آیت کا ترجمہ دیکھ لیا جائے تو خود بخود غلط فہمی دور ہوجائے گی ۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے یہ بات بتائی کہ زمین و آسمان کی تخلیق کے وقت سے ہی سال کے بارہ مہینے ہیں۔یعنی ۱۲؍ مہینوں میں سورج کے گرد زمین کی گردش پوری ہوتی ہے ۔ ان میں سے چار مہینے ’’ حرام ‘‘ ہیں ، یہ چارمہینوں کے حرام ہونے کا حکم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے ہی عربوں میں چلا آرہا تھا، ان مہینوں کے حرام ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان میں جنگ کی ممانعت ہے۔ عرب کے خطہ میںجہاں کوئی قانونی حکومت نہیں تھی ، ان مہینوں کا احترام لوگوں کے لیے بڑی اہمیت کا حامل تھا؛ کیوں کہ ان ہی مہینوں میں وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرسکتے تھے ۔ یہ چار مہینے تھے : رجب ، ذوقعدہ، ذوالحجہ اور محرم الحرام ۔
لیکن صورت حال یہ تھی کہ جب وہ ان مہینوں میں سے کسی مہینہ میں جنگ کے لیے مناسب موقع پاتے تو مہینے کو بدل دیتے ۔ مثلاً کہتے کہ اِس سال ذوقعدہ کی جگہ صفر ہے اور صفر کی جگہ ذو قعدہ ۔ اسی طرح کبھی مہینہ بڑھا دیتے اوربارہ مہینوں کی جگہ تیرہ مہینوں کا سال قرار دیتے ۔ کبھی مہینہ گھٹا کر ۱۱؍ مہینوں کا سال کردیتے ، قرآن مجید نے ان کے اس رویہ پر تنقید کی اور فرمایا :
{اِنَّمَا النَّسِیْٓئُ زِیَادَۃ’‘ فِی الْکُفْرِ یُضَلُّ بِہِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُحِلُّوْنَہٗ عَامًا وَّیُحَرِّمُوْنَہٗ عَامًا لِّیُوَاطِئُوْا عِدَّۃَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ فَیُحِلُّوْا مَا حَرَّمَ اللّٰہُ ط زُیِّنَ لَھُمْ سُوْٓئُ اَعْمَالِھِمْ ط وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ}(التوبۃ: ۳۷)
بے شک نسی (مہینوں کا اپنی جگہ سے ہٹادینا )کفر میں زیادتی ہے ، اس کے ذریعہ کفر کرنے والے گمراہ کیے جاتے ہیں ، وہ کسی سال حرام مہینہ کو حلال کرلیتے ہیں اور کسی سال حرام سمجھتے ہیں ؛ تاکہ ان مہینوں کی جنہیں اللہ نے حرام قرار دیا ہے ، گنتی پوری کرلیں، پھر اللہ کے حرام کیے ہوئے مہینوں کو حلال کرلیتے ہیں ، ان کی بداعمالیاں انہیں اچھی معلوم ہوتی ہیں، اور اللہ تعالیٰ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔
پس یہ بات کافروں کے ایک خاص گروہ کے بارے میں ہے ، ورنہ قرآن تو چاہتا ہی ہے کہ جو مسلمان نہیں ہیں، وہ بھی ہدایت کے راستہ پر آئیں ، اسی لیے قرآن نے اپنا تعارف ہی یہ کرایا ہے کہ وہ تمام انسانیت کے لیے ہدایت ہے : ’’ ہدی للناس ‘‘ (البقرۃ: ۲) اور اس امت کو حق اور سچائی کی طرف بلانے کا حکم دیا گیا ہے ، تو اگر قرآن کا یہ تصور ہوتا کہ کسی غیر مسلم کو وہ راستہ مل ہی نہیں سکتا جس کو اسلام صحیح راستہ سمجھتا ہے اور ہدایت قرار دیتا ہے ، تو کیوں کر امت مسلمہ کو انسانیت کی دعوت کے لیے مامور کیا جاتا ؟
عیسائیوں میں آپسی عداوت :
۱۸-{ فَاَغْرَیْنَا بَیْنَھُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآئَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ط وَسَوْفَ یُنَبِّئُھُمُ اللّٰہُ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ} (المائدۃ: ۱۴)
پھر ہم نے ان کے درمیان قیامت تک کے لیے دشمنی اور بغض ڈال دیا ہے اور اللہ جلد انہیں بتادے گا جو کچھ کہ وہ کرتے رہے ہیں ۔
یہ بھی آیت کا ایک ٹکڑا ہے ، پوری آیت اس طرح ہے :
{وَمِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰٓی اَخَذْنَا مِیْثَاقَھُمْ فَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُکِّرُوْا بِہٖص فَاَغْرَیْنَا بَیْنَھُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآئَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ط وَسَوْفَ یُنَبِّئُھُمُ اللّٰہُ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ}(المائدۃ: ۱۴)
اورجو لوگ کہتے ہیں کہ ہم نصرانی ہیں، ان سے بھی ہم نے عہد لیا تھا، جو کچھ انہیں نصیحت کی گئی ، اس کا بڑا حصہ وہ بھلا بیٹھے ، تو ہم نے ان میں قیامت تک کے لیے باہم بغض وعداوت پیدا کردی اور عنقریب اللہ انہیں جوکچھ وہ کرتے رہے ہیں، ان کے بارے میں بتائیں گے ۔
اس آیت میں چند باتیں قابل غورہیں :
اول یہ کہ ارشاد ان لوگوں سے متعلق ہے جو اپنے آپ کو عیسائی کہتے ہیں ، نہ کہ تمام غیر مسلموں سے متعلق ، دوسرے قرآن نے ہمیں بتایا کہ ان سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے عہد لیا تھا کہ آپ کے بعد جو نبی آئے گا ، یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم وہ ان پر ایمان لائیںگے۔ (الصف :۶ )لیکن انہوں نے اس عہد کو پس پشت ڈال دیا؛ حالاں کہ عیسائیوں نے اور خاص کر سینٹ پال نے عیسائی عقائد کو پوری طرح ردو بدل کرکے رکھ دیا ہے اور اس میں اپنی طرف سے آمیزشیں کردی ہیں؛ لیکن اس کے باوجود انجیل میں ابھی بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی طرف اشارے موجود ہیں ۔
غیر مسلم اور عذابِ آخرت :
۱۹- {اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْھِمْ نَارًاط کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّلْنٰہُمْ جُلُوْدًا غَیْرَھَا لِیَذُوْقُواالْعَذَابَ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَزِیْزًا حَکِیْمًا}(النساء: ۵۶)
بے شک جن لوگوں نے ہمارے احکام کا انکار کیا ، ہم انہیں دوزخ میں داخل کریںگے ، جب جب ان کی کھالیں پک جائیںگی ، تو ہم انہیں دوسری کھالوں سے بدل دیںگے ۔ تاکہ وہ عذاب چکھتے رہیں ۔ بے شک اللہ طاقت والا حکمت والا ہے ۔
۲۰- {وَعَدَ اللّٰہُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَالْمُنٰفِقٰتِ وَالْکُفَّارَ نَارَ جَھَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا ط ھِیَ حَسْبُھُمْ ج وَلَعَنَھُمُ اللّٰہُ ج وَلَھُمْ عَذَاب’‘ مُّقِیْم’‘}(التوبۃ: ۶۸)
منافق مردوں اور منافق عورتوں اورکافروں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں رہیںگے ، یہی انہیں بس ہے اور ان پر اللہ نے لعنت کی ہے اور ان کے لیے ہمیشہ رہنے والا عذاب ہے ۔
۲۱- { اِنَّکُمْ وَمَاتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَھَنَّمَ ط اَنْتُمْ لَھَا وَارِدُوْن}(الانبیاء: ۹۸)
یقینا تم اور اللہ کے سوا جنہیں تم پوجتے ہو ، وہ دوزخ کا ایندھن ہیں اور تم لوگ اس میں اترو گے ۔
۲۲- { فَلَنُذِیْقَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا عَذَابًا شَدِیْدًا لا وَّلَنَجْزِیَنَّہُمْ اَسْوَاَ الَّذِیْ کَانُوْا یَعْمَلُوْن}۔(حم سجد ۃ ۲۷)
تو یقینا ہم کفر کرنے والوں کو سخت عذاب چکھائیںگے اور ان کو ان کے برے کاموں کا بدلہ دیںگے ۔
اس سے پہلے کی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات ان لوگوں کے بارے میں فرمائی ہے جو قرآن مجید پڑھنے کے وقت شورو غل کرتے تھے اورلوگوں کو قرآن سننے نہیں دیتے تھے ۔
۲۳-{ذٰلِکَ جَزَآئُ اَعْدَآئِ اللّٰہِ النَّارُ ج لَھُمْ فِیْھَادَارُ الْخُلْدِ ط جَزَآئً م بِمَا کَانُوْابِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ}۔(حم سجد ۃ۲۸)
یہ بدلہ ہے اللہ کے دشمنوں کا ، آگ ، اسی میں ان کا ہمیشہ کا گھر ہے ، اس کے بدلہ میں کہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے ۔
۲۴-{ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُکِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ ثُمَّ اَعْرَضَ عَنْہَا ط اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِیْنَ مُنْتَقِمُوْن}۔(حم سجد ۃ۲۲)
اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جسے اس کے رب کی آیات کے ذریعہ یاددہانی کروائی جائے پھر بھی وہ اس سے منہ پھیر لے ، یقینا ہم ایسے مجرموں سے بدلہ لیںگے ۔
ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے والوں، اس کے احکام کی نافرمانی کرنے والوں اورغیر اللہ کے سامنے سرجھکانے والوں کے لیے عذاب کا ذکر ہے ، یہ بات وی ، ایچ ، پی کے بھائیوں کو بہت ناگوار خاطر ہے دنیا کی معمولی حکومتیں بھی اپنے مخالفین کو سزائیں دیتی ہیں ، وی ، ایچ ،پی اور بجرنگ دل والے بہت سے بے قصور لوگوں کو صرف اس لیے تکلیفیں دینا ، زندہ جلانا اورنیست ونابود کردینا درست سمجھتے ہیں ، کہ وہ ان کے مذہب کے نہیں ہیں؛ لیکن وہ چاہتے ہیں کہ خدا اتنا عاجز ، بے حس اوربے شعور ہوکہ چاہے کوئی اس کافرماں بردار ہو یا نافرمان ، کوئی اس کے سامنے سر جھکائے یا اس کو برا بھلا کہے ، کوئی اس کے حق میں دوسرے کو شریک ٹھہر ائے ؛ لیکن خدا کوئی حرکت نہ کرے ، وہ اپنی آنکھیں اور کان بند کئے رہے اور ظلم وبدی کرنے والوں کو نہ دنیا میں کچھ کہے کہ وہ پورا پورا انصاف کرے اور اچھے اور بروں کو ان کے عمل کی جزا و سزا دے ، دنیا کے تمام ہی مذاہب میں جزا وسزا کے قانون کو مانا گیا ہے اور اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ انسا کو اچھے عمل کرنے چاہئیں ؛ تاکہ وہ خدا کے عذاب سے بچ سکے ۔
بہر حال یہ حقیقت ہے اس پروپیگنڈہ کی جس کا مقصد صرف اور صرف یہی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف لوگوں میں نفرت پھیلائی جائے،اور بہت حد تک اس میں کامیاب بھی ہو چکے ہیں،جس کے نتیجہ کے طور پر آئے دن کسی تنہا مسلمان کا نفرت بھری بھیڑ کا شکار ہونے کی خبر ہم سنتے رہتے ہیں،حالانکہ برائی کے ختم کرنے کے لئے شدت اختیار کرنے کی تعلیم تمام مذاہب میں دی گئی ہے،جس کے لئے آپ ہمارے ان بڑوں کے مضامین پڑھ سکتے جن کا دیگر مذاہب کی کتابوں کاخاصہ مطالعہ ہے،خصوصا مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی کا ان آیات پر ایک طویل مضمون ہے ،جس سے عاجز نے بھی بھر پور استفادہ کیا ہے،اس میں مولانا نے دیگر مذاہب کی ان تعلیمات کواچھا خاصہ جمع کردیا ہے جو شدت پر مبنی ہیں ۔
آج ہمارے لئے بہت زیادہ ضروری ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو نفرت پھیلائی جارہی ہے،اس غلط فہمی کو دور کرنے کی بھرپور کوشش کریں،اس کے لئے احقر کی ناقص سمجھ میں یہ آتا ہے کہ ہم کو درس قران،تفسیر قران کا اہتمام ہر مسجد میں کرنا چاہیے،کیونکہ مسلمانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ قرانی تعلیمات سے بے خبر ہے،ہم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ پورے قران کی تفسیر کا مطالعہ کریں ،خصوصا ان مذکورہ آیات کا تاکہ جہاں کہیں ہم کو موقعہ ملے ہم بہت ہی مثبت انداز میںنرمی کے ساتھ ان آیات کے ذریعہ جو غلط فہمیاں پیدا کی گئی ہیںان کا ازالہ کر سکیں،اور ہم اپنے ہندوستانی بھائیوں کے سا تھ اسلامی اخلاق کا نمونہ پیش کریں،اور ان کے لئے غیر مسلم کی اصطلاح استعمال کریں،لفظ کافر سے احتراز کریں۔