ازقلم:محمدمجاہدبن حافظ محمدصادق صاحب اشاعتی پھلمبری
حامداًومصلیاًومسلماً امابعد!
قرآن کریم وہ آخری آسمانی کتاب ہے ،جو ربِّ کریم کی طرف سے ہمارے آقاومولیٰ رسول ِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پرانسانوں کی ہدایت کے لیے فصیح وبلیغ عربی زبان میں نازل ہوئی۔جو کہ اللہ کاکلام ہے ،جس کا نزول جناب باری تعالیٰ کی طرف سے روح الامین حضرت جبریل علیہ السلام کے واسطے سے صادق الامین حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم پرہوا ۔پھریہ نزول کا سلسلہ ۲۳؍سال تک جاری رہا ،جس میں اللہ رب العزت نے لمحہ بہ لمحہ تدریجاً انسانوں کی ہدایت کے لیے احکامات وپیغامات نازل فرماتے رہے ۔
قرآن کریم کو تھوڑا تھوڑا اِس لیے نازل کیا گیا، تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورمسلمانوں کے لیے مسلسل طورپرحوصلہ افزائی اور تسکین قلب کا باعث ہو ۔جس کے اولین مخاطب آقاومدنی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اس کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم، پھراس کے بعد قیامت تک آنے والے تمام انسان قرآن کریم کے مخاطب ہیں ۔
قرآن کریم خداتعالیٰ کی عظیم المرتبت کتاب ،علم وحکمت کا سرچشمہ اورایک انقلاب آفریں کتاب ہے، جس نے۲۳؍سالہ قلیل عرصہ میں حیرت انگیز انقلاب برپاکیا ۔یہ قرآن ایسا حق ہے کہ اس کی ہربات مبنی برحقیقت ہے ، اس میں کوئی تضاد نہیں ، نہ کوئی اس کا مثل لاسکتا ہے اور نہ اس میں ذرہ برابرشک کی کوئی گنجائش ہے ۔
قرآن کریم کے نام:
ہرچیزکاایک نام ہوتاہے، جس سے اس کی پہچان ہوتی ہے ۔اس کی ذات کا عِلم ہوتاہے تو قرآن کریم کاذاتی نام کیا ہے؟ اِس بارے میں علماومفسرین نے متعددنام بیان کیے ہیں۔ بل کہ قرآن مجید کی اہمیت کے پیشِ نظر علما نے اسمائے قرآن پرمستقل کتابیں تالیف فرمائیں اوراپنی کتابوں میں کئی کئی نام شمار کیے ہیں۔ اورویسے بھی اسما کی کثرت مسمی کی عظمت ورفعت اورخصوصیت پردلالت کرتی ہے ۔بہرحال اس کتاب مقدس کانام جو عَلم کی حیثیت رکھتا ہے وہ لفظ ’’قرآن‘‘ہے۔
حضرت مولانامفتی محمدتقی صاحب عثمانی’’ علوم القرآن‘‘ میں تحریرفرماتے ہیں :علامہ ابو المعالی نے قرآن کریم کے پچپن نام شمار کیے ہیں اور بعض حضرات نے ان کی تعداد نوّے سے بھی متجاوز بتائی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے قرآن کریم کی صفات مثلاً: مجید ،کریم، حکیم وغیرہ کو نام قرار دے کر تعداد اس حد تک پہنچادی ہے۔ ورنہ صحیح معنی میں قرآن کریم کے کل پانچ ہی نام ہیں:القرآن ،الفرقان ،الذکر ،الکتاب اور التنزیل ۔خود قرآن کریم نے اپنے لیے یہ پانچوں الفاظ اسم علم کے طور پر ذکر فرمائے ہیں ۔ان میں سب سے زیادہ مشہورنام ’’قرآن‘‘ ہے۔ چناںچہ خود اللہ تعالیٰ نے کم از کم اکسٹھ مقامات پر اپنے کلام کو اسی نام سے یاد کیا ہے ۔
قرآن کریم کی اصطلاحی تعریف:
قرآن کریم کی اصطلاحی تعریف اِن الفاظ میں کی گئی ہے: ’’ المنزل علی الرسول المکتوب فی المصاحف المنقول الینانقلًامتواتراًبلاشبہۃ ‘‘اللہ تعالیٰ کاوہ کلام ؛جو محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوا ۔مصاحف میں لکھاگیا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغیر کسی شبہ کے تواتراً ہم تک منقول ہے ۔
تعریف کی مختصرتشریح:
المنزل علی الرسو ل:کامطلب ہے بتدریج نازل کردہ ۔یعنی صرف وہ کلام قرآن یا کلام اللہ ہے،جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پربہ ذریعہ وحی حضرت جبریل علیہ الصلوۃ والسلام کے واسطہ سے نازل ہوا ، نیز ’’المنزل‘‘ کہہ کر اِس بات کی طرف اشارہ کیاہے کہ یہ قرآن نہ کسی فرشتہ کاکلام ہے اورنہ ہی کسی انسان یانبی کا ، بل کہ احکم الحاکمین اللہ رب العزت کا نازل کردہ ہے ۔اللہ رب العزت سورہ شعراء میں ارشادفرماتے ہیں :
{ وَاِنَّہٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ہ نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُہعَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنہ بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنہ وَاِنَّہٗ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ ہ}
المکتوب فی المصاحف:مکتوب کامطلب ہے لکھا ہوا۔ یعنی یہ قرآن کریم لکھاہواہے لوح محفوظ میں بھی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی نزول کے بعد اس کو لکھوالیا کرتے تھے۔ اورپھرحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تو باقاعد ہ اِس کو حفاظ وقراصحابہ کی موجودگی میں کاتبین سے لکھواکرجمع کرلیا جو’’ مصحف عثمانی‘‘ کے نام سے مشہور ہے ۔
المنقول الینانقلامتواترابلاشبہۃ:اس سے مراد یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرات صحابہ نے قرآن کریم سیکھا اوران سے دوسرے صحابہ نے ۔اس طرح آج تک قرآن کریم ایک سے دوسری نسل میں بغیرکسی انقطاع اوربغیرکسی شک وشبہ کے برابرمنتقل ہوتا چلاآرہاہے ۔
قرآن کا تعارف قرآ ن کی زبانی:
قرآن میں کسی قسم کا شبہ نہیں : { المّٓ ہ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ }
اللہ رب العزت نے اپنی کتاب کا تعارف کرتے ہوئے سورۂ بقرہ کی پہلی ہی آیت میں ارشاد فرمایا کہ یہ ایسی کتاب جس میں کسی قسم کا کو ئی شبہ نہیں ۔قرآن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اِس آیت میں یہ بتلادیا کہ یہ کتاب شکوک وشبہات سے پاک ہے۔ اس میں کسی قسم کی کوئی کجی نہیں اور نہ ہی کوئی ایسی بات ہے ،جس میں اس کتاب پر کوئی اعتراض کرسکتا ہے ۔اس لیے کہ یہ اللہ کاکلام ہے اور اللہ کاکلام صحیح اور سچاہی ہوتاہے۔
{ومن اصدق من اللہ حدیثاً}
حضرت مولانا ابوالحسن علی میاں ندویؒ تحریرفرماتے ہیں :قرآن کی اس خصوصیت میں کوئی انسانی کلام اور کوئی انسانی کتاب قرآن کے ساتھ شریک نہیں ہے اورنہ ہوسکتی ہے۔ اس لیے کہ قرآن کاسرچشمہ اورماخذ؛علم الٰہی ہے اور اس کے نزول کا ذریعہ وحی الٰہی ہے ۔یہ سرچشمہ ہرقسم کے عیب ونقصان ،شک واشتباہ ،ظن وتخمین ،تدریج وترقی اور تعارض واختلاف سے پاک ہے ۔اس میں جو کچھ ہے وہ قطعی اوریقینی ہے ،مشاہداورمرئی ہے ،یکساں اور آخری ہے ۔اللہ کا علم تدریجی اور ترقی پذیرنہیں ہے ،اس کا علم اس کی دوسری صفات کی طرح ابدی اوردائمی ہے۔ اس کا علم پورے طور حاوی اورمحیط ہے۔اس کے یہاں غلطی اورنسیان کاگذرنہیں ،خداکی کتاب خداکے علم سے ماخوذہے ،اس لیے وہ اس کی خصوصیات کی حامل اور اس کا مظہرہے۔
(مطالعۂ قرآن کے اصول ومبادی )
قرآن کتابِ ہدایت ہے: { ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ }
ہدایت ہے اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے۔قرآن کریم تمام انسانوں کے لیے رشدوہدایت ہے ، متعددآیات میں اللہ رب العزت نے ہدایتِ عامہ کا ذکرکیاہے، گرچہ مذکورہ آیت میں خاص متقین کا تذکرہ ہے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ قرآن صرف متقیوں کے لیے ہی ہدایت اورباقی انسان خارج از ہدایت ہے، بل کہ تمام کائناتِ عالم کے لیے قرآن کریم سراپارشدو ہدایت ہے ۔
قرآن محکم ومفصل ہے:{ الٓرٰ قف کِتٰب’‘ اُحْکِمَتْ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْرٍ }
یعنی دین کے اصول وکلیات اوراس علم میں، جو انسان کی نجات اخروی اورفلاح دنیوی کے لیے ضروری ہے ،وہ نہایت واضح ومتعین ،غیرمحتمل اورمفصل ہے ۔دین کے علاوہ اوردوسرے علوم وصناعات قرآن کے موضوع سے خارج ہیں ،ضمناًاُن میں سے کوئی چیزآتوسکتی ہے ،لیکن ان کی معلومات وتفصیلات کا ذکرقرآن کامقصد نہیں ۔
قرآن کریم امتیازپیداکرنے والی کتاب ہے : { تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَا } یعنی قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے،جس نے حق وباطل،ہدایت وگمراہی،ایمان وکفر،اسلام وجاہلیت، اللہ کی رضاوناراضگی ،یقین وشک،حلال وحرام اور اچھے وبرے میں امتیازاورفصل پیداکردیا۔ اورسب کے سامنے اُس کو اِس طرح واضح اورروشن کردیا کہ ایک عام آدمی قرآن کریم کوپڑھ کر یاسمجھ کر یااس کو سن کر ان چیزوں کے درمیان فرق کرسکتاہے۔
قرآن کریم معجزہ ہے: { وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ ص وَادْعُوْا شُھَدَآئَ کُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ }
قرآن کریم ایک عظیم معجزہ ہے۔قرآن کریم اپنے معانی ومضامین،فصاحت وبلاغت،الفاظ وتراکیب، جامعیت ،اسلوب بیان ،علوم ومعارف،مذہبی،اخلاقی،معاشرتی اورمدنی تعلیمات واحکام میں معجزہ ہے۔ اورایسا معجزہ ہے کہ اس نے اپنے کلام معجز ہونے پرفصحاوبلغا کو تحدی اورچیلنج پیش کیا ہے ۔
قرآن عربی زبان میں نازل ہوا : { اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ قُرْئٰ نًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ }
قرآن کریم کو اللہ رب العزت نے بہ زبان عربی نازل فرمایا، جو کہ آسمان کی دفتری زبان ہے ۔ لوح محفوظ کی زبان عربی ہے ۔حضرت آدم علیہ السلام کی ،فرشتوں کی ،جنت کی اوراللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ السلام کی زبان عربی ہے اوریہ ایک محبوب،دل چسپ اورشیریں زبان ہے ۔
قرآن کریم اللہ کی محفوظ کتاب ہے:{ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ }
قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے، جس کی حفاظت کا ذمہ خود رب العالمین نے لیا ہے ۔جب کہ دیگر آسمانی کتب؛ تورات،زبوراورانجیل وغیرہ محفوظ نہ رہ سکیں ۔حفاظتِ کتاب اللہ کا یہ وعدہ اللہ رب العالمین کی طرف سے اس کے زمانۂ نزول سے تا قیامِ قیامت؛ ساری انسانیت کے لیے خود ایک ایسا زبردست چیلنج ہے، جس کا مقابلہ آج تک نہ کوئی کرسکااور نہ صبحِ قیامت تک کرسکتاہے ۔حفاظت کایہ وعدہ، اس کی کتابت وتحریر ،قرأت وترتیل اور معانیٔ قرآن ہراعتبارسے ہے ۔
قرآن کریم آسان کتاب ہے:
{ وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ }اللہ رب العز ت نے قرآن کریم کو حفظ کرنے والوں اور اس کے مضامین سے عبرت ونصیحت حاصل کرنے والوں کے لیے آسان کردیا ہے۔
قرآن کا تعارف احادیث کی زبانی:
آقامدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد احادیث میں قرآن کی فضیلت اوراس کی اہمیت وافادیت ،مقام ومرتبہ ،تلاوت پراجروثواب اورترکِ تلاوت پر وعید بیان فرمائی ہے ۔ذیل میں چندایسی روایات واحادیث نقل کی جاتی ہیں، جس سے قرآن کریم کی اہمیت وافادیت ،عظمت ومرتبہ صاف طورپر واضح ہوتی ہے ۔
ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں: ’’ تَرَکْتُ فِیکُم أَمرَین لَن تَضِلُّوا ماتَمَسَّکتُم بِہِماکِتَابُ اللَّہِ وسُنَّۃُ نَبِیِّہِ۔‘‘
یعنی میں تمھارے درمیان دوچیزیں چھوڑے جارہاہوں۔ اگرتم نے اُن کو مضبوطی سے تھامے رکھا توکبھی بھی گمراہ نہ ہو گے ۔ان میں ایک اللہ کی کتاب قرآن ہے اور دوسری اس کے نبی کی سنت ہے ۔
عَنْ ابْنِ مَسْعُوْدٍ یَقُوْلُ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’’ مَنْ قَرَأ حَرْفاً مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ فَلَہ‘ بِہِ حَسَنَۃٌ وَالْحَسَنَۃُ بِعَشْرِ أَمْثَالِہَا لَا اَقُوْلُ اَلَمْ حَرْفٌ وَلٰکِنْ أَلِفْ حَرْفٌ وَلَامْ حَرْفُ وَ مِیْمْ حَرْفٌ‘‘۔(رواہ الترمذی)
فرمایا شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جس نے اللہ کی کتاب سے ایک حرف تلاوت کیا ،تو اس ایک حرف کے بدلہ میں اُس کے لیے ایک نیکی ہے۔ اور ہر نیکی کو (کم از کم) دس گنا کردیا جاتا ہے (پھر فرمایا کہ) میں یہ نہیں کہتا کہ الٓم ایک حرف ہے (بل کہ) الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :’’ اِنََّ ہَذَہِ الْقُلُوبَ تَصْدَأُ کَمَا یَصْدَأُ الْحَدِیْدَاِذَا اَصَابَہُ الْمَائُ قِیْلَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَا جِلاَؤُہَا قَالَ کَثْرَۃُ ذِکْرِ الْمَوْتِ وَتِلاَوَۃُ الْقُرْآنِ ‘‘۔(رواہ البیہقی فی شعب الایمان)
فرمایا فخر کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ بلاشبہ دلوں پراس طرح زنگ آجاتا ہے، جس طرح پانی کے پہنچنے سے لوہے پر زنگ آجاتا ہے۔ عرض کیا گیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! (زنگ دور کرکے) دلوں کے صاف کرنے کی کیا ترکیب ہے؟ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ اس کی ترکیب موت کو کثرت سے یاد کرنا اور قرآن کی تلاوت کرنا ہے۔
عَنْ عاَئِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ،أَنَّ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ قَالَ:’’ قِرَائَ ۃُالْقُرْآنِ فِی الصَّلَاۃِ أَفْضَلُ مِنْ قِرَائَ ۃِالْقُرْآنِ فِی غَیْرِ الصَّلَاۃِ وَقِرَائَ ۃُالْقُرْآنِ فِی غَیْرِالصَّلَاۃِ اَفْضَلُ مِنَ التَّکْبِیْرِ وَالتَّسْبِیْحِ وَالتَّسْبِیْحُ أَفْضَلُ مِنَ الصَّدَقَۃِ وَالصَّدَقَُۃ أَفْضَلُ مِنَ الصَّوْمِ وَالصَّوْمُ جُنَّۃٌ مِنَ النَّارِ ‘‘۔(رواہ البیہقی فی شعب الایمان)
سید الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز میں (کھڑے ہوکر) قرآن پڑھنا نماز کے علاوہ (یعنی نماز کے باہر) پڑھنے سے افضل ہے ۔اور نماز کے علاوہ قرآن پڑھنا سبحان اللہ، اللہ اکبر پڑھنے سے بہتر ہے۔ اور سبحان اللہ پڑھنا صدقہ (کرنے سے) افضل ہے۔ اور صدقہ روزے سے افضل ہے اور روزہ دوزخ سے(بچانے والی)ڈھال ہے۔
یہ چارروایتیں ہیں، گرچہ اِس میں قرآن کریم کی تلاوت پرفضیلت بیان کی گئی۔لیکن اس سے قرآن کریم کا تعارف بھی ہوجاتا ہے کہ اس کو پڑھنے ،عمل کرنے اورسننے پرکیا اجرملے گا اور ترک کا انجام بَخیرہوگایابِخیر ؟
اجزائے قرآن کا مختصرتعارف:
(۱)سورت: قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے متعدد مضامین اوراحکام نازل فرمائے ہیں۔اس لیے اس کو الگ الگ سورتوں میں نازل فرمایا۔ اس طرح قرآن کریم میں کُل ایک سو چودہ سورتیں ہیں اورہرایک سورت اپنے مضامین کے اعتبارسے دوسری سے ممتاز ہوتی ہے اورہرایک کا ایک نام ہوتا ہے، جوکہ توقیفی ہے ۔
(۲)آیت:ہرسورت میں اللہ رب العزت کی طرف سے ایک خاص مقدارمیں حد بندی کی گئی ہے ، اس حدبندی کو آیت کہتے ہیں ۔بعض آیات مختصرتو کچھ متوسط اورکچھ طویل ہوتی ہیں ۔جوآیات ہجرت سے پہلے نازل ہوئیں، وہ مکی اورجو ہجرت کے بعدنازل ہوئیںوہ مدنی کہلاتی ہیں ۔کل آیات ۶۶۶۶؍ہیں۔
(۳)رکوع:لوگوں کی سہولت کے پیش نظرکہ کہاں مضمون ختم ہورہاہے اورکس جگہ سلسلۂ قرأت ختم کرنے میں حرج نہیں ہے،یہ بتانے کے لیے حضرات صحابہ وعلمانے رکوع متعین کیے ۔
(۴)پارے :قرآن کریم میں کل تیس پارے ہیں ،جس کی تقسیم قرائے حجاج بن یوسف نے کی ہے ۔
(۵)اعراب اورنقطے :اہلِ عرب کو چوں کہ اعراب اورنقطوں کی ضرورت نہ تھی اس لیے ابتداء میں قرآن کریم میں اعراب اورنقطے نہیں تھے ۔پھرجب لوگوں کو اِس کی ضرورت محسوس ہوئی تو حجاج بن یوسف کے زمانے میں قرآن کریم پراعراب اور نقطے لگائے گئے ۔
(۶ )سب سے پہلی آیت : جمہورعلماکے نزدیک قرآن کریم کی سب سے پہلے نازل ہونے والی وحی سورہ علق کی ابتدائی آیت ہے ۔
(۷)سب سے آخری آیت:اورسب سے آخری آیت{ واتَّقُوایَومًاتُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللّہِ،ثُمَّ تُوَفَّی کُلُّ نَفسٍ مَّاکَسَبَت وَہُم لَایُظلَمُون }ہے
(۸)کل حروف کی تعداد :۳۴۴۴۱۳ ؍کل ۷؍منزلیںاور۱۴؍ سجدے ہیں۔
مضامین قرآن : بنیادی طورپرقرآن کریم کے پانچ مضامین ہیں:( ۱)احکام (۲)عقائد (۳) نعمت خداوندی سے تذکیر(۴)قصص وواقعات سے تذکیر(۵)عالم آخرت کے ذریعہ تذکیر
قرآن کریم کا موضوع اور اس کی دعوت : قرآن کریم کا موضوع انسان ہے ۔اس کی دعوت یہ ہے کہ انسان اپنے خالق ومالک کے پسندیدہ اورمقررکردہ دین اسلام کو قبول کرے اوراس کے احکام کی اطاعت کرے اورہرمعاملے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت واتباع اورپیروی کرے اورآخرت میں سرخ روہونے کے لیے ایمان اورعملِ صالح اختیارکرے ۔
اکابرین علماکی کتابوںسے خوشہ چینی کرکے قرآن کریم کے تعارف پریہ چندسطریں زیرِ قلم لائی گئیں، جس میںچندآیات اورچنداحادیث ہیں۔ورنہ کتاب وسنت میںقرآن کریم کے تعارف پرمزیدآیات واحادیث دال ہیں۔
اللہ رب العزت ہمیںقرآن کریم کوسمجھنے اوراُس پرعمل کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔آمین!
٭الاتقان فی علوم القرآن :علامہ جلال الدین سیوطیؔ ٭علوم القرآن :مفتی محمدتقی عثمانی مدظلہ العالی ٭مطالعۂ قرآن کے اصول ومبادی : مولاناابوالحسن علی میاں ندویؔ ٭اعجازِ قرآن کے حیرت انگیز نمونے :مولاناسید ومیض احمد ندوی ؔ٭قرآن کی عددی معلومات :مولانا حسن احمد صدیقی ؔ٭قرآن سے ایک انٹرویو:محمدرفیق چودھری صاحب