اساس القرآن سورہ ٔفاتحہ

بسم اللہ الرحمن الر حیم

مولانا شاہد جمال صاحب /استاذ جامعہ اکل کوا

                قال اللّٰہ تعالیٰ فی کلامہ المجید: {وَلَقَدْ اٰتَیْنٰکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ }

                یہ سورت مکی ہے، اِس میں سات آیتیں اور ایک رکوع ہے ۔ ترتیب قرآنی کے لحاظ سے یہ قرآن کی اولین سورت ہے ، جو مکمل طور پر نازل ہوئی ۔ مگر ترتیبِ نزول کے حساب سے یہ قرآن کی پانچویں سورت ہے ۔ چوں کہ یہ قرآن کی سب سے پہلی سورت ہے اور اسی سے قرآن کریم شروع ہوتا اورقرآن کا افتتاح ہوتا ہے اس لیے اِسے ’’ فاتحۃ الکتاب ‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ سورت ہر نماز میں پڑھی اور دہرائی جاتی ہے اسی لیے اسے ’’سبع المثانی‘‘ بھی کہتے ہیں ۔ نیز اس سورت کو ’’ ام القرآن ‘‘ بھی کہتے ہیں ، کیوں کہ یہ ایک ایسی سورت ہے ،جس میں مطالب قرآنی کی جامعیت اورمرکزیت ہے اور اس سورت کا ایک نام ’’ اساس القرآن ‘‘ بھی ہے۔ یعنی قرآن کی بنیاد اور پورے قرآن مجید کا خلاصہ اور تمام مقاصد ومفاہیم کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے ، گویا کہ سورۂ فاتحہ قرآن کی اساس و بنیاد ہے ۔ نیز احادیث شریفہ میں اس سورت کے اور بھی کئی نام مذکور ہیں ۔

فضیلت : سورۂ فاتحہ وہ سورت ہے ،جس کے بغیر نماز نہیں پڑھی جاسکتی ۔یہ ہر مرض اور ہر قسم کے درد کی دوا و شفا اور ہر حاجت کے لیے مشکل کشا ہے ۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کو اس سورت کی تلقین کی اور فرمایا اس جیسی کوئی سورت نہیں ۔ ایک جگہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ قسم ہے اس ذات کی؛ جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ سورۂ فاتحہ کی نظیر نہ تورات میں نازل ہوئی ، نہ انجیل میں نہ زبور میں اور نہ قرآن کریم میں کوئی دوسری سورت اِس کے مثل ہے ۔

سورۂ فاتحہ کو مثانی کہنے کی وجہ :

                سورۂ فاتحہ کو ’’ مثانی ‘‘ کیوں کہا گیا ؟اس کے مختلف اسباب ہیں ۔ ہم ان میں سے چند کا ذکر کرتے ہیں :   ۱- یہ سورت ہر نماز میں باربار پڑھی جاتی ہے اور ہر نماز کی ہررکعت میں دہرائی جاتی ہے ۔

                ۲- آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مثانی کا اشارہ سورۂ فاتحہ کی طرف کیا ہے ۔

                ۳-خود اللہ تعالیٰ نے اس مختصر سورت کو قرآن عظیم سے تعبیر کیا ہے ۔

                 شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ احسان شمار کراتے ہیں کہ آپ کو سورۂ فاتحہ عطا کی گئی ،جو کہ باربار دہرائی جاتی ہے ،جس میں سات آیتیں ہیں۔ اور در حقیقت یہی بڑا قرآن ہے یعنی سورۂ فاتحہ کو قرآن عظیم کہاگیا ہے ۔

                ۴- سورۂ فاتحہ دو حصوں میں تقسیم کی گئی ہے ۔ایک حصہ معبود یعنی اللہ جل شانہ کا ہے اور دوسرا حصہ عبد یعنی بندے کا ہے ۔ اس سلسلے میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے کہ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے کہ میں نے سورہ فاتحہ کو آدھا آدھا تقسیم کردیا ہے ۔ ابتد ا کی تین آیتیں میرے لیے ہیں اور بعد کی چار آیتیں بندے کے لیے ہیں ۔

                ۵- حضرت حسین بن فضیل رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ سورۂ فاتحہ کو’’ مثانی‘‘ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کا نزول دو مرتبہ ہوا ۔ ایک مرتبہ مکہ معظمہ میں اور دوسری مرتبہ مدینہ منورہ میں ۔ ہر مرتبہ نزول اس شان سے ہوا کہ ستر ہزار فرشتے اس کے جلو میں تھے۔ 

                ۶-حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ سورۂ فاتحہ کو’’ مثانی‘‘ اس لیے کہتے ہیں کہ یہ ایک ایسی مستثنیٰ سورت ہے جو صرف اسی امت کو عطا ہوئی اور کسی امت کو عطا نہیں ہوئی ۔

اساس القرآن کہنے کی وجہ :

                سورۂ فاتحہ میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی گئی ہے ۔ پھر صرف اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کا اقراراور اسی بات کا اظہار ہے کہ ہم اس کے سوا کسی کو اپنا حاجت روا نہیں سمجھتے ۔ یہ گویا ایک حلف وو فاداری ہے، جو انسان اپنے رب کے ساتھ کرتا ہے ۔اس کے بعد ایک اہم دعا ہے جو تمام انسانی مقاصد اورضروریات پر حاوی ہے اور اس میں بے شمار فوائد ہیں ۔اور دعا بھی ایسی جامع دعا اختیار کرنے کی تعلیم دی گئی ہے، جس میں اختصار کے ساتھ انسان کے تمام مقاصد داخل ہوں۔ جیسے ہدایتِ صراط مستقیم کہ دنیا و دین کے ہرکام میں اگر انسان کا راستہ سیدھا ہوجائے تو کہیں ٹھوکر لگنے اورنقصان پہنچنے کا کوئی خطرہ نہیں رہتا ، غرض اس جگہ خود حق تعالیٰ کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرنے کا اصل مقصد حضرت انسان کو تعلیم دینامقصود ہے ۔

                بہر حال جب اِس پہلو پر غور کیا جائے تو سورۂ فاتحہ کا پیرایہ دعائیہ ہے ۔ نیز اسے روزانہ عبادت کا ایک لازمی جز قرار دیا گیا ہے ۔تو اس کی خصوصیت اورزیادہ نمایاں ہوجاتی ہے ۔ اور یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس اجمال میں بہت بڑی مصلحت پوشیدہ تھی ، مقصود یہ تھا کہ قرآن کے مفصل بیانات کا ایک مختصر اور سیدھا سادا خلاصہ بھی ہو۔ جسے ہر انسان بہ آسانی ذہن نشیں کرلے اور پھر ہمیشہ کے لیے اپنی دعاؤں اورعبادتوں میں دہر اتار ہے ، تاکہ یہی اس کی زندگی کا دستور العمل ،خدا ترسی کے عقائد کا خلاصہ اورروحانی تصورات کا نصب العین ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اس سورت کا ذکر کرتے ہوئے’’ سبعا من المثانی ‘‘ کہہ کر اِس کی خصوصیت کی طرف اشارہ کردیا ، یعنی ہمیشہ دہرائے جانے اور ورد رکھنے ہی میں اس کے نزول کی حکمت مضمر وپوشیدہ ہے۔

سورۂ فاتحہ کا ماحصل :

                دین حق کا تمام تر ماحصل یہ ہے کہ ہم اس سورت میں جس قدر غور وخوض کریںگے اس کے رموز آشکارا ہوتے جائیںگے ۔ ہم ان میں سے چند باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ کس طرح اس کے ہر ہر لفظ سے بندے کے حق میں کوئی نہ کوئی مقصد واضح ہوگیا ہے اورکس طرح اس کے الفاظ نہایت اہم معانی ودقائق اجاگر کررہے ہیں ۔

                ۱}…خداکے تصور کے بارے میں انسان کی ایک بڑی غلطی غالباً یہ رہی ہے کہ اس کے تصور کو محبت کی جگہ خوف و دہشت کی چیز بنالیتا تھا ۔ سورۂ فاتحہ کے سب سے پہلے لفظ نے اس گمراہی کا ازالہ کردیا ۔ اسی لیے اس کی حمد کے اعتراف سے ہوتی ہے ۔

                حمد :ثنائے جمیل کو کہتے ہیں یعنی اچھی صفتوں کی تعریف کرنا ۔ ثنا اسی کی کی جاسکتی ہے، جس میں  کوئی خوبی وجمال ذاتی ہو ۔ لہٰذا جو ذات محمود ہوگی وہ جمیل ہوگی، پھر حمد کے بعد خدا کی عالمگیر ربوبیت ، رحمت وعدالت کا ذکر ہے اور اس طرح صفات الٰہی کی ایک ایسی مکمل شبیہ کھینچ دی ہے جو انسان کو وہ سب کچھ دیتی ہے جس چیز کی انسانیت کو نشو و نما اور ارتقا کے لیے ضرورت ہے ۔اور ان تمام گمراہیوں سے محفوظ کردیتی ہے جو اس راہ میں اسے پیش آسکتی ہیں۔

                ۲}…رب العٰلمین :  میں خدا کی عالمگیر ربوبیت کا اعتراف ہے جو ہر فرد ،ہر جماعت ، ہر قوم ، ہرملک اور ہر گوشۂ وجود کے لیے ہے اور اس لیے یہ اعتراف ان تمام تنگ نظریوں کا خاتمہ کردیتا ہے جو دنیا کی مختلف قوموں اور نسلوں میں پیدا ہوگئی تھیں۔ اور ہر قوم اپنی جگہ سمجھنے لگی تھی کہ خدائی برکتیں اور سعادتیں صرف اسی کے لیے ہیں کسی دوسری قوم کا اِس میں کوئی حصہ نہیں ۔ لہٰذا ان کے خیالات باطلہ کا بطلان باطل کر دیا گیا اور یہ واضح کردیا گیا کہ خدا کی برکتیں ،رحمتیں اور سعادتیں بلا تخصیص ہر فرد ِ بشرکے لیے ہیں ۔

                ۳}…مٰلک یوم الدین:میں’’الدین‘‘ کالفظ جزاکے قانون کااعتراف ہے۔اورجزاکودین کے لفظ سے تعبیرکرکے یہ حقیقت واضح کردی ہے کہ جزاانسانی اعمال کے قدرتی نتائج وخواص ہیں۔یہ بات نہیںہے کہ خداکاغضب وانتقام بندوںکوعذاب دیناچاہتاہو۔کیوںکہ ’’الدین‘‘ کے معنی بدلہ ومکافات ہیں۔

                رحمت وربوبیت کے بعداِس آیت نے یہ حقیقت آشکاراکردی ہے کہ اگررب العالمین کی ذات کائنات میں صفاتِ رحمت وجمال کے ساتھ قہروجلال بھی اپنی نمودرکھتی ہے ،تویہ اس لیے نہیںکہ پروردگارعالم میںغضب وانتقام کی صفت ہے ۔بل کہ اس لیے ہے کہ وہ عادل ہے اوراس کی عدل وحکمت نے ہرچیزکے لیے اس کاایک خاصہ اورنتیجہ مقررکردیاہے ۔معلوم ہونا چاہیے کہ عدل منافیٔ رحمت نہیںہے ،بل کہ وہ توعین رحمت ہے ۔

                ۴}… عبادت کے لیے نہیںکہا’’نعبدک‘‘بل کہ کہا’’ایاک نعبد‘‘یعنی یہ نہیںکہاکہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں،بل کہ حصرکے ساتھ کہاکہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔اوراس کے بعد’’ایاک نستعین‘‘کہہ کراستعانت کابھی اُسی حصرکے ساتھ ذکرکردیا۔اِس اسلوب بیان نے توحیدکے تمام مقاصدپورے کردیے اور شرک کی ساری راہیں اِس طرح بندہوگئیںکہ چوردروازہ بھی کھلنے کاامکان باقی نہ رہا۔

                ۵}…سعادت وفلاح کی راہ کو’’صراط المستقیم‘‘یعنی سیدھی راہ سے تعبیرکیا۔جس سے زیادہ بہتراورقدرتی تعبیرنہیںہوسکتی۔قرآن کریم نے جس دعاکوہرشخص کے لیے ،ہرکام کے لیے اورہرحال میںانتخاب فرمایاوہ ’’صراط مستقیم‘‘ کی ہدایت ملنے کی دعاہے ۔

                لہٰذاجس طرح آخرت کی کام یابی اُس صراط مستقیم پرموقوف ہے ،جوانسان کوجنت کی طرف لے جائے ،تواسی طرح دنیاکے سارے کاموںمیں بھی غورکیاجائے توکام یابی کا مدارصراط مستقیم ہی ہے ۔اس لیے جہاںکہیںانسان اپنے مقصدمیںکام یاب نہیںہوتاتوغورکرنے سے معلوم ہوجائے گاکہ کسی مرحلے میںاُس نے غلطی کی ہے ،جس بناپرصحیح رائے اورصحیح راستہ ہاتھ سے چھوٹ گیاتھا۔

                ۶}…پھراس کے لیے ایک ایسی سیدھی سادی اورجانی بوجھی شناخت بتادی،جس کااذعان قدرتی طورپرہرانسان کے اندرموجودہے ۔جومحض ذہنی تعریف ہونے کی جگہ ایک موجودومشہورحقیقت نمایاںکردیتی ہے ۔یعنی وہ راہ ؛جوانعام یافتہ لوگوںکی راہ ہے ۔چاہے کوئی ملک،کوئی قوم،کوئی زمانہ یاکوئی فردہو،لیکن انسان ہمیشہ دیکھتا ہے کہ زندگی کی دوراہیںہیں۔ایک کام یاب انسانوںکی راہ اورایک ناکام یاب انسانوںکی راہ ۔اس لیے دعامیں انتخاب ہدایت یافتہ لوگوںکی راہ کے کرنے کی تعلیم دی گئی ۔اوراہل خسران واہل ضلال کی راہ سے پناہ مانگنے اور بچنے کی تاکیدکی گئی۔

قرآن کاچیلنج:

                قرآن حکیم دنیاکوچیلنج پیش کررہاہے کہ اگروہ واقعی امن وشانتی اورفلاح وبہبودکاخواہاںہے ،تووہ اِس دستورِ اساسی کواپنائے ۔جس کی بنیادعدل وانصاف،رحمت ومروت اوراخلاق وتربیت پررکھی گئی ہے ۔مگرافسوس! آج دنیاکے سامنے قرآن حکیم کے اس چیلنچ کوکون پیش کرے؟جب کہ خودحاملین قرآن اس کے مفہوم ومنشااوراس کے تقاضے سے غافل ہیں،خوداپنے خزانے میںجوقیمتی جواہر موجودہیں،ان سے بے خبردنیاکے مصنوعی جواہرکی قدرافزائی میںرات دن مصروف ہیں۔کیاخوداپنے اوپراِس سے بڑھ کر کوئی اورظلم ہوسکتاہے؟

                شیخ الاسلام حضرت مولاناحسین احمدمدنیؒ فرماتے ہیںکہ: اسلامی تعلیمات کایہ تقدس کس قدردل رباہے کہ وصول الی اللہ اورخدارسیدہ ہونے کے لیے اللہ رب العزت خودایساراستہ بتلارہاہے،جورحمت وشفقت اورمحبت وعظمت کی وادیوںسے گذرتاہے ۔

                حضرت شیخ آگے فرماتے ہیںکہ وصول الی اللہ کے دوشعبے ہیں۔ایک معاملہ مخلوق بالمخلوق ؛جن کی طرف ’’مٰلک یوم الدین‘‘سے اشارہ کیاگیاہے ۔کہ ہرانسان کافرض ہے کہ جب وہ کوئی دوسرے انسان سے معاملہ کرے تویہ حقیقت اُس کے پیش نظررہے کہ میرایہ معاملہ اس کی بارگاہ میںپیش ہو گا، جو ’’مٰلک یوم الدین‘‘ہے ۔جس نے رب العالمین اورارحم الراحمین کے اوصاف سے اپناتعارف کراکرمجھ پرلازم کردیاہے کہ میںجومعاملہ بھی اس کی مخلوق کے ساتھ کروںتواس میںجذبۂ رحمت وجذبۂ ربوبیت کالحاظ کرے اوراس میںاپنی کوئی غرض شامل نہ ہو۔بل کہ دوسرے کی پرورش پیش نظر ہو،اورنفع اندوزی نہیں،بل کہ نفع بخشی کاجذبہ کارفرماہو۔بے شک جب مخلوق کے ساتھ معاملہ کرنے میںیہ جذبہ کارفرماہوگاتویہ جذبہ اُس مالک تک رسائی پیدا کردے گاجوسراپارحم ہے ۔جس کی صفت ’’الرحمن الرحیم‘‘ اوروہ رب العالمین ہے ۔ رحمت وشفقت اورمحبت کازادِ راہ یہاںسے حاصل کرو۔اوراب بارگاہ رب العزت میںحاضرہوکراپنی نیازمندی ،فروتنی اوراپنی عبودیت وبندگی کانذرانہ عشق ومحبت کے سوزوگدازکے ساتھ پیش کرویہ وصول الی اللہ ہے ۔

                ’’اہدناالصراط المستقیم‘‘یہ دعائیہ کلمہ عرش کے خزانوںمیںسے ایک خزانہ ہے ۔ظاہرہے کہ اس توفیقِ خداوندی اوراس تائیدِ رحمانی سے بڑھ کرکون ساخزانہ ہوسکتاہے ؟یہی وہ صراط مستقیم ہے،جواس عظیم الشان خزانہ کامخزن عرش رحمن ہے،جس صراط مستقیم کی رہ نمائی اللہ عزوجل کے سواکوئی نہیںکرسکتا۔

                یہ توفیق ورہ نمائی ہمیںمیسرآجائے،تویہ وہ انعام عظیم ہے،جس کے سامنے دنیاومافیہاکی کوئی حقیقت نہیں۔ یہی ہے خوش نصیبی،یہی ہے بلندبختی اوریہی ہے فلاح عظیم ؛ جس کی آرزواورتمنارہنی چاہیے ۔

خلاصۂ تحریر:

                چوںکہ سورہ فاتحہ پورے قرآن مجیدکاخلاصہ اورلب لباب ہے ،اس لیے قرآن مجیدسے ہدایت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اس سورت کی تعلیمات پرغوراوراس پرعمل پیراہونے کی کوشش کی جائے ۔اگر ہم اس سورت کی تعلیمات پرعمل درآمدکرنے میںکام یاب ہوتے ہیںتوقرآن سے ہدایت حاصل کرنے کادروازہ خودبہ خودہم پرکھل جاتاہے ۔اِس کے برعکس اگرہم اس کی پہلی ہی منزل میںناکام یاب ہوجاتے ہیںتووہ دروازہ ہرگزکھلنے والانہیںہے ۔جس طرح کئی منزلہ عمارت پرپہنچنے کے لیے پہلے ابتدائی زینوںکوطے کیاجاتاہے ،تب جا کرہم صحت وسلامتی کے ساتھ اپنی منزل مقصودتک پہنچ سکتے ہیں۔بالکل اسی طرح سورہ فاتحہ کی افہام وتفہیم کے بغیر قرآن کوسمجھنے سے قاصررہیںگے۔

                سورہ فاتحہ میںسات چھوٹے چھوٹے فقروںمیںاسلام کے پورے نظام کاخلاصہ اِس طرح آگیاہے کہ ہرہرلفظ اسلامی تصورات کی ایک دل آویزتصویربن گیاہے ۔ساتھ ہی ساتھ اللہ کے اُن نیک بندوںکی سرگزشت بھی سامنے آجاتی ہے،جنھوںنے قوانینِ الٰہیہ پرعمل پیراہوکراپنے آپ کوانعام واکرام اوررضائے الٰہی کامستحق بنایا۔ ان کے پہلو بہ پہلو انسانوں کا عبرت انگیز انجام بھی نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے ،جنہوں نے اپنی نافرمانی اور بد کرداری سے اپنے آپ کو غضب الٰہی کا مستحق بنایا اورضلالت وگمراہی کے بیابان میںٹھوکریں کھاتے رہے ۔

                اللّٰہم اجعلنا من الذین انعمت علیہم من النبیین والصدیقین والشہداء والصالحین ۔ آمین یارب العالمین!