بقلم: محمد ناظم ملی تونڈا پوری/استاذجامعہ اکل کوا
{ولقد یسرنا القرآن للذکر فہل من مدکر}
لاریب قرآن کریم عطیات خداوندی میں سے ایک نعمت غیر مترقبہ ہے، جو نہ صرف کتاب ہدایت، بل کہ لوح محفوظ سے نازل کردہ ایک دستور حیات ہے ۔جو انسانی حیات مستعار کے لیے فوز و فلاح کا ضامن بھی ہے ۔ یہ وہ فرمان شہنشاہی ہے، جو حضور ساقی کوثر صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جبرئیل جیسے قوی وامین فرشتے کے ذریعے بھیجا ہوا اور روح القدس کی وساطت سے بھیجے ہوئے اِس کلام ربانی میں کونین کی سعادتیں مضمر ہیں ۔ جس کے متعلق ارشاد ہے : {تنزیل من رب العٰلمین }اور {نزل بہ الروح الامین }اور {انہ لقول رسول کریم ذی قوۃ عند ذی العرش مکین مطاع ثم امین } جبرئیل علیہ السلام کایہ ذریعہ اور واسطہ انتہائی مضبوط، راسخ اور امین بھی ہے ۔ پھر اس فرمان شہنشاہی کی شان ہی یہ ہے کہ {ہدی للناس وبینٰت من الہدیٰ والفرقان }اور{ تنزیل من حکیم علیم } خدائی بادہ خواروں کے لیے ایک ایسا جام شیریں، لذیذ ،پاکیزہ ، ایسا لطف آگیں، ایسا جاں فزا اور نشاط افزا کہ آدمی پیتا جائے اور دل ہے کہ سیراب نہ ہو ۔ تالی تلاوت کرے اور جی نہ بھرے ، قاری قرأت کرے اور دل ہے کہ چاہتا رہے ۔ ہر آن ہر لمحہ اور ہر بار پڑھنے پر ایک نئی لذت ایک نیا لطف ایک نئی مبارک فضا تالی کو میسر آئے ۔
توفیق دے عمل کی؛ پڑھوں روزوشب اسے روشن ہو کاش دل میرا تیری کتاب سے
یہ حقیقت ہے کہ قرآن کا جمال و کمال اس کے نزول کے زمانہ سے لے کر آج تک فضاؤں میں خوش بو بکھیرتا اور دنیا جہاں کا مشام جاں معطر کرتا آرہا ہے ۔ اس نے ہر زمانہ میں جہالت کی ماری ،خزاں رسیدہ وپژ مردہ انسانیت کو تازگی و رعنائی بخشی اور وہ ایک نسخۂ کیمیا اور شفائے کامل ثابت ہوا اور اس نے ہر عہد میں یاس ونا امیدی کے عالم میں بھی امیدوں اور کامیابیوں کے دیے روشن کیے ۔ مژدہ جاںفزا سنایا اور نشاط انگیز سامان فراہم کیا ۔ دم توڑتی اور سسکتی ہوئی انسانیت کے لیے زندگی کا ضامن بنا ۔ سوختہ اور حاں بلب انسانیت کو اس نے ہر زمانہ میں جلا بخشی ۔ حیوانیت پسند رَوِشوں کے دلدادہ انسانوں کو انسانیت کے اعلیٰ اقدار کا ایسا روح پرور اورنشاط افزا پیغام دیا، جس سے ساری انسانیت مہک اٹھی ۔ جورو جفا اور ظلم وجبر کے شکنجہ میں پھنسے ہوئے انسانوں کو اس نے آزادی وخلاصی کی راہیں سجھائیں اور گم کردہ رہ انسانیت کو سالارِ قافلہ اور میر کارواں بناکر ان کے ہاتھوں میں ہدایت کی مشعلیں تھمادی ۔ شبِ دِیجُور کی تاریکی میں اس نے عرفان و آگہی کی ایسی شمعیں روشن کیں کہ انسانیت مجد و کرامت کا راستہ پاگئی ۔
اس کی خوش بوؤں کے تازہ اور نو خیز جھونکوں نے اپنے خالق ومالک سے وفا نا آشنا اذہان میں بھی وفاداری وجانثاری کی خلش پیدا کی اور بنجر زمین میں اعتقاد ویقین کی ایسی تخم ریزی کی ،جس نے نہ صرف احتسابِ نفس ؛بل کہ احتسابِ کائنات کے ہنر سکھلا دئیے ۔ اوربقول اکبر الٰہ آبادی
در فشانی نے تیری قطروں کو دریا کردیا
دل کو روشن کردیا ، آنکھوں کو بینا کردیا
خودنہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا
مگر افسوس کہ عقل سے پیدل اوروجدان وشعور سے عاری جہول وظلوم ایک گروہ یہ کہتے نہیں شرماتا کہ قرآن Out Of Date ہے ۔ فرسودہ ہے،بل کہ ازکارِ رفتہ ہے ۔ اس میں دقیانوسیت ہے، مگر یہ صرف وہی لوگ کہتے ہیں جن کا کشکولِ عقل خالی ہے ۔ ورنہ تو ہر زمانہ اور عہد میں اہل علم اور فضل وکمال والوں نے قرآن پاک کی پذیرائی کی ہیں ۔ اور آج تک ماہرینِ علم اس کی ثنا خوانی اور تعریف وتوصیف میں رطب اللسان ہیں اور کیوں نہ ہو کہ آج بھی قرآن پاک اپنی تاثیر اور سحر آفرینی سے دلوں میں انقلاب پیدا کررہا ہے ۔ سننے والوں کے قلوب میں ایک خلش اور چبھن پیدا کرکے اپنے پالن ہار کی بارگاہ میںاُن کو پہنچا رہا ہے ۔بہ حیثیت ایک مسلمان ہونے کے قرآن پاک کے متعلق فرسودہ ہونے کا گمان رکھنا یقینا اسلام وایمان کے منافی ہے ۔
ع گرتو می خواہی مسلمان زیستن نیست ممکن جزبہ قرآں زیستن
اس طرح قرآن پاک کے متعلق بد عقیدگی کا اظہار تو نصاریٰ خاسرہ اور یہود بے بہبود نے بھی نہیں کیا ۔ اور نہ کسی دوسری قوم کے باشعور افراد ایسا خیال رکھتے ہیں ۔ بل کہ غیر مسلم باشعور اور زعما وعقلا بارہا یہ کہتے آئے ہیں اور کہہ رہے ہیںکہ قرآن پاک ہی و ہ کلام الٰہی ہے جو اپنے جلو میں دنیا جہاں کی تمام تر تابانیاں ورعنائیاں اور قیامت تک پیش آمدہ مسائل کا حلشانتتا پرن ( مکمل اطمینان کے ساتھ)طریقہ پر رکھتا ہے ۔ اور اسی کلام الٰہی اور تعلیمات قرآنیہ سے ایک صالح اور منزہ معاشرہ وجو دمیں آسکتا ہے ۔ اگر شعور زندہ ہو اور بالید گی میسر ہو تو محسوس کیا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم کا ہر حکم ، اس کا ہر لفظ اور ہر سورت اخلاق کا ایک خوب صورت تاج محل تعمیر کرتا ہوا نظر آئے گا۔ جس کے ضمن میں انسانیت کی تعمیر ہو تی ہوئی دکھائی دے گی ۔ قرآن پڑھتے جائیے {قد افلح المومنون الذین ہم ……}اور دیکھئے {ان اللہ یأمر بالعدل والاحسان وایتائی ذی القربٰی وینہٰی عن الفحشاء والمنکر } اور دیکھئے {ان الصلوۃ تنہٰی عن الفحشاء والمنکر} اور {کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون } ایک جگہ اور فرمایا{ ولا تقربوا الزنا انہ کان فاحشۃ وسائسبیلاً{ اور فرمایا {ولا تقربوا مال الیتیم} اور دیکھئے{ الزانیۃ والزانی فاجلدوا کل واحد منہما مأۃ جلدۃ } اور دیکھئے{ السارق والسارقۃ فاقطعوا ایدہما} دیکھئے معاشرہ کیسے تعمیر ہورہا ہے اور معاشرتی زندگی کے لیے کیسی منزہ اور پاکیزہ فضا قام کی جارہی ہے ؟اور پڑھئے اورپڑھتے جائیے {ولاتمش فی الارض مرحا } اورپڑھئے {ولا تبذر تبذیرا}{ اقرأ باسم ربک الذی خلق خلق الانسان من علق اقرأ وربک الاکرم الذی علم بالقلم }اور{ ولا تجعل مع اللہ الٰہاً آخر} اور{ لا تجعل یدک مغلولۃ الی عنقک ولا تبسطہا کل البسط } اور پورا کلام انہیں جیسی خوش بوؤں سے معمور ہے۔ انہیں جیسی روشن ہدایت اور خطوط سے بھرا پڑا ہے ۔ جس میں عبادات ، اخلاقیات ، معاملات اور معاشرت اور وہ سب کچھ ہیں جو ایک کامیاب ترین زندگی کے لیے خصوصیت کی حامل ہیں ۔ یہ زندہ حقائق اور خصوصی عناصرہیں ،جو اپنے نزول کے زمانہ سے لے کر آج تک انسانوں کو انسانیت کا جام پلااور آدمیت کا سبق سکھارہے ہیں ۔ یہ اس زمانہ میں بھی اپنی اثر پذیری اور سحر آفرینی سے قلوب کو مسخر کررہا تھا، جب انسان بداخلاقی اور شرک وبت پرستی کی پرخار وادیوں میں ٹھوکر یں کھارہا تھا، جس کو زمانہ جاہلیت سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
یہی وہ کلام الٰہی ہے، جس نے مردہ دلوں میں روح پھونکی ۔اور غریبوں ، قلاشوں ، محتاجوں اور بے سہارا، ا پاہجوں کے لیے راتوں کو گشت لگانے کا حوصلہ دیا۔ خود بھوکا رہ کر اور وںکا پیٹ بھرنے اپنے آپ کو محروم کرکے دوسروں کی دنیا سنوارنے کے جذبات ابھارے ۔ اور آج بھی اگر انسانیت کا کنول تازہ وشاداب ہوگا تو اِسی قرآن پاک کی تعلیمات سے ہوگا ۔ ؎
زمانہ آج بھی قرآن ہی سے فیض پائے گا مٹے کی ظلمت شب اور سورج جگمگائے گا
ایک کمبل پوش کی کرشمہ سازی :
غار حرا کی تنہائیوں میں نبی کے قلب صادق پر اترنے والے اس اعجازی کلام نے اپنے ماننے والوں کی صرف ۲۳؍سال کے قلیل عرصہ میں کایا پلٹ دی ۔ گو کہ اس کمبل پوش پیغمبر نے غار حرا میں چند راتیںہی گزاریں، مگر ایک پوری قوم پیدا کردی ایک آئین دیا ؎
در شبشتان حراء خلوت گزیر
قوم وآئین وحکومت آفرید
ماند شبہا چشم او محرومِ نوم
تابہ تحت خسروی خوابیدہ قوم
یقینا اس پیغمبر کی چند راتیں نیند سے محروم رہی، مگر اس کی قوم تخت خسروی پر سونے کے لائق بن گئی ۔ یہ قرآن تھا ، قرآنی تعلیمات تھی، اسی کی برکت تھی کہ ایک صالح انقلاب دنیا میں رونما ہوگیا ۔ایسا انقلاب جس نے عرب کے خانہ بدوش بدوؤں کو احقاقِ حق وابطال باطل اور تبلیغ دین حنیف کے لیے قیصرو کسریٰ کے درباروں تک پہنچادیا وہ اٹھے اور اس حوصلہ سے اٹھے کہ دنیا کی ہر بڑی سے بڑی طاقت کو انہوں نے روند ڈالا ع
یہ اسی کا تھا کرشمہ کہ عرب کے بدو کھیلنے جاتے تھے شاہ کسریٰ میں شکار
دنیا میں مسلمانوں کے عروج وزوال کی داستانیں اسلام کی باگ ہاتھ سے چھوڑنے ، اس کو مضبوطی سے پکڑنے، دوسرے لفظوں میں قرآنی تعلیمات کو اختیار کرنے اور پس پشت ڈالنے پر ہی محمول اور منحصر ہے ۔ بعض لوگوں کو اب تک یہ باطل خیال دامن گیر ہے کہ زر زمین ، دولت و حکومت ، ثروت وسلطنت ہوںگی تو مسلمانوں کے حالات بد لیںگے، مگریہ حقیقت نہیں ہے ۔اہالیانِ اسلام ہمیشہ اپنے مذہب سے وفاداری کرکے ہی عروج پاتے رہے اور ان کے ایمان کی زبوں حالی ہی ان کے زوال وپھٹکار کا سبب بنی ہے ۔ ورنہ سلطنت و حکومت اور زر زمین جیسی عارضی چیزوں پر انحصار ہوتا تو آج دنیا کا نقشہ بتلاتا ہے کہ مسلمانوں کی بڑی بڑی سلطنتیں اپنے بڑے بڑے رقبوں اور فوجی عسکریت کے ساتھ قائم ہیں ۔ بلا سے ان کے پاس دولت و ثروت اورممالک سے اعلیٰ وبالا ہیں۔ معدنیات بالخصوص تیل جیسی دولت جو نہ صرف دولت؛ بل کہ موجودہ دور کا سب سے بڑا ہتھیار ہے، جیسے ذخائر ان کے پاس موجود ہیں ، لیکن آج ان ممالک کا کیا حال ہے ؟ قلم کو یارا نہیں کہ وہ اس کو بتلاسکیں ۔ مگرکیا وہ ممالک سوچ کی پستیوں سے باہر آگئے ؟ کیا ذلتوں ، نکبتوں اور رسوائیوں نے ان کا تعاقب (پیچھا ) چھوڑ دیا ؟ یقینا آج مسلمانوں کی ذلت خواری اور رسوائی وجگ ہنسائی کے پیچھے خدائی ناراضگی کا دست غیب کا رفرما اور قرآن پاک سے انحراف کا نتیجہ ہے ۔ بقول اقبال ؒ ؎
سبب کچھ اور ہے جس کو تو سمجھتا ہے زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں
مشکوٰۃ شریف کی ایک حدیث ہے سیدنا عمرفاروق ؓ اس کے راوی ہیں ’’ ان اللہ یرفع بہذا الکتاب اقواما ویضع بہ آخرین ‘‘ کہ اللہ اس کتاب (قرآن پاک ) کے ذریعہ بہت سی قوموں کو بلند کرتا ہے اور بہت سی قوموں کو پست وذلیل کرتا ہے ۔
یہ طاقت کا سرچشمہ ہے:
لہٰذا بہت ہی اچھا ہوگا کہ عامۃ المسلمین بھی شوق وشغف کے ساتھ اپنا رخ اللہ کے اس بے نظیر کلام کی طرف پھیرلیں ۔ اس لیے کہ قرآن کریم مٹی کو اکسیر بناتا ہے اور اکسیر کو مٹی ۔ یہ خدائی بے لاگ قانون ہے ۔{ لا تبدیل لکلمات اللہ }اس قرآن میں نور ہے، ہدایت ورحمت ہے اور یہ طاقت کا سرچشمہ ہے ۔ اسی لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شمار مناقب اور ان گنت فضائل سے اس کی رغبت دلائی ہے ۔ بڑی مشہور روایت ہے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اس کے راوی ہیں فرماتے ہیں :’’ جو شخص قرآن شریف کا ایک حرف پڑھے گا اسے اس حرف کے بدلے ایک نیکی ملے گی اور{ من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثالہا} ایک نیکی دس نیکی کے برابر شمار ہوتی ہے۔ میں نہیں کہتا کہ سارا الم ایک حرف ہے بل کہ الف ایک حرف ہے ، لام ایک حرف ہے ، میم ایک حرف ہے ۔ اور بعض علما نے یہ بھی کہا کہ صرف المپڑھنے سے ۹۰؍ نیکیاں ملتی ہیں ‘‘۔ حضرت ابو الدردا ؓ سے بھی ایک روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اگر تم صبح جاکر ایک آیت سیکھ لو تو یہ نوافل کی سور کعت سے بہتر ہے اور اگر علم کا کوئی باب سیکھ لو ، خواہ اس وقت اس پر عمل ہورہا ہو یا نہیں یہ ہزار رکعات نفل پڑھنے سے بہتر ہے ۔ ‘‘ (ابن ماجہ )
سبحان اللہ ! لوٹنے کی جائے ہے ۔ اور ترمذی کی یہ حدیث تو انتہائی چونکا دینے والی ہے۔ عبد اللہ ابن عباس ؓ اس کے راوی ہیں فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ جس شخص کے دل میں قرآن مجید کا کوئی حصہ بھی محفوظ نہیں وہ’’کبیت الخرب ‘‘ ویران اور کھنڈر گھر کی طرح ہے ۔ ‘‘ ع
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے مفر نہیں کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں
آندھیوں میں بھی یہ چراغ جلتا رہا:
آج دنیا کے نقشہ پر جتنے مذاہب رائج ہیں ، یہ محقق ہے کہ ان میں سے ایک بھی اپنی اصل شکل اور متن میں موجود نہیں ہیں۔ نہ ہندوؤں کی ’’ وید‘‘ اور نہ زرتشتوں کے ’’ ژند و باژند ‘‘ نہ موسیٰ علیہ السلام کی ’’ تورات ‘‘ نہ داؤد علیہ السلام کی ’’ زبور ‘‘ نہ مسیح علیہ السلام کی ’’ انجیل ‘‘ نہ بدہشٹوں اور جینوں کا مذہبی لٹریچر ۔ اگرکوئی محفوظ ہے سینوں اور سفینوں میں تو وہ صرف اورصرف حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا ’’ قرآن پاک ‘‘ ہے جو ساڑھے چودہ سوسال سے اب تک اپنی آن بان اور شوکت و شان سے باقی ہے۔ نہ صرف باقی ہے بل کہ آج تک اپنا اثر دکھلا رہا ہے ۔ اور یہی وجہ ہے کہ اقوام غیر کے غیر معتبر اور غیر مہذب لوگوں کی طرف سے اس کو آئے دن نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ ویسے بھی یہود بے بہبود ارو نصاری خاسرہ کی قومی تاریخی خوںآشامی اور تنگ نظری سے لبریز ہیں۔ ہر زمانہ اور ہر جگہ ان کی عفریتیت اور شیطنت کی تاریخ ان کے خوفناک اور گھناؤنے عزائم، حسد و جلن اوربعض و عداوت کے ہی نقوش بتلاتے ہیں ۔ دنیا میں ان کے جابرانہ ظالمانہ اورغیرعادلانہ نقوش،جومرتسم ہیں ان میں سرفہرست قرآن مجید کے ساتھ غیرشریفانہ برتاؤ ہے ۔ اسلام کی عادلانہ اور منصفانہ اور قرآن مجید کی تعلیمات کی دلآویز اور شریفانہ روایات سے وہ انتہائی دل برداشتہ اور کبیدہ خاطر رہے ہیں ۔ جب اعدائے اسلام میدان میں اہل اسلام کے مقابل نہ ٹھہر سکیں تو انہوں نے دوغلی پالیسی اور پروپیگنڈہ سے کام لیا اور یہ منحوس سلسلہ آج تک جاری ہے ۔محض قرآن کے ساتھ یہ ناروا سلوک؛ جو کبھی دریا برد کرنے اور کبھی جلادینے اور کبھی تحریف وتبدیل کرنے کی کوششو ں میں ظاہر ہوتا رہا ہے ، اس لیے کہ قرآن مجید دنیا جہاں سے مٹ جائے، ختم ہوجائے اوروہ اپنا رول ادا نہ کرسکیں ۔
اے بسا آرزو کہ خاک شد ہ :
مگر حقیقت یہ ہے کہ اب تک اعدائے اسلام خائب و خاسر ہی رہے اور ان شاء اللہ تا وقوع قیامت خاسر ہی رہیںگے ۔یہ سچ ہے کہ ان کی تمام تر خرمستیوں کے باجود قرآن اپنی اصلی شکل اور اپنی سحر آفریبی کے ساتھ باقی ہے ، نہ مٹ سکا نہ تبدیل و تحریف ہوسکا بل کہ آندھیوں میں بھی یہ چراغ جلتا رہا ہے اور رہے گا۔ جس شمع کو روشن خدا کرے آندھیاں بھی وہاں مات کھا ہی جاتی ہیں ۔ سچ ہے ؎
حفاظت جس سفینے کی اسے منظور ہوتی ہے
تو ساحل تک انہیں خود لاکے طوفاں چھوڑ جاتے ہیں
حقیقت یہی ہے کہ اللہ رب کریم نے ہر زمانہ اور ہرعہد میں اس کے لیے انتظامات ایسے کررکھے ہیں کہ انسانی عقلیں اس کا ادراک نہیں کرسکتی ۔ اور{ انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون} کا اظہار ہر زمانہ، ہر عہد ، ہر خطے اور ہرعلاقے میں ہوتا رہا ہے اور کعبہ کو پاسباں ملتے ہی رہے ہیں ۔نوعیت اور شکل چاہے جو بھی بنتی رہی ہو، انہیں انتظامات میں ایک نظم حفاظتِ قرآن اور قرآن کی پاسبانی کا حفظ قرآن کریم بھی ہے ۔ جس کا ذوق شوق اور اس کی رغبت ہر مومن کے قلب میں ودیعت ہیں۔
حفظ قرآن بھی حفاظت قرآن کا اہم ذریعہ :
جب خلاق اکبر نے قرآن پاک کو حفاظت کا ذمہ اپنے سر رکھا ہے تو اب یہ سمجھنا کہ یہ مٹ جائے گا ، گھٹ جائے گا، یہ تحریف وتبدیل کا شکار ہوجاے گا ، یہ پرلے درجہ کی نادانی ، بل کہ احمقوں کی جنت میں رہنا ہے۔ نہ ایسا ہوا ، نہ ہرگز ایسا ہوگا ۔ زمانہ دراز سے یہ بات مسلم رہی ہے کہ جہاں کوئی اور حربہ کام نہیں دے سکا وہاں کلام مجید نے اپنا اثر ظاہر کیا ۔ جہاں سیف وسنان کی دھاریں کند ہوگئیں وہاں قرآن مجید کی تسحر آفرینی اور شیریں کلامی کی دھار کام کرگئی ۔ سیکڑوں مثالیں تاریخ کے جِلومیں محفوظ ہیں ۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ کا لوہا کہاں پگھلا ؟ اسید بن حضیرؓ کو کس نے مات دی ؟ طفیل ابن عمر دوسی کا سخت لوہا بھی اسی بھٹی میں پگھلا ۔ احنف بن قیس عرب بہادر سردار جس کے بارے میں مشہور ہے کہ جب اس کو غصہ آتا تھا تو ایک لاکھ تلواریں غصہ میں آجاتی تھیں۔ لیکن{ لقد انزلنا الیکم کتابا فیہ ذکرکم …افلا تعقلون}یہ صرف قرآن پاک کا ایک جز تھا ،جس نے احنف بن قیس کی ایک لاکھ تلواروں کو کند کردیا اور وہ حلقہ بگوش اسلام ہوگئے ، عثمان بن مظعون ؓ کا شیطان بھی قرآن مجید کی برکت سے مات کھا گیا ۔ اور فضیل بن عیاض کا شیطان بھی{ الم یان للذین آمنوا ان تخشع قلوبہم لذکر اللہ} سے رام ہوا ۔اس زمانہ سے لے کرآج تک قرآن مجیداپنی سحربیانی اورشیریںکلامی کالوہامنوارہاہے اورآج بھی اقوام مغرب اور انگریز لال بجھکڑ اسی قرآن پاک کی تسحر بیانی سے مات کھارہے ہیں ۔
یہ واقعہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب یہی کلام الٰہی ہے۔ اور ایک سروے کے مطابق سوا سو کروڑ افراد بلا ناغہ روزانہ اس کو کسی نہ کسی شکل میں پڑھ رہے ہیں ۔ پھر مومن کے لیے بہ حیثیت مومن ؛ یہ اس کو اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے،اسی لیے باری عز اسمہ نے مومنوںکے قلوب کو اس سے مزین کردیا ہے اورایسی قدر پیدا کردی اور ایسا ذوق وشغف اورشوق لگا دیا ہے کہ مرد، عورت، بچہ، بوڑھااور جوان اس کے حفظ کواپنے لیے سرمایہ افتخار سمجھتا ہے ۔
قرآ ن میںہو غوطہ زن اے مرد مسلمان
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار
بات چل رہی تھی حفاظتِ قرآن کی۔اس دجالی دورمیںبھی غیرمسلم گروپوںنے انٹرنیٹ پرایک ویب سائٹ بنارکھی ہے ،جس سے وہ قرآنی آیات اورسورتوںمیںاپنی طرف سے کچھ جملے ،کچھ الفاظ اِدھرکے اُدھر اور اُدھرکے اِ دھرخلط ملط کرکے تلبیسِ ابلیس کافریضہ انجام دے رہے ہیں۔مگریقینااس سے کچھ ہونے والانہیں ہے۔ان شاء اللہ !اُن کی اس ابلیسی تلبیسات کے لیے توہماراایک آٹھ دس سال کابچہ ہی کافی ہے ،جس نے اپنی طفولیت ہی میںقرآن پاک کواپنے سینے میںمحفوظ کرلیاہے۔جوچندہی گھنٹوںمیںدودھ کادودھ اورپانی کاپانی کردے گااوراس دجالی سازش کاپردہ چاک کردے گا۔ماضی میں بھی ایساہوچکاہے ۔
جب برصغیرمیںانگریزاپناکریہہ چہرہ لے کرنمودارہوا،تواس وقت عام طورپرقلمی نسخوںکارواج تھا۔تاہم انھوںنے اپنی فطری کج ادائی اوربدقماشی سے کام لے کرخفیہ سازشیںکیںاورقرآن پاک کے کئی قلمی نسخے تلف کردیے۔اوراس کی جگہ محرَّف (بدلے ہوئے) نسخہ جات عام کردیے۔اُس زمانہ کی ایک عبقری شخصیت مولانامحمدباقرعلیؒنے چندذمہ دارانگریزوںکوچیلنج کیا،بلایااورپھران کے سامنے پہلے ایک دس سال کے بچہ کوبلایا اورمختلف جگہوںسے زبانی پڑھوایا۔پھرایک آٹھ سالہ بچہ کوبلوایااوراس سے مختلف جگہوںسے قرآن پاک سنوایا۔جب پادریوںنے بہ نظرخودیہ حقائق دیکھے اوراس حفظِ قرآن کامشاہدہ اپنی آنکھوںسے کرلیاتووہ اپنی اِس حماقت پرکافی پریشان اورشرمندہ ہوئے۔
کی میرے قتل کے بعداس نے جفاسے توبہ
ہائے اس زودپشیماں کاپشیماں ہونا
وہ انگریزچیخ اٹھے اورپھرانھوںنے اس زمانہ میںاپناوہ بے ہودہ مشغلہ مجبوراً بندکردیا۔بے شک خدائے قادرومطلق اِس بات پربھی قادرہے کہ جس طرح شمس وقمراورستاروںکوآسمان میںچمکاتے ہیں، قرآن کریم کوبھی روشن،سنہری اورچمکتے الفاظ میںآسمان پرلگادیںاورمحفوظ فرمادیں۔مگرحفاظت قرآن کے اس موجودہ نظام سے کمال قدرت کازیادہ اظہارہے ۔چناںچہ مدارس اسلامیہ،مکاتب قرآنیہ بشمول پنج وقتہ نمازوںمیںتلاوت قرآن اورتراویح میںاس کاازحداہتمام وانتظام یہ تمام ذرائع ہیں،حفظ قرآن کے۔خدائے پاک مسلمانوںکے قلوب میںحفظ قرآن کاولولہ اورذوق پیدافرمائے۔آمین!مگر
نئی روشنی نے اندھیرے میںڈالا
ستم ہے کہ ظلمت کوسمجھے اجالا
فضائل حفظِ قرآن:
دنیامیںعارضی عہدوںکے حصول میںلوگ کتنے سرگرداں اورساعی ہوتے ہیں؟مگران سب کی کیااہمیت اورکتنی؟وزیراعظم ،وزیراعلیٰ ،وزیرداخلہ وخارجہ ،وزیرزراعت وسیاحت ،صدورونائب صدوراور سکریٹری وغیرہم ؛جس طرح یہ ایک لقب ہے ،اسی طرح حافظ قرآن یہ ایک لقب ہے ۔مگر وہ سب القا ب اور عہدے عا می اور عا ر ضی ہیں ،جب کہ حا فظِ قر آن یہ ایک خا ص لقب ہے اور عا می نہیں۔ان کاشمار V.I.P. لوگوں میں ہو گا ۔’’ اقرأ وارتق ورتل کما انت ترتل فی الد نیافان منزلک الی آخرآیۃ تقرأہا‘‘کہ پڑھتا جا اور جنت کے درجہ چڑ ھتا جا، بس تیرا درجہ آخری آیت ہو گا،جس کی توتلاوت کرے گا۔ (تر مذی ابوداؤد)
مسند احمداورابو داؤد کی ایک حدیث کے مطابق قرآنِ پاک حفظ کرکے عمل کرنے والے حافظ کو بروز قیامت اس کے والدکو ایک تاج پہنایا جائے گا، جس کی روشنی سورج کی روشنی سے زیادہ ہوگی ۔کیا خیال ہے اگر وہ سورج تمہارے گھروں میں ہو۔
کنز العمال کی ایک حدیث کے مطابق حافظِ قرآن مستجاب الدعوات ہوتا ہے ۔ حضرت عبد اللہ ابن عمر ؓکی روایت کے مطابق حافظِ قرآن اللہ کے دوست ہیں،جس شخص نے ان سے دوستی کی اس نے اللہ سے دوستی کی،جس نے ان سے دشمنی کی اس نے اللہ سے دشمنی کی۔ایک اور حدیث میں عبد اللہ ابن عباسؓ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضور شاقیٔ کوثرصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تین شخص ایسے ہیں ،جنہیں حساب وکتاب کی پرواہ نہیںہوگی۔
اور وہ اس سے بالکل بے فکر ہوں گے۔اور نہ انہیں نفخ اول دہشت زدہ کرے گا، نہ میدان محشر کی سختی سے وہ گھبرائیںگے۔ایک قرآن کا حافظ جو اس پر عمل پیراہو اور اللہ کے دربار میں اہل جنت کا سردار اور معزز ہوکر آئے گا،یہاں تک کہ رسولوں کا رفیق بن جائے گا۔ دوسرے وہ مؤذن؛ جو سات سال اذان دے اور اس پر تنخواہ نہ لے تیسرا وہ غلام جو اپنی جان سے اللہ کا حق بھی ادا کرے اور اپنے مالکوں کا حق بھی ۔(بیہقی،تحفۂ حفاظ)
اولاد کو تین چیزیں ضرور سکھائیے:
امیر المؤ منین سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما یا: اپنی اولاد کو تین چیزوں سے ضرور مزین کرو۔(۱) ان کو ادب سکھاؤ(۲) اور حضور ؐاور اہل بیت کی محبت (۳) اور قرآن مجید کا پڑ ھنا ۔اس لیے کہ قرآن کریم کے حفاظ قیامت کے دن انبیا اور اس کے بر گزیدہ حضرات کے ساتھ اللہ کی رحمت کے سائے میں ہوںگے۔جب کہ عرش کے سا ئے کے علاوہ کوئی اور سایہ نہ ہوگا۔دیلمی ،نسائی،ابن ماجہ اور حاکم کی روایت کے مطابق حافظِ قرآن اللہ کے اہل اور خواص ہیں۔مطلب یہ ہے کہ حفظِ قرآن سے اللہ پاک کا ایک خاص قرب حاصل ہوتا ہے۔
ابن ابی شیبہ ؒ اور ابن الضریسؒ نے مجا ہد ؒ سے ان کا یہ قول روایت کیا ہے کہ قیامت کے دن قر آن کریم اپنے حافظ کی سفارش کرے گااور کہے گا: اے پروردگار! (آپ نے مجھ کو اس کے سینے میں محفوظ کیا ہے،تو میں نے اس کو رات بھر جگا یا، بہت سی لذتو ں سے اس کو محروم کیا۔پھر ہر مزدور کو اس کی مزدوری کا بدلہ ملتا ہے۔لہٰذا اس کو بھی بدلہ دے دیجیے۔اس پر حافظ قرآن سے کہا جائے گاکہ ہاتھ پھیلاوہ ہاتھ پھیلا ئے گا۔ پھر اللہ اس کو اپنی خوش نودی اور رضا سے بھر دے گا۔(الدرالمنثور)
یہ ہے کلام اللہ اور اس کے حفظ پر ملنے والے انعامات اور نہ جانے کتنے کیسے کیسے انعامات احادیث میں مذکو ر ہیں۔
درسینۂ تو ماہ تمامے نہادہ اند:
مگریہ تمام انعامات حافظ قرآن کے لیے،جو اللہ مقدر کرے گا۔وہ یقین صادق اور ایمان پر محمول ہیں،آدمی اس کو یقینا دنیا میں بھی محسوس کر سکتا ہے۔
پھر اگر آج یہ مادی دنیا میں بہ ظاہر نظر نہ آئے اوربہ ظاہر حفاظ قرآن کی حالت نا گفتہ بہ ہواور وہ پھٹے پرانے حال میں زندگی کے شب وروز کا ٹ رہا ہو،فا رغ البالی اورمرفہ حالی اس کو میسر نہ ہو، قلاشی ومحتاجی ،اور فاقہ مستی اس پر سایہ فگن ہو،نا ن شبینہ اور زرق برق لباس بھی میسر نہ ہو، روکھی سوکھی زندگی گزارنے پر وہ مجبور ہو،جیسا کہ آج نظر آتاہے، تو اس سے اس حافظ قرآن کو بددل اور مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ سینہ اس وقت گنجینۂ نور بن جاتاہے۔اور رحمت الٰہی کا مہبط و مورد بن جاتاہے۔سمجھ لیجیے کہ حافظ قرآن کے سینے میں کیاہے؟ شاعر نے چاند کو مخاطب کرکے کہا تھا؟
بر خود نظر کشا ز تہی دامنی مرنج در سینۂ توماہ تمام نہادہ اند
تو اپنی ابتدائی حالت پر نظر ڈال کر خود کو رنجیدہ مت کرکہ تیرے سینے میں چودہویں کا چاند سورہاہے۔اور میںتو کہتاہوںکہ چودہویں کے چاند کی حقیقت کیاہے؟حافظ قرآن کا سینہ اللہ کے نور سے معمور ہوتاہے۔اسرار الٰہی کا گنجینہ ہوتاہے،جوعلم الٰہی ہے۔علم اعظم اوراسم اعظم ہے۔لوگ اسم اعظم کے پیچھے پڑتے ہیں۔حافظ قر آن کے سینے میں علم اعظم ہے اوراسی میں اسم اعظم بھی ہے۔وہ تو عامل علم اعظم اورحامل اسم اعظم ہے۔(افادات قرآنی)
ابن تیمیہ نے بڑے پتے کی بات لکھی ہے،فرماتے ہیں: میرے دشمن میرا کیا بگاڑیںگے،میر ی جنت تو میرے سینے میں ہے۔وہ مجھ سے کیا چھین لیںگے،میں تو اپنی جنت لیے پھر رہا ہوں ،اللہ کا کلام، اللہ کا علم میرے سینے میںہے،میرا باغ تو میرے ساتھ ہے،وہ مجھے کیا قید کریںگے،میں بالکل آزاد ہوں جہاں رہوںگا آزادہی رہوںگا۔
وہ صحیفہ اب ہے روحو ں کی نکاسی کے لیے
کل جو آئین حیات جاوداںبنتا گیا
بیچ دی ہم نے ردی میں اپنے ماضی کی کتاب
اور اسے پا کر زمانہ کامراں بنتا گیا
تلا وت کلام پاک صرف امتِ محمدیہ کی خصوصیت ہے:
علامہ انور شاہ کشمیری ؒؒؒ ایک جگہ رقم طراز ہیں:کہ تلاوت قرآن پاک صرف اور صرف امتِ محمدیہ کی خصوصیت ہے۔حتی کہ یہ نعمت فرشتوں کو بھی حاصل نہیں ہوئی، اسی لیے وہ نماز میں شامل ہوتے ہیںکہ امام کی قرأت سنے اور جب سورۃ فاتحہ ختم ہوتی ہے تو آمین کہتے ہیں۔اور جہا ں قرآن شریف پڑھا جائے وہاں ملا ئکہ جمع ہو کر عرش پر پڑاؤ لگا دیتے اور گھیرا ڈال دیتے ہیںکہ اس قر آن کی تلا وت کی وجہ سے جو رحمتیں نازل ہوتی ہیں،فرشتے بھی اس کے مو رد بن سکیںاور اسے سن سکیں۔پس قرآن کی تلا وت کی فضیلت و منقبت صرف اس امت کو حاصل ہے،اگلی امتیں اس سعادت سے محروم تھیں۔(تحفۂ حفاظ)
امام احمد بن حنبل ؒ سے منقول ہے:کہ میں نے رب العزت کی خواب میں زیارت کی تو عرضکیا ۔یارب تقرب حاصل کرنے والے جن ذرائع سے آپ کا قرب حاصل ہوتاہے ،ان میںسے سب سے افضل ذریعہ کیاہے؟فرمایااے احمد! وہ میراکلام ہے میں نے عرض کیا سمجھ کریابغیرسمجھے فرمایا دونوں صورتوں میں میراقرب حاصل ہوتاہے۔(تفسیرکبیرجلداول صفحہ۷)
قرآن میں ہوغوطہ زن اے مردمسلمان
اللہ کرے تجھ کوعطا جدّت کردار
طالب قرآن کے انعامات :
ایک مرتبہ حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذؓسے فرمایا :کہ اے معاذ!اگرتم خوش نصیبوں کی سی زندگی،شہیدکی سی موت ،حشرکے د ن نجات، خوف کے دن امن، اندھیروںکے دن نور،گرمی کے دن سایہ،پیاس کے دن سیرابی ،ترازوکی بے وزنی کے دن وزن کا ثقل اورکافروں کی گمراہی کے دن ہدایت؛ یہ سب نعمتیں حاصل کرنا چاہتے ہوتو قرآن کی طالبِ علمی اختیارکرو۔(یعنی قرآن پاک کوسیکھنایادکرنا)کیوںکہ قرآن پاک ذکرالٰہی ہے، شیطان سے حفاظت ہے اورترازومیں جھکاؤ کاذریعہ ہے۔
حضرت انسؓنے روایت کیاہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: تم میں سے جب کوئی شخص یہ چاہے کہ وہ اپنے رب سے مناجات اورکلام کرے اس کوچاہئے کہ وہ قرآن کریم کی تلاوت کرے۔ حکیم ترمذی نے حضرت برید ہؓکے ذریعہ حضرت رسول کریم ﷺکاارشاد نقل کیا ہے کہ اہل جنت روزانہ حق جل مجدہ کے پاس دومرتبہ جائیںگے اوررب العالمین ان کے سامنے قرآن پاک کی تلاوت فرمائیںگے اوراس میں ہرجنتی اپنے اعمال کے درجہ کے موافق موتی، یاقوت، زمرداورسونے چاندی کے منبروں کی ایک مخصوص نشستگاہ پرہوگا تو اہل جنت کوتلاوت الٰہی سے، جس قدرحظ، لطف اورآنکھوں کوٹھنڈک حاصل ہوںگے ،اس قدردوسری نعمت سے حاصل نہ ہوگی اورایسی عظیم حسین آوازآج تک ان کے کانوں میں نہ پڑی ہوگی۔ پھراسی خوشی اورمسرت کے ماحول میں جنتی اپنی منزلوں اورفرحت بخش نعمتوں کی طرف لوٹ جائیںگے(ترمذی )
قارئین کرام! اس قدرفضائل ومنا قب اللہ اکبر کہ بندہ اپنے رب کا قرب پالیتاہے۔ بندے اورخداکا اتصال ہوجاتاہے۔ اس اللہ نے مقدرسے وہ لاریب کتاب ہمارے ہاتھوں میں دے دی ہے۔مقدرسنوارنے کا ایک منفردنسخہ۔مبارک ہیں وہ زبانیں اوروہ سینے، جوا س کی تلاوت اورحفظ وناظرہ سے معمورومزین ہیں۔ہربندۂ مومن کی یہ تمنا اورآرزوہونی چاہئے کہ قرآن پاک اس کے زبان وسینہ میں محفوظ ومعموررہیں ۔اوراس کے گھرکاکوئی فرداس کلام پاک کے پڑھنے پڑھانے اورحفظ وناظرہ سے محروم نہ رہے۔ جہاں تک ہوسکے کوشش جاری رکھیں کہ اس میں عمروغیرہ کی بھی کوئی قید نہیں،جب چاہے ا س کو حاصل کریں ،یادکرنے والوں کے لیے اللہ نے اس کوانتہائی آسان کردیاہے۔
قرآن پاک خود کہہ رہاہے ۔{ولقدیسرناالقرآن للذکرفھل من مدکر}اس لیے ہمت کے گھوڑے کو مہمیزکیجیے اورحفظ قرآن کے لیے کمربستہ ہوجائیے اپنی اولاد کوسب سے پہلے حفظ قرآن کی طرف متوجہ کیجیے اور ان کوترغیب دیجیے ۔
جب ہمت کی جولانی ہے توپتھربھی پھر پانی ہے
اٹھ باندھ کمرکیاڈرتاہے ،پھردیکھ خداکیا کرتاہے
قرآن پاک کے حفظ کر نے والوں،اس کی افہام وتفہیم کرنے اور طلب قرآن میں بادیہ پیمائی کر نے والے عاشقوں کی تاریخ اتنی طویل، اتنی لمبی اور دل چسپ ہے جس کا احا طہ دشوار ہے۔تاہم قرآن پاک کے عاشقوں نے ہردور میں اپنا ایک جہاں تعمیر کیاہے ۔انہوںنے اپنی دنیا آپ پیدا کی ہے ۔کمیونزم کے عہد میں جب روس کا حال زار پڑھواور وہاں قرآن پاک کے عاشقوں کے حالات پڑھوتو ایمان تازہ ہوجاتا ہے۔کہتے ہیں کہ چاہنے والے پہاڑ کھود کر بھی دودھ کی نہر نکال لاتے ہیں۔یہ تو کلام الٰہی ہے۔انتہائی رس بھر ا،میٹھا، دل کش، جاذب نظر،پھو ل کی پتی سے زیادہ نرم ونازک اور با اثر۔کوئی ہمت تو کرے {انا علینا جمعہ وقرآنہ}کوئی آئے تو سہی{ولقدیسرناالقرآن للذکرفھل من مدکر}اور واقعی چاہنے والوںنے اس سلسلے میں آسمان سے تارے توڑ لائے کہ کم از کم مدت میں قرآن پاک کے حفظ کے اس قدر کثرت اور تواتر سے واقعات منصہ شہود پر رونما ہوئے اور ہورہے ہیں۔جس کو ضبط تحریر میں لانا بہت مشکل ہے ۔تاہم ’’مشت نمونہ از خروارے‘‘یعنی نمونہ کے طور پر چند واقعات ہم پیش کرتے ہیں،تاکہ قارئین کے قلوب میںبھی حفظ قرآن کی انگڑائیا ں موجزن ہوں۔
حضر ت مولانامحمد قاسم نانوتویؒ کا ایک مہینہ میں حفظ ِقرآن:
قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانامحمد قاسم صاحب نانوتوی افق ہند ہی نہیں، برصغیر میں انتہائی معروف شخصیت ہیں۔جن کی جدوجہد سے ہندوستان میں اسلام کی ازسرنوآبیاری ہوئی۔علوم ومعارف اور کردار سازی بل کہ انسان سازی کا سب سے بڑا کا رخانہ ،فیکٹر ی م،مصنعُ الرجال دارالعلوم دیوبند جس کو ’’ازہر ہند ‘‘ بھی کہا جاتاہے،یہ آپ ہی کا قا ئم کردہ ہے۔بانی کے اخلاص کا اتنا بڑ ا تاج محل نہ آنکھوںنے دیکھا ہے نہ آئندہ کبھی دیکھے گی۔یہی حضرت نانوتوی نے جب پہلا حج کیا تو کراچی سے اسٹیمر میں سوار ہوئے ،اس زمانہ میں پانچ چھ مہینے جدہ پہنچنے میں لگ جاتے تھے۔چناںچہ رمضان کا چاند نظر آگیا،ڈھائی تین سو کا قافلہ ،لیکن جب تراویح کا معاملہ آیاتو’’الم تر کیف ‘‘سے پڑھی گئی۔حضرت کو بڑی غیرت آئی اور آپ نے ٹھان لیااور کمر ہمت کس لی۔اور روزانہ ایک پارہ یا د کرکے تراویح میںسنا تے رہے ۔اس طرح ۲۹؍دن میں آپ حافظ ِ قرآن بن گئے۔سچ ہے{ولقد یسر نا القرآن للذکر فہل من مدکر}
ایساہی حضرت مولانا محمد حسین مدنی ؒکے متعلق لکھا ہے کہ انگریزوں نے۱۳۶۲ھ میں گرفتا ر کرکے جیل بھیج دیا۔چناںچہ جیل کی تنہائی ہی میںحفظ کر ڈالا،جب کہ حضرت کی عمر اس وقت ۷۰؍سال سے تجاوز کر چکی تھی،جب کہ اس عمر میں اعضا ضعف کاشکار ہوتے ہیں،مگر یہ قرآن کا اعجاز ہے۔اور دل کی لگن کاکرشمہ ہے۔سچ ہے{ولقد یسر نا القرآن للذکر فہل من مدکر}
عالم اسلام کی ایک با وقار شخصیت حضرت امام شافعی صاحبؒ؛ جنہوںنے صرف ایک ماہ کے قلیل عرصہ میںحفظِ قرآن کی تکمیل فرمادی سچ ہے{ولقد یسر نا القرآن للذکر فہل من مدکر}امام محمد ؒنے ایک ہفتہ میںحفظ کر لیا،امام محمد ابن الحسن الشیبانیؒجو امام ابوحنیفہ ؒ کے ساتھ کے بڑے ما یہ ناز شاگرد ہیں۔ پہلا مسئلہ آپ نے حضرت سے اس وقت دریافت فر ما یا،جب کہ آپ کی عمر چو دہ سال تھی۔ مسئلہ پوچھا کہ کو ئی عشا کی نما ز کے بعد اسی رات کو بالغ ہوا تو اس کو نماز لو ٹا نی چاہیے یا نہیں؟ اما م صاحب نے فر ما یا کہ لوٹانی چاہئے ۔ چناںچہ آپ نے نما ز لو ٹائی، پھر امام صاحب نے آپ کو دیکھ کرفر مایا اللہ نے چاہا تو یہ بندہ کام یاب ہوگا۔چناںچہ امام محمد کو علم کا شوق دامن گیرہوااور آپ نے امام صاحب کی خدمت میں پہنچ کر اجازت چاہی۔ امام صاحب نے فرمایا کیا آپ نے حفظ قر آن کی تکمیل کرلی ہے، آپ نے فرمایا نہیں۔امام ابو حنیفہ نے فرمایا پہلے حفظ قرآن کی تکمیل کیجیے ،پھر تحصیل فقہ کے لیے آنا،چناںچہ امام محمد سات دن تک غیر حاضر رہے اور سات دن میں حفظ قرآن کی تکمیل کرڈالی۔ سچ {ولقد یسر نا القرآن للذکر فہل من مدکر}
’’ اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے ،پھر دیکھ خدا کیا کر تا ہے‘‘
ابن لبان کا پانچ سال کی عمر میں حافظ قرآن ہونا:
مقدمہ فتح الملہم کے حوالہ سے مصنف تحفۂ حفاظ لکھتے ہیںکہ: علامہ ابن لبان کہتے ہیں کہ میں پانچ سال کی عمر میں حافظ ِقر آن ہو گیا اور پو را قرآن شریف ایک سال میں حفظ کیا ۔اور بعض لوگو ں نے ان کا امتحان بھی لیا اور وہ صحیح صحیح جواب دے کر کامیاب ہوئے ۔بالکل سچ ہے{ انا علینا جمعہ وقرآنہ} اور{ولقد یسر نا القرآن للذکر فہل من مدکر}۔
ایک نابینا کا صرف ۶ ؍مہینے میں حفظ:
’’جمال محمدی صلی اللہ علیہ و سلم‘‘ اس کتاب کے مصنف محترم ر قم طراز ہیں:حفظ قرآن کی ایک تقریب میں میرا لندن جانا ہواتو مجھ کو بتلایاگیا کہ ایک مدرسہ میں یہاں ایک ایسا نابینا حافظ ہے ،جس نے صرف ۶؍ مہینے میں حفظ مکمل کیاہے ۔اللہ اکبر !اس نابینا کے سینہ میں صرف چھ مہینے میں پورا قرآن اتارنے والا کون ؟کون سی طاقت؟کون سی(Energy) یا کو سا ٹیبلیٹ؟جس نے اس کے دماغ کو اتنا قوی اور اتنا صحت مند بنا دیا۔وہ بھی دیار مغرب میں؟یقینا یہ وہی ذات ہے ،جس نے اپنے حبیب سے اسی قرآن مجید کے متعلق فرمایا تھا {لاتحرک بہ لسانک لتعجل بہ انا علینا جمعہ و قرآنہ}اس کے ساتھ آگے لکھتے ہیں،لندن کی سر زمین جہاں زندگی انتہائی سرعت کے ساتھ رواں دواںہے،وہاںایک بچہ اپنے اسکول کے ساتھ حفظ قرآن پرکمرکس لیتاہے اورصرف ایک سال کی مدت میںدولتِ حفظِ قرآن سے مالامال ہوجاتاہے۔یہ ہے قرآن کا اعجاز{ولقد یسر نا القرآن للذکر فہل من مدکر}۔
ایک گونگے کا حفظ:
قرآن کے ایک بڑے مشہور اورپائے کے امام گزرے ہیں،جن کو دنیا امام نافع سے جانتی ہے۔ان کے دو شاگردتھے بڑے تیزطرار ۔ایک کا نام تھا عیسٰی اور دوسرے کا نام عثمان ۔عثمان بڑے ہی خوب رو اورجمال آمیز تھے اور دوسرے عیسٰی جو تھے وہ بڑے اسود(انتہائی کالے)اور استاد نے ان کانام رکھا تھا ’’قالون‘‘جو رومی زبان کا لفظ ہے ،جس کے معنٰی ہے’’عمدہ چیز‘‘ ۔نافع کے بعد یہ دونوں بھی بڑے ائمہ ہو کر گزرے۔قالون جوتھے وہ مادرزاد بہرے تھے اور بہ قول حکما؛ کہ گونگے کا مرض زبان کی بیماری نہیں ،بل کہ وہ کان کی بیماری ہوتی ہے۔بچپن سے کوئی چیز کان میں نہیں پڑی تو وہ بول بھی نہیں پاتے ۔
مگر قدرت کاکرشمہ کہ قالون کو جب مکتب میں لایا گیا تو انہوں نے صرف استاد کے ہونٹوں کی حرکت کو دیکھ دیکھ کر بولنا شروع کیا ، بل کہ پورا قرآن شریف انہوں نے حفظ کر ڈالا-نہ صرف حفظ کیا بل کہ سکہ رائج الوقت تمام قرأتیں بھی امام نافع سے سیکھ لیں۔اللہ اکبر! یہ ہے قرآن پاک کا کرشمہ اور اعجاز۔ کوئی ہمت کرکے تودیکھے سچ ہے’’ ہمتِ مرداں مدد خدا‘‘ ۔{ولقد یسر نا القرآن للذکر فہل من مدکر}اور پھر کلام پاک کا کرشمہ یہ بھی رہا کہ بہ ظاہر ان میں کوئی کشش اور رعنائی نہیں تھی۔ لیکن جب کسی مجلس میںجاتے توحسنِ یوسف ان کے چہرے میں اتر آتا۔
مِصیصی جو اُن کے دور کے مصنف ہیں ،وہ کہتے ہیںجب ان سے پوچھا گیا کہ اس کی وجہ کیا ہے ؟فرمایا کہ ایک مرتبہ مجھ کو خواب میںحضور ساقی کوثر صلی اللہ علیہ وسلم کے جمالِ جہاں آرا کا دیدار ہوا۔ شرف لقا سے میں مشرف ہوا، اس وقت سے میری یہ حالت ہوگئی۔خود امام نافع کے متعلق اہل ِسَیرنے لکھا ہے کہ جب یہ پڑھتے تو دور دور تک خوش بو پھیل جاتی۔ کسی نے پوچھا یہ کیا ماجراہے ؟ فرمایا خواب میں سرکارِنامدار نے میرے ہونٹوں کے قریب منہ کرکے چند آیات پڑھیں، تب سے مجھ کو یہ شرف حاصل ہوگیا ۔اللہ اکبر !
یا رب یہ کیسی ہستیاں ہیںکس دیش کی بستیاں ہیں
جن کو دیکھ نے کو آنکھیں ترستیاں ہیں
حفظ قرآن بالکل آسان:
حفظ قرآن بالکل آسان عمل ہے ،مگر یہ شوق دل میں سما جائے تب۔ورنہ صرف آرزؤںاور تمناؤں سے یہ محل تعمیر نہیں ہوسکتا۔کچھ کر گزرنے کا حوصلہ ہی انسان کو ہاری ہوئی بازی جیت لینے کا داعیہ پیدا کر دیتاہے۔ عزائم کی پختگی اور مقصد کی دھن میںجب کوئی مسافر اپنی منزل کی طرف ان بنیادوںپر چل پڑتا ہے، تو نہ صرف منزل آسان ہو جاتی ہے۔بل کہ بالکل تھکا ماندہ مسافر بھی منزل مقصود پالیتا ہے۔اقبال کے فلسفیانہ کلام سے سہارا لوں تو کہہ سکتا ہوں ؎
مل ہی جائے گی منزلِ لیلیٰ اقبال
ابھی کچھ اور بادیہ پیمائی کر
کتابوں میں لکھا ہے کہ سر زمین گجرات کا ایک بہت اولو العزم بادشاہ گزرا ہے۔ بڑاصالح، نیک، عادل، اہلِ علم کا قدردان، مجلسِ علما کا بڑاشائق؛ جس کو تاریخ میں محمود بیگڑہ سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ایک دن علما کی مجلس میں تھا کہ بات حفظ قرآن پر چل پڑی اور فضائل میں اس کے کان اس حدیث شریف سے آشنا ہوئے کہ بروز قیامت سورج کی تپش سے ہر کوئی پریشان ہوگا، مگر جو لوگ حافظ قرآن ہوں گے اس کے عزیز و قریب بھی اس روز رحمت کے سایے میں ہوںگے تو سورج کی حرارت سے محفوظ رہیں گے ۔بادشاہ نے سرد آہ بھری اور کہاکہ افسوس! ہمارے بیٹوں میں کوئی بھی اس سعادت کو حاصل نہ کر سکا۔ اسی مجلس میںان کے صاحب زادے محمد خلیل بھی موجود تھے ۔انہوں نے باپ کی آرزؤں کو پورا کر نے کو اپنا مقصد بنا لیا اوربڑوڈہ جاکر حفظ قرآن میں منہمک ہوگیا ۔سال بھر کے بعد جب رمضان آیا تو بادشاہ کی خدمت میں پہنچ کر عرض کیا کہ آپ کی اجازت ہو تو تراویح میں سناؤں ۔بادشاہ نے کہا تم حافظ کب بن گئے اور یہ کیسے ممکن ہوا ؟ بیٹے نے پوری داستاں سنائی ۔بیٹے نے تراویح میں قرآن کریم سنا یا پورا قرآن (جو اس نے چند مہینوں میں یاد کیا تھا )سن کر باپ نے گلے لگا یا اور اس کو تخت پر بٹھا دیا ۔اللہ اکبر !
تو اگر کوئی کرنا چاہے تو بہت آسان ہے۔ بزرگوں اور عشاق قرآن نے قرآن شریف کی ۶۶۶۶؍ آیات کے متعلق یہ کہا ہے کہ اگرکوئی آدمی حفظ کرنا چاہے تو روزانہ اگر وہ صرف ۳؍آیات یاد کرنے کا معمول بنا لے تو ۶؍سال کی مدت میںپورا حافظ بن جائے گا۔اور اگر روزانہ ۶؍آیات یاد کرنے کا معمول بنا لے تو صرف ۳؍سال میں پورا حافظ بن جائے گا۔