قرآن کریم کا حیرت انگیز اعجازِ بیانی

مفتی محمد افضل اشاعتیؔ /استاذجامعہ اکل کوا

                قرآن کریم ایک عظیم معجزہ ہے۔قرآن کے وجوہِ اعجاز متعدد ہیں ،قرآن جہاں اپنے مضامین کے اعتبار سے معجزہ ہے،وہیں اپنی پیشین گوئیوں کے لحاظ سے بھی معجزہ ہے۔قرآنی تعلیمات اپنی جامعیت اور ہر دور کے لیے رہ نمائی کی صلاحیت کے اعتبار سے بھی مظہرِ اعجاز ہے۔قرآنی اعجاز کی مختلف جہتیںہیں،لیکن ان سب میں نمایاں اس کا اسلوبِ بیان ہے،جو اپنے اندر بے پناہ اعجازی پہلو رکھتا ہے ۔نزولِ قرآن کے دور میں قرآن کے اولین مخاطب پر سب سے زیادہ جو چیز قرآن کی اثر انداز ہوئی، وہ اس کا اسلوب تھا۔قرآن کے حیرت انگیز اسلوب کے آگے وہ خود کو بے بس پاتے اور بے ساختہ پکار اٹھتے تھے کہ یہ انسانی کلام نہیںہو سکتا ۔سیرت کی کتابوں میں قرآن سن کر اس سے متأثر ہونے کے دسیوں واقعات مذکور ہیں۔جس نے بھی قرآن کو سنا حیرت زدہ رہ گیا ،قرآن نے بلاغت وزبان دانی کے دعویداروں کو چیلنج کیاکہ وہ اِس جیسا پورا کلام پیش کرکے بتلائیں ،اگرپورا نہیں پیش کر سکتے تو دس سورتیں پیش کریں،اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو قرآن جیسی ایک چھوٹی سورۃ بناکرہی دکھلائیں۔اعجازِ قرآن کے ماہرین میں سے اکثر کی رائے یہ ہے کہ قرآن کا عربوں کو چیلنج؛ اسلوب کے اعتبار سے تھا ،نہ کہ پیشین گوئی یا علوم کے لحاظ سے۔ قرآن کا اسلوب اور انداز بیان انتہائی حیرت انگیز ہے ،اس کے الفاظ اور کلمات میں بھی اعجاز ، تراکیب اور جملوں میں بھی قرآن اپنے ترتیب کے اعتبار سے بھی معجزہ ہے اور کلمات کے تقدیم و تا خیر کے لحاظ سے بھی ۔چناںچہ ہم اسلوب قرآن کے چند نمونے پیش کرتے ہیں۔

الفاظِ قرآنیہ کا اعجاز:

                قرآن مجید کا کوئی لفظ اتفاقی طور پر استعمال نہیں ہوا، بل کہ الفاظ کے استعمال میں نہایت دقت نظری سے کام لیا گیا ہے ۔ایک ہی جیسے الفاظ معمولی فرق کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں۔لیکن اُن کے استعمال میں لطیف فرق کو ملحوظ رکھا گیا ہے ،بہت سے الفاظ بہ ظاہر مترادف معلوم ہوتے ہیں،لیکن ان کا محل استعمال بتاتاہے کہ وہاں لطیف فرق ملحوظ رکھا گیا ہے،اسی طرح تقدیم و تاخیر بھی لطیف فرق کے پیشِ نظر کی گئی ہے،ذیل کی مثالوں پر غور کیجیے توپتاچلے گا۔

مَیّتٌ اور مَیْتٌ:

                قرآن کریم میں لفظ مَیِّتٌ مفرد کے لیے بارہ دفعہ لایا گیا ہے ،اس کی جمع  مَیِتُوْنَ  دو دفعہ لائی گئی ہے۔

                 لفظ مَیْتٌ پانچ مرتبہ آیا ہے،یہ دونوں الفاظ اپنی ساخت کے اعتبار سے ہم معنیٰ معلوم ہوتے ہیں،لیکن دونوںکے حروف وحرکات میںہلکاسافرق بتاتاہے کہ دونوںکے معنوںمیںبھی فرق ہے۔ قرآن میںاِن دونوں کااستعمال لطیف معنوی فرق کوملحوظ رکھ کرکیاگیاہے۔ایساشخص جو قریب المرگ اور اپنی موت کا منتظر ہو ،لیکن اس کے جسم میں بھی جان باقی ہو اسے مَیِّتٌ کہا جاتا ہے ،استعمال قرآن پر غور کیجیے ارشادِ ربانی ہے{انک میّتٌ و انہم میتون }(سورۃ زمر: ۳۰) اس آیت میں نبی کو مخاطب کرکے بتایا گیا کہ آپ کو بھی انتقال کرنا ہے اور ان کو بھی مرنا ہے۔،اس کے برعکس میْتٌ اس مردہ کے لیے بولا جاتا ہے، جس کی روح بدن سے جدا ہو چکی ہو۔ جس پر موت طاری ہوچکی ہو۔ چناںچہ قرآن مجید میں بنجر علاقہ کے لیے بلدۃ میتۃ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ،اسی طرح مرے ہوئے جانور کے لیے میتۃ کالفظ استعمال ہوتا ہے،وآیۃ لہم الارض المیتۃاحییناہ۔حرمت علیکم المیتۃ و الدم و لحم الخنزیر۔ایحب احد کم ان یأکل لحم اخیہ میتا ۔یہ نہایت لطیف فرق ہے جسے قرآن میںملحوظ رکھا گیا ہے۔ان دونوں الفاظ کے تعلق سے حضرت پیر ذوالفقار نقشبندی دامت برکاتہم نے ایک اور لطیف نکتہ کی طرف اشارہ کیاہے ۔لکھتے ہیں کہ اگر میِّتٌ کے لفظ پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی یؔ کے اوپر تشدید ہے یعنی وہ انسانی جسم میں زندگی ہے وہ مختلف اعمال میں منہمک ہے ،حرکت موجود ہے،اگرمیْتٌ کے لفظ پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی یائے ساکنہ غیر متحرک ہے یعنی وہ انسان جس کی روح نکل گئی اور جسم بغیر حرکت کے موجود ہے۔    

                 قرآن میں ایک ہی الفاظ کے واحد اور جمع کے استعمال میں بھی فرق رکھا گیا ہے۔ مثلاً قرآن میں جہاں کہیں لفظ ریح واحد استعمال ہوا ہے تو وہ عذاب کے معنی میںہے،جب کہ ریاح کا لفظ بارش لانے والی ہوائوں کے لیے استعمال ہوا ہے ،ارشاد ربانی ہے ۔{و في عاد اذ ارسلنا علیہم الریح العقیم} ( ذاریات : ۴۱)

                ترجمہ:اور قوم عاد میں نشانی ہے جب ہم نے ان پر خیر سے خالی ہوا بھیجی۔

                دوسری جگہ ارشاد ہے۔{وہو الذی یرسل الریاح بشرا بین یدی رحمتہ} ( اعراف: ۵۷)

                ترجمہ:وہی خدا ہے جو خوش خبری دینے ہوائوں کو لاتا ہے رحمت سے پہلے ۔

                اسی طرح لفظ ارض اگر سماء کے ساتھ مفرد استعمال ہو تو اِس سے کا ئنات مراد ہوتی ہے ۔اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ الارض کا لفظ لاکر کائنات کی مخصوص جگہ مراد لیتے ہیں ،جیسے ارشادہے ۔{اجعلنی علی خزائن الارض انی حفیظ علیم}(یوسف:۵۵)

 افعال اور صیغوں  کے استعما ل کا فرق:

                افعال اور ان کے مختلف صیغوں کے استعمال میں بھی لطیف فرق ملحوظ رکھا گیا ہے ۔فعل مضارع ان موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے جہاں استمرار اور دوام مطلوب ہویا جس سے منظر کشی مقصود ہو ارشاد ربانی ہے:  {الم تران اللہ انزل من السماء ماء فتصبح الارض} ( الحج: ۶۳)کسی آئندہ پیش آنے والی بات کے یقینی ہونے کو بتانے کے لیے ماضی کا فعل لایا گیا ہے جیسے {اقتربت الساعۃ وانشق القمر}(القمر:۱)

الفاظ کی تقدیم اور تا خیر:

                قرآن مجید میں الفاظ کی تقدیم وتاخیر اتفافی نہیں ہے ،بل کہ اس میں حکمت پوشیدہ ہوتی ہے مثلاً (۱)زانی مرد و عورت کی سزا کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا:{الزانیۃ والزانی فاجلدوا کل واحد منہماماۃ جلدۃ} (النور:۲۰)یہاں زانیہ (عورت کو مقدم کیا گیا :جب کہ چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت کی سزاکا تذکرہ کرتے ہوئے مرد کو مقدم کیا گیا ہے ۔ارشادہے:{والسارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیھما}(سورۃ المائدہ ۳۱)

                اس فرق کے تعلق سے علامہ زمخشریؒ فرماتے ہیں: عورت ہی اصل مادہ ہے ،جس سے خبائث جنم لیتے ہیں،عورت کی طرف سے اگر رضا مندی نہ ہو تو مرد اپنی ضرورت کی تکمیل پر قادر نہیںہو سکتا ،اس لیے زنا کی سزا میں زانیہ کو مقدم کیا گیا

                جدید میڈیکل سائنس سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ فطری طور پر مرد میں عورت سے خواہش پوری کرنے کی جتنی قدرت ہے ،اس سے کہیں زیادہ عورت میں روکنے کی قدرت پائی جاتی ہے۔    

                چوری کی سزا کاآغاز مرد سے اس لیے کیا گیا کہ چوری پر مرد زیادہ جری ہوتا ہے ۔اس کے لیے مرد انگی اور بلند حوصلگی کی ضرورت پڑتی ہے ۔

                قرآن میں جہاں کہیں لیل اور نہار کاایک ساتھ ذکر ہے ،وہاںپر لیل کو نہار پر مقدم کیا گیا ہے ۔ارشاد ہے ۔{تو لج اللیل فی النھار و تو لج النھار فی اللیل}(آل عمران :۲۷)

                اسی طرح ارشاد ہے ۔{اِن فی خلق السمٰوات والارض واختلاف اللیل والنھار} ۔لیل کو مقدم کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے ابن المنیرؒ کہتے ہیں کہ لیل متبوع ہے اور نہار تابع ہے ۔اس لیے لیل کو مقدم کیا گیا ۔

صوتی ہم آہنگی :

                اسلوب قرآن کی ایک حیرت انگیز خصوصیت اس کی صوتی ہم آہنگی بھی ہے ۔بعض الفاظ ایسے استعمال کیے گئے ہیں کہ ان کے تلفظ اور ادائیگی کی آواز ہی سے ان کے معنی کا اظہار ہوتاہے ۔اس خصوصیت کو سید قطب شہیدؒ نے مثالوں کے ساتھ تفصیل سے ذکر کیا ہے جیسے ارشاد ہے :

{یٰا یہاالذین آمنوا اذا قیل لکم انفروا فی سبیل اللہ اثاقلتم الی الارض}( التوبہ) ۳۸)

                ترجمہ:اے ایمان والو !تمہیں کیا ہوا کہ جب تم سے کہا جاتاہے کہ کوچ کرو اللہ کی راہ میں تو تم گر جاتے ہو زمین میں اس آیت میںاثاقلتم الی الارض کے الفاظ پڑھتے ہو کے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی چیز زمین کے ساتھ چپکی جارہی ہو یا ڈھیر ہوگئی ہو دوسری جگہ ارشاد ہے:{ یوم یدعّون الی نار جہنم دعّاً} (سورۃ التوبہ :۱۳)’’یدعّون‘‘ کا تلفظ خود بتارہا ہے کہ یہاں کسی کو زبر دستی دھکیلا جارہا ہے ۔

کلمات کی موزو نیت :

                قرآن مجید کی آیت میں مستعمل کلمات میں سے ہر کلمہ اپنی جگہ موزون ہے۔ اس کی جگہ اگر دوسرا کلمہ استعمال کیا جا ئے تو موزونیت ختم ہو جاتی ہے ۔

درج ذیل مثالوں ـپر غور کیجیے۔

                ماجعل اللہ لرجل من قلبین فی جوفہ (سورۃ احزاب :۴)

                ربّ انّی نذرت لک ما فی بطنی محر راً (آل عمران: ۳۵)

                مذکورہ دو آیتوںمیں جوف اور بطن دو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ،دونوں ہم وزن ہم معنی اور حروف کی تعداد میں مساوی ہیں ۔مگر ایک کی جگہ دوسرے کو استعمال کریں تو مفہو م بگڑ جاتا ہے۔ بطن اور جوف میں معنوی فرق یہ ہے کہ بطن کا لفظ سینے کو شامل نہیں ،اس لیے بچہ کے پیٹ میں مو جودگی کے لیے بطن کا لفظ استعمال کیا گیا ہے،  جب کہ جوف کا لفظ سینے کے اندرونی حصہ کو شامل ہے اس لیے اسے قلب کی موجودگی کے لیے استعمال کیا گیا ۔

                قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات کے لیے قل کا لفظ ۳۳۳ ؍مرتبہ استعمال کیا ہے تو مخلوقات یعنی ملائکہ جن وغیرہ کے لیے بھی لفظ ِقل کو ۳۳۳ مرتبہ استعمال کیا ہے یہ حیرت انگیز معنوی یکسانیت ہے اس سے قرآن کا تحریف سے محفوظ ہونا بہ خوبی سمجھا جا سکتا ہے ۔

                قرآن کریم میں اس کی صراحت ہے کہ آسما ن سات ہیں اسی طرح قرآن میں سبع سمٰوات کا لفظ بھی صرف سات جگہ آیا ہے وہ سات مقامات یہ ہیں :

                (۱)فسوّھنّ سبع سمٰوٰت ٍ(البقرۃ:۲۹)

                (۲)فقضا ھنّ سبع سمٰوٰت  (حم سجدہ :۲۱)

                (۳)اللہ الذی خلق سبع سمٰوٰت (طلاق:۲۱)

                (۴)تسبحّ لہ السمٰوات السبع ُوالارض ومن فیھنّ (بنی اسرائیل :۴۴)

                (۵)قل من رّب السّمٰوات السبع ورب العر ش العظیم (مومنون :۶۸)

                (۶)الذی خلق سبع سمٰوٰت ٍ طباقاً(الملک :۳)

                (۷)الم تر کیف خلق اللہ سبع سمٰوٰت ٍ طباقاً(نوح:۱۰)

                ایما ن اور آمنو ا کا ذکر قرآن کریم میں ۵۲؍ مرتبہ ہے اسی طرح لفظ کفر بھی ۵۲ ؍مرتبہ آیا ہے۔ ایما ن اور کفر کے الفاظ کی تعداد میں یکسانیت قرآن کے اعجاز کو ظاہر کر تی ہے ۔

                عددی اعجاز کا ایک اور نمونہ ملاحظہ کیجیے۔ سورۃ توبہ میں ارشاد ہے :

                {انّ عدّۃ الشّہور عنداللہ اثنا عشر شہرا}

                ترجمہ:یعنی اللہ کے نزدیک مہینوں کا شمار ۱۲ ؍ہے۔

                 آیت میں جس طرح سال کے بارہ مہینے ہونے کا ذکر کر تے ہوئے ’’شہر‘‘  کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اسی طرح پورے قرآن میں لفظ ِشہر بارہ ہی مرتبہ ا ستعمال ہوا ہے۔ کیسی عجیب یکسانیت ہے کہ دنیا کا ذکر قرآن میں ۱۱۰ ؍مرتبہ آیاہے تو آخرت کا بھی ۱۱۰ ؍مرتبہ آیاہے ۔ملائکہ کاذکر ۸۸؍ مرتبہ ہے تو شیا طین کا ذکر بھی ۸۸؍ مرتبہ ہے۔ حیات کا ذکر ۱۴۵؍مرتبہ ہے توموت کا ذکر بھی اتنی ہی بار ہے۔ لفظ النّاس کا ذکر ۵۰ ؍مرتبہ آیاہے تو الرّسل جولوگوں کی طرف بھیجے جاتے ہیں کا ذکر بھی ۵۰ ؍مرتبہ آیاہے ۔

                اخیرمیں اعجازِ قرآنی کاایک حیرت انگیزواقعہ ذکرکرکے اس بحث کوختم کرتاہوں۔

                سوئزرلینڈکی ایک دواسازکمپنی نے ایک ایسی نئی دوابنائی ہے،جس سے موتیابندکابغیرآپریشن کے علاج کیاجاسکتاہے ۔قطرکے اخبار’’الرایا‘‘ کی اطلاع کے مطابق اُس دواکے موجدمصری ڈاکٹرمحمدعبدالباسط ہیں۔ جنھوںنے اسے انسان کے پسینے کے غدودکاتجزیہ کرکے تیارکیاہے ۔اس دواکے قطروںکوموتیابندکے مریضوںکی آنکھ میںٹپکایاگیا،جس سے انھیںنہ صرف ۹۹؍فی صدکام یابی نصیب ہوئی،بل کہ اس سے کوئی دوسرامضراثربھی نہیںہوا۔

                ڈاکٹرمحمدعبدالباسط نے بتایاکہ وہ جب سورۂ یوسف کی تلاوت کررہے تھے،توآیت {فلماان جاء البشیرالقٰہ علیٰ وجہہ فارتدبصیراً}پرغورکرناشروع کیاکہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی آنکھیںاپنے فرزندحضرت یوسف علیہ السلام کی جدائی کے غم میں آنسوبہاتے رہنے کی وجہ سے سفیدہوگئی تھیں،لیکن جب حضرت یوسف علیہ السلام کاکُرتاان کے غم زدہ باپ کے چہرے پرڈالاگیاتوان کی بینائی کیسے لوٹ آئی؟

                کافی غوروخوض کے بعدوہ اِس نتیجے پرپہنچے کہ یقینااس میںکرتے کے پسینے کادخل ہوگا۔چناںچہ انھوں نے اپنے تجربہ گاہ میںپسینے پرتحقیق کرناشروع کیا۔پہلے خرگوش پرتجربے کیے گئے ،جس سے مثبت نتائج حاصل ہوئے ۔اس کے بعدانسانی پسینے کے غدودپرتجربے کیے گئے اوراس سے حاصل ہونے والے محلول قطروںسے ۲۵۰؍موتیابندکے مریضوںکادوہفتوںتک علاج کیاگیا،جس میںانھیں ۹۹؍فی صدکام یابی ملی ۔

                اللہ پاک ہمیںاورپوری امت کواپنی مقدس کتاب کے ساتھ بے پناہ محبت اورلگاؤ نصیب فرمائے ۔آمین!