قرآن کریم سے اِجتہاداورجدید مجتہدین

 ڈاکٹر فخرالاسلام مظاہریؔ علیگؔ

                حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اپنی متعدد تصنیفات میں ابنائے زمان کی طرف سے شریعتِ مطہرہ کی تشریح میںکی جانے والی بے احتیاطیوںکا تذکرہ فرمایا ہے ۔اِس حوالے سے ’’الانتباہات المفیدۃ عن الاشتباہات الجدیدۃ‘‘ایک اہم کتاب ہے جس میں علوم جدیدہ،سائنسی قوانین اور مغربی تہذیب کے اثرات سے متاثر مسلمانوں کی جانب سے شریعت کے اصول اربعہ میں روا رکھی جانے والی بعض اصولی غلطیوں کی بطور خاص نشاندہی کرتے ہوئے ارشادفرمایا کہ تجدد پسندوں نے:(۱) قرآن کو حجّت بھی مانا اور ثابت بھی مانا ؛مگر اس کی دلالت کی تعیین میں غلطی کی یعنی قرآن کے معانی متعین کرنے میں قواعد شرعیہ وعقلیہ کی مخالفت کی اورباطل تاویلات سے کام لیا۔(۲) حدیث کو حجت تو مانا ؛مگر ثبوت

میں کلام کیا ،اس لیے دلالت سے بحث ہی نہیں کی ۔(۳) اِجماع کو حجت ہی نہیں مانا اور (۴)قیاس کی جگہ ایک اور چیز خود گڑھ کرکے پیش کر دی جس کا نام رائے ہے۔پھرحضرتؒ نے قیاس(اِجتہاد) کی حقیقت ،اُس کی شرعی حیثیت ذکر کر کے اِس باب میں ہونے والی کوتاہی کا تذکرہ فرمایاہے کہ :

                ’’اب جس قیاس کا استعمال کیا جاتا ہے اس کی حقیقت صرف رائے محض ہے …. جس کو خودبھی ایسا ہی سمجھتے ہیں؛ چنانچہ محاورات میں بولتے ہیں کہ ہما را یہ خیال ہے۔سو حقیقت میںیہ تومستقل شارع بننے کا دعوی ہے ۔…..(اجتہاد کے باب میں ایک غلطی تو یہ ہے۔)

                دوسری غلطی محل قیاس میں ہے …..(یعنی کس موقع پر قیاس کی ضرورت پیش آتی ہے؟اس کا لحاظ کیے بغیرشرعی امور میں بلکہ منصوص حکم میں بھی اپنی رائے کو دخل دیتے ہیں۔درحقیقت)  قیاس کی ضرورت محض امور غیر منصوصہ میں ہوتی ہے اور اس میں تعدیۂ حکم کے لئے منصوص میں ابدائے علت (علت پر نظر کر نے)کی حاجت ہوتی ہے، تو (ایسی صورت میں)بدونِ ضرورتِ تعدیۂ حکم کے(یعنی جب تک کوئی ایسا واقعہ پیش نہ آئے جو غیر منصوص ہو کہ جس کے متعلق شریعت کا کوئی حکم بظاہر موجود نہ ہو،اُس وقت تک) منصوص میں علت نکالنا جائز نہ ہوگا۔ اب غلطی یہ کی جاتی ہے کہ منصوص میں بھی بلاضرورت علت نکال کر خود حکم منصوص کو وجوداً وعدماً اُس (علت)کے وجود وعدم پر دائر کر تے ہیں ۔ اوراسی سے ایک تیسری غلطی بھی معلوم ہو گئی یعنی غرضِ قیاس میں کہ(قیاس سے) غرضِ اصلی تعدیہ ہے غیر منصوص میں ،نہ کہ تصرف منصوص میں۔

                چوتھی غلطی قیاس کے اہل میں یعنی ہر شخص کو اس کا اہل سمجھتے ہیں ،(حالاںکہ) موٹی بات… ہے کہ ہرشخص اس کا اہل نہیں ہو سکتا ،کیوں کہ جو حاصل حقیقت ِقیاس واجتہاد کا اوپر مذکورہوا ہے ،اُس کی نظیروکلاء کا کسی مقدمہ کو کسی دفعہ کے تحت میں داخل کرنا ہے ۔سوظاہر ہے کہ اگر ہر شخص اِس کا اہل ہو، تو وکالت کے پاس کر نے ہی کی حاجت نہ ہو ۔پس جس طرح یہاں شرائط ہیں کہ قانون پڑھا ہو، یادبھی ہو ،اُس کی غرض بھی سمجھی ہو، پھر مقدمہ کے غامض پہلووں کو سمجھتا ہو، تب یہ لیاقت ہوتی ہے کہ تجویز کرے کہ فلاں دفعہ میں یہ مقدمہ داخل ہے۔‘‘

                یہ اقتباسات کتاب ’’الانتباہات المفیدۃ عن الاشتباہات الجدیدۃ‘‘میں ایک متن کی حیثیت سے مذکور ہوئے ہیں۔ آگے ہم  ملفوظا ت وغیرہ کے حوالے سے عصرِ حاضرمیں جدید مجتہدین کے اِجتہادات کی بعض نوعیتیں ذکرکریں گے۔یہ بات معلوم ہے کہ قرآن تمام عالم کے لیے(پہلے کی منتشر دنیا اور آج کی سمٹی ہوئی دنیا، سب کے لیے) کتابِ ہدایت ہے؛لیکن ہر شخص کے لیے اُس سے نفع اُٹھانے کا طریقہ،اُس کی فہم و اِستطاعت کے بقدر ہی ممکن ہے۔چوں کہ مغرب کے دور جدید میں مارٹن لوتھرکی تحریک (۱۴۸۳-۱۵۴۶)نے عوام کو بھی اِجتہاد کا حق دے رکھا تھا،اِس لیے اُس تحریک کے اثرات جب مسلمانوں تک پہنچے،تو اُنہوںنے بھی قرآن کریم میں اپنی فہم و رائے کو داخل کرنا شروع کر دیا؛لیکن یہ طریقہ غلط ہے،حکیم الامت حضرت مولا نا تھانویؒ فرماتے ہیں:

                ’’قر آن کریم میں جس قدر فہم کی ضرورت ہے اس کے لئے کتنے ہی آلات کی ضرورت ہے، جیسے صر ف ، نحو، منطق ،حدیث ،تفسیر ،اد ب،فقہ ، معانی وغیرہ وغیرہ ،…. اصل تواتنی ہے۔ اگریہ نہ ہو،تو مجبوری میںاِن سب کے قائم مقام یہ ہے کہ کسی عالم محقق سے پڑھ لیں ۔یہ بھی نہ ہوتو سوائے گمراہی کچھ نہیں …‘‘پھر اِس باب میںحدود کی خلاف ورزی کے نتیجے میں جوبے احتیاطیاں عام ہوتی چلی جا رہی ہیں،رنج اور اِصلاح کے جذبے کے ساتھ اُس کا تذکرہ کرتے ہیں:

                ’’  ایک وکیل صاحب کہنے لگے کہ میںنے یہ رائے قائم کی ہے کہ قرآن شریف کے ترجمہ کامطالعہ کیاکریں۔میںنے کہاکہ میں متفق ہوں اس میں؛ مگر میں آپ کے ساتھ تھوڑا سااختلاف کروںگا۔….چنانچہ میں نے وعظ میں بیان کیا کہ کسی سے ترجمہ نہ پڑھنے اور خود دیکھنے میںبڑی بڑی خرابیاں ہیں۔رہابینات وغیرہ جوالفاظ آئے ہیںقرآن مجید میں۔سو میںنے کہاکہ اول تووہ مبادی حاصل کرنے والے کی نسبت ہے ۔دوسرے علوم قرآن کی نصیحت کے دوجز وہیں: ایک ترغیب ترہیب، دوسراتحقیقات۔سو ترغیب کاجزو تومشکل نہیں۔مثلاًقیامت کے لئے تیاری کرو،دوزخ سے بچنے کی سبیل کرو، جنت حاصل کرنے کی فکر کرو، وغیرہ وغیرہ ۔

                یہ تودقیق نہیں، اِس کے اعتبار سے(قرآن) مطلقاًبینا ت ہے۔ باقی تحقیقات کاجزو ،سووہ مشکل ہے۔ اور میں نے واقعات سے بھی ثابت کیا تھاکہ صحابہ تک کوغلطی واقع ہوتی تھی ،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے تھے اور اِس سے بڑھ کر یہ کہ آپ سے زیادہ فہیم کون ہوگا؟ خود آپ کے بارے میں حق تعالیٰ فرماتے ہیں{ثُمَّ اِنَّ عَلَیْناَ بَیاَنَہ‘}کہ ہمارے ذمہ ہے اس کا بیان کرنا ۔سوجب آپ کوبھی ضرورت تھی بیان کی ،تواوروں کی توکیاحقیقت ہے؟ میں نے یہ بھی کہاتھاکہ اس سے معلوم ہواکہ علاوہ قرآن کے کوئی دوسری چیز بھی ہے جس سے اس کی تبیین وتوضیح ہوتی ہے ۔‘‘

(ملفوظات حکیم الامت جلد۱۹ حسن العزیزجلدسوم ص۲۴۰،۲۴۱ ) 

   فہمِ قرآن  حاصل کرنے کے لیے ضروری ہدایت :

        آج کل ایک سخت بے احتیاطی یہ ہو رہی ہے کہ اپنا مطلب ثابت کرنے کے لیے اصولِ تفسیر کو ملحوظ رکھے بغیر کہیں سے کوئی آیت پیش کر دی جاتی ہے ۔اِس طریقہ کاغلط ہونا بالکل بدیہی ہے: ’’ تجربہ سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ قرآن شریف کے مطالعہ میں صرف ایک آیت کادیکھنا اورتدبر کرنا کا فی نہیںجب تک سیاق سباق کونہ دیکھے ۔سیاق وسباق کے د یکھنے سے مدلو ل قرآن کامتعین ہوتاہے ۔بدون اِس کے کلام اللہ حل نہیں ہوسکتا۔ مثلاًایک موقع پرہے{ وَلَنْ یَّجْعَلَ ا للّٰہُ لِلْکٰفِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلاً}کہ اللہ تعالی کافروں کومسلمانوں پر غلبہ نہیں دیں گے ۔صرف دیکھنے سے معلوم ہوتاہے کہ کفار کو مسلمانوں پر غلبہ نہیں ہوسکتا، حالاںکہ واقعہ کے خلاف ہے، تواگر کوئی شخص صرف اِسی کودیکھے گا،اُس کوشبہ واقع ہوگا؛ مگر یہ شبہ سیاق میںدیکھنے سے حل ہوتاہے ۔اِس سے پہلے ہے :{اِنَّ اللّٰہَ جَامِعُ الْمُناَفِقِیْنَ وَالْکاَفِریْنَ فِیْ جَھَنَّمَ جَمِیْعا۔ًالَّذینَْ یَّتَرَبَّصُوْنَ بِکُمْ فَاِنْ کَانَ لَکُمْ فَتْحٌمِّنَ اللّٰہِ قَالُوْا اَلَمْ نَکُنْ مَّعَکُمْ وَاِنْ کَانَ لِلْکاَفِرِیْنَ نَصِیْبٌ قَالُوْا اَلَمْ نَسْتَحْوِ ذْ عَلَیْکُمْ وَنَمْنَعْکُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ} اس میں منافقین اورکفار کاذکرہے اس کے بعد ہے {فَاللّٰہُ یَحْکُمُ بَیْنَکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ}کہ اللہ قیامت کوتمہار ے در میان حکم کرے گا۔ اِس کے بعد ہے: {وَلَنْ یَّجْعَلَ ا للّٰہُ لِلْکٰفِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلاً}۔اس سے معلوم ہوگیاکہ یہ قیامت کے متعلق ہے دنیا کے متعلق نہیں ۔اب مطلب ظاہرہے ،کوئی اشکا ل بھی نہیں ۔مطلب یہ ہے کہ قیامت میں جواللہ تعالی فیصلہ کریگا اس میں کفار کی ڈگر ی نہ ہو گی مسلمان ہی غالب رہیں گے ،اُنہیں کی ڈگر ی ہوگی اورکفار ہاریں گے ۔ واقعی قیامت کوایساہی ہوگا کہ کفار کوکسی صورت سے مسلمانوںپر غلبہ نہ ہوگا۔اسی طرح قرآن میںسینکڑوں مقامات ہیں کہ بدون سیاق وسباق کے مطلب معین نہیں ہوتا۔آیات کلام اللہ کی مثال ایسی ہے کہ جیسے قطع بنداشعار ہوتے ہیں صرف ایک شعر کے دیکھنے سے مطلب سمجھ میں نہیںآتاتاوقتیکہ دونوںشعروں کوملا کرنہ دیکھاجائے ۔‘‘

(ملفوظات جلد۱۹ حسن العزیزجلدسوم ص۳۰۱ )

اجتہاد کی اہلیت:

اِجتہاد کے اہل کون لوگ ہیں،اُس کے متعلق فرماتے ہیں:

                ’’لغۃً مجتہدہرشخص سہی ؛لیکن وہ مجتہدجس پراحکام اجتہادجاری ہوسکیں ،اُس کے واسطے کچھ شرائط ہیں جن کا حاصل ایک ذوقِ خاص شریعت کے ساتھ حاصل ہوجاناہے جس سے وہ معلل اورغیر معلل کوجانچ سکے اوروجو ہِ دلالت یا وجوہِ ترجیح کو سمجھ سکے ۔‘‘’’اجمال واطلاق میں فرق کرنا بڑامشکل ہے ۔….اجمال کی تفسیر وبیان تو ظنی دلیل بھی ہوسکتی ہے،البتہ مطلق کومقید کرنے کے لئے قطعی میں ظنی دلیل کافی نہیں۔….‘‘

(ملفوظات حکیم الامت جلد۱۳-ص۲۱۹)

                اِس ملفوظ سے معلوم ہوا کہ اِجتہاد کے جو اصول فقہاء نے مدون کیے ہیں،اُن اصولوں کی بڑی اہمیت ہے اور اسی سے حضراتِ فقہاء کی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے کہ فقہائے مجتہدین ہی فی الواقع اِجتہاد کے اہل تھے،کیوں کہ اُنہیں فہمِ دین کے ساتھ خشیت بھی حاصل تھی :

                ’’فقہاء کی شان اور ان کا علم غیر فقہیہ کی سمجھ سے بالاترہے اور اس کی ایک غامض وجہ ہے، وہ یہ کہ اُن میںصرف علم ہی نہیں تھا؛ بلکہ اِس سے بڑھ کر ایک اور چیز اُن میں تھی او ر وہ خشیت ِحق ہے ۔اِس کو حقیقت رسی میں خاص دخل ہے۔اِن اسباب سے وہ حضرات اجتہاد کے اہل تھے۔‘‘

دورِ حاضر کا اِجتہاد اور جدید مجتہدین:رہی دورِ حاضر میںاِجتہاد کی صلاحیت اور اہلیت،تو:

                ’’ آیا اب اس قوت وملکہ کا شخص پایا جاتاہے یا نہیں یہ ایک خاص گفتگو فیما بین فرقۂ مقلدین و غیر مقلدین کے ہے جس میں اس وقت کلام کا طویل کر نا امر زائد ہے۔ کیوں کہ مقام ان غلطیوں کے بیان کا ہے جن میں جدید تعلیم والوں کو لغزش ہوئی ہے۔ اس لئے اس باب میں صرف اِس قدر عرض کرنا کافی ہے کہ اگر فرض کرلیا جاوے کہ ایسا شخص اب بھی پایا جاتا ہے ،تب بھی سلامتی اِسی میں معلوم ہوتی ہے کہ اپنے اجتہاد وقیاس ــپر اعتماد نہ کرے۔ کیوں کہ ہمارے نفوس میں غرض پرستی وبہانہ جوئی غالب ہے ،اگر اجتہاد سے کام لیاجاوے گا، تو قریب یقینی امر کے ہے کہ ہمیشہ نفس کا میلان اُسی طرف ہوگا جو اپنی غرض کے موافق ہو۔ اور پھر اِس کو دیکھ کر دوسرے نااہل اس(اِجتہاد کا) کا بہانہ ڈھو نڈ کر خود بھی دعوی اجتہاد کا کریںگے ا ور تقوی وتدین سب مختل ہوجاویگا ۔اِس کی نظیر حسی یہ ہے کہ ہائی کورٹ (اور سپریم کورٹ )کے ججوں کے فیصلے کے سامنے کسی کو حتی کہ حکام ما تحت کو بھی دفعہ قانونی کے دوسرے معنی سمجھنے کی اجازت محض اِس بناء پر نہیـں دی جا تی کہ اُن کو سب سے زیادہ قانون کے معنی سمجھنے والا سمجھا گیا ہے اور ان کی مخالفت کی اجازت سے ہر شخص اپنے طور پر کاروائی کرکے ملک میں تشویش وبد نظمی کا سبب ہو جاوے گا۔ بس یہی نسبت ہم کو مجتہدین کے ساتھ سمجھنا چاہیے۔‘‘(الانتباہات المفیدۃ:ص۵۴،مکتبہ البشری)

گمراہی کا پھاٹک کیوں کر کھلا:

                 فہم دین،خشیتِ حق،قوتِ اِجتہاد،شرطِ اجتہادکے معدوم ہونے کی صورت میںاگر اِجتہاد ہو گا،تو اُس سے سوائے اِس کے کہ غرضِ نفسانی کی پیروی ہو اور کیا ملے گا۔بیسویںیں صدی کے مجتہدین کے اِجتہاد پر گفتگو کرتے ہوئے حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں:

                ’’اِس وقت کے تو اجتہاد میں بھی وہی سوجھتا ہے جو نفس میں ہوتاہے{ اِلاَّ مَا شَائَ اللّٰہُ}مگر اکثریت اِسی اتباعِ ہوا کی ہے…‘‘’’اجتہاد تو آج کل اس قدر سستا ہوگیا ہے کہ ہر شخص مجتہد ہے،اب اجتہاد کے لیے علم کی بھی ضرورت نہیں رہی ۔‘‘

                ’’بہت ہی آزادی کا اثر ہوگیا ہے جس کو دیکھئے حدود سے نکلا ہوا۔جب ایسے ایسے جاہل آزاد ہوکرمسائل شرعیہ میں دخل دینے لگے جب ہی تو گمراہی کا پھاٹک کھل گیا۔ جدھر دیکھواور جس طبقہ کو دیکھواورجس کو دیکھو دین کے مسائل کا مدعی تحقیق اور تفسیرکا دعویٰ۔ نہ اِن لوگوں کے قلوب میں آخرت کا خیال،نہ خدا کا خوف۔خصوص بعض نیچریوں نے تو بیڑا اٹھارکھاہے قرآن و حدیث میں تحریف کرنے کا،اوریہ ان کا شعارہوگیا ہے۔‘‘( ملفوظات حکیم الامت جلد۶-الا فاضات الیومیہ ج۶ ص۳۶۰)

                ’’یہ مرض آج کل بہت عام ہوگیاہے،احکام اورمسائل میں رائے لگاتے ہیںجس کا مطلب یہ ہواکہ شریعت مقدسہ کو اپنے تابع بناناچاہتے ہیں۔ کہتے ہیںہمارے خیال میں یوں ہوناچاہئے ۔اس بدفہمی کا کیاعلاج کہ خالق کے مقررکردہ احکام میں رائے زنی کرتے ہیں۔ارے تم ہوکیاچیز اور تمہارا خیال ہی کیا چیزہے؟ یہ تو ایسا ہے جیسے ایک دانشمندانسان کی رائے پرچندبھنگے مل کر رائے دیںیا پانی کے اندر جوخوردبین سے کیڑے نظر آتے ہیںوہ کسی دانشمندانسان کی رائے کے مقابلہ میں اپنی رائے پیش کریں اوراپنے خیال کا اظہارکریں۔ سوجونسبت ان کیڑوںکوانسان سے ہوگی بندوںکو حق تعالیٰ سے اتنی نسبت بھی نہیں ۔ان کی ذات وراء الوراء ہے۔

….           واقعی بات یہ ہے کہ حق تعالیٰ خوداپنے دین کے محافظ ہیں، ورنہ نہ معلوم اگر ان اہل رائے کے قبضے میں اسلام اوراحکام ہوتے ان کی کیا گت بناتے ۔وہ تو غنیمت ہے، اِن کے قبضہ میں کچھ ہے نہیں۔چناںچہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں {اِنَّانَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ}(ہم نے قرآن کو نازل کیااورہم ہی اس کے محافظ ہیں۔)سو جب دین کے وہ خودمحافظ ہیں ،بھلا اس کو کون مٹاسکتاہے۔ گوان بدفہموںنے تومٹانے میںکوئی کسراٹھانہیں رکھی، اس لیے ان کا مکراوردام کچھ کم نہیں۔‘‘(ملفوظات حکیم الامت جلد۴ص۱۶۱،۱۶۲)

 اسلام کی دوستی کے پردے میںدشمنی:

                 ’’اِس زمانہ میں الحاد اورزندقہ،فتنہ،فسادکی حالت ہے کہ علاوہ علانیہ دشمنوںکے بہت سے اسلام کی دوستی کے پردے میںدشمنی کررہے ہیں اوران سب کی دشمنی گویااس آیت کا مصداق ہے{ وَاِنْ کَانَ مَکْرُہُمْ لِتَزُوْلَ مِنْہُ الْجِبَالُ}(ان کامکروشازش ایسی ہے کہ اس سے پہاڑبھی ہل جائے ۔ف) مگر ساتھ ہی {اِنَّانَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ}(ہم نے قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں یعنی دین اللہ کا ہے اس کی حفاظت کرنے والے اللہ ہی ہیں۔ف)کے موافق اللہ تعالی نے حق کی نصرت کرنے والی ایک جماعت بھی حسبِ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ’’لاَیَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ اُمَّتِیْ مَنْصُوْرِیْنَ عَلٰی الْحَقِّ لَایَضُرُّہُمْ مَنْ خَذَلَہُمْ‘‘قائم فرمایاکہ ان سب کے مکر اوردغل کو ہباء ًا منثورا کردیا۔مگر ان اعداء میں اسلام کو دوسروں سے اتنی شکایت نہیں جتنی اپنوں سے شکایت ہے۔‘‘(ملفوظات حکیم الامت  جلد۸ ص۵۵)

 بعض نیچریوں نے تو بیڑا اٹھارکھاہے قرآن و حدیث میں تحریف کرنے کا:

                ’’یہ زمانہ نہایت ہی پُرفتن ہے۔ دین میں تحریف کرنے والے اِس زمانہ میں بکثرت پیدا ہوگئے۔ ملحد اوردہری بھرے پڑے ہیں اور کوئی کام تو رہا نہیں شب وروز بیٹھے ہوئے احکام اسلام میں کتربونت کرتے رہتے ہیں۔احکام طب میں یا احکام تعزیرات ہند میں انہوںنے کبھی کتربونت نہیں کی۔‘‘ (ملفوظات حکیم الامت جلد۸-الافاضات الیومیہ جلد۸ ص۳۰)  ’’ آج کل ایسی خودرائی ہے کہ دین میں بھی جوجس کی سمجھ آتاہے تراش خراش کرنے کو تیارہے اوراس بیباکی کودیکھئے کہ جوسمجھ میں آجائے اس میںکسی سے مشورہ بھی نہیں کرتے گویاجوان کے دل میں آتاہے وہ وحی قطعی ہوتی ہے(نعوذباللہ)۔

عجیب تمثیل:

                ایسی حالت ہورہی ہے جیسے بجنورمیںایک فارسی داں نے ایک عالم کا رد لکھاتھا ۔کسی نے کہا آپ تو عالم نہیں عربی نہیں پڑھی،آپ نے کیسے ایک عالم کا رد لکھا۔ کہنے لگے کہ ہم فارسی جانتے ہیں اورفارسی جاننے والا سب چیز جانتاہے۔ ایک نہایت غریب آدمی ؛مگر ذہین، وہ بھی اِس کو سُن رہاتھا، وہ گھر پہنچا اور چارپائی کا ایک ڈھانچہ لیااور ایک بانوں کی لنڈی لی، ان کے مکان کے دروازہ پر پہنچ کر آوازدی قاضی صاحب! قاضی صاحب! وہ مکان سے باہر نکل کرآئے، کہتا ہے کہ حضرت میںغریب آدمی ہوں، یہ میری چارپائی ہے، اِس کو اللہ کے واسطے بُن دیجئے۔

                 قاضی صاحب یہ سُن کربرہم ہوئے اور کہا کہ یہ کیا نامعقول حرکت ہے ، ہم کیا جانیں چارپائی بننا۔کہاکہ حضرت میں نے سناتھا کہ فارسی پڑھا ہوا شخص ہرچیز جانتاہے ۔قاضی صاحب کو اپنی حقیقت معلوم ہوگئی ،اور سمجھ گئے کہ یہ اس کاجواب ہے۔ اِسی طرح یہ لوگ دین کے سمجھنے کا دعویٰ کرتے ہیں جیسے ان قاضی صاحب نے محض فارسی کے بولنے پر ایک عالم کا رد لکھنے کی ہمت کی تھی ۔‘‘

(ملفوظات حکیم الامت جلد۱-ص۱۹۰،۱۹۱)  

                (۱) ’’ایک دوست روایت کرتے ہیں کہ ایک غیر مقلد صاحب نماز میں بحالت امامت کھڑے ہوئے جھوماکرتے تھے جب نماز سے فارغ ہوچکے، توایک صاحب نے جولکھے پڑھے تھے پوچھا کہ نماز میں یہ حرکت کیسی؟ کہاکہ حدیث شریف میں آیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ بھائی ہم نے آج تک بھی ایسی حدیث نہ پڑھی نہ دیکھی نہ سنی جس کا یہ مطلب ہوکہ ہل کے نماز پڑھو۔لاؤ ہم بھی دیکھیں وہ کون سی حدیث ہے اور کس کتاب میں ہے؟ایک حدیث کی مترجم کتاب لاکر دکھائی اس میں حدیث تھی’’اِذاَاَمَّ اَحَدُکُمْ فَلْیُخَفِّفْہُ‘‘اور ترجمہ تھا کہ جب امامت کرے تو ہَلْکِی نماز پڑھے۔ آپ نے لفظ ہَلکی بمعنی خفیف کو ہِلْ کے بمعنی حرکت پڑھا اور ہلنا شروع کردیا۔یہ حقیقت تھی ان کے اجتہاد کی۔‘‘

                (۲)’’ایک صاحب کا ایک اخبار شائع ہوتاہے۔یہ صاحب اس میںکفارکی مدح بھی لکھتے ہیں اسی بناء پران کو لکھ دیا ہے اپنا اخبارمیرے پاس نہ بھیجاکریں، اس میںکفار کی مدح ہوتی ہے۔ غضب یہ کیا ہے اس شخص نے کہ ’’اُولِی الْاَمْرِمِنْکُمْ‘‘ میںکافرحکام کو داخل کیا ہے ،کچھ تاویل سوچ لی ہوگی اور تاویل کون سی بڑی مشکل چیزہے ایک مولوی صاحب فرمایاکرتے تھے کہ تاویل کا اتنابڑاپھاٹک ہے کہ اگر دوہاتھی اوپرنیچے کھڑے کرکے نکال دیئے جائیں تو بے تکلف نکل سکتے ہیں۔یہ حالت ہے سمجھ اور فہم کی کہ محض دینوی اغراض کے لئے آیات واحادیث میںبھی تحریف کرتے ہیں کتنی بڑی جہالت ہے اگرایسے جاہل سے خطاب کیاجائے کیا امید ہے سمجھنے کی جب کہ مخاطب میں فہم بھی نہ ہو،تدین بھی نہ ہو۔ اگرایسی فضولیات کے ردکی طرف متوجہ ہواجائے تو ضروری کام سب چوپٹ ہوجائیں اس لئے:’’وَاِذاَخاَطَبَھُمُ الْجاَہِلُوْنَ قَالُوْا سَلاَماً‘‘پر عمل کیا جاتاہے ۔‘‘

(ملفوظات حکیم الامت جلد۲ ص۳۴۸ ) 

(۳)  ایک ملحد کا صرف تین روزے ماننا:

                ’’ایک شخص نے دعوی کیا ہے کہ روزے اسلام میں صرف تین ہیں اورایساخبط ہواکہ اس کواشتہارمیںچھاپ د یا ہے۔ دلیل یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے قرآن کریم میں کُتِبَ عَلَیْکُمُ  الصِّیَامُ کے آگے فرمایا اَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ اوراَلْقُرْآنُ یُفَسِّرُ بَعْضُہُ بَعْضاً ۔یہی لفظ دوسری جگہ بھی ہے وہاں جو مراد ہے وہی یہاں بھی لینا چاہئے دوسری جگہ یہ ہے وَاذْکُرْفِیْ اَیَّامٍ مَّعْدُوْداَتٍ یہ حج کے بیان میں ہے۔اور اس سے مرادگیارہویںبارہویںاورتیرہویںتاریخ ہے۔تو روزہ بھی انہیں دن کا ہوا۔باقی مولویوںکی گھڑت ہے۔(یہ روزے کے تین ہونے کی دلیل ہے)نہ معلوم یہ شخص لَنْ تَمَسَّنَا النّاَرُ اِلَّا اَیَّامًامَّعْدُوْداَتٍمیں کیا مراد لے گا۔شاید یہودکایہ عقیدہ تھاکہ صرف گیارہویں بارہویں تیرہویں کو عذاب ہواکرے گا۔سو یہ بالکل خلاف واقع ہے۔اپنے زعم میں دل خوش کرلیا اورسیاق وسباق سب کوبگاڑدیا۔فَمَنْ شَہِدَمِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ اورشَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ وغیرہ سب سے آنکھ میچ لی۔ اور ان احمقوںکے یہاں حدیث کوئی چیز نہیںقطع نظرحدیث کے ساتھ عقیدہ رکھنے کے تاریخ کے مرتبہ میںتو اس کوماننا چاہیے اوراس کا قائل ہونا چاہئے کہ صحابہ نے اورجمہورامت نے تیس روزے رکھے کیا آج تک کسی نے بھی قرآن کے مدلوںکونہیںسمجھا۔ان بیوقوفیوںاورخودرائیوںکاکوئی جواب کہاں تک دے ۔لطف یہ ہے کہ کوئی کیسی ہی بدیہی البطلان بات کہے اس کے بھی متبع کچھ نہ کچھ لوگ ہوجاتے ہیں۔بلکہ حق کے متبع جلد نہیں ہوتے اورباطل کے منہ سے نکلنے کی دیر ہے کہ متبع موجود ہیں۔‘‘

(ملفوظات حکیم الامت جلد ۲۰- حسن العزیز جلد چہارم ص ۶۲)

(۴)فرقۂ قرآنیہ کے موجد کی فتنہ گری:

                ’’عبداللہ چکڑالوی فرقہ قرآنیہ کا موجد تھا،اُس نے نماز میں سے سنتیں وغیرہ سب اُڑادیں۔اورپھرجہاں ایسی آسانی ہو اس کی طرف کیوںنہ متوجہ ہوں۔

‘(ملفوظات حکیم الامت جلد ۱۸- حسن العزیز جلد دوم ص ۱۳۱)

(۵)ایک مجتہدِ وقت:

                ایک مجتہدِ وقت ’’صرف ونحوومنطق کوبدعت کہتاتھا …اس کا عقیدہ تھا کہ نمازتوفرض ہے؛ مگر وقت شرط نہیں۔‘‘(ملفوظات حکیم الامت جلد۱-الافاضات الیومہ جلد۱ص۲۰۸،۲۰۹)

(۶)ایک عربی داں گریجویٹ:

                ’’ نماز کی مخصوص صورت صرف مسجدوں میں جماعت کے ساتھ پڑھنے والوں کے لیے ہے۔علیحدہ اور منفرد اشخاص کے لیے یہ مخصوص صورت واجب نہیں؛ بلکہ محض دل سے یادِ خدا کر لینا کا فی ہے۔‘ ‘

                  بیسویں صدی کے تیسرے عشرہ میں الہ آ باد یو نیورسٹی کے لکچرار جناب نعیم الرحمٰن کی طرف منسوب یہ اقتباس ہے جسے علامہ سید سلیمان ندوی ؒ نے ذکرکے یہ تبصرہ فر مایا ہے:

                 ’’سوچنے کی بات ہے کہ یہ گمراہیاں اور غلطیاں کیوں پیش آ رہی ہیں؟اس لئے پیش آرہی ہیں کہ کتاب کے ساتھ’’ سنت ‘‘کو نہیں لیا جاتا۔یہی غلطی گزشتہ معتزلہ نے بھی کی اوراب موجودہ معتزلہ بھی کر رہے ہیں۔ ….سوال یہ ہے کہ جناب رسول اﷲ ﷺپر صرف الفاظِ قرآنی اِلقا ہو ئے،یا ان کے معا نی بھی القا ہوئے؟ …اور اگر آپ نے اس کے معانی و مطالب اور تشریحات اپنے پیرئوں کو بتا ئے، تو وہ کیا ہو ئے،؟اور کہاں ہیں؟ اور کیوں کر مٹ گئے؟ اور کب مٹ گئے؟ اور {و انا لہ لحافظون }ہم ہیں اس کی حفاظت کر نے وا لے،کا وعدہ کیا ہوا؟….‘‘(مکمل جواب کے لئے دیکھئے مضمون’’ لفظ صلوۃ قرآن شریف میں ‘‘ از علامہ سید سلیمان ندوی ، مقالاتِ سلیمان (۳) ص ۲۷۶ تا ۲۸۳ بحوالہ معارف اکتوبر ۱۹۲۷ء؁)

فتنۂ جمیدہ:

                اِن واقعات کا تعلق مردوں سے تھا۔مردوں کے بعدنعرۂ مساواتِ مرد و زن کی فریب خودرہ ’’جدید عورت‘‘ نے تمام قدیم روایات کو تہہ وبالا کرتے ہوئے ایک ایساکارنامہ انجام دے ڈالاکہ جس کا خواب عرصہائے دراز پہلے سے مغرب دیکھتا چلا آ رہا تھا اوریہ چاہ رہا تھا کہ مسلمان کہلانے والی اور اسلام کی طرف منسوب کوئی عورت ہی ایسا کام کردے ،کہ مردوں کو مقتدی بنا کر خود امامت کرے۔محترمہ جمیدہ نے مغرب کی اِس دیرینہ خواہش کی سر انجام دہی کا سہرا اپنے سر لیا۔مردوں کو مقتدی بنا کر خود امامت کی اورنماز کے نام سے بعض امور انجام دے ڈالے۔واقعہ کی اِطلاع اِس طرح ہوئی کہ۲فروری ۲۰۱۸روزنامہ ’’خبریں‘‘میں ایک عنوان نظر سے گزرا’’پہلی مسلم خاتون امام‘‘۔اِس عنوان کے تحت خبر نگار نے لکھا :

                ’’اب فتنۂ جمیدہ اپنا سر اُٹھا رہا ہے …جس کی بانی ہیں جمیدہ بیوی۔خود کو ماڈرن کہتی ہیں اور جنسی تبعیض کو دور کرنا چا ہتی ہیں۔‘‘یعنی ’’خواتین کومردوں کے برابر درجہ دلانا چا ہتی ہیں۔‘‘’ ’قرآن وسنت سوسائٹی نامی ادارے کی سکریٹری ہیں۔اور آئے دن مسلم مسائل کے نام پر لوگوں سے بھڑی رہتی ہیں۔‘‘

                سی این نیوز ۱۸ نے جو حقائق پیش کیے ہیں اُن کے مطابق محترمہ کو نماز میںمردوں کی امامت کر تے ہوئے دکھایا گیا ہے جس میں موصوفہ رکوع کے بعد کھڑے ہوتے وقت بجائے سمع ا ﷲ لمن حمدہ کے، ا ﷲ اکبر کہتی ہیں اور ایک سجدہ کر کے نماز مکمل کر دیتی ہیں۔محترمہ پر زی نیوز پورا پروگرام کر چکا ہے۔

                ’’جمیدہ کا کہنا ہے ہم صرف قرآن کو مانتے ہیں،حدیث میں لکھی ہوئی باتوں کا جمیدہ نے صاف ا ِنکار کر دیا۔‘‘۔محترمہ نے نیوز ۱۸ ہندی سے فون پر بات چیت میں کہا’’نماز پانچ وقت کی نہیں تین وقت کی ہو تی ہے۔‘‘اور’’ایک بار ایک رکعت میں صرف ایک مرتبہ ہی سجدہ ہوتا ہے۔‘‘

                آگے خبر نگار نے اِستدراک کر تے ہوئے لکھا ہے:

                ’’لیکن دن میں تین نماز اور ایک سجدہ کا ذکر قرآن میں کہاں کیا گیا ہے؟اِس بارے میں جمیدہ کوئی جواب نہیں دے سکیں۔‘‘اِسی طرح’’مرد خواتین کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں۔اِس بارے میں بھی جمیدہ کوئی دستاویز پیش کرنے سے بھی انکار کرتی ہیں۔‘‘

   آزادیٔ نسواں؛فیمنزم(Feminism):

                نماز کے متعلق جناب نعیم الرحمٰن صاحب کے مذکورۃ الصدر اِجتہاد کے متعلق علامہ سید سلیمان ندوی ؒ نے جو سوالات قائم فرمائے ہیں،وہ اہم ہیں۔علامہ نے مرض کا جو سبب بتلایا ہے ،وہ بھی اہم ہے؛ لیکن تجدد پسندوں کے اِس طبقہ کے متعلق عرض کیا جا چکا کہ اِس نے :(۱) قرآن کو حجّت بھی مانا اور ثابت بھی مانا ؛مگر اس کی دلالت کی تعیین میں غلطی کرتا ہے یعنی قرآن کے معانی متعین کرنے میں قواعد شرعیہ وعقلیہ کی مخالفت کرتا ہے اورباطل تاویلات سے کام لیتا ہے۔رہی سنت اور حدیث،تو حدیثیں اِس طبقے کے نزدیک ثابت ہی نہیں ہیں۔ اس لیے حدیثوں کے ذریعہ ہونے والی تشریح قابلِ قبول ہی نہیں ۔جیسا کہ مذکور ہوا کہ’’ حدیث میں لکھی ہوئی باتوں کا جمیدہ نے صاف ا ِنکار کر دیا۔‘‘

                لہذا اب اِس قسم کے فتنوں کے سر اُٹھانے کی وجہ کیا قرار پائے گی؟اوراِس کا سبب فاعلی (Efficient cause)کیا ٹھہرے گا؟در حقیقت اِس کی علت فاعلی وہی ہے جس کی طرف حکیم ا لامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اِشارہ فرمایا ہے یعنی’’اتباعِ ہوا ‘‘’’خود رائی‘‘(Individualism)۔

’’خود رائی‘‘(Individualism):

                 اِس فکر کا تعارف اِس لیے ضروری ہے تاکہ معلوم ہوسکے کہ جمیدہ اور وہ تمام مجتہدین جن کا تذکرہ آگے آرہا ہے ایسے ذی فہم نہیں تھے کہ کتاب اﷲ کو معاشرے میں نافذ کرنے کے وہ راز جو آج تک (سلف سے خلف تک)کسی پر نہ کھلے،زمانے کی فہم نے اور رفتارِ زمانہ کی موافقت کے داعیے نے اِن پر کھول دیے۔یہ موافقت(گو باطل سہی؛)خود اِن کا کمال نہیں ہے؛بلکہ یورپ کے ملحدوں کی اِتباع کا نتیجہ ہے۔یہ فکر(’خود رائی ‘یا ’فرد کی آزادی‘) جن رُجحانات کی مُبلَّغ و مناد ہے،اُن رجحانات کے حاملین تو پہلے بھی تھے۔البتہ ۱۹ویں صدی عیسوی میںزورو قوت کے ساتھ یہ فکر ،مستقل تحریک کی شکل میں اولاً انگلستان میں مذہب کی بے اعتباری religious no confirmity کا رنگ لیے ہوئے ،ثانیاًامریکا میں انسان کے ’’فطری حقوق‘‘ (natural rights)کی شکل میں ابھری۔ یہ ’’فطری حقوق‘‘-جس کے تحت ’’مساواتِ مرد و زن‘‘ کی تحریک پروان چڑھی-بھی سائنسی تہذیب اور مغربی اصولوں پر مبنی ایک خاص فکر ہے ۔یہ دونوں تحریکیں بھی پہلے سے جاری تھیں ؛لیکن  اِن کے اثرات مسلم ممالک کے معاشرے میںکچھ زیادہ اعتبار حاصل نہ کر سکے تھے۔پھر ایک وقت آ یا جب۱۸۴۸ء میں مغربی’’ہادمِ روایات فکر مندوں‘‘(Abolishnist activist) کے ایک گروپ کا- نیویارک میں ’الیزا بیتھ کیڈی ‘اور’ لکریشیا موٹ ‘کی دعوت پر- اِجتماع ہوا،جس میں زیادہ تعداد عورتوں کی تھی ۔یہی وہ اِجتماع ہے جس میں عورتوں کے ا ندر ’خود رائی‘(Individualism)کو اُبھارنے اور مذہبی و روایتی قدروں سے آزادی دلانے کے لیے ’حقوقِ نسواں ‘کے نام سے مباحثے کا اِنعقاد کیا گیا۔بعد میں اِسی ’حقوقِ نسواں ‘کی تحریک کا نام ’’فیمنزم‘‘پڑا،اِس تحریک کا مقصود یہ تھا کہ سیاسی،معاشی،ذاتی اور سماجی تمام مناصب اور اعزازات دونوں جنسوں کو حاصل ہونے چاہئیں۔یہ اِجتماع ایسارنگ لایا کہ ازمنۂ ما بعد میں مرحلے واراِس فکر میںترقی ہوئی اوراِس کا دائرۂ کار تمام عالم کو محیط ہوتا چلا گیا۔یہ اِحاطہ بتدریج ہواجوچار مراحل پر مشتمل ہے:

(۱)پہلا مرحلہ؛۱۹ویں،بیسویں صدی کا اِبتدائی عہد:

                اِس عہد میں یہ پروگرام چلایا گیا کہ جنسی نابرابری کو ختم کر کے قدیم سے چلی آرہی تمام مذہبی پابندیاں،تمدنی ملحوظات اور روایتی اقدار اُلٹ دی جائیں ۔

(۲)دوسرا مرحلہ؛۱۹۶۰-۱۹۸۰ء:         اِس مرحلے میں یہ موضوعات زیرِ بحث آئے کہ ثقافتی دلچسپیان دونوں جنسوں کی الگ الگ کیوں ہیں؟قدروں،خوبیوں اور کمالات کے باب میں دونوں میں اِمتیاز کیوں برتا جاتا ہے؟دونوں کی دلچسپیان مشترک ہونی چاہئیں۔

(۳)تیسرا مرحلہ؛۱۹۹۰-۲۰۰۰ء:         

                 اِس مرحلے میں دوسرے مرحلے کے منشورات کے نفاذ میں پیش آنے والی رُکاوٹوں اور حاصل ہونے والی ناکامیوں کا جائزہ لے کر اہداف کو یقینی بنانے کی کوششوں اور تدبیروں کو بروئے کار لانے پر زور دیا گیا۔

                جب۱۹۴۸ء میں اقوامِ متحدہ کے ذریعہ مردو زن کے حقوق میں یکسانیت کی وضاحت کر دی گئی،تواُس کے بعد ہی سے عورتوں پر سے مذہبی اوراخلاقی پابندیاں ہٹانے،معاشرہ کے تمام کاموںمیں اُسے مردوں کے قدم بہ قدم اور شانہ بہ شانہ سڑک سے لے کر دفتر تک اوررسپشن سے لے کر ایر ہوسٹ تک لانے اورمین اِ سٹریم میں دوڑانے کے حوالے سے در آنے والی رُکاوٹوں کو دورکرنے کے لیے۱۹۷۵ء میں عورتوں کی ایک عالمی کانفرنس بلائی گئی،پھر اس سال کو اِنٹرنیشنل ویمنس اِئر(عالمی سالِ نسواں )کا نام دے دیا گیا۔پھر یہ ’’سالِ نسواں ‘‘جنگی پیمانے پر کی جانے والی اُس دس سالہ کاوش کا ایک حصہ قرار پایا جس کا اِعلامیہ’’عشرۂ نسواں‘‘(۱۹۷۵-۱۹۸۵ء)کے طور پر اقوامِ متحدہ کی جانب سے عورتوں کی آزادی اورخود اختیاری کے حقوق کو ترقی دینے کے واسطے مختص کیا گیا تھا ۔اِس ’ورلڈ کانفرنس سیریز ‘میں تسلسل کے ساتھ دنیا بھر کی عورتوں کی نمائندگی عمل میں آنے کے کچھ دیر بعد ۱۹۹۵ء میں چار کانفرنسیں اور ہوئیں جن میں:

                ٭ جنسی یکسانیت کے باب میں سنجیدہ کوشش پر زور دیا گیا ۔٭ معاشرے میں عورتوں کی نمائندگی کو کس طرح زیادہ سے زیادہ موثر بنایا جائے،اِس پر مباحثہ ہوا۔٭ دونوں جنسوں کو ایک دھارے میں لایا جائے کہ معاشرتی، معاشی،سماجی اور ثقافتی امور(عقائد،خیالات،طورطریقے،اعمال ،دلچسپیوں،آرٹ، رقص،بے حیائی،فُحش فنون لطیفہ وغیرہ کی طرف رغبت و رجحانات کے باب میں مذہبی رکاوٹیں کس طرح دور کی جائیں تا کہ فرد) معاشرے میںترقی کرسکے۔

(۴)چوتھا مرحلہ؛۲۰۰۸ء-دورحاضر :

                 محقق ڈائنا ڈائمنڈ نے اِس مرحلے کی وضاحت کرتے ہو ئے لکھا ہے کہ یہ مرحلہ سیاست،نفسیات اور روحانیات سے زیادہ تر وابستہ ہے ۔اور اِس میں یکساں حقوق کے حوالے سے اعلی و اقدم کوشش اِس بات کی ،کی جانی ہے کہ روحانی امور کی قیادت کے باب میں عورتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔یعنی مذہبی اعمال اور اِجتماعی عبادات میں مردوں کی قیادت عورتیں بھی کریں۔

مسلم دنیا پر پڑنے والے مغربی اثرات:

                عورتوں کی ترقی اور آزادی کے عنوان سے مغربی دنیا میں ہونے والی اِن کاوشوں کے نتیجے میں اہلِ اسلام پر کیا اثرات مرتب ہوئے،اُن کا تذکرہ بھی عبرت آموز ہے۔گزشتہ بیان میں جس ’’اِنفرادی آزادی ‘‘کا تذکرہ کیا گیا،اُسی کا یہ اثرہے جس نے عورت کے اندر آوارہ اِجتہا کی خواہش اور اُمنگ پیدا کی اورجس نے مغربی’’انسانیت‘‘(Humanity)کی آڑ لے کراسلامی احکام اورشرعی قوانین کے اِنہدام کا مطالبہ خود نام نہاد مسلم عورت سے ہی کروالیا:

                ‘‘Why only tripple talaq?whole Islamic

law or sharia law should be abolished.All religious laws

     should be abolished for the sake of humanity.’’

                (’’نہ صرف تین  طلاق؛بلکہ تمام اسلامی قوانین اور شرعی احکام منہدم کر دیے جانے چاہئیں۔تمام مذہبی ہدایات’’انسانیت ‘‘کی خاطر ڈھا دی جانی چاہئیں۔‘‘تسلیمہ نسرین۲۲ اگست ۲۰۱۷)

                مسلمان عورتوں میں مردانہ مشاغل کی ہوس اور حرص مصری مفکر قاسم امین(۱۸۶۳ -۱۹۰۸ء) کی تحریروں سے پیداہوئی۔ وہ ا پنی کتاب ’’تحریرالمراۃ‘‘(۱۸۹۹ء؁)کی وجہ سے ایک طرف اہلِ مغرب کی نظرمیں father of Egyptian feminist(تحریکِ نسواں کے بانی)شمار کیے گئے،تودوسری طرف موصوف کے ذریعہ ماڈرن عہد میں عورت کو اِباحیت پسندی کی طرف رغبت دلانے والے ایسے تصورات پیش ہوئے جن سے آج بھی دنیائے اسلام اور عرب دنیا کے نیچریت زدہ افراد اِستفادہ کر رہے ہیں۔قاسم امین ڈارون کی اِرتقائی تحریروں سے متاثر تھے ،مساواتِ مرد و زن کے متعلق اُن کی تحریریں ہربرٹ اِسپنسر اور جان اِسٹورٹ مل کے خیالات کا گویا عربی میں ترجمہ ہیں۔محمدعبدہ مصری(۱۸۴۹-۱۹۰۵)،سعد زغلول مصری(۱۸۵۹-۱۹۲۷ء)بھی قاسم امین کی تحریروں کے زبردست حامی رہے ہیں۔

                ۱۸۹۲ء سے عورتوں کی صحافت نے پردہ،نکاح ،طلاق کثرتِ اِزدواج ،مساواتِ مرد و زن پر آواز اُٹھانی شروع کی۔اور اسلامی احکام کی ،بدلتے حالا ت کے ساتھ تطبیق پر زور دیا۔پہلے مصر پھرترکی،ایران،شام،لیبیا میں ’’انفرادیت ‘‘کی دلدادہ عور رتوںنے مذکورہ مسائل میں مغرب کے خیالات سے اِستفادہ کیا اور ’’مغربی فیمنسٹ میگزین‘‘کا کثرت سے مطالعہ کیا۔یہ اثرات آگے بڑھے ،یہاں تک کہ بیسویں صدی عیسوی میں کثیر تعداد لیڈیز ریفامروں کی پیدا ہو گئی۔

                اِن اِسکالروں میںمفسر قرآن عائشہ عبد الرحمٰن(بنت الشاطی:۱۹۱۳-۱۹۹۸)،مصری امریکی مصنفہ ہارورڈ ڈیوینٹی اسکول میں اسلامک فیمنسٹ کی پروفیسرلیلا احمد(۱۹۴۰) ،پاکستانی امریکی مصنفہ،مفسرِ قرآن اور مطالعۂ عورت کی متخصص اسماء برلاس (۱۹۵۰ء)۔جارج ٹاؤن یونیورسٹی کی پروفیسر جرنلسٹ ،’’تنتریکا:خدا سے محبت کی شاہ راہ‘‘کی مصنفہ-جنہیں خدا سے تعلق و محبت کا راستہ ہندو اور بدھسٹ میں نظر آنے لگا ہے- اسری نعمانی(۱۹۶۵ء)،فیمنسٹ زینہ شامی(۱۹۵۴ءHead of sisters in Islam)شامل ہیں۔

                آخر الذکر محترمہ نے اِس بات پرکافی اِحتجاج درج کیا ہے کہ عورت امامت کیوں نہیں کر سکتی؟  اُن کا یہ احتجاج ذاتِ زینہ تک محدود نہیں؛بلکہ آگے بڑھا ،یہاں تک کہ۲۰۰۳ء میں الفارق خاکی نے ’’نماز کی اِمامت عورت کوبھی کرنا چاہیے(Women led prayer)‘‘ نام کی تحریک چلا دی۔۲۰۰۴ء میںایک تنظیم متحدہ مسلم تنظیم(United Muslim association-U.M.O.) کے نام سے قائم ہوئی جو اِس کوشش میں لگ گئی کہ عورت کو نماز میں اِمامت کا اِختیار حاصل ہونا چاہیے۔اِن ’’عقلمندوں ‘‘کی کاوش کا یہ ثمرہ ظاہر ہوا کہ پہلے، بست سالہ مریم کو یہ موقع حاصل ہواکہ ٹورنٹو کی اتوبیکاک مسجد میں اُس نے عید الفطر کا خطبۂ ثانی دے ڈالا۔بات اِس پر ختم نہیں ہو گئی؛بلکہ اسلام کی ساڑھے چودہ سو سالہ تاریخ میں بعض اور فتنے بھی برپا ہونے باقی تھے جو ہو کر رہے :

                ٭ یاسمین شدیز نے مردوں اور عورتوں پر مشتمل جماعت کی عشاء کی نماز میں اِمامت کر کے ولیانِ نعمت اہلِ مغرب کی نگاہ میں’’ سرخ روئی‘‘ حاصل کی۔اِسی سال۲۰۰۴ء رمضان کے آخری جمعہ میں یہ ہوا کہ ایک عورت نے مردوں کا لباس پہن کر اور مصنوعی مونچھ اور داڑھی لگا کر خطبہ دینا شروع کر دیا؛لیکن لوگوں کو احساس ہو گیا اور اُنہوں نے پکڑ کر پولس کے حوالے کر دیا۔یہ واقعہ بحرین میں ریاست کی سب سے بڑی مسجد میں ۷۰۰۰ مصلیوں کے مجمع میں پیش آیا۔

                ٭۱۸/مارچ ۲۰۰۵ء میںامریکی مسلم جرنلسٹ،پروفیسرہاروردڈیونیورسٹی،مفسرِ قرآن ،مصالحت بین المذاہب کی دلدادہ ،اسلامی احکام کی خلاف ورزیوں میں عورتوں کی طرف دارآمنہ ودود(۱۹۵۲ء)نے، ۱۰۰ سے زائد عورتوں اور مردوں پر مشتمل مجمع میں اِمامت کا شوق پورا کیا۔کنیڈا میں مسلم کنیڈین تنظیم نے راحیل رضا نام کی عورت کے لیے خطبۂ جمعہ پڑھنے اور نماز کی امامت کرنے کے لیے فضا بنائی اور یہ کام اُس سے لے لینے کے بعد کنیڈاڈے کے موقع پر اِس حصولیابی کے لیے جشن منایا۔

                یہ سب حالات پیدا کرنے کے لیے ابتداء ً ایک نو مسلم کافی کچھ ذمے دار ہے ،جس کا نام پیمیلیک ٹیلر ہے۔پھر بعض اہلِ علم( ’مفتی‘کے لقب آوردہ) اُس کے شریکِ حال ہو گئے۔اِس سلسلے کی کنیڈا میںدو تنظیمیں ہیں۔ایک تومذکورہ تنظیم یعنی’’ مسلم کنیڈین کانگریس‘‘،دوسری ’’کنیڈین مسلم یونین‘‘یہ تنظیمیںایک پلاننگ کے ساتھ مخلوط اِجتماعات کرا کے عورتوں سے امامت کراتی ہیں۔۲۰۰۷ء میں SisterHoodنام کی مسلمان عورتوں کی بین الاقوامی تنظیم قائم ہوئی۔انسانی حقوق کی داعی و مفکر اور فلم میکردیا خان نے یہ تنظیم اِس واسطے قائم کی تاکہ مسلم ثقافت کے حوالے سے اپنے میڈیا اور آرٹ پروڈکشن کے ذریعے عورتوں کی آواز بلند کی جاسکے۔۲۰۱۶ ء میں فلم میکردیا خان کی اِس تنظیم کو عالمی پیمانے پربین الاقوامی آن لائن میگزین کے طور پردوبارہ لانچ کیا گیا جس نے صرف چھہ مہینے کے اندر مسلمان عورتوں میں انفرادی بیداری ،مذہب سے آزادی ،سلف سے منقول اصولوں سے نفرت پیدا کرنے کے معاملے میں اپنی کوششوں سے بین الاقوامی سطح پر سال کی بیسٹ تنظیم کا اعزاز حاصل کیا۔مسلمان عورتوں پر مشتمل ذیل کی تنظیمیںبھی مذکورہ اہداف حاصل کرنے کے لیے زور و شور کے ساتھ کام کر رہی ہیں :

                ’’افغانی عورتوں کی انقلابی تنظیم ‘‘اِس تنظیم کی بانی مینا کشور کمال ہیں۔’’ملیشیا ئی عورتوں کی  سِسٹرس اِن اسلام‘‘یہ زینہ انور اور امینہ ودود کی قائم کردہ ہے۔ہندوستان میں’’بحوالۂ مساواتِ مرد و زن مسلم عورت کا اِستفسار‘‘۔ (دیکھئے نٹرنیٹ:Muslim womens quist equality,Liberilism and Progressivism in Islam,History of Feminism,Sisterhood,When did thr fight for women’s right begin ) اور فلاں شنکراچاریہ کے پیروکار فلاں خاتون نے ٹیلی فون پر فلاں مفکر سے کہا کہ آچاریہ جی موصوف’’ ایسے کئی عالموں کو بنگلور کی ایک تقریب میں دعوت دیناچا ہتے ہیں جو قرآن کریم میں تحریف و ترمیم کے قائل ہیں،اُن کے نام کی ضرورت ہے۔‘‘

 (خبریں: ۲۰ فروری ۲۰۱۸) 

                یہ چند مثالیں ذکر کی گئیں جن سے یہ اندازہ لگا پانا مشکل نہیں کہ بقول حکیم الامت حضرت تھانویؒ ’’علاوہ علانیہ دشمنوںکے بہت سے اسلام کی دوستی کے پردے میںدشمنی کررہے ہیں اوران سب کی دشمنی گویااس آیت کا مصداق ہے{ وَاِنْ کَانَ مَکْرُہُمْ لِتَزُوْلَ مِنْہُ الْجِبَالُ}(ان کامکروسازش ایسی ہے کہ اس سے پہاڑبھی ہل جائے ۔

اصل فریب:

                اصل بات یہ ہے کہ ’’ مغربی تہذیب نے… ہمیشہ ایسے نظریات کو تقویت بخشی ہے جو انسانوں کو ذات پات ،نسل،قبیلے،رنگ،زبان اور صنف میں(کبر و نفسانیت کی بنیاد پر) تقسیم کرتے ہیں۔….اِس تقسیم کا سب سے شاطرانہ شکاراِس زمانے میں مرد و عورت کی تفریق (مقابلہ و مخاصمہ )ہے جس کوgender disparityکے نام سے موسوم کیا جا رہا ہے۔اِس تقسیم کا نام ہی اِس نقطۂ نظر کا شاہد ہے کہ مرد و عورت کو حقوق کے اعتبار سے موجودہ دور میں نا اِنصافی کا شکار بنا دیا گیا ہے۔اِس نا اِنصافی کے سدِّ باب کے لیے حقوق کی لڑائی چھیڑنا لا زم ہے۔دورِ حاضر کی تہذیب کا سب سے اہم مقصد یہ ہے کہ معاشرے کے مختلف عناصر کو حق کی بازیافت کے لیے مسلسل معرکہ آرائی میں اُلجھائے رکھا جائے۔…..متذکرہ فکر کا نتیجہ یہ نکلا کہ اُس نے آزادیٔ نسواں (Women’s liberation)کی تحریک کا آغاز کیا۔اِس تحریک کی غرض یہ تھی کہ حقوق کے اعتبار سے مرد اور عورت دونوں کو برابر قرار دیا جائے۔مساوات کی اِس تحریک کے نزدیک محض حقوق کا اِثبات نہیں ہے؛بلکہ اُس کا اصل ہدف مردوں کی(خصوصیات میں)دست بُرد ہے۔یعنی نقطۂ آغاز اِس تحریک کا یہ ہے کہ مردوں سے حقوق چھینیں جائیں۔…..دوسری غایت جو عموماً سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ خواتین کے حقوق کی اِس طرح توسیع کی جائے کہ وہ پوری زندگی اور ہر طرح کی جد و جہد پر اِس طرح حاوی ہو جس طرح مرد کے حقوق۔ ‘‘(محمد آصف اقبال۔خبریں ۵/فروری ۲۰۱۸)

                 مرد و عورت کے حقوق اور مساوات کی مذکورہ بالا مغربی وضاحت (gender disparity)کے بعد: {للذَّکَر مِثْلُ حظِّ الْاُنْثَیَیْنِ، الرِّجالُ قَوّامُوْنَ عَلی النِّساء،لِلرِّجالِ  عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃٌاور وَلَا تَتَمَنّوا مَا فَضَّلَ اﷲ بہ بَعْضَکُمْ عَلی بَعْض}ِِ وغیرہ کی حیثیت خیالی تخمینے؛بلکہ اِستحصال اور نا اِنصافی سے زیادہ نہیں رہ جاتی۔ایسی صورت میں فرد کے حقوق کو لے کر اگر یہ معرکہ آرائی شروع ہوجاتی ہے کہ مرد امامت کر سکتا ہے،تو عورت کیوں نہیں ؟خطبۂ جمعہ مرد دے سکتا ہے،تو عورت کیوں نہیں ؟تو سمجھ لینا چا ہیے کہ اِن مطالبوں کی اصل جڑیں ’’انفرادیت‘‘(Individualism)میں پیوست ہیں۔اِس فکرکا یہی خاصہ ہے جو گزشتہ صفحات میں مذکور ہوا۔اگر یہ کہیے کہ اِختیاری امور میں یہ جھگڑا چل سکتا ہے؛لیکن غیر اِختیاری امر مثلاً حمل اور ولادت کے حالات میں اِس حرص کی تکمیل میں بے بسی ہی رہے گی۔تواِس کا جواب یہ ہے کہ بے شک بے بسی ہے؛لیکن معلوم ہو نا چاہیے کہ ۲۰۰۷ء میں اِس کی بھی مصنوعی کوشش کی جا چکی ہے کہ عورت کے حمل کا وظیفہ مرد انجام دے(ملاحظہ ہو ؛Wikipedia:Malepregnancy)اوراب حالت یہ ہے کہ خدا کی قدرتوںسے بغاوت کرنے اور اُس کے قدرتی قوانین سے کھلواڑ کرنے والا انسان جب تک خود کو تباہ نہ کر لے گا ،اُسے چین آنے والا نہیں۔

                کاش!مغربیوں کی نقل کرنے والے اِن مسلمان مجتہدوں کو  -جن کا گزشتہ صفحات میں ذکر کیا گیا -یہ معلوم ہو جاتا کہ’’ فرد کی آزادی‘‘ (جس کو حضرت تھانوی ؒ نے ’’اتباعِ ہوا ‘‘اور’’خود رائی‘‘کانام دیا ہے  اورجس کی ذیلی شاخیں ’’حقوقِ نسواں ‘‘و ’’مساواتِ مرد و زن ‘‘کے موضوعی نعرے کی شکل اختیار کیے ہوئے  ہیں)اِنگلینڈ کے خدائی مذہب سے باغی (Puritanism)مفکروں کے خیالات پر اور امریکا کے جیفرسنینز م (Thomas jaffersonianism)پرمبنی ہیں ۔طریقۂ سلف سے نفرت ،قرآنی ہدایات کی مخالفت اور مذہب سے بے زاری پیدا کرنے میں اِس فکر’’انفرادیت پسندی‘‘سے زیادہ کوئی اور مغربی فکرموثر اور مذہب کے لیے زہر قاتل نہیں ۔

                 اِس فکر کے حامیوں کے پیشِ نظر سیدھا ہدف مذہبِ اسلام کی اِصلاح ہے ۔اِن کے نزدیک ۱۴۰۰ سال پہلے دی گئی اسلام کی تمام ہدایتیں منسوخ ہیں،قرآن کا نیا ایڈیشن اُنہیں درکار ہے جو بدلتے حالات میں مغربی اُصولِ ترقی کا ساتھ دے سکے ۔رہی نماز وغیرہ کی طرف اُن میں سے بعض کی رغبت اور اِمامت وغیر ہ عبادات کے لیے عورت کو آگے لانے کی کوششیں ،تویہ اُس روحانیت کے زیرِ اثر ہے جس سے مقصود نفس کی تسلی ہے ۔یہ روحانیت یورپ کے پورٹین مذہب اور بیسویں صدی کے مغربی مفکر ولیم جیمس کی دریافت کردہ ہے ۔اِن کے نزدیک’’مذہب کی روح عقائد نہیں؛بلکہ اصلی چیز ہے جذباتی طلاطم ۔….‘‘ ’’عبادت اور دعاء کا مقصد یہ ہے کہ محاسبۂ نفس کیا جائے۔‘‘

(ملاحظہ ہو جدیدیت از پروفیسر محمد حسن عسکری ص۷۲،۷۳،نظریۂ فطرت از ڈاکٹر ظفر حسن)

                ہوا پرستی کے یہ وہ مغربی مقاصد ہیں جنہیں عبادات و روحانیات کا نام دے کر پروگرام رکھے جاتے ہیں،سیشن چلائے جاتے ہیں اور اِجتماعات منعقد کیے جا تے ہیں۔

           فخر الاسلام مظاہری ؔعلیگؔ

۳/جمادی االثانی۱۴۳۹/۲۰فروری ۲۰۱۸ء

خانقاہ نزد پولس چوکی،اندرا پارک،دیوبند

                موبائل :۹۰۸۴۸۸۶۷۰۹۔

Email:hkmfislam@gmail.com