مسابقۂ قرآنی کے مقاصد

رئیس الجامعہ:خادم القرآن حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانویؔ

                رئیسِ محترم کا یہ بیان دارالعلوم معماری میں منعقد آل بنگال نویں مسابقۃ القرآن الکریم کی انعامی واختتامی مجلس میں ہوا،جو مجلس نویں ریاستی مسابقۃ القرآن الکریم کی آخری مجلس تھی ۔ 

                جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کی دعوت پر آئے ہوئے دوردراز مدارس کے طلبہ اور اساتذہ؛ ہم سب سے پہلے اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا نے ۲۲ ؍سا ل پہلے مسا بقۃ القرآن کا ایک پروگرام شروع کیا تھا ،جسے اللہ نے مقبولیت سے نوازا اورہم آج نویں مرتبہ آل انڈیا مسابقۃ القرآن میں شریک ہورہے ہیں۔

                امسال مسابقۃالقرآن کا پروگرام راجستھان سے شروع ہوااوربنگال پہنچ کر بہ حسن خوبی پورا ہو چکاہے۔ بنگال مسابقۃ القرآن میں ۱۰۰؍ سے زائد ۱۳۸؍ مدارس کے طلبہ شریک رہے ۔اور الحمد للہ ان آنے والے طلبہ نے اپنی حیثیت اور اپنی محنت کاشان دار مظاہرہ کیا ہے۔

ہم ان مسابقات کے ذریعے کیا چاہتے ہیں؟

                ہم ان مسابقات کے ذریعہ یہ چاہتے ہیں کہ ہم اللہ کی اس مقدس کتا ب کی تلاوت ،ترجمہ ،عمل اوراسی طریقے سے اس کے حقوق واجبہ کے ساتھ حفاظت کریں۔الحمدللہ جس میں ہمیں بڑی حد تک کامیابی ملی ہے ۔ ہم مسابقہ کے ذریعہ مدارس کے درمیان تقابل ہرگز نہیں چاہتے ،یہ تقابل تو طلبہ کے ما بین ہے۔اس مسابقہ کے ذریعہ کسی بھی مدرسے کو نیچا دکھانا ہر گزمقصود نہیں ہوتا۔اگرکسی کے دل ودماغ میںایساوسوسہ جنم لے رہاہوتوآج ہی اورپہلی فرصت میںاپناذہن آئینہ کی طرح صاف کرلے۔اِس بات کوہمیشہ یادرکھیںکہ اگر ہم یہ چاہتے تو مسابقہ کی یہ تحریک فیل ہوکرگمنامی کی قبرمیںدفن ہوجاتی ۔ہمارا مقصد تو مدارس کے طلبہ میں قرآن کی تلاوت ترتیلاً،تدویراً اور ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ پڑھنے کا ایک داعیہ ، شوق اور جذبہ پیدا کرنا ہے ۔ہر مدرسہ میں الحمد للہ اچھا کام ہو رہا ہے۔ طالب علم کو قرآن ِکریم کی اس دولت کے حصول کے لیے جو محنت کرنی ہے ،اس محنت کے جذبے کو پیدا کرنا،ان کے اندر شوق اور ولولے کوابھارنااور اس کا صحیح طریقہ بتانا یہ مسابقے کا مقصد ہے۔

قرآن سے غفلت اور تلاوت کا عدمِ اہتمام:

                قرآن کے بارے میںجو غفلت ہے، وہ یہ ہے کہ قرآنِ کریم کی تلاوت سے آج بھی امت اپنے آپ کو دور کی ہوئی ہی ہے اور آپ عام لوگو ں کا مزاج جانے دیجیے ؛میں خود ہمارے مدارس کے طلبہ اور اساتذۂ کرام کے بارے میں کہتا ہوں کہ ’’ تحفیظ القرآن‘‘ میں طلبہ یقینا کچھ اساتذہ کی مارپیٹ اور ڈانٹ ڈپٹ سے حفظ کرلیتے ہیں،لیکن جب طلبہ عالمیت میں جاتے ہیں توحافظ طلبہ بھی قرآنِ کریم کی تلاوت سے اپنے آپ کو دور کرلیتے ہیں ۔ کچھ طلبہ ایسے بھی ہیں کہ جوشعبۂ عالمیت میں آنے کے بعد بھی اپنے قرآن کی حفاظت کرتے ہیں،لیکن عام طور پر یہ بات دیکھی گئی ہے کہ ہمارے مدارس کے طلبہ شعبۂ عالمیت میں آنے کے بعد تلاوت سے اپنے آپ کو دور کرلیتے ہیں۔معاف کیجیے! میں ان اساتذۂ کرام کے بارے میں بھی کہوںگا جو شعبۂ عالمیت میں کتابیںپڑھاتے ہیں ،علمِ فقہ پڑھاتے ہیں ،ان کے پاس مطا لعہ کا وقت ہے ،لیکن تلاوت کا وقت نہیں ہے۔تو مسابقۃ القرآن کے ذریعہ ہم طلبہ کو جوڑنا چاہتے ہیںکہ قرآن اس بارے میں کہتا ہے’’اتل  ما اوحی الیک الخ‘‘ اے نبی تلاوت کیجیے اس چیز کی جس کی آپ کی طرف وحی کی گئی ۔نبی کو تلاوت کا حکم دیا جا رہا ہے اور ہم نائبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ،ہم تلاوت سے اپنے آپ کوغافل کیے ہوئے ہیں۔

                حالاںکہ ہمارے پاس تلاوت کا بہت وقت ہے اذان سے پہلے نہیں ،توکم از کم اذان کے بعد فوراً اگر آپ مسجد میں آجاتے ہیں تو آپ چار رکعت یا دورکعت سنت پڑھ کر قرآن شریف لے لیجیے تو آپ ۲۰ ؍منٹ میں ایک پارہ قرآنِ کریم تلاوت کرلیںگے ۔ایک پارہ کے بجائے آدھا ہی پارہ تلاوت کیجیے اور دوسری نمازوںمیں پاؤ پاؤ تلاوت کیجیے؛اس طرح آپ چارنمازوں میں پاؤ پاؤ کرکے ایک پارہ تلاوت کرسکتے ہیں۔گویا کہ ایک مہینہ میں آپ قرآن شریف پورا کرسکتے ہیں۔(عہد لیتے ہوئے)تو آپ مجھے بتائیے کون کون روزانہ ایک پارے کی تلاوت کریںگے،وہ اپنا ہاتھ اونچا کریں۔ماشاء اللہ! آپ وعدہ کرتے ہیں،اگر آپ روزانہ ایک پارے کی تلاوت کریںگے تو آپ قرآن بھولیںگے نہیں،اس طرح آپ جب تراویح پڑھائیںگے تو آپ آرام سے پڑھالیںگے۔

                اور غیر حافظ جب ایک پارہ روزانہ قرآنِ کریم پڑھے گاتو اس کا ناظرہ بھی پختہ ہوگا۔بہت سے بچے بہت اچھا ناظرہ پڑھتے ہیں ،لیکن جب وہ عربی درجات میں آکر ناظرہ بھول جاتے ہیں۔تو ہم آپ سے اس مسابقۃ القرآن کے ذریعہ یہی گزارش کریںگے ،کہ آپ قرآن کریم کی طرف مکمل طور پرمتوجہ ہوجائیں۔

تفسیر کے مسابقہ کی ضرورت:

                ہمارے مدارس میں ماشاء اللہ ترجمۂ ٔقرآن داخل ِنصاب ہے ،لیکن طلبہ قرآن کریم کے ترجمہ میں غافل رہتے ہیں ؛اگر کوئی سخت استاذ ہے تو اس کو یاد کر کے سنادیا، لیکن اگر استاذ سختی نہیں کرتا تو ہمارا ترجمہ بھی پختہ نہیں رہتا ۔قرآن کریم کے بارے میں توجہ دیں ! قرآن کریم کے معانی میں تدبر کرنا،اس کے شان ِ نزول وغیرہ قرآنی علوم پر نظر کرناعلما کافریضہ ہے ۔

                 اگر آپ طالب علم ہیں ، تعطیلات میں اپنے گھروں پرجاتے ہیں، اور آپ اپنی مسجد میں ۵؍۱۰؍منٹ قرآن پڑھ کر ،ترجمہ کریںگے تو آپ کی بستی کے لوگ خوش ہوںگے کہ بھائی ہمارے گاؤںکے بچے مدرسے میںپڑھتے ہیں،آج انہوںنے قرآن کریم پڑھا اور ترجمہ کیا۔ترجمۂ قرآن اورتفسیر کی طرف پوری توجہ دیناہے اس لیے ترجمۂ قرآن وتفسیرکی فرع بھی رکھی گئی ہے۔اس کے لیے جامعہ کے اساتذہ نے سورۂ کہف کی تفسیر پر تیار مذکرہ بڑی محنت وجاں فشانی کے ساتھ آپ کو چھاپ کر دے دیا کہ آپ اس کا مطالعہ کریں ۔

مسابقۂ حدیث کا مقصد:

                اِس کے لیے ایک فرع رکھی گئی ہے حفظ حدیث کی ۔ہمارے مدارس میںمشکوٰۃ المصابیح؛ بل کہ اس سے پہلے ریاض الصالحین ،مشکوٰۃ المصابیح ،بخاری شریف،ترمذی شریف،مسلم شریف،ابوداؤد شریف اورطحاوی شریف حدیث کی بڑی بڑی کتا بیں پڑھاتے ہیں؛لیکن ہمارے مدارس اور طلبہ میںحفظ حدیث کی کوئی ترتیب نہیں۔عرب کے جامعات میں کئی سوحدیثیں یادکرنا طلبہ کے لیے ضروری ہے۔حفظ حدیث کی طرف جیسی توجہ ہم اہل مدارس کودینی چاہیے نہیںدیتے ۔طلبہ توکیا؛ اساتذہ بھی نہیںدیتے ۔

انسانی ہمدردی پر مشتمل مذکرہ تیار کرنے کا مقصد:

                ہم نے ہمارے شیخ الحدیث صاحب سے کہاکہ دنیا کے حالات بد سے بد تر ہوتے جارہے انسانی حقوق کی ہر سو پامالی ہورہی ہے؛لوگ مدارس و مکاتب قرآنی تعلیمات سے دور ہوچکے ہیں۔لہذا ہمارے مذکرہ میں انسانی حقوق صلہ رحمی آپسی ہمدردی پر مشتمل احادیث ہوں ؛تاکہ ہم امت کویہ بھی سمجھائیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوںکی ہمدردی کے تعلق سے کیا کیا فرمایا ہے۔

                حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’خیر الناس من ینفع الناس‘‘لوگوںمیںسب سے اچھا وہ ہے جو لوگو ں کو نفع پہنچائے ۔حضورنے یہ نہیں کہا’’ خیر الناس من ینفع المسلم‘‘کہ لوگو ں میں سب سے اچھا وہ ہے جو مسلمانوں کو نفع پہنچائے۔نہیں ہرگز نہیں!حضور نے ایسا نہیں فرمایا،بل کہ قرآن کریم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق سے فرماتا ہے:{وما ارسلنٰک الا رحمۃ للعالمین}کہ ہم نے آپ کو سارے جہانوںکے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قرآن نے یہ نہیںکہا’’وما ارسلنٰک الارحمۃ للمسلمین‘‘بل کہ’’ رحمۃ للعالمین‘‘ کہا۔میرے دوستو!اس میں سارے ہی لوگ آگئے۔

مدارس امت کا ایک عظیم سرمایہ ہے:

                بہت اچھے ہیں وہ لوگ جواِن کاموںکے لیے اپنے آپ کو تیار رکھتے ہیں۔مدارس امت کا ایک عظیم سرمایہ ہے ،یہ مدارس اگر نہ ہوتے تو میرے دوستو!ہم اس ملک میں قرآن ِکریم کی تعلیم سے کوسوں میل دور ہوتے، یہ مدارس جو محنت کرتے ہیں،یہ محنت ایسی ہے جس کوفراموش نہیںکیا جاسکتا ۔ہمارے یہاںایک مہمان آئے اور انہوںنے کہا کہ ہمارے یہاں ایک چھوٹا سا مدرسہ ہے ،میںنے کہا آپ کیا بات کررہے ہیں؟مدرسہ اورچھوٹا! کوئی مدرسہ چھوٹا نہیں ہوسکتا ،جہا ںقرآن کریم کی تعلیم ہو اُس کو آپ چھوٹاسمجھ رہے ہیں!ہر مدرسہ بڑاہے،چاہے اس میںپچاس بچے ہی کیوںنہ ہوں؟اللہ کے یہاں اس کا ایک مقام ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں بھی اس کا بڑا مقام ہے۔کوئی کسی مدرسہ کو حقیر نہ سمجھے ،ہر مدرسہ اپنے اندر ایک مہتم بالشان صفت رکھتا ہے،جس کے بارے میں میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ‘‘تم میں بہتر ہے وہ جو قرآن سیکھے اور سکھائے اس حدیث کے صحیح مصداق یہی لوگ ہیں۔

طالب علم کا مقام رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے اعتبار سے :

                میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کہ میرے بعد تمہارے پاس ایک قوم آئے گی ۔کس لیے ؟علم حاصل کرنے کے لیے۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میںان کے بارے میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ ان کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرنا۔تم کتنے خوش نصیب ہو کہ تمہارے بارے میں حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی؛لہٰذا ہمیں کبھی بھی احساس ِ کمتر ی کا شکار نہیں ہونا چاہئے ؛البتہ ہمیںاتباع ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا اہتمام کرنا چاہیے ،نماز میں اتباع،تلاوت میںاتباع ،حدیث میں اتباع؛الغرض ہر چیز میں اتباع ملحوظ ہو۔                 الغرض اللہ امت کی مدارس ومکاتب کی علماء امت کی تمام امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے،انسانوںکے دلوں میں انسانی ہمدردی پیدافرمائے،فرامینِ رسول وخالق رسول پر ساری امت کو عمل پیرا فرمائے اور ہمارے مسابقات کو اس کے تمام تر مقاصد کے ساتھ قبول ومقبول فرمائے۔آمین