قبلۂ اول بیت المقدس کیوں اور کیسے؟!!

بقلم: مفتی عبد القیوم صاحب مالیگانوی/استاذ جامعہ اکل کوا

بیت المقدس قبلۂ محبت وعقیدت :          

                عالم اسلام کا سب سے بڑا بحران اختلاف اورتنازعہ ہے۔ جس کی وجہ سے مسلمان آپس میں لڑرہے ہیں اوریہی مشکل بہت سارے مسلم ممالک میں پائی جاتی ہے۔امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دار الحکومت قرار دینے کا اعلان ایک دوسرابحران ہے، جو عالمی بحرانوں میں شامل ہوچکا ہے۔یہ بہت بڑا چیلنج اور سخت امتحان ہے۔ اگرچہ ماضی کے ادوار میں تاریخی لحاظ سے بیت المقدس کی چابیاں ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہوچکی تھیں، لیکن گذشتہ صدیوں میں اس کا کنٹرول مسلمانوں کے ہاتھوں میں رہا ہے۔اب ایک نوزائیدہ اور ناجائز صیہونی ریاست نے نہ صرف فلسطین پر قبضہ کر رکھا ہے، بل کہ یہ لوگ بات چیت، مذکرات اور انصاف کے نفاذ پر یقین ہی نہیں رکھتے ہیں۔بہت سارے سپرپاورز اِس ریاست کی غیر منطقی حمایت بھی کرتے ہیں، امریکی فیصلہ سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوچکے ہیں، کیوں کہ بیت المقدس تمام عالمِ اسلام کا مرکز ِ اول اور قبلۂ محبت وعقیدت ہے۔ اور کیوں نہ ہو ، جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی ترقی اور تمام انبیا علیہم السلام پر فوقیت وبرتری کا نقطۂ آغاز بنایا گیا ہے۔ جہاں امام الانبیاصلی اللہ علیہ وسلم نے تمام ہی رسولوں کی امامت فرما کر اپنی مقتدائیت کا اظہار کیا۔

کفرو اسلام کی جنگ تا قیامت جاری رہے گی:    

                 اس قبلۂ اول سے مسلمانوں کا ہمیشہ سے جذباتی اور روحانی تعلق رہا ہے، جسے کسی دم ،کسی لمحہ اور کسی طریق سے ختم تو کیا ؛کم بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ جس کی بازیابی کے لیے حضرت عمرؓ کی قیادت وسربراہی میں حضراتِ صحابہ جیسے نفوس قدسیہ نے کیسی کیسی قربانیاں پیش کی تھیں؟بل کہ بیت المقدس کو غاصبوں ،ظالموں اور ظلم وبربریت کی علامت قومِ یہود سے واپس لینا سیدنا عمر فاروقؓ کی زندگی کا سب سے عظیم مقصد اور اپنی خلافت کا بڑا سنہرا خواب تھا ؛جسے بالآخر اللہ رب العزت نے پورا کردیا اور بیت المقدس میں حضرت عمرؓ کے داخلہ کے دن سے لے کر خلافتِ بنو امیہ اور خلافتِ عباسیہ کے سنہرے دور تک عیسائی دنیا بیت المقدس کی طرف میلی آنکھ اٹھانے کی ہمت بھی نہ کرسکی۔لیکن جب خلافت عباسیہ کا وہ عہد جاتا رہا ،جسے سنہرے دَور سے تعبیر کیا جاتا ہے اور گیارہویں صدی کے اختتام پر جب خلافتِ عباسیہ شیعی تسلط اور اہل فارس کی ریشہ دوانیوں سے ضعف اور اضمحلال کی انتہا کو پہونچ گئی، عالمِ اسلام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگا، مسلم حکمرانوں اور والیوں کے درمیان اقتدار کی باہمی رسہ کشی اپنے عروج کو پہونچ گئی، عالمِ اسلام کے قلب مصر وشام پر شیعوں کے قبضہ نے مسلمانوں کی رہی سہی قوت توڑدی، یورپین عیسائی دنیا نے ان حالات کواسلام کے خلاف اٹھنے کا سنہرا موقع جانا، مسلم حکمرانوں کی بے غیرتی اور تساہل پرستی اور خصوصاً عام اہلِ اسلام دین بیزاری کے نتیجہ میں ایک بارپھر ہمارا قبلۂ اول یہودی سازشوں کا شکار ہو کر اُن کے ناپاک اور ناجائز قبضہ میں چلا گیا اور ایک بار پھر امت مسلمہ ایک گہرے اور جلد مندمل نہ ہونے والے گھاؤ اور زخم سے دوچار ہوگئی۔ اور ساڑھے ۴۰۰؍سال بعد۱۰۹۹ء میںصلیبی بیت المقدس پر قابض ہو گئے، جس سرزمینِ مقدس پر حضرت عمرؓنے ۶۳۷ء میں بنفس نفیس اسلام کی بالادستی کا اعلان فرمایا تھااس پریہودی غالب ہوگئے۔ بیت المقدس پر اسلام وعیسائیت اور یہودیت کی جنگ تا قیامت جاری رہے گی، مسلمانوں کے اوپر اس مقدس سرزمین پر پرچم توحید کی بلندی اور دشمن کے قبضہ ہونے کی صورت میں اس کی بازیابی ایسی ذمہ داری ہے، جس سے وہ کسی بھی حال اور عہد میں بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔چناں چہ دوبارہ خداوند کریم نے اس قبلۂ اول کی بازیابی کا تاج خالد بن ولید کے فرزند، عقابی روح کے مالک، بے مثال قیادت اور جنگی مہارت کے خوگر، ملت اسلامیہ کی نشأۃِ ثانیہ کے لیے تڑپنے والے اور تمام ہی صیہونی وصلیبی اسلام د شمنوں کی نیند اڑادینے والے سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کو پہنایا اور ۲۷ رجب المرجب ۵۸۳ھ مطابق ۱۲؍اکتوبر ۱۱۸۷ء بروز جمعہ ملکوتی جلو میں مجاہدین اپنے قائد کے ساتھ شب معراج کو اس مقدس شہر میں داخل ہوئے۔صلیبی ہتھیار ڈال کر سرنگوں تھے اور شہر کی فصیلوں پر اسلامی پرچم لہرانے لگا۔

اپنے حق کی لڑائی جاری رکھی:         

                شب اسراء ومعراج میں بیت المقدس کی بازیابی اس حسن اتفاق سے پوری اسلامی دنیا کے گوشہ گوشہ میں مسلمانوں کے دل اس فوج اور اس کے قائد کے ساتھ دھڑکنے لگے تھے۔ اور تقریباً ۷۶۰؍سال یعنی ۱۹۴۷ء تک بیت المقدس پر اہل فلطسین کا مکمل کنٹرول اور قبضہ رہا، لیکن اسے ستم ظریفی کہیے یا پھر شامتِ اعمال کہ ۱۹۴۸ء میں برطانیہ نے فلسطین کے سینہ پر ریاست اسرائیل کا قیام کرواکے پوری ملتِ اسلامیہ کو اذیت اور کرب میں مبتلا کر  دیا۔ اور آج اس ناجائز ریاست کا فلسطین کے ۸۰؍فیصد حصہ پر قبضہ ہے اور خود فلسطین جو اصل باشندے اور اس کے وارث ہیں، اپنی ہی سرزمین پر ثانوی درجہ کے شہری ہوگئے اور مزید انہیں ان کے حقوق واجبہ سے بھی محروم کیا گیا۔اس وقت سے اب تک ان عزم واستقلال کے پہاڑوں اور نسبتِ فاروقی کے علم برداروں نے نہ جانے کتنی جانیں قربان کیں؟ کتنے معصوموں کو کھودیا؟ کتنی دوشیزاؤںکے ارمان کو خیرباد کیا؟لیکن برابر اپنے حق کی لڑائی جاری رکھی اور دشمنوں کے سامنے آج تک سِپر نہ ہوئے ۔ آج ایک بار پھر امریکہ نے بڑے ہی منصوبہ بند طریقہ سے بیت المقدس کو ناجائز اسرائیل کا دار الحکومت قرار دینے کے فیصلہ سے پوری امت کو بے چین وبے قرار کردیا۔ اور اس نامعقول اور فضول فیصلہ سے خود اپنوں میں بھی بے آبرواور بے وزن ہوگیا، لیکن ہٹ دھرم اتنا ؛کہ ساری دنیا اور اکثر ملکوں کی مخالفت کے باوجود اپنے غلط فیصلہ کو واپس لینے کے بجائے مخالفت کرنے والے ملکوں کو قرض واپسی کی دھمکی دینے میں لگاہواہے۔

 عالمی اجتماع گاہِ انبیا:          

                عزیزانِ محترم!یہ بالکل حقیقت ہے کہ قبلۂ اول کا قضیہ صرف اہل فلسطین کا قضیہ نہیں ہے ۔بل کہ عالمِ اسلام اور پوری مسلم برادری کا مسئلہ ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ قبلۂ اول ہماری محبتوں کا مرکز، ہمارے نبی کی جائے امامت اور تمام انبیاکی حاضری کا سینٹر آخرہمارے ہاتھوں میں گیا کیوں؟ اور اب ہم اس کو کن راہوں اور کن بنیادوں سے حاصل کرسکتے ہیں؟ تو اتنی بات تو طے شدہ ہے ،جو تاریخ اسلامی کے نشیب وفراز اور اس کے عروج وزوال کی داستان سے واضح ہے کہ جب بھی امت نے اپنے فرض منصی سے انحراف کیا اور آپسی اختلاف وانتشار کو اہمیت دی، سلاطین وقت اور حکمرانوں نے عیش وعشرت کو ضیق وعسرت پر ترجیح دی، خدا فراموشی کے نتیجہ میں خود فراموش کا شکار ہوئے ؛تو پھر اللہ رب العزت نے اس کے اقبال کو زوال سے بدلنے اور اس کی عزت کو ذلت سے تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہی کچھ حالات بیت المقدس کے ہم سے چھن جانے اور محرومی کے ہیں۔ کیا بابری مسجد جو بابرکی یادگار اور سجدہ گاہ خاص وعام تھی، اس کو ہم نے سجدوں، نمازوں، ذکرِ الٰہی سے محروم کرکے اس کی روح ختم نہیں کیا، پھر دشمنوں نے اس کے ڈھانچے اور بے جان جسم کو منہدم کردیا۔ ہاں !اس سے بالکل انکار نہیں کہ چاہے بیت المقدس کا معاملہ ہو یا بابری مسجد کا مسئلہ؛ اس میں اسلام دشمن طاقتوں کی نفرت، ان کا ظلم اور اپنی بالادستی کا سکہ جمانے کاضرور دخل رہا ہے۔ اب رہ جاتی ہے بات کہ ہم اپنی اس امانت کو کیسے حاصل کرسکتے ہیں اور اس کی بازیابی کے لیے ہمیں کیا کرنا ہوگا ؟تو ضروری ہے کہ ماضی میں ہمارے اسلاف اور اسلامی قائدین نے جن بنیادوں کو اپنا کر اور جن خطوط پر چل کر اس نازک ذمہ داری کو سنبھالا اور دوبارہ امت کو اُس کی امانت دلائی، انہیں بنیادوں کو اپنا کر اور انہیں خطوط پر چل کر ہم اس کو آزاد کراسکتے ہیں۔ اور وہ بنیادیں اور خطوط ونقوش فاتح فلسطین، فرزندِ خالد بن ولیداور قائد وسالارِ امت سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کی حیاتِ مبارکہ اور تقویٰ وطہارت سے لبریز زندگی سے حاصل ہوسکتے ہیں۔ چناں چہ عبرت اورسبق کے لیے سلطان کی زندگی کے چند صفات پڑھتے چلیں۔

آئینۂ صفاتِ صلاح الدین ایوبیؒ:

                مشرق ومغرب کا سورما اپنوں اور غیروں، دوست ودشمن سب کو ہر دلعزیز، بلا حدود ملک وملت اگر کسی غازی کو دنیامیں سب سے زیادہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے،تو وہ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ ہے۔سلطان کی شخصیت جہاں عالمِ اسلام میں قابل رشک تھی وہیں یورپ میں افسانوی حیثیت اختیار کرگئی تھی۔ فولادی شخصیت کے حامل، لیکن سینہ میں درد مند دل، میدان میں پہاڑ جیسی صلابت، ساتھ ہی اعلیٰ انسانی اقدار وروایات کے سب سے بڑے پاسباں، مسلمانوں کے محبوب قائد اور غیر مسلموں کے محبوب غم خوار، یہ وہ اعلیٰ کردار اور انسانیت کی چوٹی پر فائز مسلم قائد کا نمونہ تھا؛ جسے یورپ کے حملہ آوروں نے جنگ وصلح میں بڑے قریب سے دیکھا اور ایک زمانہ تک اپنے افسانوں اور ناولوں سے لے کر لوگ کہانیوں تک میں اِسے اپنا ہیرو بنائے رکھا۔ آج انہیں صفات جلیلہ اور اخلاق کریمانہ شجاعت اور عزم واستقلال کی ضرورت ہے۔

گنوادی ہم نے ،جواسلاف سے میراث پائی تھی    ٭             ثریا سے زمین پر آسماں نے ہم کو دے مارا

بیت المقدس اور مسجدِ اقصیٰ پر کوئی صلح نہیں :

                جہاں ہم دستور کی دی ہوئی آزادی کے مطابق اور جمہوری طریقوں پر صدائے احتجاج بلند کریں گے۔ اسی کے ساتھ مسلم حکومتوں ،بل کہ ایک ایک مسلمانوں کو اس سلسلہ میں صاف فیصلہ کرنا ہوگا کہ بیت المقدس اور مسجدِ اقصیٰ پر کوئی صلح نہیں ہوسکتی۔ اسرائیل نے جو ہم سے طاقت چھینا ہے اس کو وہ بات چیت اور مذاکرات کی میز پر نہیں دے گا۔ اہلِ فلسطین نے تو کمر کس لی ہے اور وہ انتفاضہ کے راستہ پر چل پڑے ہیں، اللہ ان کا مددگار ہو۔ اگر مسلم ممالک اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے اس وقت طاقت سے مقابلہ کی پوزیشن میں نہیں ہیں ،تو پھر ظلم واستبداد کو زبان وقلم سے مسترد کرتے رہیں یہ بھی ایک طرح کی مزاحمت ہے۔ وہ حکومتیں جواِن حالات میں بھی بیت المقدس کی حمایت میں اپنے امکانات کو استعمال نہیں کررہی ہیں، ان کے عوام کا فرض ہے کہ وہ ان کے خلاف احتجاج کریں اور اس نفاق کی پردہ دری کریں۔جہاں تک ممکن ہو ہمیں اپنے حالات کے مطابق اس قضیہ میں حصہ لینا چاہیے۔ظلم اور فلسطین پر ناجائز قبضہ کی مذمت ہی سہی، اسرئیل اگر اب ایک حقیقت ہے تو ظالم وناجائز حقیقت بھی ہے اور ہمارا فرض ہے کہ اس ناجائز حقیقت کو ختم کریں۔ اس کے بڑھتے ہوئے ناپاک اور منحوس قدموں کو نہ صرف روکیں، بل کہ توڑ دیں۔ تاکہ اسے اچھی طرح سمجھ میں آجائے کہ جان لینے سے زیادہ ناموسِ رسالت اور ناموسِ شریعت پر جان دینا ہمارے لیے سستا اور بڑے نفع کا سودا ہے اور جان دے کر کامیابی کا یقین کرنا،ہمیشہ سے ہمارا طرّۂ امتیاز رہا ہے۔ اب ضرورت ہے کہ مسلم حکمراں اپنے میکدوں اور عیش وعشرت کے محلات سے اپنے کو نکالیں اور خدا کی طرف سے دی ہوئی ذمہ داری کو نبھائیں اور امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ اور سلطان صلاح الدین ؒ کی یادوں کوازسرِ نو زندہ کریں۔

 خاموش مزاجی تمہیںجینے نہیں دے گی               اس دور میں جینا ہے تو کُہرام مچا دو

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے             دیکھنا ہے زورکتنا بازوئے قاتل میں ہے                  اللہ رب العزت تمام مسلم حکمرانوں کو خصوصاً اورپوری ملتِ اسلامیہ کو عموماً اپنی ذمہ داری کا خوب سے خوب احساس عطا فرمائے۔ اور ان صفات واقدار سے مزین فرمائے جو اس نازک فریضہ سے سبکدوشی کے لیے لازم ہے، اللہ ہم کو قبلۂ اول کی بازیابی کے لیے قبول فرمالے!آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم