’’قبلۂ اول‘‘ اور ہماری ذمے داریاں!!!

محمد ہلال الدین بن علیم الدین ابراہیمیؔ(منیجر شاہراہِ علم)

                عصر ِحاضر کے تاریخی صفحات ؛مسلمانوں کے خون سے لالہ زارہیں۔ روزبروز شعائرِ اسلام، کتاب اللہ، رسول اللہ اور بیت اللہ کی توہین کی جارہی ہے،غرض ہر سو مسلمانوں کو بے آبرو کیا جارہا ہے اور اسی پر بس نہیں؛بل کہ وہ مقامات جو مسلمانوں کے آبرو کی پہچان اوران کی آن وشان ہیں،انہیںپامال کرنے کی ہرممکن کوشش کی جاچکی ہے اور یہ سلسلہ تا ہنوز رکنے کا نام نہیں لے رہا۔کہیں مسلمانوں کے ایما ن کی آزمائش ہے… کہیںان کے مردہ ضمیر کو جھنجھوڑنے کے اسباب …کہیں بے غیرت ہونے کا احساس … اوراِسی بے غیرتی کے تھپڑوں میں سے ایک توہین آمیزتھپڑ بیت المقدس کا یہودیوں کے قبضہ میں چلا جانا ہے۔ نصف صدی سے زائد کا عرصہ گزر چکا، قبلۂ اول اُس ملعون قوم کے قبضہ میں ہے اور ہمیں اس کی بازیابی کی خاطر خواہ کوئی فکر نہیں، ایک طرف چند مسلمانانِ فلسطین ہیںاوردوسری طرف مسلمانوں کا موجودہ مسیحا سلطان طیب اردغان،اللہ اس مردِمجاہد کی حفاظت فرمائے اور ان بے یارومددگارفلسطینیوںکی غیب سے نصرت فرمائے، جوگنتی کے پتھروں سے اُن درندوں کا مقابلہ کررہے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کے پتھروں کو’’ ابابیل کی کنکریاں‘‘ بنادے۔آمین

                ان حالات کو دیکھ کر کہیں اپنے ضمیر سے بھی شکایت ہے اور مسلمانوں کی اکثریت پر افسوس بھی… ان فلسطینی معصوم شہیدوں کی لاشوں سے اٹھتے ہوئے سوالات شرم سے پانی پانی کردیتے ہیں،جب ان کے مقدس جنازے ہم سے مخاطب ہوکر یہ سوال کرتے ہیں:’’اے مسلمانو! کیا قبلۂ اول صرف ہمارا ہے؟کیا اس کی حفاظت صرف ہماری ذمے داری ہے؟کیا ان یہودیوں کے توپوں کا مقابلہ کرنے کے لیے صرف ہمارے ہی سینے بنے ہیں؟کیا اقصیٰ کی آبرو کی حفاظت کے لیے صرف ہماری ہی ماں بہنوں کی آبرو بھینٹ چڑھنی ہے؟‘‘ یہ ایسے سوالات ہیں؛ جو کہیں نہ کہیں ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے پر مجبور کر رہے ہیںاور ایمان وعقائد کو ٹٹولنے او رجائزہ لینے کی دعوت دے رہے ہیں۔

مسلمانو! مسلمان اسلام کی طرف بس منسوب ہونے کا نام نہیں :

                مسلمان صرف اسلام کی طرف منسوب ہونے اور اسلامی نام رکھ لینے کا نام نہیں، بل کہ اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کا نام ہے، جسے ہم بچپن سے رٹتے آئے ہیں’’ اٰمنت باللّٰہ کما ہو باسمائہ وصفاتہ وقبلت جمیع احکامہ‘‘ لیکن ہم ہیں کہ ہمیں اس کے تقاضے کی ادائیگی کی کوئی فکر نہیں!!!۔

                یہودیوںاور اسلام دشمن لابیوں کی زیرِ زمین سازشوں نے ہمارے ایمان کو پژمردہ کردیا ہے۔  ہماری اکثریت اسلام سے نا آشنا ہے، تعلیماتِ اسلام سے نابلد ہے، سنتِ نبوی وسیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بے بہرہ ہے ،احکاماتِ اسلام سے بے خبر وبے پروا ہے؛کتنے ہی مسلمان قدس اور شہر ِقدس کی اسلامی حیثیت سے نا واقف ہیں،اس کی فضیلت سے غافل ہیں،اس سے متعلق پیشین گوئیوں سے انجان ہیں… اور ایسا کیوں نہ ہو!اسلامی تعلیمات اور معاشرت سے مسلمانوں کی دوری ہی اِس قدر ہوچکی ہے کہ میں بڑی ڈرنے کی بات نہابت مجبوری کے عالم میںلکھ رہا ہوں اور بہت ڈر کر لکھ رہا ہوں؛ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ’’ہمارے بہت سے مسلمان خاص کر’’مغربیت زدہ ‘‘ اسلام کے بعض ضروری احکام، تہذیب اور معاشرے کو باعثِ عار سمجھتے ہیں، بعض عملاً اور بعض قولاً بھی، اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔

حوصلہ افزا پیش رفت:

                 امریکی صدر ٹرمپ کی خفیہ سازشوں کے تحت، مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالخلافہ بنانے کے اعلان کے بعد جہاں اسلامی حلقے میں ایک بھونچال رونما ہوا ،جس سے بڑی خوشی ہوئی کہ اقصیٰ کے متعلق ابھی مسلمانوں کے خون میں حرارت باقی ہے۔ الحمدللہ۔ اسی وقت محبینِ اقصیٰ نے اپنی اپنی بساط کے مطابق کسی نے زبان سے، کسی نے قلم سے اور غیور حکمرانوں نے اپنی حکمرانی کی طاقت سے اس ابھرتے فتنے کو دبادیا ؛لیکن مدِ مقابل اپنے ہدف میں بڑا حساس اورپر عزم ہے ، اس لیے اب ہم جو جاگے ہیں؛ بس اسے غنیمت جانتے ہوئے جاگتے ہی چلے جائیں…یہ ہر ایک مسلمان کی فکر ہونی چاہیے۔

                اللہ جزائے خیر دے مدیرِشاہراہ علم کو؛ کہ وہ قدس کے مسئلے میں اسی وقت سے بہت حساس ہوگئے تھے۔ اور یہ تہیہ کر لیا تھا کہ شاہراہ کا خصوصی نمبر نکال کر امتِ مسلمہ کو قدس اور شہرِ قدس کے متعلق ضروری معلومات سے آشنا کروائیں گے اور اس کی بازیابی کی تجاویز بتاکر بازیابی کے لیے بیدار اور فکرمند کریں گے ؛ اسی سلسلے کی یہ ایک کاوش ہے اللہ ہمیں قدس کے پاسبانوں میں شامل فرمائے۔

                اس کی بازیابی کی صورت اور تجاویز تحریر کرنے سے پہلے، اس کی مختصر سی فضیلت واہمیت اور تاریخ پر روشنی ڈالنا ضروری ہے؛کیوں کہ امت ِمسلمہ اس کی دینی حیثیت واہمیت سے بھی غافل ہے اور جب تک انہیں اس کی دینی حیثیت معلوم نہیں ہوگی، وہ اس کے لیے کوشاں کیوں کر ہوسکتے ہیں!!!

بیت المقدس کی فضیلت و اہمیت :

                بیت المقدس کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ کریم میں جا بجا اس کا ذکر کیا۔ اسے مقام ِبرکت بیان کیا، جائے نجات قرار دیا،  انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کا مسکن، مہجر اور مدفن بنایا، اسے قرآن نے خود ارضِ مقدسہ کہا، اس میں دخول کو فلاح وبہبود گردانا، اور اس سے خروج و بیزاری کو خسران ونقصان کا پیش خیمہ قرار دیا۔ مسلمانوں کے عروج کا اسے ذریعہ بنایا، اپنی قربت کا اسے وسیلہ بنایا، خیرِ امت کا اسے عملی نمونہ بنایا، ہموم وغموم کے دفع کا زینہ بنایا، فتنۂ اکبر، وفتینِ اکبر سے حفا ظت کا خیمہ اور اسلام کا قبلۂ اول بنایا۔

                احقرمئی۲۰۱۵ء کے شاہراہ میںفضائل بیت المقدس پر’’قبلۂ اول قرآن وحدیث کے آئینے میں‘‘اس عنوان سے روشنی ڈال چکا ہے؛اس لیے یہاں صرف ایک دو حدیث کے ذکر پر ہی اکتفا کرے گا،نیز فضائل پر  اس شمارے کے دیگر مضمون نگاروں نے تفصیلی قلم اٹھایا ہے ،اس لیے مزید یہاں اس کی ضرورت نہیں ۔

                عَنْ مَیْمُونَۃَ مَوْلَاۃِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَتْ:قُلْتُ یَارَسُولَ اللَّہ! أَفْتِنِافِي بَیْتِ الْمَقْدِسِ،قَالَ:’’أَرْضُ الْمَحْشَرِوَالْمَنْشَرِ، ائْتُوہُ فَصَلُّوافِیہِ فَإِنَّ صَلَا ۃً فِیہِ کَأَلْفِ صَلَاۃٍ فِي غَیْرِہِ،قُلْتُ:أَرَأَیْتَ إِنْ لَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ أَتَحَمَّلَ إِلَیْہِ،قَالَ:فَتھْدِي لَہُ زَیْتًایُسْرَجُ فِیْہِ فَمَنْ فَعَلَ ذَلِکَ فَھُوَکَمَنْ أَتَاہُ‘‘۔

(سنن ابن ماجہ ۱؍۴۵۱،۱۴۰۷)

                                حضرت میمونہ نے آپ ﷺ سے بیت المقدس کے متعلق حکم دریافت کیا، آپ ﷺ نے فرمایا: وہ ارضِ محشر ومنشر ہے۔ وہاں جاؤ اور اس میں نماز پڑھو، کیوںکہ اس میں نماز پڑھنا بہ نسبت دوسری مسجد میں نمازپڑھنے کے ایک ہزار گنا زیادہ ثواب رکھتا ہے۔

                حضرت میمونہ نے سوال کیا اگر میں وہاں تک پہنچنے پر قادر نہ ہوسکی تو! آپ نے فرمایا: تو زیتون ہی بھیج دینا ؛کہ جس سے وہاں چراغ جلے، ایسا کرنے والا بھی وہاں جانے والے کا درجہ پالے گا۔

                محدثین نے یہاں زیتون بھیجنے کی تلقین سے یہ مناسبت بیان کیا ہے کہ نمازچوں کہ نور ہے اور زیتون سے چراغ جلے گا،یہ بھی روشنی کا سبب بنے گا۔

                حدیثِ پاک میںآپ ﷺ نے بیت المقدس جانے کی وصیت فرمائی ہے اور عدمِ استطاعتِ سفر کی صورت میں زیتون ہی روانہ کرنے کی تلقین کی ہے۔ اولاًتو نماز کے ذریعے اسے آباد کرنے کا حکم دیا اور ثانیاً چراغ وغیرہ جلا کر آباد کرنے کا، جس سے ہمیں صاف اشارہ مل رہا ہے کہ بیت المقدس کوآباد رکھنا یہ تمام امتِ مسلمہ کی ذمے داری ہے نہ کہ صرف فلسطینیوں کی۔ او ر اس کے لیے ہر طرح کا تعاون جو اُس کے آباد کرنے اور رکھنے میں معاون ہو ،اسے بجا لانا بھی ہمارا فریضہ ہے؛حالات کے پیشِ نظر خواہ اس کی ضرورت جو بھی ہو، جانی ،مالی، علمی،فکری،قلمی ،لسانی ،سیاسی اور سماجی جو بھی‘ ہم اس کی تکمیل کے لیے کمر بستہ ہوجائیں ۔ہر ایک اس حدیث کا خود کو مخاطب خیال کرکے اپنی استطاعت کے مطابق بیت المقدس کی آبادی اور اس کی بازیابی کی ہر ممکن کوشش کرے۔ہر ایک خود کو اس تحریک کا ایک حصہ بنالے دوسروں کے حرکت میں آنے کا انتظار نہ کرے خود پیش قدمی کرے اور دوسروں کو قولاً ،فعلاًاورعملاً اس کی دعوت دے اور بیت المقدس کی بازیابی سے متعلق بتائی جارہی تدابیر پر عمل پیرا ہونے کا تہیہ کرلے۔

مسجدِ اقصیٰ کی زیارت اور وہاں کی موت کے لیے انبیا وصلحا کا حرص:

                مسجدِ اقصیٰ یہ وہ مسجد ہے، جس کی زیارت کے لیے، جہاں نماز پڑھنے کے لیے، جہاں جائے سکونت اختیار کرنے اوراس کی مجاورت کے حصول کے لیے،انبیا وصلحا حرص اور تمناکرتے تھے۔

                بے شمار صحابہ نے اس کی زیارت کی اور وہاں سکونت اختیار کیا۔ چند نام’’ مسجدِ اقصیٰ عظمت ومقام‘‘ص۱۷ تا ۱۸ سے یہاں ذکر کرتاہوں:بیت المقد س کی زیا رت کر نے والے یا وہا ں جا کر مقیم ہو نے والے صحا بہ ، فقہا اور مفکر ین کی تعدا د شما ر سے با ہر ہے ۔ ان میں سے چند ہی حضرا ت کا تذ کر ہ کیاجارہاہے ،تاکہ یہ اندا زہ ہو سکے کہ مسلما نو ں کی فکر و تہذ یب میں بیت المقد س کو کیسا دینی تقد س حاصل ہے ؟

                ایسے لو گو ں میں یہ حضرا ت بھی شا مل ہیں : ابو عبید ہ بن جرا ح ، ام المو منین صفیہ بنت حیی ، معا ذ بن جبل ، مؤ ذنِ رسو ل بلا ل بن ربا ح ، (حضرت بلا ل ؓ نے وفا ت نبوی کے بعداذا ن دینا ترک کر دیا تھا ، لیکن پھر بیت المقد س کی فتح کے بعد آپ نے اذا ن دی )عیا ض بن غنیم ،عبد اللہ بن عمر ، خالد بن ولید ، ابو ذر غفا ر ی ، ابو دردا عو یمر ، عبادہ بن صامت ، سلما ن فا ر سی، ابو مسعو د انصا ری ، تمیم دار ی ، عمر و بن عا ص ، معا و یہ بن ابی سفیا ن ، عوف بن مالک ، ابو جمعہ انصاری رضی اللہ عنہم؛ یہ حضرا ت تو صحابہ کر ا م کی صف سے تعلق رکھتے ہیں ۔

(ملاحظہ ہو : الا نس الجلیل : ۱؍۲۶۰، محمد الفحام : المسلمو ن واستر داد بیت المقد س ، ص : ۳۴، اور اگلے صفحا ت ، مطبو عہ ازہر )

                تا بعین اور ممتا ز فقہا میں سے یہ حضرا ت زیا رتِ بیت المقد س یا وہا ں کے قیا م سے شرف یا ب ہو ئے : مالک بن دینا ر ، اویس قر نی ، کعب الا حبا ر ، رابعہ عدویہ ، امام او زا عی ، سفیا ن ثو ری ، ابر ا ہیم بن ادہم ، مقا تل بن سفیا ن ، لیث بن سعد ، وکیع بن جرا ح ، امام شا فعی ، ابو جعفر جر شی ، بشر الحافی اور ثو بان بن یمر د۔

 ( ابن سعد : الطبقا ت الکبر یٰ :۷؍ ۴۲۴، مطبو عہ بیروت) ، ذو النو ن مصر ی ، سلیم بن عا مر (ایضاً : ۷؍۴۲۴)

                سری سقطی ، بکر بن سہل دمیاطی، ابو العو ا م (مؤذن بیت المقد س ) سلا مۃ المقد س الضر یر ، ابو الفر ج عبد الو احد حنبلی ، امام غز ا لی ، امام ابو بکرابن العر بی ، ابو بکر جر جا نی ( الا نس الجلیل :  ۱؍ ۲۸۵ اور اگلے صفحات )

                ابو الحسن زہر ی ، ان حضرات کے علاوہ سیکڑ و ں تابعین اور ممتا ز علما اس شرف سے مشر ف ہوئے ۔

(مسجد اقصیٰ عظمت و مقا م :ص ۱۷)

                بخاری ومسلم کی روایت ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی: کہ انہیں بیت المقدس کے بالکل جوار میں موت عطا کرے، جسے آپ ﷺ نے کہا کہ آپ کی قبر کثیفِ احمرکے نیچے ایک راستے کے جانب واقع ہے۔

آیے !اب القدس کی تاریخ کا سرسری مطالعہ کرتے ہیں:

القدس تاریخ کے تناظر میں:

                ٭ ۳۰۰ قبل کنعانیوں (یبوسیوں) نے اس کو بنایا۔

                ٭۱۸۵۰ قبل مسیح حضرت ابراہیم علیہ السلام یہاں آئے اور یہاں کے بادشاہ سے ملے۔

                ٭ ۹۷۰،۹۳۱ قبل مسیح ’’القدس‘‘ پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت رہی۔

                ٭ ۵۸۷ قبل مسیح بخت نصر کے ہاتھوں یہ تباہ کر دیا گیا اور یہاں کے یہودی قیدی بنا لیے گئے۔

                ٭۱۳۵ میں رومی بادشاہ ہدریان نے یہاں سے یہود کو نکال باہر کیا ۔

                ٭ ۴۴۰،۶۳۶ میں القدس بزنطینی استعمار کے زیر نگیں رہا۔

                ٭ ۱۵ ہجری، ۶۳۶ عیسوی میں مسلمانوں نے معرکہ یرموک کے بعد ان علاقوں کو آزاد کرایا۔

                ٭۱۷ ہجری،۶۳۸ء میں ۳۰۰۰ صحابہ نے اسے فتح کیا اور یہاں کے پادری صفر ونیوسی نے شہر کی چابیاں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے حوالے کیں اور معاہدہ کیا۔

                ٭۴۹۳ ہجری،۱۰۹۹ء میں صلیبیوں نے یہاں پر قبضہ کیا۔

                ٭۵۸۳ ہجری،۱۱۸۷ء میںمعرکۂ حطین میں صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے صلیبیوں کو شکستِ فاش دی اور القدس کو آزاد کرایا۔

                ٭ ۶۵۸ ہجری، ۱۲۶۰ء میں معرکۂ عین جالوت ہوا، جس میں القدس کو تاتاریوں سے آزاد کرایا گیا۔

                ٭۹۳۴ ہجری، ۱۵۱۶ء میں عثمانی خلافت نے اسے اپنا حصہ بنا لیا۔

                ٭۱۳۳۶ھ ہجری،۱۹۱۷ء میں پہلی جنگِ عظیم ہوئی، خلافتِ عثمانیہ ختم کردی گئی اور القدس انگریز کے قبضے میں چلا گیا۔

                ٭ ۱۹۱۷ء میں ’’بالفور‘‘ معاہدہ ہوا اس کے تحت یہاں ’’یہودی ریاست‘‘ قائم کرنے کا وعدہ کیا گیا۔

                ٭۱۳۶۸ ہجری، ۱۹۴۸ء میں فلسطین کے ۷۸؍ فیصد علاقے میں اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔

                ٭ ۱۳۸۷ہجری،۱۹۶۷ء میں یہود نے فلسطین کے باقی ماندہ علاقوں پر قبضہ کر لیا۔

                ٭۱۴۰۸ ہجری، ۱۹۸۷ء میں یہودیوں کے خلاف جدوجہد کا اعلان کردیا گیا۔

(اقصیٰ کے آنسوص:۱۹؍۲۰)

کیا مسجد اقصیٰ کی باز یا بی ضرور ی ہے؟

                کتا ب اللہ اور فرما نِ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی عظمت، اس کا مقا م، اس کا اسلا م اور مسلمانوں سے تعلق واضح ہو چکا ہے ، اس کی اہمیت وخصوصیت آشکا ر ا ہو چکی ہے ، اس کی با ز یا بی اس وقت کا ایک اہم فر یضہ ہے ؛بل کہ میرے زعم کے مطابق اس کے بغیر مسلما ن زوال کے دلدل سے نکل کر عروج کی راہ پرگامزن نہیں ہو سکتے؛ کیوں کہ بیت المقدس سے مسلما نو ں کے عرو ج کا ایک خا ص تعلق اور جو ڑ ہے ، یہیں سے ہمار ے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معرا ج ہو ئی ، جہا ں سے مسلما نو ں کو عر و ج ہی عرو ج مقدر ہو ا ، اور ہر جگہ کلا مِ پاک میں اسے بر کت والی زمین کہا گیا ، ار ض مقد سہ کہا گیا ، تو جب تک اسلا م میں یہ مخز نِ برکت واپس نہیںآئے گا ، مجھے لگتا ہے مسلما ن پنپ نہیں پائے گا ، اس کی اجتماعیت قا ئم نہیں ہوپا ئے گی اور حصولِ عز ت وسرخروئی بس ایک سراب ہوگا ۔

بیت المقد س کی با ز یا بی کیسے ہو :

                مگر سو ال یہ پید ا ہو تا ہے کہ ہم اسے با ز یا ب کیو ں کر کر یں؟ کیا یہ ممکن بھی ہے یا نہیں ؟ اس کا طر یقہ کیا ہو ؟ ہم یا س و نا امید کے دامن کو چھو ڑ کر زبا نی جمع خرچ اور رسمی لکھنے اور بو لنے کو تر ک کر کے اپنے اوپر مسجد ِاقصیٰ کے تحفظ کا دُھن سوا ر کر لیں ، اس کی فکر اوڑ ھ لیں اور عملی مید ا ن میں تمام تیاری کے ساتھ آجا ئیں ،اوراس کی کچھ ذمہ داریاں ہیں ، اسے نبھا نے کے لیے کمر کس لیں ۔

                کچھ ذمہ دا ریاں تو ایسی ہیں، جن کا ہر ایک کی ذا ت سے تعلق ہے ۔ کچھ کا خاندا ن سے ، کچھ کا اطلاعات ونشریات سے ، صحافیو ں اور دانشوروں سے کچھ کا تعلیمی شعبوں سے وابستہ احبا ب سے ، کچھ کا ائمہ ، مقررین اور مبلغین سے اور کچھ کا مقا می کمیٹیوں ، پیشہ ورانہ اور تنفیذی یو نینوں اور انجمنوںسے ۔

                جس کا خلا صہ یہ ہے کہ انفر ا د اً و اجتما عاً؛ ہر ایک اس کے لیے متحر ک ہو جائے ۔ مذ کور ہ تمام لو گو ں کی کیا کیا ذمہ دار یاں ہیں اور وہ اسے کس طرح انجا م دیں گے؟ اسے ڈاکٹر صلاح سلطان نے اپنی کتاب ’’بیت المقدس آپ کو پکا ر رہا ہے‘‘ اور اِس جیسی جو کتا بیں ہیں، جس میں اس کے طریقۂ کا ر کو بیا ن کیا گیا ہے ۔ اور جو لوگ اس کے لیے کو شا ں ہیں ان سے روا بط اور صور تِ حا ل کا جا ئز ہ لے کر تمام بھید بھا ئو بھلا کر حب ِمال وجا ہ کو چھوڑ کر {ان اللّٰہ اشتریٰ من المؤمنین انفسہم واموالہم بان لہم الجنۃ }کو سا منے رکھ کر عملی مید ا ن میں کو د پڑ یں تو یہ عظیم کا م ان شا ء اللہ سہل ہو جائے گا ۔

کچھ اہم وضروری طریقۂ کا ر و ذمہ دار یاں :

                ان کے علا وہ کچھ نہا یت اہم ذمہ دار یا ںبھی ہیں، جن کو بر وئے کا ر لا نا نہایت ضرور ی ہے ۔ اس میںسے سب سے اہم تحفظ ِایما ن ومسلما ن ہے ۔ یعنی جس طر یقہ سے وہ ہمار ے ایما ن کو اند رہی اندر کھوکھلا کیے جارہے ہیں ،بل کہ مو جو د ہ نسل تو بالکل ہی ایما ن کی حلا وت سے محرو م ہے ، قسا وت ہی قسا و ت پھیل رہا ہے ۔ انہوں نے جو حر بے استعمال کر رکھے ہیں اور ایما ن کو ختم کر نے کی جو زہر یلی فضا قا ئم کر رکھی ہے ، اس سے امت کو بچا نا نہا یت ضروری ہو گیا ہے ۔ ہمیں ان امرا ض کی نشا ند ہی کر نی ہو گی،امت کے سامنے اسے لانا ہوگا، اس کے نقصا نا ت بتا نے ہو ں گے ، بیت المقدس کی باز یا بی ایما ن کی با ز یا بی پر مو قو ف ہے ۔ سب سے پہلے ہمیں جو ہتھیا ر تیا ر کر نا ہے ، وہ ایما نی قو ت کو بحال کر نا ہے ، اسی پر سار ا دا رو مدا ر ہے ۔

فور ی ذمہ داریاں:

                بہر ِحال جو لو گ کچھ بیدا ر ہیں ،وہ اس مہم اور عملِ خیر میں پور ی تیا ری کے سا تھ لگ جائیں ۔ ہر جماعت کے قا ئد و رہ نما کو ہم اس کے تئیں بیدا ر کر یں ، وہ اپنے ما تحتوں میں اس کی روح پھو نک دیں اور پھر ایک پلیٹ فار م پر جمع ہو کر ہم ایسی کوشش کر یں، جو واقعی مؤ ثر ہو ۔ مدار س، مساجد، اسکو ل، کالجز، شہر، قر یہ اور ہر جگہ کا مسلما ن اس کے تئیں بیدا ر ہو جائے ۔

اندور نی محنت :

                 مغر بی تہذیب کی مسمو م فضا سے خو د کو اور اپنی نسل کو بچا نا نہایت ضروری ہوچکا ہے ۔ اس کے لیے حر کت میں آنا، بل کہ سر بکف ہو نا نہایت ضرور ی ہے ، اس کے بغیر اللہ سے ہما را رشتہ جڑ نہیں سکتا ، اس کی مدد اور نصر ت آ نہیںسکتی ، ہمار ا رعب قائم نہیں ہو سکتا ، ہماری تہذیب با قی نہیں رہ سکتی ، ہمار ا ایما ن محفو ظ نہیں رہ سکتا ، ہمارے شعائر کو تحفظ نہیں مل سکتا۔

طریقۂ کار:

                ائمۂ مسا جد بیدا ر ہو جائیں ! للہ فی اللہ کمر بستہ ہو جائیں، پنج وقتہ نماز و ں کے علا وہ روزا نہ مسجد و ں میں تعلیمی حلقہ لگا ئیں ، جس میں نوجوانوں اور اپنے علاقے کے لو گو ں کو جو ڑیں ۔ اور انہیں ان تمام خر ا بیو ں ، سو د کی لعنت اور اس کی مرو جہ صور ت ، گا نے بجا نے کی نحو ست ، فلم بینی اور عریانیت ، نشہ اور جوا کی خبا ثت ونقصانات انہیں بتائیں ؛ عقائد ِاسلا م سے انہیں واقف کر ا ئیں ، سیر ت رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم ،سیر تِ صحابہ انہیں سنا ئیں، اس پر چلنے کے دینی ودنیوی فائد ے بتائیں۔ اور اس طر ح سے ان کے ذہنو ں میں راسخ کر دیں کہ یہ فلم اسٹار اور بھا نڈ لوگوں کی اقتدا کو چھوڑ کر ،بل کہ اسے عار سمجھ کر سنت کے دلدادہ ہو جائیں اور اوصاف ِ صحابہ اپنانے کی کوشش کر یں ۔

                گھر و ں میں اپنی عورتوں کو بتائیں اورسکھائیں ، گھر میںایک ما حو ل بن جائے ، ہمار ے گھر وں سے ٹی وی کی لعنت ، نو جو ا نو ں سے موبائل میں فحشیات وفضولیات کی لت چھوٹ کر ،سیر تِ رسو ل اور سیرتِ صحابہ کی تعلیم کا ما حو ل بن جائے ۔صحابہ سا ایمان پیدا کر نے کا جذ بہ امڈپڑے۔

ائمہ سے گزا ر ش:

                 ائمہ حضرا ت آپ کو اللہ نے نہا یت اہم منصب عطا کیا ہے ۔ آپ صر ف نما زوں کی امامت تک ذمہ دار نہیں ، بل کہ ہم اپنے ائمۂ اسلا م کو دیکھیں ، حضور اکی زندگی کو دیکھیں ، خلفائے راشدین کو دیکھیں، ہمار ے نو جوا نو ں اور بچو ں کی ذمہ داریاں ہم پر ہی عا ئد ہو تی ہیں۔

بہر صور ت :

                 ہمیں اُن کی تعلیم و تر بیت کا جنو ن سوار کر نا ہو گا ، اس کی فکر اوڑ ھنی ہو گی ، مکا تب کا نظا م مضبو ط کر نا ہو گا ، گھر گھر دینی تعلیم پہنچانی ہوگی ۔

                علمائے مدا ر س درس و تد ریس میں طلبہ کے درمیان ان سا زشو ں کو بیان کر یں ، اس کے لیے تیاری کی تر غیب دیں ، اور ان کے اندر خدمتِ ایمانی کا جذ بہ پیدا کر یں ۔

                تاکہ یہ نسل جب امت کے سا منے آئے ،تو وہ خدمتِ دین اور تحفظِ ایمان کے جذ بے سے سرشارہو ، اسے صرف ایک ہی دُھن سوا ر ہو کہ مسلما ن ،مسلما ن بن جائیں ۔

                آخر میں ،میں یہی عر ض کر وں گا کہ ہم فا تحِ اول حضرت عمر فاروقؓاور فا تحِ ثانی صلاح الدین ایو بی ؒ کی سیرت کا مطا لعہ کر یں ۔ ان کی تار یخ کو پڑھیں اور انہو ں نے کس طریقے سے بیت المقد س کو با ز یا ب کرا یا تھا ، وہ طر یقہ اختیار کر یں یا اس کا مید ا ن بنا ئیں ۔ ان کی ایما نی حالت کیاتھی ، ان کا جذ بہ کیا تھا ، ان کا مقصد کیا تھا ، ان کی فکر کیا تھی ، ان کا طریقہ کیا تھا ؟ اسے سا منے رکھنا نہا یت ضرور ی ہے۔اِس کے علاوہ کسی اور راستے سے ہمیں کامیابی ملے ، مجھے امرِمحال لگتا ہے۔ اللہ ہمیں ان باتوں کو عمل میں لان کی قدرت وتوفیق مرحمت فرمائے۔