بقلم: مولانا افتخار احمد صاحب قاسمی بستوی/استاذ جامعہ اکل کوا
اللہ نے جس مسجد کو ’’مسجدِ اقصیٰ‘‘ کہہ کر قرآن پاک کے پندرہویں پارے میں معراجِ نبوی سے متعلق گفتگو فرماتے ہوئے ’’الذي بٰرکنا حولہ‘‘ ( ۱۵/اسراء) کی عظیم الشان روحانی وجسمانی، ظاہری وباطنی اور لفظی ومعنوی خصوصیات وامتیازات سے آراستہ وپیراستہ فرمایا ہے، وہ مسجد اسی ’’القدس‘‘ شہر میں آباد ہے ،جس کو ابھی ابھی حالیہ دنوں میں امریکہ کے موجودہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے یہودیوں کے ناجائز ملک اسرائیل کی راجدھانی بنانے کا فیصلہ سنایا تھا۔ یہ بات جگ ظاہر ہے کہ القدس وہی مقام مقدس ہے، جہاں ان آبلہ پا مسلمانانِ عالم کا قبلہ اول آباد ہے ،جو مسجدِ اقصیٰ کے نام سے معروف ومشہور ہے۔ جس کی حفاظت اہلِ اسلام نے ماضی میں بھی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے کی ہے اور آئندہ بھی اس جاں گسل قوم کی رگ حمیت پھڑکتے ہی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے میں دیر نہیں کرے گی۔
مسجدِ اقصیٰ، القدس اور فلسطین دنیا کے وہ خطے ہیں؛ جنہوں نے اپنی نظروں سے ایسے ایسے جیالے دیکھے ہیں جنہوں نے ہزارہاباد مخالف میں بھی اپنی تمناؤں کے دیپ جلائے رکھے اور دشت حفاظت میں آبلہ پائی سے گزرتے رہے لیکن آندھیوں میں اپنا دیا بجھنے نہ دیا ؎
آبلہ پا کوئی اس دشت میں آیا ہوگا
ورنہ آندھی میں دیا کس نے جلایا ہوگا
مسجدِ اقصیٰ کے اردگرد سے اہل تفسیر محققین نے ملک شام مراد لیا ہے۔ جس کی ظاہری ومحسوس برکات مختلف النوع اشجار ونباتات اور نوع بہ نوع پھل فروٹ کے پودوں کا اگنا ہے۔ نہروں، تالابوں اورپانی کے اسٹاک سے ہرے بھرے باغات کا سیراب ہو کر بنی نوع انسان کو لمحہ بہ لمحہ اور وقتِ ضرورت فائدہ رساں ہونا ہے۔ اور باطنی وروحانی برکات سے مراد بے شمار انبیائے کرام کا مسجدِ اقصیٰ کے اردگرد ملک شام میں مدفون ہونا ہے۔ یہی مسجدِ اقصیٰ اکثر انبیا علیہم السلام کا قبلہ رہی ہے ،جس میں روح کا تلبس روحانی برکات میں اضافے کا باعث ہے۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسدِ اطہر سے متلبس جگہ عرش اعظم سے زیادہ فضیلت والی ہونا اس کو ایک جزئی فضیلت سے وابستہ کرنا زیادہ مناسب ہے۔
یہی وہ مسجدِ اقصیٰ ہے، جہاں رسولوں کے سردار، فرشتوں کے آقا، نبیوں کے نبی اور وجہِ تخلیقِ کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے انبیاورسل کی امامت کی عظیم الشان سعادت حاصل فرمائی تھی۔ مسجدِحرام سے مسجدِاقصیٰ تک کا سفر ’’اسراء‘‘ کہلاتا ہے، جس کا انکار ہر حال میں کفر کی خندق میں لامحالہ ڈھکیل دیتا ہے۔
ایک وقت آیا کہ بابل کے بادشاہ بخت نصر نے بے شمار لشکر کے ساتھ اس شہر پر دھاوا بول دیا۔ آخرش شہر کو تاخت وتاراج کرکے اپنے ساتھ قیدیوں کی ایک بڑی تعداد پکڑ لے گیا۔دولت وثروت کے خزانوں کو لوٹ لیا، پھر پہلے بادشاہ کے خاندان کے ایک شخص کو اپنی نیابت میں مسئول بنا کر چلا گیا۔
حالات نے انگڑائی لی، شب و روز نے اٹکھلیاں کھیلیں، موجودہ بادشاہ کے نائب نے ہوا میں قلعے بنانے اور بادشاہ کے خلاف دوا دوش اور ریشہ دوانیاں شروع کردیں۔ ننانوے کے پھیر میں آکر اپنی بت پرستی، بدکاری اور ظلم وستم کی کارستانیوں میں اضافہ کردیا، آخر کار بخت نصر سے بغاوت کی۔ اس وقت کے نبی حضرت ارمیا علیہ السلام نے اپنی سی کوشش پند ونصائح میں صرف کردی ،لیکن سب رائگاں چلی گئی۔ اس نے ایک کی بھی نہ سنی، بخت نصر پھر چڑھ آیا، اب اس قدر کشت وخون کیا، قتل وغارت گری اور فتنہ وفسادبرپا کیا جس کی حد نہیں۔پورے شہر کو نذرِ آتش کردیا، مسجدِ اقصیٰ میں بھی آگ لگادی، اس کو مسمار کرکے بالکل زمین کے برابر کردیا، مسجدِ اقصیٰ کی تعمیر کے تقریباً ۱۵؍ سو سال بعد یہ عظیم اور جان کاہ حادثہ پیش آیا تھا۔
آگے چل کرشاہ ایران کے ہاتھوں شاہِ بابل کا قلع قمع اور استیصال ہوا۔ شاہِ ایران رحم دلی کا معاملہ کرکے یہودیوں کو ان کے ملک شام میں پہنچا دیا۔پھریہودیوں نے ایران کے بادشاہوں کے تعاون ومساعدت سے قدیم نمونے کے مطابق مسجد کو از سرنو تعمیر کروایا، شہر پناہ اور فصیل وغیرہ کو ازسرِ نوتعمیر کیا، یہاں آکر اپنے گندے اعمال اور برے افعال پر بھی قدرے ندامت ان کو ہوئی تھی۔
’’مگر اس کے بعد پھر وہی پرانی شرارتیں سوجھیں، تو ایسے اسباب جمع ہوئے کہ ایک بادشاہ جس نے انطاکیہ آباد کیا ہے کہ بیت المقدس پر حضرت مسیح علیہ السلام سے ۱۷۰؍ برس پہلے چڑھ آیا۔ چالیس ہزار یہود کو قید، چالیس ہزار کو قتل کیا اورمسجد کی بڑی بے عزتی کی، مگر مسجد بچی رہی۔ پھر اس بادشاہ کے جانشینوں میں ایک بادشاہ نے شہر اور مسجد کو ویران کردیا، پھر بعد میں چندسلاطین روم کی اس جگہ حکومت ہوگئی تو انہوں نے مسجد کو درست کیا اور اس کے آٹھ سال بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے‘‘۔
’’پھریہود نے سلاطین روم سے بغاوت اختیار کی۔ آخر رومیوں نے پھر شہر اور مسجد کی وہی حالت بنائی، اس وقت کے بادشاہ رومی کا نام ’’طیطس‘‘ تھا،جو نہ یہودی تھا نہ نصرانی۔کیوں کہ اس کے بہت روز بعد قسطنطین اول عیسائی ہوا ہے، یہ حادثہ عیسیٰ علیہ السلام کے صعود سے چالیس برس بعد ہوا اور اس کے بعد حضرت عمررضی اللہ عنہ کے زمانے تک یہ مسجد ویران پڑی رہی، حتی کہ آپ نے تعمیر کرائی۔یہ ہے اجمالی حکایت ان واقعات کی‘‘
(بیان القرآن: ۱/۷۵)
حالاتِ حاضرہ میں آج اسرائیل کی ریشہ دوانیوں کی داستان ہر روز ایک نئی کروٹ لیتی اور نئے رخ پر رواں دواں نظر آتی ہے۔ مسجد اقصیٰ تو اہلِ ایمان کے دین وایمان کا ایک اٹوٹ حصہ ہے، انہوں نے تو تاریخ کی روشنی میں مسجدِ اقصیٰ کے ساتھ ہمیشہ بے حرمتی کا ہی معاملہ کیا ہے اور آج القدس پرقبضہ کرنے کی بڑی فکر ہے ؎
تجھے کیوں فکر ہے اے گل! دل صد چاک بلبل کی
تو اپنے پیرہن کی چاک تو پہلے رفو کرلے
ہے لازوال عہد خزاں اس کے واسطے
کچھ واسطہ نہیں ہے اسے برگ وبار سے
ہے تیرے گلستاں میں بھی فصل خزاں کا دور
خالی ہے جیب گل زرِ کامل عیار سے
القدس کو اسرائیل کی راجدھانی کے لیے طے کرنے کا فیصلہ عالمی برادری نے اپنی مجموعی طاقت سے پوری طرح غلط ثابت کردیا اور امریکہ کو اپنے’’ نام نہاد اعتدال پسندانہ‘‘ فیصلے سے پیچھے ہٹنا پڑا۔ اسرائیل کو بالخصوص؛ اور مغرب پرست اسلام مخالف طاقتوں کو بالعموم یہ مان لینا چاہیے کہ ؎
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبائیں گے
اسلام کی صاف شبیہ کو خراب بتانے کی سعیٔ مسلسل، مسلمانوں کو دہشت گردی اور ظلم سے جوڑنے کی مذموم کوشش، ہر موڑ پر اہلِ اسلام ہی کو موردِ الزام ٹھہرانے کی ناپاک تگ وتاز اور خود کو پوری دنیا پر غالب وصاحبِ اقتدار بنانے کی دوا دوش، بحکم خداوندی کبھی بھی عملی جامہ پہننے والی نہیں ہے۔ اس لیے کہ اسلام کے بارے میں اعلانِ خداوندی ہے کہ اسے دنیا کے تمام ادیان پر غلبہ مل کررہے گا۔
اسرائیل اپنے ظلم وستم کے شکنجوں سے فتح یابی کے راستے ہرگز ہموار نہیں کرسکتا۔ اسے یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کاٹنے بونے سے پھل دار نتیجے مرتب نہیں ہوتے، متعفن اور بدبودار شجر لگانے سے خوش بودار اور لذیذ پھل کی تمنا عبث ہے ؎
زہر بو کے شیریں ثمر کی توقع
نہ جانے کہاں کی یہ دانش وری ہے
سنا تم نے دنیا میں اے لعل وگوہر
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے؟
موجودہ اسرائیل نے فلسطین کے لیے مقرر ۶۰؍فیصد رقبے پر ناحق تسلط جماکر سات لاکھ سے بھی زیادہ پر امن مقامی فلسطینیوں کو اپنے آبائی گھروں سے جلاوطن کررکھا ہے۔ مزید برآں اس نے گذشتہ پچاس سالوں میں مسجدِ اقصیٰ کی اینٹ سے اینٹ بجانے اور اسے نیست ونابود کرنے کی کوئی بھی سازش ہاتھ سے نہ جانے دی، اسی اسرائیل نے موقع پاکر پُرامن نمازیوں پر مسجدِ اقصیٰ کے ائمہ کرام کی نہ صرف یہ کہ بے حرمتی کی؛ بل کہ انہیں زدوکوب بھی کیا، جان سے مار ڈالنے کی دھمکی دی اور جان لیوا حملے بھی کیے۔
اسرائیل کی ناعاقبت اندیش فوج ظلم وستم کی ہر شکل کو روا رکھتے ہوئے مسجدِ اقصیٰ کے اندر جو توں سمیت گھس آئی۔ قرآن کریم کے اجزا اور پاروں کی بے حرمتی کی، منبر ومحراب کی توہین کی، اپنے ناپاک قدموں سے روند کر ان کا تقدس پامال کیا، اسی ظالم وجابر حکومت کے لیے امریکہ القدس کو دار السلطنت بنانا چاہتا ہے، اس ظلم کو دنیا دیکھ رہی ہے کہ یہ ظلم بالکل عیاں ہے ۔ ع عیاں را چہ بیاں
ظلم کا نتیجہ بہرحال براہے۔ ہر ظالم نے اپنے کالے کرتوتوں کا خمیازہ اسی دنیا میں بھگتا ہے، جس نے بھی ان کی طرف داری کی ہے اس کو بھی ڈبودیا ہے ؎
ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں
ناؤ کاغذ کی کبھی چلتی نہیں
۱۹؍دسمبر ۲۱۰۷ء کو جب امریکہ نے نہایت بے شرمی سے پوری دنیا کی بالعموم اور مسلمانانِ عالم کی بالخصوص مخالفتوں کی ذرہ برابر پرواہ کیے بغیر سلامتی کونسل میں فیصلہ واپس لینے کی تجویز کو ویٹوVETOکردیا۔ حالاں کہ وہ ممالک جو اسرائیل کو آباد کرنے میں امریکہ کے شانہ بہ شانہ چلے تھے، جیسے کہ فرانس اور انگلینڈ ان جیسے ملکوں نے بھی اِس موقعے پر امریکہ کا ساتھ نہیں دیا اور یروشلم (القدس) کو اسرائیل کی راجدھانی قرار دیے جانے کی پُرزور مخالفت کا دم بھرا۔
ایسی ناگفتہ بہ صورتِ حال کے آئینے میں ہمیں مبہم دعووں سے آگے بڑھ کر کچھ ٹھوس اور دُور رس نتائج کے حامل اقدامات کا بیڑا اٹھانا چاہیے۔سب سے پہلے تو یہی کہ اپنی گرج دار آواز کو حکومت کے ایوانوں تک اس طرح پہنچائیں کہ اہلِ اسلام کی سرفروشانہ تاریخ یاد آجائے کیوں کہ ؎
خاموش مزاجی تمہیں جینے نہیں دے گی
اس دور میں جینا ہے تو کہرام مچادو
ذہنی آزادی، مذہبی رواداری، مساوات واعتدال، انفرادی آزادی اور اجتماعیت کے حوالے سے دنیا کو یہ باور کرادیں کہ القدس پر قبضہ اور اس کو اسرائیل کی راجدھانی کے لیے مخصوص کردینا ،جہاں اہلِ ایمان کی انفرادی زندگی میں دخل اندازی ہے، وہیں ان کی ذہنی ومذہبی آزادی پر بھی کاری ضرب ہے۔ جو عالمی دستور وآئین کی دستاویزات کے بھی خلاف ہے، اگر آج دوسروں کو یہ پڑھنے کا حق ہے کہ ؎
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
تو یہی پڑھنا اور اس کا عملی اور منہ توڑ جواب دینا کیا اہلِ اسلام کا موروثی اور اخلاقی وایمانی حق نہیں؟!
۱۹۸۰ء میں یو، این، او (اقوامِ متحدہ) نے القدس کے تئیں ایک قرار داد منظور کی تھی ،جس کا مضمون تھا کہ اسرائیل القدس سے اپنا ناجائز قبضہ فوراً ختم کرے – لیکن عملی طور پر اسرائیل نے اپنے ظالمانہ پنجے گڑائے رکھے اور یروشلم (القدس) پر اپنا قبضہ جاری رکھتے ہوئے اسی کو ’’اسرائیل‘‘ کا ’’دار السلطنت بھی قرار دیے جانے کے فیصلے کا پُرزور خیر مقدم کیا۔ ان سنگین حالات میں ہمیں عالمی برادری کو یہ قرارداد ببانگ دہل یاد دلانی چاہیے اور کچھ سرفروشانہ تمنائیں قلم وزبان کے راستے سے تجسیمی شکل اختیار کرنا چاہیے کہ ؎
نقش ہیں سب نا تمام ،خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام ،خونِ جگر کے بغیر
جس میں نہ ہو،ا نقلاب موت ہے وہ زندگی
روحِ امم کی حیات، کشمکش انقلاب
صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہرزماں اپنے عمل کا حساب
پردہ اٹھادوں اگر چہرۂ افکار سے
لانہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب
عالم نَو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب
اب موجودہ حالات اس بات کے شدید متقاضی ہیں کہ مسلمانانِ عالم غزہ کی ناکہ بندی فورًا بلاتاخیر ختم کرانے اور ایک خود مختار آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے عالمی برادری سے بالعموم اور اقوامِ متحدہ سے بالخصوص مثبت اور نتیجہ خیز مداخلت کا مطالبہ کریں۔ اور خود بھی منصوبہ بند طریقے پر عملی پیش رفت کریں اور اس بات پر بھی پورے وثوق کے ساتھ، اسلامی عقیدہ مضبوط کرتے ہوئے دھیان دیں کہ اسباب و تدابیر اور نتیجے سب اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہیں اس لیے اللہ سے مانگ کر رابطہ استوار کرنے میں کوتاہی کو ذرا بھی راہ نہ دیں کہ ؎
دل بیدار پیدا کر کہ دل خوابیدہ ہے جب تک
نہ تیری ضرب ہے کاری، نہ میری ضرب ہے کاری