ڈاکٹر فخر ا لاسلا م مظاہری علیگ
’’آخرکئی دن کی تلاش کے بعد ۱۰۰ کے قریب نائٹس (سنگین مجرم جن کا پیشہ ہی قتل وخونریزی تھی) کو سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے خیمے میں لایا گیا، سلطان نے اُن کی بیویوں اور بیٹیوں کے سامنے اُنہیں زنجیروں سے آزاد کردیا، پھر اُن عیسائی خواتین سے مخاطب ہوا جن کے شوہر جنگ میں مارے جا چکے تھے:
’’میرے اختیار میں بس اتنا ہی تھا کہ زندہ انسانوں کے پیروں کی زنجیریں کاٹ دوں، اگر اس پر قادر ہوتا تو تمہارے مقتول شوہروں اور باپوں کو بھی واپس لے آتا۔‘‘
یہ کہتے وقت صلاح الدین ایوبی کی آنکھوں سے آنسوں رواں تھے۔پھر سلطان نے مقتول نائٹس کی بیویوں اور بیٹیوں کو حکومت کی خزانے سے اتنی کثیر رقم دی کہ وہ بے سہارا خواتین سلطان کے سپاہیوں کی حفاظت میں یروشلم سے جارہی تھیں، تو اُن کی آنکھوں سے تشکر کے آنسو رواں تھے اور سب عورتوں کی زبان پر ایک ہی جیسے کلمات جاری تھے۔
’’ بے شک! تم عظیم ہو؛ بل کہ عظیم تر اور ہمارے عیسائی حکمران ذلیل ہیں بل کہ ذلیل تر‘‘
عیسائی خواتین نے سلطان صلاح الدین ایوبی کا بے مثال حسن سلوک دیکھ کر اُس واقعہ کی طرف اشارہ کیا تھا جب ۱۰۹۹ء میں صلیبیوں نے وحشیانہ طور پر یروشلم فتح کیا تھا۔ اُس وقت عیسائی سالارگارڈفری اور ٹینکرڈ، اِس شہر ِمقدس کی گلی کوچوں سے گزرتے تھے جو مسلمانوں کی لاشوں اور نیم جان جسموں سے پَٹے پڑے تھے۔ بے کس ومجبور مسلمانوں کو اتنی اذیتیں دی گئیں کہ اس درندگی کی مثالیں تار یخِ انسانی میں بہت کم ملیں گی۔ اہل ایمان کو زندہ جلایا گیا اور اُنہیں (اپنی د انست میں) حضرت عیسی علیہ السلام کے مزارِ مبارک کی چھت پر لے جاکر ذبح کیا گیا۔‘‘(صلاح الدین ایوبی ازخان آصف ص۵۰۸/مکتبۃ الحلق جوگنیشوری ممبئی جون ۲۰۰۷)
سلطان صلاح الدین کی طرف سے کیا گیا کہ یہ سلوک اُس اصولی ہدایت اور تنبیہ کا اطلاقی نمونہ تھا جو رحمۃ للعالمینا کی جانب سے دی گئی تھی’’إنما تنصرون وترزقون لضعفائکم‘‘ کہ کمزوروں پر رحم کرو انہی کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی طرف سے تمہاری مدد کی جاتی ہے اور تمہارے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی اسلامی ہدایات واحکام کی تعمیل میں نہایت غیرت مند اور حساس تھے۔ ان کا ایک واقعہ یہ ہے کہ فتح کے بعد جب بعض لوگوں نے مشورہ دیا کہ یہاں کے لوگ نہایت سرکش ہیں، نرم اسلامی احکام اِن کے لیے کا فی نہ ہوں گے، اس لیے بعض سخت قوانین بنائے جانے چاہئیں، تو سلطان نے جو جواب دیا، حکیم الامت حضرت مولانا تھانوی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: وہ جواب آب زر سے لکھنے کے قابل ہے، سلطان نے فرمایا : میں نے اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے اور لوگوں کو اپنا تابع فرمان بنانے کے لیے ملک فتح نہیں کیا ہے بل کہ مقصود اللہ اور اس کے رسول کے احکامات جاری کرنا ہے خواہ وہ احکام سخت ہوں یا نرم۔
یروشلم یا بیت المقدس -جسے سلطان الملک الناصر صلاح الدین ایوبی (۵۳۲ھ/۱۱۳۸ء – ۵۸۹ھ/۱۱۹۳ء)نے ایک جنگِ عظیم کے بعد فتح کیا تھا-کی تاریخی حیثیت یہ ہے کہ ہزاروں سال پہلے عرب قبائل یہاں آکر آباد ہوئے۔ ارضِ فلسطین -جہاں بیت المقدس واقع ہے- کوارضِ کنعان بھی کہاجاتا ہے،کیوں کہ یہاں کنعانی نسل کے بہت سے قبیلے رہ چکے ہیں، بعد ازاں اِسے یورسالم اور یروشلم کہا جانے لگا ۱۰۰۰ (ایک ہزار) ق م میں حضرت داؤد علیہ السلام نے اسے اپنی حکومت کا دارالسلطنت بنایا، اس کے بعد ۹۶۰ ق م میں حضرت سلیمان علیہ السلام نے یہاں معبد تعمیر کروایا جسے ہیکل سلیمانی کہا جاتا ہے۔ ۵۸۹ ق م میں بخت نصر نے شہر کوتاراج کرکے یہودیوں کو ملک بدر کیا۔
۱۶ ھ میں حضرت عمر ابن الخطابؓ کے عہد خلافت میں یہ علاقہ مسلمانوں کے زیرنگیں آیا اور عیسائیوں نے اپنی مذہبی پیشن گوئیوں سے مطابقت کرتے ہوئے خلیفہ ثانی کو بیت المقدس کی چابیاں سپرد کیں،تواُس وقت اس کا نام تبدیل کرکے بیت المقدس رکھا گیا۔ تقریباً ۵۰۰ (پانچ سو) سال تک مسلسل یہ شہر مسلمانوں کے پاس رہا۔پھر جب عباسی حکمراں کمزور پڑے ،تو صلیبیوں نے اِس پر قبضہ کرلیا۔ ۹۸ سال تک () یہ شہر غیر مسلموں کے پاس رہا، یہاں تک کہ ۱۱۸۸ء میں مجاہدِ اعظم سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے اِسے دوبارہ فتح کرکے اسلامی شہروں کی فہرست شامل کرلیا۔ (روزنامہ’’خبریں‘‘ ۱۵ ستمبر ۲۰۱۷ء)
گزشتہ سطور میں اجمالی اشارہ گزر چکاہے کہ عیسائیوں نے جب بیت المقدس کو مسلمانوں سے ۱۱۹۹ء میں چھینا تو انہوں نے مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہادی تھیں؛ لیکن سلطان صلاح الدین ایوبی نے جب اس مقدس شہر کو صلیبیوں سے فتح کیا تو کسی عیسائی باشندے کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا؛بل کہ اُن کے لیے یہ رعایت رکھی کہ اگر بیت المقدس محض زیارت کے لیے آئیں تو عیسائیوں کو کسی قسم کی روک ٹوک نہیں کی جائے گی۔ فلسطین کی اسلامی سلطنت پرکچھ عرصہ کے لیے ایک بحران دوبارہ پیدا ہوا،یعنی عیسائیوں کا تسلط ہوا ؛لیکن پھر۱۵۱۷ء میں سلطان سلیم اول نے اِس کو عثمانی سلطنت میں شامل کر لیا۔
اِس کے ٹھیک چہار صد سال بعد ۱۹۱۷ء گردش ایام کا رُخ مُڑ گیا اور اسلام اور مسلمان دشمن قوموں کے ذریعہ وقت کی سُپر پاور ایمپائربرطانیہ کی سرپرستی میں ایک دورس سازشی جال کا تانا بانا بُنا گیا۔۱۱؍دسمبر ۱۹۱۷ء کو برطانوی جنرل سرایڈ منڈایلن بے نے (فلسطینیوں کی حمایت سے اُن کے وطن کو آزادی دلانے کے نام پر)ترک فوجوں کو شکست دے کرفلسطین پر قبضہ کیا۔اُس موقع پر امریکی اخبار نیویاک ہرالڈ نے واقعہ کے لیے یہ سرخی جمائی: ’’برطانیہ نے ۶۷۳ برس کے اقتدار کے بعد یروشلم کو آزاد کروالیا ہے۔ ‘‘
(روزنامہ ’’خبریں‘‘ ۸ ستمبر ۲۰۱۷ء)
یہ ٹائٹل اشاروں اشاروں میں مذکورہ سازش کی طرف ہی دلالت کرتا ہے۔واقعہ یہ پیش آیا کہ برطانوی وزیرِ خارجہ بالفور نے یہودیوں کے لیے مستقل ملک کی تجویز رکھی۔اِس تجویز نے فلسطین کے سقوط وزوال کے لیے مکر عظیم اور پیچ در پیچ پالیسی کی راہ ہموارکی اور فلسطینی مسلمانوں کے لیے برطانیہ،امریکہ اوراسرائیل کی جانب سے کی جانے والی منظَّم سفاکی اور درندگی کا باب کھول دیا۔
سازش !بلفورڈ کلیریشن !غیور عرب فلسطین
۲؍نومبر ۱۹۱۷ء کو جب پہلی جنگ عظیم پورے شباب پر تھی، برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمس بیلفور نے ایک مختصر سا اعلامیہ جاری کیا تھا ۔…آج سے ٹھیک ایک صدی قبل اس کے تحریر کردہ مختصر سے (محض ۶۷؍ الفاظ پر مشتمل) خط نے -جسے دنیا بیلفورڈ کلریشن کے نام سے جانتی ہے-اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کی تھی اور یہی دستاویز دنیا کے سب سے پیچیدہ اور سرکش تنازع کی بنیادتھی۔ اگر یہ تنازع ۱۰۰؍برسوں میں بھی حل نہیں کیا جا سکا ہے تو اس کے لیے بھی برطانوی سلطنت کی روایتی ریاکاری، مکاری اور وعدہ خلافی ذمہ دار ہے۔
یہ خط جو بیلفورنے برطانیہ کے صیہونی لیڈر اور ایک بڑے بینکرلارڈ راتھس چائلڈ کو لکھا تھا۔ در اصل یہ ایک اقرار نامہ تھا جس میں برٹش حکومت نے یہودیوں کے لیے فلسطینی سرزمین پر علاحدہ’قومی لینڈ‘ کے قیام میں مدد کا وعدہ کیا تھا۔… برطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈلائڈ جارج نے یورپ اور امریکہ کے با اثر اور دولت مند یہودیوں کی حمایت اور مالی مدد حاصل کرنے کی غرض سے صیہونی تحریک کی حمایت کی حکمت عملی اپنائی تھی کیوں کہ انہیں یہ یقین تھا کہ جرمنی کو ہرانے اور جنگ جیتنے کے لیے یہ مدد ضروری ہے۔
اس اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا تھاکہ یہودی ایسا کچھ بھی نہیں کریں گے جس سے فلسطین کے مقامی باشندوں کے بنیادی شہری اور مذہبی حقوق متاثر ہوں لیکن یہ سطر محض رسمی خانہ پری کی خاطر لکھی گئی تھی۔………
اُس وقت اُس سرزمین پر ۹۰؍فیصد سے زیادہ آبادی عربی بولنے والے فلسطیینیوں کی تھی۔ اقرار نامے میں ’عرب‘ مسلم، عیسائی الفاظ عمدًا تحریر نہیں کیے گئے، نہ ہی اس سرزمین کے مستقبل کا فیصلہ کرتے وقت اس کے اصل باسیوں سے کوئی صلاح مشورہ کیا گیا۔….. برطانیہ نے کاغذ کے ایک ٹکڑے کے ذریعہ اس سرزمین پر صدیوں سے رہائش پذیر عرب باشندوں کو اپنے ہی گھروں میں اجنبی بنادیا اور دنیا کے دور دراز علاقوں میں آباد یہودیوں کو وہاں لاکر ان کے گھروں کی ملکیت عطا کردی۔ اس کھلی نا انصافی کو ایک انصاف پسند یہودی ادیب نے نہایت عمدہ الفاظ میں یوں بیا ن کیا:
’’ایک قوم نے نہایت سنجیدگی کے ساتھ دوسری قوم کو تیسری قوم کے ملک کو سونپ دینے کا وعدہ کر لیا۔‘‘
انگریزوں نے قدم قدم پر عربوں اور فلسطیینیوں کو دھوکہ دیا۔ انہوں نے عربوں کو آزادی دلوانے کا جھوٹا خواب دکھا کر سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت پراکسایا۔ جب ان (فلسطینیوں)کی مدد سے برطانیہ نے ترکی کو شکست دے دی اور سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھر گیا، تو انگریزوں نے فلسطین پر قبضہ کر لیا؛لیکن فلسطینیوںکو آزادی دینے کے بجائے برطانیہ نے ان کی زمین یہودیوں کو سونپ کر انہیں دائمی طور پر ان(یہودیوں) کی جابرانہ غلامی عطا کردی۔ ۔۔۔۔۔ لیگ آف نیشنز (اقوام متحدہ کا پیشرو) نے نہ صرف بیلفورڈ اعلامیہ کی توثیق کردی؛ بل کہ برطانیہ کو ۔۔۔۔اس پر عمل در آمد کی ہدایت بھی دے دی۔لیگ آف نیشنز نےMandate for Palestineنام کا ایک عالمی حکم نامہ بھی جاری کردیا جس کے تحت یہودیوں کو یہ قانونی اختیار دے دیا گیا کہ وہ مغربی فلسطین میں دریائے اردن اور بحیرہ روم کے درمیان کسی جگہ بھی رہ سکتے ہیں۔ اس کے بعد تو دنیا کے کونے کونے سے یہودی ہزاروں کی تعداد میں اپنا گھر بار چھوڑ کر فلسطین پہنچنے لگے۔ ۱۹۳۳ء میں جرمنی میں ہٹلر کے اقتدار میں آنے کے بعد فلسطین میں یہودیوں(کی آمد) کا تانتابندھ کیا۔ مقامی یہودیوں کے ساتھ عرب باشندے صدیوں سے فلسطین میں پُر امن طریقے سے رہتے آئے تھے ؛لیکن اب مسئلہ یہ تھا کہ بیرونی ممالک سے ہزاروں کی تعداد میں جو تارکین وطن فلسطین آرہے تھے وہ کٹر صیہونی نظریہ کے حامل تھے۔ انہیں عربوں سے سخت نفرت تھی اور ان کا یہ یقین تھا کہ وہ فلسطینی سرزمین کے بلاشرکت غیرے مالک ہیں۔ نسلی برتری کے تکبر اور مذہبی منافرت کے جذبات سے چور ان نوواردوں نے بہت جلد مقامی عربی باشندوں کے ساتھ بدسلوکی اور مارپیٹ شروع کردی۔ ظاہر ہے عربوں نے مزاحمت کی اور نتیجے میں فلسطین میں قتل وغارت گری کی وارداتیں شروع ہوگئیں۔وہاں تعینات برطانوی فوج نے مکمل طور پر صہیونیوں کی پشت پناہی کی اور عربوں پر ظلم واستبداد کے پہاڑ توڑ ڈالے۔ ۱۹۳۶ء میں عربوں نے کھل کر برطانوی سامراج کے خلاف بغاوت کردی جو تین سال تک چلی۔ انگریزوں نے اس عوامی بغاوت کو کچلنے کے لیے ۳۰؍ہزار فوجیوں کا سہارا لیا، جس میں ۱۰؍ہزار سے زیادہ فلسطینی مارے گئے۔ سینکڑوں افرادکو گرفتار کرلیا گیا، ۲؍ہزار سے زیادہ گھروں کو مسمار کردیا گیا اور سوسے زایدہ لوگوں کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ انگریزوں کے شانہ بشانہ صہیونی دہشت گرد بھی فلسطینوں کے خلاف محاذ آرائی کررہے تھے۔….‘‘۱۹۴۷ء میںاقوام متحدہ نے شہر کو فلسطینی اور یہودی حصوں میں تقسیم کر دیا ’’اور پہلے سے طے شدہ پلان کے مطابق برطانیہ نے فلسطین کا علاقہ خالی کردیا اور ۱۴؍مئی ۱۹۴۸ء کے دن اسرائیل معرض وجود میں آیا۔ باہری لوگوں کو وہاں بسانے کے لیے پہلے مقامی افراد کا قتل عام کیا گیا، تقریباً ۵۰۰ گاؤں کو تباہ وبرباد کردیا گیا اور وہاں کے ساڑھے ۷؍لاکھ اصلی باسیوں کو جبرًا جلاوطن کردیا گیا۔ ایک طرح سے فلسطینی عربوں کی نسل کشی کی گئی۔۱۹۴۸ء میں تاریخی فلسطین کا ۷۸ فیصد علاقہ اسرائیل کے قبضے میں تھا ؛لیکن صہیونیوں نے اس پر بھی اکتفا نہیں کیا۔ ۱۹۶۷ء میں ۵ روز ہ جنگ کے دوران اسرائیلی فوج نے مکمل فلسطین پر تسلط قائم کرلیا اور اس کے ساتھ ہی شام اور مصر کے علاقوں پر بھی قبضہ کرلیا۔ جنگ کے خاتمے تک اسرائیل نے مزید ساڑھے ۴ ؍لاکھ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال کر ان کی زمینوں پر قبضہ کر لیا۔
پچھلے ۵۰؍ برسوں سے ۵۰؍لاکھ سے زیادہ بدنصیب فلسطینی مہاجر اردن، شام، لبنان، مصر، عراق اور دیگر ممالک میں پناہ گزین ہیں۔ جو لوگ مغربی کنارہ، یروشلم اور غزہ جیسے فلسطینی علاقوں میں رہائش پذیر ہیں اُن کی حالت بھی بے حد دردناک ہے۔ ایک پوری قوم کی اس المناک بربادی کا آغاز بیلفورکی اس مختصر سی تحریر سے ہوا تھا جس کا صد سالہ جشن ۲؍نومبر کو لندن اور تل ابیب میں منایا گیا۔ برطانوی وزیرِ اعظم تھیر یسامے کی دعوت پر اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنجامن نتن یا ہونے مہمان خصوصی کی حیثیت سے لندن کے اس ڈنر میں شرکت کی۔ انہوں نے نتن یاہو کے سامنے یہ اعلان کیا کہ برطانیہ نے اسرائیلی ریاست کے قیام میں جو کردار ادا کیا ہے، اس پر اسے فخر ہے۔‘‘(’روزنامہ خبریں‘اعلان بالفور …از پرویز حفیظ نومبر ۲۰۱۷)
فلسطینی قوم کی حق خود ارادیت اور بیت المقدس میں یہودی آباد کاری:
’’۱۹۹۳ء میں فلسطینی اتھارنی اور اسرائیل کے درمیان تقسیم کردہ اراضی میں فلسطینی اتھارٹی کے حصے میں آنے والے علاقے بھی مسلسل صہیونی توسیع پسندی کے نرغے میں ہیں۔ یہودی آبادکاری کیوں قابل مذمت ہے؟ اس کا جواب واضح اوردواور دو چار کی طرح سیدھا سادا ہے، یہودی آباد کاری آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے پیغام موت ہے۔ یہودی توسیع پسندی اور آبادکاری فلسطینی مملکت کے قیام کے خواب کو شرمندہ تعبیر ہونے سے روکنے کا ایک حربہ، آزاد فلسطینی مملکت اور فلسطینی قوم کی امنگوں، ان کے حق خود ارادیت کے لیے ’آلہ قتل‘ ہے۔ ایک ملین گھر منصوبہ سال ۲۰۱۷ء فلسطین میں یہودی آباد کاری کا انتہائی خطرناک سال قرار دیا جارہا ہے۔ یہودی آبادکاری کے منصوبوں میں انتہائی خطرناک وہ منصوبہ ہے جس کا اعلان حال ہی میں اسرائیلی وزیر برائے ہاؤسنگ یواف گالانٹ نے کیا۔ گالانٹ کا کہنا تھا کہ وہ اگلے ۲۰ سال کے دوران فلسطینی علاقوں میں ۱۰؍لاکھ مکانات تعمیر کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں ۔ ان میں سے ۳۰ فیصد یعنی قریبا تین لاکھ گھر بیت المقدس میں تعمیر کیے جائیں گے۔ یہ تین لاکھ گھروں کی تعمیر در اصل صہیونی ریاست کے ’عظیم تر یروشلم‘ کے نام نہاد غاصبانہ پروجیکٹ کا حصہ ہے۔‘‘
(’روزنامہ خبریں‘ ۴/جنوری۲۰۱۸)
’’غزہ کی معاشی ناکہ بندی دس سال سے جاری ہے۔ اس دوران کم از کم دس ہزار مسلمان اسرائیلی فوجوں کی گولہ باری اور فائرنگ نیز بھکمری اور دواؤں کی قلت کا شکار ہو کر ہلاک ہوچکے ہیں۔ اور غزہ کے جن مسلمانوں کو اس عرصے میں اسرائیلی ٹینکوں اور جنگی طیاروں نے بے خانماں کیا ہے ان کی تعداد تو ہلاک ہونے والوں سے دسیوں گنا زیادہ ہے!‘‘(عالم نقوی:’روزنامہ انقلاب‘ ۱۳/ستمبر۲۰۱۷))
ابتدا میں جس وقت’’ اسرائیل نام کی مملکت قائم کرنے کا کا اعلان کیا گیا تھا،اُس وقت تک سابقہ خلافتِ عثمانیہ کا حصہ رہے تمام مسلم ممالک پوری طرح بکھر چکے تھے اور ہر جگہ برطانیہ نواز حکمراں بیٹھ چکے تھے،اس لیے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنے والا کوئی نہ تھا ۔‘‘(شکیل شمسی:’روزنامہ انقلاب‘ ۱۸/دسمبر۲۰۱۷)
صحافی عالم نقوی لکھتے ہیں:’’اور ستر سال قبل بھی دنیا میں مسلمانوں اور ان کی حکومت والے ملکوں کی تعداد کچھ کم تو نہیں تھی لیکن کیا وہ اپنے اندر پیدا ہوجانے والی داخلی خرابیوں کی بدولت قلب مسلم میں صہیونی خنجر کوپیوست ہونے سے روک سکے؟‘‘’’ اگر ایران ،ترکی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات وغیرہ نے غزہ کو اکیسویں صدی کا شعب ابی طالب بننے سے بچا لیا ہوتا اور ظالموں کو سبق سکھا دیا ہوتا تو میانمار کے بودّھوں کی بھلا کیا مجال تھی کہ وہ یہودیوں کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے۔‘‘(عالم نقوی:’روزنامہ خبریں‘ ۱۳/ستمبر۲۰۱۷)
اسلامی تعاون تنظیم:
اسلامی تعاون تنظیم(او.آئی.سی.)اقوام متحدہ کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی بین المملکتی تنظیم ہے جس میں مشرق وسطیٰ، شمالی، مغربی وجنوبی افریقہ، وسط ایشا، یورپ، جنوب مشرقی ایشیا، برصغیر اور جنوبی امریکہ کے ۵۷ مسلم اکثریتی ممالک شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مشاہدین کے طور پر بھی کئی ممالک شامل ہیں، ہندوستان بھی تیسرا سب سے بڑا مسلم اکثریتی ملک ہونے کی وجہ سے گزشتہ کئی سالوں سے اس کی رکنیت کا خواہاں ہے…. اس کے علاوہ فلپائن، سری لنکا، نیپال، جمہوریہ کانگو اور سربیا جیسے ممالک بھی او آئی سی میں اپنی شمولیت چاہتے ہیں۔
۲۱؍اگست ۱۹۶۹ء میں مسجدِ اقصیٰ پر یہودی حملے کے بعد عالمی سطح پر مسلمانوں کے لیے ایک متحدہ پلیٹ فارم کی تشکیل کا خاکہ پیش کیا گیا اور اگلے ہی ماہ ۲۵ ستمبر ۱۹۶۹ء کو مراکش کے شہر رباط میں ایک اسلامی تعاون تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا، جیسےOrganisation of Islamic Cooperationکہاجاتا ہے اور عربی میں اس کا نام ’’منظمۃ التعاون الاسلامی‘‘ ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم کے قیام کا مقصد امت مسلمہ کے مسائل کا حل کرنا، دنیا بھرکے مسلمانوں کی سیاسی، سماجی ، اقتصادی اور تعلیمی پسماندگی کا جائزہ لینا، مسلمانوں کی خبرگیری کرنا، ان پر ہونے والے ظلم وزیادتی کے خلاف آواز اٹھانا اور قیادت ورہنمائی کا فریضہ انجام دینا ہے۔ ان سب کے ساتھ فلسطین کی بازیابی، مسجدِ اقصیٰ کا تحفظ اور اسرائیلوں کے مظالم سے اہل غزہ کو محفوظ رکھنا او .آئی .سی. کے اغراض ومقاصد میں سر فہرست ہے۔
ہر تین سال پر اسلامی تعاون تنظیم میں پالیسی تربیت دینے کے لیے تمام رکن ممالک کے سربراہوں کا اجلاس منعقد ہوتا ہے اور سال میں ایک مرتبہ فیصلوں پر عمل در آمد کی صورتِ حال اور غور وخوض کے لیے وزرائے خارجہ کا اجلاس طلب کیا جاتا ہے۔ اوآئی سی کا مستقل دفتر سعودی عرب کے شہر جدہ میں قائم ہے۔ او .آئی. سی. کو متحرک وفعال رکھنے اور اپنے مقصد میں کارآمد بنانے کے لیے مندرجہ ذیل کمیٹیاں بھی قائم ہیں۔ القدس کمیٹی، اطلاعات وثقافتی معاملات کی قائمہ کمیٹی، اقتصادی وتجارتی معاملات کی قائمہ کمیٹی، سائنس وٹیکنا لوجی کے شعبے میں تعاون کی قائمہ کمیٹی، اسلامی کمیٹی برائے اقتصادی، ثقافتی وسماجی معاملات، مستقل تجارتی کمیٹی۔ اسلامی تعاون تنظیم کے اب(دسمبر ۲۰۱۷ء میں یروشلم کو اسرائیلی راجدھانی بنانے کے اعلان سے پہلے) تک کل تیرہ سربراہ اجلاس ہوچکے ہیں۔ دنیا کے مختلف مقامات پر تیرہ مرتبہ مسلم ممالک کے رہنما ایک ساتھ جمع ہوچکے ہیں؛لیکن وہ اب تک لفظوں کی دنیا سے آگے نہیں بڑھ سکے ہیں، نشستن، گفتن اور برخاستن سے آگے کچھ نہیں کرپارہے ہیں۔ ہر اجلاس میں امتِ مسلمہ کے مسائل کو حل کرنے کا دعوی کرنا، امت کو درپیش مشکلات سے نجات دلانے کا عزم کرنا اور عالمِ اسلام کی مشترکہ قیادت کا دم بھرنا اس تنظیم کی شناخت بن گئی ہے۔
۱۴؍۱۵/اپریل ۲۰۱۶ء کو تنظیم کا تیرہواں سربراہی اجلاس ترکی کی صدارت میں استنبول میں منعقد ہوا ہے جس میں ایک مرتبہ پھر وہی پرانے جملے دہرائے گئے، عالم اسلام کے مسائل کو حل کرنے کا دعوی کیا گیا، اتحاد اتفاق قائم کرنے کی اپیل کی گئی ۔دوسروں کی دہلیز پر دستک دینے کے بجائے ازخود معاملات حل کرنے کی ضرورت واہمیت بتائی گئی۔ خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان نے کہا کہ ہم امت مسلمہ کے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں، مسئلہ فلسطین کا حل ہماری اولین ذمہ داری ہے…انہوں نے مزید کہا کہ’’ آج ہمارے عالم اسلام کو در پیش تنازعوں اور بحرانوں کے ضمن میں متعدد اسلامی ملکوں کو اپنے امور میں مداخلت، فتنوں کے بھڑکائے جانے، تقسیم اور ٹوپ پھوٹ فرقہ وارانہ اور مسلک پرستانہ نعروں کی گونج کا سامنا ہے، …. یہ تمام چیزیں ہم سے ایک سنجیدہ رَوَیّے کا مطالبہ کرتی ہیں تاکہ اِن مداخلتوں کو روکا جا سکے اور عالم اسلام کے امن اور سلامتی کو برقرار رکھا جا سکے‘‘۔ میزبان ملک ترکی نے دہشت گردی اور تشدد کو عالم اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ گردانتے ہوئے کہا کہ پہلے القاعدہ تنظیم کی وجہ سے افغانستان تباہ ہوا اور اب داعش تنظیم حرکت الشباب اور بوکو حرام کے سبب یہ امر پھر سے دہرایا جارہا ہے۔ ترکی کے صدر نے مغربی ممالک کے دہرے معیار کو شدیدتنفیذ کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’’ان ممالک نے انقرہ استنبول اور لاہور حملوں سے توچشم پوشی کرلی اور تمام توجہ برسلزپر مرکوز کردی۔
امت کا سب سے بڑا مسئلہ مسئلۂ فلسطین ہے،اِسی کے پس منظر میں یہ تنظیم قائم ہوئی تھی؛لیکن ۴۶ سالوں کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجوددیگر امور کے ساتھ فلسطین کا مسئلہ بھی حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔غزہ کا محاصرہ سب سے بڑا انسانی المیہ ہے،انسانیت نا قابلِ بیان بحران سے دوچار ہے۔مصر کی سرحد بند ہونے کی وجہ سے اہلِ غزہ جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ اپنی پریشانیوں سے تنگ آکر سالِ رواں غزہ کا محاصرہ ختم کرانے کے سلسلے میں فلسطین کی سرکاری کمیٹی نے ایک بیان جاری کرکے اسلامی تعاون تنظیم کے تیرہویں سربراہی اجلاس کے شرکاء سے درخواست کی تھی کہ غزہ کے محاصرے کو ختم کرانے کے مسئلے کو اپنے ایجنڈے میں سرفہرست قرار دیں۔
مصر پر دباؤ بنائے کہ وہ غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کے لیے مصر کی گزر گاہ رفح کھول دے اور مسافروں بالخصوص بیماروں اور طلباء کی آمد ورفت کے لیے سہولتیں فراہم کریں؛ لیکن افسوس کہ او آئی سی کے رکن ممالک ہی فلسطین کے مسئلے کو پیچیدہ بنارہے ہیں، ایک طرف مصر نے اپنی سرحدیں بند کر رکھی ہے، تو دوسری طرف سعودی عرب حماس کو دہشت گرد جماعت قرار دینے کے ساتھ مصر کی مکمل حمایت کررہا ہے۔‘‘
(شمس تبریز قاسمی:او.آئی.سی.کا اجلاس’روزنامہ خبریں‘ ۲۱/اپریل۲۰۱۶)
امریکی صدر ڈونالڈٹرمپ کے یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی تسلیم کرنے اور وہاں امریکی سفارت خانہ منتقل کرنے کے اعلان کے بعد اورخود فلسطینی قیادت کا ایک جائزہ رمزی بارود نے پیش کیا ہے ،وہ لکھتے ہیں ’’استنبول میں منعقدہ اسلامی تعاون نظیم (اوآئی سی) کے ہنگامی سربراہ اجلاس میں فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے معطل ’’امن عمل‘‘ میں اپنا کردار اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے ۱۳؍ دسمبر کو او آئی سی کی اس سربراہ کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی اتھاریٹی اب مشرق وسطیٰ امن عمل میں امریکہ کی مصالحت کو قبول نہیں کرے گی۔
انہوں نے مسلم اکثریتی ممالک سے تعلق رکھنے والے شریک سربراہان اور وزراء سے خطاب میں کہا کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے القدس (یروشلم) کو اسرائیل کا دار الحکومت تسلیم کرنے کے بعد اب واشنگٹن مصالحت کار کے طور پر ’’فٹ‘‘ نہیں رہا ہے ۔ اس کے بجائے محمود عباس نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل مصالحت کار کا کردار ادا کرے۔ ‘‘
محمود عباس کے اِس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے رمزی بارود لکھتے ہیں:
’’لیکن سوال یہ ہے کہ انہوں نے یہ اعلان کرنے کے لیے اتنا طویل انتظار کیوں کیا ہے؟ نیز اب وہ اپنا آخری کھیل کیا کھیلنا چاہتے ہیں؟حقیقت یہ ہے کہ ۲۰۰۰ء میں کیمپ ڈیوڈ اجلاس کی ناکامی کے بعد کوئی امن عمل نہیں رہا ہے۔ اس اجلاس کے میزبان سابق امریکی صدر بل کلنٹن تھے اور یہ در اصل ان کا اور اُس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم ایہودباراک کا ایک جال تھا جو انہوں نے فلسطینی اتھاریٹی کے لیڈر مرحوم یاسر عرفات کو پھانسنے اور دباؤ میں لانے کے لیے بچھایا تھا تاکہ وہ یروشلم پر فلسطینی حقوق سے دستبردار ہوجائیں۔ یاسر عرفات اپنی بہت سی سیاسی غلطیوں کے باوجود ایک غیر تحریری تجویز کو مسترد کرنے کی حس رکھتے تھے۔ اس تجویز میں در اصل مقبوضہ شہر پر فلسطینیوں کی خود مختاری کو تسلیم کرنے سے انکار کیا گیا تھا اور اس کے بجائے انہیں مغربی کنارے کے ملحقہ علاقوں پر محدود خود مختارانہ کنٹرول دیا گیا تھا۔ جب مرحوم یاسر عربات نے امریکہ، اسرائیل کے دباؤ کے آگے جھکنے سے انکار کردیا اور بغاوت کر دی، تو اسرائیلی فوجیوں نے راملہ میں ان کے دفتر کا گھیراؤ کر لیا۔ انہوں نے یہ محاصرہ ۲۰۰۴ء تک برقرار رکھاتاآنکہ یاسر عرفات علیل ہوگئے۔ انہیں علاج کے لیے ایک فضائی ایمبولینس کے ذریعہ پیریں منتقل کردیا گیا اور وہیں وہ ایک اسپتال میں انتقال کرگئے تھے۔
اس کے فوری بعد محمود عباس نے فلسطینی اتھاریٹی کا کنٹرول سنبھال لیا تھأ۔ انہوں نے معطل امن عمل کو بحال کیا اور پھر آنے والے برسوں میں اس کی غوغا آرائی کی جاتی رہی تھی۔ وہ اپنے مقہور عوام کا ازکارِ رفتہ اور خالی خولی نعروں سے دل بہلاتے رہے تھے اور جوان سے عدم اتفاق کی جسارت کرتے تھے، انہیں وہ سزا دیتے تھے۔ در حقیقت محمود عباس اور اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یا ہونے امریکی ڈھونگ میں اپنا اپنا کردار خوب نبھایا ہے۔
محمود عباس نے قریباً ربع صدی فضول بات چیت میں گنوادی ہے۔ ان کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ وہ خود کو اور چند ایک اور فلسطینیوں کو منظر نامے میں برقرار رکھنا چاہتے ہیں؛ لیکن اب تک بہت ہوچکی ہے، اب امریکی چہرے سے نقاب مکمل طور پر اُتر چکا ہے، فلسطینیوں کو اپنی سیاسی ترجیحات، اتحاد اور قومی آزادی کی حکمتِ عملی پر فوری طور پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔اگر فلسطینی قیادت میں خود احتسابی اور ذاتی احترام کاذراسا بھی مادہ موجود ہے،تو پھر اُس کو فلسطینی عوام سے صدق دل سے وقت، توانائی اور گزرے عشروں میں آزادی کی جنگ میں بہنے والے خون کے ضیاع پر معافی مانگنی چا ہیے۔ اُس کو فوری طور پر نئی صف بندی کرنی چاہیے،تنظیم آزادیٔ فلسطین(پی.ایل.او)کے تمام اداروں کو فعال کر دینا چا ہیے اور معدوم ہوتے مستقبل کے لیے ایک نئی حکمتِ عملی وضع کرنی چاہیے۔‘‘(رمزی بارود:فلسطینی قیادت ،عوام اور ٹرمپ کا اعلان’روزنامہ انقلاب ‘ ۲۳/دسمبر۲۰۱۷)
ملک کی مضبوط یہودی لابی کی وجہ سے یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی تسلیم کرنے اور امریکی سفارت خانہ یروشلم میں بننے کے اعلانِ ٹرمپ کو لے کرفلسطین کے تعلق سے ایک بار پھر عالمی برادری متحد ہو گئی ہے؛لیکن جناب صبغۃ ا ﷲ ندوی لکھتے ہیں کہ:
’’یہ بھی ضروری نہیں کہ جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل میں امریکی پالیسی کے خلاف کوئی قرار داد منظور ہو اور امریکہ اُس پر عمل کرے۔دنیا نے دیکھا کہ عراق جنگ کے خلاف سلامتی کونسل نے قرار داد منظور کی تھی،پھر بھی امریکہ نے غلط بنیادوں پر اُس پر حملہ کیا اور دنیا کچھ نہیں کر سکی۔…۱۹۳ رکنی جنرل اسمبلی میں امریکی فیصلے کے خلاف قرار داد کے حق میں ۱۲۸ ،اورمخالفت میں نو ووٹ پڑے۔…اِسے امریکہ اور اسرائیل کی ہار اور فلسطینی اپنی جیت کہہ سکتے ہیں؛ لیکن حقیقت میں یہ صرف امریکہ اور اسرائیل کی ہار ہے، فلسطین کی جیت نہیں۔ کیوں کہ عالمی سطح پر اسرائیل کی حمایت نہیں بڑھ رہی ہے، تو فلسطینیوں کی حمایت بھی کم ہورہی ہے۔ اس سے قبل جنرل اسمبلی میں فلسطین کو نان اسٹیٹ ممبر کا درجہ دینے والی قرار داد کے حق میں ۱۵۰ ووٹ پڑے تھے اور اِس بار ۱۲۸ ،یعنی حمایت میں کمی آئی۔ اس کے علاوہ ہردن فلسطینی اپنے حقوق اور اراضی سے کچھ نہ کچھ محروم ہورہے ہیں۔ مشرقی یروشلم جسے فلسطینی اپنی ریاست کی راجدھانی بنانا چاہتے ہیں، اس کا نقشہ بدل گیا، آبادی کا توازن بگڑ گیا، اب مغربی کنارے کا نقشہ بدل رہا ہے۔ ہرجگہ یہودی آبادی اور یہودی بستیاں بڑھ رہی ہیں اور فلسطینی آبادی محدود ہورہی ہے۔ یہودی لابی کبھی برطانیہ سے اعلان بالفور کا صدسالہ جشن منوارہی ہے ،تو کبھی امریکہ سے اپنے حق میں فیصلے کرارہی ہے ؛لیکن فلسطینیوں کی پشت پر کھڑا عالم اسلام فلسطینیوں کے لیے کچھ نہیں کرپارہا ہے۔ اب تو ایسی رپورٹیں آرہی ہیں کہ امریکہ کے فریب میں آکر مسلم ممالک اندرون خانہ فلسطینیوں کے خلاف اور اسرائیل کے قریب ہورہے ہیں۔ کاغذ پر ضرور فلسطینی ریاست ہے اور اسے دنیا کے ۱۳۰ سے زیادہ ممالک اور سلامتی کونسل کو چھوڑ کر اقوام متحدہ کے مختلف ادارے تسلیم کرچکے ہیں لیکن زمین پر اس کو قائم کرنا اب بھی دور کی کوڑی ہے۔ جس دوریاستی حل کی بات کبھی کی جاتی تھی ،اب کوئی نہیں کرتا۔ دنیا ضرور بات چیت اور مذاکرات کے ذریعہ اسرائیل اور فلسطین کا مسئلہ حل کرنے کی بات کرنی ہے؛ لیکن مذاکرات اوربات چیت نہیں کراتی۔ جب اسرائیل گریٹرہورہا ہے اور فلسطین محدود تو صرف اقوام متحدہ کی قرار دادیں کب تک فلسطین اور فلسطینیوں کا بچاؤ کریں گی، یہ غور طلب امر ہے۔
(صبغۃ اﷲ ندوی:یروشلم پر امریکی شکست سے منزل قریب نہیں ہوئی ’روزنامہ خبریں‘ ۲/جنوری۲۰۱۸)
ہے جرم ضعیفی کی سزامرگ مفاجات:
مذکورہ بالا تمام جائزوں کے بعد ایک بھولا بھالا مومن ایک سیدھا سادا سوال یہ کر لیتا ہے کہ:
’’ آخر مسلمانوں کی اس صورتِ حال کے لیے ذمہ دار کون ہے؟ کون مسلم ممالک کو تباہ وبرباد کررہا ہے؟ اس کا جواب ہر کوئی آسان کے ساتھ یہ دے گا کہ امریکہ اور یورپ ذمہ دار ہے، مسلمان صلیبی اور صیہونی سازش کے شکار ہیں، اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں کو مٹانے کے درپے لگی ہیں۔جواب درست ہے، یہ بات مسلم ہے اور اس میں نیاپن کچھ بھی نہیں ہے۔ اسلام کے خلاف روزِ اول سے صلیبی، صیہونی سازش جاری ہے۔ ہردور میں مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی گئی ہے؛لیکن انہیں سازشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے دشمنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے اسلام کا دائرہ مدینہ منورہ کی سرحد سے نکل کر پوری دنیا میں پہونچاہے۔….آج اگر ہم مغلوب ہیں، ہم پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، آلام ومصائب اور دردناک مظالم کے دور سے گزر رہے ہیں، ان کی سازشوں کے شکار ہورہے ہیں، ان کا مقابلہ نہیں کرپارہے ہیں، ہماری قوت دفاع ہیچ ثابت ہورہی ہے، تو اس کے لیے ذمہ دار ہم خود ہیں کوئی اور نہیں۔مشرق وسطیٰ کی تباہی وبربادی، مسلم ممالک میں جاری انتشار وخلفشار اور دنیا بھر میں مسلمانوں کی ذلت ورسوائی ہماری بداعمالی، نا قص سیاسی حکمت عملی، دفاعی کمزوری، آلات جنگ سے محرومی، قرآنی تعلیمات اور شرعی اصول سے انحراف کے سبب ہے۔‘‘
(شمس تبریز قاسمی:’روزنامہ خبریں‘۲۵/اگست ۲۰۱۶)
اور در حقیقت یہی ہمارا ضعف ہے ۔اب اگر یروشلم ہاتھ سے نکلتا ہو ا نظر آرہا ہے تو اس میں بھی قصور اپنا ہی ہے ،بقول ڈاکٹراقبال
ع= ہے جرم ضعیفی کی سزامرگ مفاجات
میر کیا سادہ ہیں کہ بیمار ہوئے جس کے سبب…
ایک طرف غیروں کی عیاریاں ہیں،تو دوسری طرف اپنوں کی سادگی کا عالم یہ ہے کہ مغرب کے سکھائے ہوئے سبق کے مطابق صدرِ اسلام یعنی خالص اسلامی ملک سے اعلان کیا جاتا ہے کہ: ’’اب ہم ۔۔۔ ایسے اسلام کی طرف جارہے ہیں جو معتدل ہے اور جس میں دنیا اور دیگر مذاہب کے لیے جگہ ہے۔‘‘پھر یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ ’’ملکی معیشت کا انحصار تیل پر کم کرکے سیاحت اور تفریحی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے۔‘‘
اعلان کیاجاتا ہے کہ ’’اب ملک میں جازفیسٹول منعقد کیے جائیں گے جن میں غیر ملکی موسیقار اپنے فن کااظہار کریں گے۔‘‘ اسلامی تہذیب کی حفاظت و حمیت نہیں؛بل کہ ’’دوسری تہذیبوں کے ساتھ ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے۔‘‘ ٹرمپ کے امن عالم کا قائد ہونے کا اور رسول السلام ہونے کا اعلان دار الامن کے مرکز بُقعۂ مبارکہ حرم محترم سے کیا جا رہاہے ۔اور صورتِ حال بایں نوبت رسید کہ سعودی عرب کے اسکولوں کالجوں میں نصاب امریکی ماہرین کی نگرانی میں مرتب ہورہا ہے جس میں قرآن وحدیث کے وہ حصے شامل نہیں کیے جائیں گے جو جہاد پر مشتمل ہیں یا جن سے بقول اُن کے انتہا پسندی کو فروغ ملتا ہے۔ اسلام کو جدید شکل میں پیش کرنے کے لیے احادیث رسول اکی ازسرنو تدوین کی جائے گی جس میں تشدد اور انتہاپسندی پر مشتمل احادیث کو کتابوں سے نکالا جائے گا، صرف امن ویکجہتی جیسی حدیثیں باقی رکھی جائیںگی۔
(روزنامہ ز خبریں ۸ ؍نومبر ۲۰۱۷ء چوں کفر از کعبہ برخیز د از جناب ندیم الواجدی)
’’مستشرقین کے اعتراضات کا جواب دینے اور دفاع کرنے کے بجائے خود اسلامی تعلیمات کو بتدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔,,,,,عالمِ اسلام کی تاریخ کا یہ پہلا موقع ہے جب کسی حکومت نے مغرب کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہوئے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ اسلام انتہا پسندی پر مبنی ہے، محمد عربی اکا لایا ہوا نظام فرسودہ ہوچکا ہے، حکومت وریاست کی ترقی میں اسلامی تعلیمات روکاوٹ بن رہی ہیں۔‘‘
( شمس تبریز قاسمی:روزنامہ’خبریں‘ سعودی معاشرہ میں تبدیلی کا رجحان ۲ ؍نومبر ۲۰۱۷ء )
مسلم ممالک نے اپنے ملکوں میں آئین اسلام ہی کو منسوخ کر ڈالا ہے (اور اس کی جگہ) آئین مغرب کونافذ کر رکھا ہے ۔۔۔ بیسویں صدی میں) مصر، شام، لبنان، عراق، الجزائر سب جگہ یہی ہوا۔۔۔۔ اب (نام نہاد) ’’معتدل اسلام‘‘ کے پردہ میں (اسی مغربی تہذیب وثقافت کو در آمد کررہے ہیں۔)
(ماخوذ از روز نامہ ’’خبریں‘‘ کیا یہ ممکن ہے ؟ از عالم نقوی ۱۰ ؍جنوری ۲۰۱۸ء)
عالم اسلام میں اہلِ اسلام کی اِسی بد فہمی کی طرف اشارہ ایک شاعر اپنی روزمرہ کی زبان میں کر گیا ہے کہ:
میر کیا سادہ ہیں کہ بیمار ہوئے جس کے سبب اُسی عطار کے بیٹے سے دوا لیتے ہیں
ایک وقت تھا جب مسلمان مسلمان تھے،تو خود عیسائی سلاطین و نصاری اپنے معاملات اور باہمی محاربات کا تصفیہ کرانے کے لیے مسلمان سلطان امیر المومنین سے درخواست کرتے اور اپنی نیازمندی کا ثبوت پیش کرنے لیے کوشاں رہا کرتے تھے ،پھر جب اُنہیں رضا اور حمایت کا پروانہ سلطان المسلمین کی طرف سے فراہم ہو جاتا،تو نہایت ادب کے ساتھ زمین کو بوسہ دیتے اور دست بستہ سراپا اِظہار تشکر بن کر سر جھکائے کھڑے رہا کرتے۔
(دیکھئے:خلافتِ اندلس ص۲۲۰-۲۲۷،از نواب ذو القدر جنگ بہادر)
لیکن اب صورتِ حال معکوس ہو چکی ہے۔اگر مسلمان اِس امر کا اِدراک کر لیں کہ اُن کی اصل قوت ایمان اور عمل صالح اور اﷲ تعالی کو راضی کرنے کی فکر میں ہے ،تو اُنہیں یہ معلوم ہو جا ئے گا کہ’’ بے وقعتی ، ذلت ورسوائی، قتل وغارت گری، مسلم ممالک میں جاری بدامنی ہمارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے، ہمارے گناہوں کی سزا ہے۔ ہم نے قرآن کے اصولوں کو نہیں اپنایا ہے، محسن انسانیت اکے نقش قدم پر ہم عمل پیرا نہیں ہیں، حضراتِ صحابہ کرام کو ہم نے اپنا آئیڈیل نہیں بنایا ہے، خلفاء راشدین کی سیاست کو ہم نے نمونہ تسلیم نہیں کیا ہے، اسلام کو ہم نے اپنا ضابطہ حیات نہیں بنایا ہے، شریعت کے آئین سے ہم روگردانی کررہے ہیں، اس لیے تباہی، بربادی اور قتل وغارت گری ہماری مقدر بنی ہوئی ہے۔‘‘
(شمس تبریز قاسمی:’روزنامہ خبریں‘۲۵/اگست ۲۰۱۶)
مرض کا علاج اِزالۂ سبب کے ذریعہ ہوا کرتا ہے۔مذکورہ صورتِ حال میں مرض کی ماہیت المرضی کیفیات ذکر کی گئیں،اُن کاحل اور تدارک بھی تدبیر کے درجے میں عرض کیا جا چکا۔خود احتسابی کے درجے میں ،سوائے اِس کے اور کچھ نہیں ہے کہ انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی اپنے عقائد ،خیالات ،افکار و اعمال،تہذیب اور تمدن کو اسلامی تعلیم کے مطابق بنائیںاور خود اپنے لیے بھی اور قوم مسلم کے لیے بھی محبوب کبریاء کے وسیلے کے ساتھ خدا سے رو رو کر دعاء کریں کہ:
خار ہیں،بد کار ہیں،ڈوبے ہوئے ذلت میں ہیں ٭کچھ بھی ہیں؛لیکن ترے محبوب کی امت میں ہیں
خلق کے راندے ہوئے دنیا کے ٹھکرائے ہوئے ٭آئے ہیں اب تیرے درپر ہاتھ پھیلائے ہوئے
اے دعاء ، ہاں عرض کر عرشِ الٰہی تھام کے ٭اے خدا رخ پھیردے، اب گردشِ ایام کے