۱۹۱۶ء میں برطانیہ کے وزیرِ خارجہ ’’آرتھر جیمس بالفور‘‘ (۱۸۴۸-۱۹۳۰ء) نے یہودیوں کے لیے ، فلسطین میں قومی وطن قائم کرنے کا وعدہ جاری کردیا، جو ’’وعدۂ بالفور‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔(۱)انتداب کے اِس پورے دور میں، ساری دنیا سے یہودیوں کو فلسطین میں عموماً اور شہرِ قدس میں خصوصاً؛ لا بسانے کی کوشش کی گئی ۔ فرزندانِ تثلیث نے فلسطین کو صہیونیوں کے حوالے کرنے کے لیے ہرطرح کی معنوی ومادّی مدد کی۔ یہودیوں کو شہرِ قدس میں اپنے نام نہاد تاریخی ومذہبی حق کا پروپیگنڈا کرنے اور دنیا کو یہ بتانے اور جتانے کی کوشش پیہم کے لیے ہرطرح اکسایا گیا اور بالآخر ۱۹۴۸ء میں اقوامِ متحدہ کے ذریعے فلسطین میں یہودی مملکت کے قیام کا اعلان کروادیا گیا ۔
اسرائیل عرب جنگیں ،امریکہ اوربرطانیہ کا کھلم کھلا اسرائیل کا ساتھ دینا :
۱۹۴۸ء ۱۹۶۷ء اور ۱۹۷۳ء میں اسرائیل کے ساتھ عربوں کی تین جنگیں ہوئیں۔ تینوں میں امریکہ، برطانیہ اور صلیبی یورپ نے، اسرائیل کا کھلم کھلاّ ساتھ دیا۔ عسکری، معاشی اور ہر نوع کی مادّی ومعنوی مدد دی۔
(۱) ’’وعدۂ بالفور‘‘ (Balfour Declartion) ۲؍نومبر ۱۹۱۷ء میں جاری ہوا۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہودیوں کے حوالے سے، برطانوی اہل صلیب کا فعال کردار، اسی زمانے سے روبہ آنا شروع ہوا؛ لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ برطانیہ اس سے بہت پہلے سے صہیونیوں کی فلسطین میں آمد اور اُن کی حمایت کے لیے سرگرم رہا تھا؛ چناںچہ جولائی ۱۸۳۸ء میں ہی برطانیہ نے شہر ’’قدس‘‘ میں اپنا کونسلیٹ قائم کرلیا تھا، اور اُس وقت اُس نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ اس اقدام سے جہاں اُس کا مقصد اپنے مفادات کی حفاظت ہے، وہیں ایک بڑا مقصد اس شہر میں یہودیوں کو تحفظ دینا بھی ہے (القدس الشریف، حقایق التاریخ و آفاق المستقبل، از ڈاکٹر محمد علی حلہ، شائع کردہ رابطہ عالمِ اسلامیں مکہ مکرمہ ۱۴۲۱ئں ص: ۲۰، بہ حوالہ: Parkes, James: A History of jewish people, London 1984, P.183
باوجودے کہ خلافتِ عثمانیہ کے آئین میں واضح الفاظ میں یہ دفعہ موجود تھی کہ شہرِ قدس اور اُس کے نواح میں یہودیوں کو کوئی زمین فروخت کی جاسکتی ہے نہ کسی اور طرح سے دی جاسکتی ہے؛ لیکن برطانیہ نے خلافتِ عثمانیہ پر زبردست دباؤ ڈال کرں آئین میں ترمیم کرادی اور یہودیوں کے لیے نہ فلسطین میں زمین و جائے داد کے حصول کی راہ کھول دی؛ بل کہ شہر قدس کے دروازے بھی اُن کے لیے وا ہوگئے؛ چناںچہ برطانیہ ہی کی سفارتی کوششوں کے ذریعے یہودی ’’موسی مونٹفیوری‘‘ (Mosy Montefiori) نے ۱۸۵۵ء میں قدیم شہر ’’قدس‘‘ کی فصیل سے باہرں اس بہانے عثمانی خلیفہ سلطان عبدالحمید اول (۱۲۵۵/۱۸۳۹ء-۱۲۷۸ھ/۱۸۶۱ء سے) زمین خریدنے کے اجازت نامے کے حصول میں کام یاب ہوگیا کہ وہ وہاں ہسپتال تعمیر کرنا چاہتا ہ؛ لیکن اُس نے شاہی فرمان کے مطابقں وہاں ہسپتال تعمیر نہ کرکے پہلا یہودی محلہ آباد کیا، جو اُسی کے نام پر ’’حی مونٹفیوری‘‘ سے مشہور ہے۔ یہ یہودی شیطان ۱۸۴۹ء میں ’’یافا‘‘ اور ’’قدس‘‘ کے مابین بیرونِ قدس بھی شاہی فرمان ہی کے بہ موجہ اراضی خرید چکا تھا اوراس سلسلے میں بھی دارالخلافہ ’’استنبول‘‘ میں برطانوی سفیر سے اُس نے مدد لی تھی۔ (الأطماع الصہیونیۃ فی فلسطین منذ النصف الثانی من القرن التاسع عشرں المؤتمر الثالث لتاریخ بلاد الشام: ج۳/عمان ۱۹۸۳ء، بہ قلم: حسن رَیّان)
قابلِ ذکر ہے کہ فرانس کے اہلِ صلیب، اسلام و مسلمان دشمنی میں، برطانوی اہلِ صلیب سے ہمیشہ دو قدم آگے رہے تھے۔ اُنہوں نے مسلمانوں سے اپنی عداوت کے جذبے کو تسکین دینے کے لیے ۱۷۹۸ء میں ہی، فلسطین میں ایک ’’یہودی کامن ویلتھ‘‘ (Jewish common wealth) قائم کرنے کے لیے، ایک خفیہ منصوبہ تیار کیا تھا۔ مصر اور مشرق عربی پر قبضے کے بعد، نیپولین بونا پارٹ (Napoleon Bona Parte) ۱۷۶۹-۱۸۲۱ء) نے جو ۱۸۰۴ء سے ۱۸۱۵ء تک شہنشاہ فرانس رہا، نے ۱۷۹۸ء میں جب وہ فرانسیسی افواج کی قیادت کر رہا تھاں سارے یہودیوں کو اس کے جھنڈے تلے جمع ہوکر اپنی کھوئی عظمت اور قدیم قدس کی تعمیر نو کی دعوت دی تھی۔ (حوالۂ سابق، ص ۱۹-۲۰، الصہونیۃ والصراع الطبقی، از صادق جلالا العظم، بیروت ۱۹۷۵ء، ص۵۷
۱۹۶۷ء میں اسرائیل کا بیت المقدس پر قبضہ :
۱۹۶۷ء کی جنگ میں اسرائیل نے امریکہ اور برطانیہ کی واضح مدد کی وجہ سے، نہ صرف مصر وشام واردن کے جنگی ومعاشی اہمیت کے حامل علاقوں پر، بل کہ سارے شہر قدس پر مع مسجدِ اقصیٰ قبضہ کرلیا۔ یہودیوں اور صلیبیوں کے استعماری عزائم کے پشت پناہ اِدارے ’’اقوامِ متحدہ‘‘ اور اُس کی نام نہاد ’’سلامتی کونسل‘‘ کے ذریعے، اَن گنت قرار دادیں پاس کروائی گئیں، جن میں سے کسی ایک پر بھی اسرائیل نے عمل نہیں کیا؛ کیوں کہ اُن پر اسرائیل سے عمل کروانا مقصود ہی نہ تھا؛ بل کہ ان کا واحد مقصد عربوں، مسلمانوں اور دنیا کی انصاف پسند رائے عامّہ کو (اگر دنیا میں مسلمانوں اور عربوں کے تئیں بھی انصاف پسندی کے کسی تصور کے پائے جانے کو تسلیم کر لیا جائے) بیوقوف بنانا تھا؛ اِسی لیے اسرائیل سے، کسی ایک بھی قرار دادکے تعلق سے، کبھی باز پُرس نہ کی گئی، چہ جائے کہ اُس کی گوش مالی کی جاتی ۔
اسرائیل کو ایٹمی طاقت بنانے میں یورپ اورامریکہ کا اہم رول :
یہی نہیں؛ بل کہ برطانیہ ، یورپ اور امریکہ نے اسرئیل کی پیہم مادی وعسکری مدد کے ذریعے ؛ اُس کو عربوں کے بیچ ایک بڑی عسکری اور ایٹمی طاقت بنا دیا۔ وہ عرصے سے اِس پوزیشن میں ہے کہ سارے عربوں کو بہ یک وقت مزہ چکھا کر؛ آس پاس کی عربی ریاستوں کو نگل سکتا ہے۔ اُس نے جب چاہا عراق کے ایٹمی ری ایکٹر پر حملہ کرکے اُس کو تباہ کردیا، اُس نے ابھی نومبر ۲۰۰۷ء میں شام کے خفیہ عسکری ٹھکانوں کو نشانہ بنایا، وہ اب ایران کے ایٹمی ری ایکٹروں کو؛ تنِ تنہا یا امریکہ کے ساتھ تباہ کر نے کی سوچ رہا ہے، وہ جب چاہتا ہے لبنان پر حملہ اور قبضہ کرکے ہزاروں باشندوں کو تباہ کردیتا ہے۔
فلسطینیوں پر ظلم وتشدد کا آغاز:
وہ بالخصوص ۱۹۶۷ء کے بعد سے ہی فلسطینیوں کو روزانہ جس طرح مارکاٹ رہا ہے، اُن کے رہائشی علاقوں کو جس طرح ایک بڑے عقوبت خانے میں تبدیل کیے ہوئے ہے، وہ جس طرح عمر، سن اور جنس کی تفریق کے بغیر فلسطینی بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور مردوں کو روزانہ تہِ تیغ کررہا ہے اور مکانوں کو مکینوں پر ڈھاتا رہتا ہے اور جس طرح اُن کے خطّوں میں ہمہ گیر معاشی ناکہ بندی کے ذریعے ، انسانی بحران پیدا کرتا رہتا ہے؛ یہ ساری چیزیں دنیا والے دیکھ رہے ہیں، اقوامِ متحدہ کے اندھے بہرے ذمّے داروں واہل کاروں کے علم میں لاکر یہ سب کچھ کیا جارہا ہے؛ لیکن اِسرائیل کے خلاف تادیبی کار روائی تو درکنار، اہلِ صلیب بالخصوص امریکہ (جو جنگِ عظیم دوم ۱۹۳۹-۱۹۴۵ء کے وقت سے صہیونی ریاست کے قیام واستحکام کے حوالے سے، زیادہ پیش پیش ہے) اُس کے تئیں کوئی مذہبی قرار داد بھی پاس ہونے نہیں دیتا اور طاقت، سازش، دھونس اور عیّاری کے ذریعے؛ وہ صرف صہیونی عزائم کی تکمیل کی شاہ راہ کی تعمیر میں جٹا رہتا ہے۔
۱۹۷۵ء تک عربوں کا اِس بات پر مکمل اتحاد رہا کہ اسرائیل کی ریاست ناجائز ہے اور اُس کو فلسطین سے ختم ہونا چاہیے۔ اگر اِس وقت عرب اور مسلمان، عسکری اور اقتصادی طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے، اسرائیل کو ختم نہیں کرسکتے، تو کوئی حرج نہیں ، مزاحمت کے جن طریقوں کو، اُس کے خلاف کام میں لاسکتے ہیں لاتے رہیں اور اُس وقت تک سرگرم کارر ہیں جب تک اسرائیل کم از کم ۱۹۶۷ء میں قبضہ کردہ زمینوں سے دست بردار نہیں ہوجاتا۔
انورسادات کا اسرائیل کو تسلیم کرلینا :
لیکن ۱۹۷۵ء میں مصری صدر محمد انور سادات (۱۳۳۷ھ/۱۹۱۸ء – ۱۴۰۱ھ/۱۹۸۱ء )نے ریاستِ اسرائیل کا دورہ اور اُس کے بعد امریکہ کی سرپرستی میں، اُس کے ساتھ معاہدۂ امن کرکے، جس کے ذریعے، اُنہوں نے ریاستِ اسرائیل کو تسلیم کرلیا، عربوں کے اتحاد میں پہلی مرتبہ رخنہ ڈال دیا۔
اردن کا اسرائیل کو تسلیم کرنا اور ۲۰؍ لاکھ فلسطینیوں کا بے گھر ہونا :
اُس کے بعد اردن نے اسرائیل سے صلح کرلی، پھر ۱۹۹۱ء میں مڈریڈ (اسپین) میں تنظیمِ آزادی فلسطین اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات کرائے گئے اور ۱۹۹۳ء میں معاہدۂ امن پر دستخط بھی ہوگئے۔ اِن معاہدوں میں نہ صرف اسرائیل کی ریاست کو باقاعدہ تسلیم کرلیا گیا؛ بل کہ ۱۵ سے ۲۰ لاکھ فلسطین سے اجاڑے بھی گئے، فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی، شہر قدس کی پوزیشن اور مسجدِ اقصیٰ وغیرہ جیسے بنیادی مسائل کے تعلق سے؛ مکمل خاموشی، اِبہام اور شاطرانہ اندازِ کار اپنایا گیا۔ اسرائیل اور امریکہ کی طرف سے سارے شہرِ قدس کو اسرائیل کی متحدہ ابدی راجدھانی- دار الحکومت بنائے جانے کی چال چلی جاتی رہی، جب کہ فلسطینی مذاکرات کاروں کی طرف سے لَجاتے، شرماتے اور گھبراتے ہوئے صرف یہ کہاجاتا رہا کہ کم از کم مشرقی قدس (جس میں مسجدِ اقصیٰ واقع ہے اور جہاں عربوں کی گھنیری آبادی ہے) ہم فلسطینیوں کو عنایت کردیاجائے؛ تاکہ ہم اُس کو اپنی اُس فلسطینی ریاست کا دار الحکومت بنا سکیں، جو ہنوز خواب وخیال سے زیادہ کچھ نہیں اور اسرئیل کی نیت یہی ہے کہ فلسطینی ریاست نام کی کوئی شے حقیقت کی زمین پر کوئی روپ دھار نہ سکے۔
مسجد اقصیٰ پر اپنے حق کا بدلیل دعویٰ اور ہیکلِ سلیمانی کے بلا دلیل باقیات کا غلط اور جھوٹا دعویٰ:
۱۹۶۷ء سے اب ۲۰۱۷ء تک اسرائیل نے شہر ِقدس کو یہودیا نے، زمینی حقائق اور انسانی صورتِ حال کو تبدیل کردینے اور مزعومہ تاریخی حقوق کو اپنے حق میں ثابت کردینے کی ۹۹ فیصد کار روائی مکمل کرلی ہے۔ اُس نے مسجدِ اقصیٰ کی مغربی دیوار(دیوار برّاق) جس کو وہ ’’حَائِطُ الْمَبْکٰی‘‘ دیوارِ گریہ کہتے ہیں اور ہیکل سلیمانی کی بلا دلیل باقیات بتاتے ہیں، کو مکمل طور پرقبضے میں کرلیا ہے، مسجدِ اقصیٰ کے نیچے سرنگیں کھود لی ہیں، مسجدِ صخرہ کو قبضے میں کرلینے کی کار روائی کوآخری شکل دے دی ہے۔ مسجدِ اقصیٰ تک پہنچنے میں روکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں، سیکورٹی کا سخت پہرہ ہے، مسجدِ اقصیٰ کے گرد یہودی آبادیوں کو گھنیراکردیا گیا ہے، مسلمانوں کو بہ زورِ طاقت اجاڑا جاتا رہا ہے اور جو باقی ہیں اُنہیں اجاڑ دیے جانے کا واقعی خطرہ ستاتا رہتا ہے، مسجدِ اقصیٰ میں کسی بھی طرح اِصلاح ومرمت بالکل ممنوع ہے۔
اسرائیل نے’’ فَرِّقْ وَسَدّ‘‘ پر عمل کرتے ہوئے فلسطینیوں کو دو دھروں میں تقسیم کرکے اپنی راہ مزید آسان کردی ہے :
اسرائیل نے سب سے بڑی کامیابی یہ حاصل کرلی ہے کہ اُس نے اور اُس کے پشت پناہ امریکہ اور یورپ نے فلسطینیوں کو مکمل طور پر تقسیم کردیا ہے، وہ دو فریق بن گئے ہیں، عملاً دونوں ایک دوسرے سے فکری اور عملی سطح پر برسرِ پیکار ہیں: ایک فریق اسلام پسندوں اور دین داروں کا ہے، جس کو فلسطینیوں کی اکثریت اور پوری دنیاکے مسلم عوام کی حمایت حاصل ہے، جس کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ فلسطین کی آزادی کا خواب، صرف مزاحمت اور مقدور بھر جد وجہد آزادی وجہاد سے شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے۔
حماس اور فتح میں بنیادی فرق :
اِس فریق کے نمایندوں میں سرِ فہرست تحریک ’’حماس‘‘ ہے۔ دوسرا فریق سیکولرمزاجوں، بے دینوں، الحاد پسندوں، اسلام بے زاروں اور طرح طرح کے کھوکھلے نعروں والوں کا ہے، جو امریکہ واسرائیل اور مغرب کاکارندہ ہے، جس کو اقتدار، دولت اور دنیا کی عزّت کی خواہشِ بے پناہ نے اندھا، بہرا اور گونگا بنادیا ہے۔ اُس کو فلسطین، مسجدِ اقصیٰ اور خانمابرباد فلسطینیوں، شہیدوں، اَن گنت عزتوں کی پامالیوں، لاکھوں جوانوں، بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کی آہ وبکا اور صہیونی ریاست کی دہشت گردانہ کار روائیوں کی بھینٹ چڑھے لوگوں کی لاشوں کے ہمہ وقت اٹھائے جانے دل دوز مناظر سے کچھ لینا دینا نہیں، اُسے دنیا کی فانی لذت اور آنی جانی عزت واقتدار چاہیے اور بس! اِس فریق کے تنظیم آزادیِ فلسطین کے اکثر ذمّے دار اور اہلِ کار ہیں۔ امریکہ واسرائیل اور یورپ نے کمالِ چالاکی سے ثانی الذکر کوہر طرح کی مالی واخلاقی وعسکری مدد کے ذریعے،مضبوط کرکے، اول الذکر گروہ کے مدِ مقابل کردیا ہے اور ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کے صہیونی ڈرامے کے بعد سے(جو عربوں اور فلسطینیوں اور مسلمانوں کو بہ عجلت غلام بنالینے کے لیے اسٹیج کیا گیا تھا)بالخصوص اول الذکر کو دہشت گرد قرار دے کر عالمی پیمانے پر، اُس کو الگ تھلگ کر دیاگیا ہے، جب کہ اپنے وطن اور اپنی زمین پر قابضوں کے خلاف جدّ وجہد، دنیا کے کسی کونے میں بھی دہشت گردی نہیں۔
حماس کی جیت کے باوجود مغرب کا تسلیم نہ کرنا اور دوہرا معیار اختیار کرنا :
حیرت کی بات ہے کہ وہ امریکہ اور یورپ جو جمہوریت کی علم برداری کے سب سے بڑے دعوے دار ہیں، فلسطینی اسلام پسندوں کی انتخابات میں بھاری اکثریت سے جیت کے باوجود، اُس کی حکمرانی کو اِس لیے گوارانہ کرسکے کہ وہ جہاد ومزاحمت کی اپنی پالیسی کو ترک کرنے، دشمن ریاست کو ماننے اور قضیۂ فلسطین کے تعلق سے، اُس اُصول واَساس سے دست بردار ہونے کے لیے ہرگز تیار نہیں، جس سے صرفِ نظر کرنے کرلینے کے بعد مسئلۂ فلسطین کوئی مسئلہ نہیں رہ جاتا اور صہیونی ریاست کے سارے عزائم کی تکمیل کی راہ یکسر ہم وار ہوجاتی ہے۔
فتح کی غزہ سے بے دخلی :
چناں چہ خادمِ حرمین شریفین شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز کی وساطت سے دونوں فلسطینی فریقوں میں صلح صفائی کرادی گئی تھی، مکۂ مکرمہ بلا کردونوں سے متحدہ قومی فلسطینی حکومت کی تشکیل کے چارٹرپردستخط لے لیے گئے تھے؛ لیکن اسرائیل اور امریکہ یورپ کے مفادات کے، یہ کارروائی بھی بالکلیہ خلاف تھی؛ اس لیے اِن معقولوں نے اِس کوشش کو بھی مسمار کردیا اور بالآخر سیکولرفریق، یعنی محمود عباس ومحمد دحلان کی جماعت اور تحریکِ حماس دونوں کو خانہ جنگی میں مبتلا کردیا۔ حماس کے جاں بازوں نے محمود عباس کی ’’فتح کی‘‘ تحریک کے کارندوں کور گید دیا اور حماس’’غزہ‘‘ کے علاقے پر جون۲۰۰۷ء میں قابض ہوگئی ۔اور اب ۲۰۰۷=۱۴۲۸ھ کے اواخر میں بھی یہی صورتِ حال قائم ہے۔
غزہ کی ناکہ بندی :
لیکن چوں کہ حالات کی یہ کروٹ اسرائیل وامریکہ ومغرب اور اُن کے ہم نوا عرب حکمرانوں کی مرضی ومفاد کے بالکل برعکس ہے؛ اِس لیے ایک طرف تو غزہ کے علاقے اسرائیل کی طر ف سے بالعموم اقتصادی ناکہ بندی اور ہمہ گیر بائیکاٹ کے ذریعے، وہاں شدیدانسانی بحران پیدا کردیا گیاہے، سیکڑوں بچے اور بیمار دوا وعلاج اور لقمۂ زندگی سے محروم ہوجانے کی وجہ سے روزانہ لقمۂ اجل بن رہے ہیں۔ دوسری طرف نہ صرف فتحِ تحریک اور محمود عبّاس کی طرف سے حماس والوں کو طرح طرح سے ستایا جارہا ہے؛ بل کہ اسرائیل کو امریکہ ومغرب کی مادی ومعنوی امداد اور اُن کے طرف دار عربی ملکوں کی تایید کے ذریعے غزہ کے سارے باشندوں کو عموماً اور حماس کے اہل کاروں اور ذمے داروں کو خصوصاً تہِ تیغ کرتے رہنے اور اُن کے خلاف منظم عسکری کار روائی روبہ عمل لاتے رہنے کے لیے کھلی اجازت دے دی گئی ہے۔
معاہدات کا دھوکہ دے کر مزاحمتی تحریک کو کچلنے کی سازش :
اِس مقصد کے تحت کئی کانفرنسیں اور میٹنگیں ہوچکی ہیں،ایک کانفرنس امریکہ کے ’’اِیناپولس‘‘ مقام پر۲۷؍۱۱؍۲۰۰۷ء کو ہوئی ہے، جس میں امریکہ، اسرائیل ومغرب کے ساتھ متعدد عربی ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اِس کانفرنس میں جہاں محمود عباس کے لیے مادی امداد اور سیکورٹی کے استحکام وغیرہ کا وعدہ کیا گیا، وہیں اسرائیل کو حماس تحریک اور مزاحمتی گروہ کا صفایا کردینے کی مکمل اجازت دے دی گئی۔ دوسری طرف محمود عباس سے شہر قدس فلسطینی پناہ گزینوں کی عدمِ واپسی اور مسجدِ اقصیٰ سے دست برداری کے حوالے سے مزید عملی پیش رفت کا وعدہ واِرادہ حاصل کر لیا گیا۔ مذکورہ کانفرنس کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے دو شنبہ ۶؍ذی الحجہ ۱۴۲۸ھ – ۱۷؍دسمبر ۲۰۰۷ء کو فلسطین کو امداد دینے ‘‘ کے عنوان سے، پیرس میں یک روزہ کانفرنس کی گئی، جس میں دنیا کے ۹۰ وفود نے شرکت کی، اِس کا مقصد محمود عباس کے گروہ کو مدد دے کر حماس اور دیگر اسلام پسندوں پر شکنجہ کسنا تھا۔ اِس کانفرنس میں ۶۸؍ملکوں اور تنظیموں کی طرف سے ۷ ؍ارب ڈالر کی امداد دینے کا وعدہ کیا گیا۔ چوں کہ اِس کا مقصد بھی صہیونی عزائم کے بہ روئے کار آنے کی راہ ہموار کرنی اور تحریکِ مزاحمت کو کچلناتھا؛ اِس لیے حماس نے امداد دینے کے اِس وعدے کو اپنے خلاف اِعلانِ جنگ قرار دیا ہے۔(فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظارمیں:ص۳۲ تا ۴۵) حالاتِ حاضرہ کے تناظر میں مسلمانوں کا سب سے حساس مسئلہ قضیۂ فلسطین ہے ، لہٰذا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس قضیہ سے متعلق مکمل واقفیت رکھے ۔ مذکورہ صفحات میں اجمالی بحث کے بعد اب اس کی تفصیل بیان کی جارہی ہے اور یہ ثابت کیا جارہا ہے کہ فلسطین پر صرف اورصرف مسلمانوں کاہی ہراعتبار سے حق ہے اور اسرائیل ظالم اور ظلّام ہے، تو آئیے مکمل تفصیل کے ساتھ اسے جاننے کی کوشش کرتے ہیں