شہر القدس میں مسلمانوں کے داخلے کا دلفریب منظر:

                مسلمانوں نے جنت اور شہادت کے شوق و جذبہ سے قابضین سے شدید جنگ کی ،پھر وہ تکبیراور کلمۂ طیبہ پڑھتے ہوئے ۵۸۳ھ مطابق ۱۱۸۷ء شہر میں داخل ہوئے ۔تمام مجاہدین نے مسجدِ اقصیٰ کا رخ کیا اور اسے قابضین کی جمع کردہ گندگی سے پاک کیا ۔پہلے جمعہ کے دن’’ مسجد نمازیوں سے بھر گئی اور رقتِ قلب کے ساتھ آنسوئوں کا سیلاب امڈ آیا ۔‘‘ صلاح الدین نے ابن زکی الشافعی کو بلاکر خطبہ دینے کو کہا ،انہوں نے ان الفاظ سے خطبہ شروع کیا  ’’ظالم قوم کی جڑ کاٹ دی گئی ،تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو اسلام کو اپنی نصرت سے عزت بخشنے والا، شرک کو اپنے قہر سے ذلت دینے والا،اپنے حکم سے معاملات چلانے والا اور اپنے منصوبوںسے کفر کو مبتلائے فریب کرنے والا ہے ۔‘‘پھر انہوں نے حاضرین کو مبارکباددیتے ہوئے کہا: ’’اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے بیت المقدس کی فتح جیسے عظیم کام کو آسان بنا دیا، جس کی شان یہ ہے اور یہ ہے ……انہوںنے بیت المقدس کے فضائل بیان کیے کہ وہ دو قبلو ں میںسے پہلا قبلہ ، دو مسجدوں میں سے دوسری مسجد اور دوحرموں کے بعد تیسر ا حرم ہے …اسی طرح یہیںیوم محشر برپا ہوگا ، یہی انبیا کا ٹھکا نہ اور اولیا کی منزل ہے …۔‘‘

                نماز کے بعد صلاح الدین نے ابن نجا قادری حنبلی کو دعو ت دی کہ وعظ فرمائیں،وہ ہجوم کے درمیان کھڑے ہوئے اور ابو شامہ کی روایت کے مطابق:

                ’’صلاح الدین نے وعظ کے لیے قبلہ کی جانب بڑا تخت نصب کیا،زین الدین ابن نجا اس پر بیٹھ گئے،انہوں نے خوف ورجا کاذکر کیا ،ایسی نصیحت کی جس نے سوتوں کو جگایا،اللہ کے دشمنوں کوآڑے ہاتھوں لیا، رونے والوں کا شور بلند ہوا،اشک میں مبتلا چیخیں اٹھیں،دلوں میں رقت پیدا ہوئی اور رنج والم کم ہوگئے…۔‘‘

                دوسرے جمعہ کو سلطان نے ابن نجا کو پھر طلب کیا کہ دوبارہ مسجد میں وعظ کریں چناںچہ انہوں نے تعمیلِ حکم کی۔مئورخ ابن شداد کابیان ہے کہ بیت المقدس کی فتح کے بعد سلطان صلاح الدین نے ا س سے کہا کہ اس کی آرزو ہے کہ وہ بہترین موت مرے،جب اس سے پوچھا گیا کہ اس سے اس کی کیا مراد ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ میں چاہتا ہوں کہ بحری سفر اختیار کرکے فرنگیوں کے ملک یورپ میں ان سے جنگ کروں اور اسلام کی اشاعت کروں۔

(عہد ایوبی کی نسلِ نواور القدس کی بازیابی:۲۶۲تا۲۶۵)