مسلمانوں کے سیاسی زوال کا آغاز :

                 مؤرخین اور تجزیہ نگاروں کا بیان ہے کہ مسلمانوں کے سیاسی زوال کا آغاز در اصل ۱۶۹۹ء سے شروع ہوا،اور اس کے چند تاریخی عوامل مندرجہ ذیل ہے:

:1699     معاہدۂ کارلووٹز(Treaty of Marlowitz)خلافت عثمانیہ کے زوال کا آغاز۔

:1707     اورنگ زیب عالمگیر کی وفات۔ ترکش مارا خدنگ آخریں کا خاتمہ۔

:1716     پیٹرو ورادن (Petrovaradin)یوگو سلادیہ میں ترک فوجوں کو شکست۔

:1717     خیوہ پر روس کا قبضہ، بلغرادترکوں کے ہاتھوں سے نکل گیا۔

:1739     دہلی پر نادرشاہ کا حملہ، دہلی میں قتل ِعام، مراٹھا قوت کا عروج جس نے سلاطینِ دہلی کو کٹھ پتلی بنا کر رکھ دیا۔

:1751     آرکاٹ پر کلایو (Clive) کا قبضہ، جنوبی ہند کے بعض علاقوں پر فرانسیسی ڈوپلیکس (Dupliex)کا قبضہ، چین کاتبت اور اقصیٰ چین پر قبضہ۔

:1757     پلاسی کی جنگ، سراج الدولہ کی شہادت۔

:1765     بنگال کی دیوانی پر ایسٹ انڈیا کمپنی کا قبضہ۔

:1774     وارن ہسٹینگو پہلا گورنر جنرل مقرر ہوا، خلافتِ عثمانیہ کو شکست، معاہدہ کوچک کیناری (Treat y of Kutchak Kainarji)کے تحت روس کے تغلب کو تسلیم کر لیا گیا۔

:1798     نیپولین بونا پارڈ کی سربراہی میں کوکبی مقتدرہ یعنی یہودیوں کا فلسطین پر قبضہ کے لیے مصر پر حملہ اور قبضہ۔

:1799     سرنگاپٹنم کی جنگ، سلطان ٹیپو کی شہادت۔

:1770-99برطانوی سلطنت کے ذریعہ آستانۂ عالیہ اور خلافتِ عثمانیہ کو کھوکھلا کرنے کے لیے خلیج فارس کے عرب قبائلی سرداروں کے ساتھ ساز باز اور معاہدے اور جزیرۃ العرب میں عظیم سازش کا آغاز۔

:1804     دہلی پر براہ ِراست برطانوی قبضہ۔

:1830     الجزائر پر فرانس کا قبضہ۔

:1801-31شمال مغربی ہندوستان میں سکھوں کا عروج، مسلمانوں کی منصوبہ بند تباہی اور ان پر مظالم۔

:1831سانحہ بالا کوٹ، سید احمد اور مولانا اسماعیل دہلویؒ کی شہادت۔

:1831     معاہدۂ کوتاہیہ، خلافت عثمانیہ کا پہلا باضابطہ بکھراؤ۔ محمد علی کو مصر اور شام کا والی تسلیم کرلینا۔

:1773-1880ہندوستان کے طول وعرض میں نظامِ اراضی سے مسلمانوں کی بے دخلی۔ فرائضی تحریک۔

:1770-1880حبۃ صیہون(Hibbet zion)تحریک کا آغاز، کوکبی مقتدرہ کی فلسطین پر قبضہ کی عالمی سازش کا آغاز۔

:1857     سلطنتِ مغلیہ کا خاتمہ کرنے کی برطانوی سازش کا آغاز ۔

:1858     بے جہت اور غیر منصوبہ بند شورش کی ناکامی،پورے ہندوستان میں بالعموم اور دہلی میں بالخصوص مسلمانوں کا قتلِ عام اور پھانسی، سلطنتِ مغلیہ کا خاتمہ، ہندوستان میں براہ راست برطانوی سلطنت کا قیام۔

:1876     خلافتِ عثمانیہ اور بابِ عالی میں کوکبی مقتدرہ کی عظیم کامیابی۔ تنظیمات کے دوسرے مرحلے کا آغاز، پارلیامنٹ کا قیام۔ وکٹوریہ کے ہندوستان کی ’’ملکہ‘‘ ہونے کا اعلان۔ ہندوستان میں داخلی ملی اور قومی کش مکش کی برطانوی پالیسی کا آغاز ، بلقان جنگوں اور ان میں ترکی کی شکست کا آغاز۔

:1897     یونان ترکی جنگ، ملکہ وکٹوریہ کا جشن زریں۔ قیام اسرائیل کے لیے پہلی صہیونی کانفرنس کا باسل میں انعقاد۔

:1900     کانم اور چاڈپر برطانوی قبضہ۔

:1901-03  نائجیر یا پر برطانوی قبضہ۔

:1904     سائکس،پیکوخفیہ معاہدہ (Sykes-picot Agreement) کوکبی مقتدرہ کی برطانیہ، روس اور فرانس کے ساتھ مل کر خلافتِ عثمانیہ کے خلاف جنگ کرنے اور شکست دینے کے بعد خلافتِ عثمانیہ کے خاتمہ اور اس کے بندربانٹ کی خفیہ سازش۔ دوسری عالیہ (Second Aliyyah)1904-14کا آغاز۔

:1908     کوکبی مقتدرہ کی عظیم منصوبہ بندی کے تحت ترکی میں نوجوان ترکوں (Turks Young)کے نام سے خفیہ تنظیم کا قیام۔ بوسینا، ہرزے گووینا سے ترکی اقتدار ختم۔ ترکی میں مشروطیت کا آغاز۔

:1909     خلیفہ عبدالحمید الثانی کی معزولی۔(۱)

:1913     یورپی علاقے میں خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کا آغاز۔

:1916     فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کے برطانوی عزم کا اعلان، بالفور اعلانیہ۔

:1918     خلافت عثمانیہ کی جنگ عظیم میں شکست، پہلی جنگ عظیم کا خاتمہ۔

:1923     خلافت ِعثمانیہ کا خاتمہ، امت مسلمہ محمدیہ میں خلافت کا خاتمہ، ترکی جمہوریہ قرار پایا، خلافتِ عثمانیہ کی بندربانٹ۔                                                                           (امت کا بحران/اسرار عالم صاحب:ص۳۰ تا ۳۵)

مسلمانوں کے عروج کے لیے ایمان میں پختگی ضروری ہے:

                علمائے راسخین کی بڑی جماعت کا رجحان اس جانب ہے کہ مسلمانوں کے لیے نصرتِ الٰہی کا مدار قوتِ ایمانی پر ہے ؛ اسی لیے اگر قرآنِ کریم کی آیتوں پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے اپنی مدد کو ایمانِ حقیقی کے ساتھ مشروط کیا ہے ۔ ارشاد خداوندی ہے : {وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ}کہ تم ہی سر بلند رہو گے، بشرطیکہ تم مومن رہو ۔ تو معلوم ہوا کہ سربلندی کے لیے ایمان شرط ہے ۔اور ایمان کہتے ہیں اسلامی عقیدہ کا مضبوطی کے ساتھ دل میں جم جانا جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے : {قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا، قُلْ  لَّمْ  تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ  قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا  یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ  فِیْ  قُلُوْبِکُمْ}

                ترجمہ : یہ دیہاتی کہتے ہیں کہ: ’’ہم ایمان لے آئے ہیں۔‘‘ ان سے کہو کہ: ’’تم ایمان تو نہیں لائے، البتہ یہ کہو کہ ہم نے ہتھیار ڈال دئیے ہیں۔ اور اِیمان ابھی تمہارے دِلوں میں داخل نہیں ہوا۔


(۱)سلطان عبد الحمید الثانی دولۃ عثمانیہ کے ۳۴؍ ویں سلطان تھے اور آلِ عثمان کے ۲۶؍ویں خلیفہ تھے، گویاخلافت اور سلطنت دونوں ان کو میسر ہوئی ،انتہائی زیرک ذہین جرأت مند دور اندیش تھے،عیسائیوں اور یہودیوں نے مل کر اتحادیوں کے سہارے ۲۷؍اپریل بروز منگل ۱۹۰۹ء کو خلافت سے معزول کر دیا سلطان نے اپنی فراست کی وجہ سے خلافت کو تقریباً ۳۲؍ سال کی زندگی ملی،سلطان کی ولادت ۲۱؍ ستمبر۱۸۴۲ء میںہوئی اور ۳۱؍ اگست۱۸۷۶؍آپ منصبِ خلافت پر فائز ہوئے۔۳۳؍سال آپ خلیفہ رہے،۲۸؍ربیع الآخر ۱۳۳۶مطابق۱۵؍فروری ۱۹۱۸؍ کو ۷۶؍ سال کی عمر میں وفات پائی۔

                آپ کوامیر المومنین اور خلیفۃ المسلمین اور خادم الحرمین الشریفین کے القاب سے یاد کیا جاتا تھااور آپ اسلامی تاریخ کے۱۰۲؍ویں خلیفہ تھے،جس دن آپ کا انتقال ہوا یہود نے عید منائی اور اپنے اخبارات میں اعلان کیا کہ اب اسرائیلی ریاست قائم ہو جائے گی؛اس سے ان کی دینی حمیت اورطاقت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔آپ کے آخری کلمات یہ تھے:’’اللہ گواہ اورشاہد ہے کہ میں نے اپنے دور کے ۳۳؍ سالہ عرصے میںسوائے دین کی خدمت ور اس کی سربلندی کے علاوہ کوئی کام یافیصلہ نہیں کیااور میری ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ تمام ترکیوں اورتمام مسلمانوں کی زندگی کا مقصد اپنے دین کی حفاظت کے علاوہ کچھ نہ ہو۔‘‘اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور امت کی جانب سے اجرِ عظیم سے نوازے۔

                دیہات کے کچھ لوگ دِل سے ایمان لائے بغیر ظاہری طور پر کلمہ پڑھ کر اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر رہے تھے، جس کا مقصد مسلمانوں جیسے حقوق حاصل کرنا تھا۔ مدینہ منورہ میں آکر انہوں نے راستوں پر گندگی بھی پھیلائی تھی۔ ان آیات میں ان کی حقیقت واضح فرمائی گئی ہے اور یہ واضح کردیا گیا ہے کہ سچا مسلمان ہونے کے لیے صرف کلمہ پڑھ لینا کافی نہیں ہے، بل کہ دِل سے اسلامی عقائد کو ماننا اور اپنے آپ کو اِسلامی اَحکام کا پابندبنانا ضروری ہے۔(آسان ترجمۂ قرآن:ص۱۵۸۶ )

                اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے :  {وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ} کہ مومنین کی نصرت ہم پر بمنزلہ فرض کے ہے ۔ اللہ اکبر ! یہاں بھی ایمان کا مطالبہ ہے ۔

                اللہ کی غیرت کبھی بھی مومنین کو تنہا اور اکیلا نہیں چھوڑتی ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : {وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلٰی مَا اَنْتُمْ عَلَیْہِ}                 اس کے علاوہ بھی متعدد مقامات پر نصرت ،عزت اور شوکت کے حصول کے لیے ایمان کوشرط قرار دیا گیا،مثلاً: ارشادِ ربانی ہے :{وَاِنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْن }(انفال: ۱۹) {وَلَنْ یَّجْعَلَ اللّٰہُ لِلْکَافِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلًا }کہ کافر کبھی بھی مومنین پر غلبہ حاصل نہیں کرسکتا ۔