اداریہ:
مولانا حذیفہ ابن مولانا غلام محمد صاحب وستانوی ؔ
انسان جو بھی نیکی یا کار خیر کرتا ہے، وہ محض توفیق ایزدی سے کرتا ہے۔وماتوفیقی الا باللّٰہ ؛جامعہ اکل کوا کا ترجمان ’’ شاہراہ علم ‘‘ کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ وہ امت کو سلگتے ہوئے مسائل سے واقف کرائے ، اسی غرض سے دسیوں خصوصی شمارے بارہ سال کے عرصے میں الحمد للہ! منظر عام پر آکر شرفِ قبولیت پاچکے ہیں ۔ آغاز سے اب تک کے موقع بہ موقع شائع شدہ خصوصی شمارے یہ ہیں :
مجلہ ہذا کے خصوصی شمارے:
شمار
شاہراہ ِعلم کے خصوصی شمارے
سن طباعت
۱
’’فرقِ باطلہ نمبر‘‘
رجب المرجب -رمضان ۱۴۲۶ھ(۳۰؍ سے زائد فرقوں کا تعارف))
۲
دفاع ِحبیبِ کبریا صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘
محرم -ربیع الاول ۱۴۲۷ھ(کارٹون کے موقع پر اس کے رد میں)
۳
’’طالبانِ علومِ نبوت اور عصری تقاضے ‘‘
شوال -ذی الحجہ ۱۴۲۷ھ(طلبہ کی رہنمائی کے لیے)
۴
’’اسلام اور سائنس راہِ اعتدال‘‘
محرم -ربیع الاول ۱۴۲۸ھ( سیکولرزم اور سائنس کی تاریخ)
۵
’’جامعہ نمبر ‘‘
رجب المرجب -رمضان ۱۴۲۸ھ (جامعہ کی خدمات)
۶
’’فقہ المناسبات نمبر ‘‘
ربیع الثانی -رمضان ۱۴۲۹ھ(مغربی کلچر کے ڈیز کے احکام)
۷
’’ تعارف العلوم ‘‘
محرم -جمادی الاخریٰ ۱۴۳۰ھ(۳۰؍سے زائد علوم کا تعارف)
۸
’’ رمضان نمبر ‘‘
رجب المرجب -رمضان ۱۴۳۲ھ (رمضان میں رہنمائی)
۹
’’تحفظِ ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم‘‘
ذی الحجہ ۱۴۳۳ھ-نومبر ۲۰۱۲ء(آپؐ کی دفاع میں)
۱۰
’’ علمِ سیرت ایک تعارف ‘‘
ربیع الاول ۱۴۳۵ھ-جنوری ۲۰۱۴ء(علومِ سیرت کا تعارف)
۱۱
’’سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘
ربیع الثانی ۱۴۳۵ھ-فروری ۲۰۱۴ء(دلفریب اسلوب میں کردارِ نبویؐ)
۱۲
’’حالاتِ حضرت مہدیؓاورعلامات قیامت‘‘
ربیع الآخر ۱۴۳۵ھ-مارچ ۲۰۱۴ء(مہدویت کے دعویدار وںکا بطلان)
۱۳
’’سیاست ، جمہوریت، ووٹ اور اسلام‘‘
رجب المرجب ۱۴۳۵ھ-مئی ۲۰۱۴ء(اسلام کا نظریۂ سیاست اور ووٹ کا حکم )
۱۴
’’ عصر حاضر کے سلگتے فتنے اور مسلمانوں کے لیے لائحہ عمل ‘‘
شعبان، رمضان ۱۴۳۶ھ-جون،جولائی۲۰۱۵ء(موجودہ فتنوں کی حقیقت)
۱۵
’’رابطۂ ادب اسلامی کے ۳۵؍ویںمذاکرۂ علمی کی روداد‘‘
صفر ، ربیع الاول۱۴۳۷ھ-دسمبر۲۰۱۵ء(رابطہ ادبِ اسلامی کے سیمینارپر )
۱۶
’’ تفہیم اسلام عصر حاضر کے تناظر میں ‘‘
رمضان-ذیقعدہ ۱۴۳۷ھ،جون-اگست۲۰۱۶ء(عصری اسلوب میں اسلام کا تعارف)
۱۷
’’ مسلم پرسنل لا بورڈ کا تحفظ ‘‘
صفر المظفر ۱۴۳۸ھ-نومبر ۲۰۱۶ء(یکساں سول کوڈ کے رد میں)
۱۸
’’خصوصی شمارہ ‘‘
شعبان-شوال ۱۴۳۸ھ،مئی-جولائی۲۰۱۷ء(رمضان سے متعلق)
۱۹
’’خصوصی شمار ہ برتذکرۂ حضرت شیخ جون پوری ؒ‘‘
ذی الحجہ ۱۴۳۸ھ-ستمبر۲۰۱۷ء(بروفات ِ حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ)
قضیۂ فلسطین پر ایک مزیدخصوصی پیشکش:
اِس وقت امت کو جو مسئلہ در پیش ہے وہ مسئلہ’’ فلسطین اوربیت المقدس‘‘ ہے ۔امریکی حکومت کی جانب سے فلسطین کے شہر’’ القدس ‘‘کو اسرائیل کی راجدھانی قرار دینے کے اعلان کے بعد سے یہ مسئلہ موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ کتاب و سنت نیزتاریخی حیثیت اور مسلمانوں کی اکثریت کے رجحان کے اعتبار سے فلسطین اور القدس شہر مسلمانوں کا ہے اور رہے گا ۔ ان شاء اللہ !
تو آئیے! اس سلسلہ میں مستند اور معتبر معلومات کو آپ حضرات کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح اسلامی موقف کو واضح کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور عقائدِ اسلامیہ اور فکرِ اسلامی کے بابت ہر طرح کی ضلالت اور گمراہی سے ہماری حفاظت فرمائے ۔
احقرایک منفرد اسلوب میںکچھ قلمبند کرنے کی جرأت کر رہا ہے اوروہ یہ ہے کہ بیت المقدس حضرت عمرفاروق ؓ کے دور میںہمارے قبضہ میں آیا ،اس کے بعد تقریباًچار صدیوں تک ہمارے پاس رہا ؛پھر تقریباً ۹۰؍سال کے لیے ہمارے ہاتھ سے جاتا رہا ،اورپھردوبارہ ہمارے قبضے میں آیا او ر الحمد للہ!تقریباً ۹۰۰؍سال ہمارے زیر نگیں رہا اورپھر تقریباً ۶۹؍ سال قبل ہمارے قبضے سے جاتا رہا۔میںنے تاریخ کی ورق گردانی کرکے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ پانچویں صدی ہجری میںکن اسباب کی بنیاد پر القدس ہمارے ہاتھوںسے گیا اور پھر ۹۰؍ سال بعد کیسے ہمارے قبضہ میں آیا،اس کے ظاہری اسباب سے زیادہ باطنی اسباب کیا رہے ہیں؟ کن علمی شخصیات کی خدمات کی وجہ سے صلاح الدین ایوبی جیسی نسل پیدا ہوئی اور کس طرح اس پردوبارہ قبضہ کیا گیا؛اس کے بعد دوسری مرتبہ کیسے ہمارے ہاتھوں سے چلا گیا اور اب اسے دوبارہ حاصل کرنے کے لیے کیا کیا جانا چاہیے۔
اللہم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ۔ اللہم وفقنا بالقول والنیۃ والفعل والعمل لما تحب و ترضی ۔
اپنے عقیدے پر ثابت قدمی بقائے امت کا راز:
کسی بھی امت کا سب سے اہم ترین اور ترجیحی اوراولیت کا حامل مسئلہ اس کا اپنا تشخص ہوتا ہے، جس کی جانب قرآنِ کریم نے بھی اشارہ کیا ہے ۔ {وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ} اے مسلمانو ! تم ہی سر بلند رہوگے بشر طیکہ تم صفتِ ایمان سے متصف رہو ۔
مسئلہ فلسطین کا تعلق ہمارے عقیدے سے ہے۔لہٰذا اس کی تاریخ اور کتاب و سنت میں اس کے مقام اورحیثیت کو جاننے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کے حصولیابی کی کیا صورت ہوگی ،وہ ہمارے ہاتھوں سے کیوں چلا گیا ؟اور اس کے اسباب کیا رہے ؟ تو آئیے پہلے اس پر روشنی ڈالتے ہیں ۔
فکری وسلاحی جنگ کے اثرات:
اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں انسانوں کے درمیان جو معرکہ آرائی ہورہی ہے؛ وہ دو طرح کی ہے، ایک اسلحہ کے ذریعہ اوردوسری سازشوں کے ذریعے۔ ہمیشہ اسلحہ کی جنگ سے پہلے فکری جنگ ہوتی ہے اور پھر جو فکری یلغار میں کامیاب ہوتا ہے وہ اسلحہ کی جنگ میں بہ آسانی کامیاب ہوجاتا ہے ۔ پوری انسانی تاریخ اس پرگواہ ہے ، جس پر تفصیل سے روشنی ڈالنے کا ابھی موقع نہیں ہے(احقر اپنے متعدد اداریوں اور مضامین میں تفصیل کے ساتھ اس پر الحمد للہ ! اللہ کی توفیق اور فضل خاص سے کافی لکھ چکا ہے، جس کے لیے مندرجہ ذیل اداریے اورمضامین کی طرف مراجعت مفید ہوگی ۔)
پرفتن دور میں امتِ مسلمہ کی رہنمائی کے لیے لکھے گئے اداریے:
شمار
عناوین
۱
موجودہ اور آئندہ نسلوں کو الحادو بے دینی سے کیسے بچایا جائے؟
۲
الغزو الفکری: تعارف و تجزیہ
۳
تعلیم اور سما جی خرا بیا ں
۴
امت کی پستی اور بگاڑ کے اسباب اور اس کا صحیح حل اورعلاج
۵
دنیا کی سیا سی، معاشی ،اخلا قی ابتر ی کے اسبا ب اور اس کا حل
۶
امت ہمہ جہتی مصائب سے کیسے نجات حاصل کر سکتی ہے؟
۷
فتنو ں کے دور میں ایما ن کو کیسے بچا یا جا ئے ؟
۸
عصر حاضر کے مادی افکا ر ونظر یا ت ،شریعت اسلا میہ کی کسو ٹی پر
۹
اسبا ب نصرت و ہزیمت سیر ت کی روشنی میں مع برکات نبو ت
۱۰
ظالم حکمر انو ں کے تسلط کے ظا ہر ی و ر وحا نی اسباب اور اس سے نجا ت کا ر استہ یعنی(سیاست، ریاست ،حکومت، جمہوریت اور ووٹ کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر مع اسباب تدارک)
۱۱
فتنے سے کیوں اور کیسے بچیں؟
۱۲
مسلمان پر آشوب حالات سے کیسے نجات حاصل کرسکتے ہیں ؟
۱۳
سسکتی انسانیت کو اسلام کی معتدلانہ تعلیم کی ضرورت
۱۴
مسلمانوں میں اتحاد واتفاق پیدا کرنے اور ان کی تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں ائمہ مساجد کا روشن کردار !
۱۵
یکساں سول کوڈ نہ شرعاً قابلِ نفاذ نہ دستورِ ہند کے اعتبارسے البتہ یہ ضرور بتایا جائے گا کہ ہم اس وقت جس سیاسی کمزوری کا شکار ہیں ،اس سے پہلے ہم کس فکری معرکہ سے دو چار ہوئے، جس کے نتیجے میں دشمن نے ہمیں ایمانی اعتبار سے کمزور کیا ۔اور آخر کار ہم سیاسی ضعف کا شکار ہوگئے