جامعہ کے شب وروز

اسفار رئیس جامعہ :

                ۳؍ نومبر ۲۰۱۷ء بروز جمعہ بعد نماز عصر رئیس جامعہ حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی دامت برکاتہم اپنے استاذ مکرم وسرپرست ِجامعہ حضرت مولانا عبد اللہ صاحب کاپودروی دامت برکاتہم کی عیادت کے لیے کاپودرا تشریف لے گئے ۔

                 حضرت رئیس جا معہ کا معمول ہے کہ جب بھی و ہ گجرات کے سفر پر ہوتے ہیں ،وہ اپنے استاذ محترم اور سرپرست جامعہ حضرت مولانا عبد اللہ صاحب کاپودروی دامت برکاتہم سے ضرور ملاقات کرتے ہیں اور ان کی ملاقات سے دلی سکون واطمینان محسوس کرتے ہیں ۔

درخواستِ دعاء شفا:

                تمام قارئینِ شاہر اہ سے سرپرست جامعہ حضرت مولانا عبد اللہ صاحب کاپودروی -ادام اللہ ظلہ علینا بالعافیۃ والسلامۃ- کے صحت وتندرستی کے لیے دعا کی درخواست ہے ۔حضرت کی طبیعت بہت زیادہ علیل چل رہی ہے ،اس لیے آپ حضرات خصوصی دعائوں کا اہتمام فرمائیں۔

                حضرت رئیس جامعہ دامت برکاتہم سر پرست جامعہ کی عیادت سے فارغ ہوکرعشا کے وقت حضرت شیخ مولانا زکریارحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ حضرت مولانا اسماعیل صاحب بیدات ؒ کی تعزیتی مجلس میں شرکت کے لیے ’’ نانی نرولی‘‘ پہنچے۔

                تعزیتی خطاب کے بعد آپ ہی کی دعا پر جلسہ کا اختتام ہو ا ۔ اور رات اپنے وطن وستان میں قیام فرمایا ۔ دوسرے دن صبح مدرسہ اسلامیہ صوفی باغ سورت تشریف لے گئے ؛جہاں مدرسہ کے ڈائرکٹر حاجی سلیم صاحب کے بھتیجے حمزہ ولد فازو مرحوم چاندی والے اور پوتے اویس خالد چاندی والے کے نکاح میں شرکت فرمائی۔

                نکاح خوانی سے فراغت کے بعد ۴؍ نومبر ۲۰۱۷ء رات ساڑھے نوبجے فلائٹ سے دہلی روانہ ہوگئے ۔ رات جامعہ محمودیہ مسوری غازی آباد میں قیام فرمایا ، فجر کی نماز سے فارغ ہوکر دیوبند تشریف لے گئے ۔ وہاں دودن کی مجلس شوریٰ میں شرکت فرمائی ۔

میڈیا سے نہایت قیمتی بات:

                مجلسِ شوری سے فراغت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا: کہ تعلیم ، تجارت ، بزنس اورہنر ایسے ہتھیار ہیں کہ جس سے دنیا میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے ۔

                مسلمانوں کو پیغام دیتے ہوئے فرمایا کہ مسلم سماج اپنے بچوں کو دینی و عصری تعلیم سے آراستہ کریں اور ان کی تربیت کی طرف دھیان دیں ، انہیں ماہر اور ہنر مند بنائیں ۔

مدرسہ حسین احمد مدنی انبہٹہ میں:

                ۶؍ نومبر ۲۰۱۷ء شام ۷؍ بجے مدرسہ حسین احمد مدنی انبہٹہ پیر سہارن پور یوپی ، جامعہ کے تعاون سے بنی بلڈنگ کی افتتاح کے لیے تشریف لے گئے ۔صدر جمعیۃ علمائے ہند واستاذ حدیث دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم کی صدارت اور مہمان خصوصی رئیس جامعہ حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی کی موجود گی میں یہ پروگرام شروع ہو ا ، جس میں ایک سال میں ۱۵؍ پارہ مکمل کرنے والے طلبہ اورپورے سال میں مکمل حاضری دینے والے طلبائے کرام کو ان بزرگان دین کے ہاتھوں انعامات سے نوازا گیا ۔ ان ہی بزرگان دین کے ہاتھوں جامعہ اکل کوا کے تعاون سے بنی بلڈنگ کا افتتاح بھی ہوا ۔

                حضرت مولانا وستانوی صاحب کے داماد حضرت مولانا حبیب احمد صاحب مدنی کے زیرِ نظامت چلنے والے اس ادارہ نے مختصر اور قلیل مدت میں کامیابی کی منزل طے کر لی ہے ۔ فی الحال اس ادارے میں ۴۰۰؍ طلبہ تعلیم و تربیت میں مشغول ہیں ۔دینیات ، حفظ اور عربی چہارم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم میں دسویں (S.S.C )ہندی انگلش میڈیم تک تعلیم کا نظم ہے ۔

                آئی ٹی آئی کالج کی خوب صورت بلڈنگ تیار ہوچکی ہے اور اس کے لوازمات بھی خریدے جاچکے ہیں۔ ان شاء اللہ جلد اس کا افتتاح عمل میں آئے گا ۔ اللہ تعالیٰ مزید ترقیات سے نوازے ۔

                حضرت رئیسِ جامعہ یہاں کے پروگرام سے فراغت کے بعد دہلی کے لیے روانہ ہوئے ، راستے میں حضرت مولانا سید ازہر مدنی صاحب کے زیرِ نظامت چلنے والے مدرسہ تعلیم القرآن گنگوہ ضلع سہارن پور یوپی کی وزٹ فرمائی ۔ رات جمعیۃ علمائے ہند کی آفس میں قیام فرماکر صبح کورانکا ۳۶؍ گڑھ کے لیے رواں دواں ہوئے ۔

                ۷؍ نومبر ۲۰۱۷ء دوپہر ایک بج کر۱۰؍ منٹ پر مدرسہ تعلیم القرآن رانکا ،ضلع بے مترا پہنچ گئے ۔

۳۶؍گڑھ میںجامعہ کی تعلیمی بہار:

                دینی تعلیم سے کوسوں دور رہنے والے علاقے صوبہ۳۶؍ گڑھ میں جامعہ نے تعلیمی وتربیتی سلسلہ شروع کردیا ہے ، پچھلے چار پانچ سال سے جامعہ کا رخ ۳۶؍ گڑھ کی طرف زیادہ ہے ۔ اور الحمد للہ تعلیمی میدان بھی بن چکا ہے ۔ شرک و بدعت اور جہالت کی دلدل میں پھنسے اس علاقے میں جامعہ نے دو اقامتی ادارے (۱) مدرسہ عروج الاسلام گنگورا ضلع کوریا(۳۶؍گڑھ) اور دوسرا مدرسہ تعلیم القرآن رانکا ، ضلع بے مترا(۳۶؍گڑھ) میں قائم کیے ہیں۔

                یہاں آپ کی صدارت میں تکمیلِ حفظ قرآن کی مجلس منعقد کی گئی ۔جس میں ۲۰؍ طلبہ تکمیلِ حفظ قرآن کی دولت سے مالا مال ہوئے ۔حضرت رئیسِ جامعہ نے ان طلبہ کے والدین کو مبارک بادی پیش کی۔

                 اس مدرسہ میں فی الحال ۲۵۱؍ طلبہ زیر تعلیم ہیں ۔ دینیات ، حفظ کی تعلیم کا نظم ہے ۔ اب تک ۲۰؍ طلبہ نے تکمیل حفظ قرآن ، ۹۹؍ طلبہ تکمیل ناظرہ قرآن کی دولت سے سرفراز ہوچکے ہیں ۔آخر سال تک مزید ۱۵؍ طلبہ کے تکمیلِ حفظ قرآن کی امید کی جارہی ہے ۔

                دینی تعلیم کے ساتھ ہی عصری تعلیم ۱؍ سے دسویں تک اسکول کا نظام ہے ۔۲۳؍ طلبہ دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم نیز ۲۴؍ طلبہ دسویں میں زیر ِتعلیم ہیں ۔

                مدرسہ کے فعال ومتحرک ناظم جناب قاری نعمت اللہ صاحب کی محنت وکوشش سے یہ مدرسہ تعلیمی وتعمیری ترقی کی طرف رواں دواں ہے ۔اللہ تعالیٰ تمام منتظمین و معاونین کو اجر ِجزیل عطافرمائے ۔ آمین

رئیس جامعہ مراٹھواڑہ کی شاخوں میں:

                حضرت رئیس جامعہ رانکا ۳۶؍ گڑھ وغیرہ کے پروگرام سے فارغ ہوکر کنج کھیڑ ا تکمیل حفظ قرآن کی مجلس میں شرکت فرماکر جامعہ ابو ہریرہ بدناپور میں قدم رنجہ ہوئے ۔حضرت رئیس محترم ایم بی بی ایس کالج اور النور ہاسپیٹل کی وزٹ فرماکر میمن کالونی اورنگ آباد سانسد جناب امتیاز (اے جلیل )کی موجودگی میں ’’ ویلکم بیکری ‘‘ کا افتتاح کیا ۔دوسرے دن صبح جامعہ محمودیہ احمد نگر تکمیل حفظ قرآن کی مجلس میں شرکت فرمائی ۔یہاں ۱۲؍ اسٹاف کوارٹر کی تعمیر مکمل ہوئی تھی ، ان کی چابی اساتذہ کو سونپی گئی اور آپ کی دعا پر مجلس کا اختتام ہوا ۔

                یہاں فراغت کے بعد پھر کنج کھیڑا کی وزٹ فرماکر اکل کوا تشریف لے آئے ۔                 

(خبر مولانا حسن صاحب،ترجمانی محترم رضوان بھائی ،تحریر وترتیب مولانا سبحان صاحب)

جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا میں

 اجازت حدیث کا پانچ روزہ تاریخی’’ دورہ‘‘

مولاناعبد الرحمن ملیؔ ندویؔ

                یہ تاریخی حقیقت ہے کہ قرآن ِکریم مسلمانوں کے پاس تواتر واستمرار کے ساتھ پہنچاہے۔ اور تواتر کی سند کے لیے محنت درکار نہیں ہوتی ، اس لیے کہ مسلمان نسلیں اس کو یکے بعد دیگرے منتقل کرتی ہی رہتی ہیں ۔ جیسے قرآن کریم کی تمام قرا ء ات کی اپنی خاص اسناد ہیں۔جیسے ابن جزری کی سند عمرو بن دانی تک اور عمرو بن دانی کی سندتمام قراء تک، لیکن جہاں تک معاملہ ہے حدیث پاک کا ؛تو یہاں معاملہ مختلف ہے۔ اس لیے کہ صحابہ کرام نے جس انداز سے قرآنِ کریم کے لکھنے کا اہتمام فرمایا تھا اس طرح حدیث پاک کا اہتمام نہیں کرتے تھے۔جو لکھا ہوا ملتا بھی ہے وہ قدر ِقلیل ہے ۔ اورچوں کہ صحابہ کرام ہی ہمارے لیے مرجع واصل ہیں، وہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف اوقات میں مسائلِ شرعیہ اور زندگی کے دیگر معاملات سے متعلق سوال کیا کرتے تھے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جواب مرحمت فرمایا کرتے تھے۔ لیکن جب صحابہ کرام کا زمانہ ختم ہوگیا اور تابعین کا زمانہ شروع ہوا، تو حدیثِ پاک کے تدوین وجمع کی ضرورت پیش آئی۔تو لوگ ان افراد سے علم حاصل کرنے لگے ، جنہوں نے صحابہ کرام سے سنا یا علم حاصل کیا تھا ۔ حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ کے زمانہ میں حدیث وسنت کے تدوین کا معاملہ تیز ہوگیا اورلوگ ادھر خاص توجہ دینے لگے ، اس لیے کہ کسی بھی بات کو سند وحوالہ کے ساتھ بیان کرنا یہ اس امت کی خصوصیت وامتیاز ہے ۔ عبد اللہ بن مبارک ؒ فرماتے ہیں کہ اسناد دین کاحصہ ہے اگر اسنا د ہی نہ ہو تو ہرفردکچھ بھی کہہ سکتا ہے۔ اورحضرت مالک بن انس ؒ فرماتے ہیں کہ ’’ یہ علم دین ہے اس بات کا پورا خیال کرنا چاہیے کہ تم دین کس سے حاصل کررہے ہو ‘‘ ۔

عالی سند محدثین کا ورود مسعود جامعہ اکل کوا کے احاطہ میں :

                سند کی اہمیت اور اس کی ضرورت کو یقینا ہر دور میں ہمارے علما ومحدثین نے خوب محسوس کیا ہے اور آزادی کے پہلے اس کا اہتمام بھی ہوتا تھا ۔ اور ایک ایک حدیث کی سند عالی کے لیے دور دراز کے اسفار کرتے تھے، اس لیے کہ ان علما ومحدثین کے پاس اس کی قدر ومنزلت تھی ، اس کی اہمیت جانتے تھے ، لیکن اب تعلیمی انحطاط اور فکری زوال کے باعث گرچہ سند حدیث کا مقام ومرتبہ کم نہیں ہوا ،لیکن اس کا اہتمام ضرور کم ہوا ہے ، بل کہ اب لوگ اس زاویہ سے غالباً سوچتے بھی نہیں ہیں ۔

                الحمد للہ ! مقامِ مسرت ہے کہ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا ؛جو الحمدللہ عالمی سطح پر اپنا ایک مقام بنانے میںکامیاب ہوچکاہے کہ عالی قدر مہتمم اورخادم کتاب وسنت حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی دامت برکاتہم نے اس جانب بھی توجہ فرمائی ۔ ایسے تو جامعہ ہرتین سال بعد کل ہند پیمانہ پر مسابقۃ القرآن کا انعقاد کرتا ہی آرہا ہے ، جو امسال بھی ہوگا ان شاء اللہ !لیکن حدیث پاک کے اس اہم گوشے کی طرف بھی خصوصی توجہ فرمائی اور جامعہ کے ناظمِ تعلیمات ومعتمد جناب مولانا حذیفہ صاحب وستانوی کو اس کام کے لیے مامور فرمایا ۔ یقینا حضرت مولاناغلام محمد صاحب وستانوی اور جناب مولانا حذیفہ صاحب وستانوی قابل صد مبارک باد ہیں کہ حدیث پاک کے ایسے گمنام گوشے کی طرف خصوصی توجہ مبذول فرمائی ۔ اور اس اہم کام سے متعلق حضرت مولانا حذیفہ صاحب وستانوی نے مختلف زیرک علما و محدثین سے مشورے کے ـلیے مختلف مقامات وممالک کے اسفار بھی کیے اورجب ہرطرف سے مرحبا کی روح پرور صدائیں آنی شروع ہوئیں، تو اللہ کی ذات پر اعتماد وبھروسہ کرتے ہوئے اسی کی توفیق سے کام شروع کیا ۔اور جامعہ کے شعبۂ ادب عربی کے استاذ مولانا عبد الوہاب صاحب ندوی، مدنی کو یہ کام حوالہ کیا ۔ مولانا ندوی صاحب نے جناب مولانا فیصل ندویؔ استاذ دار العلوم ندوۃ العلما لکھنؤ کی معرفت مختلف عالی سند علما محدثین سے روابط پیدا کیے ، کام بڑھتا گیا اور روابط مضبوط ہوتے رہے۔ حضرت مولانا حذیفہ صاحب نے مدینہ منورہ کے استاذِ حدیث شیخ حامد اکرم بخاری سے رابطہ کیا ۔ شیخ نے بہت سراہا اور اس کا م کی تکمیل کے لیے خود بھی کوشاں رہے ۔ شیخ موصوف نے مختلف شیوخ حدیث سے روابط کیے اور اس طرح دیگر ممالک کے شیوخِ حدیث واساتذۂ حدیث احاطۂ جامعہ میں قدم رنجہ ہوئے ۔ جن کے نام کچھ اس طرح ہیں : (۱ ) شیخ حامد اکرم بخاری (۲) شیخ صفوان داؤدی (۳) شیخ احمد عاشور(۴) شیخ عامر بن محمد بہجت  (۵) شیخ عبد المحسن المطیر ی (۶) شیخ حمد بن حسن جہنی(۷) شیخ الیاس حسن (۸) شیخ  عمار سعید المانعی (۹) شیخ عبد الملک بنگلہ دیشی (۱۰) شیخ عمرفاروق قورقماز ترکی ۔ یہ وہ مہمانانِ کرام ہیں جو مدینہ منورہ اوردیگرممالک سے تعلق رکھتے تھے۔

                البتہ ہندوستان سے بعض ایسے بھی محدثین تشریف لائے جو عمر دراز ی کے آخری مرحلے میں تھے ۔ جیسے حضرت مولانا ثناء اللہ سلفی اثری ،(جن کو اب ہم رحمۃ اللہ علیہ کہنے پر مجبور ہیں) حضرت مولانا سعید الرحمن مظہری ، حضرت مولانا ابراہیم مدراسی ۔ یہ وہ شیوخ ہیں جن کی عمریں قریب سوسال اور بعض کی متجاوز تھیں ۔ اور دیگرشیوخ میں حضرت مولانا بلال اصغر صاحب دیوبندی، حضرت مولانا قمرالدین صاحب بڑودوی ، حضرت مولانا رشید احمد بن مولانا حبیب الرحمن اعظمی ؒ ، حضرت مولانا نور الحسن راشد صاحب کاندھلوی، حضرت مولانا طلحہ بلال صاحب ، حضرت مولانا مسعود اعظمی ، حضرت مولانا عارف جمیل صاحب دیو بندی ، حضرت مولانا حبیب احمد صاحب ہتھورا ، حضر ت مولانا لطیف الرحمن صاحب بہرائچی ۔ ان شیوخ کے علاوہ ہندوستان کے قرب و جوار کے مختلف جامعات ومدارس کے اساتذہ ٔحدیث شریک ِپروگرام رہے ۔ ساتھ ہی جامعہ کے اساتذۂ حدیث بھی مکمل ۵؍ یوم تک پورے جوش کے ساتھ شریک رہے ۔ اس طرح یہ علمی وحدیثی روحانی دورہ ٔاجازتِ حدیث پوری کامیابی کے ساتھ چلتا رہا ۔ آغاز کے چند دن جامعہ کے تخصصات ،دورۂ حدیث اور مشکوۃ شریف کے طلبہ بھی شریک رہے ۔

                جامعہ کے ناظمِ تعلیمات ومعتمد نے شیوخ کے مشورے سے سماع حدیث کے لیے ’’جامع ترمذی شریف‘‘ کا انتخاب کیا ، جوشمائل پر بھی مشتمل ہے ۔ الحمدللہ پوری ترمذی شریف کا سماع ہوا ، یہ شیوخ قرأت سند کے موقعہ پر ضرور ی اصلاحات بھی کرتے رہے۔ 

                مورخہ ۲۹؍ صفر المظفرتا ۴؍ ربیع الاول ۱۴۳۹ھ – ۱۹؍تا ۲۳؍ نومبر ۲۰۱۷ء تک۱۷؍ مجالس میںپوری ترمذی شریف ختم ہوئی ۔

                مورخہ ۲۲؍ نومبر کی شام بعد نماز مغرب ’’شعبۂ تحفیظ القرآن الکریم ‘‘سے فارغ ہونے والے خوش نصیب طلبہ کی مجلس ختم قرآن میں تمام شیوخ عرب کو حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی ، حضرت حافظ اسحاق صاحب وستانوی ، حضرت مولانا حذیفہ صاحب وستانوی نے استقبالیہ دیا ، جس میں چند طلبہ نے ترحیبی پروگرام پیش کیا ۔ جناب ناظم تعلیمات نے ترحیبی واستقبالیہ کلمات پیش کیے چند مہمانوں نے اپنی قلبی ودلی تاثرات پیش کیے ۔ اس اعتبار سے حضرت رئیس جامعہ کی دعا پر مجلس کا اختتام عمل میں آیا ۔ استقبالیہ اجلاس کی نظامت کاتب سطور (عبد الرحمن ملی ندوی ) نے کی ۔

                دوسرے دن ۲۳؍ نومبر کو بعدِ نماز ظہر جامعہ کی مرکزی مسجد، مسجد میمنی میں اختتامی نششت کا انعقاد کیاگیا  جس میں مزید مہمانان ِکرام کی تشریف آوری ہوئی، صوبہ گجرات کے مرکزی مدارس و جامعات کے اساتذہ حدیث بھی تشریف فرما ہوئے ۔ اسی طرح صوبہ مہاراشٹر سے بھی بعض مرکزی مدارس سے اساتذۂ حدیث شریک مجلس ہوئے ۔

                اس آخری اجلاس کی بھی صدارت حضرت رئیسِ جامعہ دامت برکاتہم نے فرمائی اور جناب ناظم تعلیمات مولانا حذیفہ صاحب وستانوی نے سندِ حدیث کی اہمیت وضرورت پربہترین کلام کیا اور اس تاریخی دورۂ اجازتِ حدیث کی غرض وغایت بتلائی اور اس اہم علمی چیز کی طرف علما کی توجہ مبذول فرمائی ۔

                ساتھ میں اجلاس کی نظامت کرتے ہوئے برادرم جناب مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی مظاہری نے بھی شیوخ کی آمد پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے سند حدیث پر قرآن وحدیث کی روشنی میں کلام کیا ۔ شیخ خالد یمنی کی تلاوت سے اجلاس کا آغاز ہوا ، شروع میں ترمذی شریف کی چند بقیہ احادیث کی تلاوت کی گئی،اس کے بعد ’’الشمائل المحمدیۃ ‘‘ اور’’الاوائل السنبلیۃ ‘‘ کی مستقل قرأت شیخ احمد عاشور نے کی ۔ شیخ حامد اکرم بخاری اور حضرت مولانا وستانوی صاحب کی حوصلہ مندانہ کلمات کے بعد شیخ احمد عاشور کی دعا پر اس تاریخی اجلاس کا اختتام عمل میں آیا ۔

                اللہ تعالیٰ حضرت رئیس ِجامعہ اور جناب ناظم ِتعلیمات صاحبان کو خوب صحت و تندرستی عطا فرمائے کہ اتنا مبارک،عظیم اور تاریخی قدم اٹھایا ۔اللہ اس کی خیرات اوربرکات کو عام فرمائے اور پروگرام میں آنے والے مہمانوں کو قبول فرمائے ۔ آمین۔