از فخر الاسلام مظاہری علیگ
ایک تعارف
از: مفتی زین الاسلام قاسمی الہ آ بادی(مفتی دار العلوم دیوبند)
۱۹ویں صدی کے نصف آخر میں جس وقت دارالعلوم دیوبند قائم ہوا،اُس وقت مدرسہ کا موقف،مسلک،مشرب اور نصاب تعلیم جو کچھ مقرر کیا گیا،وہ کسی ہیجانی خیال ا ورعصری تحریک کے تحت وقت کے دھارے اور زمانہ کی رفتار کے نعروں پر نہیں؛بلکہ اُن حتمی اور یقینی بنیادوں اور اصولوںپر مبنی تھا جو ایک طرف تو سلف سے محفوظ و منقول تھے،دوسری طرف نا قابلِ تبدیل عقلی اصولوں کی اُنہیں تائید حاصل تھی۔
جب یہ بات معلوم ہو گئی ،تو اب سمجھنا چا ہیے کہ دار العلوم،مظاہر علوم اور اِن کی فکر پر،پروان چڑھنے وا لے مدارس سے متعلق جو اعترضات آج اُٹھ رہے ہیں،وہ وہی اعتراضات ہیں جو اِن اداروںکی بنا کے وقت سے لے کر ہر آنے والے زمانہ میں تسلسل کے ساتھ اُٹھتے رہے ہیں۔فرق صرف اِس قدر ہے کہ دور حاضر میں ایک طرف تو ہر چیز کے اندر مفاہمت و مصالحت کی روش عام ہو گئی،اوریہ روش جب افکار اور اصول کی طرف بڑھی،تواِس نے دینی حمیت اور تصلب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔دوسری طرف دور حاضر میں اصطلاحات اور محاوروں کا ایسا فتنہ رونما ہوا کہ جس نے عقائد کی صفائی اور پاکیزگی کو اس انداز سے نقصان پہنچایا کہ علمی شغف رکھنے والوں کو خود فریبی میں مبتلا کر دیا۔ چناں چہ ایسے الفاظ اِس وقت علمی دنیا میں نہایت کثرت سے پھیلے ہوئے ہیں،جو اپنی ظاہری شکل سے بھلے معلوم ہو تے ہیں؛لیکن عقائد کو آلودہ کرنے میں فعال رول ادا کرتے ہیں، مثلاً: ’’فطرت‘‘،’’انسانیت‘‘،’’معروضیت‘‘،’’عقلیت‘‘،’’اعتدال پسندی‘‘،’’حقیقت پسندی‘‘،’’افادیت ،پسندی‘‘،’’رفتار زمانہ کی موافقت‘‘،’’تشکیل جدید‘‘ اور’’سائنسی مزاج‘‘وغیرہ۔یہ الفاظ و اصطلاحات بالکل سادہ ہیں ؛لیکن دور حاضر میںاِن سے ترشح پانے والے پیغامات دینی افکار و خیالات کے لیے سم قاتل ہیں۔مدت ہوئی علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کا ایک مضمون کسی رسالہ میں شائع ہوا تھا’’الفاظ کا فتنہ ‘‘۔اُس میں اسی فتنہ کی نشاندہی کی گئی تھی کہ ایک لفظ بظاہر سادہ؛بلکہ جاذب نظر ہوتا ہے؛لیکن وہ جن تصورات کے لیے استعمال کیا جاتاہے،وہ مہلک ہوتے ہیں۔علامہ ؒ نے ۲۰ویں صدی عیسوی میں اِس فتنہ کا نوٹس اُس وقت لیا تھا جب کہ یہ اپنے برگ و بار نہیں لا سکا تھا۔لیکن اب رواں صدی میں توبا رونق الفاظ کے پردے میںفاسد تصورات کے مذکورہ فکری التباسات اپنے مدارج ترقی کے انتہائی اونچے درجے پر پہنچ چکے ہیں۔
اجمالی طور پر یہی دو بڑے اسباب ہیں جو دور حاضر کو گزشتہ ادوار سے ممتاز کرتے ہیں۔دور حاضر میں اسلام کے عقائد و احکام کے باب میں جو خلجانات ظاہر کیے جاتے ہیں،وہ عموماً اِنہی الفاظ کے پردے میں ہو تے ہیں۔ایسے حالات میں علامہ یو سف بنوریؒ کا ارشاد ہے کہ جس طرح ہر دور میں اسلام پر وارد ہونے والے شکوک و شبہات کا ازالہ اور باطل فرقوں کی تنقیداور:
’’ اُن کے عقائد کی تردید دین کا اہم جز تھا،اسی طرح آج لادینی نظام حیات،اشتراکیت و فسطائیت وغیرہ کے مسائل پر قواعد اسلام کے پیش نظر نقد و تبصرہ دین کا اہم جز ہے۔‘‘( مدارس عربیہ کا نصاب و نظام از علامہ یوسف بنوری بحوالہ ترجمان دار العلوم فروری ۲۰۰۱ ص۴۴ )
لا ریب ؛علامہ یو سف بنوریؒ کی یہ بات درست ہے؛لیکن ایک سوال یہاں یہ پیدا ہو تا ہے کہ دور حاضر میں دین کے اِس اہم جزکی تحصیل کا طریقۂ کار کیا ہو؟اِس سوال کا جواب ،نیز مناسب حل اور تجویز ہم کو حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب صاحبؒ کے یہاں نظر آتی ہے،وہ فرماتے ہیں :
’’اِس کی ضرورت ہے کہ طلبائے مدارس ،علوم عصریہ کو شرعی معیار سامنے رکھ کر حاصل کریں۔اُن کا (امتحان لیا جائے،اوریہ)امتحان صرف اُن مسائل کے تحفظ کی حد تک نہ ہو؛بلکہ امتحان میں شرعی مسائل پیش کر کے یہ دریافت کیا جائے کہ اِس مسئلہ کے بارے میں جدید علوم کیا کہتے ہیں۔آیا موافقت کرتے ہیں،یا مخالفت؟مخالفت کرتے ہیں،تو دین اس کا کیا جواب دیتا ہے؟اِس کے لیے ضرورت ہے کہ وہ جدید مسائل جنہیں آڑ بنا کر اسلام پر شکوک و شبہات وارد کیے جا تے ہیں،اُن کی ایک فہرست مرتب کی جائے ،اور ہر استاذ کے پاس اُس کی نقل موجود ہو،وہ اس پر خصوصی توجہ دے۔اور تعلیم میں رداً و ثبوتاً،اس کی طرف پورا التفات کرے۔ ‘‘
(معارف حکیم الاسلام ۔قاری محمد طیب صاحب ص۵۴۹۔مکتبہ ملت،دیوبند )
یہ تجویز مفتی محمد تقی عثمانی مد ظلہ کے یہاں زیر عمل آ چکی ہے۔ چناں چہ ان کی فرمائش پر،پروفیسر محمد حسن عسکری نے جدید مسائل کی ایک فہرست مرتب کی؛لیکن مفتی صاحب کے ادارے میں اس کا نفع اِس طور پر تو محسوس کیا گیا کہ چوں کہ کتاب’’ الانتباہات المفیدۃ عن الاشتباہات الجدیدۃ‘‘پہلے سے داخل درس تھی ،حکیم ا لامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ کی اِس کتاب کی مزیدوضاحت کے لیے اِس فہرست سے جس کے ساتھ جدید مسائل کا اِجمالی تعارف بھی تھا ،کسی قدر مد د ملی؛لیکن چوں کہ مسائل کی فہرست نا کافی تھی،اُن مسائل کے دلائل اور اصول کیا ہیں؟وہ بھی واضح نہیں تھے؛اس لیے یہ تجربہ زیادہ کامیاب نہیں رہا۔ البتہ خارجی مطالعہ کے طور پر وہ فہرست مفید سمجھی گئی ۔
(دیکھئے:نقوش رفتگاں از مفتی محمد تقی عثمانی،’’جدیدیت‘‘از پروفیسر محمد حسن عسکری ،مقدمہ ’’جدیدیت‘‘ از ڈاکٹر محمد اجمل)
لیکن جیسا کہ معلوم ومسلم ہے کہ علوم عصریہ اور علوم جدیدہ کے حوالہ سے لادینی نظام حیات،اشتراکیت و فسطائیت وغیرہ کے مسائل پر قواعد اسلام کے پیش نظر نقد و تبصرہ کا اصل تعلق علم کلام کے فن سے ہے ۔لہذا جب تک اس فن کے بنیادی اصول پر نظر اور ضروری عبور حاصل نہیں ہو گا،دور حاضر میں پائی جانے والی فکری پیچیدگیوں کی اصل صورتِ حال پر قابو پانا مشکل ہی رہے گا۔اس بات کی تائید اِس سے ہوتی ہے کہ ابھی گزشتہ سال یکم جون ۲۰۱۶ء کو دار العلوم دیوبند میں منعقد ہو نے والے تحفظِ ختم نبوت تربیتی کیمپ کی گیارہویں نشست میں استاذ گرامی حضرت مولانا ریاست علی بجنوری قدس سرہ نے اپنی تقریر میں علم کلام کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا:
’’دلائل عقلیہ سے عقائد ایمانیہ کو ثابت کرنے والا فن ’’علم کلام ‘‘ کہلاتا ہے۔میرے عزیزو! تم لوگوں کو سب سے زیادہ ضرورت اِسی فن کو مہارت کے ساتھ حاصل کرنے کی ہے اگر فرقِ باطلہ سے بات کرنی ہے۔‘‘البتہ؛اگر’’ تمہیں اعمال کے سلسلے میں بھی بات کرنی ہے،تو فقہ اور اصول فقہ کی بھی ضرورت ہے؛لیکن اصل جو زیغ و ضلال ہے،وہ تو عقیدے میں آتا ہے۔…اس کو صحیح طور پر پیش کرنے کا سلیقہ!یہ تو علم کلام پیش کرے گا۔‘‘
پھرمرحوم قدس سرہ نے ’’ الانتباہات المفیدۃ عن الاشتباہات الجدیدۃ‘‘کے تین اصولوں کا بطور مثال ذکر کیا اور اُن کے اجراء و اطلاق کو تفصیل کے ساتھ بیان کرنے کے بعد فرمایا:
’’حضرت تھانویؒ نے علم کلام کے چند اصول ’’ الانتباہات المفیدۃ ‘‘کے نام سے اردو زبان میں.. آسان انداز میں مرتب کر دیے(ہیں۔)حضرت ہی کی زندگی میں حضرت کے خلیفہ(حکیم محمد مصطفی بجنوریؒ)نے اُن کی تشریح کر دی،اور تشریح کے ساتھ اُس( میں مذکور اصولوں )کا اِجرا (اس طرح )کر دیا کہ ایک اصول لکھا اور اُس کے نیچے دو چار جزئیات (بیان کر دیے) ۔اگر آپ غور و فکر کے ساتھ ’’ الانتباہات المفیدۃ ‘‘ پڑھ لیں،تو علم کلام میں آپ کو اِتنی دسترس ہو جائے گی کہ جو عقائد ہیں اُن عقائد کو عقلی طور پر ثابت کرنے کا ایک سلیقہ پیدا ہو جائے گا۔‘‘
نیز فرمایا کہ اہل سنت والجماعت کے اصولوں سے انحراف کرنے والوں کے :
’’انحراف سے نمٹنے کے لیے استدلال کرنا پڑے گا آپ کو علم کلام سے۔علم کلام میں جو اصول بیان کیے گئے ہیں حقائق شرعیہ کو ثابت کر نے کے لیے ان اصول میں سے کوئی نہ کوئی اصول عقلی طور پر آپ کی بات کو ثابت کرنے کے لیے یقیناً مل جائے گا،شاید ’’ الانتباہات المفیدۃ ‘‘میں ہی مل جائے۔‘‘
(حضرت مولانا ریاست علی کی آخری شام تحفظِ ختم نبوت کے نام از مولانا شاہ عالم گورکھپوری ص۱۰۸تا ۱۱۰۔ہفت روزہ الجمعیت،نئی دہلی ،اکتوبر ۲۰۱۷)
اس وضاحت سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ مدارس کے نصاب تعلیم میں علم کلام کی اس لیے ضرورت ہے کہ شریعت کے اجزائے اعتقادیہ کی تفہیم کے واسطے عقلی دلائل کا سلیقہ اور اصول معلوم ہو سکے،پھر اسی سے اس کی طرف بھی اشارہ ہو گیا کہ عقلی دلائل پر قدرت حاصل ہونے کے لیے معقولات میں درک پیدا ہونا چوں کہ لازم ہے،اس لیے معقولات کی بھی ضرورت ہے،اور یہ کہ یہی وہ مصلحت اور حکمت ہے جس کی وجہ سے علم کلام کو داخل درس کیا گیا اور معقولات درسیات میں شامل کی گئیں ۔چناں چہ اِس حیثیت پر روشنی ڈالتے ہو ئے مفتی سعید احمد پالن پوری مد ظلہ فرماتے ہیں:
’’ اِس دور میںقدیم فلسفہ کیوں پڑھایا جا تا ہے؟فلسفۂ یونان کا تو اب صرف نام رہ گیا ہے…..۔مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران پرانی لکیر ہی کیوں پیٹے جا رہے ہیں۔اس کا جواب یہ ہے کہ فلسفۂ قدیم کی تعلیم چار وجوہ سے دی جاتی ہے۔‘‘
پہلی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’علوم دینیہ کے ہر طالب علم کے لیے ضروری ہے کہ وہ معارضِ اسلام(Anti Islam)نظریات سے با خبر رہے،خواہ وہ نظریات قدیم ہوں یا جدید؛کیوں کہ نظریات ایک بار پیدا ہو کر ختم نہیں ہو جاتے۔اُن کی شکلیں بدل جاتی ہیں؛مگر بنیادی خیالات اپنی جگہ برقرار رہتے ہیں۔فلاسفۂ یونان کے خیالات بھی ختم نہیں ہو گئے۔آج بھی وہ کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔عالم کے حدوث و قدم کا مسئلہ،اسی طرح تناسخِ ارواح (آواگون)کا نظریہ خواہ وہ حکمائے یونان کا ہو ،یا حکمائے ہند کا، آج بھی موجود ہے۔پچاس کروڑ انسان اسی عقیدہ پر مرتے جیتے ہیں۔‘‘
دوسری وجہ کے ذیل میں کتب کلامیہ کی فہم و تفہیم کے لیے فلسفہ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’شرح عقائد نسفی تفتازانی کی متوسط درجہ کی درسی کتاب ہے،اُس کو پڑھنے والے طلبہ جا نتے ہیں کہ اُن کو قدم قدم پر فلسفیانہ نظریات و اصطلاحات سے سابقہ پڑتا ہے،اور جو طلبہ اِن اصطلاحات سے نابلد ہوتے ہیں،وہ استاذ کا منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ طلبۂ عزیز پوری توجہ سے فلسفہ کی تعلیم حاصل کریں تاکہ وہ علم کلام کی کتابوں کو کما حقہ سمجھ سکیں۔‘‘(پیش لفظ از مفتی سعید احمد پالن پوری:معین الفلسفہ ص۷،۸ مکتبہ حجاز دیوبند )
اب رہا اس اِفادیت کے حامل نصاب تعلیم میں ترمیم کا مسئلہ،اورتبدیلی پیدا کرنے کا مشورہ دینے والوں کی رائے پر عمل کرنا،تو اِس کے متعلق بھی استاذ گرامی حضرت مولانا ریاست علی بجنوری قدس سرہ نے کسی دوسرے موقع پر اہل علم کے مجمع سے خطاب کرتے ہوے بالکل صاف طور پر فرمایا کہ:
’’ جس نصاب کوپڑھ کر حضرت مولانا نانوتوی ؒاِس لائق ہو ئے کہ جنہیں آج معیار قرار دیا جا رہا ہے اور آپ حضرات بھی اسی نصاب سے لائق و فائق ہوئے، اِس میں کسی طرح کی ایسی ترمیم جو ہمارے اکابر کے نقشِ قدم سے ہٹ کر ہوگی، قبول نہیں کی جائے گی‘‘۔
(ماہنامہ دار العلوم ۲۰۰۴ء، ص۴۵ مدار سِ اسلامیہ میں عصری علوم کتنے مفید؟ بحوالہ: جدید سکریٹری رپورٹ رابطہ مدارس عربیہ ص۶۸)
اِس ضروری وضاحت کے بعد اب یہ عرض ہے کہ کتاب ’’الامام محمد قاسم النانوتوی کی فکراوربدلتے حالات میں مدارس کی ترجیحات ‘‘
میںاِن مذکورہ امور کا کافی تٖفصیل کے ساتھ جائزہ لیا گیا ہے ۔کتاب کے مباحث کا اندازہ اس کے نام سے ہی کچھ کچھ ہو جاتا ہے۔موضوع اور مواد کی قدر و اہمیت کا اندازہ تو کتاب کے مطالعہ سے ہوگا؛لہذا اِس حوالہ سے گفتگو کو طول دینا پیش نظر نہیں ہے ؛بلکہ مطالعہ کرنے والے اپنا تاثر ، تبصرہ یا اختلاف و اتفاق خود ہی ظاہر کریں ،تو مناسب ہے۔ البتہ اِس حیثیت سے کہ چوں کہ مصنف نے اپنی متعدد تحریروں میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کوحضرت نانوتویؒ کے شارح کی حیثیت سے پیش کیا ہے اور ہر دو محققوں کو علی الترتیب۱۹،ویں اور۲۰یں صدی کے عظیم ،جلیل القدر مفکرمتکلم اور بعض اصولوں کے موجد قرار دیا ہے ،اِس لحاظ سے مذکورۃ الصدر اہم موضوع پرقلم اُٹھانے والے مصنف کا ایک مختصر تعارف ،اُن کی فن سے مناسبت اور امام محمد قاسم نانوتویؒ و حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے فکری علوم سے شغف کا ایک پس منظر ذکر کردینے کا ضرور جی چاہتا ہے۔
مولف کتاب برادر عزیز مولوی فخر الاسلام مظاہری علیگ ایک ذی استعداد عالمِ دین،خالص دینی اور روحانی ذہن کے ساتھ عصری علوم میں درک حاصل کرنے والے ممتاز فاضل ہیں۔درس نظامی کا نصاب پورا کرنے کے سلسلے میں اُنہیں خاصا وقت حضرت قاری صدیق احمد صاحب باندویؒ کی خدمت میں رہنے اوراُن سے منطق و معقولات کی کتابیں پڑھنے کا موقع ملا،جس کی وجہ سے اِنہیں اِس فن سے خاصی مناسبت ہو گئی۔حضرت قاری صاحبؒ کے خصوصی فیض سے علوم عقلیہ (فلسفہ و منطق)سے مناسبت کی بنا پر فلسفۂ جدید (سائنس)کے نظریات کا سقم اِن پر واضح ہوتا رہا،اور ادنی طور پر بھی ذہن اس سے مرعوبیت کا شکار نہیں ہوا۔موصوف ادھر تقریباً پندرہ سال سے حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ،اور تقریباً سات سال سے امام محمد قاسم نانوتویؒ کے علوم و افکار کے مطالعہ میں مصروف ہیں ۔مولف عزیز سائنس اور علوم عصریہ(جدیدہ)کی روشنی میں حضرت نانوتویؒ کی کتابوں کے مطالعہ کے دوران ایسے نادر انکشافات کا اظہار وقتاً فوقتاً اپنی مجلسوں میں کرتے رہے جن کا فہم و ادراک موجودہ وقت میں نہایت ضروری اور کارآمد معلوم ہوتا ہے۔مذکورہ ہر دو بزرگ کے افادات کے ساتھ اپنی مناسبت اور دلچسپی کا اظہار خود آں موصوف نے اپنی ایک تحریر’’امام قاسم نانوتوی ؒ کے افادات تک رسائی‘‘میں کیا ہے،جس کی تلخیص و اختصار یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے فکری علوم کے ساتھ اپنے شغف اور مناسبت کے متعلق لکھتے ہیں:
’’…..حضرت رحمہ ا ﷲ کی تصانیف بھی برابر میرے مطالعہ میں رہتی تھیں؛لہذا حضرت ؒ کی یہ شبیہ(ازالۂ شبہاتِ جدیدہ کے وصف میں مجددِ کامل ہو نے کی)میرے لیے مثل آفتاب نیم روز تھی۔دوسری طرف موجودہ حالا ت میں علم و عقل کی بنیاد پر پیدا ہونے والے مسائل اور اصول جو شریعت سے مزاحم ہیں،اُن کا بھی مجھے خوب اندازہ تھا؛کیوں کہ پندرہ سال سے میڈیکل سائنس کے ساتھ میرا شغف تھا،پوسٹ گریجویشن کے تحقیقی دور نے اور بعض عصری تعلیم سے وابستہ محققوں کی رفاقتوں نے(جس کی تفصیل بڑی دل چسپ ہے) قدیم و جدید ہر طرح کے علوم کا ،مجھے خوگر بنا دیا تھا۔اور بعض ایسے عقدوں کو کھولنے میں میری دلچسپی بڑھ گئی تھی جن کے نہ کھلنے کی وجہ سے جدید تعلیم یافتہ طبقہ مضطرب بھی ہے،اور اسلام پر -علمی بنیادوں، عقلی اصولوں کے حوالے سے -معترض بھی۔ ایسے مشکل عقدوں کو کھولنے کے لیے حضرت کی تصنیفات سے فکری مواد جمع کرنے کا کام میں نے شروع کر دیا تھا۔ابھی یہ کام جا ری ہی تھا کہ ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ مولانا محمد حذیفہ صاحب وستانوی جو ابھی درسیات سے فا رغ ہوئے تھے اورجامعہ اسلامیہ اِشاعت العلوم اکل کوامیں تدریس اور نظم و اِنتظام کے بعض امور اُن سے وابستہ ہو گئے تھے،اُنہیں اپنے والدماجد رئیس الجامعہ جناب مو لانا غلام محمد وستانوی زیدت معالیہم کی طرح عصری اداروں سے وابستہ افراد کی فکری اصلاح کی طرف کافی زائد توجہ تھی۔اُن کی اِس توجہ کا یہ نتیجہ تھا کہ جامعہ مذکور کے ذیلی ادارہ مولانا آزاد ہائر سکنڈری کالج اکل کوا میں سائنس، علوم جدیدہ اور نصابِ تعلیم کے حوالہ سے پیدا ہونے والے فکری التباسات کے ازالہ کے لیے ،انہوں نے میرے لکچرز کا ایک سلسلہ شروع کیا جو تقریباً چار سال تک جا ری رہا۔اِن لکچروں کی تیاری کے دوران حکیم الامت حضرت تھانویؒ کی تصنیفات سے اخذ و اِستفادہ میں اور قوت پیدا ہو گئی۔ابھی۱۲ رہویں کلاس کے طلبہ میں (جس میں بعض اساتذہ بھی شریک رہتے تھے)مذکورہ لکچر کا سلسلہ چل رہا تھا کہ محاضرہ کا ایک اور سلسلہ حکیم الامت حضرت تھانویؒ کی کتاب ’’الانتباہات المفیدۃعن الاشتباہات الجدیدۃ‘‘ کے مضامین کو سبقاً سبقاً بیان کرنے کا مشکوۃ شریف کے طلبہ میں جاری ہوا جو۲۰۰۷ء کی ابتدا سے ۲۰۱۴ءتک قائم رہا ۔جب وہاں سے ابتدا ہوگئی ،توپھر اپریل ۲۰۱۴ء سے سہارن پور میں مفتی مجد القدوس خبیب رومی زید مجدہ کی نگرانی میں ’’المجمع الفقہ الحنفی‘‘کے تحت شعبۂ افتاء کے طلبہ میں وہی سلسلہ قائم ہوااور مجھے یہاں بھی اِس خدمت کا موقع میسر آیا۔ ’’الانتباہات المفیدۃ‘‘ایسی کتاب
ہے جس کو سبقاً سبقاً پڑھائے جانے کا سلسلہ جاری کرنے کی حضرت تھا نوی ؒنے خواہش ظاہرکی تھی۔
(دیکھئے کتا ب مذکور:’’ وجہِ تالیف رسالہ‘‘)
اِس خواہش کی تکمیل کی اپنی بساط بھرکوشش کا کوئی ثمرہ بار آور ہو نے کی ،اور خدائے تعالی کے یہاں اجر کا باعث بن سکنے کی امید اورطمع ،اگرہے،تو چوں کہ یہ اس کو پڑھانے کے انتظام کا شرف ہندوستان میں اول مرتبہ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا کو ہی حاصل ہوا،اس لیے یہ غیر ممکن ہے کہ موسسِ جامعہ اور منتظم جامعہ کے لیے اِس اصول مَنٔ سَنَ سَنَّۃً حَسَنَۃً فَلَہ اَجْرُہَا وَاَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِہا الحدیث ،کے تحت ، آخرت میں اجر و ثواب کا باعث نہ بنے۔ اس کے علاوہ کتاب مذکور کا افادات تھانویؒ کے لاحقہ کے ساتھ راقم الحروف کی ترتیب و تدوین،توضیح و تشریح کی شکل میں مکمل ہو نا، موصوف مولانا محمد حذیفہ صاحب وستانوی ہی کی حمیت و تائید کا نتیجہ ہے۔
یہ تو حضرت تھانوی ؒ کے فکری و کلامی افادات کے ساتھ تعلق کی مختصر حکایت تھی ۔رہی حضرت نانوتوی ؒ کے افادات تک رسائی کی کیفیت اور اُس کا محرک،تو واقعہ یہ ہے کہ اس کے محرک اور محرض بھی مولانا محمد حذیفہ وستانوی (زادہ ا ﷲ شرفاً و فضلاً)ہی ہیں۔بات۲۰۱۰ء کی ہے جب ’’تصفیۃ العقائد‘‘نام کا شیخ الہند اکیڈمی کا شائع کردہ ایک دیدہ زیب ،جاذبِ نظر،مفر حِ قلب رسالہ انہوں نے مجھے اِظہار ِ مسرت کے ساتھ یہ کہتے ہوئے عنایت کیاکہ: ’
’یہ بہت عمدہ رسالہ شائع ہوا ہے۔میں نے دوران سفر مکمل رسالہ کا مطالعہ کر لیا ہے۔ ‘‘
حضرت نانوتویؒ کے افادات سے انتفاع کی طرف توجہ اور رغبت پہلی مرتبہ اِسی لطیف ہدیہ سے پید ا ہوئی۔بعد میںشیخ الہند اکیڈمی سے شائع شدہ تصنیفات ِقاسم کا ایک پورا سیٹ دستیاب ہوا؛لیکن افاداتِ قاسم کی طرف ہدایت- بمعنی ارائتِ طریق ،یا ایصال ال المطلوب بھی کہہ سکتے ہیں-اسی ہدیہ سے حاصل ہوئی۔
کنیسہ کو بھی دیکھا،دیر کی بھی سیر کی جب حرم کا مل گیا رستہ،تو اُس پر لگ رہا۔
مغربی مفکروں،فطرت پرستوں،مدافعین اسلام کے مغالطوں والے طریقہا ئے کار کو عبور کرنے کے بعدجب ایک مرتبہ صحیح طریق مل گیا ،تو کتابوں کا پورا پلندہ حاصل ہونے سے گویا دولت بے بہا حاصل ہو گئی۔ صرف ایک کتاب سے اپنی مناسبت اورشغف کا حال سناتا ہوں:
’’تقریر دل پذیر‘‘’بسم اﷲ‘ کی ب سے ’تمت ‘کی ت تک ،سہولت کے ساتھ رُک رُک کر،اور بعض مضامین کئی کئی مرتبہ پڑھ کر اور سابقہ صفحات سے اُن کا سرا اورربط ملا کرپڑھنے کی کوشش کے باوجود ،یہ نہ معلوم ہو سکا کہ مضامین کیا ہیں؟ مسائل کیا ہیں؟ اصولوں کے اِجراء و اِطلاق کی وہ تفصیلات کیا ہیں جوحضرتؒ کا امتیاز ہیںاور دوسرے اہلِ حق مفکرین کے یہاں نہیں ہیں؟ تین مرتبہ پڑھنے کے بعد بھی کتاب کا امتیازی اِطلاقی وصف سمجھ میں نہ آسکا۔چوتھی مرتبہ شروع کرنے سے پہلے حضرت نانوتویؒ کے دور میں طبعیات ،علوم جدیدہ ،فلکیات اور ،سائنسی قوانین پر مبنی تہذیب سے پنپنے والے افکار کیا تھے؟اُن پر اطلاع کے ساتھ عہد جدید میں اسلام کا دفاع کرنے والے مفکرین کے افکار اورطریقۂ کار کا تفصیلی مطالعہ کرنا ضروری قرار پایا۔پھر’’تقریر دل پذیر‘‘کا چار بار مطالعہ کیا،توکچھ کچھ سمجھ میں آئی؛لیکن اپنی فہم پر شرحِ صدر نہ ہوا؛بلکہ بعض مزید اطلاعات حاصل ہو نے کی ضرورت کا احساس ہوتا رہا،جس کے بعد تین کام کر نے پڑے:
(۱)فلسفہ سے مناسبت ہو نے کے باوجود ،اور فلسفہ کے مبادی،مسائل اور اصول پر ضروری اطلاع ہونے کے باوجود حضرت نانوتویؒ اور حضرت تھانویؒ کی بیان کردہ تفصیلات کی روشنی میں فلسفۂ قدیم کا مطالعہ کیا۔(۲)جدید فلاسفی کے ماہرین،جدید نفسیات کے محققین اوراہلِ سائنس کے اصول و افکار کا، ائمۂ افکار کی اصل زبان انگریزی میں مطالعہ کیا ،جس سے اردو میں کیے گئے مطالعہ کے مقابلہ میں اِس مطالعہ میں بڑا فرق محسوس ہوا۔(۳)عہدِ وسطی (عربوں کے دورِ عروج )کے بعد(۱۵ویں صدی عیسوی)سے لے کر آج تک (یعنی دورِ جدید )کی فکری تاریخ پر نظر ڈالی۔اس کے بعد ’’تقریر دل پذیر‘‘ کا تین مرتبہ مطالعہ کیا ۔اور اب یہ نتیجہ برآمد ہو اکہ اپنے فہم و وجدان میں ترقی ہو تی چلی گئی اور نوبت بایں جا رسید کہ :
ع= اب نہ کہیں نگاہ ہے،اب نہ کوئی نگاہ میں۔
ممکن ہے یہ باتیں راقم سطور کی دراز نفسی پر محمول ہوں؛لیکن خاص محرکات نے قلب و ذہن میں ہچکولے کھاتے جذبات کو حروف و نقوش میں تبدیل کر کے میری رسوائی کا سامان کیا۔تمام تعریفیں ا ﷲ کے لیے ہیں،جوذو الرحمۃ والمغفرۃاور ولی الہدایۃ ہیں۔‘‘
یہ مصنف کی خود نوشت سر گزشت کا اقتباس ہے جس میںفکری مناسبت ،ذوقی دلچسپی ا ورتحقیقی ذہن کی اجمالی روداد آگئی ۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ صحیح عقلی اصول ودلائل ،مشاہدوں اور تجربوں پر مبنی تحقیق ،بہر حال اہمیت کی حامل ہو تی ہے اور دلائل ہی کی بنیاد پر اختلاف کی گنجائش ہوا کرتی ہے اور اُس وقت یہ بات مزید اہمیت اختیار کر جاتی ہے ،جب کہ اِس پر نظر کی جائے کہ اِیسے اہم موضوع پر اس قدر تفصیل،تحقیق،تحلیل اورتجزیہ کے ساتھ کم ہی لوگوں نے لکھا ہے ۔و ا ﷲ یوفق لما یحب و یرضی۔
خاک پائے درویشاں
زین الاسلام قاسمی الہ آ بادی