سولہویں قسط:
مفتی نجم الحسین صاحب آسامی۔استاذجامعہ اکل کوا
اس رنگ برنگی دنیاکواللہ نے صرف اورصرف اپنی عبادت اورمکرم پیشانی کواس کے لیے جھکائے اس لیے پیدافرمایا۔نہ کہ اِس عالم پاک کوحضرت انسان شرک اورکفرکی نجاست وغلاظت سے لبالب بھردے،نیز کارکنانِ قضاوقدرکی بزم آرائیاں،عناصرکی جدت طرازیاں،ماہ وخورشیدکی فروغ انگیزیاں اورابروبادکی سخاوت عالم قدس کے انفاسِ پاک یعنی؛ توحیدابراہیم،جمال یوسف،معجزطرازیٔ موسیٰ ،جاںنوازیٔ مسیح اوربعثتِ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کامقصدوہدف صرف اورصرف یہ ہے کہ دین سے برگشتہ ،متمرد،بے راہ اورکج روکوراہِ راست اورصراط مستقیم دکھلاکران کونیک چلن،حسنِ کردار،خوش اطوار،نیک طینت،خوش خصال اوراقبال مندبنائے اوراللہ تعالیٰ نے اِس مقصدکے لیے لیل ونہارکی گردش ومرورایام کے ساتھ وقفہ وقفہ سے اپنے انبیابھیجے ۔
آمدم برسرمطلب:
آدم علیہ السلام کے بعد مختلف انبیااپنے اپنے علاقے کی طرف مبعوث کیے گئے ،لیکن جب شرک وفساد اور گمراہی وضلالت کادوردورہ بڑھتاگیااوردنیامیںہرطرف تاریکی چھاگئی ۔قبولِ حق کوایک طرف اس وسیع خطۂ ارض میںگزبھرزمین نہیںملتی تھی ،جہاںکوئی شخص خالص خدائے واحدکانام لیواہو،عالمگیراندھیراتھا۔معمورۂ عالم کے صفحے، نقشہائے باطل سے ڈھک چکے تھے،خطۂ زمین کاہرحصہ شرک وکفرکے داغ سے داغدارہو چکا تھا، انسانیت کی حالت دگرگوں تھی ،اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے اولوالعزم پیغمبروںمیں سے ایک پیغمبرحضرت نوح علیہ السلام کواُن کی قوم کی طرف رشدوہدایت کے لیے بھیجا۔حضرت نوح علیہ السلام نے حسبِ معمول انبیا،خلقِ خداکواللہ کی طرف بلاناشروع کیا،مگرنقارخانہ میں طوطے کی آوازکون سنے؟لہٰذاقوم کے نامور،سرخیل،لیڈر اورسرغنہ لوگوں نے نوح علیہ السلام پراعتراضات کی بوچھاڑکردی۔جس کانقشہ قرآن کریم نے یوںکھینچا:
{فقال الملأالذین کفروامن قومہ مانرٰک الابشرامثلناومانرٰک اتبعک الاالذین ہم اراذلنابادی الرأی ومانریٰ لکم علینامن فضل بل نظنکم کٰذبین }
ترجمہ: تواُن کی قوم کے سرداروںنے کہا:ہم تودیکھ رہے ہیں،کہ آپ ہماری ہی طرح ایک انسان ہیںاورہم تودیکھ رہے ہیںکہ آپ کی اتباع ہم میں سے بے قدرلوگوںنے ہی کی بغیرغوروفکر(کیے ہوئے)اورآپ کو،ہم برتربھی نہیں دیکھتے ہیں۔ بل کہ ہمارے گمان میں توآپ دروغ گوہیں۔
ہوتایوںہے:
کہ ہرجگہ کفارواہل باطل ہمیشہ اہل حق کامضحکہ اڑاناشروع کردیتے ہیں۔اورمسخرہ بنانے کاکوئی دقیقہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔نازیبااورسخت الفاظ ،بازاری اوراوباش ؛ جن کادرون خانہ بھی کوئی اکرام واحترام نہیںہوتا،وہ بھی انبیاپرخاک اڑاتے ہیں۔دل آزارطعن وتشنیع سے بارباراُن معصوم دلوںکومکدرکیاجاتاہے اوران نازپروردہ جسموںکونِت نئے اندازمیںتکلیف دی جاتی ہے ۔کبھی یہ تکلیف جسمانی ہوتی ہے اورکبھی طعن وتشنیع کی شکل میں،یہاں بھی ایساہی ہواکہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم بجائے اِس کے ؛ کہ اس پاک بازنبی کومان کرسر تسلیم خم کرتے ،ان ہی پراعتراضات کرناشروع کردیے،ان کاپہلااعتراض حضرت نوح علیہ السلام کی نبوت ورسالت کے بارے میں تھا{مانرٰک الابشرامثلنا}یعنی آپ توہمارے ہی طرح ہم جنس انسان ہیں،ہماری ہی طرح خوردونوش کرتے ہیں،ہماری مجلسوںمیں گفت وشنیدمیںشرکت کرتے ہیں،بازاروںاورمحلوںمیںچلتے پھرتے اورسوتے جاگتے میں بھی ہمارے ہم مثل ہیں،توپھرنبوت کی یہ خودرائی کیوں؟اورہم آپ کایہ فوق العادۃ امتیازکس طرح تسلیم کرلیںکہ آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے رسول اوراس کے پیغمبرہیں؟
ہماراخیال یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے جواس کی مخلوق کی طرف بھیجاجائے وہ کوئی ایساشخص ہو،جوجنسِ بشرسے نہ ہو۔تاکہ تمام لوگوںکوچاروناچاراس کو پیغمبرتسلیم کرنا پڑے ، ان لوگوں کا دوسرا اعتراض تھا کہ آپ کے متبعین وپیرو کار وہ لوگ ہیں جو سرسری نظر میں بے وقعت اورذلیل ورذیل ہیں ۔ معاشرہ میں جن کی کوئی قدر وقیمت نہیں ، نہ تو ان کے پاس مال ودولت کی ریل پیل ہے اور نہ ہی ان کے گھر مالوں کی بہتات سے لبریز ہے ،دنیا کے جاہ و حشمت سے وہ لوگ بالکل محروم ہیں، اگر آپ کی دعوت صحیح وحق ہوتی تو بجائے ان اراذل کے قوم کے سرغنہ اور نابغہ زمانہ لوگ آپ کی اتباع کرتے اور نام آور شخصیات آپ کی قدم بوسی کرتے ، لہٰذا شہر کے رؤسا اور سرداروں کا آپ سے بدکنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ حق پر نہیں ہیں، اب اگر ہم بالفرض آپ کو نبی مان کر آپ کی اتباع کربھی لیتے ، تو گویا ہم عقل وحلم کے علم بردار ، مال ودولت سے لیس ، فہم و ذکاوت کے حامل عزت واکرام کے دلدادہ لوگ ان اراذل غربا ، فقرا ناواقفوں کے ہم پلہ اوربرابر ہوجائیںگے ، جو کہ ہم لوگوں کو بالکل تسلیم نہیں ۔ ہاں ! ایک آسان صورت یہ ہوسکتی کہ آپ ان حقیر اوربے قدر لوگوں کے نام اپنے متبعین میںسے حذف کرکے ان غریب اور بے عزت لوگوں کو راندۂ درگاہ کردیں تاکہ جب وہ لوگ مردود ہوتو آپ کی قدم بوسی کرکے اس نیک بختی کو حاصل کریں اورعند اللہ مقبول ہوجائیں۔
اور جاہل لوگوں کو تیسرا اعتراض خود حضرت نوح علیہ السلام کی شخصیت وذات بھی تھی ،جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اے نوح !تم ہمارے سامنے پیدا ہوئے ، اور تمہاری نشو ونما ہمارے ہی گاؤں میں ہوئی ، پھر تم کو یہ نبوت ورسالت کب مل گئی کہ تم ہم لوگوں کو اپنے نبی ہونے کا قائل کرنا چاہتے ہو، اور یہ چاہتے ہو کہ ہم تمہاری اتباع کرکے تمہارے سامنے سر تسلیم خم کرلیں۔ اور تمہارے حلقہ بگوش ہوجائیں ، حالاں کہ تمہاری ہم پر کسی قسم کی بھی فضیلت نہیں ہے ۔ اور نہ ہی تم ہم سے مکرم اور باعزت ہو ، بل کہ ہم تو تم کو دروغ گو اور جھوٹا سمجھتے ہیں ۔ یہ آخری اعتراض ان کی جن جاہلانہ باتوں پر مبنی تھی جس سے یہ صاف طور پر عیاں ہوچکا تھا کہ ان کو ایمان لانا ہی نہیں تھا اور ان کے ایمان کو لے کر جو بہانہ تھا وہ بھی واضح ہوگیا تھا ، کیوں کہ جب انہوں نے نبی کی ذات کو ہی داغ دار کردیا ، اب ظاہر سی بات ہے کہ وہ اس نبی پر ایمان لانے کا ارادہ ہی نہیں رکھتے تھے ۔ تو ہی نہ چاہے تو بہانے ہزار ، ان واہیات اعتراضات کا جواب قرآن کریم نے کچھ اس طرح دیا کہ کفار کو دن میں ہی تارے نظر آنے لگے ۔
{ قَالَ ٰیقَوْمِ اَرَئَ یْتُمْ اِنْ کُنْتُ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَاٰتٰئنِیْ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِہٖ فَعُمِّیَتْ عَلَیْکُمْ ط اَنُلْزِمُکُمُوْھَا وَاَنْتُمْ لَھَا کٰرِھُوْنَo وَ ٰیقَوْمِ لَا ٓ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مَالًاط اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ وَمَآ اَنَا بِطَارِدِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاط اِنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّہِمْ وَلٰکِنِّیْٓ اَرٰئکُمْ قَوْمًا تَجْھَلُوْنَo وَ ٰیقَوْمِ مَنْ یَّنْصُرُنِیْ مِنَ اللّٰہِ اِنْ طَرَدْتُّہُمْ ط اَفَلاَ تَذَکَّرُوْنَo وَلَا ٓ اَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِیْ خَزَآئِنُ اللّٰہِ وَلَا ٓ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَلَا ٓ اَقُوْلُ اِنِّیْ مَلَک’‘ وَّلَا ٓ اَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ تَزْدَرِیْٓ اَعْیُنُکُمْ لَنْ یُّؤْتِیَھُمُ اللّٰہُ خَیْرًاط اَللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ صلے ج اِنِّیْٓ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَ}
حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا : اے میری قوم ! دیکھو تو سہی اگرمیں اپنے رب کی طرف سے کسی دلیل کے ساتھ ہوں اور میرے پروردگار نے مجھے اپنی طرف سے رحمت بھی عنایت فرمائی اوروہ تمہاری آنکھوں سے پوشیدہ ہے (پھر ) کیا تمہارے بیزار ہونے کی صورت میں بھی ہم اس کو تم پر زبر دستی تھوپیںگے ۔اوراے میری قوم میں اس دعوت کے بدلہ بطور صلہ تم سے کسی بھی قسم کے مال کا مطالبہ بھی نہیں کرتا ، میرا اجرتو اللہ ہی پر ہے اور میں ان مومنوں کوراندۂ درگاہ کرنے والا نہیں ہوں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ لوگ اپنے پرور دگار سے ملنے والے ہیں اورلیکن میرے خیال میں تم لوگ (انجام سے ) ناداں ہو ۔ اوراے میری قوم ! کون میری پشت پناہی کرے گا ؟ اگر میں ان لوگوں کو ہانک دوں کیا تم لوگ دھیان نہیں رکھتے ؟ اور میں اس کا دعویٰ نہیں کررہا ہوں تمہارے سامنے کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اورنہ ہی میں غیب سے باخبر ہوں ، اور میں نے فرشتہ ہونے کا بھی دعویٰ نہیں کیا ، اور میں یہ بھی نہیں کہتا کہ تم لوگ جن کو بے وقعت سمجھ رہے ہو ، اللہ تعالیٰ ان کو کسی بھلائی سے سرشار نہیں کرے گا ، اللہ بخوبی واقف ہے ان کے دلوں کے احوال سے تب تو قطعی طور پر میں ستم گربن جاؤں۔