مفتی عبدالقیوم صاحب مالیگاؤں۔استاذجامعہ اکل کوا
ازل ہی سے انسان میں دشمنی ہے
یہ دیوارِ نفرت وہیں سے کھڑی ہے
سرفرازی حق اوراہلِ حق کوہی ملتی ہے:
اِ س دنیائے انسانیت میں اسلام کی ابتداسے ہی اس کے حاسدین ہرزمانہ اورہردورمیںرہے ہیں اوررہیںگے۔اور اسلام ؛یعنی حق کوماننے والوںکی تعدادہردورمیں تھوڑی رہی ہے ۔نیزیہ بھی مسلّمات میں سے ہے کہ حق اوراسلام کوماننے والے افرادکم زوراوردنیاوی اسباب اوروسائل سے ابتدامیںمحروم رہے ہیں۔لیکن تاریخ اس بات پر شاہدہے کہ ہزاروں دشواریوں،بے شمارمظالم اورحالات کے باوجوداِس حق وباطل کی کش مکش میںنتیجہ وکامیابی اور سرفرازی حق اوراہلِ حق کوہی ملی ہے ۔کیوںکہ وعدۂ رحمانی ،آیت ربانی اوراعلان قرآنی {وأنتم الأعلون} ’’یعنی تم ہی کامیاب اور سربلندرہوگے ‘‘بھی موجودہے ۔
بشرطیکہ حق والے صبراوراستقامت کے ساتھ اس دولتِ لازوال کوسینے سے لگائے رہیں۔اوردنیائے فانی کے اسبابِ تعیّش اورمناصب اعلیٰ سے منہ موڑکرآخرت اوراس کی کامیابی ہی کواپنی معراج تصورکرتے رہیں۔کیوںکہ اسلام کی روشن تعلیمات کی روسے ،بل کہ قرآنی اصول کے مطابق کامیابی کامداراقلیت اوراکثریت پرنہیںہے ،بل کہ دنیانے اپنی آنکھوںسے دیکھاہے کہ زمانۂ ماضی میںایک بارنہیں،بل کہ بارہاایساہواہے کہ چھوٹی اوربہ ظاہرکم زورجماعتوںنے بڑی اورطاقت ور جماعتوںکی چارپائی کھڑی کرکے اُن کی کمرتوڑدی اوران کا نام ونشان بھی ہندستان سے قبرستان پہنچا دیا ہے۔ جیسا کہ قرآن کہتاہے :{کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ بإذن اللّٰہ }کیوںکہ اس کامیابی کا اصل سرچشمہ منشائے ربانی ہے جو’’بإذن اللّٰہ‘‘سے واضح ہے ۔
زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں :
ہم باشندگانِ ہنداس وقت تاریخ کے جس بھیانک اورالم ناک دورسے گذررہے ہیں،اِس پرزیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔اس لیے کہ وہ بہت ہی پُرخطر،بل کہ موجودہ اورآئندہ نسلوںکے لیے بڑازبردست چیلنج ہے۔ایک طرف حکومت اوراُس کے کارندے ہردن اورہررات ایک نئی سازش،ایک نئے پلان اورنئی پالیسی بناکراسلام اورتعلیماتِ اسلام کونشانہ بنانے اوراس کومشکوک اورداغدار،بل کہ فضول اوربے کارثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔تودوسری طرف ہماری اپنی صفوں کاانتشاراورآپس کی نظریاتی جنگ ،بل کہ اس سے بڑھ کر اپنی محبوب شخصیات کی محبت میں غلواورافراط کرتے ہوئے دوسروںکی تحقیروتذلیل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔
ایک ہی سمت میںکام کرنے والی جماعت ،ایک دھارے میں چلنے والی دعوت ،ایک ہی قرآن اورایک ہی دین کو ماننے والی قوم نہ جانے کیوںانجام وعواقب سے بے خبرہوکرایک دوسرے سے ایسے متصادم اورمقابل ہوچکے ہیں،جیسے کہ دوسرے فریق اور دوسری جماعت کوکم زور اورغلط ثابت کرنے ہی میںساری خیراوربھلائی کاراز پوشیدہ ہے اور یہی سارے دین کی محنت کا میدان ہے۔الامان والحفیظ!
ہمیںدوراستوںپرچلناہوگا:
تاریخ کے اوراق کھنگالنے سے معلوم ہوتاہے کہ قومیں ہمیشہ اپنی سیرت اوراپنے اخلاق وکردارکی طاقت سے زندہ اورآبادرہی ہیں ۔جس قوم سے اخلاق مٹے وہ قوم صفحۂ ہستی پرزیروزبرہوگئی اورتاریخ کے صفحات پرقصۂ پارینہ بن گئی۔آج اگرہم چاہتے ہیںکہ ہمیں اِس ملک میں خصوصاً اورپوری دنیامیں عموماً دوـلتِ اقبال اورعروج وترقی ملے ۔اورہمیں ہماراکھویاہواسرمایۂ عزت ورفعت دوبارہ نصیب ہوجائے ،توہمیںدوراستوںپرچلناہوگا، جس میں پہلا راستہ علم اور تعلیم کا ہے اور دوسرا راستہ امانت داری اوراخلاق کا ہے ۔ ان ہی دوراہوں سے ہم ان شاء اللہ اس ملک کی تقدیربدل سکتے ہیںاور اپنا گم کردہ وقار حاصل کرسکتے ہیں جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی اِس میدان میں ہمارے لیے مشعل راہ اور سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے ۔
قصہ حضرت یوسف علیہ السلام:
یوسف علیہ السلام بھائیوں کے حسد کا شکار ہوئے، والد محترم کی آغوش محبت وشفقت سے محرومی کے ساتھ نگاہ سے بھی دور کر دیے گئے ، کنویں کی تنگی وتاریکی اور وحشت اور تنہائی کو برداشت کیا ، قافلہ کے ہاتھوں بازار مصر میں سودا کیا گیا ، عزیز مصرکی عزت وقدر کے فرمان کے باوجود ملکۂ مصر کی نگاہ ہوس کا شکار بن کر بدکاری کی تہمت اور الزام سے عزت و آبرو خطرے میں پڑی ۔ نتیجۃً جیل کی سلاخوں کے پیچھے ایک مجرم بن کر زندگی گزارنا مقدر ٹھہرا ۔ ان تمام ناموافق اور نامساعد حالات کے باوجود پورے ملک میں اکیلے اور تنہا رہ کر اپنے خداداد علم کی روشنی ، امانت داری اور اخلاق کی خوش بو بڑی ہی دلسوزی اور فکر مندی کے ساتھ ایسی بکھیری کہ؛ جیل کے تمام مصاحبین حتی کہ تمام افسران بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔ اور شدہ شدہ یہ روشنی اور خوش بو شاہ مصر کے تار دل کو بھی چھیڑنے لگی اوراس نے بھی اس روشنی اور خوش بو سے براہ راست استفادہ کی کوشش کی ۔کیوں کہ اسے نظام فطرت کے تحت ایسا خواب نظر آیا ،جس نے اس کی نیند اڑادی اور اسے اپنی سلطنت کے بقا و تحفظ کی فکر دامن گیر ہوگئی۔ چناںچہ اس نے حضرت یوسف علیہ السلام کودربارمیں طلب کیا اور اپنا سارا خواب سنایا تو حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب کی تعبیر کے ساتھ اس سے نمٹنے کی تدبیر بھی بتلائی، جس کی بنیاد پر شاہ مصر نے انہیں اپنا مقرب خاص بنالیا، بل کہ خداداد علم اور بے پناہ امانت وصلاحیت کی وجہ سے سارے ملکی کام انہیں کے حوالے کردیا ۔
قرآن کی شہادت:
حضرت یوسف علیہ السلام نے بادشاہ وقت کے اعتماد اور بھر وسہ کو دیکھ کر صاف اوردوٹوک لفظوں میں کہہ دیا {اجعلنی علی خزائن الارض انی حفیظ علیم} کہ آپ بلا جھجھک مجھ کو خزانوں کا انچارج اور وزیرخزانہ بنادو۔ کیوں کہ میں حفاظتِ احوال واقوال اور ملک کی سالمیت کے تمام اصول اور مناسب تدابیر کو تم میں سب سے زیادہ جاننے والا ہوں اورجوہر امانت رکھتا ہوں اس لیے ادنیٰ خیانت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ چناں چہ اپنے وعدے کے مطابق مصر کے سات سالہ بھیانک قحط میں پورے ملک اور اطراف کو غلہ رسانی کا فریضہ ،جس حسن تدبیر اور حکمت کے ساتھ انجام دیا قرآن اس کا شاہد عدل ہے۔ اور کنعان کی دیہاتی زندگی سے اٹھ کر آنے والا صلاحیت اور صالحیت کا منبع مصر کی تمدنی اور ترقی یافتہ تہذیب میں اکیلا رہ کر ایسا نکھرا اور اپنے وجود اور جوہر کی صلاحیت سے ایسا مہکا کہ ہر چھوٹے بڑے کی ضرورت اور ہر خاص و عام کی دلی آرزو بن گیا۔ اور۸۰؍ سال تک سلطنت مصر پر قائم رہ کرایسی خدمات پیش کی کہ سب کو اپنا گرویدہ اور اسیر بنالیا ۔ کچھ ایسے ہی علم ،ایسی ہی امانت اورایسے ہی اخلاق کی ہمیں ضرورت ہے اور ہمیں اپنی اقلیت کے احساس سے نکل کر اوراپنے مظالم کی فریاد سے زیادہ اُن نقوش اور خطوط پر اپنے آپ کو چلانا ہوگا جوسیدنا یوسف علیہ السلام کی بے مثال اور کامیاب ترین زندگی کا حصہ ہے ۔
ہمارے لیے کافی نہیں:
مایوسی اور ناامیدی کے خول اوراندھیرنگری سے نکل کر امید اور حوصلوں کی کرنوں سے اپنے دلوں کو منور کرتے ہوئے شکوے شکایت اورلایعنی تبصروں سے بچنا ہوگا ۔کیوں کہ صرف اپنے ماضی کی تابناکی سے خوش ہوجانا ،اسی پرپھولے نہ سمانا،بل کہ اس پر فخر کرنا اور موجودہ حالات پر تجزیے اور تبصرے کرنا ہمارے لیے کافی ہی نہیں بل کہ ضیاع وقت کی وجہ سے مضربھی ہے اس لیے کہ
باتوں سے بھی بدلی ہے کسی قوم کی تقدیر
بجلی کے چمکنے سے اندھیرے نہیں جاتے
محبوبیت کاراستہ:
بقول مفکرِ اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ کامیابی کی شرط یہ ہے کہ ہم اللہ کے محبوب بن جائیں۔اللہ کی محبوبیت کاراستہ سلطنت نہیں،سیاست نہیں،اقتصادی اورمعاشی تفوق نہیں،تنظیم نہیں،محبوبیت پیداکرنے کاراستہ محض ذہانت نہیں۔محبوبیت پیداکرنے کے لیے مجنونوںکی کیفیت پیداکرو،وضع اختیارکرو،مجنونوںکے خاندان میں داخل ہوجاؤ،ان کی تہذیب پیداکرواورمحبوبیت کے مرکزِ اعظم اورمنبع اعظم کی وضع وتہذیب اختیارکرو۔تب آپ اللہ کے محبوب بن سکتے ہیں ۔
دونسبتیں:
عزیزدوستو!آپ کی دونسبتیں ہیں۔ایک نسبت ہے اس وطن اوراِس کی خاک سے اُس کے مسائل اوراس کی مصلحتوں ،ذاتی اغراض اورذاتی عروض سے ،اِس کی اللہ کے یہاںکوئی حقیقت نہیں۔اورایک نسبت ہے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ،محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ،اللہ سے اوراسلام سے ،یہ نسبت اللہ کوپیاری ہے اس کوبڑھائیے اورمضبوط کیجیے۔
آپ کویقینااپنے ملک کاوفاداررہناچاہیے ۔اپنی لیاقت وقابلیت کاسکہ دماغوںپراورقانون سازوںکے ذہنوںاورنئی نسل پراورساری دنیاپربٹھاناچاہیے اوراپنی قابلیت کالوہامنوادیناچاہیے ۔حضرت یوسف علیہ السلام کی طرح آپ کوبھی یہ کہنے کاحق ہے کہ {إجعلنی علیٰ خزائن الأرض }اپنے آپ کواِس کااہل ثابت کرناہے ؎
سبق پھر پڑھ صداقت کا ، عدالت کا ، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام ، دنیا کی امامت کا
آپ میںغیرمعمولی ذہانت اورانصاف کاایساجذبہ ہوناچاہیے کہ آپ ترازوبن جائیں۔یہاںتک کہ آپ کاہرایک فرداٹھ کرکہے {إجعلنی علیٰ خزائن الأرض }
ایسی قابلیت ہونی چاہیے :
یوسف علیہ السلام نے جوکچھ کہااس کی کوئی سفارش کرنے والانہیںتھا۔وہ ایک بے گانہ قوم کے فردتھے،لیکن آپ کاکریکٹر،آپ کااخلاق،آپ کی ذہانت اورآپ کی نبوت اِس کی سفارش کرتی تھی۔آپ میںایسی قابلیت ہونی چاہیے ۔اورملک کے ایسے فرض شناش ،لائق تعلیم یافتہ ہونے چاہئیں کہ ہرطبقہ کے لوگوںکی نگاہیںآپ کی طرف اٹھیںاورمشکلات کاحل آپ سے سیکھیں۔لیکن جہاںتک عقائد،یقین اورمقصدِ زندگی کاتعلق ہے ،اُس میں ابراہیمی تہذیب کے پیرورہیں۔اوراپنے مقصدزندگی میںمنفرداورممتازرہیں۔بالکل اُسی طرح ممتازرہیں،جیسے روشنی کامینارہوتاہے ۔
گماں آباد ہستی میں یقیں مردِ مسلماں کا
بیاباں کی شبِ تاریک میں قندیل رہبانی
آج شک وشبہ کی اِس دنیامیںبداخلاقی کی اس دنیامیںبدکرداروں،بے ایمانیوںاوردغابازیوںکی اس دنیامیںاقربانوازی اورخیانت کے اس دورمیںاپنی انفرادیت ،اپناامتیاز اوراپنی جداگانہ حیثیت قائم رکھیے اوراپنے عقائد ؛حبل المتین کومضبوطی سے پکڑیئے ۔ یا خدایا ہم سب کو اپنی قیمت کا احساس اور ہمیں اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی صلاحیت صالحیت کے ساتھ عطا فرما۔ آمین یا رب العالمین