صدیوں سے ادیبوںکے قلم ٹوٹ رہے ہیں

مولانامحمدناظم ملی،تونڈاپوری( استاذجامعہ اکل کوا)

                حضورشافع محشر،کونین کے سرور،صاحب قاب قوسین،ذوالعلم والحکم سے ایک مسلمان کوجوانسیت، محبت اوررافت ومُودَّت ہے ،بالمقابل اس کے کسی اورکی محبت کاخیال ہی عبث ہے ۔ایک مسلمان اس کواپناسب سے گراں مایہ سرمایہ تصورکرتاہے ۔اسی وارفتگی اوروابستگی نے ان کے ادباوشعرا،اہل علم اورصاحبِ قلم اشخاص کوہر زمانہ اورہرعہدمیں ذوق وشوق کے ساتھ حضورساقیٔ کوثر علیہ الف الف تحیۃسے اپنی عقیدت صادقہ کے اظہاراور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منقبت اورمدح سرائی پرخامہ فرسائی کے لیے ان کے اشہب قلم کومہمیزکیاہے ۔جنہوں نے سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر گوشہ کی نورانیت اوراس کی ضیاباری کوواکیاکہ کوئی گوشہ تشنہ نہ رہا۔اخلاق وکرداراورباطنی اسرارورموزکے جہان قلم کاروں اورزبان وادب کے مایہ ناز سپوتوں نے لؤلؤومرجان بکھیرے ہیں،وہیں ان کے قلم کی جولانگی ،ان کے تفکرات وخیالات کی فرزانگی۔انہیں دریتیم،عبد اللہ اور آمنہ کے نورنظر،نیک طینت وپاک فطرت لخت جگر محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم کے سراپاکوپیش کرنے کے لیے ہرزمانہ اورعہدمیں کھڑاکرتی رہی ہے ۔جدید سے جدید تراستعارات،تعبیرات،نئی اسالیب اورکہاوتیںزبان وادب کے نئے نئے شگوفے اپنے اپنے طرزوانداز میںہرایک جداگانہ زاویہ سے سیرت رسول کی عطریات اورخوشبوئیں بکھیرتا رہا ہے اوردنیا جہاں کامشام جان معطرکررہا ہے۔ازآدم تاایں دم منصہ شہودپرکوئی ذات ستودہ صفات وجودمیں نہ آسکی ہے اورنہ آئے گی۔نہ خصائل وخصائص میں،نہ عادات واطوارمیں،نہ اخلاق وکردارمیں،نہ کمالات وصفات میں،نہ رعنائی وجمال میں اورنہ خوب صورت خیالات وتفکرات میں ۔آئے بھی کیسے؟کہ خالق کون ومکاں اورصاحب جبروت وجلال آقانے وہ دکانِ آئینہ سازہی توڑدیا۔

رخ مصطفی ہے وہ آئینہ،کہ اب ایسادوسراآئینہ

نہ ہماری بزم خیال میں،نہ دکان آئینہ سازمیں

                نعتِ رسول مقبول ا ،آپ ا کی ثنا،توصیف وتعریف،آپ کی منقبت ومدح سرائی ،آپ کے تئیں عقیدتوں کی سوغات پیش کرتے کرتے زمانہ بیت گیا،مگرآج تک سیرت ِرسول ا کاکوئی گوشہ مکمل ہوا،نہ ہوگا۔نہ ہی آپ ا کی ثناوتوصیف کاحق اداہوا،نہ ہوگا۔نہ آپ کی شان میں منقبتیں کم ہوئیں نہ ہوںگی۔

                چاہے شیطان ہزاروں بل کھائے،حاسدیہودونصاریٰ جل جل کرجلا کرے ،رشدی ،تسلیمہ نسرین اورکملیش جیسے بدقماش ہزاروں پیداہوں، مگریہ خالقِ کائنات کافیصلہ ہے کہ نہ منقبتِ رسول ا کم ہوئی نہ ہوگی ،بل کہ آئے دن اس میں اضافہ ہی ہوتارہے گا۔

                آج تک دنیامیں اتنابڑاذخیرہ کسی کی تعریف وتوصیف اورثناومنقبت کاجمع نہ ہوسکا۔انسانی تاریخ اس سے عاری وخالی ہے ۔یہ محقق ہے کہ ہرزبان کاایک معتدبہ حصہ حضورصاحبِ کوثر،نورکے پیکر،صاحبِ قاب قوسین ا فداہ ابی وامی کی شان اقدس میں بھراپڑاہے ۔اورعربی زبان؛جواسلامی خیالات وتفکرات کاسرچشمہ اور قرآن مجیدکی زبان ہے ،جوجنتی زبان ہونے کی وجہ سے ایک مقدس ومؤثرزبان ہے ،بل کہ ازمنہ قدیم سے دنیامیں رائج بھی ہے ۔اور اِنہیں وجوہات سے نعتِ رسول اورمنقبتِ رسول ا پرمبنی اشعاراورنظم ونثرکاایسابحرِذخارہے ،جس میںغواص غوطہ زن تو ہوتے ہیں ،لیکن اس کی اتھاہ تک رسائی نہیں ہوتی۔وہ زبان؛جس کی روانی اوراس کی حلاوت کے آگے دوسری زبانوں کے نعتیہ کلام کیفیت وکمیت کے لحاظ سے جوئے کم آب سے زیادہ نہیںہے ۔آغاز اسلام سے تاحال عربی شعرااورنثریات کے ماہرین،زبان وقلم کے دھنی نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے در ہائے شہوار سے اس زبان کے دامن کو مالا مال اور بھر تے آئے ہیں ۔ حسان بن ثابت ،عبد اللہ بن رواحہ ؓ ، کعب بن زہیر ، عباس بن عبد المطلب ، علی بن ابی طالب کے دور سے لے کر امام ابو حنیفہ ؒ، شیخ اکبر محی الدین ابن عربی ؒ،بوصیریؒ تک اوران کے بعدآتے آتے آج تک؛یہ پاکیزہ سلسلہ اتنادرازہے کہ چودہ سوسال کے طویل عرصے میں اب تک ہر زبان ،ہرخطہ اورعلاقہ میں جن جن شعرانے اپنے اپنے اشعارسے دین ودنیا،دونوں جگہ نام کیاہے ،شہرت پائی ہے اوراپنے کلام کورونق بخشی ہے اوردارین کی سعادتوں سے سرفرازہوئے ہیں ،ان تمام کے کلام اورزبان وقلم کامحور نعتِ رسول ہی رہاہے ،مگرسچ یہی ہے کہ

ہے سرکاردوعالم کی ثنااب بھی ادھوری

صدیوں سے ادیبوں کے قلم ٹوٹ رہے ہیں

                اورکسی نے اس سے بھی زیادہ دل لگتی بات کہی ہے ۔

ورق تمام ہوئے اورمدح ابھی باقی ہے

سفینہ چاہیے اس بحربیکراں کے لیے

نعت گوئی:

                نعت گوئی بھی عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اظہارکاایک ذریعہ ہے ۔محبت وعقیدت کی آفاقیت اورلامحدودیت اس سے مترشح ہوتی ہے ۔اس سے ایمان کوتازگی ،روح کوبالیدگی اورقلب کوتسکین وطمانینت ملتی ہے ۔اورکیوںنہ ملے؟کہ ان سے زیادہ حسین واحسن،صاد ق واصدق اوران سے زیادہ جمیل واجمل،شریف واشرف ،ان سے زیادہ مدبر،مفکر،مقنن اوردانش ورکوئی ہے ہی نہیں اورنہ ہوگا۔سچ ہی توکہاتھاحسان بن ثابتؒ نے

وأحسن منک لم ترقط عینی

وأجمل منک لم تلدالنساء

خلقت مبرامن کل عیب

کأنک قدخلقت کماتشاء

                دنیاکے سارے انسان؛ابراہیم وموسیٰ،داؤدوسلیمان اورعیسیٰ جیسے مقدس نبیوں اورگوتم بدھ ،کنفیوشش اورکرشن جیسے مقدس مذہبی رہنماؤں اورپیشواؤں،ہیومراورچاسرجیسے شاعر،اسکندروذوالقرنین جیسے فاتحین اور فرماں رواؤں ،مانی جیسے مصوروں،فیثاغورث جیسے فلسفیوں،کولن جیسے مقننوںاوراجنٹاایلورہ جیسے حیرت انگیز غاروںکوتراشنے والے فن کاروںاوردنیاکے ہرماہرسے ماہرفن کاراورکلاکارانسانوں کی زندگیوںکے حالات کس درجہ اختصار،ابہا م اورانتشارکے ساتھ ملتے ہیں؟ مگر ہاں ! پوری انسانی تاریخ میں اگرزندگی کوئی پوری پوری سینوںاور سفینوںمیں محفوظ ہیں،تووہ حضرت رسالت مآب محمدمصطفی اوراحمدمجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہے ۔اس کامل واکمل زندگی کے ایک ایک گوشہ پرعاشقین کاملین،صادقین اورعقیدت مندوںنے اپنے اپنے ذوق اورفن کے مطابق رطب ویابس اوراساطیرسے بچتے ہوئے بغیرکسی ملمع سازی کے طبع آزمائی کی ہے ۔کہتے ہیں کہ ’’ہاتھ آرسی کوکنگن کی ضرورت کیاہے ؟‘‘

                قرآن مجیدکتاب اللہ ہے ۔اس سے مسائل واحکام اخذکرنے کے لیے کئی طرح سے آیات کودیکھاجاتا ہے۔عبارت النص،دلالۃ النص،اشارۃ النص اورپھراقتضاء النص کوبھی پرکھاجاتاہے ۔یعنی عبارت کہیں ’’براہ راست‘‘کچھ کہتی ہے ،کہیں اپنے مقصودکی طرف دلالت ورہ نمائی کرتی ہے ،کہیں اشارہ کرتی ہے اورکہیں پورے پس منظرمیںاس کااقتضاسامنے آتاہے ۔یہی چارصورتیں ہیںبیان کی اوریہی چاراصول ہیں تفقہ اوراستنباط قوانین کے ۔مسلمانوںنے اسی طرح احکام حاصل کیے اوراسی روشنی میں اپنے معاشرے کے ہرعمل کوپرکھااوراپنی زندگی مرتب کی ۔چناںچہ پورے قرآن مجیدمیں بے شمارآیات ہیں ،جن میں حضرت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاذکر خیرموجودہیں۔بل کہ بہ قول حضرت عائشہ صدیقہؓ ’’کان خلقہ القرآن‘‘کہ حضرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم توگویاچلتاپھرتاقرآن مجیدتھے۔

نعت کیاہے ؟

                ہروہ کلام ،جس میں حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف وتوصیف،ثناومنقبت بیان کی جائے وہ نعت کہلاتاہے ۔اس میںنظم کی بھی کوئی قیدنہیں،اگرنثربھی اس معیارپرپورااترے تووہ بھی نعت کہلانے کامستحق ہے ۔تاہم عرف عام میںنظم ہی کونعت سمجھاجاتاہے ۔نعتیہ مضامین ہراصنافِ سخن میں موجودہیں۔قلم کے عاشقوںنے نعت کے ہرصنف پرطبع آزمائی اورخامہ فرسائی کی ہے ۔شعراوادبانے بے شمارکتابیں اس موضوع اورفن پرلکھی ہیں اورلکھ رہے ہیں ۔مگرپھر یہی کہناپڑتاہے کہ

ہے سرکاردوعالم کی ثنااب بھی ادھوری

صدیوں سے ادیبوں کے قلم ٹوٹ رہے ہیں

نعت گوئی کی ابتدا:

                نعت گوئی کی ابتداکاتعین دشوارہے ۔ابتدائے آفرینش ہی سے اس کے تانے بانے ملے ہوئے نظرآتے ہیں۔درودشریف ،جودرحقیقت سب سے اعلیٰ نعتیہ نثرہے ۔آدم علیہ السلام نے آنکھ کھولی توعرش پربھی لکھاہواتھا۔ لاالٰہ الااللہ محمدرسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم اوراحادیث میں بھی منقول ہے کہ آدم علیہ السلام کامہرحضرت رسول مکی ومدنی صلی اللہ علیہ وسلم پردرودپڑھناہی ٹھہراتھا۔ویسے یہ یقینی بات ہے کہ یہ سوتاعہدنبوی ہی میں جاری ہوچکاتھااورآج تک اس کاسیلِ رواں دواں اورجاری ہے ،بندنہیں ہوااورنہ ہوگا۔ اوردنیاجس قدرروزافزوں ترقی بہ مائل ہوگی اس میں اضافہ ہی ہوتارہے گا۔

                تاریخ کے مطالعہ سے آشکاراہوتاہے کہ جب حضورختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرماکرمدینہ تشریف لائے توبے ساختہ انصارکی بچیوں نے یہ ترانہ گایا۔

طلع البدرعلینا

من ثنیات الوداع

وجب الشکرعلینا

مادعاللّٰہ داع

ایہاالمبعوث فینا

جئتَ بامرالمطاع

                یہ حقائق پرمبنی کلام ؛جس میں بلاکی حلاوت وچاشنی اوربھرپورجوش محبت وعقیدت کااظہارہے ،بل کہ کہنے والے نے کہاکہ ہرزبان کی نعت گوئی کانچوڑاِن کلمات میںآگیا۔شاعررسول حضرت حسان بن ثابتؓ ،کعب بن زہیرؓ،عبداللہ بن رواحہؓ،عباس بن عبدالمطلبؓ اورسیدناعلی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہم ،یہ وہ حضرات ہیں ، جنھوںنے اپنی عقیدتوںکی سوغات پیش کی ہیں۔جوعہدرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی میں اپنے کلام سے نعت شہ بطحاکی خوش بو بکھیرتے رہے ہیں اورلوگوں کامشام جان معطرکرتے رہے ہیں ۔تب سے لے کرآج تک اورصبح قیامت تک یہ بابرکت سلسلہ جاری ہے اوررہے گا۔جن کے شواہدوقرائن قرآن مجیدمیںموجودہیں۔

نعت گوئی حساس مرحلہ ہے :

                یہ شاہوںاوران کے مقام ومرتبہ اوران کے درباروںکی ثناخوانی نہیں ہے ،نہ ہی پیروں،فقیروںاور اولیاوبزرگوںکے آستانوںاورقبروںپربیٹھ کرمرثیہ خوانی وقصیدہ خوانی ہے ۔یہ توذکرجمیل ہے،اس رسول جلیل کا جس پرنبوت کااختتام ہوا۔جہاں جبریل ومیکائیل اورکرّوبیاں بھی باادب کھڑے نظرآتے ہیں۔جہاں قدم رکھنے سے پہلے سوبارالحذراورجہاں ادنیٰ سی غفلت بھی بڑی لغزشوںکاسبب بن جاتی ہے ۔یہ کوچۂ جاناں ہیں،جہاں سنبھل کرقدم رکھناہے ،جہاں صحیح بات بھی قدرے نزاکت سے کرنی ضروری ہے ۔یہاں کااصول ہے {ـلا ترفعواأصواتکم فوق صوت النبی}اور’’لاتدعوابینکم کدعاء بعضکم بعضاً‘‘ یقینا نعت گوئی بڑانازک مرحلہ ہے ۔یہ ایک ایساآبگینہ ہے ،جوذراسی بے توجہی سے ٹوٹ جاتاہے۔یہ وہ سازہے، جو ہرلَے پر گایانہیں جاسکتا۔کسی نے کہاہے اوربہت ہی صحیح کہاہے ’’باخدادیوانہ باش وبامحمدہوشیارباش‘‘عرفی نے اس سے بھی زیادہ وضاحت سے کہاتھا  ؎

شعراکہ نتواں بیک آہنگ سرودن

نعت شہ کونین ومدیح کَے وجَم را

                ہوشیار،باادب ،باملاحظہ اورخبردار!نعت شہ کونین مدیح کَے وجَم کے فرق سے غافل نہ ہونا۔ان دونوںکا رنگ،ڈھنگ اورآہنگ سب جدا۔اس کے لیے’’ طلاقت لسان‘‘ کی جگہ’’ صداقت بیان‘‘ ضروری ہے ۔’’ہنگامۂ وہم وگماں‘‘ کی جگہ’’ جوش ایمان وایقان‘‘ اور’’آشفتگی وشورید ہ سری‘‘ کی جگہ’’ محبت وشیفتگی ‘‘درکارہے ۔مدیح کَے وجَم یعنی بادشاہوں اورفرماںرواؤںکی شان میں جتنامبالغہ کروحسن سمجھاجاتاہے ۔مگریہاں(نعت میں کوئی بات خلاف واقعہ ہرگزنہ ہو)یہاں ذراسامبالغہ بھی عیب ہوجاتاہے ۔اسی لیے فکرکی پختگی،نظرکی وسعت،علم وخبراور قوت تمیز مطلوب ہے ۔نعت شہ کونین صلی اللہ علیہ وسلم میں بڑاشعور،نزاکت،احساس اوربیدارمغزی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اب ذراحساسیت کاجامہ زیب تن کرکے ،ان اشعار کو؛جن کوعرف میںنعتیہ قوالی کانام دیاجاتاہے دیکھیں اورپرکھیںاورپھرطبلہ وڈھوـلک اورسارنگ کوکس زمرہ میںرکھاجائے؟غورکریںمدحتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی محبوب ومرغوب اورعنداللہ بڑاپیارا اوردلآویز مشغلہ ہے ۔اورہرعہداورہرزمانے میں اس کومحبوب ومطلوب سمجھاگیاہے ۔بل کہ تبلیغ اسلام اوراشاعت اسلام کااہم وسیلہ گرداناگیاہے ۔

                جب عہدنبوی میں  کفارومشرکین آپ کی ہجوگوئی کرتے ،تو اللہ کے نبی علیہ السلام کی طرف سے صحابہ کرام محامدرسول بیان فرماتے ۔اورکبھی کبھارخودحضورساقیٔ کوثرصلی اللہ علیہ وسلم  اس ہجوکا جواب دینے کے لیے فرماتے ۔صحابی ٔ رسول حضرت حسان بن ثابتؓ اس باب میں بہت مشہور ہیں۔ آپ لکھ کر حضور ساقیٔ کوثرکوسناتے ، اس پرآپ بہ دل وجان  فداہوتے اورتصویب وتصدیق بھی فرماتے ۔ایک مرتبہ حضرت کعب بن زہیر ؓ جو شاعر ابن شاعر ہے ۔ ان کا ایک قصیدہ بانت سعاد ہے جس کی شہرت آسمانوںتک پہنچ چکی ہے جب انہوںنے آپ کے ساتھ مختلف نعتیہ اشعارپڑھے،جس میں یہ بھی کہاکہ

إ ن الرسول لسیف یستضاء بہ                 مہند من سیوف الہند مسلول

                ترجمہ: رسول وہ چمکتی (تلوار)ہے ،جن سے روشنی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ہندکی کھینچی ہوئی تلواروںمیں سے ایک تلوارہے ۔

                توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیوف الہند کی جگہ سیوف اللہ کہہ کراصلاح فرمادی ۔ اب قصیدہ میںیہ اصلاح شدہ شعرہی پڑھاجاتاہے ۔اس میں لفظ ہندسے یہ مغالطہ بھی رفع ہوجاناچاہیے کہ اس سے یہ ہندستان مرادنہیں ہے ،جیساکہ بعض لوگ باورکراتے ہیں ۔بل کہ عرب میں خودایک علاقہ کانام ہندتھا، جہاںکی لوہے کی تلواربڑی چمک داراورجوہردارسمجھی جاتی تھی۔شعرمیں اصلاح کا مقصد یہ بھی تھا کہ نبی کسی خطہ اور علاقہ سے وابستہ نہیںہوتا ۔نیزآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وابستگی صرف اپنے رب اوراپنے اللہ سے ہی ہوتی ہے ۔

ایران کے نعت خواہوں کی گلفشانیاں :

                جب عالم تاب آفتاب کی کرنیں بطحاکی سرزمین سے نکل کرایران کے پہاڑوں اورمرغزاروںتک پہنچی اوروہاں کے ارباب شعر و سخن نے نظم گوئی کی طرف توجہ کی تو نعت میں قابل قدر گلفشانیاں کی گئیں۔اور پھر حسان بن ثابت ؓ عبد اللہ بن رواحہؓ کی طرح ایران کی سرزمین سے نعت خواں اٹھے ۔

                شیخ سعد ی ، ملا جامی اور حاجی محمد قدسی فردوسی اور ان جیسے کئی نام ہیں جو آج تک روشن ہیں ، جن کے کلام کی خوشبوؤں سے اور جن کے رشحات فکر سے آج تک عاشقین اور محبین رسول صلی اللہ علیہ وسلم غذا حاصل کررہے ہیں ۔ خدا جانے کسی والہانہ عشق اور یادمصطفی میں مستغرق ہوکر قدسی نے نعت لکھی ہے کہ آج اس کی لذت دلگیر دل فگار ہے ۔ قدسی نے کہا تھا   ؎

مرحبا سید مکی مدنی العربی

دل و جان باد فدایت چہ عجب خوش لقبی

                یہ نعت شریف اتنی مقبول ہوئی کہ اردو کے اکثر شعرانے اس کی تظمینات کی ہیں ۔ جس کا مجموعہ حدیث قدسی کے نام سے شائع ہوکر مشہور ہوچکا ہے۔

                پھر واقعہ یہ ہے کہ سخن وروں اور شاعری کا یہ فرحت بخش انقلاب ایران سے چل کر ہندوستان میں قدم رنجہ ہوا تو دیگر اصناف سخن کے ساتھ ساتھ نعت گوئی میں مسلمان شعرا  وادبا اور اہل قلم ، اہل فکر حضرات نے اوردیگر مذہب کے سخن وروں اور دانش وروں نے اس میں چار چاند لگادیے ہیں، مگر پھربھی سچائی یہ ہے کہ تب سے لے کر آج تک دانش وروں ، مفکروں ، اسکالروں اورقلم کے شہسہواروں نے یہی کہا   ؎

ورق تمام ہوئے اورمدح ابھی باقی ہے

سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے

                سخن وروں نے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے نوک قلم کو جھکا دیا ، اپنا سرمایہ علم صرف کردیا ۔

جامی ، خسرو ، امیر مینائی ، حسرت موہانی ،حالی ، اقبال ، غالب ، احمد، جوشی ، جگر مرادآبادی ، چکبست ، نارنگ اور دنیا کے نامی گرامی بے شمار سخن داں ، کن کن کو شمار کرایا جائے ، سب ہی اپنی اپنی سخن وری کا کمال دکھانے کے بعد یہ کہنے پر مجبور ہیں   ؎

ہے سرکار دوعالم کی ثنا اب بھی ادھوری

صدیوں سے ادیبوں کے قلم ٹوٹ رہے ہیں

                سیدنا عباس ؓ نے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اعلیٰ وارفع کے پیش نظر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو نعتیہ اشعار کہے تو ’’ اسد الغابہ ‘‘ کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوئے اور تحسین فرمائی ۔ عباس ؓ نے فرمایا :

فنحن فی ذالک الضیاء وفی النور

وسبل الرشاد نحترق

                ہم سب اسی روشنی ،اسی نور میں اور رشد و ہدایت واستقامت کی راہیں نکال رہے ہیں ۔

                 حضرت حسان بن ثابت ؓ نے اپنی عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہوئے فرمایا تھا ۔اور فضاؤں اور کہساروں میں ایسی خوش بو بکھیری تھیں جس کی عطر بیزی سے آج تک دنیا کے مشام جاں معطر ومعنبر ہیں ۔ آپ ؓ نے فرمایا تھا     ؎

وأحسن منک لم ترقط عینی

وأجمل منک لم تلدالنساء

خلقت مبرامن کل عیب

کأنک قدخلقت کماتشاء

                شیخ سعدی کے قلم نے جب انگڑائی لی تو منقبتِ رسول کے لؤ لؤ ومرجان اگل دئیے ۔ حضور ساقی کوثرکے رخ روشن اور صورت زیبا کی تابانی کو حقیقت بھرے کلمات میں یوں بیان فرمادیا ۔

بلغ العلی بکمالہ

کشف الدجی بجمالہ

حسنت جمیع خصالہ

صلوا علیہ وآلہ

                اور فرمایا :

                 یا صاحب الجمال ویاسید البشر               من وجہک المنیر لقد نوّر القمر

                اور کسی محب صادق اور ثنا خواں کے قلم نے آپ اکی شخصیت عظمیٰ کی تابانی اورخوبیوںاوراوصاف کوظاہرکیاتویہ کہے بغیرنہ رہ سکا۔

حسنِ یوسف دم عیسیٰ یدبیضاداری                        آنچہ ہمہ خوباں دارندتوتنہاداری

                کسی صاحب ذوق اورمنقبت نگارنے اپنے قلم کوحرکت دی،تواُس کویہ بھی گوارانہ ہواکہ سرکارنامدار،محبوب کبریاصلی اللہ علیہ وسلم کوچاندسے تشبیہ دی جائے ۔ان کافکررساں قلم اس طرح اپنی جولانی دکھلاتے ہوئے گویاہوا      ؎

چاندسے تشبیہ دینایہ بھی کوئی انصاف ہے

اس کے منہ پر چھائیاں مدنی کاچہرہ صاف ہے

                کسی نے عقیدت کیشی اورمحبت کااظہارکرتے ہوئے اپنے ذوق کی یوںترجمانی کی ہے ۔

سرکاردوعالم کاہروصف مثالی ہے

صورت بھی مثالی ہے سیرت بھی مثالی ہے

یہ شمس وقمران کے جلوؤںہی کے دورخ ہیں

ایک شان جلالی ہے ایک شان جمالی ہے

                اورجب حالیؔ نے کوچۂ جاناںمیںقدم رکھااورعالم شوق میںاپنے ذوق کی تسکین کے لیے عقیدتوں کا تحفہ اورسوغات پیش کرنے کے ـلیے نکلے ،توایک عجیب پُراثراورانتہائی انوکھاانداز۔سچ پوچھوتواپنی اس ندرت بیانی میں انہوںنے اپنی قدرت اورلوح وقلم کی انتہا کی حدکردی۔حالیؔ مرحوم نے ان پہلوؤںپرتوجہ دی،جن سے بنیادی فوائداورانسانی خدمات کااندازہ ہوتاہے ۔جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے عالم انسانیت کوپہنچاہے ۔ حالیؔ کااندازِ سخن اوراندازثناخوانی دیکھیے اوران کے کلام کی ندرت اورالبیلے پن پرسردھنیے۔وہ فرماتے ہیں    ؎

وہ نبیوںمیںرحمت لقب پانے والا

مرادیں غریبوںکی برلانے والا

غریبوں کا ملجا ضعیفوں کا مأوی

یتیموںکا والی غلاموں کا مولیٰ

بداندیش کے دل میںگھرکرنے والا

وہ اپنے پرایوںکاغم کھانے والا

اترکرحراسے سوئے قوم آیا

اورایک نسخۂ کیمیاساتھ ــلایا

وہ بجلی کاکڑکاتھایاصوتِ ہادی

عرب کی زمیں جس نے ساری ہلادی

نئی اک لگن سب کے دل میں لگادی

ایک آوازمیںسوتی بستی جگادی

                یہ اس طرح کے کئی نعتیہ کلام حالیؔ مرحوم نے منقبت رسول پیش کرکے اپنے قلم کی وقعت بڑھائی ہے ۔

                ایک اورمداحِ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم مولاناظفرعلی خاںکااندازسخن بیانی دیکھیے ۔جب اُن کااشہبِ قلم جولانگی دکھلاتاہے ،تووہ وفورِ محبت وعقیدت میںیوںگہرباری کرتاہے     ؎

وہ شمع اجالاجس نے کیاچالیس برس تک غاروںمیں

ایک روزچمکنے والی تھی قرآن کے تیس پاروںمیں

                صرف اتناہی نہیںکہ وہ اب چمکنے والی تھی۔بل کہ دنیاکے تمام ریفارمروں،مذہبی پیشواؤں،دنیاکے دانش وروں،نکتہ سنجوںاورفلسفیوںکی ہزارہامنہ شگافیاں،نکتہ سنجیاں،جن نازک مسئلوںپردفترکے دفترلکھنے کے باوجودبھی صحیح حل نہ کرسکی،محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آمنہ کے لال نے چندجملوںہی میں عیاں وبیاں اور ظاہر کردیا۔ توظفرعلی خان کہتے ہیں     ؎

جونکتہ وروںسے کھل نہ سکاجوفلسفیوںسے حل نہ ہوا

وہ رازکملی والے نے بتلادیے چنداشاروںمیں

                ماضی قریب کے ایک عاشقِ صادق یکے از ثنا خواہان آقائے مدنی صلی اللہ علیہ وسلم ، مدا ح رسول ، ماہر الکلام علامہ ماہر القادری وار فتگی اور ازدیاد شوق میں جب ان کا اشہب قلم رواں ہوا تو گویا ہوا ۔ کلام کو پڑھئے اور سر دھنیے ۔ ملاحظہ کیجیے!  فرماتے ہیں :

زندگی کچھ بھی نہیں تیری محبت کے بغیر

اور بے روح محبت ہے اطاعت کے بغیر

دین ہی میں کوئی لذت ہے نہ دنیا میں کوئی لطف

ائے غم عشق نبی تیری رفاقت کے بغیر

ساغرِ آبِ حیات آئے تو میں ٹھکرادوں

بخدا نام محمد کی حلاوت کے بغیر

                علامہ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی ؒ سے کون واقف نہیں ہے؟ شان رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں گلہائے عقیدت کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے اپنے قول وقلم کو یوں رونق بخشتے ہیں :

ألا بابی من کان ملکا وسیدا

وآدم بین الماء والطین واقف

فداک رسول الابطحی محمد

لہ فی العلا مجد تلید وطارف

                ترجمہ: میرے ماں باپ آپ پر فداہوں ، وہ کون تھا جو اس وقت بھی بادشاہ وسردار اور سید تھا ۔ جب کہ آدم علیہ السلام ابھی مٹی اور پانی کے درمیان تھے ۔ وہی رسول ابطحی محمد صلی اللہ علیہ وسلم جن کو بلندی کا ہر مجد و شرف حاصل ہے ۔ قدیم بھی اور جدید بھی ۔

اتیٰ بزمان السعیدآخر  المدیٰ

وکانت لہ فی کل عصرٍ مواقف

ترجمہ: وہ آخری زمانہ کی نیک ساعت میں تشریف لائے ،لیکن ان کوہرزمانے میں ہرایک کے ساتھ وقوف حاصل رہا۔

اتیٰ لانکسارالدہریحبرصدعہ

فأثنت علیہ ألسِنٌ وعوارِف

                ترجمہ: وہ آئے دہرکواس طرح توڑنے کے لیے ،کہ اس کاایک ہی حصہ کسی طرح مزین ومسرورہو جائے۔اوراس پرتوزبانیں ان کی ثناخواںہیں۔اورعطائے ربی بھی شاداں ہیں۔

إذا أرام أمراً یکون خلافہ

و لیس لذاک أ لأمر فی الکون صارف

                ترجمہ: وہ اگرکسی چیزکاارادہ کرلیںاوروہ چیزاُن سے برگشتہ ہوجائے ،تویقین کروکہ پھراِس کائنات میں اس کاپوچھنے والانہیں۔

                اقبال کی قدآورشخصیت سے کون ہے ،جوواقف نہیں؟برصغیرمیںہرکَہ ومَہ اورہرکس وناکس اُن سے اور ان کے کلام سے شناساہے ۔اتنابڑاعاشقِ رسول اورایسامداحِ رسول تھا۔کہ خال خال ہی افق ارضی پرایسی شخصیات نظرآتی ہیں۔اقبال کی شخصیت بڑی پہلودارہے ۔وہ مفکربھی ہے ،مدبربھی ۔فلسفی بھی ہے ،مقنن بھی ۔وہ شیدائی بھی ہے ،وہ عشق رسول کااسیرودل گیربھی۔وہ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شرابِ طہوراورلبالب جام ومیناکابادہ خواربھی ہے ۔وہ میکش بھی ہے اورمے پرست بھی۔وہ راہِ عشق کے راہبروںکاراہبربھی ہے اور سالار بھی۔ ہاں! مگراُن سے ان کے فکرکالبادہ ہٹالیجیے ،فلاسفہ کے چولے سے بھی باہرکردیجیے ۔ان کی دانش وری اورفرزانگی کے چراغ کی لَوبھی مدھم کردیجیے اورشاعری کاخماراوراُس کارنگ وبواس سے نچوڑلیجیے ۔تواس کااصل روپ اوراصل شخصیت نکھرکر سامنے آئے گی۔وہ خودہی فرماگئے کہ      ؎

نہ شیخِ شہرنہ شاعری نہ خرقہ پوش اقبال

فقیر راہِ نشین است و دلِ غنی دار

                اس فقیرراہ نشین ،مردخدامست کادل عشق رسول ہی سے غنی ہے ۔

یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر

اِسی سے فقیری میں ہوںمیں اَمیر

                عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اقبال کاتصورِ حیا ت ہے ۔اوروہ اسی کوحاصل کائنات سمجھتے ہیں۔تخیل کاسارازور،فکرکی ساری قوت اورہوش وحواس کی پوری توانائی ذات اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی منقبت ،ثنا اور ذکر جمیل کے لیے ہے ۔ ذکرِرسولِ عربی لبِ اقبال پرجاری کیاہواکہ بس!بے خودی وسرخوشی اوروالہانہ جذب وکیفیت کاعالم طاری ہوا۔اور علم وحکمت کے گوہرِ آبداردریائے تخیل نے اگل دیے ۔اسلوبِ بیان کی رعنائیاں،جلال وجمال بداماں ہوگئیں۔ کہیں واردات نے اوصافِ رسالتِ پناہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زبان وقلم کوشرف بخشا۔کہیںذاتی کیفیات وتاثرات نے ذکرِرسول کی حلاوت سے عشق ومستی کی دنیاآبادکی۔

                کہیں ملت کے اَدباراورانحطاط بے حسی وبے عملی کاشکوہ دامن گیراورنگاہِ کرم کی التجا ہے۔دنیاکے عظیم عبقری(Super Man) کی تلاش میںاقبال کویہ داستان کامل عرب کے کملی پوش، امی لقب ، ہاشمی ومطلبی کی ذات بابرکات میں مجسم ملا۔ان کاذوقِ لطیف ان کے اشہبِ قلم کومہمیزکرتے ہوئے لکھتاہے    ؎

اے ظہور تو شبابِ زندگی

جلوہ اَتْ تعبیر خوابِ زندگی

اے زمین از بارگاہت ارجمند

آسماں از بوسۂ بامت بلند

از تو بالا پایۂ ایں کائنات

فقر تو سرمایۂ ایں کائنات

                اورایک جگہ فرماتے ہیں۔گرچہ سازِ عجمی سہی،مقصودرسولِ عربی ہیں۔نغمۂ ہندی میں حجازی لَے دیکھیے۔

آیۂ کائنات کا معنی دیریاب تو

نکلے تیری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ وبو

عالم آب وخاک میںتیرے ظہورسے فروغ

ذرہ ریگ کو دیا تونے طلوعِ آفتاب

لوح بھی تو،قلم بھی تو،تیراوجودالکتاب

گنبدِ آبگینۂ رنگ تیرے محیط میںحباب

شوکتِ سنجروسلم تیرے جلال کی نمود

فقرِ جنید وبایزید تیرا جمالِ بے نقاب

تیری نگاہِ نازسے دونوں مراد پا گئے

عقلِ غیاب وجستجو عشقِ حضور و اضطراب

                اقبال آفاقی مزاج انسان تھے۔کائنات کی سب سے عظیم شخصیت ،بل کہ تاریخِ کائنات کاسب سے گراںمایہ سرمایہ حضرت رسول مقبول فداہ ابی وامی صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ میںان کانقطۂ نظریہ تھاکہ وہی ہستیٔ لولاک دنیامیں سب سے زیادہ محبت کیے جانے کے لائق ہے ۔اِسی لیے ان کے قلم کازوراسی عشق ومحبت رسول کے پیداکرنے پرہوتاہے ۔وہ شرف الدین بوصیریؒ کے’’ قصیدہ بردہ‘‘ہی کی طرح ثنائے محمدکے عنوان سے قصیدہ خوانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں     ؎

معنی جبرئیل وقرآن است او

فطرت اللہ نگہبان است او

حکمرانے بے نیاز تخت وتاج

بے کلاہ وبے سپاہ وبے خراج

صحبتِ او خزف را دُرکند

حکمتِ او ہرتہی را بُرکند

                اقبال جہاں ،جس جگہ اورجس حال میں ہوں،اُن کافکرِرواںعقابِ جواں سال ان کوہمیشہ مکی ومدنی وحجازی لے کی طرف کھینچتاہے ۔اوروہ ہرمرض کی دواوعلاج عشق رسول کوگردانتے ہیں۔عشق رسول سے خالی دلوں کووہ مردہ اورمرگ سے تعبیرکرتے اورفرماتے ہیں    ؎

دلِ مردہ دل نہیں زندہ کردوبارہ

یہی ہے امتوںکے مرضِ کُہن کاچارہ

                وہ ایک مرتاض،نبض شناس،عصرِحاضرکی فتنہ کاری،عصررواںکی ستیزہ کاری،فرنگی چالیں،عالم اسلام میں کش مکش اورتذبذب۔برخلاف اس کے دانشِ فرنگ کی فتوحات نے فکراقبال پرروشن کردیاتھا۔کہ عصرحاضر صہیونیت وعیسائیت ،زُنّارواشتراکیت اورنیشنلزم ولادینیت کی یہی کوشش ہے کہ ہرجگہ کے مومنِ جانبازاور وارفتگانِ دامن نبی کوبے گانۂ جمالِ محمدی ِ کرناچاہتاہے اوراسی سے گھبراہٹ محسوس کرتاہواابلیس اپنی مجلس شوریٰ کوحکم دیتاہے ۔سنیے اقبال اپنے جداگانہ اندازِ سخن میں کس اچھوتے پیرائے میںاسے ڈھالتے ہیں۔فرماتے ہیں    ؎

ہرنَفَس ڈرتاہوںاس امت کی بیداری سے میں

ہے حقیقت جس کے دین کی احتساب کائنات

مست رکھوذکروفکرصبح گاہی میں اسے

پختہ ترکردومزاجِ خانقاہی میں اسے

جانتاہوںمیںیہ ملتِ حاملِ قرآن نہیں

ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مومن کادین

جانتاہوںمیںکہ مشرق کی اندھیری رات میں

بے یدِ بیضاہے پیرانِ حرم کی آستین

عصرِحاضرکے تقاضاؤںسے ہے لیکن یہ خوف

ہونہ جائے آشکارا شرع پیغمبرکہیں

                اورشرع پیغمبرکے آشکاراہونے یاامت کے وابستگیٔ ازجمال مصطفی ہونے ہی کے خیال سے ابلیس لرز اٹھتاہے۔اوراپنی اولادوذریات سے کہتاہے ،جس کواقبال فرماتے ہیں   ؎

الحذرآئین پیغمبرسے سوبارالحذر

حافظِ ناموس زن مردآزما مردآفرین

                یہ قوانین اسلام اورشرعِ پیغمبرکے آشکارا ہونے کے خوف نے ہی آج ہرجگہ ،ہر ملک میںایک خوف ساغالب کردیاہے ۔تودوسری طرف مسلمانوںکاعقابِ فکر بھی مضمحل ساہواجارہاہے ۔اقبال شکایت کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں    ؎

قلب میںسوزنہیں روح میںاحساس نہیں

کچھ بھی پیغام محمدکاتجھے پاس نہیں

                اقبال اپنااصلی سرمایہ وابستگیٔ ازجمالِ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کوتصورکرتے ہیں۔اوراسی کووہ ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کوجدید سے جدید تراسلوب اورپیرائے میں مخاطب کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں ۔یہ ذکرجمیل،لفظوںمیں تاثر،طرزمیں جادواورتراکیب میںحسن ،بندشوںمیں جذب ومستی،تفکرات میں بے خودی اورایک عجیب شیفتگی پیدا کردیتاہے ۔وہ فرماتے ہیں    ؎

عجب کیاہے مہ وپروین میرے نخچیرہوجائیں

کہ برفتراک صاحب دولتے بستم سرخودرا

وہ دانائے سبل مولائے کل ختم الرسل جس نے

غبارِ راہ کوبخشا فروغِ وادیٔ سینا

نگاہِ عشق ومستی میں وہی اول وہی آخر

وہی قرآں وہی فرقاںوہی یٰسیں وہی طٰہ

                اقبال کی ایک قدیم خواہش اوردلی تمناتھی ۔وہ اپنی اِسی خواہش کے ساتھ دنیاسے سدھارے ۔تمنایہی تھی ،وہ ملت بیضاکوایک ہی پیغام دیناچاہتے تھے کہ ہرمحمدی اپناآئیڈیل اورنمونہ جلال وجمال محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کوبنائے ۔ {لقدکان لکم فی رسول اللّٰہ اسوۃ حسنۃ۔}پرپختہ یقین رکھتے ہوئے فرماتے ہیں   ؎

بہ مصطفیٰ برساںخویش راکہ دین ہمہ اوست

اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی است

                اوراس طرح حدکردی کہ     ؎

کی محمدسے وفاتونے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیزہے کیالوح وقلم تیرے ہیں

                بہرحال کلام ادباوشعرا اورنثرنگاروں اورمضمون نگاروںکے کلام میں ازاول تاآخرجمال محمدی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات پرخوب سے خوب ترثناخوانی ،مدح سرائی،سخن سازی ،نثرنگاری اوراصنافِ سخن کی ساری عشوہ طرازی ۔قلم کی تمام ترجولانگی وتوانائی صرف کرنے کے باوجودپھربھی اس سچائی سے سرِموانحراف نہیں۔یہ کہناہی پڑتاہے کہ     ؎

ورق ہوئے تمام اورمدح ابھی باقی ہے

سفینہ چاہیے اس بحر بیکراںکے لیے

                سچ ہے    ؎

ہے سرکار دوعالم کی ثنا اب بھی ادھوری صدیوں سے ادیبوں کے قلم ٹوٹ رہے ہیں