اسکول کے نصابِ تعلیم میں زیرِ تدریس کتابیں

۲۲ویں قسط:                                                                          مولانا حذیفہ مولانا غلا م محمد صاحب وستانویؔ

علم وحکمت قرب الٰہی کا وسیلہ ہے :

                 الہیشم کے مطابق دینیات بھی ایک حقیقی علم ہے ،ایک کلی وحدت ہونے کے سبب حقیقتِ مطلق کا مطالعہ معروضی وموضوعی دونوں اندازمیں ممکن ہے، ان کے بہ قول علم اور حکمت ایک دوسرے سے منسلک ہیں ‘میری یہ ہمیشہ خواہش رہی ہے کہ علم وحکمت کی تحصیل کے لیے اپنے آپ کو وقف کردوں اور مجھ پر یہ نکتہ بھی آشکارا ہوا کہ علم وحکمت کی تحصیل قرب ِالٰہی کا وسیلہ ہے۔

                یہ ہے امتیازی فرق ، آج کی مغرب زدہ سائنس اور اسلامی سائنس میں ہمارے سائنس داں سائنس کے ذریعہ اللہ کی معرفت اور اس کی رضا و قرب کے خواہاں تھے اورآج کے سائنس داں سائنس کے ذریعے العیاذ باللہ اللہ کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں اورسائنس کے لیے الحاد اور بے دینی کو لازمی قرار دیتے ہیں ، اس اہم نکتہ کو آج کے مسلمان سائنس دانوں اورجدید تعلیم یافتہ طبقہ کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے ۔

اخلاقیات مجرد فلسفہ نہیں بل کہ عملی وافادی شئ ہے :

                الہیشم کے مطابق اخلاقیات کے بغیر تحصیل ِعلم ناقابلِ تصور ہے اور ان کے بہ قول اخلاقیات کو ئی مجرد فلسفیانہ شئ نہیں بل کہ افادی اور عملی شئ ہے، ہر عمل کاتعلق یومِ آخرت کے محاسبے سے ہے، الہیشم کانظامِ اخلاقیات ان تین نکات سے عبارت ہے (تحصیل ِعلم کے بغیر اخلاق کی تکمیل وتزئین ممکن نہیں!!)حقیقت علم اور خود شناسی کا ادراک، دینیات کے بھرپور مطالعے، نیک اعمال اور بد ی سے گریز پر منحصر ہے!!!)اخلاق کی تکمیل وتزئین کا مقصود آخرت میں جنت کی دائمی مسرت سے لطف اندوزہونا ہے، غرض یہ کہ مذکورہ اخلاقی نظام الہیشم کی تحقیق وتصنیف کا امتیازی پہلوہے۔

                یہ ہے ایک صحیح معنی میں مسلمان سائنس داں سے مطلوب امر یعنی اخلاق نرا فلسفہ نہیں بل کہ تحصیلِ علم حقیقتِ علم نیک عمل ،بدی سے اجتناب اورآخرت کی کامیابی کا نام فلسفۂ اخلاقیات ہے۔ سبحان اللہ !

الہیشم سیکولر نہیں بل کہ سچے پکے مسلمان سائنس داں تھے :

                الہیشم کلاسیکی عہد کے ایسے مسلم سائنس داں ہیں، جو عقلیت پسندی پر کا ربند ہونے کے علاوہ استقرائی طریقۂ کا ر کے بھی بانی ہیں، عقلیت پسندی سے تعلق کی بنا پرمستشرقین اور متعدد مغربی مؤرخینِ سائنس نے الہیشم کو سیکو لر ارسطا طالیسی اور دورِ جدید کی روایات پر کاربند سائنس داں کے طور پر تعبیرکیا ہے، لیکن الہیشم کی عقلیت پسندی اخلاقیات کی تابع ہے۔

                الہیشم دنیائے اسلام کے عقلیت پسند گروہ یعنی معتزلہ کے مخالف تھے اور ان کی تردید میں الہیشم نے متعدد رسائل تصنیف کیے ،یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ معتزلۂ تحریک کے گڑھ بصرہ ہی دنیا کے ایک عظیم ترین مسلم ماہر طبیعات کی جائے پیدائش تھی، جس نے معتزلہ کے عقلیت پسند افکار کی تردیدکی۔

الہیشم، ابن سینااور البیرونی کے بارے میں دورِجدیدکامغالطہ:

                الہیشم، ابن سینا البیرونی کلاسیکی عہد کے ایسے تین مسلم سائنس داں ہیں، جن کی تحقیق وتصنیف میں علم و اقدار کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ جدید مسلم مؤرخین نے ان سائنس دانوں اور دنیائے اسلام کے دیگر علما وفضلا کے کارناموں، افکار اور سائنسی تحقیقات کا جائزہ لیتے ہوئے مغربی مؤرخین کے اس فیصلے سے اتفاق کیا ہے کہ مسلم علما کے کارنامے یونان کی شہری ریاستوں میں سائنسی ترقی سے مماثلت رکھتے ہیں، حالاں کہ ان سائنس دانوں کے طریقے کار فلسفۂ سائنس کے سرسری مطالعہ سے بھی یہ عیاں ہوتا ہے کہ وہ بالکل ہی مختلف اور ایسے نظامِ سائنس کے قائل تھے، جس میں تحقیق کے لیے کوئی ایک واحد طریقہ نہیں؛ بل کہ متعدد طریقہ یکساں طور پر جائز اور صحیح سمجھے جاتے ہیں، اس نظام کی رو سے بھی عقلیت پسندی کو بے شک اہم مقام حاصل ہے، لیکن یہاں ایسی عقلیت پسندی پائی جاتی ہے جو اخلاقیات کی تابع ہے، اس لیے نظام میں تقلیل (Reduction) وعلاحدگی (Isolation)کے بجائے امتزاج واتحاد (Synthesis and integration) پر اصرار ملتا ہے۔ اس نظام میں مختلف شعبۂ علوم میں اشتراکِ عمل کو تسلیم کرتے ہوئے علوم کی سخت گیر درجہ بندی کی بھی نفی ہے، یہ نظام معاشرتی اور انفرادی احتساب کے عقیدے پر استوار ہے، اور اس نظام کا ماخذ قرآنی تصور اور قرآنی اقدار ہیں، اس نظام کا اصل مقصود ہی ان ہی اقدار وروایات کو فروغ دینا تھا، ایسے نظام کو سائنس کی مستقیمی ترقی جیسے نظریے سے بھلا کیسے ہم آہنگ اور مماثل قرار دیا جاسکتا ہے؟!!

متبحر علمی اسلامی دور کے علما کی امتیازی شان :

                امتزاج واتحاد، مختلف شعبۂ علوم میں اشتراک عمل، طریقہ ہائے کار کی کثرت، معاشرتی تقاضوں کا احساس، خدا کے سامنے جو ابد ہی کا عقیدہ جیسے تصورات کے زیرِ اثر تمدنِ اسلامی میں ایک ایسا ادارہ پروان چڑھا، جس کی نظیر کسی دوسرے تمدن میں نہیں ملتی، اس سے مراد ہمہ دانی یا تبحرعلمی کی روایت ہے، کلاسیکی عہد کے تمدن اسلامی میں متعدد ہمہ داں علما منظر عام آئے، یہ مظہر اسلامی سائنس کے مخصوص مزاج کا قدرتی نتیجہ تھا؛ چوں کہ مسلم علما متعدد طریقہ ہائے کار کو جائز سمجھتے تھے اور انہیں استعمال کرتے تھے، اسی لیے ان علما کی تصانیف اپنے دور کے تقریباً سب ہی معروف علوم پر ملتی ہیں۔ ان علما کا مقصود تمام علوم یا کم از کم کسی شعبۂ علوم کی تمام ذیلی شاخوں پر مکمل عبور حاصل کرنا تھا، ان ہمہ داں مسلم علما کی تعداد اتنی کثیر ہے کہ محض ان کے اسما پر مشتمل تصنیف کئی جلدوں کو محیط ہوگئی۔ اس دور میں الجاحز(۸۶۸ء) الکندی (م ۸۷۳ء) الرازی(م۹۲۵ء) الادریسی پیدائش (۱۱۶۶ء)، ابن ماجہ (م۱۱۳۸ء) عمر خیام (م۱۱۳۲ء) ابن زہر(م۱۱۶۲ء) ابن طفیل ۱۱۸۵ء) ابن رشد(م۱۱۹۸ء) اور السیوطی (م۱۵۰۵ء) اور ان جیسے ہزاروں متبحر علما کا منظر عام پر آنا محض ایک اتفاقی امر نہیں؛ بل کہ اسلامی سائنس کے مخصوص مزاج کا قدرتی نتیجہ تھا۔

اسلامی دور کی ناول نگاری بھی ہمہ دانی روایت کی ترجمان :

                الف لیلہ کے دو کرداروں کے حوالے سے کلاسیکی عہد میں ہمہ دانی کی اس روایت اور اس کے زیرِ اثر معاشرتی زندگی میں رونماہونے والی تبدیلیوںکااندازہ لگا یا جاسکتا ہے۔ ’’الف لیلہ‘‘ میں ایک کردارحجام کا ہے جوطب، علم الکیمیا، نحو، خطابت، منطق، فلکیات، علم الہندسہ، علم الحساب اور علم الجبر اسے بہ خوبی واقف تھا۔اسی طرح ایک دوسرا کردار ایک کنیز کا ہے جس کی تقریباً ہر شعبۂ علم سے واقفیت دور جدید کے کسی سائنس داں کو شرمندگی سے پانی پانی کردینے کے لیے کافی ہے ۔

اسلامی عہد ہمہ دانی کا عہد رہا ہے اور مغربی دور صرف علم و احد میں تخصص کا:

                کلاسیکی عہد کی دنیائے اسلام میں ہمہ دانی کی یہ روایت مغربی تمدن اور اسلامی تمدن کے فکری رویوں میں اختلاف کی آئینہ دار ہے۔ M.J.L.YOUNGنے بھی اسی نکتے کی جانب اشارہ کیا ہے :مغربی تمدن اور ابن سینا کے عہد میں کتنا زبر دست تضاد ہے، کہ آج ایک شخص محض کسی ایک شعبۂ علم کا ماہر اور دیگر شعبۂ علوم میں بالکل کورا ہوتا ہے، لیکن اس دور میں ابن سینا جیسے افراد پیدا ہوتے تھے جنہوں نے دیگر تصانیف کے علاوہ طب کے جائزے پر مشتمل ۱۳۲۶؍قطعات کی ایک جامع نظم بھی لکھی ہے؛یہی تضاد ہمیں عمر خیام کی شخصیت میں بھی نظر آتا ہے ۔لا فانی رباعیات کے باعث حاصل ہونے والی غیر معمولی شہرت کے سے ایک بالکل ہی مختلف میدان یعنی ریاضیات میں عمر خیام کے کارنامے ماند پڑگئے ہیں ۔

کائنات اللہ کی رحمت اور قدرت کا مظہر :

                تبحّر علمی کی روایت کے پسِ پشت یہ تصور تھا کہ یہ طبعی کائنات عالمِ روحانیت سے کمتر نہیں ؛بل کہ کائنات اللہ تعالیٰ کی نعمت و رحمت ہے اور اسی لیے مطالعۂ کائنات جائز اور اہم ہے۔مزید برآں تخلیقِ خداوندی کے ان گنت مظاہر میں سے ہر مظہر مطالعے کے لائق ہے، خواہ یہ مظہر صوفی کی کیفیت ِحال ہو یا بچّے کے لیے ماں کی محبت یا تیر کی پرواز یا زمیں کا محیط یا طاعون جیسا مہلک مرض یا مچھر کا ڈنک یا جنون کی ماہیت یا حسنِ عدل یا انسان کی ما بعدالطبیعاتی آرزوئیں؛ان تمام امور کا مطالعہ علم و تحقیق میں ممد ثابت ہوتا ہے، خدا کی ہر تخلیق اپنی جگہ اہم ہے اور اسی لیے اس کا مطالعہ بھی ضروری ہے، تخلیقِ خداوندی کے مطالعے کا ہر قدم انسان کو قربتِ الٰہی سے سرفراز کرتا ہے، کسی دوسرے تمدن میں مذہب اور سائنس کا ایساجامع اور کامل امتزاج دیکھنے میں نہیں آتا۔

مذہب اورسائنس میں وحدت اسلامی تہذیب کا طرہ ٔامتیاز ہے :

                مذہب و سائنس، علم و اقدار، طبیعات و ما بعد الطبیعات کی مابین وحدت تمدن اسلام کا طرۂ امتیا ز ہے، اسی طرح طریقہ ہائے کار کی کثرت بھی اسلامی سائنس کا ایک امتیازی صفت ہے، اس امتیازی اور منفرد مزاجی سے یہ مراد ہے کہ اسلامی سائنس کی رو سے محدود معروضی انداز کے بجائے منظم انداز میں حقیقت کی تحقیق و تفتیش کی جاتی ہے اس ا ندازِ تحقیق سے کوئی منفی اثرات نہیں مرتب ہوتے۔

                سماجی بہبود اور عوامی مفاد، حسن کی ترقی و ترویج، صحت مند فطری ماحول، منظم مشاہدات و تجربات اور کڑے ریاضیاتی تجزیے اسلامی سائنس کی خصوصیات ہیں۔ اسلامی سائنس معروضی طور پر موضوعی ہے یعنی معروضی انداز میں موضوعی مقاصد کی بر آوری یہ مقاصد رضائے الٰہی کی طلب ملت کی مفادات کا تحفظ، عدل، عبادت اور خلافت جیسی آفاقی اقدار کا فروغ ہیں۔ یہ طرزِ فکر جذبات، عقائد، تعصب اور تنگ نظری پر مبنی طریقۂ تحقیق سے قطعاً مختلف ہے، اسلامی سائنس میں جادو اور سحر کاکوئی مقام نہیں، اسی طرح اسلامی انداز میں تحصیلِ علم کے نتیجے میں کسی قسم کاانتشار یا بدنظمی واقع نہیں ہوتی اور ایک مخصوص طریقۂ کا ر کو یکساں طور پر مختلف شعبۂ علوم پر فائز نہیں کیا جاتا، اس کامقصود تمام طریقہ ہائے کار کو مساوی مقام عطا کرنا اور اخلاقیات واقتدار کے تناظر میں علم و تحقیق کو فروغ دینا ہے، اس لحاظ سے اسلامی سائنس مغربی سائنس سے قطعاً مختلف ہے کیوںکہ مغربی سائنس کی رو سے تمام علوم پر ایک واحد طریقۂ کار کااطلاق کیا جاتا ہے اور تحقیق کے نام پر معاشرتی و انسانی مفاد ات کو پسِ پشت ڈال دیاجاتاہے، اسلامی سائنس حقیقت کی کلی تحقیق وتفہیم سے عبارت ہے، بالفاظ دیگر یہ ایک کلی جستجوہے ۔

                اس مختصر تاریخی تذکرے سے یہ بہ خوبی عیاں ہوتا ہے کہ اسلامی سائنس موجودہ سائنس سے مختلف وجود کی حامل ہے۔ عہدِاسلامی کے سائنس کی اقتدار وروایات اور   IAN  MITROFF کے پیش کردہ روایتی سائنس کی اقداروروایات کے مابین ایک تقابلی موازنہ نقشہ کی مددسے پیش ہے۔

                اسلامی سائنس کے حق میںتیسری دلیل یہ پیش ہے کہ مغربی سائنس اپنے نتائج و عواقب کے اعتبار سے پوری انسانیت کے لیے تبا ہ کن ہے اوراگرکوئی دوسرا بہتر طریقۂ تحقیق اس کے متبادل کے طور پر پیش نہیں کیا گیا، تو بنی نو ع انسانی کا مستقبل تاریک ہے۔ جدید سائنس کی ما ہیت ہی کچھ اس طرح ہے ۔

مغربی سائنس بنیادی طور پرتباہ کن اور

بنی نوع انسانی کی بہبود کے لیے خطرہ ہے

                مغربی مؤرخینِ سائنس اور معذرت خواہا نہ فکر پر کار بند مُسلم علما نے بڑے طمطراق کے ساتھ اس تصور کوقبول کیا ہے کہ دورِجدید کی سائنس، متقدمین بالخصوص یونانی اور اسلامی سائنس کی بنیادوںپر استوار ہے،یہ تصور محض ایک حد تک ہی صحیح ہے ۔نیوٹن نے الہیشم کی تحقیق میں اضافہ کیا ہے، ہاروے (HARVEY)نے ابن نفیس کی نقالی کی اور کپلر(KEPLER)نے البطانی البیرونی اور دیگر ممتاز مسلم ماہرین فلکیات سے خاص استفادہ کیا،لیکن جیسا کہ ابھی میں نے اشارہ کیاکہ مسلم سائنس دانوں کا تصورِ کائنات بالکل مختلف تھااور دور جدید میں رائج سائنس کے مزاج سے انہیں کوئی مناسبت نہ تھی۔یہ امر بلاشبہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ مسلم سائنس دانوںکی بعض تحقیقات نے جدید سائنس کے لیے راہ ہموارکی؛ لیکن اسلامی سائنس اور جدید سائنس کے اعتقادات میں زبردست فرق پایا جاتا ہے۔مسلم سائنس داں وحیٔ الٰہی پر عقیدہ رکھتے تھے اور عقل کو قربت خداوندی کی تحصیل کے لیے ایک وسیلہ متصور کرتے تھے، جب کہ مغربی سائنس داںمحض عقلیت پسندی پر ہی یقین رکھتے ہیںاورعقل کے سوا تمام ذرائع علم کو مہمل گردانتے تھے۔

اسلامی سائنس اور مغربی سائنس ۔ایک تقابلی مطالعہ

مغربی سائنس کی اقدار

اسلامی سائنس کی اقدار

۱۔عقلیت پرستی پر ایمان

۱۔ وحیٔ الٰہی پر ایمان

۲۔ سائنس برائے سائنس کا نظریہ

۲۔ سائنس رضائے الٰہی کے حصول کا ایک وسیلہ ہے ۔ اور عبادت کا ایک ایسا طریقہ ہے جس کے روحانی اور معاشرتی پہلو بھی ہیں۔

۳۔ حقیقت کے ادراک کا صرف ایک واحد طریقہ ہے۔

۳۔ عقل اور وحی پر مشتمل تمام معروضی وموضوعی طریقے جائز ہیں۔

۴۔ عقلیت کے لیے نفئی جذبات ایک لازمی شرط ہے ۔

۴۔ روحانی ومعاشرتی بہبود کے لیے سائنسی تحقیق اور جذبات کا باہمی تعلق ضروری ہے۔

۵۔غیر جانبداری : سائنس دانوں کو محض تحصیل علم اور اس سے برآمد ہونے والے نتائج اور استعمالات سے غرض ہونا چاہیے۔

۵۔ حق کے بارے میں جانبداری : چوں کہ سائنس ایک طریقہ عبادت بھی ہے اس لیے سائنس دانوں کو اپنی تحقیق کے نتائج اور عواقب پر بھی نظر رکھنا چاہیے۔ اور چوں کہ عبادت ایک نیک عمل ہے لہٰذا اس عمل کے نتائج بھی خیر سے عبارت ہونا چاہیے۔ اس معاملے میں لاپرواہی کے سبب سائنس داں غیر اخلاقی افعال سرزد کرنے کے ذمہ دار ٹھہرتے ہیں ۔

۶۔ تعصب کا فقدان : کسی سائنسی نظریے کی حقانیت کا دارومدار ثبوت اور ثبوت حاصل کرنے والے طریقۂ کار پر ہوتا ہے کسی سائنسی نظریے کو محض راوی کی بنیاد پر صحیح یا غلط نہیں قرار دیا جاسکتا۔

۶۔موضوعیت کی موجودگی : سائنسی سرگرمیوں کی سمت کا دارومدار کسی موضوعی معیار پر ہوتا ہے ۔ اسی طرح کسی سائنسی نظریے کی صحت کا انحصار ثبوت، ثبوت کے طریقۂ کار کے علاوہ سائنس داں کی نیت اور اس کے تصورِ کائنات پر بھی ہوتا ہے ۔ سائنسی قوتوں کی سمت اور فوقیت کے تعین کے باعث سائنس داں اپنی حدود سے واقف ہوتا ہے ۔

۷۔ فیصلے کے بارے میں غیر یقینی کیفیت متعین ثبوت کی بنا پر ہی سائنسی نظریات کی پیش کش ممکن ہے ۔

۷۔ فیصلے کا تعین: سائنسی نظریات ہمیشہ غیر یقینی ثبوت پر مبنی ہے ۔غیر یقینی ثبوت کی بنیاد پر بھی سائنس دانوں میں نتائج اخذ کرنے کی اہلیت ہونا چاہیے۔ یقینی ثبوت کے انتظار کے باعث نقصان دہ نتائج بھی پیش آسکتے ہیں۔

۸۔ نظریۂ تقلیل: سائنسی ترقی کا بنیادی طریقۂ کار یہی نظریہ ہے ۔

۸۔امتزاج: سائنسی اور اقدارمیں ہم آہنگی اور امتزاج سائنسی ترقی کے حصول کا ذریعہ ہے ۔

۹۔ تفریق: چوںکہ سائنس ایک پیچیدہ سر گرمی ہے لہٰذا علوم کو متعدد شعبوں، ذیلی شعبوں، ذیلی در ذیلی شعبوں میں تقسیم کیا جانا چاہیے ۔

۹۔ جامعیت: سائنس ایک پیچیدہ سرگرمی ہونے کے باعث مختلف علوم کے تحت منقسم کی جاسکتی ہے؛ البتہ مختلف علوم میں اشتراکِ عمل ہونا چاہیے تاکہ اس سر گرمی کی نمایا ں صفت جامعیت اور کلیت ہو ۔

۱۰۔ آفاقیت: سائنس آفاقی ہونے کے باوجود صرف متمول افراد کی خدمت کے لیے ہے اسی لیے سائنسی تحقیقات کے ضمن میں رازداری برتی جاتی ہے ۔

۱۰۔ آفاقیت: سائنسی تحقیقات کے فوا ئد کل بنی نوع انسانی کے لیے ہیں علم وحکمت کا کار وبار غیر منا سب ہے ۔سائنسی تحقیقات کے بارے میں رازداری ایک غیر اخلاقی فعل ہے ۔

۱۱۔ انفرادیت: سائنس داں تمام معاشرتی سیاسی اور نظریاتی امور سے بے تعلق رہتاہے ۔

۱۱۔ ملت سے تعلق سائنسی علوم کی تحصیل فرض ِکفایہ ہے سائنس داں اور ملت دونوں کے ایک دوسرے پر حقوق وفرائض ہیں اور دونوں کا وجود ایک دوسرے پر منحصر ہے ۔

۱۲۔ غیر جانبداری: سائنس داں نہ خیر ہے نہ شر، بل کہ قطعاً غیر جانبدار ہے ۔

۱۲۔ اقدار سے وابستگی تمام انسانی افعال کی مانند سائنس بھی اقدار سے عبارت ہے ۔سائنس خیر وشر، پسندیدہ و ناپسندیدہ دونوں ہوسکتی ہے۔جنگ کو فروغ دینے والی سائنس ہر گز جانبدار نہیں ہے بل کہ سراسر شر ہے ۔

۱۳۔ گروہ سے وفاداری: تحقیق کے ذریعہ نئے علوم کا فروغ ایک اہم ترین سر گرمی ہے اور اس میں ہرایک کواشتراک کرنا چاہیے۔

۱۳۔ خدا اور اس کی مخلوق سے وفاداری نئے علوم کا مقصودآیاتِ الٰہی کی تفہیم اور مخلوقاتِ خداوندی یعنی انسان، حیوانات اور ماحول وغیرہ کی فلاح و بہبود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے علمِ تحقیق کو جائز قرار دیا ہے لہٰذا اسے فروغ دینا چاہیے۔ سائنسی سرگرمیاںمخصوص حلقوں تک محدود رہنا چاہیے۔

۱۴۔مطلق آزادی: سائنسی تحقیق پرکسی بھی پابندی کی مزاحمت کرنا چاہیے۔

۱۴۔سائنسی امور کا انتظام و انصرام: سائنس کو ایک بیش قیمت وسیلہ ہونے کے باعث تباہ وبرباد اور گمراہ ہونے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔اس کے انتظام و انصرام میں پوری احتیاط سے کام لینا چاہیے؛ تاکہ یہ اخلاقی حدود میں قید رہے۔

۱۵۔نتائج ذرائع کا جواز ہیں: کیوں کہ سائنسی تحقیق بنیادی طور پر محمود ہے اور بنی نوع انسان کی بہبود اس کا مقصد ہے؛ لہٰذا سائنسی تجربے کے لیے انسانوں، زندہ حیوانات اور انسانی جنینوں Fontuses کا استعمال درست ہے۔

۱۵۔ نتائج ذرائع کا جواز نہیں فراہم کرتے: سائنس کے مقاصد اور ذرائع میں کوئی فرق نہ ہونا چاہیے؛ چوں کہ دونوں جائز (حلال) ہیں لہٰذا انہیں اخلاقی حدود کا پابند ہونا چاہئے۔

                مغربی سائنس مذکورہ افکار کی پروردہ ہے۔ اسلامی تناظر کی رو سے سائنس دینی مقاصد کے حصول کا ایک وسیلہ ہے جب کہ مغربی فکر کے مطابق سائنس بہ ذاتِ خود ایک آفاقی مذہب ہے۔ اپنی شاہ کار تصنیف  The Unbound Promethens میں ڈیوڈلینڈ (David Landes) نے اس نکتے کی اس طرح صراحت کی ہے۔

                نجات کے لیے دنیا نے اس سے قبل اب تک کسی ایک عقیدے کی آفاقیت کو متفقہ طور پرتسلیم نہیں کیا ہے؛ البتہ اب سائنس و ٹیکنالوجی کے مذہب کی پوری دنیا میں قبولیت کے بارے میں بہ ظاہر کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔