کائنات کی تخلیق کے سلسلے میں فلسفۂ قدیم اورسائنسی نظریات کی تردیداوراسلامی نظریۂ تخلیق کااثبات واحقاق

 ۲۹ویںقسط:                                                                                             حذ یفہ مو لانا غلا م محمد صاحب وستا نویؔ

علم الاسما کا انفاقی طریقہ:

                اکتشافی طریقہ در اصل جعلی سائنسی طریقہ (Pseudo scientific Method ) ہے ۔ چوں کہ وہ جعلی اوربے حقیقت طریقہ ہے ، اسی سبب سے اس کا وہ انجام ہے جسے ابھی ہم لوگوںنے بالتفصیل دیکھا ۔ جسے وہ خود ہمہ دم سرابی صورت حال میں رہنا تسلیم کرتے ہیں ۔ طرفہ تماشا ہے کہ شیطانی اور ابلیسی طاقتیں اپنے اکتشافی طریقہ کو سائنس (Science)اوردین اللہ کے طریقے کو(Pseudo Science)قراردیتاہے ۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اسے خودیہ با ت تسلیم ہے کہ اس کی ہرتحقیق حقیق اس وقت کے تناظرمیںہے اوروہ ہرلمحہ ایک (False) صورت حال سے دوسرے (False)صورت حال کی طرف کودرہاہے ۔دینِ اللہ اکتشافی طریقہ کوباغیانہ طریقہ قراردیتاہے ،جوسراسرخسران کاباعث ہے ۔قرآن کاارشادہے :

                والذین کفروا أعمالہم کسراب بقیعۃ یحسبہ الظمأن ماء حتیٰ إذا جاء ہ لم یجدہ شیئاووجداللہ عندہ فوفٰہ حسابہ واللہ سریع الحساب۔اوکظلمٰت فی بحرلجی یغشٰہ موج من فوقہ موج من فوقہ سحاب ظلمٰت بعضہافوق بعض إذا أخرج یدہ لم یکدیراہا ومن لم یجعل اللہ لہ نورا فمالہ من نور۔(النور:۴۰۔۳۹)

                ترجمہ: (اس کے برعکس)جنہوںنے کفرکیا،ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے دشتِ بے آب میں سراب کہ پیاسااس کوپانی سمجھے ہوئے تھا۔مگرجب وہاں پہنچاتوکچھ نہ پایا؛بل کہ وہاں اس نے اللہ کوموجود پایا،جس نے اس کاپوراپوراحساب چکادیا۔اوراللہ کوحساب لیتے دیرنہیںلگتی یاپھراس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گہرے سمندرمیں اندھیرا،کہ اوپرایک موج چھائی ہوئی ہے ،اس پرایک اورموج،اوراس کے اوپربادل،تاریکی پرتاریکی مسلط ہے ۔آدمی اپناہاتھ نکالے تواسے بھی نہ دیکھنے پائے ۔جسے اللہ نورنہ بخشے اس کے لیے پھرکوئی نور نہیں۔

ہر سائنسی تحقیق حقیقی سچائی نہیں ہوتی بل کہ اضافی سچائی ہوتی ہے:

                کیایہ ایک تسلیم شدہ حقیقت نہیں،کہ ہرسائنسی تحقیق خودموجودہ مغربی سائنسی ماہرین کے مطابق ایک وقت خاص میںموجودمعلومات کے استعمال سے معلوم کی گئی حقیقی نہیں،بل کہ قبول کردہ سچائی ہے ۔جس کاکسی دوسرے لمحے میںاس وقت کی موجودمعلومات کے استعمال سے جھوٹی اوربے حقیقت ثابت ہونے کاصدفی صد امکان موجودہے ؛یہاںتک کہ اس دوسرے لمحے میں قبول کردہ سچائی کاجس نے پہلے لمحے کی قبول کردہ سچائی کو صدفی صدجھوٹ اوربے حقیقت ثابت کردیاتھا،خودتیسرے لمحے میں صدفی صدجھوٹ ثابت ہونے کاامکان صد فی صدامکان ہے ۔سراب اورکسے کہاجاتاہے ؟یہی وہ حقیقت ہے ،جسے قرآن بیان فرمارہاہے :أعمالہم کسراب(ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے دشت بے آب میں سراب)۔

قصدالسبیل:

                ’’انفاقی ‘‘یعنی طریقہ اصلی اورحقیقی سائنسی طریقہ ہے ،یہی دینی طریقہ ہے ۔یہ طریقہ پوری تاریخِ حیات کوایک ثانیے کے لیے بھی سچائی(Truth)سے جدانہیں ہونے دیتا؛یہاںایک لمحے کے لیے بھی نہ صرف یہ کہ جھوٹ اورجعل(False or untruth)کاامکان نہیں؛بل کہ یہاں جھوٹ یاجعل(False or untruth)کی حالت میں رہناحرام ہے ۔

                اس طریقہ کامرکزومحورِ اصلی وحقیقی اللہ رب کائنات ہے اوروہ العلیم ہے ۔قرآن کاارشادہے:

                (۱)اللہ نورالسمٰوات والأرض(النور:۳۵)

                ترجمہ: اللہ آسمانوں اورزمین کانورہے ۔

                وہ نورکیساہے ؟اس کی کیاکیفیت اورخصوصیت ہے؟

                قرآن کاارشادہے:

                (۲)مثل نورہ کمشکاۃ فیہا مصباح المصباح فی زجاجۃ الزجاجۃ کأنہاکوکب دری یوقد من شجرۃ مبارکۃ زیتونۃ لاشرقیۃ ولا غربیۃ یکاد زیتہایضیء ولولم تمسسہ نارنورعلیٰ نور۔(النور:۳۵)

                ترجمہ: اس کے نورکی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھاہواہو۔چراغ ایک فانوس میں ہو،فانوس کاحال یہ ہوکہ جیسے موتی کی طرح چمکتاہواتارا۔اوروہ چراغ زیتون کے ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیاجاتاہے ،جونہ شرقی ہونہ عربی۔جس کاتیل آپ ہی آپ بھڑکاپڑتاہو،چاہے آگ اس کونہ لگے۔ (اس طرح)روشنی پرروشنی(بڑھنے کے تمام اسباب جمع ہوگئے ہوں)

                اللہ تعالیٰ لوگوںکواپنے اس نورکے ذریعے حقائقِ کائنات سے آگاہ کرتاہے ۔اورجواس نورسے ہدایت یاب ہوتے ہیں،وہ ایک ثانیے کے لیے بھی جھوٹ اورجعل پرقائم نہیں رہ سکتے ۔قرآن کاارشادہے :

                (۳)یہدی اللہ لنورہ من یشاء۔(النور:۳۵)

                ترجمہ: اللہ اپنے نورکی طرف جس کی چاہتاہے رہ نمائی فرماتاہے ۔

کیفیت ارتبا:

                چناںچہ جب انسان اس نورسے فیض یاب ہوتاہے تواس کی فطرت پوری طرح ارتبا پذیرہوجاتی ہے ۔ وہ سرتاسرسچائی اورحقیقت پرقائم ہوجاتاہے ۔ جہاں تک ایک ثانئے کے لیے اور ایک رائی کے برابر بھی جھوٹ اور جعل کا گزر نہیں ۔ یہی وہ ومقام ہے جس کی بہترین تشریح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے الفاظ میں یوں آئی ہے ۔ قرآن کا ارشاد ہے : {انی وجہت وجہی للذی فطر السمٰوٰت والارض حنیفا وما انا من المشرکین }(الانعام : ۷۹)

                ترجمہ :  میںنے یکسو ہوکر اپنا رخ اس ہستی کی طرف کرلیا ہے جس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اور ہر گز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں ۔

انبیا ؑکا طریقہ سرتاپا صدق پر مشتمل ہے اور سائنس دانوں کا طریقہ نرے جھوٹ پر:

                حضرات انبیا علیہم السلام انفاقی طریقہ کے وہ عظیم ماہرین گزرے ہیں، جو اپنی پوری حیات میں ایک ثانیے کے ـلیے بھی اور ایک شمہ کے طور بھی کبھی جھوٹ اور جعل (False)کی حالت میں نہیں رہے ۔

                اس کے برخلاف اکتشافی طریقۂ سائنس کے اپنے دعوے کے مطابق ان کا کوئی سائنس داں اپنی پوری حیات میں ایک ثانیے کے لیے بھی اور ایک شمہ کے طور پرکبھی کسی سچائی (Truth) کی حالت میں نہیں رہا اورنہ رہ سکتا ہے ۔

                نیوٹن (Newton)کو انٹم نظریہ (Quantum Theory) کو نہیں جانتا تھا ۔ اس کے نزدیک مکان (Space )وقت (Time )اور مادہ (Matter )بالکل جدا گانہ حیثیت کے حامل تھے۔ اور آئن اسٹائن (Einstein)کے نزدیک مکان (Space )وقت (Time )ایک چہار پہلوئی تسلسل (Four dimensional Continuum ) کی شکل میں پائے جانے لگے ۔ حد تو یہ ہے کہ اسی آئن اسٹائن کے نزدیک ۱۰؍سالوںکے بعد(جنرل نظریہ میں)مادہ (Matter) مکان (Space)کومتاثرکرنے لگااوروہ یہ کہ یہ سیدھانہیںرہتا،بل کہ مڑجاتاہے ۔کسی نے درست کہا ہے کہ نیوٹن کو انٹم تھیوری سے اتنا ہی ناواقف تھا جتنا وہ اس بات سے تھاکہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کا ۵۰؍ واں صدر کون ہوگا؟کلی طور پر ایسا ناواقف جس کوذرہ برابر بھی اس کا علم نہیں تھا۔

   (ماکان ومایکون : ص۳۷تا ۴۰)

                سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ یہ انفاقی طریقہ ہے کیا؟ اس کی خصوصیت اورکیفیت کیا ہے ؟

                انفاقی طریقۂ سائنس کا پورا Paradigm اور اس کی بہترین تشریح خود اللہ رب العزت نے قرآن میں بیان فرمادی ہے ۔ قرآن کا ارشاد ہے :

                {وَلِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْْئٍ قَدِیْر’‘o اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّہَارِ لَاٰیٰتٍ  لِّاُولِی الْاَلْبَابِ o الَّذِیْنَ  یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِہِمْ  وَیَتَفَکَّرُوْنَ  فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلاً ج سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارo رَبَّنَآ اِنَّکَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اَخْزَیْتَہٗ ط وَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ  oرَبَّنَآ  اِنَّنَا  سَمِعْنَا  مُنَادِیًا  یُّنَادِیْ  لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَاٰمَنَّا صلے ق رَبَّنَا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَکَفِّرْ عَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارo رَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ وَلَا تُخْزِنَا یَوْمَ  الْقِیٰمَۃِ  ط اِنَّکَ لَا  تُخْلِفُ  الْمِیْعَادo  فَاسْتَجَابَ  لَھُمْ رَبُّھُمْ  اَنِّیْ لَا ٓ اُضِیْعُ  عَمَلَ عَامِلٍ  مِّنْکُمْ  مِّنْ  ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی ج بَعْضُکُمْ مِّنْ م بَعْضٍ ج فَالَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا وَاُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ وَاُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلِیْ وَقٰتَلُوْا وَقُتِلُوْا لَاُ کَفِّرَنَّ عَنْھُمْ سَیِّاٰ تِھِمْ وَلَاُدْخِلَنَّھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ ج ثَوَابًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ ط وَاللّٰہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الثَّوَابِo لَا یَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِی الْبِلَادo مَتَاع’‘ قَلِیْل’‘ قف ثُمَّ مَاْوٰئہُمْ جَھَنَّمُ ط وَبِئْسَ الْمِھَادُo  لٰکِنِ  الَّذِیْنَ  اتَّقَوْا رَبَّہُمْ  لَھُمْ  جَنّٰت’‘  تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا نُزُلًا مِّنْ عِنْدِاللّٰہِ ط وَمَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْر’‘ ّلِلْاَ بْرَارo وَاِنَّ  مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ  لَمَنْ یُّؤْمِنُ  بِاللّٰہِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ خٰشِعِیْنَ لِلّٰہِ لا لَا یَشْتَرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ  ثَمَنًا  قَلِیْلاً ط اُولٰٓئِکَ لَھُمْ  اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ ط اِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ  الْحِسَابِo ٰٓیاَیُّھَا  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا  وَ رَابِطُوْا قف وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o  }

                ترجمہ:اور آسمان و زمین کی سلطنت صرف اللہ کی ہے ، اور اللہ ہر چیزپر مکمل قدرت رکھتا ہے ۔ بے شک آسمان و زمین کی تخلیق میں اوررات دن کے باری باری آنے جانے میں ان عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں ۔ جو اٹھتے بیٹھتے اورلیٹے ہوئے (ہرحال میں ) اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں (اور انہیں دیکھ کر بول اٹھتے ہیں کہ ) ’’ اے ہمارے پرور دگار ! آپـ نے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا ۔ آپ (ایسے فضول کام سے ) پاک ہیں ۔ پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالیجیے۔ اے ہمارے رب ! آپ جس کسی کو دوزخ میں داخل کردیں، اسے آپ نے یقینا رسوا ہی کردیا ۔ اور ظالموں کو کسی قسم کے مددگار نصیب نہ ہوںگے۔ اے ہمارے پرور دگار ! ہم نے ایک منادی کو سنا جو ایمان کی طرف پکار رہا تھا کہ ’’اپنے پرور دگار پر ایمان لاؤ ‘‘ چناں چہ ہم ایمان لے آئے ۔ لہٰذا اے ہمارے پرور دگار ! ہماری خاطر ہمارے گناہ بخش دیجیے ، ہماری برائیوں کو ہم سے مٹا دیجیے اور ہمیں نیک لوگوں میں شامل کرکے اپنے پاس بلائیے ۔ اوراے ہمارے پرور دگار ! ہمیں وہ کچھ بھی عطا فرمائیے جس کا وعدہ آپ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے ہم سے کیا ہے اور ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کیجیے ۔ یقینا آپ وعدے کی کبھی خلاف ورزی نہیں کیا کرتے ۔ ‘‘ چناں چہ ان کے پرور دگار نے ان کی دعا قبول کی (اورکہا ) کہ : ’’ میں تم سے کسی کا عمل ضائع نہیں کروںگا ، خواہ وہ مرد ہو یا عورت ۔ تم سب آپس میں ایک جیسے ہو ۔ لہٰذا جن لوگوں نے ہجرت کی اورانہیں ان کے گھروں سے نکالا گیا ، اور میرے راستے میں تکلیفیں دی گئیں اورجنہوںنے (دین کی خاطر ) لڑائی لڑی اور قتل ہوئے ، میں ان سب کی برائیوں کا ضرور کفارہ کردوںگا ، اور انہیں ضرور بالضرور ایسے باغات میں داخل کروںگا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوںگی۔یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے انعام ہوگا ، اور اللہ ہی ہے جس کے پاس بہترین انعام ہے ۔ جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے ان کا شہروں میں (خوش حالی کے ساتھ ) چلنا پھر نا تمہیں ہرگز دھوکے میں نہ ڈالے ۔ یہ تو تھوڑا سا مزہ ہے (جو یہ اڑارہے ہیں ) پھر ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بد ترین بچھونا ہے ۔ لیکن جو لوگ اپنے پرور دگار سے ڈرتے ہوئے عمل کرتے ہیں ، ان کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، اللہ کی طرف سے میزبانی کے طور پر وہ ہمیشہ ان میں رہیںگے ۔ اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ نیک لوگوں کے لیے کہیں بہتر ہے ۔ اور بے شک اہلِ کتاب میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اللہ کے آگے عجز و نیاز کا مظاہرہ کرتے ہوئے اللہ پر بھی ایمان رکھتے ہیں ، اس کتاب پر بھی جو تم پرنازل کی گئی ہے اوراس پر بھی جو ان پر نازل کی گئی تھی ، اور اللہ کی آیتوں کو تھوڑی سی قیمت لے کر بیچ نہیں ڈالتے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے پرور دگار کے پاس اپنے اجر کے مستحق ہیں ۔ بے شک اللہ حساب جلد چکانے والا ہے۔ اے ایمان والو!  صبر اختیار کرو، مقابلے کے وقت ثابت قدمی دکھاؤ، اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے جمے رہو، اور اللہ سے ڈرتے رہو ، تاکہ تمہیں فلاح نصیب ہو ۔                 یہ ہے وہ پورا Paradigm جسے انفاقی سائنس کا پیرا ڈائم کہا جاسکتا ہے ۔ اس پیرا ڈائم کی تفصیلی بحث ان شاء اللہ آئندہ محور میں ہوگی ۔    ( ماکان ومایکون : ص۴۰تا ۴۳)………………(جاری)