معارفِ تھانویؒ

علما کی فضیلت عمل کی وجہ سے ہے :

                آپ حضرات علم کی دولت کی وجہ سے حضراتِ انبیا کے وارث ہیں ، چناں چہ ارشاد ہے : ’’ اَلْعُلَمَائُ وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَائِ ‘‘ اور یہ مسئلہ ایسا ہے کہ اس کو ہر ذی علم نے بڑی خوشی سے تسلیم کر لیا ہے ، اس میں غور کرنے کی ضرورت ہے کہ حضراتِ انبیا علیہم السلام میں کمالِ علمی کے ساتھ کوئی دوسرا کمالِ عملی بھی تھا یا نہیں ؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب اثبات میں دیا جائے گا؛ کیوں کہ اگر انبیا علیہم السلام میں بھی کمالِ عملی نہ مانا جائے تو پھر کس کے اندر مانا جائے گا؛ کیوں کہ وہ حضرات تو افضل المخلوقات ہیں ۔ پس یہ کہنا ضروری ہوگا کہ انبیا میں اس درجہ کمالِ عملی تھا کہ کسی دوسرے میں ہونا ممکن نہیں ، جب یہ بات ثابت ہوچکی تو اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ وراثت کی وجہ سے صرف کمالِ علمی ہے یا کمال عملی بھی اس میں داخل ہے ۔ ہم جو غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ صرف کمالِ علمی وجہ وراثت نہیں ہوسکتا اس لیے کہ جو عالم بے عمل ہیں ہم ان میں کوئی شان ِمقبولیت نہیں پاتے حالاں کہ وارثِ نبی ہونے کے لیے مقبول ہونا ضروری ہے مثلاً ابلیس کہ وہ بہت بڑا عالم ہے اوردلیل اس کے عالم ہونے کی یہ ہے کہ وہ علما کے اغوا کی تدبیر کرتا ہے اوربسا اوقات اس میں کامیاب بھی ہوجاتا ہے اور یہ امر ظاہر ہے کہ کسی شخص کے خیالات کو وہی بدل سکتا ہے، جو کہ خود بھی کم از کم اس کے برابر ماہر تو ہو جس کے خیالات بدلنے کی کوشش ہے قانون دان کو وہی شخص دھوکہ دے سکتا ہے، جو خود بھی قانون جانتا ہو تو شیطان کا علما کے اغوا میں کامیاب ہونا صاف بتلا رہا ہے کہ وہ بھی بہت بڑا عالم ہے ، لیکن اس کا جو انجام ہے وہ سب کو معلوم ہے۔

                علمائے بنی اسرائیل جن کی نسبت {اَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتَابَ }ارشاد ہے، مگر ان کی بد انجامی کا ذکر خود قرآنِ پاک میں مذکور ہے اور جگہ جگہ ان لوگوں کی مذمت فرمائی گئی ہے ؛حتی کہ کسی فرقے کی اتنی مذمت قرآن پاک میں نہیں جتنی بنی اسرائیل کی ہے ، پس معلوم ہوا کہ صرف کمالِ علمی وراثت کی وجہ نہیں بل کہ عمل کی بھی ضرورت ہے؛ کیوں کہ بدوں عمل کے قبولیت نہیں ہوتی اور غیر مقبول وارثِ انبیا نہیں ہوسکتا ۔ اس کو رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت واضح فرمادیا ہے فرماتے ہیں :

                 ’’ اَلْعُلَمَائُ وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَائِ وَاِنَّ اْلاَنْبِیَائَ لَمْ یُوَرِّثُوْا دِیْنَارًا وَّلَا دِرْہَمًا وَّلٰکِن وَرَّثُوْا الْعِلْمَ فَمَنْ اَخَذَہُ اَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ ‘‘

                اس حدیث میں علم کو’’ حظِ وافر ‘‘فرمایا ہے اور علم حظِ وافر اس وقت ہوسکتا ہے کہ جب مقرون بالمعمول ہو، نرے صفت علم کو حظ وافر نہیں کہہ سکتے ، کیوں کہ اس کا وبالِ جان ہونا خود حدیث میں مذکور ہے۔ ’’ ان من العلم لجہلا ‘‘۔

                اسی طرح کلام مجید میں ہے : {وَلَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرَاہُ مَالَہُ فِی الْآخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ وَلَبِئْسَ مَاشَرَوْبِہِ اَنْفُسَہُمْ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ } تو حدیث میں ایسے علم کو جہل فرمانا اور آیت میں علموا کے بعد لوکانوا یعلمون فرمانا صاف بتلاتا ہے کہ یہ علم کسی درجہ میں بھی قابلِ اعتبار نہیں ۔ پس اچھی طرح واضح ہوگیا کہ علم بلا عمل حظ وافر نہیں ہوسکتا ، کیوں کہ جو علم عقاب سے نہ بچا سکے وہ حظ وافر کیا ہو گا ، حظ وافر وہی علم ہوگا جو کہ مقرون بالعمل ہو مطلق علم وراثت کی وجہ نہیں ہوگا۔

علما کی بدعملی کا عذاب :

                حدیث میں ہے کہ قیامت کے روز ایک شخص کو دیکھا جائے گا کہ اس کی آنتیں باہر نکلی پڑی ہیں اور وہ ان کے گرد گھوم رہا ہے ، لوگ اس سے اس سزا کا سبب پوچھیں گے کہے گا کہ میں اپنے علم پر عمل نہ کرتا تھا۔

                 ایک علم بندے کے لیے حجت ہے اور ایک علم خدا کی حجت ہے بندے پر ، تو ایسا علم کیا مایہ ٔناز ہوسکتا ہے ؟

  (دعوات عبدیت :جلد ۱۳ ص ۱۱)

                تم نے یہ حدیث نہیں سنی :  ’’ ویل لمن لا یعلم ولو شاء اللّٰہ لعلمہ واحد من الویل وویل لمن یعلم ولا یعمل سبع من الویل  ‘‘ ۔           

(رواہ سعید بن منصور فی سننہ کذا فی العزیزی :۳/۱۴۷)

بے عمل عالم پوری جماعت میں بدنامی کا سبب بنتا ہے :

                علماکی جماعت میں اگرچہ سب ایسے نہیںہیں،لیکن ان کے لیے کسی ایک کاایساہونابھی موجب ِشکایت ہے ؛کیوںکہ تباہی ان تک ہی مقصود(منحصر)نہیں رہتی ،بل کہ اس ایک کودیکھ کردوسرے بھی اس سے متاثرہوتے ہیں۔علماکی جماعت میںاگرایک شخص بھی لاابالی(بدعمل بے پروا) ہوتاہے ،تواس کااثرسب پرپہنچتاہے اوریہ اثر دو طرح کاہوتاہے ۔ایک یہ کہ اس کودیکھ کردوسرے عوام بدعملی پرجرأت کرتے ہیں۔دوسرے یہ کہ سب علماسے بدگمان ہوجاتے ہیں۔اوراس طرح سے علماپراعتراض کی نوبت آتی ہے اورپھراعتراض سے بدزبانی تک نوبت آجاتی ہے ۔اس میں اگرچہ اکثرعوام غلط ہیں،کیوںکہ{لَاتَزِرُوَازِرَۃٌ وِّزْرَاُخْریٰ}لیکن زیادہ تراس کاسبب ہم ہیں۔اوروہ اعتراضات مخالفین کے نہیںہوتے کہ ان کوحسدیابغض پرمحمول کرلیاجائے یایہ کہاجائے کہ اعتراضات توانبیاپربھی ہوئے ہیں،پھرہم کواعتراضات کی پروا،کیوںکہ حضرات انبیاعلیہم السلام پراعتراضا کفار کی طرف سے ہوئے تھے۔اورعلماپران کے موافقین جواُن کادم بھرتے ہیں،اعتراض کرتے ہیں۔یہ بہت بڑا عیب ہے کہ اپنے لوگ اعتراض کرنے پرمجبورہوں،ہماری حالت بے حدمحل تاسف ہے ۔

                اس سے عوام الناس پربہت بڑااثرپڑتاہے ۔یعنی ان کوکہنے کی گنجائش ملتی ہے کہ علماایسے ہوتے ہیں۔ اگرخلوص تقویٰ نہ اختیارکیاجائے تواسی مصلحت سے اختیارکرلیاجائے کہ اس سے عوام بگڑیںگے ،ورنہ ایسے لوگ{یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ }کے مصداق کہے جاسکتے ہیں۔کیوںکہ روکناجس طرح مباشرۃً ہوتاہے کہ ہاتھ سے روکے تواس طرح تسبب بھی ایک قسم کاروکناہے اس کوبھی صدعن سبیل اللہ کہاجائے گا؛کیوںکہ سببِ معصیت بھی معصیت ہوتاہے اوراسی معصیت کے ساتھ اس کابھی شمارہوتاہے۔

(دعوات عبدیت:ج۳/ص۱۵،۱۸)

بے عمل عالم بھی ادب وقدرکے قابل ہے :

                یہ مطلب نہیںہے کہ عام لوگ علمائے بے عمل کی تحقیرواہانت کیاکریں۔نعوذباللہ !ہرگزنہیں،بل کہ ان کو مثل بدپرہیزطبیب کے سمجھیںکہ طبیب اگرپرہیزنہ کرے گاتواپنے آپ مرے گا۔مگرمریض کوتواس کے بتلانے کے موافق ہی عمل کرناچاہیے ۔اگرفریقین نے اس کی تدبیرکے موافق عمل کرلیاتواس کوضرورشفاہوجائے گی ۔ طبیب ہرحالت میں قابلِ تعظیم ہی ہے نیز عالم بے عمل اس وکیل سرکاری کے مانندہے ،جوخودقانون کی خلاف ورزی کانتیجہ خودبخودیکھے گامگروہ چوںکہ قانون سے واقف ہے ،اس لیے مقدمات میں اس کی رائے لینے سے فائدہ ہی ہوگا۔پس عوام کوان سے پوچھ کرہی عمل کرناچاہیے ۔

                البتہ جوعالم غلط مسائل بتاتاہواورنفسانی غرض سے ،جس نے پوچھااس کے موافق فتویٰ دیتاہوتواس سے پرہیزکرے ۔وہ خائن طبیب،جھوٹاوکیل اوررہزن ہے ۔اورعالم بے عمل اگرصحیح بتلاتاہوتواس کی زبان کوسن لیا کرے اوراس پرعمل کیاکرے ،مگراس کی صحبت اختیارنہ کرے ۔صحبت کسی عالم باعمل اورکامل متبع سنت کی اختیار کرے تاکہ آخرت کی طرف رغبت اورعمل کاشوق پیداہو۔(آداب المتعلمین:بہ حوالہ حکیم الامت تھانوی ص ۱۱۱)