محمد ہلال الدین بن علیم الدین ابراہیمیؔ
ؔ آج قلم اٹھاتے ہوئے کیوں باربار یہ خیال آرہا ہے کہ توبا وضو ہے یا نہیں ؟ میں کوئی آیتِ قرآنیہ تو نہیں لکھنے جا رہا ،پھر کیوں با وضو ہونے کا اہتمام ہورہا ہے؟ اوریہ دل کو سکون اور آنکھوں کو ٹھنڈک کیوں محسوس ہورہی ہے!آخر اس قدر تقدس وتلذذ کا احساس کیوں !!
ارے ہاں ! تیرا قلم آج کوئی سیاسی ، اصلاحی ، فکری اور علمی عنوان کو اپنی روشنائی سے روشن نہیں کررہا ، بل کہ آج ان نفوس ِقدسیہ کا تذکرہ چھیڑنے جارہا ہے جو آسمان ِنبوت کے کہکشاں ہیں۔ آج ان یارانِ صدق وصفا کا ذکرِخیر کرنے جارہا ہے ،جن کی محبت جزء ایمان اورجن سے عشق ؛علامتِ ایمان ہے۔
قرآن جن کا ثنا خواں ہے:
یہ وہ نفوس ہیں جن کی غیرتِ ایمانی کو قرآن نے {والذین معہ اشداء علی الکفار }سے بیان کیا …جن کے ایمان کو معیار ومطلوب گردانا گیا اور{اٰمنوا کما اٰمن الناس}سے اپنانے کا حکم ہوا … جن کے لیے ایمان کو اللہ نے نہ صرف پسند کیا بل کہ نورایمانی سے ان کے قلوب کو مزین کردیا : {ولکن اللہ حبب الیکم الایمان وزینہ فی قلوبکم }…جن کے لیے خالق انس وجان نے کفر وشرک ،فسق و فجور، عصیان ونافرمانی کو ناپسند کیا: {وکرہ الیکم الکفر والفسوق والعصیان}۔
جن کی آپسی محبت کو {رحماء بینہم }سے تعبیر کیا …جن کے لیل و نہار کو {تراہم رکعا سجدا}سے بیان کیا … جن کے اخلاص وللہیت کو {یبتغون فضلا من اللہ و رضوانا}سے آشکاراکیا … جن کی پہچان اورعلامت سجدے کے نشان کو قرار دیا: {سیماہم فی وجوہہم من اثر السجود }…جن کے ایمانی حرارت اور تپش نے کفار کو جلا اورجھلسا دیا: {لیغیظ بہم الکفار}… جنہوں نے دین و شریعت کو مضبوطی سے تھاما اور صراطِ مستقیم سے راہ یاب ہوئے:{ومن یعتصم باللہ فقد ہدی الٰی صراط مستقیم }۔
تذکرہ ان کاجو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست وبازو تھے: {ہو الذی ایدک بنصرہ وبالمومنین }…جنہیں خیر امت سے مخاطب کیا گیا {کنتم خیر امۃ اخرجت للناس }…وہ جن کا شیوہ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر بنایا گیا: {یا مرون بالمعروف وینہون عن المنکر…جنہیں اللہ اور سول یعنی دین اسلام کا حامی و مدد گار ماناگیا {وینصرون اللہ ورسولہ}۔
وہ جن کی بھائی چارگی اور ایثار وقربانی کی مثالیں دی گئیں {ویؤثرون علی انفسہم ولو کان بہم خصاصۃ} …وہ جن کے دلوں کو وساوسِ شیطانیہ اور شیطانی پلیدگی سے پاک کردیاگیا {ویذہب عنکم رجز الشیطٰن }…جن کے دلوں کو حق پرجمادیاگیا اور جن کے قدموں کو ثبات نصیب ہوا : {ولیربط علی قلوبکم ویثبت بہ الاقدام}…جن کے رعب ودبدبے کو کفار کے دلوں میں سمودیاگیا:سالقی فی قلوب الذین کفروا الرعب…جن کو معافی کا پروانہ عطا ہوا :{ولقد عفا اللہ عنکم }…جن کو مغفرت والے اور رحمت والے سے دلاراگیا:ذو مغفرۃ ورحمۃ…جن کے لیے فضل کا وعدہ ہوا: {واللہ ذو فضل علی المومنین }…جن کے لیے اللہ نے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے: ان اللہ عندہ اجر عظیم…حالات ومصیبت نے جن کے ایمان کو ہمیشہ جلا بخشا {الذین قالو لہم الناس إن الناس قد جمعوا لکم فاخشوہم فزادہم ایمانا}۔
ان ستودہ صفات شخصیات کا ذکرہے ،جن کی زبان پرہر حالات میں {حسبنا اللہ ونعم الوکیل} کے نعرے ہوا کرتے تھے …جن کوکلمہ تقویٰ کی دولت عطا کی گئی تھی: {والزمہم کلمۃ التقویٰ}…جنہیں راشدون کا تمغہ دیا گیا: {اولئک ہم الراشدون}…جنہیں مومن برحق ہونے کا شرف حاصل ہوا: {اولٰئک ہم المومنون حقا}…جنہیں مفلحون، الصادقون ، مبرؤن کے القاب سے ملقب کیا گیا ۔ اورجنہیں سب سے بڑی سعادت رضائے خداوندی سے نواز اگیا :رضی اللہ عنہم ورضو عنہ …یہ ہیں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین !
ایسی جماعت جن کی ثنا خوانی خود کلام اللہ کر رہا ہے، ان کے اوصاف کو میں اپنے قلم کی روشنائی سے کیا زینت دے سکتا ہوں! سوائے اس کے؛ کہ ان کے تذکرے سے اپنی قلم کی سیاہی کو روشنائی بنائوںاور اپنے افکار وخیالات کو تقدس وعظمت سے وضو اور غسل کرائوں ۔
ان یاران باصفاؓ کا تذکرہ کیوں؟
میں نے ان جاں نثارانِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم، وفاشعار ان محمد صلی اللہ علیہ وسلم ،عاشقان ختم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ صرف اورصرف اپنے ایمان کو جلا پہنچانے،اس میں تروتازگی لانے اور ان محبین کے تذکرے سے اپنے عشق کو پروان چڑھانے کے لیے کیا ہے ؛کیوں کہ میرے سامنے جہاں آیتِ قرآنیہ ہیں، وہیں احادیثِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی میرے ایمان کو جانچ رہی ہیں اورمیرے عشق کو پرکھنا چاہ رہی ہیں ۔
ترمذی کی یہ روایت ان کے دیدار کو جہنم سے آزادی کا پروانہ قرار دے رہی ہے: لاتمس النارمسلمًارآنی اورأی من رأنی۔…اسی طرح ترمذی کی یہ روایت بھی میرے ایمان کو چیلینج کر رہی ہے: ’’ من احبہم فبحبی احبہم ومن ابغضہم فببغضی ابغضہم ‘‘ اور بخاری کی اس روایت نے تو ان غلامان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی پر مجبور ہی کردیا ہے:آیۃ الایمان حب الانصار وآیۃ النفاق بغض الانصار۔
بس اسی عشق ومحبت کی گلیاروں میںسیر کرنے کی غرض سے تحریری ادب ، فنِ مضمون نگاری کو طاق پررکھتے ہوئے حال دل کو نوک قلم کے حوالے کیا ہے ۔ یہ کوئی ادیب کا کلام ہے ، نہ کسی محقق کی تحریر ۔بس ایک عاشق کے جذبات ہیں، جو سیاہی کی شکل میں کاغذ پر رقم ہوتے چلے جارہے ہیں ۔ اس تمنا اورآرزو کے ساتھ کہ’’تیر ے عاشقوں کی عاشقین میں اپنا بھی نام آجائے ‘‘ اور اس یقین کے ساتھ ؛کہ روز قیامت بخشش کا سامان ہوجائے ۔
اس موضوع پرسینکڑوں کتابیں منظر ِعام پرموجودہیں ، اسے چھیڑنا طوفان کو دعوت دینا ہے۔ اگرصرف کتابوںکے نام ہی سپردِ قرطاس کردیے جائیں تو کئی صفحات اس کے نذر ہوجائیںگے ۔ بس میں نے عقیدت ومحبت کے کچھ گل نچھاور کیے ہیں ۔
ہاں ! مگر کچھ تحریریںنظر میں چبھ کر اور کچھ تقریریں سماعت کو لہو لہان جب کرتی ہیں ،تو میں حیرت زدہ ہو جاتا ہوں اور اپنی حیرت کو کافور کرنے کے لیے ماہی بے آب کی طرح تڑپ جاتا ہوں،کہ ایسی جسارت کیسے ہوتی ہے ،اسی جستجو اور تلاش میں نظر پڑ تی ہے ’’مقام صحابہ‘‘ پر اور اس کا مداوا مجھے مفتیٔ اعظم حضرت مفتی محمدشفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تحریر وں میں ملتا ہے جس کی تلخیص میں نذر ِقارئین کر رہا ہوں ؛تاکہ جب آپ ان مسلم جماعت کے متعلق بھی دلخراشی کے شکار ہوں اورحیرت وتعجب کی چہار دیواری میں قید ہوجائیں تو اِس تحریر کو پڑھ کر آزادی حاصل کریں ۔
اقلام کیوں لغزش کھاتے ہیں:
میں بڑا فکرمند تھا اور سوچنے پر نہایت مجبور تھا کہ جن شخصیات کا تذکرہ ،مقام ومرتبہ قرآنِ پاک کی دسیوں آیات ،احادیث پاک کے سینکڑوں ابواب، علما ومحققین کی کئی کئی جلدوں پر مشتمل کتابوں میں موجود ہیں،جن کی شخصیت مسلم اور متفق علیہ ہے،جن کے اوصافِ حمیدہ اور جماعت انبیا کے بعد افضل جماعت ہونے پر ہزاروں صفحات مزین ہیں، جو اس دینِ متین کے ستون اور بنیاد ہیں؛ایسی جماعت کے افراد پر کیسے اقلام لغزش کھا جاتے ہیں،افکار بجائے تقدس کے کس طرح توہم اور تکدر کے شکار ہو جاتے ہیں،تومیرے مضطرب قلب کو مفتی اعظم پاک وہند کے اس تحریر سے قرار حاصل ہوا جسے آپ نے مقام صحابہ نامی اپنے مقالہ میں پیش کیا ہے،میں اسے نظر قارئین کرنا ضروری سمجھتا ہوں؛تاکہ ہم خود کو اور اپنے متعلقین ومتوسلین کو بھی محفوظ رکھ سکیں۔
آپ اس عنوان سے تحریر فرماتے ہیں:
’’تحقیق‘‘کی وبا:
اس زمانہ میں یورپ سے جو اچھی بری چیزیںاسلامی ملکوں میں درآمدکر لی گئی ہیں، ان میں سے ہر چیز کی تحقیق و تنقید (ریسرچ)بھی ہے، تحقیق وتنقید فی نفسہ کوئی بری چیز نہیں، خود قرآنِ کریم نے اس کی طرف دعوت دی ہے،سورۂ فرقان میں عباد الرحمان کے عنوان سے اللہ تعالی کے صالح اور نیک بندو ںکی جو صفات بیان فرمائی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے:’’والذین إذاذکروباٰیٰت ربہم لم یخرو علیہا صم وعمیاناً‘‘یعنی اللہ کے یہ صالح اور نیک بندے آیات ِالہیہ پر اندھے اور بہروں کی طرح نہیں گر پڑ تے کہ بے تحقیق جس طرح اور جوچاہیں عمل کرنے لگیں،خوب سمجھ بوجھ کر بصیرت کے ساتھ عمل کرتے ہیں۔
لیکن اسلام نے ہر چیز اور ہر کام کی کچھ حدود مقرر کی ہیں، ان کے دائرہ میں رہ کر جو کام کیا جائے وہ مقبول ومفید سمجھا جاتا ہے، حدود اصول کو توڑکر جوکام کیاجائے وہ فساد قراردیا جاتا ہے۔
کون سی تحقیق مستحسن ہے؟
تحقیق وتنفید میںسب سے پہلی بات تو اسلامی اصول میں یہ پیش نظر رکھنا چاہیے کہ اپنی توانائی اور وقت اس چیز کی تحقیق پر صرف نہ کی جائے، جس کا کوئی نفع دین یا دنیا میں متوقع نہ ہو، خالی تحقیق برائے تحقیق اسلام میں ایک عبث اورفضول عمل ہے،جس سے پرہیز کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی تاکید فرمائی ہے،خصوصاً جب کہ کوئی ایسی تحقیق وتنقیدہو، جس سے دنیامیں فتنہ اور جھگڑے پیدا ہوں۔یہ ایسی ہی تنقید ہوگی جیسے کوئی ’’لائق ‘‘بیٹااس کی تحقیق وریسرچ میںلگ جائے کہ جس باپ کا بیٹا کہلاتا ہوںکیا واقعی میںاسی کا بیٹا ہوں؟اور اس کے لیے والدہ محترمہ کی زندگی کے گوشوں پرریسرچ و تحقیق کا زورخرچ کرے۔دوسرے شخصیتوں پر جرم وتنقید کے لیے اسلام نے کچھ عادلانہ ،حکیمانہ اصول اور حدود مقرر کیے ہیںاوران سے آزاد ہوکر جس کا جی چاہے،جوجی چاہے اور جس کے خلاف جی چاہے بولا یا لکھا کرے،اس کی اجازت نہیں دی۔یہاں اس کی تفصلات بیان کرنے کا موقع نہیں،حدیث کی جرح وتعدیل کی کتابوں میںتفصیل کے ساتھ اس کی بحث کی گئی ہے۔
لیکن یورپ سے درآمد کی ہوئی’’ریسرچ وتحقیق‘‘نام ہی بے قید اور آزاد تنقید کاہے، اور حدود کی رعایت اس میں ایک بے معنی چیز ہے۔
افسوس ہے کہ اس زمانے کے بہت سے اہل قلم بھی اس نئے طرزِ تنقید سے متأثر ہوگئے۔
بغیر کسی دینی یا دنیوی ضرورت کے بڑی بڑی شخصیتوں کو آزاد جرح وتنقید کا ہدف بنالینا ایک علمی خدمت اور محقق ہونے کی علامت سمجھی جانے لگی۔
اسلاف امت اور دین پر تویہ مشق ستم بہت زمانے سے جاری تھی، اب بڑھتے بڑھتے صحابہ کرام تک بھی پہنچ گئی، اپنے آپ کو اہل سنت والجماعۃ کہنے والے بہت سے اہل قلم نے اپنی ریسرچ وتحقیق اور علمی توانائی کا بہترین مصرف اسی کو قرار دے دیالیا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیم اجمعین کی عظیم شخصیتوں پر جرح وتنقید کی مشق کی جاوے۔
بعض حضرات نے ایک طرف حضرتِ معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے یزید کی تائید وحمایت کا نام لے کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ ا ور ان کی اولاد بل کہ پورے بنی ہاشم کو ہدفِ تنقید بنا ڈالا اور اس میں صحابہ کرام کے ا دب واحترام تو کیا اسلام کے عادلانہ اور حکیمانہ ضابطۂ تنقید کی بھی ساری حدود وقیود کو توڑ ڈالا، اس کے بالمقابل دوسرے بعض حضرات نے قلم اٹھایا تو حضرتِ معاویہ اور عثمان غنی رضی اللہ عنہما اور ان کے ساتھیوں پر اسی طرح کی جرح وتنقید سے کام لیا۔
نئی تعلیم پانے والے نوجوانوں جو علوم دین اور آدابِ دین سے ناواقف یورپ سے درآمد کی ہوئی تہذیب کے دل دادہ ہیں، وہ ان دونوں سے متاثر ہوئے اور ا ن کے حلقوں میں صحابہ کرام پر زبان ِطعن دراز ہونے لگی، اور صحابہ کرام جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور امت مسلمہ کے درمیان واسطہ ہیں، ان کو دنیا کے عام سیاسی لیڈروں کی صف میں دکھایا جانے لگا، جو اقتدار کی جنگ کرتے ہیں اور اپنے اپنے اقتدار کے لیے قوموں کو گمراہ اور تباہ کرتے ہیں۔ صحابہ کرامؓ پر تبرا کرنے والا گمراہ فرقہ تو ایک خاص فرقے کی حیثیت سے جانا پہنچانا جاتا ہے، عام مسلمان ان کی باتوں سے متاثر نہیں ہوتے بل کہ نفرت کرتے ہیں، مگر اب یہ فتنہ خود اہل سنت والجماعت کہلانے والے مسلمانوں میں پھوٹ پڑا۔
اور یہ ظاہر ہے کہ خدانخواستہ اگر مسلمان صحابہ کرام سے اعتماد کھوبیٹھے تو پھر نہ قرآن پر اعتماد رہتا ہے، نہ حدیث پر، نہ دینِ اسلام کے کسی اصول پر، اس کا نتیجہ کھلی بے دینی کے سوا کیا ہوسکتا ہے؟
غلط فہمیوں کا اصل سبب:
میں اس چیز کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں، جو ان حضرات کے لیے مغالطے کا سبب بنی اور پھر ان کے عمل سے دوسرے لوگوں کے لیے بہت سی دینی مسائل میں مغالطوں کا ذریعہ بن گئی۔
بات یہ ہے کہ ان حضرات نے حضراتِ صحابہ کی شخصیتوں کو بھی عام رجال امت کی طرح صرف تاریخی روایات کے آئینے میں دیکھا اور تاریخ کی صحیح وسقیم روایات کے مجموعے سے وہ جس نتیجے پر پہنچے، وہی مقام ان مقدس شخصیتوں کے لیے تجویز کرلیا، اور ان کے اعمال وافعال کو اسی دائرے میں رکھ کر پرکھا۔
قرآن وسنت کی نصوص اور امت کے اجماعی عقیدے نے جو امتیاز صحابہ کرام رضو ان اللہ علیہم اجمعین کی ذات وشخصیات کو عطا کیا ہے ، وہ نظر انداز کردیا گیا ، وہ امتیازی خصوصیت حضرات صحابہ ؓ کی یہ ہے کہ قرآن کریم نے ان سب کے بارے میں ’’ رضی اللہ عنہم ورضو عنہ ‘‘ کا ، اور ان کا مقام جنت ہونے کا اعلان کردیا ، اور جمہور امت نے ان کی ذات وشخصیات کو اپنی جرح وتنقید سے بالا تر قرار دیا ۔ ان کے مختلف مسائل ومسالک میں سے عمل کے لیے شرعی حدود اجتہاد کے دائرے میں کسی ایک کو تر جیح دے کر اختیا ر کر لینا اور دوسر ے کو مر جو ح قراردے کرترک کر دینا دو سری چیز ہے،جس کے مسلک کو مر جو ح قر اردیا گیا ہے اس کی ذات اور شخصیت نہ مجروح ہوتی ہے اور نہ ایسا کرنا ان کے ادب کے خلاف ہے، کیوںکہ احکامِ شرعیہ پر عمل فرض ہے اور اختلافِ اقوال کے وقت دو متضاد چیزوں پر عمل ناممکن ہے، شرعی فریضے کی ادائیگی کے لیے اقوالِ مختلفہ میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا نا گزیر ہے، بشرطیکہ دوسرے کی ذات اور شخصیت کے بارے میں کوئی ادنیٰ بے ادبی یا کسرِ شان کا پہلو اختیار نہ کیا جائے۔
لوگ کتبِ تاریخ سے تذکیر وعبرحاصل کرنے کے بجائے حلال وحرام اور احکام شرعیہ کو ثابت کرنے لگتے ہیں ، اور عقائد کے باب میں بحث ومباحثہ اور حجت بنانے لگتے ہیں۔تو خرابی کا دروازہ یہاں سے کھلتا ہے ؛لہذا حضرت مفتی صاحبؒ کی تحریر میں ہی فن تاریخ کا درجہ اور روایت حدیث اور روایت تاریخ کا فرق بیان کیا جاتا ہے۔
اسلام میں فنِ تاریخ کا درجہ :
فنِ تاریخ کے فضائل اور فوائدجن کو سخاوی رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے علما وحکما کے اقوال سے ثابت کیا ہے ، ان میں سب سے بڑا اور جامع فائدہ عبرت حاصل کرنا ، دنیا کے عروج و نزول اور حوادث و انقلابات سے دنیا کی بے ثباتی کاسبق لینا، آخرت کی فکر کو سب چیزوں پر مقدم رکھنا ، اور اللہ تعالی کی عظیم قدر ت ا وراس کے اِنعامات واحسانات کا اِستحضارانبیا اورصلحائے اُمت کے احوال سے قلب کی نورانیت ، اور کفاروفجار کے انجامِ بد سے عبرت حاصل کرکے کفر ومعصیت سے پر ہیز کا اہتمام ،حکمائے سابقین
کے تجربوں سے دین ودنیا میں فائدہ اُٹھانا وغیرہ ہے۔ مگر فنِ تاریخ کے اتنے فوائد وفضائل اور اس کی اتنی بڑی اہمیت کے باوجود اس فن کو یہ مقام کسی نے نہیں دیا کہ شریعت ِ اسلام کے عقائد واحکام اس فن سے حاصل کئے جائیں ، حلال وحرام کے مباحث میں تاریخی روایت کو حجت قرار دیاجائے ، جن مسائل کے ثبوت کے لئے قرآن وسنت اور اجماع وقیاس کے شرعی دلائل کی ضرورت ہے، ان میں تاریخی روایت کو مؤ ثر مانا جائے یا تاریخی روایت کی بنا پر قرآن وسنت یا اجماع سے ثابت شدہ مسائل میں کسی شک وشبہ کو راہ دی جائے۔
روایاتِ حدیث اور روایاتِ تا ریخ میں زمین آسمان کا فرق عظیم :
ــ پہلی بات یہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے اقوال واعمال کوجس صحابی نے سنا یادیکھا ہے، اس کوبحکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم خداکی ایک امانت قراردیا ہے، جس کا امت کو پہنچا نا ان کی ذمہ دار ی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :۔
بلغوا عنی ولو اٰیۃ
’’یعنی میری احادیث امت کو ــپہنچا دو اگر چہ وہ ایک آیت ہی ہو ‘‘۔
یہاںآیت سے آیتِ قرآن بھی مرادہوسکتی ہے ، مگرنسق کلام سے ظاہر یہ ہے کہ اس سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احا دیث کی تبلیغ ہے اور’’ ولواٰیۃ‘‘ ،سے مر اد یہ ہے کہ اگر چہ وہ کوئی مختصر جملہ ہی ہو ، پھرحجتہ الوداع کے خطبے میں ارشا دفرمایا :
فلیبلغ الشاہد الغائب ۔
’’یعنی حاضرین میری یہ بات غائبین تک پہنچادیں‘‘ ۔
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشاد ات کے بعد کسی صحابی کی کیا مجال تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلماتِ طیبات یا اپنی آنکھ سے دیکھے ہوئے اعمال وافعال کی پوری پوری حفاظت نہ کرتا اور امت کو پہچانے کا اہتمام نہ کرتا ۔اس کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جو والہانہ محبت تھی اس کوصرف مسلمان نہیں کفار بھی جانتے اور حیرت کے ساتھ اعتراف کرتے ہیں کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے وضوکا مستعمل پانی بھی زمین پر نہیں گرنے دیتے تھے اپنے چہروں اور سینوں پر ملتے تھے ۔ان کے لیے اگر حدیث کی حفاظت اور تبلیغ کے احکام ِمذکورہ بھی نہ آئے ہوتے، تب بھی ان سے یہ کیسے تصور کیا جاسکتا تھا کہ یہ لوگ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جسدِ مبارک سے علیحدہ ہونے والے بالوں کی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پرانے ملبوسات کی جان سے زیادہ حفاظت کریں او رجو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے مستعمل پانی کو ضائع نہ ہونے دیں ،وہ تعلیما تِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی حفاظت کا اہتمام نہ کر تے ؟
خلاصہ یہ ہے کہ اول تو خود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی والہانہ محبت اس کی داعی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک کلمے ، ایک ایک حدیث کی اپنی جان سے زیادہ حفاظت کریں ،اس پرمزید آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احکامِ مذکورہ جاری فرمادیے ، اس لیے ایک لا کھ سے زائد تعداد کی یہ فرشتہ صفت مقدس جماعت صرف ایک ذاتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی حفاظت اور اس کی تبلیغ کے لیے سر گرم عمل ہوگئی۔
خلاصہ یہ ہے کہ عام دنیا کی تاریخ اور اس میں مدون کی ہوئی کتابیں فن حدیث ،فقہ ، یا عقائد کی طرح شریعت ِاسلام کے عقائد واحکام سے بحث کرنے والا کوئی فن نہیں ، جس کے لیے روایات کی تنقیح وتنقید کی سخت ضرورت ہو اور کھرے اور کھوٹے کو ممتاز کیے بغیر مقصد حاصل نہ ہو۔اس لیے فنِ تاریخ میں ہر طرح کی قوی وضعیف اور صحیح وسقیم روایتیں بغیر نقد وتبصرہ کے جمع کر دینے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا گیا۔علوم ِقرآن وسنت کے ماہر وہی علما جو تنقیدوتحقیق اور جرح وتعدیل کے امام مانے گئے ہیں۔ جب فن تاریخ پر کوئی تصنیف لکھتے ہیں تو اگرچہ زمانہ ٔ جاہلیت کی تاریخوں کی طرح بے سر وپا افواہوں اور افسانوں کو اپنی کتاب میں جگہ نہیں دیتے ؛بل کہ اصول روایت کا لحاظ رکھتے ہوئے سند کے ساتھ روایت نقل کرتے ہیں ،اسی لیے اسلامی تاریخیں تاریخی حیثیت میں عام دنیا کی تاریخوں سے صدق واعتماد کے اعتبار سے ایک ممتازمقام رکھتی ہیں،لیکن تاریخ میں وہ راویوں کے حالات کی چھان بین اور اس جرح وتعدیل سے کام نہیں لے تے جو فن حدیث وغیرہ میںاستعمال کی جاتی ہے ؛روایتِ حدیث کی طرح اگر فن تاریخ میں چھان بین کی جاتی تو ننانوے فیصد تاریخ دنیا سے گم ہو جاتی اور جو فوائد عبرت وحکمت اور تجارب ِعالم کے اس فن سے وابستہ ہیں ان سے دنیا محروم ہو جاتی۔دوسرے جبکہ عقائد واحکام شرعیہ کے مقاصد اس سے وابستہ نہیں تو اس احتیاط وتنقید کی ضرورت بھی نہیں تھی، اس لیے حدیث اورجرح وتعدیل کے ائمہ نے بھی فن تاریخ میں توسع سے کام لیا ، ضعیف وقوی ثقہ وغیر ثقہ ہر طرح کے لوگوںکی روایتیں اس میں جمع کردیں،خود ان حضرات کی تصریحات اس پرشاہد ہیں۔
حدیث واصول حدیث کے مشہور اما م ابن صلاح رحمہم اللہ نے اپنی کتاب ’’علوم الحدیث ‘‘میںفرمایا:-
وغالب علی الاخباریین الاکثار والتخلیط فیما یروونہ۔(علوم الحدیث ص/۲۶۳)
ترجمہ :- مؤرخین میں یہ بات غالب ہے کہ روایات کثیرہ جمع کرتے ہیں، جن میں صحیح وسقیم ہر طرح کی روایات خلط ملط ہوتی ہیں ۔
’’تدریب الراوی ‘‘ص/۲۹۵میں سیوطی رحمہ اللہ نے بھی بعینہ یہی بات لکھی ہے ،اسی طرح ’’فتح المغیث ‘‘ وغیرہ میں بھی یہی بات نقل کی گئی ہے۔
ابن کثیر رحمہ اللہ جو حدیث وتفسیر کے مشہور امام اور بڑے ناقد معروف ہیں روایت میں تنقید وتحقیق ان کا خاص امتیازی وصف ہے ،مگر جب یہی بزرگ تاریخ پر کتاب ’’ البدایہ والنہایہ‘‘ لکھتے ہیں، تو تنقید کا وہ درجہ باقی نہیں رہتا خود’’ البدایہ والنہایہ‘‘ جلد ۸ ص/۲۰۲ میں بعض تاریخی روایات درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ اس کی صحت میرے نزدیک مشتبہ ہے ، مگر مجھ سے پہلے ابن جریر رحمہ اللہ وغیرہ یہ روایت نقل کرتے آئے ہیں، اس لیے میں نے بھی نقل کردیا اگر وہ ذکر نہ کرتے تو میں ان کو اپنی کتاب میںنہ لاتا۔
ظاہر ہے کسی حدیث کی تحقیق میںوہ ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ اس کی صحت مشتبہ ہونے کے با وجود چوں کہ کسی بزرگ نے لکھا ہے،اسی لیے لکھتا ہوں۔ یہ تاریخ کا اپنا مقام تھا کہ اس میںابن کثیر نے اس توسع کو جائز قرار دیا۔
ہاں اگر کوئی شخص ان سے عقیدہ یا عمل کا مسئلہ ثابت کر نا چاہے تو روایت اور راوی کی محدثانہ تنقید وتحقیق اس کی اپنی ذمہ داری ہے، وہ ائمہ فن اس سے بری ہیں۔ علمائے محققین نے اس کو پوری طرح واضح کردیا ہے کہ عقائد واعمال ِشرعیہ کے معاملے میں تاریخی روایات جو عموماً صحیح وسقییم ،معتبر وغیرمعتبرکا مخلوط مجموعہ ہوتی ہیں ان کو نہ کسی مسئلے کی سند میں پیش کیا جاسکتا ہے، نہ بلاتحقیق ِمحدثانہ،ان سے استدلال کرکے کوئی مسئلہ شرعیہ ثابت کیا جا سکتا ہے۔
تنبیہ:
یادرہے کہ حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی یہ تحریر ۱۳۹۱ھ کی تحریر کردہ ہے،جسے افادۂ عام اورحفاظتِ ایمان کے لیے یہاں ذکر کیا گیا ہے؛تاکہ ہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے باب میں تحقیقی وبا کے شکار نہ ہو جائیں۔ اللہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے عاشقوں سے اس حقیر فقیر اور تمام امت مسلمہ کو سچا عشق نصیب فرمائے ،ان سے محبت کو ہمارے نجات کا ذریعہ بنائے اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کا جذبہ اور داعیہ عطا فرمائے۔ حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جو چشمہ انہیں نصیب تھا ،اس میں سے کچھ بوند ہمیں بھی عطافرمائے،ان کے اندر جو آپسی محبت ومودت ،احترام واکرام، اتفاق واتحاد،خلوص وللہیت،ایثار وقربانی،جذبہ وغیرت ایمانی تھی ،سیاست وفراست اور بردباری تھی ،اس کا کچھ حصہ ہمیں بھی مرحمت فرما دے۔
اور کل قیامت میں ان کی عقیدت ومحبت کے ساتھ اٹھا ،کہ یہ سیاہ کر اپنے اعمال سے خالی جھولی میں تیرے محبوب کے عاشقوں سے عشق کاواسطہ دے کر؛ یہاں نہیں تو وہاں ان کی صحبت ومعیت حاصل کرلے؛ کیوں کہ تیرے محبوب سے جب ایک اعرابی نے پوچھا تھا’’متی الساعۃ‘‘؟قیامت کب آئے گی ؟تو آپ نے جواب میں ایک اور سوال کیاتھا:ما اعددت لہا؟تونے اس کی کیا تیاری کر رکھی ہے ؟اس پر اس اعرابی صحابی نے جو حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار تھا بڑا ہی سیدھا لیکن نہایت ہی قیمتی جواب دیا تھا ’’الا انی احب اللہ ورسولہ‘‘ اعمال تو زیادہ کچھ نہیں ہیں ،ہاں! مگر اللہ اور اس کے رسول کی سچی محبت رکھتا ہوں،اس پر آپ ﷺنے فرمایا تھا:المرء مع من احب۔
توہم عاشقین رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کا دعوی کریں گے اور جسے محبوب کے محبوب سے محبت ہو تو پھر …… ………………۔ اے عباسی !صحابہ ؓ پر لٹادے اپنا تن من دھن تجھے مطلوب فردوس بریں کے گرنظارے ہیں