ابھی تک وہ چمکتے ہیں ستاروں کی جبیں ہوکر

محمد ناظم ملیؔ /استاذ جامعہ اکل کوا

            {محمد رسول اللہ و الذین معہ اشدا ء علی الکفار رحماء بینہم تراہم رکعا سجدا یبتغون فضلا من اللہ و رضوانا سیما ہم فی و جوہہم من اثر السجود الخ}

قدم بوسی کی دولت مل گئی تھی چند ذروں کو

ابھی تک وہ چمکتے ہیں ستاروں کی جبیں ہوکر

            اس معمورۂ عالم میں انسانیت کی اصلاح و فلاح اور اس کی بہبود کے لیے رب العرش العظیم نے روزِ اول ہی سے مذاہب اور رسل کا سلسلہ جاری فرمایا۔ محض اس لیے کہ دنیا میں انسان ایک اچھی، پاکیزہ اور نفیس زندگی گزار سکیں۔ اور بعدِ مرگ جب اس کا سامنا اس کے خالق ومالک اوراس کے پالنہار سے ہوتو اس کو خفت کا سامنا نہ ہو اور اس کو منہ چھپانے کی نوبت نہ آئے کہ انسان ہیں جوخیر وشر دونوں مادوں سے مر کب ہیں تو کہیں شر کا غلبہ اورہجوم نہ ہو اوروہ اپنی عاقبت خراب نہ کربیٹھے۔ بنا بریں مہر با ن آقانے انبیاء ورسل اور کتبِ سماویہ کی شکل میں ایک ایک نورانی سلسلہ جاری فرمایا ، جو ہر زمانے میں اس عہد کے لوگوں کے لیے ایک دستور کی حقیقت قرارپایا ۔گویا انسان کو اپنی حیاتِ مستعار کو پورا کرنے کے لیے ایک دستور دیا گیا اور ان کو اس کا پابند قرار دیا گیا ۔

اسلام ایک کامیاب نظام حیات ہے:

            اسلام ایک دستور حیات ہی نہیں ؛ بل کہ کامیاب زندگی گزارنے کا ایک صحیح نظام ِحیات ہے۔صرف چند افکار و خیالات یا چند اصول و نظریات کا نام اسلام نہیں ؛ بل کہ یہ حیات ِانسانی کے تمام شعبوں پر محیط ایک خدا رسید مذہب اور دین ہے۔{ان الدین عند اللہ الاسلام}کہ یہ خالق و مالک کا محبوب و پسندیدہ دین ہے، جہاں ہر شعبہ ہائے حیات کے لیے اس کے یہاں مضبوط و راسخ قواعد و ضوابط ہیں، وہیں اس کو آخری شریعت آخری مذہب اور آخری دین ہونے کا تمغہ بھی حاصل ہے۔ اقوامِ عالم نے قبل از اسلام بہت سے مذاہب و ادیان بھی دیکھے ہیں{لکل امۃ جعلنا منسکا} رسالتیں اور شریعتیں بھی دیکھیں {لکل جعلنا منکم شرعۃ و منہاجا} صرف ان کو شریعت و مذہب دیا ہی نہیں گیا؛ بل کہ اس کی حامل و امین بھی وہ قرار پائی۔{یبنی اسرائیل اذکروا نعمتی التی انعمت علیکم و انی فضلتکم علی العٰلمین} یقینا وہ قومیں اس بارِ امانت کو سنبھال نہ سکیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ تعلیم ،وہ شریعت، وہ مذہب ،وہ دین اور وہ دستورِ عمل ہوا و ہوس کا شکار ہوکر خلط ملط اور من گھڑت اساطیر کا پلندہ بن گیا؛ بل کہ سوقیانہ زبان میں کہا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ’’ وہ دین چوں چوں کا مربہ بن گیا‘‘ ۔ قرآن مجید نے ان کی اس ہر زہ سرائی اور بد دیانتی کو طشت ازبام کیا۔ ’’یا اھل الکتاب لا تغلوا فی دینکم غیر الحق و لا تتبعوا اھواء قوم قد ضلوا‘‘ مگر شریعت اسلامیہ محمدیہ کا یہ امتیازی وصف ہے کہ یہ آخری شریعت ہے اور’’ لا یمحی اور لا یبدل‘‘ اس کی شان رکھتی ہے۔ ’’لا شریعۃ بعد شریعتی و لا امۃ بعدامتی ‘‘ اس کا مرتبہ ہے، ( کہ میری شریعت کے بعد کوئی شریعت نہیں نا ہی میری امت کے بعد کوئی امت ) اور قرآن مجید نے دو ٹوک لفظوں میں اس کی پشت پر مہر تصدیق ثبت کردی{الیوم اکملت لکم دینکم و أتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا}اپنی بڑی نعمت کی تکمیل اللہ پاک نے اسلام کو آخری مذہب کی شکل دے کر انسانوں کو عنایت فرمادیا کہ ہر شریعت جبرئیل علیہ السلام اور کسی نہ کسی رسول کے واسطے سے آئی؛ چناں چہ یہ آخری شریعت ہے اور امت بھی آخری امت ہے۔تو اب نبوت و رسالت کا دروازہ بھی مقفل اب اگر کوئی چور دروازہ سے داخلہ کی کوشش کرے گا (جیسا کہ مرزاقادیانی ودیگر نبوت کے جھوٹے دعویدار وںنے کیا)تو یقینا وہ خائب وخاسر اور نا کام ونامراد ہی ہوگا ۔ساتھ ہی دنیا وآخرت کی ذلت ِکبر یٰ بھی اس کو ملے گی ۔اسی لیے صاحب ِشریعت صاحب ِکو ثر صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف ستھرے لہجہ میں اظہار فرمایا’’ انما انا خاتم النبیِین لا نبی بعدی‘‘ ۔ تو جب یہ محقق ہے کہ اسلام آخری شریعت ومذہب اور قیامت تک آنے والی انسانیت کا نجات دہندہ بھی ہے تو لا زمی تھا کہ صبح قیامت تک وہ محفوظ ومامون بھی ہو جائے اور دیگر مذاہب کی طرح ہوا وحرص کا شکار نہ ہو۔ اس کے ایک ایک جز ایک ایک حصہ (پارٹ) اور ایک ایک حکم کی عملی تشکیل بھی ہوتی ر ہے۔نیز علمی وعملی ہر دو جانب سے حفاظت وصیانت بھی ہو جائے۔ ضروری تھا کہ ایک ایسا طائفہ ایک ایسا گروہ اور ایک ایسی جماعت وجود پاجا ئے جو شریعت مطہر ہ اور سنت نبویہ کے علم وعمل کے پاسبان و امین ہو۔اور وہ جماعت وجود میں آئی اور واقعہ یہ ہے کہ دونوں ہی جانب سے حفاظت کا انتظام فرمایا،علم بھی محفوظ اور طور طریقہ اور انداز عمل بھی محفوظ۔

            حقیقت یہ ہے کہ تحفظ کے جتنے ذرائع ہیں ان میں سب سے زیادہ مستحکم اور مضبوط ذریعہ وواسطہ حضور صاحب ِشریعت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت یا فتہ اور آپ کے جمال آراکے دیدار سے مشرف ہونے والاگروہ اور جماعت جو جنودالرحمن اور طائفہ یزدانی کہلانے کی مستحق ہے ،وہ درحقیقت صحابہ کرامؓ کی ذات بے بدل ہے۔ وہ ان نفوسِ قدسیہ پر مشتمل قافلہ ہے جنہوں نے براہِ راست حامل وحی علی صاحبھا الصلوۃ والتسلیم کو دیکھا ، ان سے کسب واکتساب کیا فیضیاب ہوئے،اور حق یہ ہے کہ کٹھن سے کٹھن اور خدا بیزاری کے ماحول میں بھی وہ شریعت کے حامل و امین رہے ۔ اور انہوں نے اس پر سختی سے عمل بھی کیانہ صرف عمل کیا ،بل کہ آنے والی نسلوں تک من و عن پہنچابھی دیا۔ صحابہ کا یہ امتیازی وصف ہے کہ انہوں نے نگاہِ نبوت کے نیچے منشائے خدا وندی کے مطابق اپنے دین واعمال اور ہر چھوٹے بڑے عمل کو درست کرلیا تھـا ۔ یہ افتخار بھی انہیں کو نصیب ہوا کہ ذرا خامی ہوئی تو حق جل مجدہ نے عرش بریں سے جبرئیل کو بھیجا اور ان کی اصلاح فرمادی۔ اسی اصلاح شدہ جماعت کے سلسلہ میں قرآن پاک گویاہوارضی اللہ عنہم ورضواعنہ۔

ظلمت کدہ یہ نور کی کرنوںکو ڈال دے 

 مجھ جیسے گنہ گار کی قسمت اجال دے

اصحاب مصطفی نے گذاری جو زندگی

میری حیات کو بھی اسی پیکر میں ڈھال دے

صحابہ کا مقام منزل من اللہ ہے:

            چمنستان اسلام اور گلشن نبوی کی آبیاری حضور ساقی کو ثرصلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب ہو کر اور آ پ کے ایماواشارے پر جن پاکباز بزرگ اور مقتدر ہستیوں نے اپناتن من دھن سب کچھ قربان کر کے اسلام کے صحرائے عرب احد نخلستان سے نکال کر قیصر وکسری کے بلندوبالا ایوانوں اور مصر وفلسطین کے سبزہ زاروں اور ہندوافغان کے کہساروں تک پہنچایا ،وہ وہ حضرات ہیں جن کو اصطلاح میں صحابہ کرامؓ کے نام سے موسوم کیا جاتاہے ۔جن کا مقام ومرتبہ دنیاکے کسی آر گنائزیشن یا کسی عرب لیگ یا کسی مسلم فاؤنڈیشن یا کسی اسمبلی اور پارلیمنٹ کا عطا کردہ نہیں ہے یاکسی ظالم وجابر یا عادل شہنشاہ کا نہیں ہے بل کہ یہ مقام ومرتبہ منزل من اللہ اور شہنشاہِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کا عطا کردہ ہے،جس کو اب کسی سرٹیفکیٹ اور سند کی قطعا ًضرو رت نہیں ،انہیں باکمال، پاکباز،ثاقب ذہن اور روشن ضمیر شخصیتوں میں ایک شخصیت عظمیٰ سیدنا امیر معاویہ ؓابن ابی سفیان ؓ کی ہے،جن کا مقام اعلی و با لا اور بہت ہی نرالا ہے ۔

صحا بہ کرام کے سلسلے میں لب کشائی کی گنجا ئش نہیں :

            میرا ایمان ہے ،شمس و قمر، مریخ و ثریا کو بو لنے کی طا قت دی جا ئے ، و حوش و طیور ،در ندو ں وپر ندو ںاور چرندو ں کو طا قت گفتار بخشی جا ئے اور توا ور در یا کا قطر ہ قطرہ ،ریت کا ذرہ ذرہ اوردر خت کا پتہ پتہ گوا ہی دے گا  کہ اما نت ،دیانت ،سچا ئی ، ایمان دا ری ، فدا کاری ، جا ں نثاری ،رحم وکرم ،عفو در گز ر ، حلم و سخا وت ، خلق خدا کے ساتھ حسن سلو ک جیسی لاتعداد خو بیاں و کما لات ذا ت نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں کامل اور اتم درجہ میں تھے۔اور انہیں خوبیوں سے متصف وہ جما عت بھی تھی ؛جن کو اصحا ب نبی کہا جا تا ہے؛یہی و ہ جما عت ہے جو جما عت انبیا کے بعد رو ئے زمین پر ان کے مقام و مر تبہ کا حامل کوئی اور نظر نہیں آتا ۔دو سرے لفظو ں میںیہی کہا جا ئے گا ،کہ وہ جما عت جنتی جما عت اور وہ گروہ جنتی گروہ کہلایا،جن کے با رے میں لب کشائی کی گنجائش بعد وا لو ں میں کسی کو نہیں ،کوئی شخص چا ہے کتنا ہی صا حب فہم و ذکا ہو ،تقویٰ کے کتنے ہی بلندو بالا مقام پر فائز ہو، مگراس کو حق نہیںکہ وہ شان صحابیت میں گستاخی کا مرتکب ہو، کیوںکہ زبانِ وحی الٰہی نے ان کو بڑا امتیاز اور تفوق بخشا ہے۔

            {اولٰئک حزب اللّہ۔ الا ان حزب اللّہ ھم المفلحون}انہیں حزب اللہ کہا۔ ساتھ ہی کامیابی کی ضمانت دے دی گئی۔اور فرمایا:رجال صدقوا ما عاھدو االلّہ علیہ فمنھم من قضیٰ نحبہ ومنھم من ینتظر وما بدلوا تبدیلا۔

            ذرا غور کریں !کس اندازسے قرآن پاک ان کی منقبت کے پھول نچھاور کر رہا ہے ۔ کیا تعریف و توصیف ان اصجاب رسول کی؛ کی جا رہی ہے ۔اللہ ان کو سچا گردانتا اور ان کو وفا دارکہتا ہے، تاجدار نبوت اپنی زبان پاک سے فرمارہا ہے۔ اصحابی کالنجوم بأیھم اقتدیتم اھتدیتم۔

            شراح حدیث اورمحدثین عظام فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں عموم ہے۔ اور صحابی کا اطلاق ہراس ذات پر ہوتا ہے، جس نے ذات رسا لت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو ایمان کی حالت میں دیکھا ہو اور ایمان ہی کی حالت پر خاتمہ ہوا ہو۔

سیدنا معاویہ بن ابی سفیان اپنی ذات کے آئینہ میں:

            معاویہ کون ؟ سیدنا ابی سفیان بن حرب کے صاحب زادے اور خاندان بنی امیہ کی ایک باوقار شخصیت۔ امیر معاویہ کون؟کاتب وحی اور ساقئی کوثر صلی اللہ علیہ وسلم کے معتمد خاص ،جو ام الموٗمنین سیدہ ام حبیبہ ؓکے توسط سے خال المومنین کہلائے ۔امیر معاویہؓکون ؟ایک عظیم فاتح ،جس نے دمشق اور ملک شام فتح کرکے سب سے پہلے اسلامی بحری بیڑہ بنایا۔ہاں ہاں !ایک عظیم رہنما ،قائداور سالار اعظم ،جس نے دمشق وشام اور فلسطین کی نصرانیت وعیسائیت کو ان کی اوقات یاد دلادی ۔ہاںہاں! وہی امیر معاویہ جس نے اپنی حیات مستعار کا ایک ایک لمحہ اور ایک ایک سانس اشاعت اسلام اور تبلیغِ دین حنیف کے لیے صر ف کر دیا۔جہاں تک آپ کے قبولیتِ ایمان کا مسئلہ ہے تو بہ قول مؤرخین :کہ آپؓنے صلح حدیبیہ کے موقع پر ایمان اپنا لیا تھا ،تاہم فتح مکہ کے وقت اعلان واظہار فرمایا۔اور انہیں کے ساتھ ان کی الدہ محترمہ سیدہ ہندبنت عتبہ اور والد ابوسفیان بھی مشرف باسلام ہوئے اور مقام صحابیت سے سرفراز ہوئے۔معاویہ وہ عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، جنہوں نے حضور شافع محشر صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت میں رہ کر اخلاق ِفاضلانہ اور کردارِ قاہرانہ حاصل کیااور کلامِ اقبالؓکا سہارا لے کر کہیں تو کہاجا سکتا ہے۔

نگاہ بلند سخن دلنواز جان پر سوز

 یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے

            آپ تو میرِ کارواں ہی رہے اور ان صفات کے بخوبی حامل تھے۔ اسی طرح            ؎

ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ

غالب و کار آفریں، کارکشا و کارساز

خاکی و نوری نہاد بندۂ مولیٰ صفات

ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز

اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل

 اس کی ادا دلفریب اس کی نگہ دلنواز

نرم دم گفتگو گرمِ دم جستجو

رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاکباز

معاویہ کاتبِ وحی تھے:

            مؤرخین اور سیرت نگار لکھتے ہیں: بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے پانچ سال قبل آپ کی ولادت با سعادت ہوئی۔ سیدنا معاویہؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایما و اشارے پر فتح مکہ کے بعد غزوۂ حنین و طائف میں شرکت فرمائی، اپنی فطری بہادری اور جنگجویا نہ لیاقت کا اظہار فرما کر خوب دادِ شجاعت حاصل کرتے رہے۔ آپؓ وادیٔ قریٰ کے بڑے ہی عقیل و فہیم اور پڑھے لکھے لوگوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ بنا بریں حضور ساقیٔ کوثر صلی اللہ علیہ وسلم کے منظورِ نظر تھے اور قدرت کی طرف سے ایک بہت بڑا وقار و افتخار عنایت فرمایا گیا تھاکہ کتابت وحی کے منصب پرفا ئزتھے۔علاوہ ازیںکچھ اور بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کولکھواناہوتاتوبڑے ـــپیار ووقار سے معاویہؓکوطلب فرماتے۔اللہ اکبر !ذاتِ معاویہ کتنی معتمد تھی اللہ ورسول اللہ کی نگاہ میں ۔حضرت معاویہ کویہ شرف بھی ملاکہ آپؓحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمہ وقت حاضر باش اور خادم خاص تھے ۔اور پہلوئے نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ باریاب ہوتے رہے ہیں۔شاہوںکے نام خطوط ارسال کرنا، آئے خطوط کے جوابات ارسال کرنا بھی آپ کو مقدر ہوا۔ اورآپ کے موئے مبارک کی تراش خراش کے مواقع آپ کونصیب ہوئے۔معاویہ کے مقدر ات کا اوج بھی ملاحظہ فرمائیں ۔

یہ رتبۂ بلند ملا جس کو  مل گیا

ہرمدعی کے واسطے دار و رسن کہاں!

ساقی کوثر کی دعامعاویہؓ کے حق میں:

            معاویہ وہ بانصیب ا ور صاحبِ تقدیر شخص ہیں جن کے لیے حضور شافع محشر صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہااپنادامن ِمراد اپنے رب کے سامنے پھیلایااوربارہاآپ کے حق میںدعائیں فرمائیں ۔ایک مر تبہ رحمت کردگارکی رحمت کا دریا موجزن تھا او ر فضل الٰہی کی بادِ بہاری جاری تھی کہ کونین کے سرور کی زبانِ حق پرست پر یہ الفاظ جاری ہوگئے ’’ اللہم اجعل معاویۃ ھادیاو مھدیا‘‘ بار الٰہا !معاویہؓ کوہادی ومہدی بنا ۔ بار الٰہا ! معاویہ ؓ کو کتاب وسنت اور حساب کا علم عطا فر ما اور اس کو عذاب سے محفو ظ فرما ۔ان ارشاد ت کی قرأت وسماعت کے بعد اب کون بہادر ہے جو معا ویہؓ کی شان میں گستا خ ہو ۔

خلیفۂ ثانی حضر ت عمرؓ کا انتخا ب :

            خلیفۂ ثا نی حضر ت عمر فا رو قؓ کے علم و شعو ر اور انکی دینی حمیت و غیر ت اور اسلا می حس سے کو ن ہے، جو و ا قف نہیں ۔آپؓ کی ذا ت نا در الو قوع شخصیتو ںمیں سے ہے اور ایسی شخصیتیںزمین پر خا ل خا ل ہی جلو ہ افر و ز ہو تی ہیں۔ حق زبا ن عمر سے نکھر تا تھا ۔سب سے بڑھ کر عمر مر ا د رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم ہیںاور اشخا ص و افر اد کی خصلتو ں اور طبا ئع سے آپ بخوبی واقف تھے اور اس میں بڑا درک رکھتے تھے ۔اور طبائع انسا نی کے بڑے شنا ور تھے ۔سید نا عمر نے جب حمص پر عمیر بن سعد کو ہٹا کر وہا ں سیدنا معاویہؓ کا انتخا ب فر مایا اور حمص کی عمارت آپ ؓکے سپرد فرمائی اور وہاں کا حاکم مقرر فرمایا تو کچھ لوگوں نے اعتراض کیا ۔ تو سیدنا عمر بن سعد ؓ(جن کو ہٹایا گیا ہے) حضرت امیر معاویہ کے حق میں کہنے لگے کہ لوگو! معاویہ کا تذکرہ سوائے خیر و خوبی کے نا کرو۔ میں نے محبوب کبریا کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اے اللہ! تو معاویہ کو ہدایت نصیب فرما ؛یہی نہیں ایک امت کی عظیم شخصیت عبداللہ ابن عمرؓ جو محبوب خدا اور خدا کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب کے بھی محبوب ہیں، فرماتے ہیں:کہ میںنے سید الکو نین صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگوں میں امیر معاویہ سے زیادہ صاحب سیادت و حکمرانی کسی کو نہیں دیکھا۔ پھر معاویہ کے مقدر کا اوج تو دیکھیے !جبرئیل حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت فرمارہے ہیںکہ یا رسول اللہ معاویہؓکے حق میں وصیت فرمائیے۔ کہ یہ اللہ کی کتاب کے امین اورعمدہ امین ہیں’’ پھر حدیثوں میں یہ بھی مندرج ہیں۔ گویا خلافت کی پیشین گوئی ہی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معاویہ جب تجھے اللہ اور جہاںبانی مقدر ہو جائے تو لوگوںسے بہترمعاملہ کرنا،پھر دمشق شام اورحمص کے لوگوں نے دیکھا اور تاریخ شاہد ہے کہ معاویہ نے لوگوں سے بہترہی سلوک کیا۔انہوں نے بھلائی اورخیر سے کبھی اپنا دامن نہیں جھٹکا ،اوراس کے بعدخیروصلاح اورانسانیت کی فلاح ان کی فطرت ثانیہ بن گئی،خدا سے باغی انسانوں کو خداسے ملانے کا شوق ایسا دامن گیرہوگیاکہ بعد مرگ ہی اسے چھٹکارہ مل سکا ،اوربقول شاعر کے!

میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی

 میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی

اول جیش من امتی :

            بے شمار روایات کتا بو ں میں درج ہیں ، حضور صاحب قابِ قوسین ؐفرماتے ہیں:اول جیش من امتی لغزو البحر فقد او جبو ا ۔ کہ میر ی امت کا وہ پہلا لشکر جو بحری جنگ لڑے گا اس پر جنت واجب کردی گئی ۔یہ فرمان کس کے حق میں ثابت ہو ا ہے؟تا ریخ بتلا رہی ہے کہ پہلا بحر ی بیڑہ اسی مردِکا راور مرد میدان معاویہ کاکا رنامہ ہے۔شیعیت اورر افضیت کی دلدل میں پھنسے انسانو ں اور ان کی مز خرافات سے متاثر ہو نے والو ں اور ذات معاویہ میں کچڑے ٹٹولنے والوں کو تاریخ وحدیث کا کھلے دل سے مطالعہ کرنا چاہیے اور فرمان الہٰی اور فرمان رسول پر آنکھیں مر کو ز کرنا چاہیے ۔یہ بھی محقق ہے کہ چار و ں خلفاکے ادوار میں آ پ نے اسلا می لشکرکی کمان سنبھالی ہے ،جو اسلامی تاریخ ؛ بل کہ دنیا کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے ۔

            یہی اسلام کا بطل جلیل ہے، جس نے اسلام کو جزیرۃ العرب سے نکال قلات ، قندھار، قیقان، مکران ، سمرقند، بخاریٰ، سیستان، ترمذ، اسی طرح حمص، شمالی افریقہ، جزیرۃ روڈس، سندھ ،جزیرۃ اروڈ ، کابل، صقلیہ سمیت مشرق و مغرب اورشمال و جنوب کے ۲۲/ لاکھ مربع میل سے زیادہ علاقہ میں اسلام کی روشن تعلیمات کو پہنچادیا۔ جب سبائیوں اور منافقوں نے اسلام کے مرکز میں سیندھ لگائی ،جس کے سبب مسلمان انتشار اور تشتت کا شکار ہوئے۔ جس کے ضمن میں جنگ جمل و جنگ صفین کا دل دوز مرحلہ پیش آیا اس افتراق و انتشار سے جب شاہ روم نے حملہ آور ہوکر فائدہ اٹھانا چاہا تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے اللہ کے نور سے اس کو محسوس کرلیا ۔ پھر وہ گرج کڑک اُس کو سنائی کہ وہ روباہی میں ہی عافیت محسوس کرنے لگا۔ معاویہ نے اسلامی گہار (دہاڑ) سنائی اور فرمایا: او رومی گدھ! اللہ کی قسم اگر تو اس اقدام سے باز نہیں آیا تو یا درکھ کہ علی کے لشکر کا پہلا آدمی میں رہوںگا ۔ اور باوجود زمین کشادہ ہونے کے تجھ پر تنگ کردوںگا ،یہ بجلی اور صاعقہ بن کر لشکر تثلیث پر گر پڑی، ان کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی کہ وہ معاویہ ؓ کو بہت اچھی طرح جانتے تھے ؛چناںچہ اس نے فوراًصلح کا پیغام بھیجا۔

            آج مسلم حکومتوںکو اِس ضمن میں ہوش کے ناخن لینا چا ہیے۔کہ فلسطین ۸دہایئوںسے مشق ستم بناہوا ہے ۔شام (سریا )۶؍۷ سالوں سے اپنے لاکھوں جیالوں کو اپنے سینے پر تڑ پتا دیکھ رہا ہے، جس میں بچے، بوڑھے، مرد، عورت اورجوان سب ہیں ۔افغان وعراق، مصر ولبنان اوردیگر کئی ممالک ہیں،جن کو (حکمرانوں میںفکرِمعاویہ اور انکی طرح حساس طبیعت)نہ ہونے کے سبب خاک وخون میں غلطان وپیچاں کر چھوڑا جارہا ہے۔ اے کاش مسلم حکومتیں کچھ اس طرح کا احساس پیدا کرے تو یقینا ماحول بدل سکتاہے ۔علامہ اقبال سے سنیے

تیرا اے قیس کیوںکر ہو گیا سوزدروں ٹھنڈا

کہ لیلی میں تواب تک ہے وہی انداز لیلائی

نہ تخم لاالٰہ تیری زمین شور سے پھوٹا

 زمانہ بھر میں رسوا ہے تیری فطرت کی نازآئی

رفاہِ عام کے اموراور نئی ایجادات:

            مورخین رقمطراز ہیں کہ سیدنا حسن بن علی ؓ کی خلافت سے دست برداری کے بعد661ء میں سیدنا امیر معاویہ ؓ پورے عالم اسلام کے بلا اختلاف خلیفہ تسلیم کر لیے گئے۔اورتقریبا ۲۰؍سال تک اسلام کی مایہ ناز خدمات انجام دیتے رہے ،اس دوران بڑے اولوالعزم رفاہی کام انہوں نے انجام دیے۔ دمشق میں سب سے پہلے اقامتی ہاسپیٹل کی بنیاد رکھی اور دمشق میں پہلا اقامتی ہاسپیٹل بنوایاتھا ،تجارت وزراعت کو خوب فروغ دیا، بیت اللہ اور دیگر کئی قدیم مساجد کی ازسرنوتعمیرفرمائی۔ علم الجراحت کی تعلیم کاآغازکیا ،سرحدوں کی حفاظت کی، اسلامی کازکی وسعتوں کے لیے قلعوں کی مرمت بھی فرمائی او رنئے نئے قلعہ جات بھی تعمیر فرمائیں۔ فوجوں کے لیے مستقل مستقر (کوارٹر ) بھی بنوائیں ۔امن عامہ کی بحالی کے لیے محکمہ پولس کو وسعت وترقی دی، جس کو خلیفۂ ثانی سید ناعمرنے قائم فرمائے تھے ۔ دارالخلافہ دمشق نیز تمام صوبو ں میں قومی وصوبائی اسمبلی کے طرز پر مجالس شوریٰ قائم فرمائی ۔یہ ہے خال المومنین سید ناامیر معاویہ ؛جن کا کردار میں اپنی اس بے جوڑتحریر میں نہیں لاسکتا۔ ’’سفینہ چاہئے اس بحربیکراں کے لیے‘‘ ۔

معاویہ حز ب اللہ کا ایک حصہ ہے :

            معاویہ ! معاویہ ہے ،جن کے مقام و مر تبہ کا کیا پو چھنا ۔قرآنی اصطلاح کے مطا بق وہ حزب اللہ کا ایک حصہ ہے۔ قرآن نے اسی حزب اللہ کو خیرالبریۃ کہا۔ اور فرما یا {جزا ء ہم عند ربہم جنٰت عد نٍ تجری من تحتہاالأ نہٰرخٰلدین فیہا أبدًا رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ ذٰ لک لمن خشی ربہ} شانِ معاویہ کو خا طر میں نہ لانے والے آئے !قرآنی حکیم سے پو چھے !قر آ ن کہہ رہا ہے {محمد رسول اللہ والذین معہ اشدا ء علی الکفا ر رحماء بینہم تر ا ہم رکعاً سجدًایبتغون فضلاً من اللہ و رضواناً  سیما ہم فی وجو ہہم من اثر السجود}اللہ اکبر!کس کاتذکرہ ہو رہا ہے ؟اصحاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اوراصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ۔کیا صفات کا اظہار کیا جارہا ہے،سیدنا معاویہ ؓ تو اصحاب رسول میں سے ہیں،بل کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگرد بھی ہیں۔اور سب سے بڑی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برادر نسبتی بھی ہیں۔معاویہ صحابی رسول ہیںاورساری کائنات کے غیر صحابی انسانوں کے ایمان وعمل معاویہ کے ان ایمان واعمال کے بر ابر بھی نہیں ہو سکتے، جس میںانہوںنے جس گھوڑے پربیٹھ کر حضور کی ہمراہ جہاد کیا،بل کہ اس گھوڑ ے کے نتھنوں میں لگی گرد وغبار کے برابر بھی نہیں ہو سکتے۔وہ تو خدااور رسول کو راضی کرکے دنیاسے سدھارے مگرجو لوگ شان ِمعاویہ میں گستاخ ہوں گے ان کو بھلابرا کہے گیںوہ خود خداورسولِ خدا کو ناراض کریں گے۔

            معاویہؓ وہ مرد حق آگاہ تھا ،جو اپنے پیارے مولدومسکن مکہ اوربیت اللہ کے سائے سے میلوں دور ملک شام میںاسلام کی خدمتِ جلیلہ کو انجام دینے کے لیے اپنی جان جاں آفرین کے سپرد کرگیا،اورایک تاریخ رقم کرگیا۔۶۸۵ عیسوی میں حضور ساقی کو ثرکے مبارک پیراہن شریف میں مدفون محوِ استراحت ہو گیا۔

 انا للہ وانا الیہ راجعون !

خدا ان کی لحد پر رحمت افشانی کرے

قدم بوسی کی دولت مل گئی تھی چند ذروں کو

ابھی تک وہ چمکتے ہیں ستاروں کی جبیں ہو کر