بہ قلم: مفتی عبدالقیوم صاحب مالیگانویؔ/استاذجامعہ اکل کوا
قال اللہ تعالیٰ:{ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ تَرٰھُمْ رُکَّعًاسُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا سِیْمَاھُمْ فِیْ وُجُوْھِھِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ذٰلِکَ مَثَلُھُمْ فِی التَّوْرٰ ۃِ وَمَثَلُھُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ }
صلاح وفسادکامرکز:
تمام انبیاورسل علیہم السلام نے اپنی محنتوںکامیدان؛قلوب کی اصلاح اورعقیدوںکے فسادکوبنایااوراسی کے لیے اپنی زندگی کوکھپایا۔ کیوںکہ دل اوردل میںجمنے والاعقیدہ اسی کے صلاح وفسادکے محورپرسارے اعمال گردش کرتے ہیں۔اِس حقیقت کوحضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوںبیان فرمایا:’’الاان فی الجسد لمضغۃ اذا صلحت صلح الجسد کلہ واذافسدت فسد الجسد کلہ ۔أـلاوہی القلب‘‘کہ بدنِ انسانی میں گوشت کاایک لوتھڑا ہے ،جسے قلب ’’دل‘‘سے تعبیرکیاجاتاہے۔وہ اگردرست ہوتوسارانظامِ بدن صحیح اورلائن پر رہے گا۔ اوراگروہ بگڑجائے تو پھرساراہی نظام بکھرجائے گا،درہم برہم ہوکرچوپٹ ہوجائے گا۔اورآج دل کی اِس حقیقت واہمیت کو(Heart Attack) یعنی دل کا دورہ ؛جیسی سریع الاثر بیماری نے بہت اچھے طریقہ سے اجاگر کر دیا ہے ۔جس حقیقت کو تاجدارمدینہ صلی اللہ علیہ وسلم اوربعدکے ادوار میں صدیوں سے روحانی معالجین اور اطبا سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں۔
خارزارکوبے کارکیا:
چناںچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی بعثت کے اول دن ہی سے اُنھیں دلوںکی بنجرزمین کوسینچنے اوراُس میںموجودشرک وکفر اورفسادِ عقیدہ کے کانٹوںکوصاف کرنے اوراکھاڑنے میںاپنی پوری توانائی صرف کی اورجان ومال سے اصلاحِ قلب اوراصلاح نفوس کے لیے تگ ودَو ،بل کہ جاںگسل محنت کرتے رہے۔
خالقِ کونین کاپیار:
آپ کی مخلصانہ محنت وکوشش کورنگ لاناہی تھا۔بھلے ہی تھوڑی مقدارمیںاللہ رب العزت نے ایسی جماعت تیارکروادی،جنھیں صحابہ کرام جیسے محترم لقب سے موسوم کیاگیا۔جن کی تعریف وتوصیف میںقرآنی آیات کانزول ہونے لگا،جن کے محاسن وکمالات پرزبانِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے سندیں ملنے لگیں،جن کے تقدس وعظمت کی قسمیںکھائی جانے لگیں،جن کی رفاقت ومعیت سے امام الانبیاکوہمتیںمیسرآنے لگیں،جن کی اطاعت بھری اداؤں،وفابھری صداؤںپرنبی کی مسکراہٹیں بکھرنے لگیں اورجن کے جذباتِ قلب اوراخلاص سے پُرکارناموںپرآسمانوںپرخالقِ ارض وسماکوبھی پیارآنے لگا۔پھرخوشیوںسے جھوم کرآقاومولیٰ نے خود{ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ }کاپیغام مسرت ہمیشہ کے لیے اپنے ابدی کلام کاحصہ بنادیا۔
فرشتے بھی رشک کرتے ہیں:
جن کی جواںمردی مسلَّم،جن کی اطاعت ووفاداری مستحکم،جن کی محبتیںمتیقن،جن کی آہِ سحرگاہی محترم،جن کی بہادری وشجاعت مغتنم،جن کاعلم سمندروںکی گہرائی سے زیادہ عمیق،جن کی زندگی لٹے پٹے انسانوں سے زیادہ سادہ،جن کی عبادتیںفرشتوںسے زیادہ اہمیت کی حامل،بل کہ فرشتے جن کی عبادت پررشک کریں۔ قرآن جن کے متعلق کہتاہے {اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ}کافروںاوراعدائے دین کے حق میں شمشیروسناںسے کم نہیں۔اپنوںکے لیے موم سے زیادہ نرم۔جن کی حاضری کبھی سجدوںمیںہے توکبھی رکوع میں۔ہرنقل وحرکت میںرضائے الٰہی کے طلب گار۔جن کے سجدوںاورتنہائی کے آثارعبادت اوراثرات بندگی چہروںپرایسے نمایاں ہیں، جیسے آسمانوںپرچمکتے ستارے،جن کی خوبیوںکی شہادت نہ صرف قرآن مقدس نے دی، بل کہ کتب سماویہ ماضیہ بھی جن کے کمالات ومحاسن کی شاہدہیں،ان فرشتہ صفت انسانوںکاتعارف خودان کے ساتھی عبداللہ ابن مسعود سے زیادہ بہترکون کرسکتاہے؟فرماتے ہیں:’’اولٰئک اصحاب محمدصلی اللہ علیہ وسلم کانواافضل ہٰذہ الامۃ ابرّہا قلوباً ،اعمقہاعلماًواقلہاتکلفاًاختارہم اللہ لصحبۃ نبیہ ولاقامۃ دینہ ‘‘کہ یہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہیں ۔وہ اس امت کے بہترین افرادہیں،وہ دل کے صاف،علم میںعمیق اورتکلف میںبہت کم تھے۔ جس نبی کی صحبتِ بافیض سے صحابیت پائی۔ بکریوںکوچرانے کا سلیقہ نہ رکھنے والے انسان، حکومتوںکوچلانے کا قرینہ سیکھ گئے۔انسانوںکی جانیںلینے والے انسانوںہی کے لیے جانیںنچھاورکرنے والے بن گئے ۔دوسروںکے اموال ومتاع پرللچانے والے قیصروکسریٰ کے خزانوں کو پیروں کی ٹھوکروںسے مارکرسخاوت کے دریابہانے والے ہو گئے ۔عزتوںکوتار تارکرنے والے عزتوںکے رکھوالے اور محافظ بن گئے ۔علم سے بے بہرہ،تہذیب وادب سے ناآشنا ؛علم کاروشن باب اورحیاوادب کااعلیٰ نمونہ بن گئے ۔ جو خودراستہ چلنانہیںجانتے تھے اوروںکوراہ دکھلانے لگے۔دوسروںکی زندگی سے کھلواڑکرنے والے زندگیوںکے لیے سہارا،اندھیروں میںبھٹکنے والوںکے لیے چراغِ سحراورراہ گیروںکے لیے مشعلِ راہ بن گئے ۔کسی نے کیا خوب ہی ترجمانی کی ہے ؎
خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے
وہ کیا نظر تھی ، جس نے مردوں کو مسیحا کر دیا
عدالتِ صحابہ پرمہرِنبی لگ چکی ہے:
اُس نبی نے اپنے جوانوں، دیوانوں،مستانوں،فرزانوں،متوالوںاوربہادروںکے فضائل ومناقب ، اجتماعی وانفرادی طریقے سے بیان فرمائے ہیں۔صحابہ کی اجتماعی عدالت پرمہرتصدیق ثبت کرتے ہوئے یوں ارشادفرمایا کہ: ’’الصحابۃ کلہم عدول‘‘میراکوئی صحابی صفتِ عدالت سے عاری نہیں،یعنی کوئی بھی فاسق نہیں۔ نہ فاسقِ معلن نہ فاسق مخفی۔فسق وفجورصحابہ کی شان نہیں،جوانکارکرے اُس کاایمان نہیں۔مقتدائیت وامامت صحابہ کی کامل ہے۔ فرمایا: ’’علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین تمسکوابہا وعضواعلیہا بالنواجذ‘‘ مقتداو پیشوا بنائے جانے کے قابل میرے صحابہ ہیں۔ جن کی اقتداواتباع نہ صرف موجبِ نجات،بل کہ اسی میںکام یابی کی ضمانت ہے۔جن کاایمان ساری انسانیت کے لیے معیاراورکسوٹی کہ ایمان ویقین کانمونہ اورآئیڈیل صرف صحابہ کاایمان ہے۔ {یٰایہاالناس آمنواکماآمن الناس}مفسرین کے اتفاق سے ’’الناس‘‘ کامصداق حضرات صحابہ ہیںکہ ایمان میںماڈل صحابہ کاچلے گا۔نبی نے جن کی محبت وعداوت کواپنی محبت وعداوت قراردیتے ہوئے ارشادفرمایا : ’’من احبہم فبحبی احبہم ومن ابغضہم فببغضی ابغضہم‘‘کہ صحابہ سے محبت مجھ سے محبت ہے اوران سے بغض وعداوت مجھ سے بعض وعداوت ۔صحابہ کے متعلق دراززبان پربریک لگاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اللہ اللہ فی اصحابی لاتتخذوہم غرضامن بعدی‘‘کہ میرے بعدمیرے صحابہ کو اپنی ہفوات اورالزام تراشیوںکانشانہ مت بناناورنہ توایمان پرخطرات کے بادل چھاجائیںگے۔ جہنم سے پروانۂ آزادی دیتے ہوئے فرمایا:’’لاتمس النارمَن رأنی ومن رای من رأنی‘‘کہ جس کومیرے دیدار کا شرف مل گیاجہنم اُس پرحرام ہوگئی۔ اوراتناہی نہیں،بل کہ میرادیدارکرنے والے کودیکھنابھی عذاب جہنم سے خلاصی کاباعث ہے یعنی تابعین بھی جہنم سے محفوظ ہیں۔
صحابہ کوبرامت کہو:
ایک ارشادگرامی میںمطلقاً صحابہ کی ذواتِ عالیہ اورنفوسِ قدسیہ کوبراکہنے سے آپ نے روکااورفرمایا: ’’لاتسبوا اصحابی ‘‘کہ میرے صحابہ کوبرامت کہو۔کیوںکہ اللہ اوراس کے محبوب نبی نے جن پراعتمادکیا، امت کاجن کواِستنادملا،جنھوںنے اسلام کے دورابتداسے لے کراپنی زندگی کی آخری سانس تک نبی اوراسلام کا ساتھ دیا،جن کی ہرنقل وحرکت اسلام کے خاطر،جن کی ہرسانس اورہردھڑکن سے اسلام اورمحبتِ نبی کی صداآتی ہو،جن کاجینامرناصرف بقائے اسلام کے لیے ہو۔بھلااُن سے بیر،بدگمانی،بے اعتمادی کیسے کی جاسکتی ہے؟اِسی لیے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی کے طورپرفرمایاتھاکہ’’قیامت کی نشانیوںمیںسے ایک یہ بھی ہے کہ امت کے پچھـلے لوگ اگلے لوگوںپرلعن طعن کریںگے‘‘۔اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے ۔آمین!
سندِمستند:
یہ کچھ جھلکیاںہیںصحابہ کے اجتماعی فضائل ومناقب بزبانِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم۔اب ذرانظر ڈالتے ہیں اُن انفرادی ارشادات پر؛جوصادق المصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کی لسان پُرصداقت سے مخصوص صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے کمالات ومحاسن پرسندِ امتیازی دیتے ہوئے نکلے تھے۔چناںچہ اپنے سچے رفیق ،صحابہ میںلئیق،لوگوںپر شفیق، ہر حال میںشریک غار ثور میںمعین سیدناحضرت ابوبکر صدیقؓ کی رحمدلی کویوںبیان کیا۔’’ارحم امتی بامتی ابو بکرنِ الصدیق‘‘میری امت میں سب سے زیادہ رحم وکرم بانٹنے والاصدیق اکبر ہے۔غیرت عمرؓکواس طرح بتلایا: ’’و اشدہم فی امر اللہ عمر‘‘کہ سارے صحابہ میںغیرت وحمیت دینی میں کامل واکمل عمرفاروق ہے ۔
صداقت کو صدیق کی ہے ضرورت
عدالت مزاجِ عمر ڈھونڈتی ہے
شعبۂ حیا کا مصداق اولین وکامل عثمان ذوالنورین کے متعلق فرمایا:’’واصدقہم حیائً عثمان‘‘کہ امت کاسب سے بڑا حیادارعثمان ذوالنورین ہے ۔علی مرتضیٰ کے قوت فیصلہ کواسی طرح اجاگرکیا:’’واقضاہم علی‘‘کہ عالم اسلام کا سب سے بڑا قاضی (چیف جسٹس)علی مرتضیٰ ہے ۔
چنددیگرایوارڈواعزازات:
خلفائے اربعہ کے بعددیگرصحابہ کے متعلق بھی امتیازی ارشادات اورسندِاستنادہے ۔’’اقرأہم ابی بن کعب‘‘ فرماکر حضرت اُبی بن کعب کو صدرالقراء قراردیا۔’’اعلمہم بالحلال والحرام معاذ بن جبل ‘‘ فرماکرمفتی کی ڈگری معاذبن جبل کے ہاتھوں میںتھمادیا۔سیدناحضرت علی کرّم اللہ وجہہ کو جلالتِ علمی کی سند تفویض کرتے ہوئے فرمایا:’’ انامدینۃ العلم وعلی بابہا‘‘کہ میںشہرعلم ہوںاور علی اُس شہر علم کادروازہ ہے۔ اور شہر کے لیے دروازہ کی حیثیت کااندازہ سب کواچھی طرح معلوم ہے ۔عمرفاروق کے اندر موجودشانِ نبوت کواس انداز سے بیان کیاکہ’’لوکان بعدی نبیاً لکان عمر‘‘ کہ میرے بعدبھی اگرسلسلۂ نبوت جاری رہتا تو عمربھی اُس کی ایک کڑی ہوتا۔
شاعر مشرق سے ایک ملاقات:
صحابہ کے مذکورہ بالاکمالات ،مناقب اورخوبیوںکوبعدوالوںنے بھی اپنے اپنے اندازسے پیش کرنے کی سعی کی ہے ۔جن میںبہت ممتازنام صاحبِ دل انسان ،شاعرمشرق علامہ اقبال ہے ۔جنھوںنے دریا بکوزہ کااندازاپناکرصحابہ کے متعلق کہاتھا ؎
الٰہی یہ تیرے پُراسرار بندے
جنھیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دونیم اُن کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دوعالم سے بے گانہ کرتی ہے دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
کسی اورموقع سے کہاتھا
ٹل نہ سکتے تھے جو میداں میں اتر جاتے تھے
پیر شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے
ہم توڈھوـ ل کے خول یاپھرکردار سے عاری اورگفتارکے غازی ہیں،ہم صرف زبانی خرچ کرنا اورہرقدم پر{ اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ} کا پُرفریب نعرہ لگاناہی جانتے ہیںاوربس!چناںچہ ہمیںان صفات سے خالی ہونے پرغیرت دلاتے ہوئے کہتے ہیں
اے لاالٰہ کے وارث ، باقی نہیں ہے تجھ میں
اندازِ دلبرانہ ، کردارِ قاہرانہ
تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے
کھویا گیا ہے تجھ سے جذبۂ قلندرانہ
باطل آج تک تلملا رہاہے:
کسی بڑے سیرت نگارنے لکھاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کاسب سے بڑااورنمایاں کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے۶۳؍ سالہ حیاتِ مبارکہ میںصحابہ جیسی مقدس ،مضبوط اورجانباز جماعت تیارفرمادی۔ جنھوںنے ہر سردوگرم حالات میںنبی کاساتھ نبھاکراسلام کی امانت کوبعدکی نسلوںکوپہنچانے کافریضہ بدرجہ اتم پورا کیا۔محنت ومشقت کے عادی،عیش پسندی جنھیںچھوکربھی نہیںگذری،اگراُس میںکوتاہی کرتے اوراپنی جان کو جان اورعیش کوعیش سمجھتے توہرگزاسلام کی یہ نعمت گراںمایہ ہم تک نہ آتی۔بل کہ شمع اسلام اپنے ابتدائی دورمیںہی بجھ جاتی،چہ جائیکہ وہ ان کی کوششوںاوربے مثال قربانیوںسے شعلۂ جوالہ بن گیا۔جس کی جڑیںتحت الثریٰ میںہیں تواس کی شاخیں آسمانوںمیںہیں۔ {اَصْلُھَا ثَابِت’‘ وَّفَرْعُھَا فِی السَّمَآئِ}جس اسلام نے ہردور میں محبتوں، الفتوںاور انسانیت کے پھل دیے اوردیتا رہے گا۔چاہے دشمن لاکھ کوشش کرڈالے،ناک رگڑ لے لیکن ’’پھونکوںسے یہ چراغ بجھایانہ جائے گا‘‘۔{ تُؤْتِیْٓ اُکُلَھَا کُلَّ حِیْن ٍ م بِاِذْنِ رَبِّھَا}جس کی تعمیروترقی سے باطل ابتدا سے لے کر آج تک تلملارہاہے۔ہزاروںنہیں،لاکھوںتدابیربروئے کارلاکراس کوصفحۂ ہستی سے مٹانے کے در پے ہیں اورآج بھی نِت نئے ہتھکنڈے اپنائے جارہے ہیں ۔ لیکن شایداُن دشمنان اسلام اوراعدائے دین کویہ پتانہیںہے کہ ’’اسلام وہ پودا ہے،کاٹوتوہراہوگا۔‘‘
کفرکوبیساکھی کاسہارالیناپڑا:
یہ اللہ کی مدد اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فکرو محنت اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی عظیم قربانیوںکا ثمرہ ہے،کہ اسلام اوراس کی تعلیمات آج بھی اُسی آب وتاب اورشان وبان کے ساتھ زندہ اورآبادہے جیسے ماضی میںتھا ۔اوران شاء اللہ الیٰ یوم النشوراِسی طرح زندہ وتابندہ رہے گا۔ اسلام کی شان اس کی ابدیت اورحفاظت کے لیے صحابہ نے بدرکے اس مشکل ترین مرحلہ میںاپنی دیوانگی اوراسلام دوستی کے ذریعہ سے باطل اوراغیارکوایسی چوٹ پہنچائی اورگہرے زخم دیے تھے کہ اُن زخموںنے ان کو دوبارہ مکمل اٹھنے اورسیدھاکھڑارہنے کاموقع نہیں دیا۔ اِسی کوانگریزی میںکہتے ہیں(First Impression is the Last Impression)کہ پہلاہی وارایسا کاری اورجم کرکیاکہ مقابل میںمقابلہ کی قوت کوکم زور ہی نہیں،بل کہ مفلوج بنادیا۔جودوسروںکی بیساکھی کے سہارے کے محتاج ہوگئے،چناںچہ ایساہی ہوا ۔ قریش مکہ اپنے اطراف واکناف کے لوگوںکواپناہم خیال اور شریک بناکرکبھی اُحد میںتوکبھی حنین میں اوردیگر مواقع پربڑے جوش وخروش اورکمرکَس کرمید ان میں آتے ہی رہے ۔ لیکن اللہ اپنی شایانِ شان جزائے خیر عطا فرمائے حضرات صحابہ کو؛ جنھوںنے جان کی بازی لگاکر، بیویوں کے سہاگ اجاڑ کر،بچوںکویتیمی کا طوق پہنا کر اورملک ووطن کو الوداع کہتے ہوئے ایسامردانہ وار اورسرفروشانہ مقابلہ کیاکہ حفاظتِ اسلام اورمحبت نبی کاگویاحق اداکردیا۔ جن سے اللہ بھی راضی ہوگیا اوراس کامحبوب نبی بھی۔ اورقیامت تک کے لیے ،جن کے ایمان واسلام اورحیاتِ مبارکہ کوآنے والے انسانوںکے لیے نمونہ اور رہبر بنا دیا۔
یہ رتبۂ بلند ملا ، جس کو مل گیا
ہر شخص کے نصیب میں دارو رسن کہاں
دنیاکوہمیشہ انتظارہی رہے گا:
اس حقیقت سے کسی فردبشرکوبھی انکارکی گنجائش نہیںہے کہ اب قیامت تک مائیںایسے انسانوںکو پیدا کرنے سے بانجھ ہوچکی ہیں۔زمین وآسمان جن کے دیدار کے لیے ہمیشہ ترستے اورخون کے گھونٹ پیتے ہی رہیںگے۔دھرتی وآکاش کو’’الانتظاراشد من الموت ‘‘ کی حقیقت اورسچائی معلوم ہونے کے باوجودبھی ہمیشہ جن کاانتظارہی رہے گا، جن کی عبادت وبندگی کی جگہیں اور اعمال صالحہ کے جانے کی راہیںان کے لیے ہمیشہ آنسوبہاتے رہیں گے۔ لیکن انجام آخرکیاہوگا؟وہ بھی دیکھ کر اپنی حسرت کوتھوڑاسہاراد ے ہی دیجیے۔یعنی’’بہت نکلے میرے ارمان ،لیکن پھربھی کم نکلے‘‘
وہ عشاق تھے جو گذر گئے وحدتِ فردا لے کر
جا ڈھونڈ اُنھیں تو چراغ رخ زیبا لے کر
مضت الدہور وما اتین بمثلہٖ
و لقد اتی فعجزنا عن نظرائہ
اللہ ہم پوری امت کی طرف سے اپنے نبی اوران کے جاںنثاروںکوجزائے خیر عطافرمائے اورہم سب کوان کے نقوشِ حیات پرچلنانصیب فرمائے ۔آمین!وماذالک علی اللہ بعزیز۔