تیرے تقدس پہ قرباں،تیری عظمت کوسلام

تحریر:ابوعالیہ نازقاسمیؔ،اِجرا،مدھوبنی/جامعہ اکل کوا

یہاںخیرکااجتماع ہورہاہے:  

            حق تعالیٰ شانہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوساری کائنات میںسے منتخب کیا۔اِسی لیے آپ خلاصۂ کائنات ، فخرِاولادآدم اورخیرالبشر ہیں۔آپ کی کتاب ’’خیرالکتب‘‘،آپ کادین ’’خیرالادیان‘‘،آپ کی امت ’’خیرالامم‘‘ اورآپ کازمانہ’’ خیرالقرون ‘‘ہے ۔توپھریہ بھی لازمی طورپرمانناپڑے گاکہ آپ کے اصحاب بھی ’’خیرالاصحاب‘‘ ہیں۔(بولتے حقائق:ص۱۲)

قرآن کریم میںصحابہ کاذکر:

            آئیے انہیں خیر الاصحاب کے تعلق سے قرآن کابھی مطالعہ کرتے چلیں اور دیکھیں کہ اِس برگزیدہ جماعت کے تعلق سے قرآن کیا کہتا ہے؟ اِس سلسلے میں’’ پارہ ۲۶؍سورۃ الفتح‘‘آیت نمبر ۲۹؍میںصحابہ کی تعریف اِن الفاظ میںپیش کی گئی ہے:{ مُحَمَّد’‘ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ تَرٰھُمْ رُکَّعًاسُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا سِیْمَاھُمْ  فِیْ وُجُوْھِھِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ذٰلِکَ مَثَلُھُمْ فِی التَّوْرٰ ۃِ }

            اب سورہ توبہ کی آیت نمبر۱۰۰؍ بھی ملاحظہ کرتے چلیں:{وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَان رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْاعَنْہُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًاذٰلِکَ الْفَوْزُالْعَظِیْمُ}

            اوربفحوائے آیت قرآنی:{ اُولٰٓئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْ  م بَعْدُ وَقٰتَلُوْا وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ  الْحُسْنٰی}اور اس کے ساتھ سورہ انبیاء کی آیت {اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَھُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰٓی اُولٰٓئِکَ عَنْھَا مُبْعَدُوْنَ }ملائیںتوصاف معلوم ہوتاہے کہ صحابہ کرام کے لیے جہنم سے بُعد اورجنت کاوعدہ فرما دیاگیاہے ۔

            قارئین:یہ بات بھی ذہن نشین کرتے چلیںکہ خالق السمٰوات والارضین کی طرف سے بلد الامین میں صادق الامین کی ذات والاصفات پرروح الامین عندذی العرش مکین؛حضرت جبریل امین کی معرفت قرآن کریم میںاوپرکی یہی مذکورہ آیات کائنات کی اُن برگزیدہ ہستیوںکی شان میں نازل نہیں کی گئی ہیں۔ بل کہ بے شمار آیتوںمیںاُن کی شانِ ذیشان کی پہچان کرائی گئی ہے ۔یہی وہ عالی صفات اور قدسی نفوس ہیں،جو اسلام کے مخاطبِ اول ہیں،جن کے ایمان وایقان، تقویٰ وطہارت اور پاکیزگی کی گواہی خود رب رحمن نے قرآن میںہنگامۂ محشربپاہونے تک کے لیے مختلف اندازاورالفاظ میںدی ہے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ فرمائیں: {اُوْلٰئِکَ  ہُمُ الصَّادِقُوْنَ۔اُوْلٰئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْنَ۔ اُوْلٰئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الْاِیْمَانَ۔اُوْلٰئِکَ ہُمُ الرَّاشِدُوْنَ۔ اُوْلٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔اُوْلٰئِکَ ہُمُ الْمُوْمِنُوْنَ حَقًّا۔اُوْلٰئِکَ حِزْبُ اللّٰہِ  }

چلیے اب درباررسالت میں:

            نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جاںنثارساتھیوںکی ثقاہت کے بارے میں ’’الصحابۃ کلہم عدول‘‘ارشادفرماکران کی ثقاہت وعدالت کو مستحکم فرمادیا،نیز اگلی روایت بھی پڑھتے چلیے

            (عبداللّٰہ بن مغفل ؓ)رفعہ:قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:اللّٰہ اللّٰہ فی اصحابی، لاتتخذوہم غرضاً بعدی فمن احبہم فبحبی احبہم، ومن ابغضہم فببغضی ابغضہم۔ ومن آذاہم فقد آذانی،ومن آذانی فقدآذی اللّٰہ  ،ومن آذی اللّٰہ  فیوشک ان یاخذہ۔(جمع الفوائد:۴/ص۴۹۱)

تجھ سادوجا‘لاؤںکہاںسے:

            خیر الاصحاب کی جوجماعت میرے نبی کوعطافرمائی اس کارنگ ہی کچھ اور؛اس کامزاج ہی مختلف تھا۔کسی نبی کی امت نے تو{اِنَّاہٰہُنَاقَاعِدُوْنَ}کہہ کراپنے آپ کو پیچھے ہٹالیا۔لیکن جب جاںنثارانِ صحابہ کی باری آئی تواُنھوںنے برملاڈنکے کی چوٹ پرکہاکہ

معاذ اللہ مثیلِ امت موسیٰ نہیں ہیں ہم

جہاں میں پیروانِ دینِ ختم المرسلیں ہیں ہم

اورمیرے نبی کی جماعت نے اپنے نبی پرآنچ بھی نہ آنے دی۔جب بھی جس چیزکی ضرورت پڑی قربان کر دیا۔ خو د اطاعت بھی اُس جماعت کی اطاعت شعاری پرنازکرتی ہے ۔نبی کی آوازکان میںپڑی کہ جوجہاںہے وہیںبیٹھ جائے ۔واہ رے صحابی تیری اطاعت پرقربان؛مسجدمیںداخل بھی نہ ہوئے تھے کہ بیٹھ گئے ،اب ایک قدم آگے نہیں جا سکتا۔مِسطح وحاطب تمھاری بدرکی شرکت نے تمھیںاُس مقام پرپہنچادیاکہ عمرجیسی شخصیت کوبھی تمھارے متعلق لب کشائی کی اجازت نہ ہوئی اوراماں عائشہ صدیقہ تمھاری وکیل بن گئیں۔عثمان تیری عظمت کے کیاکہنے کہ خودنبی نے اپنا ہاتھ یہ کہہ کراپنے ہاتھ پررکھ دیاکہ یہ عثمان کاہاتھ ہے تاکہ تم اس سے محروم نہ رہ جاؤ۔علی تیری رفعت کوسلام؛ کہ نبی ٔ رحمت نے ’’انامدینۃ العلم وعلی بابہا‘‘کہہ کرتیری عظمت کوچارچاندلگادیے ۔معاویہ تیر ا ہادی ومہدی ہونامسلّم ؛ اس لیے کہ نبی کی لسانِ مستجاب نے تجھے ہادی مہدی ہونے کی دعاسے سرفراز فرمایا۔ ایسی چیدہ اورمجتبیٰ جماعت کہ خود رب کائنات نے قرآن کریم میںابدالآبادتک کے لیے{ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ  وَ رَضُوْا عَنْہُ }کاپروانہ عطا فرمادیا۔

تعدیل صحابہ مدار دین ہے:

             یاد رکھیے اِس جماعت ِصحابہؓ کی تقدیس و تعدیل پر ہمارے افکار ونظریات ، قرآن و سنت اور ہمارے تمام اسلامی نظام کا مدارہے۔ وہ ہمارے قرآن کی صداقت اور پیغمبر کی حقانیت کے گواہ ہیں ۔غیر تو غیرہی ہیں، اپنوں میں سے بھی اگر کوئی ان ستونوں کو گراتا، اُن کی عدالت مجروح کرنے کی سعی کرتا، ان کی عظمت اور تقدس کو داغدار کرنا چاہتا ہے تو ہم اُسے ملی خود کشی اور اپنی شریعت سے دشمنی ہی سمجھیں گے۔ اور پوری خیرخواہی اور خداترسی سے اُس ہاتھ، اُس قلم اور زبان کو روکنے کی کوشش کریں گے کہ اگر دین کے یہ اولین محافظ منافق، سازشی، پالیٹکس، خود غرض ، خائن اور معاذ اللہ جابر وظالم تھے تو جو دین وشریعت،کتاب وسنت ان کے ذریعے ہم تک پہنچی اور جس پر دین کی عمارت کھڑی ہوئی ہے۔ یہ ساری عمارت اور ڈھانچہ خود بخود دھڑام سے گرکرزمین کوسجدہ کرنے لگے گا۔ صحابہ کرام کے تقدس ثقاہت اور تعدیل کا مسئلہ ؛پوری شریعت اور پیغمبر اسلام کی صداقت وحقانیت کا مسئلہ ہے ۔ جن کی جانفشانی، اخلاص اور ایثار وجہاد کی بدولت آج ہم مسلمان ہیں۔اگر ان کی طرف انگشت نمائی ہو،تو اس صورت میں بقول امام شافعیؒ (جسے ابن تیمیہؒ نے ’’منہاج السنۃ‘‘میں نقل کیا) کہ ہم یہود ونصاریٰ سے بھی بدتر ثابت ہوں گے اور یہود ونصاریٰ ہمارے مقابلہ میں مرتبہ شناس اور قدردان کہ جب ان لوگوں سے پوچھا گیا کہ تمہاری ملت میں زیادہ بہتر کون لوگ ہیں؟ تو یہود نے کہا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی اور عیسائیوں نے کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری (صحابہ)کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ اس طوفان نوحہ وماتم میں ہمارا پورا گھر (دین وشریعت) تو نہیں ڈوب رہا۔ اور ہماری تحقیق واکتشاف کی کلہاڑٰی سے قصر اسلام میں شگاف تو نہیں پڑ رہے ہیں؟ فاعتبروا یا اولی الابصار۔(ج۱/ص۳۳)

چہ حق داریم؟:

             جس جماعت کواللہ نے اپنی رضااورخوش نودی کاپروانہ دے دیا،اس کے بارے میں اس طرح کاخیال بھی آناکہ ان میں تواقرباپروری اورخلافت میں گڑبڑی کاعیب ہے، اس میںتوبغاوت کامادہ پایا جاتاہے، اس میںتوغاصب وخائن کی ٹیم موجودہیںتویہ ایمان لیوا ثابت ہو سکتا ہے ۔ یہی وہ مقدس جماعت ہے ، جس کے کسی فرد کے بارے میںخوداُس جماعت کے کسی فردکولب کشائی کی اجازت نہیںملی تو پھر ہمیںکیسے مل سکتی ہے؟ہم کون ہوتے ہیںاُس جماعت کاامتحان اورجائزہ لینے والے؟ اُن کی وفاشعاری وجاںنثاری کی جانچ پڑتال کرنے والے؟اس کا امتحان تو خودرب کائنات لے چکااورنتیجے کا اعلان بھی اِن الفاظ میںہو گیا۔ {لَہُمْ مَغْفِرَۃً وَّاَجْرٌعَظِیْمٌ ۔ وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ  الْحُسْنٰی}یہ توتقویٰ کے اُس معیارپرہیںکہ خود اللہ نے ان کے ایمان کو{ فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآاٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا} کہہ کرہمارے لیے معیار اور کسوٹی بنا دیا ہے۔ آج ۱۴۰۰؍ سال سے زائد عرصہ گذرنے کے بعداگر ہم ان کی تنقیح کاکام انجام دینے لگے اوربدستِ خوداُن بنیادوںکوڈھانے لگے، جن بنیادوں پر ہمارے ایمان و اسلام کی عالی شان عمارت کھڑی ہے تو خود ہم اپنے ہی ہاتھوں اپنے ایمان کی جڑیں کھود ڈالیں گے صحابہ ہم تک اسلام کے آنے کااولین واسطہ ہیں،جن کی معرفت ہمیں نبی کے ظاہروباطن کاتعارف حاصل ہوا۔جنھوںنے ذاتِ نبی اور افعال واقوالِ نبی کی حفاظت کی خاطر اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کردیا۔ہم تودنیاکے چپراسی کے سامنے سنن ہدیٰ پرعمل کرنے میںبھی سبکی محسوس کرتے ہیں۔ اور ایک وہ تھے؛ جوبڑے سے بڑے شہنشاہ کے سامنے بھی کسی سنتِ زائدہ کو بھی ترک نہیںکرتے تھے۔

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مشہور یہودی عبداللہ بن سبا اور اُس کے بعد اُس کی روحانی ذریت نے صحابہ کرام کے تقدس اور تعدیل کو پامال کرنے اوراُن پر کیچڑاچھالنے کی جان توڑ کوشش کی۔ علماے امت نے ہر زمانہ میں سبا ئی ٹولے کے اِن ناپاک عزائم کا بھرپور تعاقب کرتے ہوئے حضرات ِصحابہ کے ناموس کے تحفظ کے لیے جنگ لڑی اورآئندہ بھی بہ وقتِ ضرورت لڑتے رہیں گے۔

گئی بھینس پانی میں:

            اگریہ جماعت ہی لائقِ اعتمادنہیں،توپھراِس کے نتیجے میںمانناپڑے گاکہ (۱)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ۲۳؍ سالہ محنت(نعوذباللہ) بے کارگئی۔(۲)رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت فضولیات کے خانے میںفٹ ہو گئی۔ (۳) محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے آنکھیں بندکرتے ہی دین اسلام کاخاتمہ ہوکرآپ ہی کے ساتھ دفن بھی ہوگیا۔یعنی آپ کی وفات کے بعدایک دن توکیا؛ایک لمحہ بھی آگے نہیںچلا۔(۴)آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تیارکردہ جماعت لائق اعتماد نہیںتھی تواُسی جماعت کے ذریعے ہمیںجوقرآن ملاوہ بھی لائق اعتمادنہیںرہا۔نبوت بھی بے اعتمادی کے چنگل میںپھنس گئی۔ دین اسلام کی کسی چیزپربھی اعتمادممکن نہیںرہا۔کیوںکہ خداکی کتاب،نبی کی نبوت اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی ایک ایک چیزاُسی جماعت کے واسطے اورذریعہ سے ہمیں ملی ہے۔

صحابہ کاایمان ہمارے لیے معیار:

            اسی منتخب جماعت کے ایمان کو باقی لوگوں کے لیے معیار قرار دیکر ارشاد ربانی ہوا { اٰمِنُوْا کَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ }ایسی مقدس جماعت پر اگر کوئی الزام تراشی کرنے کا سوچے تو اسے یادرکھنا چاہیے کہ اگرصفحۂ ہستی پر صحابہ کرام کی مقدس جماعت ہی بے اعتماد ہو گئی ،وہی معیارحق نہیںٹھہرے ،تو پھرہمیںذلت وپستی کے غار میں گرنے سے کوئی بچابھی نہیںسکتا۔کیوںکہ عمارتِ اسلام اُن کے ہی دم قدم سے کھڑی ہے۔یہ بات کون نہیں جانتا کہ اگربنیادہی نہیںہوگی توعمارت کی تعمیرصبحِ قیامت تک ہوہی نہیںسکتی۔کوئی یہ توبتلانے کی زحمت کرے کہ اگر صحابہ معیارحق نہیں،توپھرکائنات کے نقشہ پرکون ایسی ہستی ہے،جسے معیارِحق قراردیاجاسکے۔ اورکہانی کااختتام یہیں پر نہیں ہوگا،بل کہ اسلام وایمان اوردولتِ قرآن سے بھی ہاتھ دھو لینا پڑے گا۔ پھرہماراوطنِ اصلی کیا بنے گا یہ بتلانے کی ضرورت نہیںہے۔اس لیے احمقؔ صاحب سے ملاقات کرکے پوچھیے وہ کیاکہتے ہیں۔

خدارا حفاظت کرو تم خود اپنی

فرشتے نہ ہرگز بچائیں گے آکر

سنیے!یہ بشر؛ محفوظ ہیں ؛معصوم نہیں :

            ہاں ان مقدس ذوات سے بھی کچھ لغزشیں ہوئیںلیکن وہ تو پہلے ہی معاف کردی گئیں کیوںکہ اگراُن حضرات سے گناہ کاصدورہوتاتھاتوہماری طرح سے صرف زبانی زباںخرچ نہیںکیاکرتے تھے۔وہ زبانی توبہ پر تکیہ کرکے بڑے آرام سے اوربے فکری کے ساتھ نہیں بیٹھ جاتے تھے ، بل کہ بڑی سے بڑی سزا کے لیے خود کوآگے بڑھ کرپیش کر دیتے تھے۔ جیسا کہ حضرت ماعز اسلمی اورحضرت غامدیہ کے واقعہ سے پتا چلتاہے ۔ صحابہ کی خشیت کا حال تویہ تھاکہ جب تک اُن کوتوبہ کی قبولیت کا اطمینان نہیںہوتااس وقت تک ان کے دن کاسکون اور رات کی نیند حرام ہوجاتی تھی اور پھر دربار رسالت سے اعلان ہوتاتھا کہ اس نے ایسی توبہ کی کہ اگر پورے مدینے پر تقسیم ہوتو سب کی مغفرت ہوجائے۔ کرکے بتلائیے ایسی توبہ اور لائیے ایسا فرمان اپنے لیے۔یہ وہ جماعت ہے جس سے رضا کااعلان{ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ  وَرَضُوْا عَنْہُ }نازل فرما کر رہتی دنیاتک کے لیے کردیا گیا  اورہونے والی لغزشوں کی معافی بھی{وَلَقَدْ عَفَا اللّٰہُ عَنْھُمْ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْر’‘حَلِیْم’‘ }کہہ کر عنایت فرمادی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت کی ترتیب قائم کردی:

            تاریخی شواہدکی بنیادپریہ بات ؛اسی طرح اظہرمن الشمس اوربے غبارہے،جس طرح سے دواوردو چار ہونے میںکوئی اشکال نہیںہوتا۔ کیوںکہ ترتیبِ خلافت خودنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اِس فرمان ’’خیر القرون قرنی‘‘ میں بیان کردی ہے ۔یعنی قارئین کرام کوایک کام کرناہوگا۔وہ یہ کہ خلفائے اربعہ کے ناموںکے آخری حروف کواپنے دامن میںسجالیجیے؛یعنی صدیق کی ’’ق‘‘ عمرکی ’’ر‘‘ عثمان کی ’’ن‘‘اورعلی کی ’’ی‘‘کولے لیجیے تو قرنی بن جائے گااورآپ کوخلافت کی ترتیب کاپتامعلوم ہوجائے گا۔

اب آخری التماس ہے:

            بنا بریں نصوص و تصریحات اکابر؛ہم ان ہستیوں کے متعلق نہایت ہی محتاط رہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم {اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِیْ ھُوَ اَدْنٰی بِالَّذِیْ ھُوَ خَیْر’‘ }کا مصداق ٹھہریں اور جس نظام کو ہم دنیا جہاں میں نافذ کرنا چاہتے ہیں، خود ہی اُس کے لیے تخریب کے سامان مہیا کریں۔ اللہ ہم تمام کی حفاظت فرمائے اور ناموس صحابہ کی حفاظت کے لیے ہم تمام کو قبول فرمائے۔آمین!