مولانا محمد مرشد صاحب قاسمیؔ
حضرات انبیائے کرام کے بعد صفحۂ ہستی کے سب سے مقدس انسان حضرات صحابۂ کرامؓ ہیں ۔ کتنے مقدس ہیں،وہ حضرات جن کے ہاتھوں کو اللہ تعالیٰ نے جمعِ قرآن کے لیے چنا ۔
علمائے کرام لکھتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی قرآن کریم یکجا کرسکتے تھے ؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ کام حضرات صحابۂ کرام کے لیے مقدر کر رکھا تھا تا کہ امت کو ان ذات و شخصیات کے ساتھ ایک ناقابل تنقید اعتماد قائم ہوجائے ۔
صحابۂ کرام وہ جن کے مقدس ہاتھ نہ جانے کتنی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ حق پرست سے مس ہوئے ہوںگے ۔ اورجن کی آنکھوں نے زندگی میں نہ جانے کتنی بار دیدار مصطفیﷺ کا شرف حاصل کیا ہوگا ۔ آج ہم میں سے کسی کو خواب میںبھی ایک مرتبہ زیارت ہوجاتی ہے تو اس کو کتنا عظیم مقدس ومبارک سمجھا جاتا ہے ۔ آج ہمارے بیچ کوئی حضرت تھانویؒ ، حضرت ہردوئی ؒاورحضرت باندویؒکی زیارت کرنے والیں مل جائیں تو ان کوہم کتنا مقدس سمجھتے ہیں اورکس قدر محبوبیت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔
صحابہ قرآن کریم کے اولین مخاطب:
جان لیںکہ صحابہ کرام قرآن کریم کے اولین مخاطب ہیں ۔ اگر قرآن کریم{ اولٰئک ہم الراشدون}کہتا ہے ’’یہی لوگ رشد و ہدایت والے ہیں ‘‘ ، یا {اولٰئک ہم الفائزون} کہتا ہے۔’’یہی لوگ فوزو فلاح والے ہیں‘‘یا { اولٰئک ہم المفلحون }کہتا ہے ۔’’یہی لوگ ایسی کامی یابی والے ہیں جس، کو کبھی زوال نہیں ۔‘‘یا{اولٰئک ہم الصادقون} کہتا ہے ’’،یہی لوگ سچائی کے پیکر ہیں ‘‘ ان سب کے مخاطب صحابہ کرام ہیں ۔ عبارۃ النص انہیں حضرات کے لیے ہوگی؛ دیگرحضرات کے لیے ،یہ ساری بشارتیں لفظ کے اشارے اور دلالت سے ثابت ہوگی ۔
اللہ تعالی کی جانب سے تقوی ومحبت الہی کی شہادت:
صحابہ کرام وہ مقدس ہستیاں ہیں ، جن کے دلوں کو خود اللہ نے چنا تھا ۔ اللہ سے بڑا کوئی ممتحن نہیں ہوسکتا اورصحابہ کرام سے بہتر کوئی شاگرد اورتلمیذ نہیں ہوسکتا ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
{یٰا یہا الذین اٰمنوا من یرتد منکم عن دینہ فسوف یاتی اللہ بقوم یحبہم ویحبونہ اذلۃ علی المؤمنین اعزۃ علی الکافرین یجاہدون فی سبیل اللہ ولا یخافون لومۃ لائم}۔(المائدۃ: ۵۴)
’’ اے ایمان والو! تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا تو اللہ تعالیٰ (ان کی سرکوبی کے لیے ) ایسی قوم کو لائیںگے، جن سے اللہ تعالیٰ محبت کرتے ہوںگے اور وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کریںگے ۔ مومنوں پر نرم اور کافروں پر سخت ہوںگے ۔ وہ اللہ کے راستے میں جہاد کریںگے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا اندیشہ نہیں کریںگے۔‘‘
بہت بڑی بات ہے جن کی غیرت ِایمانی اور جوش ایمانی کی خود اللہ تعالیٰ تعریف کرے اور جن کو اللہ تعالیٰ خود اپنی محبت اور رضا کا پروانہ دیں۔ اوراللہ تعالیٰ اِن الفاظ میںرضامندی کی سندعطا فرمادے{رضی اللہ عنہم ورضو عنہ ذلک لمن خشی ربہ }۔(البینۃ:۸) ’’ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگیا اوریہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہوگئے ۔‘‘ان حضرات کے کیا کہنے۔
ذرا اِس آیت کریمہ پربھی ایک نظرہوجائے ۔
{ مُحَمَّد’‘ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ تَرٰھُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا سِیْمَاھُمْ فِیْ وُجُوْھِھِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ذٰلِکَ مَثَلُھُمْ فِیالتَّوْرٰ ۃِ وَمَثَلُھُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ ۔ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْاَہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِہٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِھِمُ الْکُفَّارَ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْھُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا}(الفتح:۲۹)
’’ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیںوہ کافروں کے مقابلے میں سخت ہیں (اور) آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحم دل ہیں۔ تم انہیں دیکھو گے کہ کبھی رکوع میں ہیں، کبھی سجدے میں (غرض) اللہ کے فضل اور خوش نودی کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی علامتیں سجدے کے اثر سے اُن کے چہروں پر نمایاں ہیں۔ یہ ہیں ان کے وہ اوصاف جو تورات میں مذکور ہیں۔ اور انجیل میں ان کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک کھیتی ہو جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اس کو مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوگئی، پھر اپنے تنے پر اس طرح سیدھی کھڑی ہوگئی کہ کاشت کار اس سے خوش ہوتے ہیں؛تاکہ اللہ ان (کی اس ترقی) سے کافروں کا دل جلائے۔ یہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک عمل کیے ہیں، اللہ نے ان سے مغفرت اور زبردست ثواب کا وعدہ کرلیا ہے۔ ‘‘
کس قدر معنی خیز آیت ہے ۔ صحابہ کرام کی تمام صفات کو ظاہر کردیا کہ وہ حب فی اللہ میں کامل ہیں،اس لیے مومن کے لیے رحم دل ہیں۔ بغض فی اللہ میں بھی کامل ہیں ، اس لیے کافروں پر سخت ہیں ۔ اعمال میں کامل ہیں ، وہ ہمیشہ رکوع اور سجدے میں رہتے ہیں ۔ اخلاص میں کامل کہ وہ صرف اور صرف اللہ کے فضل اورخوش نودی کے متلاشی ہیں ۔ نماز کا اہتمام خوب ہے خصوصاً رات کی نماز یعنی تہجد ؛جس کے اثرات نور کی شکل میں ان پرظاہر ہے چوںکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
’’من کثر صلاتہ باللیل حسن وجہہ بالنہار ‘‘ (ابن ماجہ)
جس کی رات میں نماز زیادہ ہوتی ہے ، دن میں اس کا چہرہ روشن اور خوب صورت نظر آتا ہے ۔
صحابہ کرام کی یہ نشانی توریت میںذکر کی گئی ۔ انجیل میں ان کی مثال اس طرح ہے جیسے کوئی کھیتی اپنے کونپل کو نکالے ، پھر دھیرے دھیرے قوی ہوجائے ۔ صحابہ کرام ابتدائی دورمیں ایمانی ، مادی ، عددی ، ہر ایک اعتبار سے کمزور تھے ، اللہ تعالیٰ نے ان کو دھیرے دھیرے قوی کردیا ۔پھر اخیرمیں فرمایا ان سب کے لیے مغفرت اوربڑے اجر کا وعدہ ہے ، اللہ تعالیٰ نے ان میں کوئی تمیز نہیں کی ۔اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان تمام کے لیے بڑی سند ؛کہ ان کے لیے مغفرت بھی اور اجر عظیم بھی ۔
ایک جگہ پر اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کے فرقِ مراتب بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا:
{وَکُلًّا وَعَدَاللّٰہُ الْحُسْنَیٰ }(الحدید)ہر ایک کے لیے اللہ تعالیٰ نے جنت کا وعدہ کیا ہے۔
ایک صاحب کہنے لگے کہ جنت میں ہر مومن جائے گا پھر ہمارے اور صحابہ میں کیا فرق ہے ۔ ان کو بہترین جواب ملا کہ دیکھو ہم میں اور صحابہ میں بڑا فرق ہے ۔ ہم جنت کے مرید ہیں اور حضرات صحابہ ٔ کرام جنت کے مراد ہیں ۔ یعنی ہم جنت کے طالب ہیںاور صحابہ کرام جنت کے مطلوب ہیں ۔ جنت چاہ رہی ہے کہ ہر خوش نصیب حضرات ہمارے اندر داخل ہوں ۔
صحابۂ کرام کی عظمت احادیث مبارکہ کی روشنی میں :
اہل عرب راتوں میں سفر کرتے تو ستاروں کو دیکھ کر اپنی منزل کا پتہ لگالیتے ۔ اسی طرح آج کی اس گھٹا ٹوپ گمراہیوں کی تاریکیوں میں صحابہ کرام کے عادات واطوار اوراُن کی سیرتیں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے صحابہ کی عظمت کو ظاہر کرتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا:’’ لا تمس النار من راٰنی ورأی من راٰنی ‘‘ (مشکوٰۃ)
اس شخص کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا ۔ اسی طرح اس شخص کو بھی جس نے مجھے دیکھنے والوں کو دیکھا ۔
ایک اور حدیث ہے میرے بعد مسلمانوں کی کافروں سے جنگ ہوگی ، لوگ کہیں گے کیا تم میں کوئی صحابی ہے؟ لوگ کہیںگے ہاں !پھر ان کی برکت سے اللہ تعالیٰ جنگوں میں فتح نصیب فرمائیںگے ۔
صحابہ کرا م کی شان میں گستاخی کی ممانعت :
صحابۂ کرام ؓ کی شان میں گستاخی سے روکا گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ لاتسبوا أصحابی ‘‘ (مشکوٰۃ) میرے صحابہ کو گالی مت دو ۔
اس لیے کہ تم میں کوئی اگر احد پہاڑ کے برابر سونا بھی خرچ کرے تو ان کے مد یا نصف مد کے برابر خرچ کرنے کے مقام کو نہیں پاسکتے۔
جمعہ کے خطبہ میں ہمیشہ ہم ایک حدیث سنتے ہیں : ’’ اللّٰہ اللّٰہ فی اصحابی لا تتخذوہم غرضا من بعدی ،فمن احبہم فبحبی احبہم ومن ابغضہم فببغضی ابغضہم ومن اٰذاہم فقد اٰذانی ‘‘ ۔(مشکوٰۃ)جمع الفوائدج۴/ص۴۹۱
میرے صحابہ کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہنا ۔ ان کو میرے بعد طعن و تشنیع اور تنقید کا نشانہ مت بنانا ، جو اُن سے محبت کرے گا ، میں ان سے خوب محبت کروںگا اور جو اُن سے بغض رکھے گا میں ان سے خوب بغض رکھوں اور جو اُن کو تکلیف پہنچائے گویا اس نے مجھے تکلیف پہنچائی ۔
ایک اور حدیث میں ہے :’’ اذا رایتم الذین یسبون اصحابی فقولوا لعنۃ اللہ علی شرِّکم ‘‘۔ (مشکوٰۃ )
جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہتے ہیں ، تم کہو کہ بد ترین شخص پر اللہ کی لعنت ہو ۔
مناقب عثمان غنی رضی اللہ عنہ :
حضرات صحابۂ کرام ؓکی اس عمومی فضیلت کے ساتھ ساتھ بہت سی خصوصی فضیلت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے لیے بھی ثابت ہے۔
ذو النورین اورذوہجرتین :
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو صاحبزادی (رقیہ اور ام کلثوم )کا باری باری ان سے نکاح فرمایا ، جس کی بنیاد پر آپ کو’’ ذوالنورین‘‘ کا لقب ملا۔آپ ’’دو نور‘‘ والے ہوتے ہیں ۔یہ خصوصیت وامتیاز دیگرکسی حضرات صحابۂ کرام ؓ کو حاصل نہیں ہے ۔
اسی طرح حبشہ اورمدینہ منورہ دونوں شہروں کی طرف ہجرت کا شرف حاصل ہوا ،اس لیے آپ کو’’ ذو الہجرتین‘‘ دوہجرت کرنے والے کا خطاب بھی ملا۔
آپﷺکی نظر میں آپ کا احترام واکرام:
ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ ؓ کے مکان میں تشریف لائے ، پنڈلی اوپر تک کھلی ہوئی تھی ، حضرت ابوبکر ؓ داخل ہوئے آپ اسی حال میں رہے ،لیکن جب حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو آپ نے اپنے ازار کو درست فرمالیا اور بیٹھ گئے ۔ حضرت عائشہ ؓ نے سوال کیا آپ نے ایسا کیوںکیاتوارشاد فرمایا : ’’ الا أستحی من رجل تستحی منہ الملائکۃ ‘‘ (مشکوٰۃ:۵۶۱) کیا میں ایسے شخص سے شرم نہ کروں جن سے فرشتے بھی شرم کرتے ہیں ۔
جنت کی بشارت :
نہ جانے کتنی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جنت کی بشارت دی ۔ ایک موقعہ پرفرمایا : ’’ لکل نبی رفیق فی الجنۃ ورفیقی فیہا عثمان بن عفان ‘‘ (مشکوٰۃ) جنت میں ہر نبی کے ایک رفیق ہوںگے میرے رفیق حضرت عثمان بن عفانؓ ہوںگے ۔
مدینہ منورہ کے اندر ’’رومہ‘‘ نامی ایک کنواں تھا ، جس کاپانی بہت میٹھا تھا اور ایک متعصب یہودی اس کا مالک تھا ۔ حضراتِ صحابۂ کرام ؓ کو جلدی پانی نہیں دیتا تھا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اعلان فرمایا :
’’ من یشتری بئر رومۃویجعل دلوہ مع دلاء المسلمین بخیرلہ فی الجنۃ ‘‘
جوشخص بئر رومہ خرید کر مسلمانوں کے ڈول کے لیے وقف کردے اس کے لیے جنت ہے ۔
آپ نے اپنی ذاتی رقم ۳۵؍ ہزار درہم میںاس کنویں کو خرید کر وقف کردیا ۔ مسجد نبوی تنگ ہونے لگی توآپ نے اعلان کیا کہ بازو کی جگہ خرید کر کون مسجد کے لیے وقف کردے گا؟ اسے بہتر جنت دلواؤںگا ۔ آپ نے ۲۵؍ ہزار درہم میں وہ جگہ خرید کر مسجد نبوی کے لیے وقف کردی ۔
غزوہ ٔ تبوک کی گھڑی جونہایت مشکل گھڑی تھی مسلمانوں کے پاس سواریاں اور پیسے نہیں تھے ۔ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اس کو’’ ساعۃ العسر‘‘ کہاہے۔ نہایت مشکل ترین گھڑی تھی ، اس موقعہ پر آپ نے تین سو اونٹ سازو سامان کے ساتھ اورایک ہزار دینار پیش کیا ۔خوشی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ لہلہا رہا تھا ۔ اور دینار اپنے ہاتھوں سے پلٹتے ہوئے فرمارہے تھے’’ ماضر عثمان ماعمل ما بعد الیوم‘‘ آج کے بعد حضرت عثمان غنی ؓ کو کوئی عمل نقصان نہیں پہنچائے گا ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے خصوصی جوار اور پناہ میں رہیںگے ۔ ایسے اعمال صادر نہ ہوںگے جن سے دنیا و آخرت کا نقصان ہو ۔
ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے اندر منیٰ کی ایک پہاڑی پر تھے ،جس کا نام ’’ثبیر‘‘بتایا جاتا ہے۔ پہاڑچلنے لگا کچھ پتھر بھی لڑھک گئے ، آپ نے فرمایا ’’ اسکن …فإنہ لیس علیک إلا نبی و صدیق وشہید ‘‘ ٹھہر جا تیرے اوپرایک نبی صدیق (ابو بکر ؓ ) اور شہید (عثمان ؓ ) ہیں ۔بس پھرکیاتھا؟کہ پہاڑ ٹھہر گیااوراس کی حرکت بالکل بند ہوگئی ۔
آپ کی مظلومانہ شہادت :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے زمانے کے فتنے اور آپ کی شہادت کا بھی تذکرہ کیا ۔ ایک مرتبہ حضرت عثمان غنی ؓ آپ کے سامنے سے چہر ے پر رومال ڈالے گزرے ، آپ نے کچھ فتنے کا تذکرہ کیا ، پھر فرمایا ’’ہذا یومئذ علی الہدیٰ ‘‘ (مشکوٰۃ) یہ اس دن ہدایت پر ہوںگے ۔ ایک اور موقعہ پرفرمایا ’’تقتل ہذا مظلوما‘‘ یہ مظلومانہ شہید کیے جائیںگے۔
آپ ؓ کی برأت:
ایک مرتبہ زمانۂ حج میں’ حضر ‘کا ایک شخص جماعت قریش کے پاس سے گزرا ،پھر اس نے پوچھا تم میں بڑے کون ہیں؟ لوگوں نے حضرت ابن عمرؓ کی طرف اشارہ کیا۔ اس نے کہا آپ بتائیں کیا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ یوم احد میں میدان جنگ سے بھاگے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں!پھر اس نے کہا: آپ جنگ بدر سے غائب نہیں رہے؟ کہا ہاں!پھر کیا آپ بیعت رضوان سے غائب نہیں رہے؟ آپ نے کہا ہاں!پھر وہ جانے لگا ؛ حضرت ابن عمر ؓ نے روکا اور کہا سنو!جہاں تک جنگ احد سے بھاگنے کا ذکر ہے ، اس میں حضرات صحابہ کرام کی ایک بڑی جماعت شامل تھی اور ان سب کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے{ ولقد عفا اللہ عنہم} والی آیت نازل کرکے ان سب کو معاف کردیا ۔ اور جہاں تک بدر کی غیر حاضری ہے تو آپ کی اہلیہ حضرت رقیہ بیمار تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے آپ ان کی خدمت میں بیٹھے تھے ،اس لیے شریک کے حکم میں رہے ۔ چنا ں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت میں ان کے لیے بھی حصہ لگایا ۔رہی بات بیعت رضوان میں غیرحاضری کی؛تو وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اہل مکہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادے کی خبر دینے گئے تھے ۔اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ان سے افضل کوئی اور ہوتا تو ان کو نہ بھیجاجاتا ۔
اتباع سنت کا اہتمام :
آپ ؓ سنت کے اس قدر پابند تھے کہ جب صلح حدییہ کے موقع پر مکہ مکرمہ حاضر ہوئے تو ان کے بھائی ابان بن سعید نے کہا’’ اسبل ازارک کما یسبل قومک ‘‘آپ نے فرمایا ’’ہکذا یأ تزر صاحبنا محمد الی انصاف ساقیہ‘‘ ۔اس طرح نصف پنڈلی ہمار ے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پہنتے ہیں ۔ میں اس کے خلاف ورزی نہیں کرسکتا ۔اس نے کہا آپ بیت اللہ کا طواف کرلیں ، کہا پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کریںگے ، پھر ہم ان کے نقش قدم پر چـلتے ہوئے طواف کریںگے ۔
زندگی میں سادگی :
کافی مال و دولت ہونے کے باوجود زندگی سادی تھی۔ خلافت کے دور میں عموماً سرکہ کا …استعمال کرتے ۔ مہمانوں کی خوب پر تکلف ضیافت کرتے ، لیکن کبھی اپنے لیے عیش و تنعم کو پسند نہیں کیا ، اسی طرح زندگی گزار کرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مکمل نمونہ دکھاگئے ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اُن کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق نصیب فرمائے اورحضرات صحابہ کرامؓ کی خوب خوب عقیدت ومحبت ہمارے قلوب میں جا گزیںفرمائے ۔ آمین یا رب العالمین !