مردانِ وفا سرشت- صحابہ کرام ؓ

بقلم :مولانا افتخار احمد قاسمیؔ بستوی ؔ

            اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے :

            { مُحَمَّد’‘ رَّسُوْلُ اللّٰہِ  وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ  اَشِدَّآئُ  عَلَی الْکُفَّارِ  رُحَمَآئُ  بَیْنَھُمْ تَرٰھُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ  فَضْلاً  مِّنَ  اللّٰہِ  وَرِضْوَانًا سِیْمَاھُمْ  فِیْ  وُجُوْھِھِمْ مِّنْ  اَثَرِ  السُّجُوْدِ  ذٰلِکَ  مَثَلُھُمْ   فِیالتَّوْرٰ ۃِ  وَمَثَلُھُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ۔کَزَرْعٍ  اَخْرَجَ   شَطْاَہٗ   فَاٰزَرَہٗ  فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی  عَلٰی سُوْقِہٖ  یُعْجِبُ  الزُّرَّاعَ  لِیَغِیْظَ  بِھِمُ الْکُفَّارَ  وَعَدَ  اللّٰہُ  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوْا  وَعَمِلُوا  الصّٰلِحٰتِ   مِنْھُمْ   مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا}(الفتح:۲۹)

            ’’ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں، وہ کافروں کے مقابلے میں سخت ہیں (اور) آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحم دل ہیں۔ تم انہیں دیکھو گے کہ کبھی رکوع میں ہیں، کبھی سجدے میں۔(غرض) اللہ کے فضل اور خوشنودی کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی علامتیں سجدے کے اثر سے ان کے چہروں پر نمایاں ہیں،یہ ہیں ان کے وہ اوصاف؛ جو تورات میں مذکور ہیں۔ اور انجیل میں ان کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک کھیتی ہو جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اس کو مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوگئی، پھر اپنے تنے پر اس طرح سیدھی کھڑی ہوگئی کہ کاشت کار اس سے خوش ہوتے ہیں؛تاکہ اللہ ان (کی اس ترقی) سے کافروں کا دل جلائے۔ یہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک عمل کیے ہیں، اللہ نے ان سے مغفرت اور زبردست ثواب کا وعدہ کرلیا ہے۔ ‘‘

            علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ نے فرمایا ہے کہ صحابہ ’’ کافروں کے مقابلے میں سخت مضبوط اورقوی ، جس سے کافروں پر رعب پڑتا اورکفر سے نفرت وبیزاری کا اظہار ہوتا ہے ، سورۂ توبہ میں ارشاد ہے :

             {ولیجدوا فیکم غلظۃ واعلموا ان اللہ مع المتقین }(التوبۃ: ۱۲۳)

            {واغلظ علیہم ومأواہم جہنم وبئس المصیر}(التوبۃ: ۷۳)اور

             {اذلۃ علی المومنین اعزۃ علی الکافرین } (المائدۃ: ۵۴)

            شاعرِ مشرق علامہ اقبال نے اپنی ساحرانہ زبان میں منظوم کلام یوں پیش کیا ہے :

ہو حلقۂ باراں تو بریشم کی طرح نرم

رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

            حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں جو تندی اور نرمی اپنی خو ہو وہ سب جگہ برابر چلے اور جو ایمان سے سنور کر آئے وہ تندی اپنی جگہ اور نرمی اپنی جگہ ۔ (تفسیر عثمانی ، سورہ فتح )

            اللہ تعالیٰ کا گیارہویں پارے میں آیت ۱۰۰ ؍ میں ارشادہے : {والسابقونَ الاوَّلونَ من المہاجرینَ والانصارِ والذین اتَّّبعوہم باحسان رضی اللہ عنہم ورضواعنہ ، واعد لہم جنت تجری تحتہا الانہار خٰلدین فیہا ابدا ، ذلک الفوز العظیم } جو لوگ قدیم ہیں، سب سے پہلے ہجرت ومدد کرنے والے اور جولوگ ان حضرا ت کے نیکی اور خیر و صلا ح میں پیروکار ہوں، اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگیا اور وہ لوگ اللہ سے راضی ہوگئے۔اللہ نے ان کے واسطے باغات تیار کیے ہیں، جن کے نیچے نہریں رواں دواں ہوںگی ، جن میں وہ ہمیشہ رہیںگے ، یہی بڑی کامیابی ہے ۔

            مفسرین سلف کے اقوال ’’ السابقون الاولون‘‘ کی تعیین میں مختلف ہیں۔بعض نے کہا ہے کہ وہ مہاجرین؛جنھوںنے دو قبلوں (کعبہ وبیت المقدس ) کی طرف نماز پڑھی ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ جنگ بدر تک کے مسلمان سابقین اولین ہیں۔ بعض حدیبیہ تک اسلام لانے والوں کو اس کا مصدا ق قراردیتے ہیں اور بعض مفسرین کی رائے ہے کہ تمام مہاجرین وانصار، اطراف کے مسلمانوں اور پیچھے آنے والی نسلوں کے اعتبار سے سابقین اولین ہیں۔

             علامہ شبیر احمد عثمانیؒ لکھتے ہیں کہ ہمارے نزدیک ان اقوال میں چنداں تعارض نہیں۔سبقت و اولیت اضافی چیزیں ہیں، ایک ہی شخص یاجماعت کسی کے اعتبار سے سابق اور دوسرے کی نسبت سے لاحق بن سکتی ہے ، جیسا کہ ……ہے کہ جو شخص یاجماعت جس درجے میں سابق واول ہوگی اسی قدر رضائے الٰہی اور حقیقی کام یابی سے حصہ پائے گی ۔کیوں کہ سبقت واولیت کی طرح رضاوکام یابی کے بھی مدارج بہت سے ہوسکتے ہیں۔ واللہ اعلم ‘‘ (تفسیر عثمانی )

            اسی طرح ’’ اذلۃعلی المومنین اعزۃ علی الکافرین ‘‘ ۔’’ کنتم خیر امۃ اخرجت للناس الخ ‘‘ جیسی بے شمار آیات ہیں ، جن کی تفسیر احادیث میں صحابہ کرام کی ذات گرامی اور ان کے مناقب سے کی گئی ہے۔اسی لیے اہل سنت والجماعت کایہ اجمالی عقیدہ ہے کہ ہم سارے صحابہ رضی اللہ عنہم سے محبت کرتے ہیں ، اوران میں سے کسی کی محبت میں غلو سے کام نہیں لیتے ۔ ان میں سے کسی سے برأت کا اظہار نہیں کرتے اور ان لوگوں سے بغض وعداوت رکھتے ہیں ،جوصحابہ سے بغض وعداوت رکھتے ہیں ۔ اور جب بھی ہم کسی صحابی کا تذکرہ اپنی مجالس اور اپنے گھر وں میں کرتے ہیں تو ان کا تذکرہ خیر کے ساتھ ہی کرتے ہیں ۔ صحابہ کرامؓ سے محبت رکھنا دین ، ایمان اور احسان کی علامت ہے ۔ اور صحابہ کرامؓ سے بغض وعداوت کفر ونفاق اور سرکشی ہے ۔

            یہاں یہ بات بھی از بس ضروری ہے کہ صحابی کس کو کہتے ہیں ؟ صحابی اس ذاتِ گرامی کو کہتے ہیں جس نے ایمان کی حالت میں حضور اکر م ،سرتاج دوجہاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہو یا ایمان کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہو اور اس کا خاتمہ بھی ایمان کی حالت میں ہوا ہو ۔ ایسے حضرات کے لیے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اپنی رضا وخوشنودی کا اعلان بھی فرمادیا ہے جیسا کہ اوپر رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ کا مقدس تمغہ ان حضرات صحابہ کو عطا کیا گیا ہے ۔

            حضرات صحابہ کرام کے مقام بلند کی وجہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بے شمار مقامات پر دین کے حوالہ سے مشورے بھی لیتے تھے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے : {وامرہم شوریٰ بینہم } صحابہ کا ہر اہم کام آپس کے مشورے سے طے ہوتا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد امت میں سارے لوگوں سے زیادہ افضل صحابہ کرام کو مانا گیا ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے محبت کرنے کو اپنی محبت قرار دیا اور صحابہ سے بغض رکھنے کو اپنے ساتھ بغض وعداوت گردانا ہے ۔ توریت وانجیل میں بھی صحابہ کرام کی مدح سرائی کی گئی ہے امت میں اہل سنت والجماعت کا عقیدہ صحابہ کرام ؓکے بارے میں یہی ہے کہ صحابہ میںسب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق ؓ ہیں۔ اس کے بعد حضرت عمر بن خطاب ؓ کا مقام ہے ، پھر حضرت عثمان بن عفان ؓ کا درجہ ہے ، اس کے بعدخلیفۂ رابع حضرت علی بن ابی طالبؓ کا رتبہ ہے ، پھر ان چاروں خلفا کے بعد عشرۂ مبشرہ میںسے باقی حضرات صحابہ کا مقام ہے ۔ یعنی حضرت طلحہ ؓ ، حضرت زبیر ؓ ، حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ ، حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ ، حضرت سعید بن زید ؓ اور حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ ۔ یہ وہ ۶؍ صحابہ ہیں جن کا نام عشرۂ مبشرہ میں ہے اور مذکورہ ۱۰؍ کے علاوہ دیگر صحابہ کرامؓ سے ان کا مقام ومرتبہ بلند ہے۔بعد ازاں اصحاب بدر کا مقام ہے ، پھر اصحابِ جنگ احد اوراصحابِ بیعت رضوان کا رتبہ ہے،اس کے بعد فتح مکہ سے قبل اسلام میں داخل ہونے والے صحابہ کرام ؓ ہیں جو فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کرنے والے نفوس قدسیہ سے فزوں تر مرتبہ رکھتے ہیں ۔

            قرآن کریم کی یہ آیات دلیل ہیں :{ لَا یَسْتَوِیْ  مِنْکُمْ  مَّنْ  اَنْفَقَ  مِنْ  قَبْلِ الْفَتْحِ  وَقٰتَلَ   اُولٰٓئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً  مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْم بَعْدُ وَقٰتَلُوْا  وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ  الْحُسْنٰی  وَاللّٰہُ  بِمَا  تَعْمَلُوْنَ  خَبِیْر’‘ } (الحدید:۱۰){ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَھَاجَرُوْا  وَجٰھَدُوْا  فِیْ  سَبِیْلِ اللّٰہِ  وَالَّذِیْنَ  اٰوَوْا  وَّنَصَرُوْٓا اُولٰٓئِکَ ھُمُ  الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا لَھُمْ  مَّغْفِرَۃ’‘  وَّرِزْق’‘ کَرِیْم’‘ }(الانفال: ۷۴)

            اسی طرح مرقات جلد نمبر ۵؍ صفحہ نمبر ۵۱۷؍ پر ہے: ’’ والصحابۃ کلہم عدول مطلقا لظواہر الکتاب والسنۃ وإجماع من یعتد بہ ‘‘ کتاب وسنت اور حضرات ثقہ کے اجماع سے ثابت ہے کہ بلا تفریق تمام صحابہ عادل ہیں۔عمدۃ القاری جلد دوم ۱۰۵؍ پر ہے ۔’’ لیس فی الصحابۃ من یکذب ولا غیر ثقۃ ‘‘ صحابہ میں ایک شخص بھی دروغ باف نہیں اور نہ ہی کوئی غیر ثقہ ہے۔اہلِ سنت والجماعت کا اسی لیے عقیدہ ہے کہ قیامت تک کوئی بڑے سے بڑا ولی بھی کسی ادنیٰ درجے کی صحابی کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکتا ، جس طرح کوئی ولی یا صحابی کسی نبی کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکتا۔سورۂ حدیدکی آیت ۱۰؍{ وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ  الْحُسْنٰی}سورۃ بینہ کی آیت ۸؍ {رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ}دلیل ہے ۔ صحیح مسلم جلد دوم ص۳۱۰؍ پر یہ حدیث ہے کہ ابو سعید سے مروی ہے: کہتے ہیں کہ حضرت خالد بن ولید ؓ اور حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ کے درمیان قدرے نا اتفاقی کی بات تھی ، تو حضرت خالد ؓ نے حضرت عبد الرحمن ؓ کو کچھ سخت سست کہا۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’لا تسبوا أحدا من أصحابی ‘‘ میرے کسی بھی صحابی کو کچھ بھی سخت سست نہ کہو ’’فان أحدکم لو أنفق مثل أحد ذہبا ما أدرک مد أحدہم ولا نصیفہ ‘‘ کیوں کہ میرے صحابہ کا مقام بہت بلند ہے ، تم میں سے ایک شخص اگر احد پہاڑ کے برابر بھی سونا اللہ کی راہ میں نچھاور کرے تو میرے صحابہ کے ایک مد اور نصف مد کے برابر بھی ثواب میں نہیں پہنچ سکتا ۔

            حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ رئیس المفسرین ہیں ، ان سے مروی ہے:

             عن ابن عباس انہ قال : ’’ لا تسبوا اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، فلَمَقامُ احدہم ساعۃ یعنی مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم خیر من عمل احدکم اربعین سنۃ ۔‘‘

 (شرح عقیدہ طحاویہ : ۷۴۹)

            حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی کو کچھ بھی نہ کہا کرو۔کیوں کہ کسی ایک صحابی کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک گھڑی کے لیے کھڑا ہونا اور ایک لمحہ آپ کے ساتھ رہنا تمہارے چالیس سال کے مقبول عمل سے بھی بہتر ہے ۔

             اسی طرح سورہ ٔانفال آیت ۴؍ اولٰئک ہم المومنون حقا، سورہ بقرہ کی آیت ۱۳۷؍ فان اٰمنوا بمثل ما اٰمنتم بہ فقد اہتدوا، اور بقرہ کی آیت ۳؍ واذا قیل لہم آمنوا الخ یہ سب آیات؛ تمام صحابہ کرام کو برحق ، معیارحق اور تنقید سے بالا تر بتلاتی ہیں۔ اب کوئی شخص ماضی حال یا مستقبل کے زمانوں میں اٹھ کھڑا ہواور صحابہ کی اجتہادی خطاؤں پرتنقید کی بوچھار کرنے لگے تو یہ اس کو کسی طرح بھی حق نہیں پہنچتا ، صحابہ کرام کے آپسی تنازعات ومشاجرات اجتہادی خطاؤں پر مبنی ہیں ، جن میں مجتہد مخطی کو ایک اجر ملتا ہے اور خطا اجتہادی جب مستحق اجر ہے ، تو دنیا میں وہ قابل مواخدہ ہے نہ آخرت میں ۔ سورۃ الفتح کی آیت ۲۹ ؍محمد رسول اللّٰہ الخ سورہ تحریم کی آیت ۸؍ یو م لا یخزی اللہ النبی والذین اٰمنوا معہ الخ اور ترمذی شریف جلد ۲/ ص ۷۰۶؍کی عبد اللہ بن مغفل ؓ سے مروی حدیث ’’ اللّٰہ اللّٰہ فی أصحابی لا تتخذوہم غرضا من بعدی ‘‘ یہ آیات و حدیث صحابہ کے تنقید سے بالا تر ہونے پر دلیل ہیں ۔ سورۂ تحریم کی آیت ۸؍ تو تمام صحابہ سے مواخذہ آخرت نہ ہونے کو بھی بتلاتی ہے اور انیسویں پارہ کی آخری آیت{ قل الحمدللہ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی }اس بات کی دلیل ہے کہ نبوت و رسالت کے لیے جس طرح اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو منتخب فرماتے ہیں ، اسی طرح مقام صحابیت پر فائز کرنے کے لیے اس امت میں سے صحابہ کو خاص کیا ہے ۔ اور ابن عباسؓ کا ایک ارشاد بھی اس معنی کی تاکید و تائید کرتا ہے ۔ فرماتے ہیں :

            ’’ أصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اصطفاہم اللہ لنبیہ علیہ السلام ۔ ‘‘

            اس طرح مقام صحابہ ، عظمت صحابہ اور شانِ صحابہ کے لیے قرآن وحدیث کے ذخیروں میں بے شمار دلائل موجود ہیں ۔ مشتے نمونہ ازخروارے کی قبیل سے چند دلائل ذکر کیے گئے؛ تاکہ آج امت تحریروتقریر اور عقائد واعمال میں اہل سنت والجماعت کے طے کردہ خطوط سے سرِموانحراف کرنے کو گمراہی خیال کرے ۔ اہل سنت والجماعت کے تمام عقائد واعمال مضبوط ومستحکم دلائل سے مزین وآراستہ ہیں ، صرف اہل سنت والجماعت کا نام آجانا عمل کے لیے کافی سمجھنا چاہیے اورحکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒکے ارشاد کی روشنی میں ’’بدزبانی ‘‘ اور’’ بد گمانی ‘‘ سے پوری طرح بچنا چاہیے ۔ اپنے اسلاف سے بدگمانی اور اپنے پیش رووں سے بدزبانی ہماری گمراہی کا پیش خیمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ صحیح صحیح پورے دین پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین !