بسم اﷲ الرحمن الرحیم
بقلم: محمد معاویہ سعدی جامعہ مظاہر علوم سہارنپور
اہلِ بیت اَطہار کی محبت کے پہلو بہ پہلو؛ حبِّ صحابہ، عظمتِ صحابہ اور اتباعِ صحابہ کا فکر وعقیدہ: قرنِ اول ہی سے ’’اہل السنۃ والجماعۃ‘‘ کا وہ تمغۂ امتیاز ہے، جس کے ذریعے اُن کا دامنِ اعتدال: اِفراط وتفریط کی دونوں انتہاؤںسے بچتے ہوئے نکلتا ہے۔
مگر حالات وانقلابات کے تناظر میں اِس کمالِ اعتدال کی خصوصیت کا بار بار استحضار، اور تکرار کرتے رہنا بھی ضروری ہے، اِسی لیے یہ سطور لکھی گئی ہیں، اللہ تعالیٰ قبول فرماکر ہم سب کے لیے نافع، اور فتنوں کے لیے دافع بنائیں، وباللّٰہ التوفیق، وہو المستعان۔
صحابہ کون؟:
لفظِ ’’صحابہ‘‘: صحابی کی جمع ہے، جو صحبۃ، اور مصاحبت سے مشتق ہے، لغت میں ہر وہ شخص جو سفر یا حضر میں کسی کے ساتھ ایک لمحہ بھی رہ لے، تھوڑا بھی وقت گذار لے، وہ اُس کا صاحب اور مصاحب ہوجاتا ہے،اِسی لغوی معنی کی رعایت کے ساتھ اِمام احمدؒ، امام ابن المدینیؒ وغیرہ ائمۂ محدثین صحابی کی یہ تعریف کی ہے:
مَن صحب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم سنۃً، أو شہراً، أو یوماً، أو ساعۃً، أو رآہ، فہو من أصحابہ۔ (الکفایۃ ص ۵۱، وفتح المغیث ۴؍۷۸)۔
(جو ایک سال، یا ایک ماہ، یا ایک دن، یا ایک لمحہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا ہو، یا صرف آپ کو دیکھ ہی لیا ہو، وہ بھی صحابی ہے)۔
حافظ ابن الصلاح نے ’’مقدمۃ‘‘ ص ۲۹۳ میں، حافظ زین الدین العراقی نے ’’التقیید والإیضاح‘‘ ص ۲۹۱ میں، اِسی کے قریب قریب تعریف ذکر کی ہے، اور امام بخاری نے اپنی ’’صحیح‘‘ ۱؍۵۱۵ میں باب فضائل أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا باب قائم فرماکر، اِس طرح تعریف فرمائی ہے: من صحب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، أو رآہ من المسلمین، فہو من أصحابہ۔
حافظ ابن حجرؓ نے ’’الإصابۃفیي تمییز الصحابۃ‘‘ کے مقدمہ میں، حافظ سخاویؒ نے ’’فتح المغیث‘‘ ۴؍۷۸ میں، حافظ سیوطیؒ نے ’’تدریب الراوي‘‘ ۲؍۶۶۷ میں، مذکورہ بالا تعریف کو جمہور فقہاء، محدثین اور اصولیین کی طرف منسوب کرتے ہوئے، دو وضاحتوں کے ساتھ، درست قرار دیا ہے: پہلی وضاحت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اُس نے اِسلام کی حالت میں دیکھا ہو۔ دوسری وضاحت یہ کہ اسلام ہی پر اس کی موت ہوئی ہو۔
علامہ سخاویؒ نے صحابی کی اِسی تعریف کو محققین کے نزدیک راجح اور مختار قرار دیا ہے، اِس کے علاوہ دیگر حضرات کے بھی پانچ مختلف اقوال ذکر کیے ہیں، مگر ان سب کو شاذ قرار دیا ہے۔
اور بعض حضرات نے اِن اقوال میں یہ تطبیق بھی دی ہے کہ ایک تو ہے مطلق شرفِ صحابیت، وہ تو ایمان کی حالت میں بس ایک نظر سے بھی حاصل ہوجاتا ہے، اور وہ اتنے ہی سے تقوی وعدالت اور خلوص وللہیت کے اُس مقامِ بلند پر پہنچ جاتا ہے کہ بعد میں آنے والے تمام لوگوں پر اُس کا ادب واحترام لازم ہوجاتا ہے،اور اُس کی حدیث وروایت معتبر ہوجاتی ہے۔(فتح المغیث)
اور ایک ہے کسی صحابی کا بعد والوں کے لیے مقتدا اور لائقِ اتباع ہونا، تو یہ شرف یقینا اُسی کو حاصل ہوگا جو کچھ نہ کچھ وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور خدمت میں رہا ہو، اور آپ سے دین کو سیکھا اور سمجھا ہو۔
اِن تفصیلات سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ جس خوش نصیب کو اِیمان کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوجائے، وہ صحابی ہے، اُمت پر اُس کا ادب واحترام لازم ہے، اِس کی تائید اِس روایت سے بھی ہوتی ہے: ’’لاتَمَسُّ النارُ مسلماً رآني‘‘ (ترمذی: ۵۸۳۸)۔
صحابہ کے طبقات:
پھر علماء نے قرآن واحادیث میں وارِد مختلف نصوص کی روشنی میں، سَوابق اور غزوات ومَشاہد میں شرکت کے اعتبار سے صحابہ کے طبقات بھی قائم فرمائے ہیں، جن میں: ایک طبقہ سابقینِ اولین کا ہے، ایک دارِ ارقم سے باہر آنے کے بعد اِسلام لانے والوں کا ، ایک بیعتِ عَقَبہ میں شریک انصار کا، پھر غزوۂ بدر میں شرکت کرنے والوں کا ، پھر بیعتِ رضوان میں شریک حضرات کا ، جن میں سیدنا حضرت مغیرہ بن شعبہؓ بھی ہیں، پھر فتحِ مکہ سے پہلے اِسلام لانے والوں کا ، جن میں حضرت عمرو بن العاص اور خالد بن الولید رضی اللہ عنہما بھی ہیں۔
پھر فتحِ مکہ کے موقع پر اِسلام لاکر غزوۂ حنین، یا غزوۂ تبوک میں شرکت کرنے والوں کا، جن میں سیدنا حضرت ابوسفیان، اُن کے دو قابلِ فخر فرزند: معاویہ ویزید، عم زادۂ رسول ابوسفیان بن الحارث، صفوان بن امیہ، اور عکرمہ بن ابی جہل، رضی اللہ عنہم اجمعین، وغیرہم ہیں۔
اِن کے علاوہ پھر وہ حضرات ہیں جو بطور وفد کے آپ کی خدمت میں آئے، اور دوچار مجلسوں میں شریک ہوکر، اکتسابِ فیض فرمایا، اور واپس چلے گئے، آخری طبقہ اُن صحابہ کا ہے جو صرف حجۃ الوداع میں شریک ہوئے، اور آپ کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ (فتح المغیث وتدریب الراوی وغیرہ)۔
سیدنا حضرت انسؓ وغیرہ سے جو ’’اَصحاب‘‘ اور ’’اَعراب‘‘ کا فرق منقول ہے، وہ اِن ہی طبقات کے فرقِ مراتب کے تناظر میں ہے۔
مقامِ صحابہ:
بلحاظِ فرقِ مراتب، مذکورہ بالا تمام طبقات کے صحابہ کے بارے میں: ہمارا اور تمام اہل حق کا اِجماعی عقیدہ یہ ہے کہ زمین و آسمان کی نگاہوں نے انبیاء علیہم السلام کے بعد ان سے زیادہ مقدس اور پاکیزہ انسان نہیں دیکھے، حق و صداقت کے اِس مقدس قافلے کا ہر فرد اِتنا بلند کردار اور نفسانیت سے اس قدر دور تھا کہ انسانیت کی تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے، اور اگر کسی سے کبھی کوئی لغزش ہوئی بھی ہے تو اللہ تعالیٰ نے اسے معاف فرماکر ان کے جنتی ہونے کا اعلان فرمادیا ہے۔
اہلِ بیتِ اَطہار کی محبت وعظمت کے ساتھ ساتھ، حُبِّ صحابہ، عظمتِ صحابہ، اور اِتباعِ صحابہ بھی: اہلِ حق کے فکر وعقیدہ کا حصہ، اور ان کے مسلک و مذہب کی پہچان ہے، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو بحیثیتِ مجموعی ’’معیارِ حق‘‘ تسلیم کرنا، اہل السنۃ والجماعت کا نشانِ اِمتیاز ہے۔
اللہ تعالیٰ نے صحابۂ کرامؓ کی اِس مقدس جماعت کے اِیمان وعقیدہ، فکر وعمل، تقویٰ و طہارت، عدالت و دیانت اور صدق و امانت کی گواہی دیتے ہوئے صاف لفظوں میں اِعلان فرمادیا ہے: {وَلَکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّنَہُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ اُولٰٓـئِکَ ہُمُ الرَّاشِدُوْن} [الحجرات:۷] (یقینا اللہ نے اِیمان تمہیں محبوب بنادیا ہے اور اس کو تمہارے قلوب میں سجادیا ہے، اور کفر،فسق اور عصیان تمہیں ناگوار کردیا ہے)۔
اور ارشاد ہے: ’’اُولٰٓـئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوَی لَہُمْ مَغْفِرَۃٌ وَاَجْرٌ عَظِیْمٌ‘‘ (الحجرات:۲) (یہ وہ لوگ ہیں جن کے قلوب کو اللہ نے تقویٰ کے لیے آزمالیا ہے، ان کے لیے مغفرت اور اجر عظیم کی بشارت ہے)۔
کہنے والے کہہ سکتے تھے کہ یہ سب فضیلتیں اور خدائی وعدے صرف سابقین اولین اور مشاہیر صحابہ کے لیے ہیں، آخر آخر میں اسلام لانے والے اور مختصر مدت کا شرفِ صحبت حاصل کرنے والے ان فضائل کے مستحق اور ان وعدوں کے مخاطب نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے اہل تشکیک و تلبیس کے لیے اس کا کوئی موقع باقی نہیں رہنے دیا، اور نہایت وضاحت کے ساتھ ارشاد فرمایا: ’’لَا یَسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ اُولٰٓـئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوْا وَکُلًّا وَعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی‘‘ (الحدید:۹) (فتحِ مکہ سے پہلے اسلام لاکر اﷲ کے راستے میں خرچ کرنے والوں اور جہاد کرنے والوں کے برابر وہ لوگ نہیں ہوسکتے جنہوں نے یہ قربانیاں فتحِ مکہ کے بعد پیش کی ہیں، فتحِ مکہ سے پہلے کے لوگوں کا مرتبہ بہر حال بڑھا ہوا ہے، مگر اللہ نے ’’حسنیٰ‘‘ کا وعدہ دونوں ہی سے کررکھا ہے):
آسماں نسبت بہ عرش آمد فرود لیک بس عالیست پیش خاک بود
(آسمان اگرچہ عرش کی بہ نسبت پست ہے، مگر ایک خاک کے ٹیلے کے سامنے تو بہت بلند ہے)
پھر جن لوگوں سے اللہ نے ’’حسنیٰ‘‘ کا وعدہ کرلیا ہے، اُن کی مغفرت، نجات اور جنت یقینی ہے، حتی کہ وہ سزا بھگتنے کے لیے بھی جہنم میں نہیں جائیں گے، اِرشادِ ربانی ہے: {اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَہُمْ مِنَّا الْحُسْنَی اُولٰٓـئِکَ عَنْہَا مُبْعَدُوْنَ}[الانبیاء:۱۰۱] (بے شک جن لوگوں سے ہماری طرف سے حسنی کا وعدہ ہوچکا ہے وہ جہنم سے دور رکھے جائیں گے)۔
اِسی لیے ’’لاتَمَسُّ النارُ مسلماً رآني‘‘ (ترمذی: ۵۸۳۸) (جس نے اسلام کی حالت میں مجھے دیکھ لیا اُسے آگ نہیں چھوئے گی) جیسی اَحادیث بلحاظِ مضمون بالکل صحیح ہیں۔
اِسی طرح ایک موقع پر اللہ تعالیٰ نے غزوۂ تبوک (غزوۂ عسرت) میں شرکت کرنے والوں کی مغفرت کی بھی بشارت دی ہے (التوبۃ: ۱۱۷)۔ اور یہ معلوم ہے کہ غزوۂ تبوک، فتحِ مکہ کے بعد، سنہ ۹ھ میں پیش آیا تھا۔
صحابہ کی لغزشیں اور جمہورِ اُمت کا موقف:
’’عصمت‘‘ یقینا انبیائے کرام (یا ملائک) علیہم السلام کی خصوصیت ہے، ان کے علاوہ کوئی بھی فرد بشر لغزش کے اِمکانات سے محفوظ نہیں، مگر یہ خطا اور لغزش جس کی جناب میں صادر ہورہی ہے جب وہی معاف کرنے کے لیے تیار ہے ، اسی کی طرف سے رضا و خوشنودی کا پروانہ عطا ہورہا ہے تو ہمہ شما کون ہوتے ہیں اس پر اعتراض کرنے والے؟!۔
۱-سیدنا حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ سے بظاہر اتنی بڑی غلطی سرزد ہوئی کہ انہوں نے فتح مکہ کے موقع پر مسلمانوں کے جنگی راز کو افشاء کرنے کی کوشش کی، جرم پکڑا گیا، اقبال بھی فرمالیا، سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ بے اختیار اٹھے اور گردن مارنے کی اجازت طلب کی، مگر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’یہ بدری صحابی ہیں، اور ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمادیا ہے : ’’اعملوا ما شئتم فقد غفر اﷲ لکم‘‘ (بخاری:۳۹۸۳، مسلم:۲۴۹۴) (اے اہلِ بدر! جو چاہو کرو، اللہ تعالیٰ تمہارے سب گناہ معاف فرماچکا ہے)۔
۲-سیدنا حضرت ماعز الاسلمی اور ایک غامدیہ صحابیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ازراہِ بشریت زنا کا گناہ سرزد ہوگیا تھا، خود ہی آکر بارگاہِ نبوت میں باصرار، اِقرار و اعتراف فرمایا، اور نتیجتاً سنگسار کردئیے گئے، بعض صحابہ کی زبان سے ان کے بارے میں کوئی سخت جملہ نکل گیا، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو پتہ چلا، آپ نے سختی سے نکیر فرمائی، اور حضرت ماعز اسلمیؓکے بارے میں اِرشاد فرمایا: ’’لقد تاب توبۃً لو قُسمت بین أمۃ لوسعتہم‘‘ (ابو داود ۲؍۶۰۸)۔
اور غامدیہ صحابیہؓ کے بارے میں ارشاد ہوا: ’’لقد تابت توبۃً لو قُسمت بین سبعین من أہل المدینۃ لوسعتہم‘‘ (ابوداود ۲؍۶۰۹) کہ اِن دونوں نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر یہ توبہ ایک پوری قوم اور نسل پر بھی تقسیم کی جائے تو سب کے لیے کافی ہوجائے۔
اور ایک روایت میں حضرت ماعزؓ سے متعلق یہ بھی اِضافہ ہے کہ ’’وہ اِس وقت جنت کی نہروں میں ڈبکیاں لگارہے ہیں‘‘ (سبحان اللہ!)۔
۳-عبدا للہ نام کے ایک صحابی ہیں، اُن کو اُن کی ظریفانہ اور پُرلطف عادات کی وجہ سے صحابہ آپس میں ’’حمار‘‘ کہا کرتے تھے، ان کو شراب کی عادت تھی، چھوٹ نہیں رہی تھی، بار بار بارگاہِ رسالت میں لائے جاتے، کوڑے لگتے، مگر وہ عادت نہیں گئی، ایک صحابی نے جذبات میں آکر ان پر لعنت بھیج دی، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سنا، فوراً ہی تنبیہ فرمائی اور اِرشاد فرمایا: ’’جہاںتک میں جانتا ہوں یہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت ہی کرتا ہے‘‘ (بخاری ۲؍۱۰۰۲)۔
اِنسان سے غلطی کا ہوجانا، یہ کوئی مستبعد بات اور قابلِ تعجب اَمر نہیں، دیکھنے کی اہم چیز یہ ہوتی ہے کہ غلطی کرنے والا انسان ہے کون؟ پھر اُس نے اپنی غلطی کا تدارک کیسے کیا ہے؟ اسی سے اس کا مرتبہ پہچانا جاتا ہے: ’’کلُّکم خطاؤون، وخیر الخطائین التوابون‘‘ (خطا تو تم سب ہی سے ہوتی ہے، مگر بہترین خطا کار وہ ہیں جو توبہ بھی کرلیتے ہیں)۔ (ترمذی: ۲۴۹۹، و ابن ماجہ: ۴۲۵۱)۔
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ہاں بتقاضائے بشریت غلطیوں کے اِنہی اِمکانات کی بناء پر بعد والوں کو تعلیم دی گئی ہے کہ اُن کے لیے اور اپنے لیے یہ دعا کیا کرو:
{ربَّنَا اغْفِرْ لَنا وَلإِخوانِنا الَّذِین سَبَقُونا بالإیمانِ، وَلا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلاًّ لِلَّذِیْنَ آمَنُوا، رَبَّنا إنَّک رَؤوْفٌ رَحِیْمٌ [الحشر: ۱۰] (اے ہمارے رب! مغفرت فرمادیجیے ہماری بھی اور ہمارے اُن بھائیوں کی بھی جو ہم سے پہلے گذر چکے، اور نہ رکھیے کھوٹ ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے لیے، اے رب! آپ تو بڑے مہربان اور رحم والے ہیں)۔
یہ لغزشیں کیوں معاف ہیں؟
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے اِس طرح کی لغزشوں کے صدور سے متعلق اہلِ حق کا فکر وعقیدہ کیا ہے؟ اس کی وضاحت ذیل کی تفصیلات سے ہوتی ہے:
۱- صحابہ سے ایسی غلطیوں کے سرزد ہوجانے کے باوجود اللہ ورسول کی اُن سے رضامندی اور خوشنودی کے مضمون کو حکیم الامت حضرت تھانویؒ نے (اپنے ایک وعظ ’’فوائد الصحبۃ‘‘ میں) بہت عام فہم انداز میں سمجھایا ہے، فرماتے ہیں:
’’… تو صحابہ کرام کی محبت کا یہ عالم تھا، اور اس محبت کا مقتضا یہ بھی ہے کہ صحابہؓ کی زلات (ولغزشات) بالکل معاف ہوں، دیکھئے! اگر کسی جانثار خادم سے کبھی کوئی غلطی ہوجاتی ہے تو اس کی پرواہ بھی نہیں کیا کرتے، ابھی حال میں ایک واقعہ ہوا کہ ایک صاحب کے بدن میں ایک گہرا زخم ہوگیا تھا، ڈاکٹر نے دیکھ کر کہا کہ اس زخم میں اگر آدمی کا گوشت لے کر بھرا جائے تو یہ برابر ہوجائے، ان صاحب کا ایک نوکر موجود تھا، کہنے لگا کہ میری ران میں سے جس قدر گوشت کی ضرورت ہو لے لیا جائے۔
اب بتلائیے کہ اگر اس خادم سے کبھی کوئی سرسری لغزش ہوجائے تو کیا وہ آقا اس پر مؤاخذہ کرے گا؟ہر گز نہیں! پس یہی وجہ ہے کہ صحابہ پر طعن کرناجائز نہیں۔
صاحبو! جو مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم سے منقول ہیں اور جتنی لغزشیں ہوئی ہیں، اگر ان سے دس حصہ زیادہ ہوتیں وہ بھی معاف تھیں، غضب کی بات ہے کہ آپ اپنے کو قدرداں سمجھتے ہیں کہ وفادار، جاںنثار کی لغزش کو قابل معافی سمجھتے ہیں، اور خداتعالیٰ اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اتنا بھی قدرداں نہیں سمجھتے!!۔
اسی لیے ہم بلا تأمل کہتے ہیں کہ ’’الصحابۃ کلہم عدول‘‘ (صحابہ سب کے سب عادل ہیں) ،اور اِس پر اعتماد رکھتے ہیں: ’’لاتمس النار من رآني‘‘ (جس شخص نے اِیمان کی حالت میں مجھے دیکھا اور ایمان ہی پر مرگیا، تو اُسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی)۔
اور اگر صحابہ کے بعض اَقوال زلت (اور لغزش) ہیں تو ہم اُن کی نسبت کہیں گے:
خون شہیداں زآب اولیٰ ترست ایں خطا از صد صواب اولیٰ ترست
(شہیدوں کا خون پانی سے اَولیٰ تر ہے، یہ خطا اور غلطی، سو درستگی سے زیادہ بہتر ہے)
۲-صحابۂ کرام رضی اللہ علیہم اجمعین کی زلات ولغزشات کی توجیہ میں بعض شراحِ حدیث نے ایک عجیب مضمون بیان فرمایا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ:
’’رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ کو ایسی شریعت کے ساتھ مبعوث فرمایا گیا تھا جس کو قیامت تک کے لیے جاری اور ساری ہونا تھا، تو جو افعال و اعمال شانِ نبوت کے لائق تھے اُن کے عملی نمونہ کا ظہور تو آپ کی ذات گرامی سے ہوا، اور جن اعمال کا صدور شانِ نبوت کے منافی تھا اس کے عملی نمونہ کے لیے صحابۂ کرام کی جماعت کا انتخاب کیا گیا، جیسا کہ سیدنا حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا ارشاد ہے: ’’اختارَہم اللّٰہ لصحبۃِ نبیہ وإقامۃ دینہ‘‘ [جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبدالبر: ۱۸۱۰] (اِن کا انتخاب ہی ہوا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور دین کے قیام کے لیے)۔ اور پھر تکوینی مصلحتوں کے تحت اُن میں سے جس سے ایسے اعمال کا صدور کرایا گیا اُس کو پروانۂ مغفرت اور رضامندی عطا فرماکر، اُس کی اِس عظیم الشان قربانی کا بہترین صلہ دے دیا گیا‘‘۔
خلاصہ یہ کہ جس طرح صحابۂ کرام نے اِقامتِ دین اور نصرتِ اسلام کے لیے اپنی قیمتی جانوں، اور گھر کے اسباب اور اثاثوں تک کا نذرانہ پیش کیا، اِسی طرح راہِ خدا میں اپنی عزت وآبرو بھی قربان کردی، فرضي اللّٰہ عنہم، ورضوا عنہ۔
مشاجراتِ صحابہ:
۳-یہیں سے ’’مشاجراتِ صحابہ‘‘ کا مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے، کہ آپسی اختلاف اور تنازع کی کسی بھی شکل کا زمانۂ نبوت میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، اس لیے کہ آپ سے اختلاف کرنے والا تو کافر ہوجاتا، اور اُلجھے ہوئے آپسی تنازعات کے مسئلے کے لیے اُمت کو ایک عملی نمونہ کی ضرورت بہرحال تھی، اِس لیے اُس کا ظہور اس وقت ہوا جب اِسلام کی ساری بنیادیں مضبوط اور مستحکم ہوچکی تھیں، چنانچہ مشاجراتِ صحابہ کے اِن واقعات سے بھی اُمت کو یہ اہم شرعی تعلیمات حاصل ہوئیں کہ:
أ: حفاظتِ حق کے لیے آپس میں تلوار بھی چلانی پڑے تو وہ بھی مطلوب ہے، جیسا کہ سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ، اور اَصحابِ جمل اور صفین رضی اللہ عنہم نے یہ اِقدام فرمایا، کہ ہر فریق خود کو حق پر، اور دوسرے کو خلافِ حق پر سمجھتے ہوئے، اُس کے خلاف قتال کو جائز سمجھ رہا تھا۔
اِسی سے اُس طبقے کی غلط فہمی کا اِزالہ ہوجاتا ہے جو ’’اُمت کے اتحاد‘‘ کے خوش نما عنوان سے حق وباطل میں خلط کرنا چاہتا ہے، اور اہلِ حق کو یہ طعنہ دیتا ہے کہ یہ لوگ اُمت میں اتحاد پیدا کرنے کے لیے ہم سے اِتفاق کے لیے تیار نہیں ہوتے، صحابۂ کرام، بالخصوص سیدنا حضرت علیؓ نے اپنی بے مثال عزیمت واستقامت کے ذریعے اُمت کو یہ پیغام دیا ہے کہ سمجھوتہ ’’حق کا اطمینان‘‘ کرکے کیا جاتا ہے، مطلق اِتحاد مطلوب نہیں۔
اور یہیں سے اُن حضرات کی غلط فہمی بھی دور ہوجاتی ہے جو ہر موقع کے لیے نرمی، خوش اَخلاقی اور تحمل وبرداشت کی تعلیم دیتے ہیں، حالاں کی یہ سب اُمور ’’دعوتی اُسلوب‘‘ کے تحت آتے ہیں، ’’حفاظتی اُصول‘‘ کے تحت نہیں۔
ب: ایسے اُلجھے ہوئے معاملات میں جب تک کسی ایک جانب میں حق اچھی طرح واضح نہ ہوجائے جب تک کسی حلقے یا شخصیت کا فریق نہیں بننا چاہیے، جیسا کہ مشاجرات کے اِس مسئلے میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی ایک بڑی جماعت نے یہی طرزِ عمل اِختیار فرمایا، اور جب حق واضح ہوجائے تو بقدر استطاعت اہلِ حق کا ساتھ دینا چاہیے جیسا کہ دیگر صحابہ نے کیا، کہ بعض نے حضرت علیؓ کو حق پر سمجھا، آپ کا ساتھ دیا، اور بعض نے پہلے حضرت عائشہؓ کو، اور پھر حضرت امیر معاویہؓ کو حق پر سمجھ کر آپ کا ساتھ دیا ۔
ج: آپسی اختلافات کا دائرہ آپس ہی میں محدود رہنا چاہیے، اس کی وجہ سے دشمنوں کو کسی طرح کا موقع نہیں ملنا چاہیے، جیسا کہ جب عین جنگ کے شباب کے وقت قیصر روم (عیسائی بادشاہ) نے اسلامی سرحدوں پر لشکر کشی کا ارادہ کیا ، سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو اطلاع ملی تو حضرت نے فوراً ہی اُسے مخاطب کرتے ہوئے وہ اِیمان افروز خط لکھا جو آج بھی اِسلام کی زریں تاریخ کا سنہری باب ہے، خط کا مضمون یہ ہے:
’’مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم اِسلامی سرحد پر لشکرکشی کرنا چاہتے ہو، یاد رکھو! اگر تم نے ایسا کیا تو میں اپنے ساتھی (حضرت علیؓ) سے صلح کرلوں گا، اور تمہیں تمہارے علاقے سے بھی نکال باہر کروں گا، اور روئے زمین کو اُس کی وسعتوں کے باوجود تم پر تنگ کردوں گا‘‘ (البدایہ والنہایہ ۸؍۱۳)
د: فروعی مسائل اور سیاسی انتظامات میں پیش آنے والے اِجتہادی اختلافات کا حکم الگ ہوتا ہے، اور مسلمہ اُصول و عقائد سے اِنحراف کا حکم الگ ہوتا ہے، کفر، بدعت اور ضلالت وغیرہ کی اصطلاحات اُصولی انحرافات کرنے والوں کے لیے استعمال کی جاتی ہیں، فروعی، سیاسی اور انتظامی مسائل میںاِختلاف کرنے والوں کے لیے نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ایک موقع پر سیدنا حضرت علیؓ نے اَصحابِ جمل کے بارے میں فرمایا کہ ہم اور وہ اُن لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے میں مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آخرت میں ہمارے ہی بارے میں ارشاد فرمائیں گے: {ونَزَعْنَا مَا في صُدُورِہِم مِن غِلٍّ إخْوَاناً علَی سُرُرٍ مُتَقٰبِلِیْنَ} [الحجر: ۴۷، تفسیر ابن کثیر] (اور ہم نے ان کے دِلوں کے کھوٹ دور کردئیے، اَب وہ بھائی بھائی بن کر ایک ایک دوسرے کے سامنے مسہریوں پر بیٹھے ہیں)۔
اس کے برخلاف آپ نے ’’خوارج‘‘سے جنگ کی بنیاد: کتبِ صحاح میں وارِد اُن متواتر احادیث اور نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی مشہور پیشین گوئیوں کو قرار دیا تھا جن میں ایک ایسے فرقے کے وجود میں آنے کی خبر دی گئی تھی جو دین سے اس طرح نکل جائے گا جس طرح تیر شکار کے پار نکل جاتا ہے۔
ہ: حضرت امیر معاویہؓ کی جماعت اور فرقۂ خوارج کے مابین یہی وہ فرق بھی ہے جس کی بنا پر اُمت نے اول کے اختلاف کو اجتہادی اختلاف، اور ’’مشاجرہ‘‘ سے تعبیر کیا ہے، اور ثانی کے اختلاف کو خروج، بغاوت اور شقاق وغیرہ الفاظ سے یاد کیا ہے، حضرت امیرؓ کے لشکر کو ’’جماعت‘‘ کہا جاتا ہے، اور خوارج کے لشکر کو ’’فرقہ‘‘ کہا جاتا ہے۔
اور اِس فرق کے لیے جمہور کے سامنے دو مشہور حدیثیں بھی ہیں:
(۱) پہلی حدیث: تمرق مارقۃ عند فُرقۃ من المسلمین تقتلہم أولی الطائفتین بالحق [مسلم ۱؍۳۴۳، وبخاری ۲؍۱۰۲۴] (مسلمانوں کے باہمی اختلاف کے وقت ایک فرقہ امت سے نکل جائے گا اور اس کو امت کی وہ جماعت قتل کرے گی جو حق کے زیاہ قریب ہوگی)۔
اِس میں اہلِ حق کی دونوں جماعتوں پر ’’طائفہ‘‘ کا اِطلاق کیا گیا ہے، جب کہ خوارج کے لیے ’’مارقۃ‘‘ کا لفظ اِستعمال ہوا ہے، مارِقہ: اُس تیر کو کہتے ہیں جو شکار میں پیوست ہوکر دوسری جانب پار ہوجائے۔ معلوم ہوا کہ خوارج کا فرقہ: اُمت کے عام جادہ اور شاہ راہ سے ہٹا ہوا تھا، اور صحابہ کا اِختلاف آپسی اختلاف تھا۔
(۲) دوسری حدیث میں ہے : ’’إن ابني ہذا یُصلِح اﷲ بہ بین طائفتین عظیمتین من المسلمین‘‘ [بخاری ۱؍۳۷۳] (حضرت حسنؓ کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ میرے اِس بیٹے کے ذریعے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان صلح کرائیں گے)۔
معلوم ہوا کہ حضرت علی اور حضرت معاویہ دونوں اہلِ حق میں سے ہی ہیں، اور دونوں کی جماعتیں مسلمانوں ہی کا طائفہ ہیں۔
بخاری (۳۶۰۹) ومسلم (۱۵۷) کی ایک اور حدیث میں ہے کہ قیامت اُس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک مسلمانوں کی دو ایسی عظیم جماعتوں کے درمیان آپس میں سخت قتال پیش نہ آجائے، جن دونوں کا دعوی ایک ہی ہوگا: لا تقوم الساعۃ حتی یقتتل فئتان، فیکون بینہما مقتلۃ عظیمۃ، دعواہما واحدۃ۔
علماء نے لکھا ہے کہ ’’مشاجرہ‘‘ شجر سے ماخو ذ ہے، جس طرح درخت کی شاخوں میں تشعُّب (شاخ در شاخ کا سلسلہ) ہوتا ہے، کہ ان کی سب کی اصل اور جڑ ایک ہوتی ہے، اور اوپر جاکر وہ سب الگ الگ ہوجاتی ہیں، اور یہ چیز درخت کے لیے باعثِ حسن اور وجہِ کشش ہوتی ہے، نہ کہ سببِ بدنمائی۔ اِسی طرح صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سیاسی اختلافات بھی شجرۂ نبوت سے پھوٹنے والی زریں شاخوں کی طرح ’’رحمت‘‘ قرار دیئے گئے ہیں: {أصلہا ثابت وفرعہا في السماء}۔
الفئۃ الباغیۃ:
یہاں ایک مشہور حدیث کی وضاحت بھی ضروری ہے جو بخاری ومسلم وغیرہ میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے متعدد سندوں سے مروی ہے کہ آپ نے سیدنا حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے بارے میں اِرشاد فرمایا کہ انہیں ’’الفئۃ الباغیۃ‘‘ قتل کرے گی، بعض طرق میں یہ اِضافہ بھی ہے کہ ’’یہ تو انہیں جنت کی طرف بلارہے ہوں گے اور وہ انہیں جہنم کی طرف‘‘۔
اس حدیث میں واضح اور صاف لفظوں میں اُس جماعت کو ’’باغی جماعت‘‘ کہا گیا ہے جس کے ہاتھوں حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی شہادت پیش آئے گی، اِسی حدیث کی بنیاد پر جمہور اہل السنۃ والجماعۃ نے مشاجراتِ صحابہ میں سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے موقف کو قطعی طور پر درست قرار دیا ہے، اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے اِجتہاد کو خطا پر محمول کیا ہے، پھر چوں کہ اہلِ حق کے یہاں دیگر اَحادیث کی بناء پر یہ بات طے شدہ ہے کہ مجتہد خاطی معذور ہوتا ہے، بلکہ ایک اجر کے ذریعے مأجور (مستحقِ اجر) بھی ہوتا ہے، اِس لیے جب وہ طلبِ حق کی سعی، حسنِ نیت اور جذبۂ صالح کی بناء پر مورِداَجر وثواب ٹھہررہا ہے، تو اُس پر سب و شتم اور تنقید و تبصرہ کے کیا معنی؟
(مستفاد از: شرح النووی وفتح الباری)
جہاں تک بات لفظِ ’’الباغیۃ‘‘ کی ہے تو اُس کے سلسلے میں چند نکات قابلِ توجہ ہیں:
۱: یہاں لفظِ ’’باغیہ‘‘ طاعتِ امام سے عدول اور شقاق ونفاق کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ یہ وہ ’’بغاوت‘‘ ہے جس کا تذکرہ قرآنِ کریم کی اِس آیت میں ہے: {وَاِنْ طَآئِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا، فَاِنْ بَغَتْ اِحْدَاہُمَا عَلٰی الْاُخْرَی فَقَاتِلُوْا الَّتِيْ تَبْغِيْ حَتَّی تَفِيْئَ اِلٰی اَمْرِ اللّٰہ} [الحجرات:۹] (اگر اہلِ اِیمان کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو تم لوگ دونوں کے درمیان صلح کرادو، پھر اگر کوئی ایک جماعت دوسری پر – شرعی لحاظ سے – زیادتی کرے تو اُس سے لڑو جو زیادتی کر رہی ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کو تسلیم کرلے )۔
یہ آیت انصار کے ایک آپسی مناقشے کے پس منظر میں نازل ہوئی تھی، امامِ زمانہ سے بغاوت کے تناظر میں نہیں، جس میں ناحق پر اِصرار کرنے والی جماعت کو ’’باغی‘‘ کہا گیا ہے، معلوم ہوا کہ لفظِ ’’بغاوت‘‘ کبھی آپسی تنازعات کے لیے بھی اِستعمال کیا جاتا ہے۔
۲: پھر سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سامنے بھی مذکورہ بالا حدیث پیش کی گئی تھی، اور غالباً حضرت کو اِس کا علم پہلے ہی سے بھی تھا، مگر آپ کے ذہن میں اِس کا مصداق وہ جماعت تھی جس نے ایک متفقہ امیر المؤمنین (سیدنا حضرت عثمانؓ) کے خلاف کھلم کھلا بغاوت کرکے، اُن کو شہید کیا تھا، اور پھر (یہود وروافض پر مشتمل) اہلِ فتنہ کا یہی سازشی گروہ، یکے بعد دیگرے جنگِ جمل اور جنگِ صفین کا سبب بنا تھا، تو حضرت امیرؓ یہ سمجھ رہے تھے کہ اَصل ’’باغی گروپ‘‘ تو وہ ہے جو اِن حالات کا راست طور پر ذمہ دار ہے۔
اِسی لیے جب آپ کے سامنے یہ حدیث پیش کی گئی تو آپ نے اپنے اجتہاد ہی کی بنیاد پر یہ بات فرمائی تھی کہ عمار کو ہم نے کہاں قتل کیا ہے؟ اُن کو تو ان لوگوں نے قتل کیا ہے جو اُن کو یہاں لے کر آئے ہیں
(مسند احمد: ۶۴۹۹)
وہ الگ بات ہے کہ حضرتؓ کے اِس اجتہاد کو جمہور نے خطا پر محمول کیا ہے، اور سیدنا حضرت علیؓ کے موقف کو صواب قرار دیتے ہوئے ’’الباغیۃ‘‘ کا مصداق حضرت امیرؓ ہی کی جماعت کو تسلیم کیا ہے، جیسا کہ اِس موقف کی تائید حدیث کے آخر میں موجود اُس زیادتی سے بھی ہوتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے: ’’یدعوہم إلی الجنۃ، ویدعونہ إلی النار‘‘ [بخاری: ۴۴۷] کہ اِس میں اِس باغی جماعت کا تقابل حضرت عمارؓ سے دکھایا گیا ہے، جب کہ اَصل باغی گروپ کا براہ راست نشانہ حضرت عثمانؓ اور دیگر صحابہؓ تھے۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
۳: حدیث کے بعض طرق میں موجود اِس آخری جملے کا مطلب مشہور شارحِ بخاری حافظ ابن حجرؒ نے یہ لکھا ہے: المراد بالدعاء إلی الجنۃ: الدعاء إلی سببہا، وہو طاعۃ الإمام، وکذلک کان عمار یدعوہم إلی طاعۃ علي، وہو الإمام الواجب الطاعۃ إذ ذاک، وکانوا ہم یدعون إلی خلافِ ذلک، لکنہم معذورون للتأویل الذي ظہر لہم …وکانوا ظانین أنہم یدعون إلی الجنۃ، وہم مجتہدون، فلا لوم علیہم في اتباعِ ظنونہم [۱؍۴۵۲] (کہ حضرت عمارؓ تو اُن کو طاعتِ امام کی طرف بلا رہے تھے، اور یہی جنت کا راستہ ہے، جب کہ وہ حضرات اس کے خلاف کے داعی تھے، مگر بہرحال تاویل اور اجتہاد کی بناء پر ان کی ملامت نہیں کی جائے گی)۔
۴: کسی بھی لفظ کا ترجمہ کرتے ہوئے، اور مراد ومفہوم متعین کرتے ہوئے یہ پہلو بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ وہ کس کے بارے میں کہا گیا ہے؟ اور کس نے کہا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے بعضے انبیائے کرام علیہم السلام کے بارے میں ’’عصی‘‘ اور ’’غوی‘‘ کے اَلفاظ کا اِطلاق کیا ہے، کہیں ’’ضالاً‘‘ کا لفظ آیا ہے، تمام مفسرین ومترجمین ایسے مواقع پر عصمتِ انبیاء کے لحاظ کے ساتھ ہی اس کی تفسیر وترجمانی کرتے ہیں۔
اِسی طرح اگر حضراتِ صحابۂ کرامؓ کے بارے میں بھی کوئی ایسا سخت لفظ وارِد ہو تو اُس کی ترجمانی ان کے شایانِ شان کی جائے گی، مثلاً حضرتِ عمارؓ جس طائفے کے ہاتھوں شہید ہوئے اُس میں بقول حافظ ابن حجرؒ :صحابہ کی ایک جماعت شامل تھی،اُنہی میں فاتحِ مصر حضرت عمرو بن العاصؓ جیسے جلیل القدر صحابی بھی تھے، جو فتحِ مکہ سے پہلے اِسلام لاچکے تھے، لہٰذا {وکلاً وعد اللّٰہ الحسنی} میں مذکور پہلے نمبر کے اِنعام کے مستحقین میں سے ہیں، پھر ترمذی (۳۸۴۴) وغیرہ میں ان کی منقبت میں بعض اَحادیث بھی وارِد ہوئی ہیں۔
اُن ہی میں حضرت امیر معاویہؓ جیسے صحابی بھی ہیں، جو کاتبینِ وحی میں سے ہیں، جو اِسلام کے اولین بحری بیڑے کے سالار بن کر، خاص بشارتِ نبوی کے مستحق ٹھہر چکے تھے، جنھوں نے آئندہ قیصر روم کے پایۂ تخت شہر قسطنطینیہ پر حملے کے لیے پہلا اِسلامی لشکر تشکیل دے کر، ایک اور بشارتِ نبوی کا اِستحقاق بھی حاصل کیا۔ تو اگر خدانخواستہ از راہِ بشریت کچھ خطائیں تھیں بھی تو سب کی سب معاف ہوکر، معاملہ صاف ہوگیا۔
مگر یہ عجیب طُرفہ تماشا ہے کہ ’’گناہ‘‘ جس کی بارگاہ میں پیش ہوتا ہے، اُس کی طرف سے تو اِس جماعت کو مغفرت کی خوش خبری مل رہی ہے، اور بعد میں آنے والے ( بزعم خود) اہلِ تحقیق اور اِنصاف پسند لوگ اُن کو معاف کرنے کے لیے تیار نہیں!!(مابقیہ صفحہ نمبر…۱۱۷)