مولانا حذیفہ مولانا غلام محمد صاحب وستانوی ؔ
تمام صحابہ سے محبت علامت ایمان ہے :
آیۃ الإیمان حب الأنصار وآیۃ النفاق بغض الأنصار۔(بخاری)
اما م بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باقاعدہ علامۃ الایمان حب الانصارکے عنوان سے باب قائم کیا ہے، جس کے تحت سیدنا حضرت انس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ ایمان کی علامت انصار سے محبت کرنا ہے اور نفاق کی علامت ان سے بغض رکھنا ہے ،یہ روایت ان الفاظ اورمعمولی تبدیلی الفاظ کے ساتھ ثقہ راویوں اور متعدد صحابہ سے متعدد کتبِ حدیث میں منقول ہے ۔
اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے شارح بخاری امام بدر الدین عینی ؒ فرماتے ہیں :
’’ یہ حکم (یعنی صحابہ سے محبت کا ایمان کے لیے شرط ہونا) تمام اعیان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین؛ بل کہ عمومی طور پر تمام ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے لیے ہے۔ کہ ان سے محبت کرنا ایمانی تقاضہ بل کہ کامل مومن ہونے کے لیے شرط ہے ۔‘‘ (عمدۃ القاری : ۱/۱۵۲)
اسی طرح عمومی حکم صریح الفاظ کے ساتھ ایک اور روایت میں ہے:
’’ من أحبہم فبحبی أحبہم ومن أبغضہم فببغضی أبغضہم ‘‘
(ترمذی : ۳۶۰/۳)
امام حجر عسقلانی ؒ فرماتے ہیں اگر چہ اس روایت کے ایک راوی پر کچھ کلام ہے ، مگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے، اس لیے کہ دیگر بے شمار روایت اس کی تائید کرتی ہے ۔
(تقریب : ۲۰۲)
محبت صحابہ فرض ہے:
امام ابن حزم فرماتے ہیں :’’ حبہم (ای الصحابۃ ) فرض ۔‘‘ (الجمہرۃ ص۳)
حضرات صحابہ سے محبت فرض اور واجب ہے۔
عشق نبوی کا تقاضہ حب صحابہ ہے:
قاضی عیاض فرماتے ہیں :
’’ومن توقیرہ وبرہ توقیر اصحابہ وبرہم ومعرفۃ حبہم والاقتداء بہم وحسن الثناء لہم ۔‘‘ (الشفاء :۲۴)
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور آپ کی توقیر کا تقاضا یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے ساتھ اکرام کا معاملہ کیا جائے اور ان سے ٹوٹ کر محبت کی جائے ، ان کی پیروی اور ان کی ثنا خوانی کی جائے۔
صحابہ کی ثناخوانی نفاق سے برأت اور ان سے بغض ضلالت ہے :
امام ایوب السختیانی فرماتے ہیں :
’’ ومن احسن الثناء علی اصحاب محمد فقد بری من النفاق ومن انتقص احدا منہم فہو مبتدع مخالف للسنۃ والسلف الصالح ،واخاف ان لا یصعد لہ عملہ الی السماء حتی یحبہم جمیعا ویکون قلبہ سلیم ۔ ‘‘
جس نے صحابہ کی خوبیاں بیان کی وہ نفاق سے بری ہوگیا اور جس نے ان میں سے کسی پر نقد کیا وہ بدعتی اور گمراہ ہے،سنت کا مخالف اور سلفِ صالحین کے طریقے سے انحراف کرنے والا ہے ۔بل کہ مجھے تو ڈر ہے کہ اس کی کوئی نیکی اللہ کے دربار میں مقبول نہیں ہوگی ،جب تک کہ وہ تمام صحابہ سے محبت نہ کرنے لگے اور اس کا دل ان کے بارے میں صاف ہو ۔
صحابہ سے محبت کا تقاضہ ہے دل کا ان کے بارے میں صاف ہونا اور زبان درازی سے بچنا:
امام ابو نعیم اصفہانی نے فضیل بن عیاض کا قول نقل کیا ہے :
’’انی احب من احبہم وہم الذین یسلم منہم اصحاب محمد وابغض من ابغضہ اللہ وہم اصحاب الاہواء والبدع ۔ ‘‘(حلیۃ الاولیا :۷۸)
میں ان سے محبت کرتاہوں جن سے اللہ محبت کرتے ہیں اور وہ لوگ جس کی زبان درازیوں سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم محفوظ ہیں۔ اور میں ان سے بغض رکھتا ہوں جن سے اللہ بغض رکھتے ہیں اوریہ وہ لوگ ہیں، جو نفس پر ست اور بدعتی ہیں ۔
حب صحابہ مغفرت کا سبب ہے:
خراسان کے عالم ربانی امام ابو حفص عمران بن سلیم فرماتے ہیں :
’’ لو ان رجلا ارتکب کل خطیئۃ ما خلا الشرک باللہ وخرج من الدنیا سلیم القلب لاصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غفر اللہ لہ۔‘‘ (الفدائد الاخیار والحکایات:۱/۴۴)
اگر کوئی شخص ایسا ہو جس نے ہرطرح کے گناہوں کا ارتکاب کیا ہو سوائے شرک کے اور وہ اس دنیا سے صحابہ کے بارے میں دل صاف لے کر جائے گا اللہ اسے معاف کردیںگے۔
کسی نے امام ابو حفص سے دریافت کیا اس پر کوئی دلیل ؟ تو آپ نے کہا قرآنِ کریم کی آیت مبارکہ{قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ }اللہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ صحابہ سے بھی محبت ہو،اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے صحابہ میںسے ہر ایک سے محبت کرتے تھے ۔ سبحان اللہ ! یہ ہے شانِ صحابہ ! اس قول کے راوی فرماتے ہیں کہ مجھ سے کسی نے اس قول کے بارے میں دریافت کیا کہ کیا یہ درست ہے ؟ میں نے کہا بالکل اورپھر میں نے مختلف مجلسوں میں اسے ایک ہزار بار دہرایا اور لوگوں سے کہا کہ اسے تحریر کرلو ۔
سب سے قیمتی عمل حب صحابہ ہے:
امام بشر حافی فرماتے ہیں :
’’اوثق عملی فی نفسی حب اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔‘‘ (الحلیۃ : ۸/۳۳۸)
میرے نزدیک میرا سب سے پختہ اور وزنی عمل محمدِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے ساتھ محبت ہے۔ سبحان اللہ !
بغض صحابہ کا حامل توفیق توبہ سے محروم ہوتاہے:
بشر حافی نے یہاں تک فرمایا :
’’ نظرت فی ہذا الامر فوجدت لجمع الناس تو بۃ الامن تناول اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم فان اللہ عزوجل حجز عنہم التوبۃ۔‘‘
صحابہ سے بغض کے بارے میں جب میںنے غور وخوض کیا ،تو میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ دیگر تمام گنہ گاروں کی توبہ قبول ہوجاتی ہے، سوائے اس کے جس نے صحابہ کو برا بھلا کہا ہو۔ اللہ اسے توبہ کی توفیق سے محروم کردیتے ہیں ۔
(المجالسۃ: ۵/۴۱۲)
صدق اور حب صحابہ باعث نجات:
امام عبد اللہ ابن مبارک فرماتے ہیں :
’’خصلتان من کانت فیہ الصدق وحب الصحابۃ فارجوان ینجوا ان اسلم ۔‘‘
(الطیوریات : ۲/۳۳۱)
اسلام لانے کے بعد اگر کسی میں دو خصلتیں پائی جائیں گی، تواس کی نجات کی امید ہے صداقت کاعادی اورآپ کے صحابہ سے محبت کرنے والا۔
حب صحابہ ذخیرۂ آخرت ہے:
امام آجری فرماتے ہیں کہ عبد اللہ مبارک کا قول ہے :
’’حب اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ذخرا ادخرہ وانما بحسن ہذا عملہ بحب اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ ‘‘(کتاب الشریعۃ : ۱/۱۶۸۸)
میں اپنی آخرت کی نجات کے لیے صحابہ کی محبت کا ذخیرہ جمع کررہا ہوں ، میرا جو کچھ درست کام ہورہا ہو وہ محبت صحابہ کی برکت ہے۔
خلفاء راشدین سے محبت اور حضرت معاویہ پر ترحم عنداللہ حساب سے خلاصی کاباعث ہوگا :
امام زہری فرماتے ہیں سعید ابن مسیب نے مجھ سے کہا کہ اے زہری!
من مات محبا لأبی بکر وعمر وعثمان وعلی وشہد للعشر بالجنۃ وترحم معاویۃ کا ن حقا علی اللہ ان لا ینا قشہ ۔
جو آدمی اس حال میں اس دنیا سے رخصت ہوکہ وہ ابو بکر ، عمر ، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم سے محبت کرتا ہو ، عشرۂ مبشرہ کے جنتی ہونے کی شہادت دیتاہو اور حضرت امیر معاویہ کے لیے رحمت کی دعا کرے تو اللہ تعالیٰ اس سے حساب نہیں لیںگے ۔ (البدایۃ: ۸/۱۳۹)
صحابہ سے محبت عقیدہ کا درجہ رکھتی ہے :
حضرات صحابہ کرام رضوا ن اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ محبت کرنا اصول ِایمان میں سے ہے ۔اس لیے کہ ہم تک دین پہنچانے میں انہیں کا رول سب سے بڑا اور اہم ہے اگروہ نہ ہوتے یا ایمان داری سے کام نہ لیتے العیاذباللہ ! تو ہم تک یہ دین صحیح اور کامل مکمل نہ پہنچتا ؛بل کہ اسباب ِظاہر یہ کے درجہ ے میں دیگرمذہب مثلا یہودیت اورنصرانیت کی طرح انحراف کا شکار ہوچکا ہوتا ۔
ایک مسلمان کا صحابۂ کرام کے بارے میں کیا عقیدہ ہونا چاہیے؟
حضرات صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے عقیدت ومحبت اوران پر نقد و جرح سے اجتناب کوئی معمولی امر نہیں ،بل کہ عقیدے سے اس کا تعلق ہے ؛لہٰذا بہر صورت صحابہ سے محبت مومن کے ایمان کا تقاضہ ہے؛ جیسا کہ آپ نے ہمارے سلف صالحین کے اقوال صحابہ کرامؓ کے بارے میں پڑھے ۔ اب یہاں حضرات صحابہ ؓکے بارے میں ایک مسلمان کو کیا عقائد رکھنے چاہیے اس پر روشنی ڈالتے ہیں ۔
حضراتِ صحابہ کرام رضوا ن اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا مقدس گروہ وہ گروہ ہے، جس کو اللہ رب العزت نے اپنے بندوں میںسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ِبابرکت کے لیے منتخب کیا تھا،جن کی قربانیاں دین اسلام کے لیے ہراعتبار سے بے مثال ہے ۔ قرآنِ کریم نے عام مسلمانوں کو ان جیسا ایمان مضبوط کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے:’’ اٰمنوا کما اٰمن الناس ‘‘ ان کی ہجرت، ان کی نصرت اوران کے جہاد کی تعریفیںکی۔ جن کو صحبت خاتم الانبیا کے لیے چناگیا ، وہ ’’سلام علی عبادہ الذین اصطفی‘‘ٰ ہیں،اللہ کے وہ چنندہ اور منتخب بندے ہیں جن پر اللہ سلام بھیج رہا ہے ۔
لہٰذا حضراتِ صحابہ کو ہم عام انسانوں کی طرح نہیں گردان سکتے؛بل کہ وہ انبیا کے بعد افضل ترین افرادِ بشر ہیں ،اگر انبیا معصوم ہیں تو ہمارے صحابہ محفوظ ہیں ۔ اللہ رب العزت نے انہیں ہدایت کا نورِ کامل عطا فرمایا تھا ۔ قرآن ِکریم میں سورۂ بقرہ ، سورۂ توبہ، سورۂ حدید، سورۂ حشر ، سورۂ فتح ، سورۂ انفال کی دسیوں آیات میں ان کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور عمومی اور خصوصی طور پر سینکڑوں احادیث ان کے مناقب اور فضائل میں وارد ہوئی ہیں۔ بل کہ ان پر نقد اور طعن وتشنیع سے روکنے کا حکم ہے ، اس لیے امت کا اجماع اسی پر ہے کہ ان کا ذکر خیر کے ساتھ کیا جائے اور ہرگز ہرگز ان میں سے کسی پر بھی حرف نہ اٹھایا جائے ۔
صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے بارے میں بنیادی عقائد:
۱- ایک مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اپنے دل اور اپنی زبان کو صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں بالکل صاف ستھری رکھے ۔ اس پر اجماعِ امت ہے ۔
۲- جو مسلمان اپنے آپ کو صحیح نبوی طریقے پر رکھنا چاہتا ہو ، اس کے لیے ضروری ہے کہ بلا تفریق تمام صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت کرے اور ان کے ساتھ محبت کرنے میں افراط و تفریط سے کام نہ لے اور ان میں کسی ایک سے محبت اور اس کے مقابلے میں دوسرے سے بغض کسی صورت میں درست نہیں ؛بلکہ یہ بدعت اور ضلالت ہے ۔
۳- اہل سنت والجماعت یعنی پکے اورسچے مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ صحابہ میں جو آپسی اختلاف اورجنگیں ہوئیں اس پر سکوت اختیار کرے ؛ لہٰذا انہیں کوئی بھی بہانہ بناکر برا بھلا کہنا سراسر ضلالت ہے ۔
۴- صحابہ کے بارے میں صحیح اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ صحابہ کی افضلیت کو برقرار رکھی جائے ،اس کی بنیادی ترتیب اس طرح ہے :
حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ،حضرت علی رضی اللہ عنہ ۔
۵- جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت دی وہ جنتی ہیں ، اس پر مکمل یقین رکھے ۔ جیسے عشرۂ مبشرہ یعنی وہ صحابہ جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی مجلس میں جنت کی بشارت دی ۔ خلفائے راشدین کے علاوہ حضرت عبد الرحمن بن عوف ، حضرت ابو عبیدہ بن جراح ، حضرت سعد بن ابی وقاص ، حضرت طلحہ ، حضرت زبیرابن العوام اور حضرت سعید ابن زید۔
۶- اہل سنت والجماعت کے نزدیک آیتِ کریمہ’’ وکلا وعد اللہ الحسنیٰ‘‘ کے مطابق تمام صحابہ فضیلت کے حامل ہیں ، ان میں فضل مراتب ہے جیسے انبیاء میں بھی ہے۔البتہ شرف صحابیت میں سب مشترک ہیں ۔
۷- اہل سنت کے عقیدے کے مطابق مہاجرین افضل ہیں انصار سے ۔
۸- اہل سنت کے عقیدے کے مطابق اہل بدرکے تمام صحابہ کواللہ نے بخش دیاہے؛ جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ ’’ اعملوا ما شئتم فقد غفرت لکم ‘‘ اسی طرح بیعت رضوان والے ۱۴۰۰؍ سے زائد صحابہ میں سے بھی کوئی جہنم میں نہیں جائے گا ،اس لیے کہ اعلان خداوندی ہے : {لقد رضی اللہ عن المومنین اذ یبایعونک تحت الشجرۃ }۔
۹- اہل سنت والجماعت کے نزدیک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جو اختلاف ہوئے اس کے بارے میں سکوت اورخاموشی واجب ہے۔ اس پر کسی بھی طرح کا کلام جائز نہیں ، چاہے وہ حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اختلاف ہو یا حضرتِ علی رضی اللہ عنہ اور حضرتِ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا اختلاف۔
۱۰- اہل سنت و الجماعت کے نزدیک صحابہ کا شمار خیر القرون میں ہوتا ہے ، وہ معصوم نہیں مگر محفوظ ضرور ہیں ،اگر صحابہ میں کسی سے کوئی چوک یا گناہ بھی ہوگیا، تو ان کی مغفرت ہوجائے گی اس لیے کہ وہ مغفرت اور شفاعت نبوی کے سب سے زیادہ حقدار ہیں ،اگر ان میں سے کسی سے کوئی خطا بھی ہوگئی تو تمام صحابہ اجتہاد کے درجہ پر فائز تھے ، لہٰذا اجتہاد ی خطاؤں کی وجہ سے گناہ گار نہیں ہوںگے بل کہ خطاپر بھی ماجور ہوںگے ۔
(عقیدہ اہل السنۃ فی الصحابۃ)
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں مذکورہ دس عقائد کتاب و سنت سے ثابت ہیں اور امت کا چودہ سوسال سے اس پر اجماع چلا آرہا ہے؛لہٰذا کسی کے لیے ہر گز یہ گنجائش نہیں کہ وہ اس سے اختلاف کرے یا یہ کہے کہ وہ دینی امور میں عدالت کے حامل تھے اور سیاسی امور میں نہیں ؛ جیساکہ بعض حضرات سیاسی مسئلہ بتلاکر بعضے صحابہ پر تنقید اور جرح کو درست تصور کرتے ہیں ۔ اہل سنت والجماعت کا متفقہ عقیدہ ہے : ’’الصحابۃ کلہم عدول ‘‘ تمام کے تمام صحابہ عدول ہیں ، یعنی ان پر کسی صورت میں جرح کی کوئی گنجائش بالکل نہیں ۔اجمالی محبت ضروری ہے ، جن کے نام ہمیں معلوم نہیں اور جن کے نام معلوم ہیں ان سے انفرادی طورپر بھی محبت ضروری ہے ۔
صحابہ سے محبت کیوں ضروری ہے ؟
صحابۂ کرام سے محبت کیوں ضروری ہے تو علمائے کرام نے اس کے اسباب بیان کیے جو یہ ہیں :
۱- اللہ رب العزت کو صحابہ سے محبت ہے اور اللہ رب العزت نے ان سے رضا مندی کا اعلان کردیا ہے۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر ’’رضی اللہ عنہم ‘‘وارد ہوا ہے ۔
۲- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے محبت کرتے تھے اور ان سے خوش تھے؛ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد ارشادات ِمبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے صحابہ سے محبت کو ایمان کا جز قرار دیا اور ویسے بھی قاعدہ ہے کہ محبوب کا محبوب بھی محبوب ہوتا ہے ۔
۳- حب فی اللہ اور بغض فی اللہ کا تعلق اسلام کے عقیدہ’’ ولاء وبراء‘‘ سے ہے ،لہٰذا حب فی اللہ میںرسول اللہ کے بعد اگر سب سے پہلا کسی کا درجہ ہے تو وہ صحابہ کا ۔
۴- صحابہ سے محبت ایمان کی علامتوں میں سے ایک اہم ترین علامت ہے اور صحابہ میں سے کسی ایک سے بھی بغض اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض کے مترادف ہے ۔
۵- صحابہ نے امت تک اسلام کا پیغام مکمل دیانت داری اور امانت داری کے ساتھ پہنچایا، جس میں ذرہ برابر کوتاہی نہیں کی ۔ آپ کی زندگی کے تمام اقوال اور افعال کو بغور دیکھا ۔ آپ نے نماز کیسے پڑھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ قیام میں کہاں ہوتی ، رکوع میں کہاں ہوتی ، سجدے میں کہاں ہوتی ، جلسہ اور قعدہ میں کہاں ہوتی ۔ دنیا کی تاریخ میں کوئی گروہ ایسا نہیں گزرا ،جس نے اپنے متبوع کی تعلیمات کو اتنی باریکی کے ساتھ محفوظ کیا ہو سوائے صحابہ ؓ کے ۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کو اپنے نبی کی صحبت کے لیے منتخب کیا تھا جو صحبت کا حق ادا کرسکتے تھے ۔ (محبۃ الصحابۃ فی ضوء عقیدہ اہل سنت والجماعۃ :۷۸-۷۶)
حقوق صحابہ:
امت پر اللہ اور رسول کے بعد اگر سب سے بڑا احسان کسی کا ہے تو وہ حضرات ِصحابہ کرام کا؛ کیو ں کہ انتہائی نازک ترین دور میں صحابہؓ نے اسلام کی سر بلند کے لیے بے مثال قربانیاں پیش کیں۔ صحابہ میں فرق مراتب تو ہوسکتے ہیں ،ان کی اقدمیت اور قربانیوں کے اعتبار سے؛مگر شرف صحابیت میںسب برابر کے شریک ہیں ۔ ہمارے علما نے کتاب و سنت کی روشنی میں میںجہاں حقوق اللہ ، حقو ق العباد اور حقوق الرسول کو ذکر کیا؛ وہیں حقوقِ صحابہ کوبھی ذکر کیا ہے جو یہ ہیں :
۱- سب سے پہلا حق صحابیت یہ ہے کہ تمام صحابہ کی فضیلت کا قائل ہونا چاہئے اور اپنے دل میں ان میںسے کسی کے بھی بارے میں ذرہ برابر بغض اور کینہ نہیں رکھنا چاہیے۔
۲- دوسرا حق یہ ہے کہ دل کی گہرائیوں سے ان سے محبت کرنی چاہیے ، ہمیشہ اپنی مجلسوں میں عظمت اور محبت اور ادب و احترام کے ساتھ ان کا ذکر کرنا چاہیے اوربھر پور کوشش کرنی چاہیے کہ تمام افراد امت کے قلوب کو ان کی محبت سے گرمادیں ۔
۳- تیسرا حق یہ ہے کہ حضراتِ صحابہ نے جو شریعت کی تفصیلات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی ہیں، اس پر مکمل اعتماد کرنا چاہیے اور ان کے اجتہاد ات پر بھروسہ کرنا چاہیے۔اس لیے کہ کتاب و سنت کو جیسا صحابہ نے سمجھا اور اس کو مراد تک وہ پہنچے اور کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے اور نہ اتنی قریبی مراد کو جاسکتا ہے ، صحابہ نے مکمل طور پر کتاب و سنت کی پیروی کی ہے اور ہر طرح کی ضلالت گمراہی اور بدعت سے دور رہے ہیں ۔
۴- صحابہ کا چوتھا حق یہ ہے کہ ان کے ذکر کرتے وقت التزام کے ساتھ رضی اللہ عنہ کہا جائے اور ان کے حق میں رحمت اور مغفرت کی ہمیشہ دعائیں کی جائے۔
۵- صحابہ کا پانچواں حق یہ ہے کہ حضرات صحابہ کے درمیان جو آپسی اختلاف ہوئے اور جنگیں ہوئیں اس پر مکمل خاموشی اور سکوت اختیار کیا جائے نہ تحقیق کے نام پر اور نہ کسی اور بہانے سے ان پر جرح کی جائے؛ بل کہ کامل سکوت اختیار کرنا واجب اور بنیادی حق ہے ۔
۶- تاریخ اور سیر کی کتابو ںمیں جو بھی باتیں اور واقعات ایسے ذکر کیے گئے ہیں، جس سے صحابہ کے کردار پر آنچ آتی ہو اس کو لوگو ںکے درمیان عام نہ کیا جائے اس لیے کہ روافض خوارج وغیرہ فرق باطلہ نے بے شمار من گھڑت واقعات اور باتوںکو بلا سند ان کی طرف منسوب کردیا ہے ،ایسی بے بنیاد باتوں کے پھیلانے کو گناہ کبیرہ میں شمار کیا گیا ہے ؛بل کہ اللہ کے غضب اور اس کی ناراضگی کو مول لینا ہے اس طرح کی حرکت سے ۔
۷- ساتویں اور آخری حق صحابہ کا امت پر یہ ہے کہ وہ مسلمان اور مومن ہونے کے ناطے یہ اعتقاد رکھے کہ صحابہ کو برا بھلا کہنا حرام ہے اور ان پر لعنت کرنا یہ اکبرا لکبائر میں سے ہے اس لیے کہ جب اللہ نے ان کی تعریف کردی تو میں اور آپ کو ن ہو جو ان کی برائی کریں !! خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صاف الفاظ میں صحابہ کو برا بھلا کہنے سے روکا اورکہا کہ یہ حرکت گویا ان پر ظلم اور تعد ی کے مترادف ہے ۔
(حقوق الصحابہ علی الامۃ مو قع الاکولہ )
غرض یہ کہ حضرات صحابہ پر اوربھی بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے کیو ںکہ ان کی شان کچھ ایسی نرالی ہے ان کی عظمت شان کا اندازہ آپ اسی سے لگا سکتے ہیں ، ان انفرادی خصوصی اور اجتماعی وعام فضیلت کو بیان کرنے سے لے کر قرآن جیسے مقدس ترین کتاب میں تقریباً ۱۰۰؍ آیتیں ہیںطوالت کی ڈر سے آیتوں کو ذکرکرنا تو ممکن نہیں ؛البتہ سورت اور آیت نمبر پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
یہ تو شان صحابہ میں قرآنی آیات ہیں اور احادیثِ فضائل الصحابہ تو بے حد و حساب ہیں ۔ اب ان سب امور کے بعد کیوں صحابہ کے مشاجرات کے مسئلہ کو موضوع بحث بناتے ہیں ؟؟ ہمارا اس میں کیافائدہ ہے ؟؟ حضرت امام غزالی ؒ فرماتے تھے میں قضیہ علی ومعاویہ رضی اللہ عنہما سوچتے ہوئے سوگیا ،تو میں نے دیکھا کہ قیامت قائم ہوگئی میدان حشر میں حساب و کتاب چل رہا ہے اور قضیہ علی ومعاویہ رضی اللہ عنہما کی باری آئی تو امام غزالی ؒ فرماتے ہیںکہ آپس میں کچھ گفت و شنید ہوئی حضرت امیر معاویہ ؓ میرے قریب سے گزرنے لگے تو میں نے روک کر سوال کیا کہ کیا فیصلہ ہوا تو حضرت امیر معاویہ ؓ نے کہا :’’ ربِ رحیم وخصیم کریم ‘‘کہ میرا رب رحمت کا مالک اور میرا مدِ مقابل جو دوکرم کا سمندر ہے ،تو میں نے کہا کہ جب اللہ نے انہیں معاف کردیا اور مد مقابل نے بھی، تو ہم کیوں اپنی آخرت خراب کریں ۔ ان کے بارے میں زبان دراز ی کرکے ۔
اللہ ہمارے دلوں کو عشق صحابہ سے لبریز کردے اور ہمیشہ صحابہ پر اور انبیا پر جرح کرنے سے ہماری حفاظت فرمائے اور ہم سے راضی ہوجائے ۔ آمین یا رب العالمین !