مولانا افتخار احمد قاسمی بستوی
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے : {مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنَّ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ وَکاَنَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَئْ ٍعَلِیْمًا}
’’ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے بھی باپ نہیں ، لیکن وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو اچھی طرح جاننے والے ہیں۔ ‘‘
اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمادیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی بھی موجودہ یا آنے والے شخص سے ’’ ابوتِ جسمانی ‘‘ کا تعلق ہرگز نہیں ۔ ہاں! آپ کاپوری امت سے ’’ ابوتِ روحانی ‘‘ کاتعلق ہے ، جس میں آپ تمام ارواح مومنین کے لیے ’’ مصدر ‘‘ اور ’’ مرکز‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اللہ کے ’’ امر ‘‘ سے سب سے پہلے آپ ہی کا ’’ نور ‘‘ ، ’’ روح محمدی ‘‘ کی شکل میں جلوہ گرہوا ، جس کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’کنت نبیا وآدم بین الروح والجسد ‘‘(ترمذی: ۳۶۰۹، مشکاۃ:۵۷۵۸، دلائل النبوۃ: ۲/۱۳۰)سے واضح فرمایا ہے ۔ اور اس آیت کریمہ میں یہ بتلایا ہے کہ آپ ’’ ابو ت روحانی ‘‘ میں کامل اور اکمل اور انبیا ئے کرام کا سلسلہ شروع سے لے کر آخر تک جاری رکھنے والے مثل خورشید ہیں کہ جیسے خورشید جہاں تاب سے نور کی کرنیں پھوٹتی ہیں اور پھر شام کو اُسی میں جاکر سمٹ کر جمع ہوجاتی ہیں ۔ اِسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی مصدر ارواح ومصدر انوار ارواح ہے ۔ اور تمام ارواح کا تعلق اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں سمٹ کر جمع ہوجانے کا تعلق بھی مثل شعاعِ آفتاب آپ ہی سے ہے ۔ اس معنی کے اعتبار سے آپ خداکے رسول ہیں اور خاتم الرسل بھی ہیں۔
اسی لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دنیا سے رخصت ہوجانااور مو منین کے دنیا سے رخصت ہوجانے سے جداہے ۔قرآن کریم میں اِسی جدا کیفیت کو بیان کرنے کے لیے{اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّاِنَّہُمْ مَیِّتُوْنَ }ذکر کیا گیا ہے ۔کہ دنیا سے جدا ہونے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو الگ سے{اِنَّکَ مَیِّتٌ}کہا گیا اور دوسرے لوگوں کے دنیا سے رخصت ہونے کو الگ سے{اِنَّہُمْ مَّیِّتُوْنَ} فرمایاگیا۔معلوم ہواکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اس دنیا سے رونگی کی انوکھی شکل ہے، جس میں ’’حیا ت نبوی‘‘باطنی طور پر آپ کے جسدِ اطہرسے وابستہ رہتی ہے اور عام لوگوں کی موت کی شکل یہ ہے کہ ان کی حیا ت ان کے اجسام سے بالکل جدا ہوجایا کرتی ہے ۔
اما م محمد قاسم نا نوتوی رحمہ اللہ علیہ نے حیاتِ نبوی کو سمجھانے کے لیے ایک عجیب و غریب مثال بیان فرمائی ہے۔ آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :کہ ایک گھڑا فرض کیجیے جس میں ایک شمع روشن ہو اور اس گھڑ ے پر ڈھکن نہ ہو تو گھڑا شمع کی روشنی سے اپنے اندر بھی منور ہوگا اور باہر بھی شمع کی روشنی سے ماحول روشن ہوگا ۔اسی حالت میں گھڑ ے کے منہ کو ڈھکن سے بند کر دیا جا ئے تو باہر کا ماحو ل تاریک ہوجا ئے گا۔البتہ ڈھکن بند کرنے کے بعد گھڑ ے کے اندر رکھی ہو ئی شمع کی دو حالت مانیے ،ایک یہ کہ ڈھکن منھ پر ڈالنے سے شمع گل ہوجائے اور اندرون تاریک ہوجائے ،دوسرے یہ کہ شمع ڈھکن بند کرنے سے گل نہ ہو ،بل کہ پہلی حالت کی مانند روشن ہی رہے تو گھڑ ے کا اندرون پہلے سے بھی زیادہ روشن ہو جائے گا ۔ باہر پھیلنے والی روشنی بھی ڈھکن بند کرنے سے گھڑے کے اندر آجائے گی ،جس سے لامحالہ گھڑے کی روشنی پہلے سے بھی زیادہ ہوجائے گی ۔
اما م محمد قاسم نانوتو ی رحمۃاللہ علیہ نے یہ مثال بیان فرما کر ارشاد فرما یا ہے کہ گھڑے پر ڈھکن رکھنے کے بعد شمع بجھ جانے کی شکل میں گھڑے کے اند ر اور اس کے باہر تاریکی پھیل جاتی ہے ۔یہ عام مومنوں کی موت کی ایک مثال ہے کہ جب عام لو گو ں کی مو ت ہوتی ہے، تو شمعِ حیات مکمل بجھ جاتی ہے کہ اند رون خانہ جسم اور بیرونی جسم دونوں جگہوں میں حیات کی شمع اپنی کرنیں بکھیرنا بند کر دیتی ہے اور گھڑے کے منھ پر ڈھکن کے بعد اندرون میں رکھی ہوئی شمع اگر جلتی ہے تو اس کی روشنی ’’کما ًوکیفاً ‘‘ گھڑے کے باطنی حیز میں با لیقین بڑھ جاتی ہے۔یہ مثا ل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ووفات کی ہے ،کہ گھڑے پر ڈھکن پڑنا اور ظاہر ی ماحول کا اندھیر ے کی آغوش میں آجانا نبی کی وفات اورموت کی مثا ل ہے ۔جسے قرآن کریم نے ’’انک میت‘‘ سے ذکر فرمایا ہے۔ اسی ظاہر ی موت کی بنیاد پر آپ کی نماز جنازہ بھی پڑھی گئی ۔آپ کو سپر د خاک بھی کیاگیا ،آپ کو کفن بھی پہنا یاگیا ، آپ کے لیے قبر بھی بنی اور میت کے دیگراحکا م بھی آپ پر نافذ کیے گئے۔لیکن گھڑے پر ڈھکن رکھنے سے شمع حیات اندرون میں گل نہیں ہوئی ،بل کہ پیشتر سے بر ترروشنی کی کرشمہ سازی اندرون میں جلوہ دکھاتی رہی۔یعنی حیات نبی کی شمع قبر میں دنیا سے ہی زیادہ ’’کماً وکیفاً ،،موجود ہے ۔ذرا سی دیر کے لیے بھی شمع حیات گل ہونے کی نوبت نہ آئی ۔اسی لیے نبی کی حیات متقطع نہ ہوئی ،آپ کی ازواج مطہرات بدستور آپ کی ازواج رہیں ،نکاح کسی سے بھی نہ ٹوٹا ،تو کسی شخص کو کیا آپ کی بیویوں سے نکا ح کا جواز بھی فراہم نہ ہوا ۔قرآن کریم نے اسی بات کا اعلان کیا ہے: {وَلَااَنْ تَنْکِحُوْا اَزْوَاجَہُ مِنْم َبعْدِہٖ اَبَدًا}آپ کے بعد تم آپ کی ازواج سے کبھی بھی نکاح نہیں کر سکتے ۔کیوں کہ شمعِ حیات ذرا دیر کے لیے بھی گل نہ ہوئی وہ تو اوپر سے گھڑے پر ڈھکن ڈالنے سے شمعِ حیات کی کر نیںبدستور روشن رہیں ،صرف کر نو ں کا نشانہ بیرونی ماحول کے بجائے اندرون خانہ سمٹ کر روشنی کی مقدار کو محدود جہتو ں میںبڑھ کر اپنی کر شمہ سازی دکھا نے لگا۔اسی لیے نبی کی حیات کی شمع جلتی ہی رہی اور آپ کی ملکیت میں موجود سامان عدم انقطاعِ حیات سے دو سروں کا نہ ہوسکا ۔کیوں حیات کا سلسلہ منقطع ہواہی کہا ں؟وہ تو صرف ظاہر ی روشنی ماحول میں پھیلنارک گئی۔ لہٰذا نبی کے متروکہ مال کو ترکہ اور میراث کہنا صحیح نہ ہوا اور تر کے میں اپنے حصوں کے دعوی داراپنے دعوے میں خطاکار ٹھہرے۔بل کہ آگے بڑھ کر کہنا چاہیے کہ نبی کے مال کو میراث کا مال کہہ کر اپنے قبضے میں لینے کا دعوی محض مال کا دعوی اور مال پر قبضہ کرنے کا متمنی ہونا نہیں کہلائے گا۔ یہ تو دور چل کر عظمتِ نبی کی چادر کوتار تار کر نے کے مترادف ہوگا ۔گویا کہ دعوی میراث اس بات کو شامل ہے کہ ایسا شخص نبی کی’’شمع ِحیات ‘‘کے گل ہونے اور ’’ موت نبی ،،کا قائل ہے ۔جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام نبیو ں کے سردار ہیںاور تما م ارواحِ مومنین کے مصدر بھی ہیں۔ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح ’’منشأِارواحِ مو منین ‘‘ اور’’ مصدر ِارواح ِاہلِ ایمان‘‘ ہے ۔اور دیگر ارواح’’ انتزاعی ‘‘ہیں ۔
یہ بات بھی طے ہے کہ انتزاعی اشیا کا قر ب ’’منشا انتزاع‘‘سے اپنے معروض ومقام سے زیادہ ہوتا ہے۔اسی لیے ارواحِ مومنین کا قرب اپنے معروض ومقام سے زیادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روح سے ہوگا ، کیوں کہ نبی کی روح مومنین کے لیے ’’منشأ انتزاع ‘‘ہے ۔
اسی بات کوقرآن کریم نے{اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُوْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ وَاَزْوَاجُہُ اُمَّہَاتُہُمْ }سے بیان فرمایا ہے۔کہ نبی مومنین سے خود ان کی ارواح ونفوس سے زیادہ قرب رکھتے ہیں اور نبی کی ازواج مومنین کی مائیں ہیں۔ ارواحِ مو منین نبی کی روح کا پر تو ہے ۔نبی کی روح مثلِ خور شیدِ عالم تاب ہے، جہا ں روشنی دن بھر پھیلنے کے بعد آخر ش خورشید کی ٹکیہ میں سمٹ جاتی ہے ۔اور دھوپ زمین پر اگر چہ پڑ تی ہے اور ظاہری نظر میں دھوپ کا قرب زمین سے زیادہ معلوم ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں دھوپ کا قرب خورشید جہا ں سے زیادہ ہے ۔جیسے مُعِیر کی ملکیت مستعار میں مستعیر سے زیادہ ہوتی ہے۔
اسی طرح ارواح مومنین کا قر ب ابدان اہل ایمان سے ظاہری طور پر دکھائی دیتا ہے ،لیکن حقیقت میںارواح اہل ایمان کا قرب روح سے زیادہ ہوتا ہے ۔جس کو قرآن کہتا ہے:{اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُوْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ وَاَزْوَاجُہُ اُمَّہَاتُہُمْ }اسی لیے مومن کی روح جو بھی خیر سوچے گی وہ فیضِ روحِ نبی ہوگا اور مومن کا نفس جو انسان کے دل میں رہتا ہے مومن کے لیے نبی سے زیادہ خیر کوئی نہیںسوچ سکتا ۔
’’ حضرت شاہ صاحب ؒ لکھتے ہیں کہ نبی نائب ہے اللہ کا ، اپنی جان و مال میں اپنا تصرف نہیں جتنا نبی کا چلتا ہے ، اپنی جان دہکتی آگ میں ڈالنا روا نہیں اور اگر نبی حکم دے دے تو فرض ہوجائے گا۔ انہیں حقائق پر نظر فرمایا کہ تم میں کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک باپ ،بیٹے اورسب آدمیوں ،بل کہ اس کی جان سے بھی بڑھ کر محبوب نہ ہوجاؤں ۔‘‘(تفسیر عثمانی )
اسی نبی کی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی ہے، جو ہم سے زیادہ ہمارے خیر خواہ ہیں ۔لہٰذا اس نبی کی ایک ایک سنت کو اپنے رگ وریشے میں احوال و تصرفات میں خیال وعقائد میں لانے کی سخت ضرورت ہے۔ آج حالا ت کا سب سے بڑ ا اور سب سے اہم تقاضا یہی ہے کہ جونبی ہم سے زیادہ ہمارے خیر کے چاہنے والے ہیں، آج امت اُن سے کتنی دور کھڑ ی ہے ؟ اللہ تعالیٰ ہم سبھوں کو اپنا اور اپنے نبی کا قرب عطا کرے ۔ آمین !