بیان القرآن کا مطالعہ

پانچویں قسط:                                           (حکیم الا مت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی تفسیر)

مولانا حکیم فخر الاسلام

اصلاح ترجمۂ مرزاحیرت :

( ڈپٹی نذیر احمد صاحب کے ترجمۂ دہلویہ کی اصلاح کے بعد حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے مرزا حیرت دہلوی کے ترجمہ کی اصلاح کاقصد فرمایا۔اُس کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں:)

’’بعد الحمد والصلوٰۃ عرض ہے کہ ان دنوںایک اور نیا ترجمہ قرآن مجید کا من جانب مرزاحیرت صاحب،د ہلی سے شائع ہونا شروع ہواہے۔ اتفاقاً نظر سے جوگزرا،اتو اُس سے بھی مسلمانوں کی مضرت پہنچنے کا اندیشہ غالب ہوا۔ اول احتیاطاً (یہ طریقہ اختیار کیا کہ)بعض اغلا ط سے -جو بہ ضمن بیانِ مسائل، حواشی میں واقع ہوئی تھیں- مترجم صاحب کو اُن کی انصاف پسندی کا اندازہ کرنے کی غرض سے اطلاع دی گئی جس کا جواب یہ ملا کہ:

 ’’الحمد للہ نفس ترجمہ میں کوئی غلطی نہیں بتائی گئی۔ رہا(شبہہ) حاشیہ کی بابت (تو)خواہ آپ پڑھیں یا نہ پڑھیں،مانیں یا نہ مانیں ،اُس کی بابت کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ‘‘

’’(یہ جواب بے وقعت تھااورانصاف پسندی سے دور بھی۔کیوں کہ)جس حالت میں کہ حاشیہ موضحِ متن ہوتاہے، ہر دانش مند اِس جواب کا پایہ سمجھ سکتاہے ۔مگر اِتمام ِحجت کے لیے خود ترجمہ کو بھی جابجا دیکھا ،تو اغلاط سے خالی نہ پایا۔ اس لیے عام مسلمانوں کی حفاظت کی  غرض سے ضروری معلوم ہوا کہ صرف دوپاروں کے تر جمہ میں متن وحواشی کی کچھ غلطیاں جو سرسری نظر سے خیال میں آئی ہیں،بہ طور نمونہ کے ظاہر کر دی جاویں۔اُسی پر بقیہ حصہ کو قیاس کر لیا جا وے گا۔اگر بقیہ کی غلطیوں کا اوسط اِسی حساب سے لگایا جاوے،تو کل ترجمہ کی غلطیاں اس نمونہ سے پندرہ گنی ہوں گی۔ چوںکہ حسب مذاق جواب مذکور ترجمہ اصل اور حواشی تابع ہیں-(چوں کہ حواشی کی غلطیوں کے متعلق حضرت تھانوی کے توجہ دلانے کومترجم مرزا حیرت دہلوی نے در خورِ اعتنا نہیں سمجھا تھا اور ترجمہ کے درست ہونے کے وہم میں مبتلا ہو کرکسی قسم کی اصلاح سے بے نیاز ہو گئے تھے) اس لیے ( ترجمہ و حواشی ،دونوں قسم کی اغلاط کی نشان دہی ضروری قرار پائی ،چناں چہ)ان(ترجمہ و حاشیہ کی غلطیوں ) کی ترتیب میں یہی لحاظ رکھا گیا(کہ پہلے ترجمہ کے اغلاط کی نشاندہی کی گئی،اُس کے بعد حواشی کی غلطیوں کی نشاندہی کے لیے الگ سے عنوان قائم کیا گیا ہے)۔واﷲ ولی الہدایۃ والعاصم من الغوایۃ۔‘‘

اغلاط ترجمہ

۱-مراد ِقرآنی کی تبدیلی :

’’سورہ فاتحہ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ۔ ترجمہ حیرت : نہ ان کی جن پر(تیرا) غضب نازل ہوا۔‘‘

 استدراکِ حکیم الامت:’’ صیغہ مجہول متعدی کا ترجمہ معروف لازم سے کرنا تبدیل مراد ہے۔ ‘‘(۱)

۲-’’سورہ بقرہ۔ رکوع اول۔ اُولٰئِکَ عَلٰی ہُدیً مِنْ رَّبِّہِمترجمہ :اپنے رب کی طرف سے وہی لوگ سیدھی راہ پر قائم ہیں۔‘‘

 استدراک:’ ترکیب نحوی میںمن ربہم صفت ہدی کی ہے۔ اور ترجمۂ مذکورہ میں لازم آتاہے کہ عامل علی کے متعلق ہو ۔اِس میں بھی تبدیل مراد قرآنی ہے اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں۔‘‘(۲)

۳-خلافِ مقصود ہونے کی وجہ سے غلط ہے:

’’ اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوا ۔ترجمہ: البتہ جو لوگ الخ ‘‘

 استدراک:’ ’ لفظ البتہ باعتبار معنی لغوی کے یہاں صحیح ہے ؛ مگر ہمارے بول چال میں یہ لفظ دفع ِشبہ کے لیے مستعمل ہوتاہے جو اس جگہ خلافِ مقصود ہے۔ اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں ۔‘‘  (۳)

۴-غرضِ قرآنی کی تغییر ہے:

  ’’عَلٰی اَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٔ۔ترجمہ:اور اُن کی آنکھوں پر پردہ (ڈال دیا) ہے۔‘‘

 استدراک:’ ’ گو،’’ڈال د یا‘‘ کو بین الہلالین لکھاہے؛ مگر اِس(ڈال دیا لکھ دینے) سے یہ جملہ فعلیہ بن گیا۔ اور قرآن میں جملہ اسمیہ ہے اور قواعد بلاغت کے اعتبار سے ہر ایک کے جد اگانہ آثار ہیں۔ اِس میں غرضِ قرآنی کی تغییر(وتبدیلی) ہے ،اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں۔ (۴)

۵-’’رکوع دوم(دوسرا)وَمَاہُمْ بِمُؤْمِنِیْن۔ ترجمہ: اور اُن کے دل میں ایمان نہیں ہے۔ ‘‘

استدراک:’’ہُمْ ‘‘ اسم ِما ہے۔ اور’’ بِمُؤمِنِیْن‘‘ خبر۔ اور ترجمہ مذکورہ اُس کے مطابق نہیں ۔ اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں۔‘‘(۵)

۶-ترجمہ غلط الفاظ سے کیا گیا ہے:

’’ولٰکِنْ لَّا یَشْعُرُوْن۔ ترجمہ: اور مگر سمجھتے نہیں ۔‘‘

استدراک:’’ اور‘‘’’ مگر‘‘ اہل زبان سے نہیں سنا گیا اور غلط الفاظ سے ترجمہ کرنا غلط ہے ، اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں۔ (۶)

۷-ترجمہ لفظ مرادف سے ہونا چاہیے:

’’فِیْ طُغْیَانِہِمْ ۔ترجمہ: اپنے کفر میں ۔‘‘

استدراک:’’ ترجمہ لفظ مرادف سے ہونا چاہیے اور طغیان اور کفر گو مصداقاً متحد ہوں،مگر اتحاد مفہومی یعنی ترادف نہیں، اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں۔ ‘‘(۷)

۸-ترجمہ درست نہیں:

’’فًمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُہُمْ ۔ترجمہ :سونہ ان کی تجارت نے نفع دیا ۔‘‘

استدراک: ’’ربح لازم ہے نہ(کہ) متعدی ، اسی لیے(یعنی فعل کے لازم ہونے کی وجہ سے ہی،مفسرین کی تفسیروں میں اِس آیت کی) ترکیب میں اسناد ِ مجازی مانی گئی ہے، جس کی حقیقت فَمَا رَبِحُوْافِیْ تِجَارَتِہِمْ ہے ،جس میں متعدی کی صحت کا احتمال ہی نہیں۔ اور ترجمہ مذکورہ میں اس کو متعدی لیا گیاہے ، اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں ۔(۸)

۹- ترجمہ مطابق صیغہ کے ہونا چا ہیے :

’’لایُبْصِرُوْن ۔ترجمہ:اب انہیں کچھ نہیں سوجھتا ۔‘‘

استدراک:’’ چوںکہ یہ ترجمہ مطابق صیغہ کے نہیں،اس لیے صحیح نہیں۔ ‘‘(۹)

۱۰-ترجمہ صحیح نہیں:

’’کُلَّمَا اَضَائَ لَہُمْ ۔ترجمہ :جب ان کے آگے۔‘‘

 استدراک: ’’قرآن میں یہاں کوئی لفظ ایسا نہیں جس کا ترجمہ’’ آگے‘‘(کے لفظ سے) ہو سکے، اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں ۔‘‘(۱۰)

۱۱-ماضی کاترجمہ مضارع سے درست نہیں:

’’  وَلَوْ شَائَ اللّٰہُ۔ ترجمہ: اور اگر اللہ چاہے ۔‘‘

استدراک:’’’لو‘انتفاء فی الماضی (زمانہ ماضی میں نفی )کے لیے ہے ، اس لیے حال یا استقبال کے ساتھ ترجمہ کرنا صحیح نہیں ۔ ‘‘(۱۱)

۱۲-ترجمہ ترکیب کے خلاف ہے:

’’رکوع سوم(تیسرا)۔ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ فِرَاشاً۔ ترجمہ: زمین کا بچھونا۔‘‘

استدراک: ’’ترجمہ ترکیب کے مطابق نہیں ، اس لیے صحیح نہیں۔ ‘‘’’اسی طرح ترجمہ وَ السَّمَائَ بِنَائً کا صحیح نہیں۔ ‘‘(۱۳)

٭’’واُوتُوْ بِہ مُتَشَابِھاً۔ترجمہ: اُنہیں ایک ہی رنگ اور صورت کے میوے ملا کریں گے۔ ‘‘(۱۴)

استدراک:’’ترجمہ مطابق ترکیب و صیغے کے نہیں،جیسا ظاہر ہے۔اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں۔‘‘(۱۵)

۱۳-اہل زبان میں مستعمل نہیں

’’وَمَا یُضِلُّ ۔ترجمہ: (لیکن) اور۔‘‘

استدراک:’’’ لیکن اور‘ اہل زبان میں مستعمل نہیں۔ اس لیے یہ لفظ غلط ہے اور غلط لفظ سے ترجمہ کرنا غلط ہے، اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں۔ ‘‘(۱۶)

۱۴-بلاغت کے خلاف ہے

’’رکوع چہارم(چوتھا)۔ اَنْبِئُوْنِیْ ۔ترجمہ: ہمیں ان چیزوں کے نام بتاؤ ۔‘‘

استدراک:’’ضمیر وحدان کا ترجمہ جمع کے ساتھ مُفَوِّتِ بلا غتِ قرآنی(یعنی قرآنی بلاغت کو ضائع کرنے والی) ہے، اس لیے صحیح نہیں۔‘‘(۱۷)

۱۵-ترجمہ مترادف لفظ سے ہونا ضروری ہے

’’ وَکَانَ مِنَ الْکَافِرِیْنَ: ترجمہ راندۂ درگاہ ہوگیا ۔‘‘

استدراک:’’ گوکافر کے لیے راندۂ درگار ہونا لازم ہے، مگر مفہوم میں اتحاد نہیں، اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں۔‘‘(۱۸)

۱۶-ضمیر کے ترجمہ میں غلطی:

 ’’فَاَزَلَّہُمَا: ترجمہ اور حواکوالخ۔‘‘

استدراک:’’ہُمَا‘‘ضمیر تثنیہ کی ہے نہ(کہ) واحد مؤنث کی جو حواکی طرف راجع کی جاوے ۔ اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں۔‘‘(۱۹)

۱۷-لغوی معنی سے اِنحراف

’’متاع: ترجمہ لطف ِزندگی ۔‘‘

استدراک:’’’متاع‘ کے لغوی معنی میں نہ لطف ماخوذ ہے نہ زندگی ، اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں۔ ‘‘(۲۰)

٭’’رکوع پنجم(پانچواں) اُذْکُرُوا: ترجمہ شکرکرو۔‘‘

استدراک: ’’ذکر کے معنی شکر نہیں اور شکر کا طریقہ ذکر ہونا اور بات ہے؛(لیکن ذکر کے معنی شکر نہیں)اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں ۔‘‘(۲۱)

۱۸-ترجمہ میں مقصود سے تجاوز

’’وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ۔ ترجمہ: اور ( مصیبت کے وقت ) صبر سے کام لو اور نماز ( پڑھو اور خدا) سے دعا مانگو ۔‘‘

استدراک:’’ اضافہ بین الہلالین تفسیر مقصود کے لیے ہوتی ہے،نہ(کہ ) تغییرِ مقصود کے لیے ۔اور یہاں مجموعہ عبارت کے اعتبار سے صلوۃ کا تعلق استعینوا سے نہ رہا جو مقصود ِنظم قرآنی ہے ، اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں۔ ‘‘(۲۲)

۱۹-بغیر ضرورتِ شدیدہ کلام کو مجاز پر محمول کرنا جائز نہیں

’’رکوع ششم(چھٹا)۔ وَاِنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ۔ ترجمہ :اور یہ ( احسان بھی یادکرو) کہ کرتے ہیں :دنیا بھر کے لوگوں سے تمہیں افضل بنایا۔‘‘

 استدراک: ’’ماضی کا ترجمہ حال کے ساتھ مجازی ہے اور بلاتعذر حقیقت کے مجاز جائز نہیں۔ بالخصوص جب کہ انعمت کو ترجمہ میں ماضی مان لیا گیا ہے۔ وہ قرینہ حقیقت کا، اور زیادہ مؤکدہے ،اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں۔‘‘(۲۳)

۲۰-ترکیب کے سمجھنے میں غلطی

’’وَاِذْاٰتَیْنَا مُوْسیٰ الْکِتٰبَ وَالْفُرْقَانَ۔ ترجمہ: اور( اس وقت کو بھی یاد کرو) جب ہم نے موسی کو ( ایک ) کتاب (یعنی توریت) دی (کہ) جو (برے اور بھلے اور حلال حرام میں) تمیز کرداینے والی ہے۔‘‘

استدراک: ’’فرقان ترکیب میں کتب پر معطوف ہے نہ کہ اُس کی صفت، جیساکہ ترجمہ میں قرار دیاہے ، اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں۔‘‘(۲۴)

۲۱-ترجمہ قرآنی لفظ کے مرادف نہیں

’’ فَاقْتُلُْوْا اَنْفُسَکُمْ۔ ترجمہ اپنے آپ کو ہلاک کردو ۔‘‘

استدراک:’’ ہلاک عام ہے غرق وحرؔق و خنقؔ وہدمؔوسمؔ وغیر ہاکو اور قتل خاص ہے ۔دونوں کے مفہوم میں تغایر ہوا۔ اور ترجمہ مرادف کے ساتھ چاہئے ، اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں ۔‘‘(۲۵)

۲۲-ترجمہ غلط ہے

’’ فَاَخَذَ تْکُمُ الصّٰعِقَۃُ۔ترجمہ :تمہیں آگ نے آلیا ۔‘‘

استدراک:’’ صاعقہ آواز شدید کو کہتے ہیں ،نہ کہ آگ کو۔ اور نار کا اقتران اور بات ہے ، اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں۔ ‘‘(۲۶)

٭-’’رکوع ہفتم (ساتواں)۔وَلاتَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِین۔ترجمہ: اور زمین میں فساد برپاکرتے ہو ئے مت پھر و۔‘‘

استدراک: ’’عثی یعثی کے معنی افسد یفسد کے ہیں، نہ کہ پھر نے کے ۔ اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں۔ ‘‘(۲۷)

٭-’’مِنْ بَقْلِہَا۔ ترجمہ: (عمدہ) ترکاری (جیسے پودینہ)‘‘

استدراک:’’ چوںکہ عربی میں ’’بقل ‘‘عام ہے ماکول وغیرماکول کو۔ اور مرادبیان ماکول ہے، اس لیے بعض مفسرین نے بیان مراد کے لیے اطائب تُوْکَل ( کھائی جانے والی ترکاریاں)کی قید لگا دی ہے اور تمثیل میں نعناع وکرفس وکراث ذکر کرکے واشباہھا کہہ دیا ہے جس میں سب ماکولات آجاویں ۔ ہمارے محاورہ میں لفظ ترکاری ’’اطائب توکل‘‘ کے معنی کا فائدہ دیتاہے۔ اس لیے ترکاری سے ترجمہ کرنا بالکل کافی وافی ہے ۔پھر اس میں عمدہ کی قید اور تمثیل میں پودینہ کی تخصیص ،یہ معنی مقصود کے اکثر افراد کو نکال دیتی ہے، جس میں تفسیر مراد ہے ۔ اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں۔ ‘‘(۲۸)

٭-’’رکوع ہشتم (آٹھواں)۔ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ۔ ترجمہ: خدا مجھ کو اپنی پناہ میں رکھے۔‘‘

استدراک: ’’اگر اعاذنی اﷲ ہو تا،تو اُس کا یہ ترجمہ صحیح تھا۔(موجودہ) صیغہ وترکیب ِموجود کا یہ ترجمہ صحیح نہیں۔ ‘‘

٭-’’رکوع نہم (نواں)۔ کَذَالِکَ یُحْیِ اللّٰہُ الْمَوْتیٰ وَیُرِیْکُمْ اٰیٰتِہ۔ ترجمہ: اس طرح اللہ مردوں کوجلاتا اور تم کو اپنی نشانیاں دکھاتاہے۔‘‘

استدراک:’’ اگر احیائِ موتی کافی الحال مشاہدہ ہواکرتا، تو ( یُحْیِ  کا)حال کا ترجمہ صحیح تھا۔ یہاں استقبال کا صیغہ مراد ہے۔ خطاب منکرین احیاء کو ہے کہ جس طرح ہم نے قصیۂ مذکورہ میں زندہ کردیا، اُسی طرح قیامت میں سب مردوں کو زندہ کردینگے البتہ’’ یُرِیکم‘‘ کا ترجمہ حال کے ساتھ صحیح ہے۔کیوںکہ ’’اٰیت‘‘ کے معنی نمونے کے ہیں اور مراد اِس سے یہ قصہ احیا ء کاہے ۔کہ نمونہ احیائِ موتی کا ہے اور اُس کا مشاہدہ ہوچکا ہے ۔ اس لیے اس کا ترجمہ حال سے صحیح ہے۔ بخلاف ترجمہ  یُحْیِ کے(کہ لفظ یحی کاحال کا ترجمہ صحیح نہیں،) جیسا گذرا۔ اِس لیے یہاںیحی کا ترجمہ صحیح نہیں ۔‘‘(۲۹)

۲۳-ترجمہ غلط ہے

’’فَوَیْلٌ لَّہُمْ۔ دوجگہ ترجمہ تف اور پھٹ۔‘‘

 استدراک:’’ کلمہ’’ ویل ‘‘تَفَجُّع وحزن کے لیے ہے نہ(کہ) تنفیر اور تحقیر(نفرت و حقارت) کے لیے۔ اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں۔‘‘(۳۰)

٭-’’مَنْ کَسَبَ سَیِّئَۃً ۔ترجمہ: جس نے (عمربھر) برائی کی۔‘‘

استدراک:’’ عمر بھر کی قید بلادلیل ؛بلکہ خلاف دلیل ہے۔ جب مدار وعید کا کسب سئیۃ پر ہے(تو) جب علت پائی جاویگی ،معلول پایا جاویگا۔ خواہ ایک بار ہو،یا عمر بھر ہو۔اگر معتزلہ وخواج کا جواب دینا مقصود ہے، تو یہ توجیہ کافی نہیں ہوئی؛ بلکہ بعض افراد عاصی کا جوکہ عمر بھر مرتکب معاصی کارہے، مخلد رہنا تسلیم کرلیاگیا ۔اور یہ عین مذہب فرقِ مذکورہ کا ہے ۔ اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں۔ ‘‘(۳۱)

٭-’’رکوع دہم(دسواں)۔ تُظٰہِرُوْنَ عَلَیْہِمْ۔ ترجمہ :چڑھائی کرکے جاتے ہو۔‘‘

استدراک: ’’’ تظاہر‘بہ معنی تعاون ہے، نہ بہ معنی چڑھائی۔ اگر کوئی اپنی ہی مصلحت کے لیے دشمن پر چڑھ کر جاوے اپنے کسی دوست کی مدد مقصود یا موجود نہ ہو، چڑھائی صادق آوے گی، تعاون صادق نہ آوے گا۔ پس یہ دونوں علیحدہ علیحدہ مفہوم ہیں۔ اس لیے یہ ترجمہ لغت کے خلاف ہونے کی وجہ سے صحیح نہیں ۔‘‘(۳۲)

۲۴-موصوف صفت کو مضاف مضاف الیہ بنا دیا گیا

’’فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنیا ۔ترجمہ: دینا کی چند روزہ زندگی میں ۔‘‘

استدراک: الحیواۃ الدنیا موصوف صفت ہیں اور ترجمہ مضاف مضاف الیہ کا کیا گیا ہے۔ اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں۔(۳۳)

۲۵-مفعول مطلق کو مرفوع بنا دیا گیا

’’رکوع یازدہم(گیارہواں) فَقَلِیْلاً مَّایُؤمِنُوْن۔ ترجمہ :ایمان والے ہی قلیل ہیں۔‘‘

 استدراک:’’ قلیل مرفوع نہیں ہے جو اس ترجمہ کا احتمال ہو، بلکہ منصوب ہے۔ یومنونکا مفعول مطلق ۔پس تقلیل ایمان کی مقصود ہے نہ اہل ایمان کی۔ اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں ۔‘‘(۳۴)

۲۶-غیرمعقول ترجمہ

’’ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْہم۔ ترجمہ: اور اُن اعمال بد کی وجہ سے جن کو اُن کے ہاتھوں نے گناہوں کا پیش خیمہ بنا کرآگے بھیجا ہے۔‘‘

 استدراک:’’اگر ’جن کو ‘نہ ہوتا، تو ’پیش خیمہ‘ کی اضافت گناہوں کی طرف بیانیہ ہو سکتی تھی ۔اوراب یقیناً مضاف مضاف الیہ متغائرہیں۔پس لازم آتا ہے کہ گناہ اور چیزہیں اور اُن کا پیش خیمہ کچھ اور۔ اور یہ محض غیر معقول ہے ، اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں ۔‘‘(۳۵)

۲۷- ترجمہ درست نہیں

٭-’’رکوع دوازدہم(با رہواں) نَزَّلَہ عَلٰی قَلْبِک۔ ترجمہ: تمہارے دل میں ڈالا ہے ۔‘‘

 استدراک:’’ ’تنزیل ‘کا ترجمہ’ ڈالنا‘ اور ’علی‘ کا ترجمہ ’میں ‘صحیح نہیں ۔ ‘‘(۳۶)

۲۸-موقعِ شرط میں مضارع کا ترجمہ ماضی سے درست نہیں

’’رکوع سیزدہم (تیرہواں)۔ مَنْ یَتَبَدَّلِ الْکُفْرَ بِا لْاِیْمَانِ: ترجمہ جس نے ایمان کے عوض کفر بدل لیا۔‘‘

  استدراک:’’’ ْ یَتَبَدَّل‘ خود صیغہ مضارع کا ،پھر موقع شرط میں کسی طرح ماضی کامحتمل نہیں، اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں ۔ ‘‘(۳۷)

۲۹-مفعول بہ کو مفعول فیہ بنا دیا گیا

’’رکوع چہاردم(چودہواں)۔ مَنَعَ مَسَاجِدَ اللہِ۔ ترجمہ: اللہ کی مسجدوں میں اللہ کا نام لیے جانے سے لوگوں کو روکے ۔‘‘

استدراک:’’ مساجد مفعول فیہ نہیں ہے؛ بلکہ مفعول بہ ہے ، اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں ۔‘‘(۳۸)

۳۰-مضمون غیر مرتبط ،مرجع و مشار الیہ کی تعیین میں غلطی

’’اُولٰئِکَ مَاکَانَ لَہُمْ الخ:۔ترجمہ :اُن لوگوں کی خودیہ شان نہ تھی کہ اُس میں یعنی بیت المقدس میں جائیں ؛مگر ڈرتے ہوئے ،چہ جائے کہ مسلمانوں کو روکیں اور اُس کی بے حر متی کریں۔‘‘

 استدراک:’’ مسلمانوں کو روکنے والے مشرکین مکہ تھے اور اُن کو بیت المقدس سے کوئی تعلق نہیں۔ اور بیت المقدس میں جانے والے یہود یا نصاریٰ تھے اور ان کا روکنا مسلمانوں کو آیت میں مذکورہ نہیں۔ اس لیے یہ مضمون بالکل غیر مرتبط ہے۔ پس یایَدْ خُلُوْہامیں ضمیر منصوب کا مرجع غلط سجمھے یا اولئک کا مشارالیہ غلط سجمھے ۔بہر حال یہ ترجمہ صحیح نہیں۔ اور یہ ظاہرہے کہ لفظ مسلمان کا اطلاق عرف خاص وعرف عام میں صرف مؤمنین امت محمد یہ ہی پر آتاہے ۔‘‘(۳۹)

۳۱-ترجمہ میں تساوی مفہوم ضروری ہے اور تفسیر میں ایضاحِ مراد

  ’’وَاسِعٌ۔ترجمہ: فراخ رحمت والا۔‘‘

استدراک:’’واسع کا مفہوم مطلق ہے ۔رحمت اُس کا جز نہیں ۔اور کسی مفسر کا واسع الرحمۃ کہہ دینا ، اس لیے حجت نہیں کہ ترجمہ میں تساوی مفہوم ضروری ہے اور تفسیر میں ایضاح مراد،خواہ کسی طرح ہو۔ اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں۔ ‘‘(۴۰)

۳۲-ترجمہ نادرست ہے

٭-’’رکوع پانزدہم(پندرہواں)۔ مَثَابَۃً۔ ترجمہ: زیارت گاہ۔‘‘

استدراک:’’ ثاب یثوب بمعنی رجع یرجع کے ہے، نہ(کہ) زار یزور کے۔ اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں اور زیارت کی غرض ہونا اور بات ہے۔ ‘‘(۴۱)

٭-’’رکوع ہفدہم (سترہواں)۔ فَلَیُوَلِّیئنک ۔ترجمہ: ہم اُسی کا حکم دیدیں گے ۔ ‘‘

استدراک:’’تولی یا بمعنی تحویل یا بمعنی تمکین بمعنی حاکم کردن نہ بمعنی حکم دادن جیساکہ ترجمہ سے لازم ہے ۔ اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں ۔‘‘(۴۲)

۳۳- قرآن کے مضمون پر اِضافہ ہے

’’اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّک ۔ ترجمہ: جو تمہارا رب کہے حق وہی ہے۔ ‘‘

استدراک:’’ یہاں کوئی لفظ ایسا نہیں جس کے معنی کہنے کے ہوں۔ یہ زیادۃ علی الکتاب ہے ۔ اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں۔ ‘‘(۴۳)

۳۴- ’واو‘اور ’بل‘مرادف نہیں،اس لیے ترجمہ غلط ہے

’’رکوع بستم(بیسواں)۔وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا اَشَدُّ حُبّاًلِلّٰہِ۔ترجمہ :بلکہ ایمان والوں کو خدا کی محبت زیادہ ہوتی ہے۔ ‘‘

 استدراک:’’نہ’ واو‘ مرادف بل کا ہے ،نہ مقام ترقی یا اعراض کا ہے کہ مجازا مراد لیا جائے۔اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں۔ ‘‘(۴۴)

۳۵-’’ولو یری الذین ظلموا۔ترجمہ اور اگر کوئی ظالموں کو اس وقت دیکھے الی قولہ اپنی گذشتہ غلط کا ریوں پر سخت نادم ہوں گے۔‘‘

 استدراک:’’چوںکہ اِس جزا کو شرط کے ساتھ کوئی ربط نہیں، اس حیثیت سے یہ ترجمہ صحیح نہیں۔ ‘‘(۴۵)

۳۶-معنی میںبے وجہ تخصیص درست نہیں

’’رکوع بست ودوم ۔اولئک الذین صدقوا۔ترجمہ: یہ ہی لوگ راست گوہیں۔‘‘

استدراک:’’ یہاں صدق قول وفعل دونوں کو عام ہے تخصیص کی کوئی وجہ نہیں ۔ اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں ۔‘‘(۴۶)

۳۷-بالمعروف کا ترجمہ غلط کیا گیا ہے

’’ والاقربین بالمعروف۔ ترجمہ: اور رشتہ داروں کو حصہ رسد وصیت کرجاوے۔‘‘

استدراک:’’’بالمعروف‘ کا مفہوم حصہ رسد نہیں ، اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں ۔‘‘(۴۷)

۳۸-ترجمہ تعلیلی کیا گیا ہے جو نا درست

’’ فَلا اِثْمَ عَلَیْہ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ ترجمہ: پھر اس پر کوئی گناہ نہیں۔ (اس لیے)کہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘

استدراک:’’ یہاں کوئی حرف تعلیل کا نہیں- جس کا ترجمہ (اس لیے کہ) کیا گیا ہے-نہ مقام مقتضی : بلکہ نہ قابل تعلیل ہے(علت بننے کا موقع اور گنجائش بھی نہیں۔ف) کیوںکہ غفور یۃ علت عدم اثم کی نہیں ہوسکتی؛ بلکہ غفور یۃ کا اثر رفعِ اثم ہے جو خود مستلزم اثم کو ہے ، اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں۔‘‘ (۴۸)

۳۹-معنی درست نہیں

’’رکوع بست وسوم(تیئیسواں)۔ فَتَابَ عَلَیْکُمْ۔ ترجمہ :تم پر تخفیف کردی ۔‘‘

استدراک:’’’ تو بہ‘ کے معنی تخفیف کے کسی طرح درست نہیں، اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں۔ اور تحقق توبہ کا ضمن تخفیف میں اور بات ہے ۔‘‘(۴۹)

 ۴۰- تخصیص بے وجہ اورمضر ہے

’’ وََلَاتُبَاشِرُوْہُنَّ ۔ ترجمہ: اُن سے ہم بستر نہ ہونا۔‘‘

استدراک:’’ ’مباشرت‘ لغت میں بھی اور مقام ِبیانِ احکامِ اعتکاف میں بھی عام ہے وطی اور لمس وقبلہ(جماع اورچھونے ، بوسہ لینے) کو ۔یہ تخصیص مخص بلاوجہ؛ بلکہ مضر وموہمِ تخصیص ِمنہی عنہ ہے، اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں۔ ‘‘(۵۰)

   ۴۱-افعل التفضیل کی رعایت نہیں ہوئی

’’رکوع بست وہفتم(ستائیسواں)۔ اَکْبَرُ عِنْدَ اللّٰہِ۔ ترجمہ: اللہ کے نزدیک بڑاگناہ ہے ۔‘‘

 استدراک:’’یہ ترجمہ کبر کا ہوسکتاتھا،نہ(کہ) اکبر کا(جو) کہ افعل التفضیل ہے۔ چناںچہ اسی آیت میں اکبر من القتل کے ترجمہ میں اس کی رعایت ہے ( چوں کہ افعل التفضیل کی رعایت سے ترجمہ نہیں ہوا، )اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں۔ ‘‘(۵۱)

۴۲-ترجمہ میں الفاظ کی خصوصیات کا لحاظ ضروری ہے

’’رکوع بست دہشتم(اٹھائیسواں)۔ اَنْ تَبَرُّوْا۔ ترجمہ :سلوک کردن ۔‘‘

 استدراک:’’ یہ حاصل معنی ـضروری ہے ،مگر ترجمہ میں الفاظ کی خصوصیات کا لحاظ ضروری ہے اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں۔‘‘(۵۲)

۴۳-غیر مقلدی یہ ہی ہے

’’بِالَّغْوِ فِیْ اَیْمَانِکُمْ۔ترجمہ: بیہودہ قسم پر جو سبقت زبان سے نکل جاتی ہے ۔ ‘‘

استدراک: ’’یہ تفسیر مذہب حنفیہ کے خلاف ہے ۔ اور اِس سے قریب ہی قروء کی تفسیر حنفیہ کے موافق کی ہے۔ غیر مقلدی یہ ہی ہے۔ ‘‘(۵۳)

 ۴۴-اِجماعِ مرکب کے خلاف کا اِیہام

’’رکوع سی ام(تیسواں) علی الوارث۔ ترجمہ اور دودھ پلانے کا خرچ اگر باپ مرجاوے ،تو ایسا ہے اُس کے وارث پر ہے ۔‘‘

 استدراک:’’ متبادر،عبارت سے یہ ہے کہ باپ کے مرنے کے بعد بچہ کے علاوہ  باپ کا کوئی وارث بچہ کا کفیل ہوگا۔پس اگر یہ ہی مطلب ہے،تو غلط ہے۔کیوں کہ اِجماعِ مرکب سے یہ ثابت ہے کہ یا خود بچہ کے مال میں کہ وہ  باپ کا وارث ہے،یا بچہ کے وارث کے ذمہ یہ اِنفاق واجب ہے۔ اور اگر عبارت مذکورہ کا کچھ اور مطلب ہے جو اس اِجماع کے کسی جزوپر منطبق ہوسکے، تو اُس کی توضیح ضروری تھی کہ ایہام خلافِ مقصود کا نہ ہوتا۔ اس اعتبار سے یہ ترجمہ صحیح نہیں۔ ‘‘(۵۴)

۴۵-’’رکوع سی ویکم (اکتیسواں)مَتِّعُوْہُنَّ ۔ اِس کا ترجمہ چھوڑدیا گیا ہے یہ بہت بڑی غلطی ہے۔‘‘

۴۶-’’ التابوت۔ ترجمہ: ایک صندوق۔‘‘

 استدراک: ’’چوںکہ اس میں الف عہد کاہے اور یہ ترجمہ اس کے خلاف ہے اس لیے یہ ترجمہ غلط ہے ۔‘‘ (۵۵)

۴۷-’’رکوع سی وسوم(تینتیسواں) غُرْفَۃ ً ۔ ترجمہ: ایک آدھ چلو پانی ۔‘‘

استدراک:’’ ایک آدھ ہمارے محاورہ میں متعدد قلیل کے لیے موضوع ہے اور غرفہ میں وحدتِ محض مقصود ہے ، اس لیے یہ ترجمہ غلط ہے۔‘‘(۵۶)

                                                (اصلاحِ ترجمہ مرزا حیرت:ص۱-۱۰)

ًًًًًًًًًًًًًًًــــــــًًًًًًًًًًًًًًًًًًًََََََََََََََََََََََََََََََََََََََِِِِِ


حواشی:تمام حواشی بیان القرآن :ج۱، تاج پبلشرز دہلی ۱۹۷۴ ء ری پرنٹ ۱۹۹۴ء سے ماخوذ ہیں۔

(۱)’’نہ رستہ اُن لوگوں کا جن پر آپ کا غضب کیا گیا۔‘‘(ص۲)۔(۲)’’بس یہ لوگ ہیں ٹھیک راہ پر جو اُن کے پروردگار کی طرف سے ملی ہے۔‘‘لفظ’’بس‘‘پر حاشیہ لکھا ہے کہ ’’بس ہماری زبان میں ثمرۂ کلام پر داخل کیا جاتا ہے۔لہذا اِشارہ اِس طرف ہے کہ‘‘( ص۴)۔(۳)’’بے شک جو لوگ کافر ہو چکے ہیں‘‘( ص۴)۔ (۴)’’ اُن کی آنکھوں پر پردہ ہے۔‘‘( ص۵)۔(۵)’’حالاں کہ وہ بالکل ایمان والے نہیں۔‘‘( ص۷)۔ (۶)’’لیکن وہ اِس کا شعور نہیں رکھتے۔‘‘(ص۸)۔(۷)’’وہ اپنی سر کشی میں حیران سرگرداں ہو رہے ہیں۔‘‘( ص۹)۔(۸)’’تو سود مند نہ ہوئی اُن کی یہ تجارت۔‘‘( ص۹)۔(۹)’’کہ کچھ دیکھتے بھالتے نہ ہوں۔‘‘(ص۹)۔(۱۰)’’جہاں ذرا اُن کو بجلی کی چمک ہوئی‘‘( ص۱۱)۔(۱۱)’’اور اگر ا ﷲ تعالی ارادہ کرتے‘‘(ص۱۱)۔(۱۵)’’اور ملے گا بھی اُن کو دونوں بار کا پھل ملتا جلتا۔‘‘(ص۱۳)۔(۱۷)’’بتلاؤ مجھ کو اسماء ان چیزوں کے‘‘(ص۱۹)۔(۱۳)مرزا حیرت دہلوی کا اصل ترجمہ میرے سامنے نہیں ہے۔ اس لیے یہ پتہ نہیں کہ مترجم نے سماء اور بناء کا سیاق و سباق میں کیا ترجمہ کیا تھا ؟قواعد کے مطابق بیان القرآن میں دونوں آیتوں کا ترجمہ اِس طرح ہے:’’بنایا تمہارے لیے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت‘‘(ص۱۱)۔(۱۸)’’اور ہو گیا کا فروں میں سے‘‘(ص۲۲)۔(۱۹)’’پس لغزش دے دی آدم و حوا کو شیطان نے‘‘(ص۲۳)۔(۲۰)’’اور کام چلانا‘‘(ص۲۳)۔(۲۱)’’یاد کرو تم لوگ‘‘(ص۲۶)۔(۲۲)’’اور مدد لو صبراور نماز سے‘‘(ص۲۸)۔(۲۳)’’اوراس (بات)کو(یاد کرو) کہ میں نے تم کو(خاص خاص برتاؤ میں) تمام دنیا جہاںوالوں پر فوقیت دی تھی۔‘‘اور یہ ترجمہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’میں نے تم کو ایک بڑے حصہ مخلوق پر فوقیت دی تھی(مثلاً اُس زمانہ کے لوگوں پر)‘‘(ص۲۹)۔(۲۴)’’اور(وہ زمانہ یاد کرو )جب دی ہم نے موسی(علیہ السلام)کو کتاب(توریت)اور فیصلہ کی چیز‘‘(ص۳۱)۔(۲۵)’’بعض آدمیوں کو(جنہوں نے گوسالہ پرستی کی)قتل کرو‘‘(ص۳۲)۔(۲۶)’’سو (اس گستاخی پر )آ پڑی تم پرکڑک بجلی)‘‘(ص۳۲)۔(۲۷)’’اورحدِ(اعتدال)سے مت نکلو فساد (و فتنہ)کرتے ہوئے سر زمین میں‘‘(ص۳۵)۔ (۲۸)’’ساگ‘ ‘ (ایضاً:ج۱ص۳۵)۔(۲۹)’’اسی طرح حق تعالی(قیامت میں)مردوں کو زندہ کر دیں گے‘‘( ص۴۰)۔(۳۰)’’سو بڑی خرابی(پیش)آوے گی ان کو۔‘‘(ص۴۳)۔(۳۱)’’جو شخص بری باتیں کرتا رہے اور اُس کو اُس کی خطا(و قصور اس طرح)احاطہ کر لے(کہ کہیں نیکی کا اثر تک نہ رہے)‘‘(ص۴۴)۔(۳۲)’’(اس طور پر کہ)اُن اپنوں کے مقابلہ میں(اُن کی مخالف قوموں کی)امداد کرتے ہو‘‘(ص۴۵)۔(۳۳)’’بجز رسوائی کے دنیوی زندگانی میں‘‘(ص۴۶)۔(۳۴)’’سو بہت ہی تھوڑا سا ایمان رکھتے ہیں‘‘(ص۴۷)۔(۳۵)’’بہ جہوجہإ (خوفِ سزا)اُن اعمال (کفریہ)کے جو اپنے ہاتھوں سمیٹے ہیں‘‘(ص۵۰)۔۔(۳۶)’’اُنہوں نے یہ قرآن آپ کے قلب تک پہنچا دیا ہے‘‘(ص۵۲)۔(۳۷)’’جو شخص بجائے ایمان لانے کے کفر (کی باتیں)کرے‘‘(ص۵۹)۔(۳۸)’’جو خدا تعالی کی مسجدوں میں(جس میں مکہ کی مسجد،مدینہ کی مسجد ،بیت المقدس کی مسجد اور سب مسجدیں آ گئیں)اُن کا ذکر(اور عبادت)کیے جانے سے بندش کرے‘‘(ص۶۲)۔(۳۹)’’اِن لوگوں کوو تو کبھی بے ہیبت(اور بے باک)ہوکران(مساجد)میں قدم بھی نہ رکھنا چا ہیے تھا(بلکہ جب جاتے،تو نہایت  عظمت و حرمت و ادب سے جاتے۔جب بے باک ہو کر اندرجانے تک کا اِستحقاق تک نہیں،تو اُس کی ہتکِ حرمت کا تو کب حق حاصل ہے؟اِسی کو ظلم فرمایا گیا۔) ‘‘(ص۶۲)۔(۴۰)’’ا ﷲ تعالی(خود تمام جہات اور اشیاء کو)محیط ہیں‘‘(ص۶۳)۔(۴۱)’’معبد‘‘(ص۶۹)۔(۴۲)’’اس لیے ہم (وعدہ کرتے ہیں کہ)آپ کو اُسی قبلہ کی طرف  متوجہ کر دیں گے جس کے لیے آپ کی مرضی ہے‘‘(ص۸۲)۔(۴۳)’’یہ امر واقعی من جانب ا ﷲ(ثابت ہو چکا)ہے‘‘(ص۸۳)۔(۴۴)’’اور جو مومن ہیں اُن کو(صرف)ا ﷲتعالی کے ساتھ نہایت قوی محبت ہے‘‘(ص۹۲)(۴۵)’’اور کیا خوب ہو تا اگر یہ ظالم(مشرکین)جب(دنیا میں)کسی مصیبت کو دیکھتے،تو(اُس کے وقوع میں غور کرکے)یہ سمجھ لیا کرتے کہ سب قوت حق تعالی ہی کو ہے(اور دوسرے سب اُس کے سامنے عاجز ہیں…)‘‘(ص۹۲،۹۳)۔(۴۶)’’یہ لوگ ہیں جو سچے(کمال کے ساتھ موصوف )ہیں‘‘(ص۹۹)۔(۴۷)’’معقول طور پر(کہ مجموعہ ایک ثلث سے زیادہ نہ ہو)کچھ کچھ بتلا جاوے(اِس کا نام وصیت ہے)‘‘(ص۱۰۱)۔(۴۸)’’تو اُس (شخص)پرکوئی(بار)گناہ نہیں ہے (اور)واقعی ا ﷲ تعالی تو (خودگناہوں کے)معاف فرمانے والے ہیں ‘‘(۱۰۱)۔(۴۹)’’خیر(جب تم معذرت سے پیش آئے ،تو )ا ﷲتعالی نے تم پر عنایت فرمائی اور تم سے گناہوں کو دھو دیا۔‘‘(۱۰۵)(۵۰)’’اور اُن بیبیوں(کے بدن سے)سے اپنا بدن بھی(شہوت کے ساتھ)مت ملنے دو‘‘(ص۱۰۶)۔(۵۱)’’جرم اعظم ہیں ا ﷲ تعالی کے نزدیک‘‘(ص۱۲۳)۔(۵۲)’’کہ تم نیکی کے‘‘(ص۱۲۹)۔(۵۳)’’ا ﷲ تعالی تم پر( آخرت میں)دارو گیر نہ فرماویں گے تمہاری قسموں میں(ایسی)بیہودہ قسم پر(جس میں بلا قصد جھوٹ بولا گیا)‘‘(ص۱۳۰)۔(۵۴)’’اور(اگر باپ زندہ نہ ہوتو)مثل طریقِ مذکور کے(بچہ کی پرورش کا انتظام)اُس(محرم قرابت دار)کے ذمہ ہے جو(شرعاً بچہ کے)وارث(ہونے کا حق رکھتا)ہو۔‘‘ (ص۱۳۷)۔(۵۵)’’وہ صندوق‘‘(ص۱۴۷)۔(۵۶)’’ایک چلو بھرے‘‘(ص۱۴۹)

اغلاط حواشی

(تفسیری حواشی سے متعلق اغلاط)

[حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے مرزا حیرت دہلوی کے ترجمہ قرآن کی متذکرہ بالا غلطیاں شمار کرانے کے ساتھ یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ:’’ہر چند کہ اِن میں بعضی غلطیاں ایسی ہیں جن سے چشم پوشی ہو سکتی تھی ؛مگر چوں کہ مترجم صاحب اِس سے خفیف غلطیوں پر بعض مترجمین سے مواخذہ کر چکے ہیں،اس لیے اُن کے قاعدۂ مسلمہ کے موافق یہ سب اغلاط دارو گیر کے قابل ہیں۔اور پھر بھی ہم نے عمداً بہت سی لغزشوں سے تعرض نہیں کیا۔‘‘سطورِ ذیل میں مرزا حیرت کے ترجمہ قرآن میں مندرج تفسیری حواشی سے متعلق غلطیاں پیش کی جا تی ہیں۔غلطیاں ذکر کرتے وقت حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ صفحہ،سطر کا حوالہ بھی دیتے گئے ہیں ۔اگرچہ مرزا حیرت دہلوی کا مذکورۃ الصدر ترجمہ و تفسیری حواشی اس وقت بازار میں نا پیدہیں؛اِس کے باوجود مصلحت کا تقاضا ہوا کہ اُنہیں باقی رکھا جائے (چناں چہ اُنہیں -حواشی میں -درج کر دیا گیا ہے) تاکہ جس کسی کو ترجمۂ حسرت دستیاب ہو سکے ،اُس کے لیے مقابلہ کرکے دیکھنے کی سہولت مہیا رہے۔ ف]

۱- حقائق کے بیان میں غلطی

تفسیرحیرت:’’چھٹا نام وافیہ ہے۔ اِس سے پایا جاتاہے کہ نماز معراج مومن ہے ‘‘۔(۱)

 استدراک حکیم الامت : ’’اسم اور وجہ تسمیہ میں مناسب تو ہوناچاہئے ۔ یہاں اُس کا نشان بھی نہیں۔‘‘

  تفسیر حیرت :’’ علم حقیقت اُس علم کو کہتے ہیں الخ۔‘‘(۲)

 استدراک حکیم الامت :’’اس تفسیر کا کیا مطلب اور کیا سند؟‘‘

  تفسیر حیرت :’’علم شریعت کی دوقسمیں الخ۔‘‘(۳)

استدراک حکیم الامت :’’ اصول عقائد کیا چیز ہیں؟ فروع عقائد کیا چیز ہیں ؟پھر علم شریعت کا اِن میں انحصار کیا معنی ؟‘‘

۲- اِمکان کی نفی نیز قدرت باری تعالی کی نفی

 تفسیر حیرت :’’جب تک ہم میں جلب منفعت کی قوت نہ ہوگی ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتا ۔‘‘(۴)

 استدراک حکیم الامت :’’ نہیں پہنچاسکتا میں امکان وقدرت کی نفی ہوئی۔ حالاںکہ اِنّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَئْیِِ قَدِیْرِ(۵) نص قطعی ہے۔ یہ اشتراطِ قابلیت خاص فلاسفہ اور معتزلہ کا مذہب ہے جوصریح خلاف ِقرآن وخلاف ِعقل ہے۔‘‘

 ۳-  غلط معنی کی موہم تفسیر

تفسیر حیرت :’’ بن دیکھی چیز وںپر۔الی قولہ: کاش میں ان سے ملتا ۔‘‘(۶)

استدراک حکیم الامت :’’اِس سے تو یہ لازم آتاہے کہ صحابہ بن دیکھی چیز وں پر ایمان والے اور الذین یؤمنون بالغیب میں داخل نہ تھے۔ نعوذ باللہ منہ۔‘‘

۴- فطرت پرستوں کی موافقت کرنے والی تفسیر

 تفسیر حیرت :’’صالحات اُن اعمال مستقیمہ کو کہتے ہیں جن کا ثبوت عقلی دلائل اور کتاب وسنت سے ہواہو۔‘‘(۷)

 استدراک حکیم الامت :’’ ظاہر عبارت سے متبادر یہی ہے کہ اُن کی استقامت پر تینوں دلائل قائم ہوں۔ اِس سے لازم آتاہے کہ جو محض دلیل نقلی سے ثابت ہواہو ،وہ عمل صالح نہیں ۔ حالاںکہ اکثر فروع شرعیہ اسی قبیل سے(دلیل نقلی سے ثابت شدہ ) ہیں یہ صاف مسلک فطرت پر ستانِ حال کا ہے۔ اور اگر کچھ تاویل کی جاوے تب بھی ایہام باطل کے الزام سے سبکدوشی نہیں ہوسکتی ۔ ‘‘

۵-   خوارج اور معتزلہ کے مذاہب کے ایہام والی تفسیر

تفسیر حیرت : ’’مگر اصطلاح شرع میں الخ‘‘(۸)

 استدراک حکیم الامت :’’مقسم کا اقسام پر صادق آنا ضروری ہے ۔جب مقسم میں خروج عن الطاعۃ کو گناہ کبیرہ کے ساتھ مقید کرلیاگیا،پھر جن چیزوں پر ایما ن لانا واجب ہے اُن کا انکار کہ یقیناً کفر ہے،(تویہ کفر) اس(گناہِ کبیرہ) کی قسم کیوںکر بن سکتی ہے ؟کیوں کہ مرتکب ،کبیر ہ کا مؤمن ہی رہتاہے۔ اور اُس کو کافر جانناخوارج کا مذہب ہے۔ اور خارج ازایمان غیر داخل فی الکفر ماننا معتزلہ کا مذہب ہے ۔‘‘

 ۶-تفسیر ،جس میں نوبت کفر تک پہنچ گئی

 تفسیر حیرت :’’ خداوندتعالیٰ کی نسبت ہدایت اور ضلالت کا آناالخ ۔ ‘‘

استدراک حکیم الامت : ’’خداتعالیٰ کی طرف ہدایت کی نسبت تو(خود قرآن میں ) بہت جگہ آئی(ہے)؛ مگر نعوذبا للہ ضلالت کی نسبت کہیں نہیں آئی ۔ضلالت کے معنی گمراہ ہونے کے ہیں نہ (کہ )گمراہ کرنے کے۔ اِس قول میں اتنی بڑی غلطی کی ہے کہ کلمۂ کفر تک نوبت پہنچ گئی ہے۔‘‘(۹)

۷- بد شعوری پر مبنی تفسیر

تفسیر حیرت :’’ تعجب کرکے فرماتاہے ۔‘‘ (۱۰)

 استدراک حکیم الامت : ’’صدور تعجب کا حق جل وعلاشانہ سے محال ہے ۔کیوں کہ اِس کا منشاء جہل ہے تَعَالی اللّٰہُ عَنْ ذٰلِکَ عُلُوًّا کَبِیْرًا(اﷲ کی شان اِس سے بہت بہت بلند ہے) ۔

۸- دعوی اور اُس کا منشا دونوں غلط

 تفسیر حیرت :’’ جیساکہ خداتعالیٰ کایہ قول الحمدللہ الی قولہ :اس پر دلالت کرتا ہے۔‘‘(۱۱)

استدراک حکیم الامت :’’’واو‘محض عطف کے لیے ہے۔ترتیب کا اُس میں لحاظ نہیں۔اِس لیے اِس دلالت کا دعوی محض غلط ہے‘‘ ۔

۹- منشائے تفسیر باطل ہے

  تفسیر حیرت :’’ نسیان اگر چہ اس الخ ‘‘(۱۲)

استدراک حکیم الامت : ’’یہ مبنی ہے حکما کے قول پر، جس کا منشاء قضیہ کفریہ اَلْوَاحِدُلَایَصْدِرُ عَنْہُ اِلّالْوَاحِدہے۔ پس یہ بناء الفاسد علی الفاسد تفسیر قرآن میں سراسر باطل ہے ۔ ‘‘(۱۳)

۱۰-فاش غلطی

  تفسیر حیرت :’’کسی چیز کا بھول جانا اُس کے ترک کولازم ہوتا ہے۔‘‘(۱۴)

استدراک حکیم الامت :بھول جانا تو ترک کو لازم نہیں ہوتا؛البتہ ترک بھول جانے کولازم ضرور ہے۔ یہ فاش غلطی ہے۔ پھر آگے چل کے اِس قول میں ’’تو جس طرح ملزوم کا لازم میں‘‘ نسیان کو ملزوم اور ترک کو لازم مان لیا ہے جو اوپر کے دعوی کے بالکل خلاف ہے ۔ کلام میں تعارض ہونا، یہ دوسرا فساد ہے۔‘‘

۱۰-متکلم فیہ

 تفسیر حیرت :’’ حضرت موسی اور اُن کے ایک سال بعد حضرت ہارون نے بھی یہیں وفات پائی ۔‘‘(۱۵)

استدراک حکیم الامت :’’ علمائے اسلام نے تصریحاً لکھا ہے کہ حضرت ہارون نے حضرت موسی علیہ السلام سے قبل وفات پائی۔‘‘

۱۱-تخصیص بے دلیل

 تفسیر حیرت :’’ بقل الخ۔‘‘(۱۶)

 استدراک حکیم الامت :’’اول بیل کی قید پردلیل مطلوب ہے۔ پھر پودینہ وغیرہ کا لغت اس میں داخل نہ ہونا جیساکہ لفظ ’’مگر ‘‘اور’’ بھی‘‘ سے معلوم ہوتاہے ،محتاج دلیل ہے ۔‘‘

۱۲-اُغلوطہ

 تفسیر حیرت:’’ نصر ان جیسے ندبان اور نصرانۃ ندمانہ کی جمع ہے ۔‘‘(۱۷)

استدراک حکیم الامت :’’ نصر ان کی جمع  تو بے شک ہے۔مگر نصرانۃ کی جمع کسی نے نہیں کہا جیسا محشی نے کہا ہے ۔‘‘

 ۱۳-الفاظ و تعبیر کی بے احتیاطی بھی ایک مغالطہ

تفسیرحیرت:’’اور تمام عمر نیک اعمال میں گذار دی ۔‘‘ (۱۸)

استدراک حکیم الامت :’’ تو اِس حساب سے جو صحابہ یا دوسرے مسلمان جدید الاسلام ہیں،نعوذُ با ﷲ وہ مستحقِ جنت نہ ہونا چا ہئیں۔کیوں کہ اُن کا ایک حصہ عمر کا -جو قبلِ قبولِ اسلام تھا- نعوذ باللہ وہ نیک اعمال میں نہیں گذرا ۔اِس میں صحابہ کی طرف کیسے امر قبیح کی نسبت لازم آتی ہے۔‘‘

۱۴-غیر صحیح امر کا قرآن کی طرف منسوب کرنادرست نہیں

تفسیر حیرت :’’ انہیں بالکل لاشیٔ محض ثابت کردیاہے ۔‘‘(۱۹)

استدراک حکیم الامت : سحر کا مؤثر ہونا احادیث صحیحہ میں مذکور ہے اور مشاہدہ سے ثابت ۔پھر اُس کا لاشیٔ محض اور بے اثر مطلق ہونا کس طرح صحیح ہوگا؟ اور ایسے غیر صحیح امر کا قرآن کی طرف منسوب کرنا کیسے جائز ہوگا؟ بلکہ خود قرآنی نص ومَاہُمْ بِضَارِّیْنَ بِہ ِمِنْ اَحَدِِ اِلّا بِاِذْنِ اللہِ ،[یہ( ساحر )لوگ) اِس (سحر)کے ذریعہ سے کسی کو(ذرہ برابر)بھی ضرر نہیں پہنچا سکتے؛مگر خدا ہی کے(تقدیری)حکم سے](بیان القرآن جلد۱ص ۵۶۔ف)اس کی تاثیر کا اثبات کررہی  ہے ۔ ‘‘

۱۵-فطرت پرستوں کا مسلک

تفسیر حیرت :’’ جتنی قابلیت بڑھتی گئی الخ ‘‘(۲۰)

استدراک حکیم الامت : ’’یہ خاص فطرت پرستوں کا مسلک ہے کہ طبیعت ہمیشہ ترقی کرتی ہے۔اور اِس سے تو یہ لازم آتا ہے کہ ہر شریعتِ متاخرہ ہر شریعتِ متقدمہ سے افضل واکمل ہو ۔حالاںکہ اِس پر کوئی دلیل عقلی ونقلی قائم نہیں۔ ‘‘

۱۶-مسئلہ کے بیان میں غلطی

تفسیر حیرت :’’ اُس کی کھال کو پیچ کر چربی کو چراغ میں جلا کر الخ ‘‘(۲۱)

استدراک حکیم الامت :’’ مردار کی کھال سے مطلقاً اِنتفاع جائز نہیں، حیسا قول مذکور سے(اِس حکم کے بر خلاف جواز) معلوم ہوتاہے ؛بلکہ دباغت شرط ہے۔ اور چربی تو کسی طرح جائز نہیں ہے۔ (دباغت کے بعد مردار کی کھال کا جائز ہونا اورمردار کی چربی کا ہر حال میں ناجائز ہونا، )ان دونوں مسئلوں کی نقل میں غلطی ہوئی ہے ۔‘‘

۱۷-قید و اِستثنا کی تصریح ضروری ہے

تفسیر حیرت :’’ مچھلی الخ ‘‘(۲۲)

استدراک حکیم الامت : طافی(ایک خاص قسم کی مچھلی) اِس حلت سے مستثنیٰ ہے۔ اس قید کی تصریح ضروری تھی۔‘‘

۱۸-   منسوخ ہونے کی صراحت ضروری ہے

تفسیر حیرت :’’ اب وصیت کے احکام الخ‘‘(۲۳)

استدراک حکیم الامت :’’ اس تمام تر مضمون میں اس حکم کا نسخ بیان نہیں کیا جس سے ناواقفو ں کو شبہ پڑسکتا ہے کہ اب بھی یہ حکم باقی ہوگا۔ اور صرف اس قدر لکھ دینا کافی نہیں کہ اُس وقت تک میراث کی آیت نا زل نہ ہوئی تھی۔کیوں کہ اِس سے توصرف تقدم تاخر نزول کا معلوم ہوا ،بقاء یا نسخ پر ہرگز دلالت نہیں۔‘‘

 ۱۹- الفاظ و تعبیر کا ایک اور مغالطہ ہے

 تفسیر حیرت :’’ تو پھر قتل ضروری نہیں ۔‘‘(۲۴)

 استدراک حکیم الامت :’’ ضروری نہیں یا جائز ہی نہیں ۔ ضرورت کی نفی سے محاورات میں جواز کا شبہ ہوتاہے حالاںکہ جواز بھی منفی ہے ۔‘‘

۲۰-شرطِ اِجتہاد کے بغیر اجتہاد

 تفسیرحیرت:’’ اگر کوئی تاویل الی قولہ معاف کردیں۔‘‘(۲۵)

 استدراک حکیم الامت :’’اگر یہ اجتہادہے، تو- بوجہِ فقدانِ شرائط کے- غیر مقبول ہے ۔اور اگر تقلید ہے تو کس کی ہے؟ اگر امام صاحب کی ہے، تو اُس کی سند چاہے۔ اور اگر کسی اور کی ہے تو -ضمن ِمسائلِ حنفیہ میں بیان کرنا -وہمِ نسبت الی الامام کا ہے(امام ابو حنیفہ کی طرف نسبت کا وہم پیدا کرتا ہے ) ، اس لیے ہر صورت قابل مواخدہ ہے۔‘‘

 ۲۱-تفسیر یا تو بے معنی ہے،یا دوسری آیت سے متعارض ہے

تفسیرحیرت:’’ انہوں نے گذشتہ سال میں الخ‘‘(۲۶)

استدراک حکیم الامت :’’ اگر اِس کو علت قرار دیا جائے، تو یہ آیت بے معنی ہوئی جاتی ہے۔ ولا تقاتلوہم عند المسجد الحرام

[اور اُن کے ساتھ مسجدِ حرام (یعنی کعبہ)کے قرب(ونواح)میں(کہ حرم کہلاتا ہے) قتال مت کرو جب تک کہ وہ لوگ وہاںتم سے خود نہ لڑیں۔(بیان جلد ۱ ص ۱۰۹)] الخ۔ اِس مضمون کی تصحیحِ نقل بہ ذمۂ ناقل ہے۔ اور برتقدیر تصحیح کے- بہ وجہ ِتعارض آیت ِمذکورہ کے- اِس نقل کو ترک کرنا ضروری ہے۔‘‘

۲۲-تخصیص مرادِ قرآنی کے خلاف

 تفسیرحیرت:’’ جو شخص متمتع ہو ،اُس کو ایسی حالت میں الخ ‘‘(۲۷)

استدراک حکیم الامت :’’اِس سے ا وپر مسئلہ اِحصار کا مذکورہے۔پس ایسی حالت سے مراد وہی اِحصار ہوگا۔ اِس تقریر پر یہ حکم اُس متمتع کا ہو ا جو مُحصِر ہے۔ حالاںکہ(صرف مُحصِرکا نہیں؛بلکہ) مطلق تمتع کا یہ حکم ہے۔ اور قرآن مجید کا کلمہ فَاِذَااَمِنْتم اِس تخصیص کی نفی کررہا ہے ۔ [قرآن مجید کا مضمون یہ ہے:’’پھر جب تم امن کی حالت میں ہو…تو( اس صورت میں حج و عمرہ کی قربانی کرنا ہر ایک کے ذمہ نہیں ہے۔بلکہ خاص)جو شخص عمرہ سے اُس کو حج کے ساتھ  ملا کر منتفع ہوا ہو(یعنی ایامِ حج میں عمرہ بھی کیا ہو)تو(فقط اُس کو ضرور ہے کہ )جو کچھ قربانی میسر ہو(ذبح کرے اور جس نے صرف عمرہ کیا ہو،یا صرف حج کیا ہواُس پر حج یا عمرہ کے متعلق کوئی قر بانی نہیں۔(بیان القرآن جلد ۱:ص۱۱۲)۔اِسی طرح اِس مسئلہ کے ضمن میں یہ کہنا کہ (’’اس لیے کہ جو وہیں رہتے ہیں ،اُن کو اِس کی کیا ضرورت ہے، دوسرے سال اِس کی قضاء کر سکتے ہیں‘‘) اِس امر کی صاف تصریح کررہا ہے کہ اُس حکم کو بھی(جو مطلق تمتع کا ہے) محصر کے متعلق سمجھا ہے۔ حالاںکہ بالاجماع یہ غلط ہے۔ محصر کے لیے ہدی کے عوض نہ صیا م ہے، نہ قادر علی القضاء کے لیے اِحصار میں ہدی معاف ہے۔ ذالک کا مشارالیہ نفس تمتع یا وجوب ہدی وصیام ہے علی الاختلاف المذہبین ۔‘‘[قرآن میں مضمون اِس طرح ہے:ذٰلِکَ لِمَنْ لَمْ اَھْلُہ حاضِرِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ(…ابھی جو حج و عمرہ کے ملانے کا ذکر ہوا)یہ(ملانا ہر ایک کو درست نہیں ؛بلکہ خاص )اُس شخص کے لیے (درست ہے )جس کے اہل (وعیال)مسجدحرام(یعنی کعبہ)کے قرب(ونواح)میں نہ رہتے ہوں۔‘‘ (بیان القرآن جلد۱؛ص۱۱۲)

۲۳-بے دلیل شرط:احکام شرعیہ میں دستاندازی

تفسیرحیرت:’’ بشرط کہ الخ۔‘‘(۲۸)

 استدراک حکیم الامت :’’ اِس شرط کی کیا دلیل ہے؟ عموم نصوص وواقعات نبویہ وصحابہ اِس اشتراط کی نفی کررہے ہیں ۔ یہ احکام شرعیہ میں دست اندازی ہوئی۔ ‘‘

 ۲۴- بہ بین تفاوت رہ کجاست تابہ کجا!

تفسیرحیرت:’’ بیہقی میں الخ ۔‘‘(۲۹)

استدراک حکیم الامت :محض افترا ہے جماد الاخریٰ میں یہ لشکر گیاہے اور اخیر تاریخ میں قتال ہوا ہے جس میں یکم رجب ہونے کا شبہ ہوگیا تھا ۔مصرع:

             بہ بین تفاوتِ رہ کجاست تابہ کجا!‘‘

۲۵-تخصیص ضروری تھی

 تفسیرحیرت:’’ صرف انگور کی شراب کو کہتے ہیںالخ۔‘‘(۳۰)

استدراک حکیم الامت :’’ اطلاق(’’صرف انگور‘‘کہنا) صحیح نہیں ؛بلکہ خام (کچا)کی قید بھی ہے ۔(یعنی کچے انگور کی شراب)‘‘

۲۶-ضروری شرط نہ ہونے سے شریعت کی غلط ترجمانی

تفسیرحیرت:’’اس قدرانتظارکرناچاہئے کہ جس میں غسل ہوسکے۔‘‘(۳۱)

استدراک حکیم الامت : اِس میں یہ بھی شرط لگانا ضرور(ی )ہے کہ اُس کے ذمہ ایک نمازواجب ہوجاوے۔(اِس شرط کے نہ لگانے میں خرابی یہ ہے کہ مثلاً) فرض کیا جاوے(کہ) بعد طلوعِ آفتاب عورت پاک ہوئی۔ قول مذکور پر(مدتِ غسل کے بہ قدر اِنتظار میں) تو چاہئے کہ مثلا ایک گھنٹہ کے بعد صحبت حلال ہوجاوے ، حالاںکہ یہ حکم نہیں ہے (کیوں کہ اِس صورت میں صحبت حلال نہ ہوگی)۔بلکہ(حکم یہ ہے کہ) یاتو غسل کرے ،یا ظہر کی نماز اُس کے ذمہ واجب ہوجاوے۔ اور درمیانی گھنٹوں میں وہ عورت حلال نہ ہوگی بالاجماع ۔‘‘

۲۷-نقل و عقل دونوں کی خلاف ورزی

تفسیرحیرت:’’ اور وہ بات مجھ کو اچھی معلوم ہوگی۔‘‘(۳۲)

استدراک حکیم الامت :’’ حدیث میں تو اری غیرہا خیر امنہا آیا ہے جس کا ترجمہ یہ ہونا چاہئے کہ ’’اور اس کی خلاف بات مجھ کو اچھی معلوم ہوگی‘‘۔ اور عقل کے موافق بھی یہی ہے۔ کیوںکہ جس بات پر قسم کھائی ہے اور وہی شرعاًاچھی بھی معلوم ہوئی، تو پھر قسم توڑنے کی کون ضرورت ہے؟غرض اِس ترجمہ میں نقل وعقل دونوں کے خلاف کیا گیاہے۔ ‘‘

۲۸-فیٔ کی شرائط پایا جانا ضروری ہے،نہ کہ صلح

تفسیرحیرت:’’چارمہینے کے اندر صلح ہوجاوے۔‘‘(۳۳)

استدراک حکیم الامت :’’صلح توربخش کے رفع ہونے کو کہتے ہیں۔ حالاںکہ فئی کے شرائط اور ہیں، گورنجش رفع نہ ہو۔اور بدون وجوداِن شرائط کے، عورت حلال نہ ہوگی ،گورنجش رفع ہوجاوے ۔‘‘

۲۹- شرعی حکم میں تحریف

تفسیرحیرت:’’طلاق دے دو۔عرفِ شریعت میں اِس کو خلع کہتے ہیں۔‘‘

 استدراک حکیم الامت :خلع میں اختیار و قصد سے طلاق دینے کی ضرورت نہیں جیسا لفظ ’’دے دو‘‘سے مترشح ہے۔‘‘یہ احکام شرعیہ میں تحریف ہے۔‘‘(۳۴)

۳۰-عقد خود تفریق کا باعث ہے

تفسیرحیرت: ’’طلاق دے دو۔‘‘(۳۵)

استدراک حکیم الامت :’’ طلاق دینے کی ضرورت نہیں یہ عقد خود متفرق ہے ۔‘‘

۳۱-تفسیر صحیح نہیں

 تفسیرحیرت:’’ خواہ وہ اُس کی بی بی ہو یا کوئی غیرالخ۔‘‘(۳۶)

استدراک حکیم الامت :’’ بی بی بلکہ معتد ہ کوبھی دودھ پلائی پر معاوضہ لینا حرام ہے۔ اور اُس کے بعد یہ کہنا -کہ اگر شوہر غریب ہو :الی قولہ ضروری ہے۔‘‘- صحیح نہیں۔ اگر یہ ضرورت دیانۃً ہے تو شوہر کے مالدار ہونے پر بھی ضرور(ی) ہے۔ اور اگر قضائًً ہے، تو شوہر کے غریب ہونے پر بھی ضرور(ی) نہیں۔ پس یہ کہنا کسی حال میں صحیح نہ ہوا۔‘‘

۳۲-حکم خود تراشیدہ اورمعارضِ نص

 تفسیرحیرت:’’ مہر مثل کا نصف الخ۔‘‘(۳۷)

استدراک حکیم الامت : ’’یہ مسئلہ تو خود آیت میں منصوص ہے’’ مَتِّعُوْہُنَّ‘‘ صریح مذکور ہے جس کا ترجمہ بھی بین السطور(ترجمہ حیرت میں) چھوڑدیاگیا ہے ۔مہر مثل کا نصف بالکل تراشیدہ حکم معارض نص کے ہے۔ البتہ اُس کے طرفین کو فقہاء نے محدود فرمایاہے ۔ اوساط محدود نہیں ۔‘‘(یہاں تفصیل درج نہیں کی جا رہی ہے ۔مسئلہ کی وضاحت اہلِ فقہ و اِفتا سے معلوم کرنا چا ہیے۔ف)

۳۳- خلطِ مبحث

 تفسیرحیرت:’’ مگر مجاہد وغیرہ کہتے ہیں :الی قولہ تم وصیت کرجاؤ۔‘‘

استدراک حکیم الامت :’’ وصیت تو مجاہد کے نزدیک بھی واجب نہیں، پھر منسوخ کیوں نہ کہیں گے؟ البتہ عدت کے بارہ میں تعارض ونسخ کی نفی ممکن ہے۔ پس مترجم کا یہ کہنا کہ مجاہد منسوخ نہیں کہتے اور عدم نسخ کی تقریر میں وصیت کا حکم لانا کس قدر خلط مبحت ہے ۔اور اگر تاویل کی جاوے کہ مراد عدم تعارض در باب عدت ہی کے ہے۔ اور وصیت منسوخ ہے ،تو مطلقاً یہ کہناکہ -مجاہد منسوخ نہیں کہتے -غلط ہے۔ اگر(’’در بابِ عدت‘‘کی قید لگاتے اور) یہ کہتے کہ دربابِ دعت منسوخ نہیں کہتے -کیوںکہ وہ فرع تعارض کی ہے ،جہاں تعارض نہیں نسخ بھی نہیں- تو البتہ کلام مصرح ہوتا۔ اور وصیت کے باب میں منسوخ ہونے پر اتفاق نقل کرنا چاہیے تھا۔‘‘

۳۴-اِس تفسیر کی رو سے منسوخ حکم اب بھی باقی ہے

تفسیرحیرت: ’’یہاں تبرعاً مذکور ہے۔‘‘(۳۸)

استدراک حکیم الامت : ’’مترجم صاحب اِس آیت کے حکم کو اب بھی باقی سمجھتے ہیں اور تبرع پر محمول کرتے ہیں ۔ حالاںکہ جب اُس کو صاحبِ میراث مان لیا اور وارث کے لیے تبرع کی وصیت کا ناجائز ہونا مشہور ومسلم مسئلہ ہے، پھر یہ(حکم کا تبرع پر) حمل کس طرح صحیح ہوسکتا ہے؟ یہ احکام کی تحریف ہے فقط ۔‘‘

ٍٍٍٍٍٍٍٍٍ


حواشی:٭حاشیہ ص۳۔(۱)ص۲ سطر ۹)(۲)  ایضاًسطر ۳۷)(۳)ایضاً سطر ۴۰)(۴)صفحہ۴ سطر۲۴)(۵)یعنی ہر طرح کی قدرت ہے،سو ضعفاء کو قدرت اور سلطنت دے دینا کیا مشکل ہے:بیان جلد۲ص۱۰)(۶)صفحہ۴ سطر۲۵)(۷)صفحہ۶،سطر۳۳(۸)صفحہ ایضاً ،سطر۴۲)(۹)صفحہ ۷،سطر۱۷۔(۱۰)صفحہ ۷،سطر۲۲۔( ۱۱)صفحہ ۷،سطر۴۲۔(۱۲)صفحہ ۹،سطر۴۲۔(۱۳)اِس مضمون کا سمجھنا تفسیر حیرت کی عبارت پر موقوف ہے اور وہ موجود نہیں)(۱۴)صفحہ ایضاً، سطر ۴۳۔(۱۵)صفحہ ۱۱، سطر ۱۳۔(۱۶)صفحہ ۱۱، سطر ۱۲۔(۱۷)صفحہ ۱۱، سطر ۲۱۔(۱۸)صفحہ ۱۴، سطر ۱۴۔(۱۹)صفحہ ۱۷، سطر ۳۶۔(۲۰)صفحہ ۱۸، سطر ۳۱۔(۲۱)صفحہ ۳۷، سطر ۲۷۔(۲۲)صفحہ ۳۷، سطر۶ ۳۔(۲۳)صفحہ ۱۱، سطر اول۔(۲۴)صفحہ ۱۱، سطر ۱۵۔(۲۵)صفحہ ۱۱، سطر ۱۶۔(۲۶)صفحہ ۳۱، سطر۴۰۔(۲۷)صفحہ ۳۳، سطر۴ ۲۔(۲۸)صفحہ ۳۵، سطر۴۴۔(۲۹)صفحہ ۳۶ف، سطر ۹۔(۳۰)صفحہ ۳۶، سطر۴۲۔(۳۱)صفحہ ۳۷، سطر ۴۲۔(۳۲)صفحہ ۳۸، سطر ۲۔(۳۳)صفحہ ۳۸، سطر۸،۴۱۔:(۳۴)صفحہ ۳۸، سطر ۱۶۔(۳۵)صفحہ ۳۹، سطر ۲۳۔(۳۶)صفحہ ۴۰، سطر ۱۸۔(۳۷)صفحہ ۴۱، سطر۲ ۳۔(۳۸)صفحہ۲ ۴، سطر ۱۱۔