انوار نبوی ا پہلیقسط:
حدیث کی روشنی میں
محمد ہلال الدین بن علیم الدین ابراہیمیؔ
وعن أبي ھریرۃَرضی اللہ عنہ ،عن رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ،، اُمرت أن أقاتلَ الناسَ حتی یشھد وا أن لاإلہ إلااللہ ،ویؤمنوابي،وبما جئتُ بہ ،فإذا فعلوا ذالک َعصموا ِمنِّی دماء َھم وأموالَھم إلابحقَّھا ،وحسابُھم علی اللہ ۔(بخاری،مسلم)
ترجمہ:’’حضرت ابو ہریرہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے حکم ہوا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ اللہ کے ایک ہونے کی گواہی دے دیں، اور مجھ پر اور جو کچھ میں لے کر آیا ہوں اس پر ایمان لے آئیں۔اگر وہ ایسا کر لیتے ہیں توانہوں نے اپنے جان ومال کو محفوظ کرلیا ،سوائے اس کے حق کہ(یعنی حدود وقصاص کی وجہ کر)،اور اس کا حساب اللہ کے ذمے ہے‘‘۔
تشریح:اس حدیث سے توحید ِعبودیت کاثبوت اور آپﷺ اور آپ کی لائی ہوئی شریعت کی اتباع وپیروی کا جہاں ثبوت ہوتا ہے؛وہیںاس امت مسلمہ پر ہر طرح کی طاعت وقربت کو اتباع کے جزبے کے ساتھ ،اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کو خلوص وللہیت سے انجام دینے کا لزوم بھی ثابت ہوتا ہے۔اور آیت کریمہ:
{لَقَدْ جَآئَکُمْ رَسُوْل’‘ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْز’‘ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْص’‘ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُوْف’‘ رَّحِیْم’‘ }(التوبۃ: ۱۲۸)
’’(لوگو) تمہارے پاس ایک ایسا رسول آیا ہے جو تمہیں میں سے ہے ، جس کو تمہاری ہر تکلیف بہت گراں معلوم ہوتی ہے ، جسے تمہاری بھلائی کی دھن لگی ہوئی ہے ، جو مومنوں کے لیے انتہائی شفیق ، نہایت مہربان ہے۔‘‘اس آیت کریمہ سے ہم پر آپﷺ کے کچھ حقوق واجب ہوتے ہیں،جسے بجا لانا ہم پر واجب اور ضروری ہے ؛لہذا ہم اولاً حدیث پاک کی روشنی میں آپ ﷺ کے حقوق کو بیان کریں گے ۔اس امید اور لگن سے کہ ہمارا ہر قاری ان حقوق کی ادائیگی اس طور پر کرے کہ اس کی زندگی اور عمل کے ہرگوشے سے آپ کی رسالت کی شہادت بیان ہو۔ اللہ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
آمدم برسر مطلب:
عصر حاضر میں مسلمان جس قدر دینی و اخروی ہردو اعتبار سے تباہی ، بربادی اور تنزلی کے شکار ہورہے ہیں … ہر کسی پر عیاں اور بیاں ہے … ہر ایک کے مشاہدے اور تجربے میں ہے ؛ جس طرح روز بروز ہمارا شیرازہ بکھرتا جارہا ہے ،ہمارے دورِ عروج کو زوال کا گھن اور دیمک چاٹے جارہاہے ؛ بزدل قومیں ہمارے سامنے سینہ چوڑا کررہی ہیں، ہمیں دانت دکھارہی ہیں، ہماری تاریخ کا اپنے عروج سے مذاق اڑا رہی ہیں؛ یہ غم ہم سب کو لاحق ہے اوراندر ہی اندر کھارہا ہے ۔اس وقت ہر ایک اسلام کا درد رکھنے والا مسلمان اس کے تریاق کی تلاش میں اپنی بساط بھر کوشش کررہا ہے۔اور ان شاء اللہ یہ کوشش رنگ لائے گی ، اسلام میں یاس اور ناامیدی کو کوئی راہ نہیں ،خوف اور سرا سیمگی کی کوئی گنجائش نہیں ۔ مسلمان تو صرف اپنے رب اور خالق سے ڈرتا اور خوف کھاتا ہے اور خالق سے ڈرنے والا مخلوق سے ڈرا نہیں کرتا……۔
بہرِ حال! احقر اپنی ذات اور قرب و جوار کے حالات اور عالم ِاسلام پر جب نظر کرتا ہے، تو اس کی تنزلی کی کئی وجوہات سامنے آتی ہیں۔ ان میں سے اہم ترین وجہ احکامِ شریعت پر عمل سے ہماری زندگی کا خالی ہونا، عالم میں اس کے نفاذ کی کوئی صحیح، مضبوط اور درست کوشش کا نہ ہونا اور احکامِ شریعت میں بھی جس چیز کا سب سے بڑا فقدان ہے وہ ادائیگی حقوق ہے ۔ آج کا مسلمان حقوق کی ادائیگی میں صفر سا معلوم ہوتا ہے، نہ اسلامی حقوق کی ادائیگی، نہ مسلمانوں کے آپسی حقوق کا لحاظ ، نہ والدین کے حقوق کا پاس ،نہ زوجین کے حقوق کی رعایت، نہ اولاد کے حقوق کا اہتمام، نہ پڑوسیوں کے حقوق کا خیال ،اورنہ شرکائے کار وغیرہ کے حقوق کی کوئی اہمیت ورعایت ۔
خیر! تمام ہی حقوق میں سب سے اہم حق حقو ق اللہ ہے اور اس کے بعد حق النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔ماہِ ربیع الاول کی مناسبت سے بندے نے مناسب سمجھا کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے حقوق کو حدیث کی روشنی میں بیان کردیاجائے؛اس لیے کہ جس نے آپ کے حقوق کی ادائیگی کی ،اس نے شریعت کے حقوق کو ادا کیا اور جس نے شریعت کے حقوق کو ادا کیا اس نے سب کے حقوق کو ادا کیا۔بالآخر اسے مرتب اور مستند لکھا جائے اسی تلاش کے دوران قاضی عیاضؒ کی کتاب ’’مختصر الشفا بتعریف حقوق المصطفیﷺ‘‘ نظر سے گزری؛ جسے بنیاد بنا کر یہاں میں حدیث کی روشنی میں حقوقِ آقائے نامدار سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم بیان کررہا ہوں۔دوسری جگہ مزید حقوق بھی ملے اس لیے اسے ۲؍ قسطوںمیں بیان کر رہا ہوں ؛تاکہ اختصاراً تمام اہم حقوق معلوم ہو جائیں ۔
حقوق النبی صلی اللہ علیہ وسلم
پہلا حق…نبی پاکﷺ پر سچا ایمان اور آپ کی تصدیق:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور رسالت کے ثابت ہو جانے کے بعد اس پر ایمان لاناواجب ہے۔اور اسی طرح ان تمام باتوں پر جو آپ لے کر آئے ۔آپ نے جو کچھ کلامِ الٰہی کی شکل میں دیا یا فرمان نبویﷺ کی صورت میں سب پر یقین ہونا، دل سے ان تمام چیزوں کو سچ اور ان پر عمل کو واجب جاننا یہ ایمان بالرسول کا تقاضہ اور سب سے پہلا حق ہے۔
{اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا o }(الفتح:۹-۸ )
ترجمہ: ’’( اے پیغمبر ! )ہم نے تمہیں گواہی دینے والا، خوش خبری دینے والا اور خبر دار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے ۔‘‘
{ وَمَنْ لَّمْ یُؤْمِنْ م بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ فَاِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا}(الفتح:۱۳ )
ترجمہ: ’’ اور جوشخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے تو (وہ یاد رکھے کہ ) ہم نے کافروں کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کررکھی ہے۔‘‘
وعن أبي ھریرۃَرضی اللہ عنہ ،عن رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ،، اُمرت أن أقاتلَ الناسَ حتی یشھد وا أن لاإلہ إلااللہ ،ویؤمنوابي،وبما جئتُ بہ ،فإذا فعلوا ذالک َعصموا ِمنِّی دماء َھم وأموالَھم إلابحقَّھا ،وحسابُھم علی اللہ ۔(بخاری،مسلم)
ترجمہ:حضرت ابو ہریرہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے حکم ہوا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ اللہ کے ایک ہونے کی گواہی دے دیں اور مجھ پر اور جو کچھ میں لے کر آیا ہوں اس پر ایمان لے آئیں۔اگر وہ ایسا کر لیتے ہیں توانہوں نے اپنے جان ومال کو محفوظ کرلیا ،سوائے اس کے حق کہ(یعنی حدود وقصاص کی وجہ کر)اور اس کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔
حدیث ِبالا میں صاف طور پر آپ ﷺ پر اور آپ کی لائی ہوئی باتوں پر یقین رکھنے کو ایمان کی بنیاد قرار دی گئی ہے۔
دوسرا حق… آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کاوجوب اور معصیت سے اجتناب:
اطاعت سے مراد ہر چیز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت،خواہ عبادت ہو،تجارت ہو، سیاست ہو،معاشرت ہو،قیادت ہویاسیادت ۔ زندگی کے ہر گوشے میں ہر کا م کرنے سے پہلے اس بات کو معلوم کرنا کہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور شریعت کا کیا حکم ہے، کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی تو نہیں،آپ کی ناراضگی تو نہیں؛کیوں کہ آپ کی اطاعت ہی اللہ کی اطاعت ہے اور آپ کی نافرمانی اللہ کی نافرمانی ہے۔اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں ہی رحمت کا وعدہ ہے۔اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اسی کا حشر انبیا ،صدیقین، شہدا اور صالحین کے ساتھ ہوگا۔
{ ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ}(الانفال: ۲۰)
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی تابع داری کرو ۔
{ وَمَآاٰتٰئکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ق وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا }(الحشر:۷)
ترجمہ: ’’اور رسول تمہیں جو کچھ دیں وہ لے لو ۔ اور جس چیز سے منع کریں اس سے رک جاؤ۔‘‘
وعن أبي ھُریر ۃَؓ قال: إن رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال:’’من أطاعنی فقد أطاعَ اللہ ومن عصانی فقد عصی اللہ ،ومن أطاعَ أمیر ي فقد أطاعني ومن عصَی أمیري فقد عصاني،،۔(بخاری، مسلم)
ترجمہ:ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ اور جس نے میرے (مقرر کئے ہوئے) امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔
رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کا وبال:
{ یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْھُہُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ ٰیلَیْتَنَآ اَطَعْنَا اللّٰہَ وَ اَطَعْنَا الرَّسُوْلَا }(الاحزاب: ۶۶)
ترجمہ: ’’جس دن ان کے چہروں کو آگ میں الٹا پلٹا جائے گا ، وہ کہیںگے کہ اے کاش! ہم نے اللہ کی اطاعت کرلی ہوتی اور رسول کا کہنا مان لیا ہوتا۔‘‘
وفي حدیث أبي ھریر ۃَ رضی اللہ عنہ ،وعنہ صلی اللہ علیہ وسلم’’کُلُّ أمتي یدخلون الجنۃ إلامن ابیٰ ،،قالو: یارسول اللہ ،ومن یأبی ؟قال:’’من أطاعني دخل الجنۃ ومن عصاني فقد أبیٰ۔(بخاری)
’’حدیث پاک میں آپﷺ نے صاف طور پر اعلان کردیا ہے کہ میرے تمام امتی جنت میں جائیں گے سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے انکار کیا۔ اورانکار کرنے والے کوئی اور نہیں وہی لوگ ہیں، جنہوں نے میری نافرمانی کی‘‘۔
لہٰذا جو لوگ فیشن پرستی اور مغربی تقلید میں اپنا پہناوا اڑھاوا ،رہن سہن ،شادی بیاہ، مرنا جینا ،سب دنیوی اسٹیٹس اور بڑپپن کے لیے کرتے ہیں اور آپ ﷺ کی حکم عدولی کرتے ہیں ،تو وہ اس فرمان سے متنبہ ہو جائیں اورابھی سے معاہدہ کر لیں کہ ساری زندگی نبی پاکﷺ کی اطاعت میں گزاریں گے۔
اس مضمون کوبخاری شریف کی ایک حدیث اس طرح ثابت کرتی ہے:’’اذا نہیتکم عن شیء فاجتنبوہ، وإذا أمرتکم بأمر فأتوا منہ مااستطعتم‘‘ ۔جب میں تمہیں کسی چیز سے روکوں تو اس سے خود کو بچاؤ اور کسی کام کا حکم کروں تواپنی بساط کے مطابق اسے بجالانے کی پوری کوشش کرو۔
تیسرا حق…نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا لزوم اورتمام امور میںآپ کوقدوہ بنانا:
{قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُم}(آل عمران: ۳۱)
ترجمہ: ’’(اے پیغمبر ! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو ، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خاطر تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ ‘‘
{ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃ’‘ حَسَنَۃ’‘ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا}(الاحزاب: ۲۱)
ترجمہ: ’’ حقیقت یہ ہے کہ تمہار ے لیے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ سے اور یومِ آخرت سے امید رکھتا ہو، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتاہو۔‘‘
وعن العرباض بن ساریۃ في حد یثہ فيموعظۃ النبي صلی اللہ علیہ وسلم أنہ قال: ’’فعلیکم بسنتي وسنۃالخلفاء الر اشدین المھد یین ،عضُّوا علیھا بالنواجذ وإیاکم ومحدثات الأمو ر، فإن کل محد ثہ بدعۃ ،وکل بد عۃ ضلالۃ۔(ابو داود)
ترجمہ:’’ عرباض بن ساریہ نے آپ ﷺ کی ایک دل موہ لینے والی نصیحت کوبیان کیا:(جس کا ایک حصہ یہ ہے)آپ ﷺ نے فرمایا:تو تم میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقۂ کار کو لازم پکڑ لینااور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑے رکھتا۔اور دین میں نکالی گئی نئی نئی باتوں سے بچتے رہنا، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے‘‘۔
اس حدیث میں تقویٰ اختیار کرنے اور امیر کی اطاعت کرنے کے علاوہ سنت نبوی اور سنت خلفائے راشدین کی اتباع کی تاکید اور بدعات سے بچنے کی تلقین ہے، ساتھ ہی اس بات کی پیش گوئی بھی ہے کہ یہ امت اختلاف و انتشار کا شکار ہوگی، ایسے موقع پر صحیح راہ یہ ہوگی کہ نبی اکرم ﷺ کی سنت اور خلفائے راشدین کے طریقے اور ان کے تعامل سے تجاوز نہ کیا جائے؛کیوں کہ اختلافات کی صورت میں حق کو پہچاننے کی کسوٹی اور معیار یہی دونوں چیزیں ہیں۔
وفي حدیث عائشۃ رضي اللہ عنھا ،صنع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شیئاً ترخص فیہ ،فتنزہ عنہ قوم ،فبلغ ذلک النبي صلی اللہ علیہ وسلم، فحمد اللہ ثم قال:’’مابال قوم یتنزھون عن الشیی أصنعہ ؟! فواللہ إني لأعلمھم باللہ وأشد ھم لہ خشیۃً۔‘‘
ترجمہ:حضرت عا ئشہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریمﷺ نے ایک کام کیا اور لوگوں کو بھی اس کی اجازت دے دی، لیکن کچھ لوگوں نے اس کا کرنا اچھا نہ جانا،یہ بات آپﷺ تک پہنچی۔(تو آپ نے خطبہ دیا)اور اللہ کی حمد کے بعد فرمایا:لوگوں کو کیا ہوگیا ہے،جو اس کام سے بچتے ہیں جسے میں کرتا ہوں؟! قسم بخدا! میں سب سے زیادہ اللہ کو جاننے والا ہوں اور سب سے زیادہ اس سے ڈرنے والا ہوں۔(بخاری)
آپﷺ کے اسوہ اور قدوہ کو اپنانے سے مراد آپ کی اقتدا کرنا ،آپ کی سنتوں کو اپنی زندگی میں رچانا اور بساناہے ۔اور اس بات سے بھی اپنے آپ کو بچانا ہے کہ آپ کا کوئی قول وفعل زندگی کے کسی گوشے میں چھوٹ جائے۔نیزنہ تو آپ کی محبت کے نام پر نئی نئی چیزیں گھڑنا اور نئے طریقے ایجاد کر لینا اور اسے دین سمجھنا اور نہ ہی محقَق اور ثابت شدہ چیزوں کے درپے ہو کر آپ ﷺ سے ثابت شدہ اعمال کو بھی قوی ،ضعیف کے فریب میں ترک کردینا اور خود کوبزعم خود پارسا بنانا ۔ان تمام ہی افراط وتفریط سے خود کو بچاکر راہ اعتدال کوتھامے اپنے اعمال وافعال کو بجا لانا اور اعمال نبویﷺ کے ساتھ حب رسول ﷺ سے بھی قلب کو معمور رکھنا یہ درحقیقت اسوہ اور قدوہ کو اپنانا ہے۔
اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جھلکیاں سلف صالحین اورائمۂ مجتہدین کے یہاں:
خالد بن اسید کے خاندان کے ایک آدمی نے عبد اللہ بن عمر سے دریافت کیا : اے ابو عبد الرحمن ! ہم قرآن میں نمازِ خوف اور نمازِ حضر کا تذکرہ تو پاتے ہیں ، لیکن نماز ِسفر کا ذکر نہیں پاتے ؟ حضرت ابن عمر ؓ نے جواب دیا : اے میرے بھائی کے لڑکے ! اللہ نے ہمارے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ، ہم تو کچھ نہیں جانتے تھے ، لہٰذا ہم تو وہی کرتے ہیں اور ویسا ہی کرتے ہیں؛ جیسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھا ۔
امام شافعی ؒ فرماتے ہیں : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بجز آپ کے اتباع کے کچھ نہیں ۔(کتاب الام)
حضرت عمر ؓ حجر اسود کو دیکھتے ہوئے فرمارہے ہیں : قسم بخدا! تو تو بس ایک پتھر ہے ، جو نہ نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان، اگر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ لیتے نہ دیکھتا، تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ لیتا۔(آپ نے یہ کہا ) پھر حجر اسود کا بوسہ لیا۔ (بخاری )
چوتھا حق…آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو تمام محبتوں پر ترجیح دینا:
{ قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْھَا وَتِجَارَۃ’‘ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ ط وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ }(التوبۃ: ۲۴)
ترجمہ: ’’ (اے پیغمبر ! مسلمانوں سے ) کہہ دو کہ : اگر تمہارے باپ ، تمہارے بیٹے ، تمہارے بھائی ، تمہاری بیویاں ، اور تمہارا خاندان اور وہ مال ودولت جو تم نے کمایا ہے اور وہ کاروبار ،جس کے مندا ہونے کا تمہیں اندیشہ ہے ، اور اس کے راستے میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں ۔ تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ صادر فرمادے ۔ اور اللہ نافرمان لوگوں کو منزل تک نہیں پہنچاتا۔‘‘
وعن أنس رضي اللہ عنہ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: ’’لایؤمن أحدکم حتی أکون أحب إلیہ من ولد ہ ووالدہ والناس أجمعین‘‘۔(بخاری، مسلم)
ترجمہ: آپ ﷺ نے فرمایا:تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا ،جب تک کہ میںاس کے نزدیک اس کی اولاد، اس کے باپ؛ یہاں تک کہ تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جائوں۔
وعنہ صلی اللہ علیہ وسلم،،ثلاث من کن فیہ وَجد حلاوۃ الإیمان ،أن یکون اللہ ورسولہ احب إلیہ مما سواھما ،وأن یحب المرء لایحبہ إلاللہ ،وأن یکرہ أن یعود في الکفر کما یکر ہ أن یقذف فیی النار ،،(بخاری،مسلم)
ترجمہ:آپﷺ نے فرمایا:تین خصلتیں جس میں پیدا ہوجائیں،اس نے ایمان کی مٹھاس کو پالیا۔۱…اللہ اور اس کا رسول اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب بن جائیں،۲…وہ کسی انسان سے محض اللہ کی رضا کے لیے محبت رکھے۔۳…وہ کفر میں واپس لوٹنے کوایسا برا جانے جیساکہ آگ میں ڈالے جانے کو برا جانتا ہے۔
وعن عمر بن الخطاب رضي اللہ عنہ أنہ قال للنبي صلی اللہ علیہ وسلم: لأنت أحب إليّ من کل شیء إلا نفسی التی بین جنبیی۔ فقال النبي صلی اللہ علیہ وسلم’’لن یؤمن أحد کم حتی أکون أحب إلیہ من نفسہ ،،۔فقال عمر: والذی أنزل علیک الکتاب، لأنت أحب إلي من نفسی التی بین جنبي۔ فقال لہ النبیی صلی اللہ علیہ وسلم:’’الاٰن یا عمرُ‘‘۔(بخاری)
ترجمہ:عمرؓ نے آپﷺ سے عرض کیا:آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں،سوائے میری اپنی جان کے۔توآپﷺ نے فرمایا:’’تم میں سے کوئی اس وقت تک ہرگز مومن نہیں ہو سکتا،جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجائوں‘‘۔پھر حضرت عمرؓ نے عرض کیا:قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ پر کتاب نازل کیا،آپ اب مجھے میری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔تونبی کریم ﷺ نے حضرت عمر سے فرمایا:ہاں! اے عمر! اب تیرا ایمان پورا ہوا۔
آیات قرآنی اور احادیث نبویﷺ ہم سے کیا مطالبہ کررہی ہیں؟
آیات قرآنی اور احادیث کی روشنی میں یہ بات صاف اوبے غبارہوجاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت یہ ایمان کا جزء لازم ہے ۔ اوریہ احادیث اس پردلالت کررہی اور آپ کی محبت کی فرضیت کو ثابت کررہی ہیں۔ کہ ہرچیز پرآپ ﷺ کی محبت غالب ہونی چاہیے ؛خواہ وہ رشتہ داروں کی شکل میں ہو ،اپنی جان ومال کی شکل میں ہو یا معاشرے اور رسم و رواج کی شکل میں ۔ ہوش کے ناخن لیں! وہ ماں باپ، جو اپنے بچوں کی خواہش پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو قربان کردیتے ہیں ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر اپنی اولاد کی محبت کو ترجیح دیتے ہیں ؛شادی بیاہ کے موقع پر معاشرے اور لوگوں کی خوشی کے لیے غیر شرعی رسم و رواج میں پڑجاتے ہیں اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور محبت کو بھلا بیٹھتے ہیں ۔
سنبھل جائیں وہ نوجوان جو فلم اسٹار ، کرکٹر، فٹ بالراور دیگر دنیا داروں کو آئیڈیل اور نمونہ بناتے ہیں اور نبی کی سنت کا بال، داڑھی ، لباس وغیرہ میں جنازہ نکالتے ہیں۔ اللہ ہمیں حقیقی حب رسولﷺ نصیب فرمائے۔آمین!
آپ علیہ الصلوۃ والسلام سے محبت رکھنے کا اجر:
عن أنس رضی اللہ عنہ ۔أن رجلا أتی النبی ﷺفقال ۔متی الساعۃ یا رسول اللہ؟ قال۔ماأعددت لہا؟قال ۔ماأعددت لہا من کثیر صلاۃ ولاصوم ولا صدقۃ ،ولکنی أحب اللہ ورسولہ ،قال:’’ أنت مع من أحببت‘‘۔(بخاری)
حضرت انسؓ سے مروی ہے ایک آدمی آپﷺ کی خدمت میں آیا ،اور آپﷺ سے دریافت کیا : کہ اے اللہ کے رسولﷺ! قیامت کب آئے گی؟آپ ﷺ نے فرمایا: تو نے اس کے لیے کیا تیاری کر رکھی ہے؟اس نے کہا:میں نے قیامت کے لیے نہ تو نماز ،نہ ہی روزہ اور نہ صدقات کا ذخیرہ جمع کیا ہے،ہاں البتہ! میں اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت رکھتا ہوں۔آپﷺ نے فرمایا: تیراحشر اسی کے ساتھ ہوگا، جس سے تو محبت رکھتا ہے۔
وقال النبی ﷺ۔((المرء مع من أحب ))(بخاری)
اسی طرح دوسری جگہ آپﷺ نے فرمایا: انسان(کل قیامت کے روز)اسی کے ساتھ ہوگا،جسے وہ محبوب رکھتا ہے۔
لہٰذا ہمارے لیے بڑی فکر کرنے کی بات ہے،اور اپنی محبت کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہم کس سے محبت رکھتے ہیں؟…اگر ہمارا محبوب کوئی اور ہے تو ہمیں اسی کے ساتھ حشر کے لیے تیار رہنا ہوگا۔اس لیے اپنے دل کو عشقِ مجازی سے پاک کر کے عشقِ حقیقی کا خوگر بنانے کی ضرورت ہے۔ اللہ ہمارے دلوں میں اپنی اور اپنے محبوب کی محبت کو رچا بسا دے۔اور ہر محبت سے بالاتر کر دے؛ یہاں تک کہ اپنی جان بھی ناموسِ رسالت پر قربان ہو جائیں، ایسے جذبے سے سرشار فرمادے۔آمین۔ثم آمین!
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی علامت:
اس چیز کو ذہن نشین کرلیںکہ جو کوئی کسی چیز کو پسند کرتا ہے ، تواسے وہ اپنی زندگی میں جگہ دیتا ہے، اسے اپناتا ہے اور اپنانے کی کوشش کرتا ہے اور جو ایسا نہیں کرتا تو سمجھ جائیںکہ وہ صرف مدعی ہے، اس کی محبت میں کوئی سچائی نہیں ، یہ بس اس کا زبانی جمع خرچ ہے۔
علاماتِ محبت صلی اللہ علیہ وسلم:
۱- اقتدا: یعنی آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی پیروی ، آپ کی سنتوں پر عمل ، آپ کے اقوال وافعال کی اتباع اور آپ کے فرامین کی بجا آوری اور آپ کی مناہی اور منع کردہ افعال سے دوری ۔ اور خوش حالی وتنگ دستی ہر حالت میں آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے سکھائے ہوئے آداب کا مکمل پاس و لحاظ اور آپ کی پسند اور ناپسند کا پورا خیال، جس پر قرآن مجید کی یہ آیت شاہد ہے :
{قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُم}(آل عمران: ۳۱)
ترجمہ: ’’(اے پیغمبر ! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو ، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خاطر تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ ‘‘
۲- ایثار: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت اور طریقے کو خواہشات نفس پر ترجیح دینا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
{ وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَالْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِھِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ ھَاجَرَ اِلَیْھِمْ وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِھِمْ حَاجَۃً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃ’‘ طوقف وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ}(الحشر: ۹)
ترجمہ: ’’ اور یہ مالِ فیئ)ان لوگوں کا حق ہے، جو پہلے ہی سے اس جگہ (یعنی مدینہ میں ) ایمان کے ساتھ مقیم ہیں ۔ جو کوئی ان کے پاس ہجرت کرکے آتا ہے یہ اس سے محبت کرتے ہیں ، اور جو کچھ ان (مہاجرین) کو دیا جاتا ہے ، یہ اپنے سینوں میں اس کی کوئی خواہش بھی محسوس نہیں کرتے اور ان کو اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں ، چاہے ان پر تنگ دستی کی حالت گزر رہی ہو۔ اور جو لوگ اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ ہوجائیں ، وہی ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔‘‘
۳- آپ کا ذکر : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی علامت میںسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اہم ترین علامت ہے۔ نعت گوئی یہ ذکر رسول ﷺ کامئوثر ذریعہ ہے ؛جیسا کہ ہمارے بزرگوں کے یہاں بھی اس کا معمول ہے۔ لیکن آج کل نعت گوئی کو بھی ماڈرن کردیاگیا ہے اور میوزک وغیرہ کے ذریعے اس ذکرکو بھی خواہش نفس کی تکمیل کا مہذب ذریعہ بنادیاگیا ہے ۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر تو خاک آپ کے آداب کی بھی رعایت نہیں ہو پارہی ہے۔
۴- آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا شوق : محب اپنے محبوب کی ملاقات کے لیے بے چین رہتا ہے۔ اس لیے آپ کی ملاقات کا شوق یہ بھی علامات محبت ہے۔خواب میں آپ ﷺ کی دیدار کا آسان ذریعہ کثرت سے درود شریف کا ورد ہے۔
۵- آپصلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم : آپﷺ کی تعظیم آپ کے ذکر کے وقت آپ کی توقیر ، آپ کا نام سنتے وقت خشوع اور انکساری کا ظہور ؛ یہ سب علامات محبت میں سے ہیں۔
۶- آپ سے محبت کرنے والوں سے محبت کرنا: آپ کے اہل بیت ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت کرنا اور ان سے بغض رکھنے والوں سے بغض رکھنا اور ان سب کو سب و شتم کرنے والوں سے نفرت کرنا ،علامات محبت میں سے ہے۔
وقدقال ﷺفی فاطمۃ رضی اللہ عنہا ’’انہا بضعۃ منی ،یغضبنی ماأغضبہا‘‘۔(بخاری )
ترجمہ: آپ ﷺ نے حضرت فاطمہؓ کے متعلق فرمایا:فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے، وہ مجھے ناراض کرے گا ،جس نے اسے (ناحق) ناراض کیا۔
وقال لعائشۃ فی اسامۃ بن زید: ’’أحبیہ فإنی أحبہ‘‘۔(ترمذی)
ترجمہ: آپ ﷺ نے حضرت عائشہؓ سے حضرت اسامہ بن زیدؓ کے متعلق فرمایا: تم اس سے محبت کرو ؛کیوں کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں۔
وقال۔((آیۃ الایمان حب الأنصار،وآیۃ النفاق بغضہم ))(بخاری)
ترجمہ: آپﷺ نے فرمایا:انصار سے محبت رکھنا ایمان کی نشانی ہے اور ان سے کینہ رکھنانفاق کی نشانی ہے۔
وکان ابن عمریلبس النعال السبتیۃ ویصبغ بالصفرۃ،إذ رأی النبیﷺیفعل نحو ذلک۔ (بخاری)
ترجمہ:ابن عمرؓ بغیر بال والے جوتے پہنتے اورزرد رنگ استعمال کرتے،جب سے انہوں نے آپ ﷺ کو ایسا کرتے دیکھا۔
معاندین ومخالفین، مبغضین ومبتدعین سے بغض ونفرت:
۷- مبغضین سے بغض معاندین سے عناد : اللہ اور اس کے رسولﷺ سے بغض رکھنے والوں سے بغض رکھنا اور دشمنوں سے دشمنی کرنا اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور دین میں اختراع اور ایجاد کرنے والوں سے کنارہ کش رہنا؛نیز ہرایسے کام کو سرد رداور بار سمجھنا جو شریعت کے مخالف ہو۔
{ لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ}(المجادلۃ: ۲۲)
ترجمہ:’’ جولوگ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں ، ان کو تم ایسا نہیں پاؤگے کہ وہ ان سے دوستی رکھتے ہوں ، جنہوں نے اللہ اوراس کے رسول کی مخالفت کی ہے۔‘‘
وہؤلاء أصحابہ ﷺقد قتلوا أحباء ہم فی مرضاتہ وقاتلوأآباء ہم وأبناء ہم، وقال لہ عبداللہ بن عبداللہ بن أبی: ۔لوشئت لأتیتک برأسہ (بزار)یعنی أباہ۔
یہ اصحابِ رسولﷺ جنہوں نے اپنے رشتہ داروں اور چہیتوںکوآپﷺ کی محبت کی خاطر قتل کیا،انہوں نے اپنے باپ اور بیٹوں سے قتال کیا،عبداللہ بن عبد اللہ بن ابی نے آپﷺ سے کہا:آپ حکم دیں تومیں آپ کی خاطراپنے باپ کا سر لے آئوں۔
۸- قرآن پاک سے محبت: اور علامت محبت صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہے، آپ کی لائی ہوئی کتاب قرآن مجید سے محبت کرنا ، جس سے آپ نے ہدایت پائی اور ہدایت پھیلائی اور اسے اپنی زندگی میںاس طرح ڈھال لیا کہ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ قرآن ہی آپ کا اخلاق ہے۔
قالت عائشۃ رضی اللہ عنہا ۔کان خلقہ القرآن (مسلم)
اور قرآن سے محبت :اس کی تلاوت ، اس پر عمل اور اس کا سمجھنا ہے۔
۹- علامت حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہے : آپ کی امت کے ساتھ شفقت برتنا، ان کو نصیحت کرنا ، ان کی خیر خواہی کرنا ، ان کے کام آنا، ان کی مدد کرنا اورتکلیف کو دور کرنا ؛ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے لیے رؤوف ورحیم تھے۔
۱۰- علامت محبت کے تتمہ میں سے ہے : دنیا کی طرف لبھانے والی چیزوں سے کنارہ کش رہنا۔ اس کے حصول کے درپے نہ ہونا ۔ ان چیزوں پر فقر کو ترجیح دینا ۔ دنیا سے بے نیازی کے زیور سے خود کو آراستہ کرنا۔