عصری تقاضے اور تفسیری جواہر پارے

انوار قرآنی                                                                                              ساتویں قسط:

مولانا حذیفہ مولانا غلام محمدوستانویؔ

فاتحہ اور قرآن مجید کے مضامین :

پہلا مضمون توحید:           قرآن مجید کے مضامین میں پہلا مرکزی مضمون توحید ہے اور فاتحہ کی ابتدا ہی توحید سے ہوتی ہے۔ توحید میں سب سے پہلے اللہ کی ذات، اس کی صفات کا ادراک اور اقرار ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ہمہ جہت اور ہمہ گیر صفات میں سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ وہ کائنات کا رب ہے، جس کے معانی خالق، رازق، مالک اور بادشاہ کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی مہربان نہایت ہی رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا مضمون عدل وانصاف،جزا وسزا: قرآن حکیم کا دوسرا مضمون یہ ہے کہ اس جہاں کے علاوہ اور بھی جہاں ہیں؛ لہٰذا اللہ تعالیٰ اس دنیا میں تمہارا خالق، مالک، رازق اور بادشاہ ہے اور وہ تمہیں مارنے کے بعد آخرت میں زندہ کرکے اپنی عدالتِ عظمیٰ میں طلب کرے گا۔ اس دن ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق جزا اور سزا دے گا، وہ عادل ومنصف اور حاکم ِمطلق ہے اور اس کا سارا نظام عدل و انصاف پر مبنی ہے۔ قرآنِ مجید میں دنیا وآخرت کے بارے میں عدل و انصاف اور جزا وسزا کے اصول بیان کیے گئے ہیں۔

 تیسرا مضمون تعلق مع اللہ: جس کو قرآن عبادت کا نام دے کر اس کی فضیلت بیان کرتے ہوئے تقاضا کرتا ہے کہ بندے کا اپنے رب کے ساتھ تعلق طالب و مطلوب، عابد و معبود اور مخلوق و خالق، محکوم وحاکم کا ہونا چاہیے،اس کے بغیر زندگی گزارنے کا کوئی دوسرا طریقہ ٹھیک نہیں؛یہی انسان کی زندگی کا مقصد ہے۔ اس لیے اپنے رب کی عبادت کرنا اور اسی سے ہی مدد طلب کرنا چاہیے ؛کیوں کہ اس کے اذن اور امر کے بغیر کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکتا۔

 چوتھا مضمون صراط مستقیم ہے: جس کا مفہوم یہ ہے کہ بندے کو اپنے رب کے احکام و ارشادات کے مطابق زندگی گزارنا چاہیے۔ صراط مستقیم کا تعیّن فرماتے ہوئے قرآنِ مجید اس کی تشریح اور تقاضے بیان کرتے ہوئے وضاحت کرتا ہے کہ یہ انعام یافتہ انبیاء، شہداء، صدیقین اور صالحین کا راستہ ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک تمام انبیاء علیہ السلام؛ اسی راستے کی دعوت دیتے رہے۔ اس کے بغیر نہ کوئی صراطِ مستقیم ہے اور نہ ہی کوئی طریقۂ حیات قابل قبول ہوگا۔ اس سے نبوت کی ضرورت و اہمیت از خود عیاں ہوجاتی ہے۔ کیوں کہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ میں ہی عبادات، معاملات کا طریقہ اور اخلاقیات کے تمام تقاضے پورے ہوتے ہیں اور یہی صراط مستقیم ہے۔

پانچواں مضمون قوموں کے عروج وزوال: قرآن مجید سورۂ فاتحہ کی زبان میں انعام یافتہ، مغضوب اور گمراہ لوگوں کے حوالے سے قوموں کے عروج وزوال بیان کرتا ہے؛ تاکہ سمع و طاعت اور تسلیم ورضاکا رویّہ اختیار کرنے والوں کو بہترین انجام اور ان کا مرتبہ و مقام بتلایا جائے،باغیوں اور نافرمانوں کو ان کے انجام سے ڈرایاجائے۔ قرآن مجید کے باقی ارشادات و احکامات انہی مضامین کی تفصیلات اور تقاضے ہیں اور یہی قرآن کا پیغام ہے؛ اسی بنیاد پر سورہ ٔالحمد کو فاتحہ اور ام الکتاب کا نام دے کر اس کو کتابِ مبین کی ابتداء میں رکھا گیا ہے۔

             ادبی زبان میں ہم اس طرح کہہ سکتے ہیں: فاتحہ ابتدا ہے قرآن اس کی تکمیل، فاتحہ دعا ہے قرآن اس کا جواب، فاتحہ عنوان ہے قرآن اس کا مضمون، فاتحہ خلاصہ ہے قرآن اس کی تفصیل، فاتحہ پھول ہے قرآن اس کی خوشبو ، فاتحہ دروازہ ہے قرآن اس کا محل ۔ (فہم القرآن)

فطرتِ سلیمہ کی پکار :

            سورۃ الفاتحہ کے ضمن میں‘ مَیں نے عرض کیا کہ یہ دعا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں تلقین کی ہے؛لیکن اس سے آگے بڑھ کر ذرا قرآن مجید کی حکمت اور فلسفہ پر اگر غور کریں گے، تو اس سورت کی ایک اور شان سامنے آئے گی۔

بنیادی طور پر قرآن کا فلسفہ کیا ہے؟ انسان اس دنیا میں جب آتا ہے تو فطرت لے کر آتا ہے‘ جسے قرآنِ حکیم ’’فِطْرَت اللّٰہِ‘‘ قرار دیتا ہے۔ ازروئے الفاظ قرآنی: {فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا}  (الرّوم: ۳۰)

            یہی حقیقت حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بایں الفاظ بیان کی گئی ہے: (مَا مِنْ مَوْلُوْدٍ الاَّ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ‘ فَاَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہٖ اَوْ یُنَصِّرَانِہٖ اَوْ یُمَجِّسَانِہٖ) (بخاری) ’’ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے‘ لیکن یہ اس کے والدین ہیں جو اسے یہودی‘ نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں‘‘۔ ہر بچہ جو پیدا ہوتا ہے فطرت اسلام لے کر آتا ہے، تو انسان کی فطرت کے اندر اللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت اور اپنی محبت ودیعت کردی ہے۔ اس لیے کہ جو روحِ انسانی ہے وہ کہاں سے آئی ہے؟ {یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ ، قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ}’’اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!یہ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں، کہہ دیجیے کہ روح میرے رب کے امر میں سے ہے‘‘۔ ہماری روح رب تعالیٰ کی طرف سے آئی ہے؛ لہٰذا اس کے اندر اللہ کی معرفت بھی ہے‘ اللہ کی محبت بھی ہے۔ تو جب تک ایک انسان کی فطرت میں کوئی کجی نہ آئے،وہ بے راہ روی (perversion) سے محفوظ رہے، تو اسے ہم کہتے ہیں فطرت سلیمہ‘ یعنی سالم اور محفوظ فطرت۔

             اس فطرت والا انسان جب بلوغ کو پہنچتا ہے اور اسے عقل سلیم بھی مل جاتی ہے‘ یعنی صحیح صحیح انداز میں غور کرنے کی صلاحیت مل جاتی ہے، تو ان دونوں چیزوں کے امتزاج کے نتیجہ میں ایمانیات کے کچھ بنیادی حقائق انسان پر خود منکشف ہوجاتے ہیں‘ خواہ اسے کوئی وحی ملے یا نہ ملے، یہ ہے فطرت کا معاملہ اور یہ ہے قرآن کی حکمت اور فلسفہ کا اصول۔ اس کی ایک بڑی شاندار مثال قرآن مجید میں حضرت لقمان کی دی گئی ہے‘ صحیح قول کے مطابق جو نہ نبی تھے نہ کسی نبی کے پیروکار اور امتی تھے‘ لیکن انہیں اللہ نے حکمت عطا فرمائی تھی۔

             اگر فطرت بھی محفوظ ہے‘ عقل بھی ٹیڑھ پر نہیں چل رہی‘ بل کہ صحیح اور سیدھے راستے پر چل رہی ہے، تو ان دونوں کے امتزاج سے جو حکمت پیدا ہوتی ہے‘ انسان کو جو دانائی (wisdom) میسرّ آتی ہے، اس کے نتیجہ میں وہ پہچان لیتا ہے کہ اس کائنات کا ایک پیدا کرنے والا ہے،یہ خود بخود نہیں بنی ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ اکیلا ہے‘ تنہا ہے‘ کوئی اس کا ساجھی نہیں ہے، کوئی اس کا مدِّمقابل نہیں ہے اور اس میں تمام صفات کمال بتمام و کمال موجود ہیں۔ وہ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْر ہے‘ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عَلِیْم ہے، ہر جگہ موجود ہے اور اس کی ذات میں کوئی نقص‘ کوئی عیب‘ کوئی کوتاہی‘ کوئی تقصیر‘ کوئی کمزوری‘ کوئی ضعف‘ کوئی احتیاج قطعاً نہیں ہے۔ یہ پانچ باتیں فطرت سلیمہ اور عقل سلیم کے نتیجہ میں انسان کے علم میں آتی ہیں مزیدبرآں یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ انسانی زندگی صرف یہ دنیا کی زندگی نہیں ہے‘ اصل زندگی ایک اور ہے جو موت کے بعد شروع ہوگی اور اس میں انسان کو اس زندگی کے اعمال کا پورا پورا بدلہ ملے گا۔نیکیاں کمائی ہیں تو ان کی جزا ملے گی اور بدیاں کمائی ہیں تو ان کی سزا ملے گی۔ یہ وہ حقائق ہیں کہ جہاں تک انسان اپنی عقل سلیم اور فطرتِ سلیمہ کی رہنمائی سے پہنچ جاتا ہے۔ پھر اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک ہستی جو یکتا ہے،وہی پیدا کرنے والا ہے پروردگار ہے،وہی رازق ہے، وہی خالق ہے،وہی مالک ہے، وہی مشکل کشا ہے،تو اب اسی کی بندگی ہونی چاہیے، اسی کا حکم ماننا چاہیے‘ اسی سے محبت کرنی چاہیے؛اسی کو مطلوب بنانا چاہیے، اسی کو مقصود بنانا چاہیے۔ یہ اس کا منطقی نتیجہ ہے اور یہاں تک انسان عقلِ سلیم اور فطرت سلیمہ کی رہنمائی سے صراط مستقیم تک پہنچ جاتا ہے۔ (بیان القران اسراری)

سورۂ فاتحہ کا دوسری سورتوں سے تعلق:

            کائنات کی تمام چیزوں کی تخلیق، پرورش اور حفاظت ’’رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘ اور ’’الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ کے تحت ہیں۔ توحید کے متعلق تمام قرآنی آیات ’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ کے تحت ہیں۔ داؤد علیہ السلام کے واقعہ میں اور دوسرے تمام مقامات میں عدل و انصاف کا ذکر ’’مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ‘‘ کے تحت ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کی قربانی ’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ‘‘ کے تحت اور ان کی اور تمام انبیاء کی دعائیں ’’اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘ کے تحت ہیں۔ ایوب علیہ السلام کی شفا، یونس علیہ السلام کی نجات، ابراہیم علیہ السلام کا آگ میں محفوظ رہنا، زکریا علیہ السلام کو بڑھاپے میں اولاد ملنا وغیرہ سب ’’الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ کے تحت ہیں۔ ایمان دار اور متقی لوگوں کے احوال و واقعات اور ان کا نیک انجام آخری آیت کے تحت ہیں؛ اسی طرح بدکار اور سرکش لوگوں کے احوال و واقعات اور ان کا انجامِ بد بھی اسی آیت کے تحت ہیں۔ اسی کے مطابق دوسری تمام آیات و واقعات سمجھ لیں۔شیطان کا تکبر کے باعث دھتکارا ہوا ہونا ’’الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ‘‘ کی مثال ہے۔ (بدیع التفاسیر)

اسلام کی بنیادی تمام مسائل کو یہ سورت جامع ہے:

             پورے قرآن پاک کا لب لباب ان سات سورتوں میں ہے جن کی ابتدا حم سے ہوتی ہے۔ قرآن پاک کے بنیادی مسائل تو حید، رسالت ،قیامت اور وحی الٰہی ہیں؛ باقی سب کچھ ان کی تشریح کے ضمن میں آتا ہے،تو یہ چار بنیادی چیزیں حوامیم میں کمال درجے کے ساتھ ذکر کی گئی ہیں۔ اور پھر ان سات سورتوں کا خلاصہ صرف ایک سورۂ فاتحہ میں آگیا ہے۔ اور اس سورت کا نچوڑ اس کی آیت’’ ایاک نعبد وایاک نستعین‘‘ میں سما گیا ہے۔ صرف اللہ کی عبادت اور اسی سے استعانت طلبی منتہائے کمال ہے اور یہ اس سورۂ فاتحہ کا خلاصہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے (بخاری ج ۲) کہ سورہ ٔفاتحہ اعظم سورت فی القران یعنی قرآن پاک میں سب سے اعظم بہتر اور اچھی سورت یہی ہے۔ اعظم کا لغوی معنی بڑی ہے، مگر مرادیہ ہے کہ فضیلت میں سورۂ فاتحہ قرآن پاک کی سب سے بڑی سورت ہے۔ تمام بڑی چھوٹی اور وسطانی سورتوں میں سب سے اعلی مقام سورۂ فاتحہ کو حاصل ہے ؛کیوںکہ اس میں پورے قرآنِ کریم کا خلاصہ بیان کردیا گیا ہے، یہ بے مثال سورت ہے۔

 قرآن پاک کے بنیادی مباحث :

             قرآن پاک کے دو بنیادی مباحث ہیں: ایک عقائد اور دوسرے اعمال ۔ اعمال شخصی بھی ہوتے ہیں جن کا تعلق انسان کی انفرادی زندگی سے ہوتا ہے اور منزلی بھی جن کا تعلق تمدنی زندگی کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور حضرت امام شاہ ولی اللہؒ ان کو تدبیر منزل سے موسوم کرتے ہیں ۔ ان میں وہ اعمال آتے ہیں جن کا تعلق محلے شہریا ملک سے ہوتا ہے اور ان کی ضرورت اجتماعی زندگی میں گھر کے اندر سے شروع ہو کر پورے معاشرے تک ہوتی ہے ،ان دونوں انواع کے اعمال کا تذکرہ قرآن میں موجود ہے۔

 عقائد: کے سلسلے میں توحید کا ذکر بطور خاص ہے اس کے علاوہ نبوت و رسالت اور قیامت کا ذکر ہے، جو کہ قرآن پاک میں موجود ہے۔

 عبادات: میں نماز روزہ زکوۃ اور حج کا بیان موجود ہے۔

 اخلاق :مکارم اخلاق کی تعلیم دی گئی ہے۔ اچھے اور پسند یدہ اخلاق کو اختیار کرنے اور بڑے اور ناشائستہ اخلاق سے پرہیز کی تلقین ہے، اہل ایمان کے لیے امربالمعروف اور نہی عن المنکر بہت بڑا اصول ہیں، جن کو قرآن پاک میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ اہم مضامین میں نیکی کے کاموں میں تعاون ،خیر وشر کی پہچان، قضا وقدر پر ایمان، سعادت وشقاوت کی پہچان، شفاعت کا مسئلہ جنت اور دوزخ کی تفصیلات ہیں۔

معاشرت: معاشرتی مسائل میں نکاح و طلاق کے مسائل، وراثت، لین دین، بیع وشراء، خلافت، سیاست اور امورِ سلطنت وغیرہ سب قرآنِ کریم  میںمذکور ہیں۔ شروفساد کے قلع قمع کے لیے جہاد کی ضرورت اور فرضیت کا ذکر ہے، تبلیغِ اسلام کا طریقہ بھی بتلایا گیا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے: ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلھم بالتی ھی احسن (النحل) تبلیغ دین کافریضہ نہایت دانائی اور اچھے طریقے سے آگے بڑھانا چاہیے اور اگر اغیار کے ساتھ بحث و مباحثہ کی نوبت آئے، تو اخلاق کی حدود میں رہتے ہوئے احسن طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ان تمام مضامین کا خلاصہ اس سورۂ مبارکہ میں موجود ہے؛لہذا یہ ا عظم سورت فی القرآن ہے۔

سورۂ فاتحہ دیباچۂ قرآن:

             سورۃ الفاتحہ کی فضیلت کے متعلق عرض کیا گیا تھا کہ بااعتبارِ درجہ اور فضیلت یہ قرآنِ پاک کی سب سے افضل اور پسند یدہ سورت ہے؛ کیوں کہ اس میں قرآن پاک کے تمام مقاصد کا خلاصہ آگیا ہے۔ ہر کتاب کی ابتدا میں اس کتاب کا اجمالی تعارف دیباچہ کی صورت میں ہوتا ہے ؛چناںچہ قرآنِ پاک کا دیباچہ سورۃ الفاتحہ ہے؛ کیوںکہ یہ سورۃ قرآن پاک کے تمام معانی کو جامع ہے۔ اس کی مثال اس طرح بیان کی گئی ہے’’ کمراء ۃ صغیرۃ تریک شیاء عظیما‘‘ جس طرح ایک چھوٹا سا آئینہ بہت بڑی چیز کو دکھا دیتا ہے؛ اسی طرح یہ مختصر سورت قرآنِ کریم کے تمام بڑے بڑے مضامین کی جھلک دکھاتی ہے۔

صفات ربوبیت وعبدیت:

            اس سورۂ مبارکہ میں پانچ صفات ربوبیت کی اور پانچ صفات عبدیت کی بیان کی گئی ہیں۔

 ربوبیت کی پہلی صفت اسم ذات ’’اللہ ‘‘ہے: اس کا ذکرسب سے پہلے ہوا ہے۔

 دوسرے نمبر پر صفت ’’رب‘‘ ہے: جس کا معنی پرورش کرکے کسی چیز کو حدِ کمال تک پہنچا تا ہے۔ خود انسان کی پرورش اور ہرچیز کا ارتقاء، اسی صفت رب کا مرہون منت ہے۔

 تیسری صفت ’’رحمان‘‘ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے: جو آخرت میں اس کے فرمانبردار بندوں کو نصیب ہوگی۔

چوتھی صفت ’’رحیم ‘‘ہے:جو دنیا میں فرماں بردار اور نافرمان سب کو شامل ہے۔

 اس کے بعد پانچویں صفت ’’مالک‘‘ بیان ہوئی ہے: کہ ہر چیز کا مالک حقیقی خداوند ِکریم ہی ہے۔

             اس سورۂ مبارکہ میں عبودیت کی پانچ صفات بھی بیان ہوئی ہیں:

 پہلی صفت ’’عبادت‘‘ ہے: ہر انسان کا اولین فریضہ ہے کہ وہ اپنے خالق اور مالک کے سامنے سرِنیاز خم کردے۔ایاک نعبد۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔

 دوسری صفت ’’استعانت‘‘ بیان ہوئی ہے: مخلوق کے لیے ہر دینی یاد نیاوی کام میں استعانت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر کوئی کام پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا؛ لہذا انسان اللہ تعالیٰ کی استعانت کے محتاج ہیں۔  وایاک نستعین۔ہم تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں۔

 تیسر ی صفت ’’طلب ہدایت‘‘ ہے: یہ بھی ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے، ورنہ وہ کامیابی کی منازل طے نہیں کرسکتا۔ تمام ایمان والے ہر نماز میں یہی دعا کرتے ہیں: اھدناالصراط المستیقم اے اللہ! میری سید ھے راستے کی طرف راہنمائی فرما۔

  چوتھی صفت طلب استقامت ہے: راہِ راست میسر آجانے کے باوجود جب تک اس پر استقامت نصیب نہ ہو انسان منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتا۔ ہر انسان کے لیے ایمان، توحید ،عمل اور اخلاق پر قائم رہنا بھی ضروری ہے؛ لہذا اس سورۂ مبارکہ میں استقامت کو بھی طلب کیا گیا جو کہ بہت بلند چیز ہے۔

 پانچویں صفت طلبِ نعمت ہے: اور خدا تعالیٰ کے غضب وناراضگی سے پناہ چاہنا ہے۔ یہ تمام پانچوں صفات عبودیت بھی سورۂ فاتحہ میں بیان ہوگئی ہیں۔

 انسانی جسم کے عناصر:

            امام رازی (متوفی ۶۰۶ ھ) سلطان محمد غوری کے زمانے میں عظیم مفسر قرآن ہوئے ہیں۔ اس وقت تک مسلمان عروج پر تھے کیوں کہ ان کا زوال توساتویں ہجری میں شروع ہوا ہے۔ تو امام صاحب فرماتے ہیں: (تفسیر کبیر ص ۲۲۹ ج ۱) میں کہ انسان کی ساخت مختلف چیزوں کا مرکب ہے۔ اس جسم میں کثیف چیزیں بھی ہیں اور لطیف بھی، انسانی جسم کی ساخت میں خارجی دنیا کے تمام عناصر پائے جاتے ہیں؛ جس طرح سونا چاندی ،لوہا، ریت چارور زمین کے عناصر ہیں؛ اسی طرح یہ اشیاء انسانی جسم کے عناصر بھی ہیں۔ یونانیوں کے زمانے میں چارعنا صر تسلیم کیے جاتے تھے جو پانچ چھ اور سات تک پہنچ گئے۔ ہندستانیوں کے ہاں چھ عناصر مشہور تھے، مگر اس میں کوئی تحدیدنہ تھی بعد میں جوں جوں سائنس نے ترقی کی، تحقیقات کا دور آیا، تو معلوم ہو ا کہ کائنات میں عناصر کی تعداد تو کہیں زیادہ ہیں؛ چناچہ آج کل سائنسدانوں میں ایک سو بیس سے زیادہ عناصر کا تذکرہ ہوتا ہے، ان تمام عناصر سے فائدہ اٹھایاجاتا ہے اور یہ سارے کے سارے انسانی جسم کا بھی حصہ ہیں۔ انسان کا جسم اللہ تعالیٰ نے نہایت پے چیدہ کمپلی کیٹڈبنایاہے، بے شمار ظاہری اشیا کے علاوہ اس میں لاتعداد باطنی لطیف چیزیں بھی ہیں۔

 نفس شیطانی، بہیمی،سبعی اور ملکی: امام رازی سمجھا نے کی غرض سے فرماتے ہیں کہ انسانی جسم میں نفس ِشیطانی بھی پایا جاتا ہے ۔اور نفس ِملکی کا اطمینان ’’اسم ِاللہ‘‘ کی تجلی سے ہوتا ہے؛جب انسان پر اسم ذات کی تجلی پڑتی ہے، تو انسان میں موجود ملکی جوہر کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ اور جب’’ اسمِ رب‘‘ کی تجلی پڑتی ہے تو انسان کا نفسِ شیطانی زیرہوتا ہے اور وہ انسانی ذہن میں شروفساد برپا نہیں کرسکتا۔ اسی طرح جب ’’اسم رحمان‘‘ کی تجلی واردہوتی ہے ،تو انسان کا نفس سبعی مغلوب ہوتاہے اور اس کی اصلاح ہوتی ہے۔’’ الملک یومئذن الحق للرحمن ‘‘۔آج ساری کی ساری بادشاہی حق تعالیٰ کے لیے ہے ، جو نہایت مہربان ہے پھر جب ’’اسمِ رحیم‘‘ کی تجلی انسان پر پڑتی ہے، تو اس کے نفس ِبہیمی کی اصلاح ہوتی ہے۔

             گویا اسمِ پاک کی الگ الگ تجلی اور الگ الگ خواص ہیں۔ انسان کا جسم کثیف ہے اور یہ کثافت صفت مالکیت سے مغلوب ہوتی ہے اور انسان میں لطافت پیدا ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے سورۂ فاتحہ میں پانچ صفات ربوبیت کی ذکر کی ہیں اور پانچ ہی عبودیت کی۔ اور اللہ کے پانچ اسمائے پاک کی تجلی سے مختلف قسم کے اثرات انسانی وجود پر پیدا ہوتے ہیں۔

 مَلکیت اور بہیمیت کی کش مکش:

            امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی حکمت کے مطابق ( حجۃ اللہ البالغہ جلداول باب حقیقۃ الروح )۔ انسان میں ملکیت اور بہیمیت کی کشمکش جاری ہے اور ابدالاباد تک جاری رہے گی۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی ساخت میں یہ دونوں مادے اس مقدار میں رکھ دیے ہیں، جو کبھی ختم نہیں ہوں گے جب بھی ان میں سے کوئی مادہ ختم ہوگا، تو انسان باقی نہیں رہے گا ۔بہیمیت کا کچھ مادہ انسان کے ساتھ جنت میں بھی موجود ہوگا؛ کیوںکہ انسانیت کے قیام کا انحصار اسی پر ہے۔ جب بہیمیت کی صفت کسی انسان میں حد سے تجاوز کر جاتی ہے، تو اس میں درندوں جیسی چیرنے پھاڑنے کی خصلت پیدا ہوجاتی ہے؛ اس لیے تعلیم یہ دی جاتی ہے کہ ایسے امور انجام دو، جن سے بہیمیت مغلوب اور ملکیت غالب ہو۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ اس مقصد کے حصول کے لیے طہارت، اِخبات، سماحت اور عدالت جیسے زریں اصول اپنانا ہوں گے؛ ان امور کو انجام دینے سے بہیمیت دبی رہے گی اور کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔ اگر طہارت کی بجائے نجاست، عاجزی کی بجائے تکبر ،خدمت کی بجائے خود غرضی اور عدالت کی بجائے ظلم کو اختیار کروگے تو بہیمیت بڑھ جائے گی اور انسان نا کامی کی منزل پر گامزن ہوجائے گا۔ (خلاصہ کتب آسمانی)

            امام مجد دالف ثانی (تفسیر عزیزی ص ۲۷ ج ؍۱۔ مو اہب الرحمن ص ۲۹ ج ؍۱) نے یہ بات حضرت علی ؓ کی طرف منسوب کرکے اپنے مکاتیب میں نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی آسمانی صحیفے نازل فرمائے ہیں۔ ان کے تمام مضامین اولاً تین آسمانی کتابوں، زبور، تورات اور انجیل میں جمع کردیے، پھر ان تینوں کتب کے جملہ مضامین کو قرانِ پاک میں جمع فرمایا اور قرآنِ پاک کے تمام مضامین سورۂ فاتحہ میں یک جا کردیے؛ گویا دیباچۂ قرآن سورۃ الفاتحہ میںوحیِ الٰہی کے تمام مضامین کا خلاصہ آگیا ہے۔ اور پھر سورۂ فاتحہ کے تمام مضامین بسم اللہ الر حمن الرحیم   میںآگئے ہیں۔(معالم العرفان فی دروس القران سواتی)

یہ سورہ ام القران کیوں؟

            سورۂ فاتحہ کے بہت سے نام ہیں جن میں سے ’’اُمُّ الْقُرْاٰنْ‘‘ سب سے زیادہ جامع اور مشہور ہے۔ اس نام کی وجہِ تسمیہ یہ ہے کہ امّ کے معنی یہاں مغز اور خلاصہ کے ہیں ۔یہ سورت چوںکہ ان تمام مضامین کا خلاصہ ہیں، جو سارے قرآن میں بالتفصیل مذکور ہیں ،اس لیے یہ سورۂ مبارکہ ام القرآن کے نام سے موسوم کی گئی۔ اس کی دو تقریریں ہیں۔

 پہلی تقریر: مولانا شبیر احمد عثمانی مرحوم نے یہ فرمائی کہ قرآنِ مجید میں چھ مضامین بیان کیے گئے ہیں: 1 ؍ توحید۔  2 ؍ رسالت ۔ 3 ؍ احکام۔  4 ؍ قیامت۔  5 ؍ ماننے والوں کے احوال۔  6 ؍ نہ ماننے والوں کے احوال۔ اور سورۂ فاتحہ میں یہ تمام مضامین بالاجمال موجود ہیں۔ الحمدللہ سے الرحمن الرحیم تک توحید۔ ملک یوم الدین میں قیامت۔ ایاک نعبد اور اھدنا الصراط المستقیم میں احکام کا بیان ہے؛ کیوں کہ’’ نعبد‘‘ میں عبادت کے تمام طریق اور احکام کی طرف اشارہ ہے۔ اسی طرح’’ الصراط المستقیم‘‘ سے شریعت کے تمام احکام مراد ہیں۔ صراط الذین انعمت علیھم میں ایک طرف رسالت کا بیان ہے کیوں کہ منعم علیہم چار جماعتیں ہیں ۔جن میں انبیاء علیہم السلام سرفہرست ہیں؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے ’’اولئک الذین انعم اللہ علیہم من النبیین والصدیقین والشھداء والصلحین وحسن اولئک رفیقا‘‘ (سورۂ نساء) اور دوسری طرف ماننے والوں کے احوال کی طرف اشارہ ہے، یعنی ماننے والوں کو ہر قسم کے انعام واکرام سے نوازاجائے گا۔ اور’’ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین‘‘ میں نہ ماننے والوں کا ذکر ہے؛ اسی طرح یہ سورت قرآن مجید کے تمام مضامین کا خلاصہ ہے اور اسی بنا پر اس کا نام ام القراٰن ہے۔

 دوسری تقریر: دوسری تقریر ہمارے شیخ حضرت مولانا حسین علی ؒکی ہے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت امام ربانیؒ نے حضرت علیؓ سے نقل کیا ہے۔ نیز تفسیرِ مواہب الرحمان جلد 1  ص  3  میں ہے کہ سارے آسمانی علوم اور قرآنِ مجید کا خلاصہ سورۂ فاتحہ میں موجود ہے؛ کیوں کہ مضامین کے اعتبار سے قرآن مجید کے چار حصے ہیں ہر حصہ الحمد للہ سے شروع ہوتا ہے۔

 پہلا حصہ: سورۂ فاتحہ سے سورۂ مائدہ کے آخر تک ہے۔ اس حصہ میں زیادہ تر خالقیت کا بیان ہے یعنی ساری کائنات کا پیدا کرنے والا صرف اللہ ہی ہے اور کوئی نہیں۔

 دوسرا حصہ: سورہ ٔانعام سے سورہ ٔبنی اسرائیل کے آخر تک ہے۔ اس حصہ کا مرکزی مضمون ربوبیت ہے یعنی اس میں زیادہ تر یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہر چیز کو پیدا کرنے کے بعد اس کو حدِ کمال تک پہنچانے والا اور ہر چیز کی دیکھ بھال کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے، اس کے سوا اور کوئی نہیں۔

 تیسرا حصہ: سورۂ کہف سے سورۂ احزاب کے آخر تک ہے۔ اس میں زیادہ تر یہ مضمون بیان کیا گیا ہے کہ تخت ِبادشاہی پر وہ خود متمکن ہے ،وہی مالک و متصرف اور مختار و کارساز ہے اور وہی برکات دہندہ ہے اور وہ اپنی بادشاہی میں اپنے تصرفات اور اختیارات میں کسی کو شریک نہیں بناتا۔

 چوتھا حصہ: سورہ ٔسبا سے قرآنِ مجید کے آخر تک ہے۔ اس حصے کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ قیامت کے دن مالک ومختار صرف اللہ ہی ہوگا اور اس کے سامنے کوئی شفیع غالب نہیں ہوگا۔

             یہ چاروں مضامین جو پورے قرآن میں تفصیل سے مذکور ہیں ان کا خلاصہ اور اجمالی خاکہ سورۂ فاتحہ میں موجود ہے؛ چنا ںچہ’’ الحمد للہ ‘‘میں حصہ اول کی طرف اشارہ ہے ؛کیوں کہ لفظ اللہ سے وصف ِمشہور مراد ہے، یعنی خالق بمطابق قاعدۂ مشہورہ ” ’’کل فرعون موسیٰ ای لکل مبطل محق ” مشرکینِ عرب بھی اللہ کی صفتِ خالقیت کا اقرار کرتے تھے؛جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ولئن سالتھم من خلقھم لیقولن اللہ۔(زخرف ع  7) اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ ان کو کس نے پیدا کیا ہے تو وہ ضروریہی کہیں گے کہ (ان کو) اللہ تعالیٰ نے (پیدا کیا ہے)۔ دوسری جگہ ارشاد ہے: ولئن سالتھم من خلق السموات والارض لیقولن اللہ (لقمان ع  3) اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے، تو وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے۔ دوسرا حصہ رب العلمین میں مذکور ہے اور تیسرے حصہ کی طرف الرحمن الرحیم میں اشارہ  ہے ۔یعنی مالک و مختار اور تختِ حکومت پر وہی متمکن ہے ؛کیوں کہ انتہائی رحمت اور غایتِ شفقت بادشاہوں ہی کی صفتیں ہیں۔ اور چوتھا حصہ ملک یوم الدین میں مذکور ہے۔(جواہر القران غلام اللہ خان)

            سورۂ فاتحہ جامع ترین صورت ہے۔ تمام مفسرین نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق اس کے مضامین کی طرف اشارہ کرنے کی کوشش کی ہے، ہرنماز میں اس کو بار بارپڑھا جاتا ہے ؛ لہذا ان تفسیری افادات کو ہر مسلمان کے لیے غور سے پڑھنا،ازدیادِ ایمان کا باعث ہوگا۔