اداریــہ: تیسری قسط:
مولانا حذیفہ ابن مولانا غلام محمد صاحب وستانوی
اس سے قبل دوقسطوں میں علما کی عصر حاضر میں کیا ذمہ داریاں ہیں، اس پر روشنی ڈالی گئی تھی ۔ اب اس طرف روشنی ڈالی جاتی ہے کہ امت کو کس طرح کے مسائل درپیش ہیں اور کیا کیا چیلنجز ان کے سامنے ہیں، اور علما کو کون سا طبقہ کس چیلنج کا مقابلہ کرنے کا ذمہ دار ہے۔ اور کس طرح امت کی اس مشکل کو حل کیا جائے ۔ علما حضرات باوجود طوالت کہ اسے مکمل پڑھنے کی کوشش کریں ۔ اللہ ہم کو راہِ راست پر باقی رکھے اور مشکلات کے حل کرنے میں ہر طرح کی قربانی دینے کی طاقت وتوفیق سے نوازے۔ آمین یارب العالمین!
علما کے کتنے طبقات ہیں اس کو جاننے سے قبل ہم امت کو درپیش بڑے بڑے چیلنجز کیا ہیں؟ اس سے واقف ہوتے ہیں ۔ امت کو جو مشکلات درپیش ہیں وہ مختلف النوع ہیں : (۱ ) فکری چیلنجز (۲) اجتماعی چیلنجز (۳) انفرادی چیلنجز (۴) داخلی چیلنجز (۵) خارجی چیلنجز (۶) عالمی چیلنجز (۷) ملکی چیلنجز۔
جیسا کہ کہا گیا کہ امت کے مسائل کو حل کرنے کی تمام تر ذمہ داری علما پر ہی عائد ہوتی ہے ، لہٰذا بڑے چیلنج کا مقابلہ علما ہی کو کرنا ہوگا، تو آئیے !
علما کے مختلف طبقات :
(۱)…ملی تنظیموں کے ذمہ داران اور کارکنان۔
(۲)… مدارس کے ذمہ دار نظما اور مہتمم حضرات۔
(۳)…مدارس کے اساتذہ۔
(۴)…مکاتب کے اساتذہ۔
(۵)…مساجد کے ائمہ۔
(۶)…اسکولوں اور کالجوں میں لیکچر دینے والے علما حضرات۔
(۷)…تجارت کرنے والے۔
(۸)…دعوت و تبلیغ میں لگے ہوئے علما ء کرام۔
(۹)…نجی اور سرکاری اداروں میں کام کرنے والے علما۔
(۱۰)…تصنیف وتالیف اور مقالات تحریر کرنے والے علماء عظام۔
(۱۱)…خطابت کی ذمہ داری کے حاملین۔
(۱۲)…انگریزی داں علماء کرام۔
بندے کی کوشش رہے گی کہ ہر ایک کی علاحدہ علاحدہ ذمہ داریوں کو حالاتِ حاضرہ کے تناظر میں قلم بند کرے۔ اللہ صحیح لکھنے اور ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے ۔ آمین!
اسلامی حکومت کے دور میں تمام ذمہ داریاں علماپر عائد ہوتی تھی :
ایک زمانہ تھا جب دنیاکے چپے چپے میں اسلام اور مسلمانوں کا دب دبہ تھا ، ہر میدان میں اہم ذمہ داریاں مسلمان حکام اور امراعلماء کے سپرد کرتے تھے ؛ کوئی قاضی ہوتا تھا، تو کوئی منشی ، کوئی مشیر، تو کوئی معلم ۔ غرض کہ علما ہی ہر شعبے میں امت کی رہنمائی کرتے تھے ،
امت کو علماسے کیسے دور کیاگیا ؟
مگر دنیا کے بیشتر حصوں میں مسلمانوں کے مغلوب ہونے کے بعد اورمغربی فکر وفلسفہ کے غلبہ کے بعد، مغرب نے سب سے بڑی جو خرابی پوری دنیا میں عام کی؛ وہ زندگی کے اجتماعی شعبوں سے دین کو نکل دیا اور دین کو ایک نجی مسئلہ بنادیا ؛ پس پھر کیا تھا امت مغلوبیت کے اس دور میں مختلف خانوں میں منقسم ہوگئی اور آہستہ آہستہ علما کو زندگی کے تمام شعبوں سے دور کردیا گیا ۔ پہلے سیاست اور دین کو علاحدہ کرکے علما کو سیاست سے دور کردیا اور اسلامی نظریۂ خلافت کی جگہ جمہوریت کو لاکھڑا کردیا ؛ پھر تعلیم کے درمیان تفریق کرکے سیکولر اور دینی تعلیم الگ الگ کردی اور اس طرح علما کو دینی تعلیم کے دائرے میں قید کردیا گیا ۔
اقوام مغرب نے تعلیم کے نام پر انسانیت کو کس طر ح گمراہ کیا؟
انیسویں صدی میں انگریزوں نے تعلیم ہی کے راستے سے صرف مسلمانوں میں نہیں ؛بل کہ پوری دنیا میں آباد تمام مذاہب کے پیروکاروں کو سیکولر تعلیم کے نام پر اپنی مادی تہذیب کے دلدل میں پھانس لیا ۔
انگریزوں نے اپنے تسلط کے بقا کے لیے کیا پلانگ کی؟
ڈاکٹر ظفر حسن صاحب اس پر بہترین تجزیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ انگریز حملہ آور چند نئی چیزیں لے کر ہندستان اور دیگر اسلامی خطوں میں آئے۔
۱… عیسائیت کی تبلیغ ۔
۲ … مابعد الطبیعیات سے بے بہرہ ہی نہیں، بل کہ سختی سے اس کی مخالف (تہذیب وتمدن ) کو لے کر آئے۔
۳… نئی ٹیکنالوجی لائے۔
۴… انگریزوں کو اصرار تھا کہ وہ تمام مذہبی تہذیب اور معاشرتی دینی نظام بدلیں گے۔
۵)… انگریز پروپیگنڈہ کی ذہنیت لے کر آئے ۔
سازشوں کے برے اثرات :
عیسائیت کی تبلیغ سے مسلمان تو اتنے زیادہ متاثر نہیں ہوئے ، کیوں کہ حضرت مولانا رحمت اللہ صاحب کیرانوی حضرت حجۃ الاسلام علامہ قاسم نانوتوی ؒ جیسے عظیم المرتبت شخصیتوں نے براہِ راست ان سے مناظرے کیے ؛البتہ ہندو برادری کے بچھڑی اقوام کافی متاثر ہوئی، مگر دنیا کے دیگر خطوں کے مقابلے میں وہ بھی کم ہی ہوئے۔
ان کی ٹیکنالوجی سے البتہ بہت سارے لوگ متاثر ہوئے ، مگر ابتدا میں وہ بھی کم تھے ، اب تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔یہاں کے معاشرتی نظام پر البتہ ان کا قدرے زیادہ اثر ہوا ، مگر پھر بھی دوسرے خطوں کے مقابلے میں تو کم ہی ہوا۔ہاں!مگر اب آہستہ آہستہ میڈیا کے راستے اثرات بڑھتے جارہے ہیں۔
سب سے زیادہ جو چیز اثر انداز ہوئی وہ تھی ان کی پروپیگنڈہ والی سازش ، اس سے یہ ہوا کہ حقائق کو تبدیل کرنے میںتحقیق اور آزاد انہ ریسرچ کے نام پر اسلامی تاریخ؛ بل کہ عالمی تاریخ کا بیڑا غرق کردیا اور ہندستانیوں کو اپنی قدیم صحیح تاریخ سے کاٹ کر رکھ دیا ، جس کے مہلک اثرات آہستہ آہستہ بڑھتے جارہے ہیں ؛ غرض کہ ان کے معاندانہ سماجی ،معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی خیالات مسلمانوں پر اور تمام طبقات پر نمایاں طور پر اثر انداز ہوئے اور ہورہے ہیں ؛جب کہ انہوں نے ہمارے تعلیمی نظام پر قابو پالیا تو کالے انگریز خود بخود بڑھتے چلے گئے اور ایک بڑا طبقہ ایسا وجو د میں آگیا، جو اسلام کو مغرب کے اصول سے بلا نقصان ہم آہنگ کرنا چاہتا ہے۔
علما کو عصرِ حاضر میں بے حد جد و جہد اور محنت کی ضرورت ہے:
خیر یہاں جاننا ضروری ہے کہ علما کو عصرِ حاضر میں بے حد جد و جہد اور محنت کی ضرورت ہے ؛کیوں کہ وہ اہل حق کے ترجمان ہیں ، لہٰذا ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ حق کو غالب کرنے کے لیے تن من دھن کی بازی لگادیں۔ اوپر ذکر کیے گئے چیلنجز پر ان شاء اللہ کلام کروں گا ہی ، مگراس سے قبل یہ چیلنجز کس جانب سے امنڈرہے ہیں، اسے ذکر کرنے جارہا ہوں ۔
ہمارے دشمن کون کون ہیں؟
دیکھیے! ہمارے دشمن تو سب ہی ہیں ’’ الکفر ملۃ واحدۃ ‘‘ مگر اس وقت بڑے بڑے دشمن جو ہیں وہ یہ ہیں:
(۱) اہل کتاب ، یہودو نصاریٰ (۲ ) کفار و مشرکین کے مختلف مذاہب (۳) ملحدین کا گروہ (۴) جدیدیت کے حامل مسلمان مفکرین (۵) خود مسلمانوں میں پائے جانے والے منافقین ۔
ہمیں ان سب کا مقابلہ ڈٹ کر کرنا ہے ،اس کے لیے پہلے ہم خود اپنے آپ کو کیسے تیار کریں اسے جانتے ہیں ۔
مسلمانوں کی ذہنی غلامی کا آغاز:
طبقہ علما کو اپنے مشن کی کامیابی کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ کس طرح انگریزوں نے ہمارے معاشرے کو ذہنی غلامی کے شکنجے میںجکڑدیا ؟تو آئیے اسے ڈاکٹر ظفر حسن صاحب کی تحریر کی روشنی میں جانتے ہیں:
برصغیر میں میں انگریزوں نے جیسے جیسے پاؤں جمائے اور مکمل تسلط کی طرف بڑھے ویسے ویسے اپنی تعلیمی پالیسیوں پرزیادہ زور دینا شروع کیا ، اس سلسلے میں انیسویں صدی کے دو نمایاں اوربنیادی واقعات قابلِ ذکر ہیں ۔ اول ہندستانی تعلیم کے بارے میں ’’سر چارلس ووڈ‘‘کا وہ مشہور مراسلہ جو بعد میں ہندستان میں انگریزی تعلیم کا منشورِ اعظم کہلایا۔ دوسرا’’ ہنٹر ایجوکیشن کمیشن ۱۸۸۲ء‘‘ کا قیام ۔چارلس ووڈ کے مراسلے کے چند نمایاں نکات درجِ ذیل ہیں:
(۱) … انگریز حکومت کا فیصلہ ہے کہ اس کی تعلیمی پالیسی مغربی طرز کی ہو ۔
(۲) …اعلیٰ سطح کی تمام تر تعلیم کے لیے انگریزی زبان کا استعمال ناگزیر ہے ، اس لیے تجویز یہ پیش کی جاتی ہے کہ صرف انگریزی ہی کے ذریعہ تعلیم ہو ۔ مقامی زبانوں کی اہمیت پر بھی زور دیا جائے، کیوں کہ مقامی زبانوں کے وسیلے سے ہی یورپ کا علم عوام تک پہنچ سکتا ہے۔
(۳)… گاؤں میں پرائمری اسکول قائم کیے جائیں ،جہاں مقامی زبانوں کے ذریعے ہی تعلیم دی جائے اور اگلے مرحلے کے لیے اینگلو اور ہائی اسکول قائم کیے جائیں اور ہر صوبہ میں یونیور سٹی سے منسلک ایک کالج ہو۔
(۴) … نجی تعلیمی اداروں کو فروغ دینے کے لیے مالی مدد کی جائے؛ بشر ط یکہ یہ تعلیمی ادارے اپنا معیار بلند رکھیں ۔
(۵) … تعلیم کا ایک محکمہ قائم کیا جائے، تو پانچوں صوبوں میں کمپنی کے کسی ڈائریکٹر کی سر پرستی میں تعلیمی ترقی کی نگرانی کرے۔
(۶) …لندن یونیور سٹی کی طرز پر کلکتہ ، بمبئی اور مدراس میں یونیور سٹیاں قائم کی جائیں۔
(۷) … پیشہ وارانہ تعلیم اور ٹیکنیکل کالجوں کے قیام پر زور دیا جائے ۔
(۸) … استادوں اورپڑھانے والوں کی تربیت کے لیے بھی برطانیہ کے کالجوں کی طرز پر تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں۔
(۹)…تعلیم ِنسواں پر بھی خصوصی توجہ دی جائے۔
انگریزی طرز تعلیم کے مضر اثرات:
انگریزی طرز ِتعلیم کا یہ نیا منصوبہ محکوم قوم پر اس کے مضر نتائج اورمضر اثرات کو نظر میں رکھے بغیر رائج کردیا گیا ۔ اور ووڈ کی تقریباً تمام تجاویز کو عملی جامہ پہنا یا گیا ۔۱۸۵۷ء میں تین مقامات یعنی کلکتہ ، مدراس اور بمبئی میں یونیورسٹیاں قائم ہوگئیں ۔ ووڈ کے مراسلے میں جو تعلیمی مقاصد درج تھے ، آئندہ پچاس سال تک انگریز حکومت ہندستان میں انہی پر کار بند رہی ؛اسی دورمیں ہندستان میں مغربی تعلیم اپنے عروج پر پہنچی ۔ مشنریوں نے بھی اس مہم میں زبردست حصہ لیا ، ان اسکولوں اور کالجوں کے زیادہ تر پرنسپل اور ہیڈ ماسٹر انگریز ہوتے تھے ۔
(سرسید اور حالی کا نظریۂ فطرت ص ۲۶-۲۷)
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ انگریزوں کی ہرکارروائی ان کی کسی ذاتی مصلحت کی بنا پر ہوتی تھی۔
(سرسید اور حالی کا نظریۂ فطرت ص ۲۸-۲۹)
انگریزوں نے فارسی کا زور توڑ دیا تھا ۔ ہماری زبان ، ہمارے گُر اور ہمارے فن کو پاکر انہوں نے ہمیں ہماری سلطنت سے محروم کردیا ۔ اور ہمارے مذہبی اخلاقی اور معاشرتی مسائل میں اُلجھنیں پیدا کردیں۔
(سرسید اور حالی کا نظریہ فطرت ص ۳۵)
ہندستان میںانگریزوں کا راج ’’جو وارن ہیسٹنگز‘‘ کے زمانے سے شروع ہواتھا، اس پر مکمل عمل درآمد بینٹنگ کے دور میں ہوا ۔ ہندستان میں مغربی تہذیب کا داخلہ مغربی علوم کی تعلیم، مشنری پروپیگنڈہ اور خاص طور سے انگریزی زبان کی تدریس اوراسے ذریعۂ تعلیم بنانے سے ہوا۔ پرانی قدروں کو فوری طور پر اگرچہ نیست ونابود نہیں کیا گیا ، لیکن نئے خیالات کو پرانے خیالات کے ساتھ پھیلایا گیا ، حکومت نے کھلم کھلا مشنریوں کی حمایت تو نہ کی ، لیکن ان کو بدستور چوری چھپے امداد پہنچائی اور ان کی مسلسل ہمت افزائی کرتی رہی ۔
مغربی تعلیم نے مذہبی افکار کو شکوک و شبہات کے دائرے میں لاکر مذہب کو شدید نقصان پہنچایا:
مغربی تعلیم نے جس کی بنیاد ہندستان میں عیسائی تبلیغی جماعتوں نے ڈالی تھی ، مقامی نوجوانوں کے ذہنوں میں شک و شبہ کے بیج بوئے ۔ مذہب کو جو ہندستانیوں کے ذہنوں میں روایتی طور پر گہرا اور معنی خیز اثر رکھتا تھا شدید خطرہ لاحق ہوا۔ مشنری جماعتیں اپنی دانست میں معاشرے کے لیے برابر سود مند پیش کش کرتی رہتی تھیں ، لیکن راسخ الاعتقاد مقامی مفکرین کی پریشانی بڑھتی گئی ۔(سرسید اور حالی کا نظریہ فطرت ص۴۸)
انگریزوں کے تعلیمی پالیسی کے آڑ میں اپنے سیاسی مقاصد:
برِصغیر میں انگریزوں کی تعلیمی پالیسی اوراس کے مقاصد کا جائزہ سطورِ گزشتہ میں پیش کیا جاچکاہے ، یہاں ان کی تعلیمی پالیسی کے پیچھے جو سیاسی مقاصد کار فرما تھے ، ان کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے ۔
(۱) انگریز چاہتے تھے کہ وہ ہندستانیوں کو مغربی فنون ، فلسفے اور مذہب کی ایسی تعلیم دیں کہ یہاں کی فکر اور سوچ میں ہرطرح سے مغربیت حاوی ہوجائے ؛ یہاں تک کہ ان کا ذہن انگریزوں کے تسلط کو نہ صرف قبول کرلے ؛ بل کہ ان کی حاکمیت کو دوام حاصل ہوجائے ، اس طرح رفتہ رفتہ ہندستانی اپنی اعلیٰ قدروں کو فراموش کردیں اور مسیحی مذہب کے فکر و عمل کا زور بڑھے ۔ ان کا گمان یہ بھی تھا کہ مقامی لوگوں میں اب کاروبار سلطنت کی امنگ اوراہلیت نہیں رہی اوروہ یہ بوجھ اٹھانے سے کتراتے ہیں ۔( اگرچہ ان کا یہ خیال پادرہوا ثابت ہوا اور تاریخ نے اسے یکسر غلط ثابت کردیا )انہیں یہ غلط فہمی بھی تھی کہ عیسائیت ہی حقیقی مذہب ہے، اس لیے ایک بار جب ہندستانی عیسائیت کو اپنالیںگے، تو ان میں انگریزی حکومت کو الٹنے کی پھر کوئی امنگ نہ رہ جائے گی ۔
لارڈ میکالے کی نیت میں خباثت:
سید طفیل احمد منگلوری اپنی کتاب ’’ مسلمانوں کا روشن مستقبل ‘‘ میں لکھتے ہیں: کہ گو’’ لارڈ میکالے‘‘ نے ظاہری طورپر انگریزی تعلیم اورزبان کو ہندستان میں رائج کرنے کی وجہ یہ بتائی تھی کہ ایک ایسی جماعت قائم ہو جو ہندستان میں حاکم ومحکوم میں مفاہمت اوررابطہ کی ضروریات پوری کرے ، لیکن در اصل بات کچھ اور تھی جس کا انکشاف ان کی اس چٹھی سے ہوتا ہے جو انہوں نے اپنے والد صاحب کو لکھی تھی ۔
’’ اس تعلیم کا اثر ہندوؤں پر بہت زیادہ ہے ، کوئی ہندو جو انگریزی دان ہے کبھی اپنے مذہب پر صداقت کے ساتھ قائم نہیں رہتا، بعض لوگ مصلحت کے طور پر ہندو رہتے ہیں، مگربہت سے یاتو موحد ہوجاتے ہیں یا مذہب ِعیسویں اختیار کرلیتے ہیں ۔ میرا پختہ عقیدہ ہے کہ اگر تعلیم کے متعلق ہماری تجاویز پرعمل درآمد ہوا تو، تیس سال بعد بنگال میں ایک بھی بت پرست نہ ہوگا ۔‘‘
نظام تعلیم سے مذہبی تعلیم کا خاتمہ:
اس خیال کے تحت مغربی تعلیم پر بہت زور دیا گیا کہ بالآخر یہ منصوبہ بنایا گیا کہ ہندستان کے تعلیمی اداروں میں مسلمانوں اور ہندوؤں کوا ن کی مذاہب کی کوئی تعلیم نہ دی جائے؛ بل کہ اس کی جگہ بالواسطہ یا بلاواسطہ عیسائیت کی تعلیم دی جائے ، اس کے بعد مسلمانوں اور ہندؤوں کے رسوم وعقائد کو چیلنج کیا ۔ بالآخر ملک میں ایک تاریخی نوعیت کا بحران پیدا ہوا اور نتیجتاً ۱۸۵۷ء میں کارتوسوں میں چربی کے استعمال اور ہندوؤں کو پیشانی پر تلک لگانے سے روکنے پر جنگ آزادی چھڑ گئی ۔
انگریزوں کا مسلمانوں کی تعلیم کے بارے میں گھناؤنا منصوبہ:
بہرحال مسلمانوں کی تعلیم کے بارے میں ان کی مستقل پالیسی یہ رہی کہ مسلمانوں کی تعلیم کی حد آخر ادنیٰ ملازمتوں کی خواہش وحصول سے آگے نہ بڑھنے پائے اوروہ جدید تعلیم سے جس میں نئے عالمی سیاسی اور سائنسی رجحانات شامل ہوں، ناآشنا اوربیگانہ محض رہیں ؛ چناںچہ انہوں نے اس پرپوری طرح عمل کیا ۔ اس خیال پر ’’ڈاکٹر ہنٹر‘‘ کے بیان سے روشنی پڑتی ہے کہ وہ اپنی رپورٹ میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’ مسلمانوں کا تنزل ہماری سیاسی جہالت اور غفلت کے نتائج میں سے ایک نتیجہ ہے ،ہماری عملداری سے قبل مسلمانوں کا وہی مذہبی عقیدہ تھا ، وہ وہی کھانا کھانے تھے ، اور تمام جزئیات میں ویسی ہی زندگی بسر کرتے تھے ، جیسی کہ اب کرتے ہیں ؛ اب تک وہ وقتاً فوقتاً قومیت اورجنگجو یا نہ حوصلہ مندی کے جذبات کا اظہار کرتے ہیں ،مگر تمام دیگر امور میں وہ انگریزی حکومت میں ایک بر باد شدہ قوم ہیں ۔ ‘‘(سرسید اور حالی کا نظریہ فطرت ص۵۹-۶۰)
مسلمانوں کے سیاسی اورذہنی زوال اور ان کے طرزِ معاشرت پرانگریزوں کا ہما جہتی حملہ:
بد قسمتی سے مسلمانوں کے سیاسی اورذہنی زوال نے انگریزوں کا اثر قبول کیا ،تو وہ بھی نا چاری کی حالت میں ۔ ہماری زندگی اورطرزِ معاشرت پرانگریزوں کا حملہ کئی رخا تھا ، محکوم قوموں کے ساتھ جو بیتتی ہے وہ ہم پر بھی بیتی۔
تعلیم ناقص اور دین متزلزل ہوتا چلا گیا ، نتیجے میں ہندستان میں مغرب اورمشرق کی ایک کشمکش کی شکل وجود میں آئی ۔ ان حالات کو مولانا سید ابو الحسن ندوی نے یوں بیان کیا ہے … ’’مشرق و مغرب کی یہ کشمکش مختلف سیاسی اور تہذیبی اسباب کی بنا پر اسی طریقہ پر سامنے آئی کہ اس کے سامنے دو راستوں کے علاوہ کوئی اور راستہ باقی نہ رہ گیا تھا ۔ اسلامی زندگی کی ترجیح عقیدہ وایمان کی بنا پر ، یا مغربی زندگی کا انتخاب مادی قوت اور ترقی کی بنیاد پر …‘‘ہندستان میں انگریزی حکومت ( جو مشرق میں تہذیب مغرب کی نمائندہ اور وکیل تھی ) کے قدم اچھی طرح جم چکے تھے ، وہ اپنے ساتھ جدید علوم اور جدید تتظیمات اور اس کے متعلقہ آلات ومصنوعات اور افکار وخیالات کا ایک بڑا لشکر لائی ، ہندستانی مسلمان اس وقت زخم خوردہ مضمحل اورشکستہ خاطر تھے۔ ۱۸۵۷ء کے ہنگامہ میں ان کی عزت وخودداری پر ضرب کاری لگی تھی ۔ دوسری طرف ان کو نئے فاتح کا رعب نئے حالات کی دہشت ، ناکامی کی شرم اورمختلف شکوک وشبہات اور تہمتوں کا سامنا تھا، ان کے روبرو ایک ایسا فاتح تھا جو قوت وخود اعتمادی سے لبریز تھا ، ایک ایسی تہذیب تھی جو جدت اور نشاط انگیزی اور تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال تھی ، بہت سی ایسی مشکلات اور مسائل تھے ،جو فوری اور دور اندیشیا نہ حل اورفیصلہ کن اور واضح موقف (پالیسی ) کے طلبگار تھے ۔ اس پیچیدہ نفسیاتی کیفیت اورنازک حالت میں دو قسم کی قیادتیں ابھر کر سامنے آئیں ۔ پہلی قیادت دینی قیادت تھی، جس کے علمبر دار علمائے دین تھے ۔ دوسری قیادت کے علمبردار سرسید احمد خاں ، ان کے حلقہ بگوش اور جدید مکتب ِخیال کے افراد تھے۔ ‘‘
(سرسید اور حالی کا نظریہ فطرت ص۶۷-۶۸)
انگریزوں کی یہ تعلیمی پالیسیوں کا ہندستان پہلی تجربہ گاہ ثابت ہوا ، اس کے بعد اگر چہ دنیانے مغرب سے بہ ظاہر آزادی کی جنگ لڑکر جان چھڑا لی، مگر چوں کہ تعلیم کے ذریعہ وہ پوری دنیا کو اپنا ذہنی غلام بنا چکے تھے ۔ اور آج دنیا کے تمام ممالک اگر چہ آزاد ہیں، مگر فکری طور پر مغرب کے غلام ہیں ۔ تو آئیے! ہم مغربی معاشرے میں پھیلی ہوئی مادی فکر پر ایک نظر دوڑاتے چلیں اس لیے کہ وہی مغربی مادی فکر بعد میں چل کر عالم اسلام پر ہو بہو تھونپ دی گئی جب کہ مغرب میں صنعتی انقلاب سے قبل جو حالات تھے وہ عالم اسلام سے جدا گانہ تھے ، لہٰذ عالم اسلام کو ان مادی افکار کی ضرورت نہیں تھی ، مگر مغرب نے بالقصد اپنے فلسفے اور فکر کو محض اپنے غلبہ کو طول دینے کے لیے اس طور پر مسلط کیا کہ اس سے اقوام عالم کو ان کے اپنے مذہب سے تو جدا کردیا جائے البتہ سائنسی اور علمی میدان میں انہیں صرف اپنا نوکر اور غلام رہنے دیا جائے، اسی لیے ضروری ہے کہ ہم مغربی مادی فکر و فلسفے کے تاریخی پس منظر سے واقف ہوںتاکہ ہمیں اس کی خامیوں کا ادراک ہو اور اس کے جو مہلک اثرات اب تک کے ہمارے معاشرے پر پڑچکے ہیں اس کی اصلاح کی کوشش کریں۔ توآئیے سولہویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک مغرب کے مادی افکار پر ایک نظر ڈوڑا تے ہیں۔
سترہویں صدی کے مادی افکار؛ اور روایتی اندازِ فکر کا خاتمہ:
سولہویں صدی کے سائنس دانوں تک جس میں ’’کوپرنیکس‘‘ شامل ہے، یہ نظریہ رائج تھا کہ کائنات اورقدرت کے نظام ِتصور میں ایک طرح کی وحدت موجود ہے ۔ بد قسمتی سے ’’ڈیکارٹ‘‘ اور اس کے مداحوں نے جو سائنس اور فلسفہ کا سلسلہ چلا رکھا تھا اس نے کائنات کو ایک میکانیکی نظام تصور کیا، جس کے نتیجے میں سولہویں سے سترہویں صدی تک جوذہنی انقلاب برپا ہوا اس نے تمام روایتی اندازِ فکر کو ختم کرکے رکھ دیا ۔ ستاروں اورسیاروں کی دریافتیں ہوتی گئیں اورفطرت کا مسلمہ نظریہ درہم برہم ہوتا چلاگیا ۔ اعداد و شمار اورحساب دانی نے نفصیلات میں جانے کا رجحان ایسے چلا یاکہ لوگ اگر جزو کی طرف دیکھنے لگے تو کل کو نظر انداز کرگئے۔
نظریہ فطرت اور نیچر کی فتنہ سامانیاں :
اس ضمن میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پچھلے چھ سو سال میں، جو سب سے اہم طرز ِفکر ، اختراع ہوئی وہ سائنسی طریقہ ’’ (Scientific Method ) تھا ،جو فطرتِ انسانی اور کائنات کے بارے میں مشاہدے کی اہمیت پر اثر انداز ہوا ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ فطرت باقاعدہ متعین اور چند ابدی اصولوں اورقوانین پر قائم ہے۔ ازمنۂ وسطی کی طرز فکر کے مطابق فطرت ایک طرح کا دوامی معجزہ تھی اورہرلمحہ کسی زبانی مداخلت کی بنا پر اس کی بقا اور تجدید ہوتی رہتی تھی ، لیکن سائنسی طریقے کے رواج پانے کے بعد فطرت اور کائنات کا تصور ایک بے لاگ اور سرد نظریہ رہ گیا ۔ یون تو اراسمس کے وقت سے انسان پرستی (Humanism)کی تحریک تقریباً لادینیت کی حدود تک پہنچ چکی تھی ؛لیکن نشاۃ ثانیہ میں انسان نے ایک اور صفت جس کو اپنایا وہ ایک وحشی پن کا عنصرتھا ، یعنی نشاۃ ِثانیہ کے انسان میں ایک نیا جوش اور ولولہ اس نوعیت کا پیدا ہو جو کہ انسان کو بے باکی اور غیرمشروط آزاد روی کی طرف مائل کرتا ہے۔
(سرسید اور حالی کا نظریہ فطرت ص۱۵۵-۱۵۶)
روحانی اور ما بعد الطبعیاتی فکر وتصور سے بے التفاتی :
نشاۃ ثانیہ میں فطرت کے تمام روایتی نظریے اورتصورات تنزل پذیر ہوتے چلے گئے ، تاحدیکہ کائنات کا قائم شدہ نقشہ مسخ ہوتا چلا گیا اوربالکل معدوم ہوگیا ۔ نتیجہ میں ہرایک اپنی من مانی کرنے پرکوشاں ہوگیا ، اور کسی روحانی یا مابعد الطبیعاتی فکر یا تصور کا منظم یا باقاعدہ چرچا نہ رہا ۔ اب نام نہاد جمہوریت نے بھی سراٹھایا اور جن چیزوں کو عوام الناس نے سراہا اسی کو حقیقت سمجھا جانے لگا ،ہر ایک کو یہی سمجھایا گیا کہ آرام طلبی کی راہ اختیار کرے۔رفتہ رفتہ سائنس کادور دورہ جب اور ہوا تو صنعتی انقلاب آیا اور اس کے ساتھ نئے نئے مسائل بھی نمودار ہوئے۔
(سرسید اور حالی کا نظریہ فطرت ص۱۵۷-۱۵۸)
نئی ترقی نے دنیا پرست فکر کو مسلط کردیا:
ہم اوپر بتا چکے ہیں کہ ازمنۂ وسطیٰ میں فطرت اور کائنات کا جو تصور رائج تھا، وہ بظا ہر تو نشاۃِ ثانیہ کے زمانے میں بھی قائم رہا ، لیکن در اصل اس کی شکل ہی شکل رہ گئی تھی ۔معنی اور ورح غائب ہونے لگی تھی ، یہ بھی ہم بتاچکے ہیں کہ نشاۃِ ثانیہ میں انسان پرستی اور دنیا پرستی کا رجحان غالب آنے لگا تھا اور آہستہ آہستہ فطرت کا ایک نیا تصور پیدا ہورہا تھا ۔ تجارت کی ترقی ، فلکیات کے بارے میں نئی دریافتیں ، ریاست اور معاشرے کا نیا تصور وغیرہ یہ ایسی چیزیں ہیں جنہوں نے اس نئے تصور کو قائم کرنے میں مدد دی ۔
سترہویں صدی انسانی زندگی میں بنیادی انقلاب کے حامل:
اب ہم مختصر سا خاکہ سترہویں صدی کے سائنسداں اورفلسفیوں کے افکار کا پیش کرتے ہیں، جس سے اندازہ ہوگا کہ شکست وریخت کا جو کام سولہویں صدی میں شروع ہوا تھا، اس کی تکمیل سترہویں صدی میں کس طرح ہوئی اور جس چیز کو ہم دور جدید کہتے ہیں وہ کس طرح وجود میں آیا ۔ یہ وہ صدی ہے جب انسانی ذہن اور انسانی زندگی میں ایک بنیادی انقلاب واقع ہوا اور ایک نئے قسم کا انسان نمودار ہوا، جو اپنے سے پہلے والے انسان سے ہر علاقہ منقطع کرنے پر مصر تھا ۔ یہ انقلاب تو یورپ میں آیا ، پھر انیسویں صدی سے اس کا اثر مشرقی ممالک پر بھی پڑنے لگا۔ (سرسید اور حالی کا نظریہ فطرت ص۱۵۸)
سائنس نے انسان کو غلط راہ پر ڈال دیا:
سائنس نے انسان کو اب یہ سکھادیا کہ دنیا کو بے تعلق ہوکر دیکھا جائے یعنی کائنات کو ایک نئی زبان میں نئے علامتی نشانوں کی مدد سے پڑھا جائے، یہ وہ فطرت کے راز ہیں جو کوپرنیکس ، کیپلر ، اورگلبی لیو جیسے ریاضی دانوں نے اپنی کتابوں میں خلاصہ کے طورپر پیش کیے ہیں۔ (سرسید اور حالی کا نظریہ فطرت ص۱۵۹)
اٹھارہویں صدی کے مادی افکار:
کائنات کے بارے میں نئے نظریات کی بنیاد سائنسی مفروضوں پر:
ہم نے دیکھا کہ کس طرح سترہویں صدی عیسوی میں کائنات کے بارے میں’’ بطلیموس‘‘ کے پیش کردہ مفروضے اورنظریے سرے سے رد کردیے گئے اور نظامِ شمسی کا مرکز نہ صرف یہ کہ زمین سے ہٹار کر سورج کو ٹھہرایا گیا ؛بل کہ دیرینہ تصور ِفطرت جس کی آخری جھلک’’ شیکسپیر‘‘، ’’مارلو‘‘ ،جانس کے ڈراموں اور’’ ڈن‘‘ کی نظموں میں ملتی ہے ، اس کو پامال کیا جانے لگا ۔ ’’گیلی لیو ‘‘نے جب دورر بین کی ایجاد کی اور’’سر والٹر رالے‘‘ نے اپنے سفر اختیار کیے، تو نئے سائنسی نظریوں اور ڈیکارٹ کے زیر اثر عقل پرستوں کو بہت فروغ ہوا ۔ فطرت کا قانون مذہبی رشتوں سے دور تر ہوتا گیا اور کائنات کے نئے نظریوں کی بنیاد علم حساب ، اقلیدس ، طبیعات اور دیگر سائنسی دریافتوں اور مفروضوں پرر کھی گئی ،ان رجحانات سے انسان کی مادہ پرستی کی طرف رغبت کا آغاز ہوتا ہے ۔
اٹھارہویں صد ی میں ہر چیز پر تنقید اور تضحیک کا مزاج عام ہوگیا :
ہم نے دیکھا کہ کس طرح ڈیکارٹ کے نظریوں کی جگہ سترہویں صدی میں آکر’’ نیوٹن‘‘ نے لی ،جس نے کائنات کے بارے میں اپنے جداگانہ نظرئیے پیش کیے ، لیکن اٹھارہویں صدی میں آکر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ فطرت پرستی کی جو بنیادیں سترہویں صدی میں رکھی گئی تھیں ، ان سے نکلنے والی تحریکیں ، نظریے اور مفروضے ہمیں’’ بنتھیم‘‘ کی افادیت پسندی ، ’’والٹیر‘‘ کی خدا پرستی ،’’ مونٹس کیو‘‘ کہ مذہب سے فراریت اورپھر’’ روسو ‘‘ اور’’ور ڈز ور تھ‘‘ کی توسط سے رومانی تحریک میں ملتے ہیں ۔ اٹھارہویں صدی کے دیگر نمایاں رجحانات ہر شخص ہر شے اور ہر چیز پر تنقید اور تضحیک کی لت ، عقل اور روحانی معلوماتِ عامہ پر زور، خداکے خوف میں تخفیف ، سائنس پر بڑھتا ہوا انحصار ، وحی اورروحانی معاملات سے بد دلی ’’ خدا پرستی ‘‘ لا دینیت اور بالآخر ایک فطری مذہب کی تلاش ہیں۔ آخر کار اخلاقیات پر زور بڑھتا گیا اور مابعد الطبیعاتی علوم ختم ہوتے گئے ۔
(سرسید اور حالی کا نظریہ فطرت ص۱۶۸)
اٹھارہویں صدی جدت پسندوں کے لیے مغرب سے مرعوبیت کے لیے اساس کی حیثیت رکھتی ہے : اٹھارہویں صدی عیسوی مسلم معاشرے کے لیے بڑی اہمیت کی حامل ہے ، اس لیے کہ اسی صدی کے نظریات بعد میں عالم اسلام کے مختلف خطوں میں جدت پسندوں کے لیے اساس بنے اور ان جدت پسندوں نے چاہے وہ مسلمان ہوں یا کسی اور مذہب کے پیرو کار، سب نے اپنے مذہبی، اخلاقی، علمی، ادبی، تعلیمی اور معاشرتی وسیاسی افکار اور نظریات کو مغرب سے مرعوب ہوکر اسی کے مطابق کرنے کی کوشش کی ہے ؛ لہٰذا اس کے بعد جہتی تبدیلی کے بارے میں ہم طبقۂ علماکو تفصیلی طور پر معلومات حاصل کرنا ضروری ہے ؛تاکہ ہم مسلم معاشرے میں جو دوبارہ اسلامی روح پھونکنا چاہتے ہیں، تو اس کے بگاڑ اور غلط نظریات کی بنیاد اور تاریخ کو معلوم کرکے، اس کی حقیقت تک رسائی حاصل کریں اور پھر اپنے اگلے اصلاحی پروگراموں کا نقشہ تیار کریں۔ اللہ ہمارے لیے آسان فرمائے اور ہمیں ہدایت پر ثابت قدم رکھے اور دوسروں کی ہدایت کا ذریعہ بنائے۔ آمین یارب العالمین !
اٹھارہویں صدی میں انگلستان اوریورپ کے فلسفیانہ رجحانات:
یہ سمجھنے کے لیے کہ اٹھارہویں صدی کے وسط سے ہندستان پر مغربی خیالات اور فکر کے کیا اثرات ہوئے ، یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ انگلستان اوریورپ میںاس زمانے میں کیا رجحانات پائے جاتے تھے ، اور کن خیالات نے جنم لیا اور کون سے معاشرتی ومذہبی انداز زیست پروان چڑھے ۔
کہنے کو تو نئی طرزِ فکرکی ابتدا( ۱۷۱۵ء) سے ہوئی ، لیکن ایک عظیم اخلاقی اورفکری بے چینی اور خطرے کی پہلی علامتیں ۱۶۸۰ سے ہی رونما ہونے لگیں تھیں ۔ چند مفکروں نے نشاۃِ ثانیہ سے پھوٹنے والی مختلف اورمتفرق راہوں کی کڑی اٹھارہویں صدی سے ملائی اور گوکہ روم اور یونان ، ازمنۂ وسطیٰ اور نشاۃِ ثانیہ کے شاندار اور باوزن روییّ موجود تھے ؛ دراصل دور حاضر کا یورپ اور دنیا کے دیگر مغربی رجحانات اٹھارہویں صدی ہی کے مرہون ِمنت ہیں ۔ اٹھارہویں صدی کے اوائل میں یوں کہا جانے لگا کہ نئی نسل کو بزرگوں نے ایک ایسا معاشرتی نظام دیا ہے، جو نرا ایک دکھا وا اوردھوکا ہے اور ہر برائی کا ذمہ دار ہے ؛حتی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس معاملے میں قصور وار ٹھہرایا گیا ۔ اٹھارہویں صدی کی نسلیں صرف ایک نشاۃِ ثانیہ سے مطمئن نہ ہونے والی تھیں ،وہ تو صلیب کو گرادینا اور رد کرنا چاہتی تھیں ، وہ اس نظرئیے کو کہ انسان کو کوئی الہامی پیغامات وصول ہوتے ہیں ، بالکل رد کرکے وحی کا صاف انکار کرتی تھیں ؛القصہ وہ انسانی زندگی کو کسی حال میں بھی مذہبی طرز ِفکر سے نہ دیکھنا چاہتی تھی ،ان کا گمان تھا کہ وہ ایک نئی چیز کو جنم دیںگی ۔
عقل کی روشنی سے وہ ظلماتی دور کو نیا نور بخشیں گی اور قدرت کے منصوبے کو دریافت کرلیںگی اور اس طرح سے انسان کا ایک پیدائشی حق یعنی انسانی خوشی اور خوشحالی انسان کے لیے بحال کردیںگی اور ہر جامسُرت کا دور دورہ ہوگا ۔ ایک نیا دستور اور ایک نیا قانون ، ایک نیا معاشرتی معیار قائم کیا جائے گا، جسے الہامی اور آمانی قانون سے کوئی واسطہ یا رابطہ نہ ہوگا۔
زندگی کا مقصد صرف خوشیوں کا حصول :
نئے سیاہی ڈھانچے میں کوئی ’’ رعایا (Subjects ) نہ ہوگی ؛بل کہ شہری (Sitizens )ہوںگے ؛ الغرض دنیا میں ایک جنت کا خطہ ہوگا ،زندگی کا مقصد اور اس کی خوشیاں کہیں اور ڈھونڈنے کی ضرورت نہ ہوگی ، بل کہ زیست کی شان اور جان خود انسان میں مل سکے گی ۔ مختصر یہ کہ ان نوواردوں نے دوسروں کی طرح ایک ایسا سیاسی معاشرتی اور مذہبی نظام اورطرزِ فکر چھوڑا، جو کہ نہایت گنجلک اور پیچیدہ تھا اور جو تباہی اور بربادی میں اپنی مثال نہ رکھتا تھا ،یہ عقل پرست یہ روکھی سوکھی شخصتیں باز نہ رہیں ۔ اور اپنی بنجر کار کردگیوں سے جذبات اور صوفیانہ علم و شعور کے خاتمے کی مورد ٹھہریں ۔ یعنی یہ لوگ سرد اور بے حس ہونے کے علاوہ صرف بے رحم عقل کے ہی دلدادہ رہے، جس نے آخرکار ان کا ساتھ نہ دیا ۔
دنیا میں جتنے حقائق ہیں ، ان میں ہرقیمت پر خوشی حاصل کرنا ، خوشحال رہنا ہی دوسروں سے افضل سمجھا جانا چ اہیے ۔ اسی طرح فنون لطیفہ ، فلسفہ وغیرہ میں اگر کوئی بذات خود اچھائی دیکھی جاسکتی تھی ، تو وہ یہ تھی کہ کس طریقہ سے یہ ہمیں خوشی کی طرف لے جاسکتے ہیں ؛القصہ انسان کا صرف ایک اخلاقی فرض تھا اور وہ یہ کہ ایک خوشحال اورفکر سے دور زندگی گزاری جائے اور وہ مسرتوں کی تلاش میں رہے۔
اٹھارہویں صدی میں انسان مثالی دنیا کی تلاش کے لیے سرگرداں:
انسان اٹھارہویں صدی میں خیالی طور پرایسے سفروں پر کمر بستہ ہوگیا، جو اسے دنیا کے چپے چپے پرلے گیا۔ رابنسن کروسو(Robinson Crusoe ) کی پیروی میں نامعلوم سمندروں پر خطرات کا سامنا کرتے ہوئے ،انسان نامعلوم گہرائیوں میں غوطہ زن ہوا ۔ طوفان آتا اور کشتی اگر غرق ہوجاتی ،تو کشتی شکستگان کو یقینا کوئی کنارہ مل جاتا اور اس ساحل پر فطرت ہمیشہ مہربان ہوتی تو انسان کو زر خیز وادی ، ہرطرح کے پھل اوردیگر خوردنی اشیا سے پُرملتی ۔ یعنی انسان کو کوئی نہ کوئی مثالی دنیا (Utopia)مل جاتی ۔ خوش آئند مستقبل پر اعتماد کے عقائد کا ایک اہم جز تھا ۔
انسان عملی مسرت کے لیے کوشاں :
دنیا وی مسرت تو اسی دنیا اور اسی وقت کی چیز تھی ، یعنی ہر وہ چیز ہی حقیقت ہوسکتی ہے، جو آج اور ابھی اسی وقت حاصل ہوسکتی ہو،کل کا کیا کہا جاسکتا تھا ،ان کے خیال میں اوہام سے پرہیز لازمی تھا۔ وہ سوال کرتے تھے کہ خدائی نظام میں یہ کس طرح خیال کیا جاسکتا تھا کہ یہ دنیا ایک دردو الم کا مسکن ہو؟ اور جس مسرت کے پیچھے یہ اٹھارہویں صدی کے باشندے پڑے تھے ،وہ کوئی مثالی یا فرضی مسرت نہ تھی ، بل کہ عملی مسرت تھی وہ سمجھتے تھے کہ ایسی دنیا کے پیچھے پڑنا جو محض ایک سایہ ہو یا ان کی دسترس سے باہر ہو بے سود ہے ،وہ چاہتے تھے کہ دنیاوی عقائد اور مسائل کا کوئی سزا میانہ روی کا معیار مقرر کرلیاجائے جو ہر قسم کی انتہاپرستی سے دور ہو ؛آخر یہ کیوں نہ سوچا جائے کہ دنیا میں عام طور پر موجودات عالم اورحالات ہمارے حق میں ہیں نہ کہ ہمارے مخالف ہیں ،اس لیے عیش کی زندگی کو وہ لوگ جلاوطنی سے واپس لائے اور اس کو جائے مناسب اور درجۂ اصلی پر بحال کیا ۔ ایک چیز جوان کے عقیدے میں شامل تھی وہ اچھی صحت کی ضرورت تھی یعنی تندرستی کی ضرورت اور پھر یہ بھی ضرور تھا کہ بینک میںکافی مال پڑا ہو ا ہو ، اورتمدن کے تمام تر فوائد سے ہم بہر ہ مند ہوں ۔ پسندیدہ اورمرغوب احساسات سے ہم لطف اندوز ہوں ؛بالفرض آنے والی زندگی کا تصور اور اس کی آسائش پریقین بھی کیاجاسکتا ہو، کیا لازم ہے کہ دنیا میں دکھ دردسہ کے اسے خرید اجائے ؟ فلسفے کو ایک عملی رخ پرپلٹ دینا چاہیے اور اس کا کام محض مسرت اوردنیاوی سکون کی تلاش ہونی چاہیے ۔ فطرت میں ایک چیز فطری ذہانت سے بھی زیادہ جامع ہے اور وہ انسان کی پرمسرت زندگی بسرکرنے کی خواہش ہے ۔ مسرت ایک انسانی حق بن گیا ، ایک ایسی چیز جس کے ہم پیدائشی حق دار ہیں ۔ اور جو انسانی فرائض پر بھی فوقیت لے جاتی ہے اور اسی طرح ہر ایک کا ایمان ہوگیا کہ آئندہ بہتر حالات ہوجانے والے ہیں اور اب عقل اور تعلیم کی برتری عام ہوجانے کی بدولت اٹھارہویں صدی میں اپنے خیالات کو بروئے کار لانے اور تمام قائم روایتوں کو تہہ و بالا کرنے کی مہم ایک تنقیدی نظریہ سے شروع ہوئی ۔ یعنی ہرچیز لائق ِتنقید اور تضحیک بنی ۔
(سرسید اور حالی کا نظریہ فطرت ص۱۶۹-۱۷۱)
اٹھارہویں صدی کے فلاسفہ نے عقل کو حق و باطل میں امتیاز کا ٹھیکہ دار بنادیا: گویا اٹھارہویں صدی کے مغربی فلاسفہ نے یہ طے کرلیا تھا کہ عقل سے بالاتر کوئی ملکہ نہیں ہوسکتا اور عقل ہی میں حق و باطل کی گتھیاں سلجھانے کا پورا پورا دارو مدار رکھ دیا گیا اور اسی عقلی مزعومہ ٔاستدلال پرہی تمام سائنس اور فلسفہ کو مرکوز کردیا گیا ۔