کعبۃ اللہ کا مجسمہ بنانا اور اس کے ارد گرد طواف کرنا

سوال:  ہماراشہر جس کی آبادی تقریباً پندرہ ہزار(۱۵۰۰۰) مسلمانوں پر مشتمل ہے، یہاں اس سال یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح منا یا گیا کہ عین شاہراہ کے درمیان چوراہے پر کعبۃ اللہ شریف کے مماثل ایک(Statue)،یعنی حرم شریف کی ہوبہوکاپی بنائی گئی ، جس میں حجر اسود، مقام ِ ابراہیم وغیرہ بھی بنایا گیا ، جس کے ارد گرد ، اطراف واکناف شہر کے مسلمان مرداور عورتوں نے طواف کیا ، اور زیارت کی ، اس کے غلاف کو بہت ہی عقیدتمندی کے ساتھ چو ما گیا، اسی طرح حجر اسود کے بوسـے لئے گئے ، والینٹر لوگوں نے نذرانے جمع کئے ، یہاںکی اکثر مساجد کے اماموں نے آآکر فاتحہ خوانی وغیر ہ کی ، لوگوں نے ان لوگوں کی مدح خوانی کی جنہوں نے یہ کام انجام دیا، اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا کعبۃ اللہ شریف کا اس طرح ڈھانچہ بنانااور اس کا طواف کرنا اور اس کے غلاف کو عقیدت سے چومنا ، اور یہ کہنا کہ چلو ہمارا حج اور عمرہ ہوگیا اور اس طرح پر مطمئن اور خوش ہونا شرعاً جائز ہے ؟

الجواب وباللہ التوفیق :  بیت اللہ جس کی بناء وتعمیر معصوم نفوسِ قدسیہ کے ہاتھوں ہوئی اور جسے اللہ رب العزت نے اپنا بیت اور شعائر دین قراردیا، ایسی کئیں خصوصیات کا حامل ہے جو دنیا کے کسی بیت کو حاصل نہیں ہوسکتیں مثلاً:

۱؍  بیت اللہ کے قرب میں مقامِ ابراہیم کا واقع ہونا ۔(۱)

۲؍  اس میں داخل ہونے والے کا مامون اور محفوظ ہونا ۔(۲)

۳؍  ساری دنیا کے باحیثیت، صاحب استطاعت مسلمانوں پر اس کے حج کا فر ض ہونا ۔(۳)

۴؍  اس کے گرد طواف کا نفل نما ز سے بہتر ہونا ۔(۴)

۵؍  وہاں ایک نماز کی ادائیگی پر ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ملنا ۔(۵)

۶؍  اس کی طرف نظر کا عبادت ہونا وغیرہ ۔(۶)

یہ وہ خصوصیتیں ہیں جو کعبۃ اللہ کے علاوہ کسی اور بیت کو کسی بھی طرح حاصل نہیں ہوسکتیں، لہذاکعبۃ اللہ کی شبیہ (Statue)بنانا اور اس کے ساتھ وہی تعظیم وتوقیر بجالانا جو کعبۃ اللہ کا حق ہے، اس کے غلاف کو حقیقی کعبۃ اللہ کے غلاف کی طرح عقیدت سے چومنا،اس کے گرد طواف کو عینِ طوافِ کعبہ سمجھنا ، او ر اس میں نصب مصنوعی حجر اسود کا بوسہ لینا اور فاتحہ خوانی وغیرہ کرنا ، اور یہ کہنا کہ اس کے طواف وزیارت سے ہمارا حج وعمرہ ہوگیا، انتہائی گمراہی اور زبر دست شیطانی دھوکہ کے ساتھ ساتھ کئی مفاسد دینیہ (دینی خرابیاں) کا ذریعہ، اور مقاصدِ شرع ومصالحِ عباد کے ابطال کا سبب ہونے کی وجہ سے حرام اور گناہ کبیر ہ ہے ۔(۷)

اس سلسلے میں اسلامک فقہ اکیڈمی جدہ کی یہ قرار داد باتفاقِ فقہاء ِعصر موجود ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے: ’’کعبۂ مشرفہ کا مجسمہ بنانا اور اس کی خریدو فروخت کرنا ممنوع ہے، کیونکہ یہ بہت سی برائیاں اورحرام تک پہونچنے کا ذریعہ ہے ‘‘۔(۸)


والحجۃ علی ما قلنا :

(۱) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {فیہ اٰیٰت بینٰت مقام إبراہیم} ۔ (سورۃ آل عمران: ۹۷)

ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘:{ واتخذوا من مقام إبراہیم مصلی}۔(سورۃ البقرۃ: ۱۲۵)

(۲) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ :{ومن دخلہ کان اٰمنا}۔ (سورۃ النساء: ۹۷){وإذ جعلنا البیت مثابۃ للناس وأمناً}۔(سورۃ البقرۃ:۱۲۵)۔{وإذ قال إبراہیم رب اجعل ہذا البلد آمناً}۔(إبراہیم : ۳۵)۔{وإذ قال إبراہیم رب اجعل ہذا البلد اٰمنا}۔(سورۃ البقرۃ:۱۲)۔{أو لم یروا أنا جعلنا حرماً اٰمناً} ۔ (سورۃ العنکبوت: ۶۷)

(۳) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ :{وللّٰہ علی الناس حج البیت من استطاع إلیہ سبیلا}۔( آل عمران : ۹۷)

(۴) ما في ’’ البحر العمیق في مناسک المعتمر والحاج إلی بیت اللّٰہ العتیق ‘‘ : عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسو ل اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ’’ إن اللّٰہ تعالی ینزل کل یوم ولیلۃ علی البیت عشرین ومائۃ رحمۃ ، ستون للطائفین ، وأربعون للمصلین ، وعشرون للناظرین ‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وفي ہذا الحدیث دلالۃ علی فضل الطواف علی الصلوٰۃ ۔

(۱/ ۱۶۶ ، ۱۶۷، ۱۷۱ ، فضل الکعبۃ ، الباب الأول في الفضائل ، فضل الطواف والحث علیہ)

(۵) ما في ’’ صحیح البخاري ‘‘ : عن أبي ہریرۃ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال : ’’ صلوٰۃ في مسجدي ہذا خیرٌ من ألف صلاۃ فیما سواہ إلا المسجد الحرام ‘‘۔ (۱/۱۵۹، کتاب التہجد ، فضل الصلوٰۃ في مسجد مکۃ والمدینۃ ، الصحیح لمسلم : ۱/ ۴۴۶ ، کتاب الحج ، فضل الصلوٰۃ بمسجدي مکۃ والمدینۃ ، سنن النسائي: ۲/۲۶، کتاب مناسک الحج ، فضل الصلوٰۃ في المسجد الحرام)

ما في ’’ البحر العمیق ‘‘ : وفي السراج الوہّاج شرح القدوري : إن الصلوٰۃ في الکعبۃ بمائۃ ألف صلاۃ ، کذا ذکرہ في باب الصلوٰۃ في الکعبۃ ۔

(۱/۱۵۰، الباب الأول في الفضائل المسجد الحرام والصلوٰۃ فیہ)

وما فیہ : عن ابن الزبیر رضي اللّٰہ عنہما قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ’’ صلاۃ في مسجدي ہذا أفضل من ألف صلوٰۃ فیما سواہ من المساجد إلا المسجد الحرام ، وصلاۃ في المسجد الحرام أفضل من مائۃ صلاۃ في مسجدي ‘‘ ۔

(۱/ ۱۴۸، الباب الأول في الفضائل المسجد الحرام والصلوٰۃ فیہ)

(۶) ما في ’’ البحر العمیق ‘‘ : روي عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ قال : ’’ النظر إلی البیت الحرام عبادۃ ‘‘۔ أخرجہ ابن الجوزي ، وعن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما أنہ قال : ’’ النظر إلی الکعبۃ محض الإیمان ‘‘۔ رواہ الجندي ۔ وعن سعید بن المسیب قال: ’’ من نظر إلی الکعبۃ إیماناً وتصدیقاً خرج من الخطایا کیوم ولدتہ أمہ ‘‘۔

وعن عطاء قال : ’’ النظر إلی البیت الحرام عبادۃ ، فالناظر بمنزلۃ القائم الدائم المخبت المجاہد في سبیل اللّٰہ ‘‘۔ رواہما الأزرقي وعن ابن السائب المدني قال : ’’ من نظر إلی الکعبۃ إیماناً وتصدیقاً تحاتت عنہ الذنوب کما یتحات الورق من الشجرۃ ‘‘ ۔ أخرجہ ابن الجوزي ۔

(۱/۱۹۵، ۱۹۶، الباب الأول في الفضائل ، فضل النظر إلی الکعبۃ)

(۷) ما في ’’ المقاصد الشرعیۃ للخادمي‘‘ : إن الوسیلۃ أو الذریعۃ تکون محرمۃ إذا کان المقصد محرماً ، وتکون واجبۃً إذا کان المقصد واجباً ۔ (ص/۴۶)

ما في ’’ اعلام المؤقعین ‘‘ : وسیلۃ المقصود تابعۃ للمقصود وکلاہما مقصود ۔ (۳/ ۱۷۵)

(۸) ما في ’’ فقہ النوازل ‘‘ : وثیقۃ رقم (۲۷) الموضوع : تصنیع وتسویق مجسم للکعبۃ المشرفۃ ۔ الخلاصۃ : یمنع تصنیع وتسویق مجسم للکعبۃ المشرفۃ ؛ لأن ذلک یفضي إلی شرور ومحظورات ۔ المصدر : المجمع الفقہ الإسلامي بمکۃ المکرمۃ ۔ التاریخ : شعبان /۱۴۱۲ہـ ۔ (۲/۱۰۷) فقط

واللہ اعلم بالصوا ب

کتبہ العبد: محمد جعفر ملی رحمانی ۔۲۵/۵/۱۴۲۹ھ

الجواب صحیح : مفتی عبدالقیوم۔ ۲۵/۵/۱۴۲۹ھ

(فتویٰ نمبر: ۸۰۔رج:۱)